مدارس
اسلامیہ کے طلبہ کا دور حاضر میں عصری علوم کی طرف رجحان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،
تقریبا ہر ادارہ کے ذمہ داران و مدرسین جانتے ہیں کہ عصری علوم کی طرف توجہ دینے والے
مدارس اسلامیہ کے طلبہ دو گروہ میں بٹے ہوئے ہیں، ایک قسم کے بیشتر طلبہ مدرسہ کی تعلیم
کے ساتھ عصری تعلیم ہائی اسکول، انٹر اور بی اے وغیرہ کی تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں،
دوسری قسم فارغین کی ہے، ان کی ایک اچھی تعداد فارغ ہونے کے بعد عصری اداروں کی طرف
متوجہ ہوتی ہے اور افسوس یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلبہ ہی کا نقصان ہوتا ہے، پہلی
قسم کے اکثر طلبہ کا مقصد صرف تھوڑی بہت تیاری کرکے کسی طرح ہائی اسکول، انٹر اور بی
اے وغیرہ پاس کرلینا ہوتا ہے، جس کا اچھا نتیجہ عملی میدان میں کالعدم یا بہت ہی کم
ہوتا ہے، جو خود طلبہ اور ملت اسلامیہ دونوںکے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اور اس عصری
تعلیم کی تگ و دو میں ان طلبہ کی دینی تعلیم جو متاثر ہوتی ہے وہ الگ! دوسری قسم کے
طلبہ فارغ ہونے کے بعد ان کی عمر عموما چوبیس (۲۴)
سے
اٹھائیس (۲۸) کے درمیان ہوتی ہے، اب یہ عصری علوم کی طرف متوجہ
ہوتے ہیں، بی اے، ایم اے، ایم فیل اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے
طلبہ عمر دراز وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد تک پہونچنے سے پہلے ہی تعلیم سے رشتہ
توڑ لیتے ہیں، اور جو افراد تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں، تکمیل تک ان کی عمر تینتیس (۳۳) سے
سینتیس (۳۷) کے درمیان ہوجاتی ہے اور رزلٹ خراب ہوا تو سینتیس
(۳۷) سے چالیس (۴۰)
کے
درمیان کی عمر ہوجاتی ہے، اس طرح سے اس قسم کے طلبہ کی تقریبا دو تہائی زندگی تعلیم
حاصل کرنے میں ہی گزر جاتی ہے! ! اب اس کے بعد وہ میدان عمل میں اترنے کی کوشش
کرتے ہیں، کوشش، عملی زندگی اور اس زندگی کے کچھ اچھے نتائج ملتے ملتے اپنی زندگی کے
آخری کگار پر آجاتے ہیں، زندگی کے اس مرحلہ پر پہونچ چکے ہوتے ہیں جب وہ تجربات کی
روشنی میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر کرنے کی وہ قوت، وہ حوصلہ اور وہ جزبہ نہیں رہ جاتا
جو اس کے اندر عصری علوم کی طرف متوجہ ہونے کے وقت ہوتا ہے، نیز اس قسم کے افراد کا
داخلہ صرف دو چند مخصوص شعبہ جات جیسے عربی، اردو اور تاریخ وغیرہ ہی میں ہوسکتا ہے
اور باقی عصری شعبہ جات ان کے اور قوم و ملت کے مستقبل سنوارنے کے لیے بند ہوتے ہیں؛
اس لیے دور حاضر میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے یکساں ایسے مدارس اسلامیہ کی سخت ضرورت
ہے جن میں اکثر دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا یوں انتظام کیا جائے کہ طلبہ عالمیت
کے کورس کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ کا بھی کورس مکمل کرلیں،اس کے بعد جو طلبہ مزید دینی
تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں فقہ، حدیث وغیرہ کسی فن میں تخصص کراکے فضیلت کی دستار
دے دی جائے، اس طرح سے فارغ ہونے کے بعد یہ کسی ایک فن میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ
عصری علوم سے بھی آراستہ ہونے کی وجہ سے معتدبہ دینی ، ملی و قومی خدمات انجام دے
سکیں گے،اور جو طلبہ مزید عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیںوہ عصری اداروں کی طرف رجوع
کرکے باآسانی داخلہ لے سکتے ہیں اور ہائی لیویل کی تعلیم کی تکمیل کرکے اپنے اہل و
عیال اور قوم و ملت کو خاطر خواہ عصری و دینی فائدہ پہونچانے کی سعی مسعود کرسکیں گے۔
دینی
و عصری علوم کی ہم آہنگی، فوائد:
(۱) اِنٹر
تک دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس ہر دو کی صرف مارکشیٹ ہی نہیں بلکہ
مارکشیٹ کے ساتھ ہر دو میدان کی کافی حد تک تعلیمی لیاقت بھی ہوگی (۲) عالمیت
کا کورس کرنے کے بعد دینی و عصری تعلیم کا ہر دروازہ کھلا رہے گا، وہ مفتی، محدث اور
ادیب وغیرہ بن سکتا ہے، اور اگر چاہے تو ڈاکٹر، پروفیسر، انسپیکٹر، ڈی ایم، بزنیس مین،
آئی اے ایس، پی سی ایس، جج اور لائر وغیرہ جیسی ہر طرح کی اعلی پوسٹ بھی حاصل کرسکتا
ہے (۳) اس طریقہ کار پر تعلیم حاصل کرنے والا مسلم بچہ اگر
صرف اِنٹر تک ہی پڑھائی کرتا ہے یا مزید دینی تعلیم حاصل کرتا ہے؛ تو وہ خالص عالم
دین ہی نہیں ہوگا بلکہ بقدر ضرورت عصری علوم: انگلش، میتھ، سائنس اور ہندی وغیرہ سے
بھی آراستہ ہوگا، جن کے ذریعہ وہ با آسانی اپنی دنیوی زندگی کافی حد تک خود ہی ہینڈل
کرسکے گا (۴) اس طرح سے تعلیم حاصل کرکے ایک مسلم بچہ جب کسی اعلی
دنیوی پوسٹ پر پہونچے گا؛ تو یاد رہے کہ وہ خالص دنیادار نہیں ہوگا اور نہ ہی قرآن،
حدیث، عربی، اردو اور دینی مسائل سے بالکل اپاہج ہوگا بلکہ ان شاء اللہ ان ساری چیزوں
کا علم رکھنے کی وجہ سے مخلص عالم دین بھی رہے گا (۵)
اس
طرح کے مسلم افراد جب دنیوی اعلی پوسٹ پر کثرت سے ہونگے؛ تو حکومت پر دباؤ ہوگا اور
کوئی بات منوانے میں آسانی ہوگی، نیز اگر اسلام یا اس کے ماننے والوں یا اس کے کسی
قانون پر اعتراض ہوتا ہے؛ تو یہ لوگ فکری و قانونی جواب وقت کی مناسبت سے بہتر طریقہ
سے دے سکیں گے، یہ کام خالص علما یا خالص دنیوی تعلیم والوں سے ہونا بہت مشکل امر ہے
(۶) ان شاء اللہ یہ افراد دنیوی بڑی پوسٹ حاصل کرنے کے
بعد بھی خالص علما کے ساتھ شانہ بشانہ رہ کر اسلام و سنیت کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے
اپنے میدان میں پیش پیش رہیں گے (۷) اس طرح کے افراد زیادہ ہونگے؛
تو غیروں میں بھی مسلمانوں کی شخصیت مسلم ہوگی اور مسلم قوم کا معیار دین و دنیا کے
ساتھ بلند و بالا ہوگا (۸) ایک مسلم ان شاء اللہ دین
و دنیا کے ساتھ کم عمری ہی میں اعلی پوسٹ حاصل کرلے گا اور اسے قوم و ملت کی خدمت کرنے
کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے گا۔
دینی
و عصری علوم کی ہم آہنگی، نقصانات:
(۱) اس
طرز کی پڑھائی پر دینی و عصری علوم دونوں متاثر ہوسکتے ہیں اور ان دونوں میں کمی آسکتی
ہے! اس طرح مقصد فوت ہوسکتا ہے!
حل:
یقینا خالص دینی یا عصری علوم حاصل کرنے کے بالمقابل اس صورت میں دینی و عصری دونوں
تعلیم متاثر ہوسکتی ہے اور نقصان ہوسکتا ہے، مگر اساتذہ مخلص و جفاکش اور طلبہ مخلص
ہونے کے ساتھ محنتی بھی ہوں تو یہ نقصان بھی نہیں ہوگا، اور اگر نقصان ہوا بھی تو یہ
نقصان بہت کم ہوگا، جسے دینی تعلیم والے تخصص کرکے اور عصری علوم والے مزید عصری اعلی
تعلیم حاصل کرکے باآسانی دور کرسکتے ہیں۔
(۲) دینی
و عصری دونوں علوم پڑھانے کی وجہ سے گھنٹیاں بہت زیادہ ہونگی، بچے پورے دن پڑھنے کی
وجہ سے تھکے ہونگے اور وہ اپنا ہوم ورک صحیح سے نہیں کرپائیں گے۔
حل:
خالص اسلامی مدرسہ میں بچے سات گھنٹیاں کرتے ہیں، ان دونوں علوم کے لیے ان سات گھنٹیوں
پر صرف ایک گھنٹی کا اضافہ کرکے آٹھ گھنٹی کردی جائے، پانچ گھنٹی دینیات اور تین گھنٹی
عصری ہوں، جو کتابیں زیادہ اہم ہوں، ان کی گھنٹیاں مسلسل رہیں اور جو زیادہ اہم نہ
ہوں، ان کی گھنٹیاں ہفتہ میں تین دن یا دو ہی دن رہیں، اس طرح سے طلبہ پر بار بھی نہ
ہوگا، بہت زیادہ تھکن کا بھی احساس نہیں ہوگا اور وہ محنت و لگن کے ساتھ اپنا ہوم ورک
بھی کرلیں گے۔
(۳) اس
طر ز پر پڑھانے کی وجہ سے انہیں ہر سال چار چار امتحان دینا ہوگا اور یہ طلبہ کے لیے
کافی مشکل و پریشانی کا سبب بن سکتا ہے!
حل:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں گے تو نائنتھ تک ہر سال صرف دو مرتبہ ہی امتحان
دینا پڑےگا، وہ اس طرح سے کہ دینی و عصری علوم کا ششماہی و سالانہ امتحان ایک ساتھ
ہوا کرے گا، البتہ ہائی اسکول اور اِنٹر کے امتحان کی جب باری آئے گی؛ تو اس وقت ہر
سال چار امتحان دینا پڑے گا، مگر مدارس میں پڑھنے و پڑھانے والے اچھی طرح سے جاتنے
ہیں کہ بہت سارے مدارس میں طلبہ چار چار امتحان: سہ ماہی، ششماہی، نوماہی اور سالانہ
امتحان دیتے ہیں اور ان کی جفاکش ذات پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اگر تگ و دو کی جائے؛ تو ان شاء اللہ اس طرز پر بھی چار چار امتحان ہونے
کے باوجود ان کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
(۴) اس
طرح مدارس میں ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان کے ذریعہ مارکشیٹ حاصل کرنے سے کیا فائدہ
ہوگا؟! یہ تو عالم و فاضل کرکے ماکرشیٹ حاصل کرنے کی طرح ہوگا، جس کی گورمنٹ کی نظر
میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی!
حل:
ہائی اسکول اور اِنٹر کا امتحان مدرسہ میں دلاکر اس کی مارکشیٹ نہ دی جائے بلکہ کسی
خالص عصری کالیج سے معادلہ کراکر، وہاں امتحان دلایا جائے، اس طرح سے ان طلبہ کی طرف
سے ہائی اسکول اور اِنٹر کی حاصل کی گئی مارکشیٹ کی اہمیت و افادیت وہی رہے گی جو ایک
خالص عصری کالیج کے طلبہ کی مارکشیٹ کی ہوتی ہے۔
(۵) جو
لڑکے عالمیت اور اِنٹر میڈیٹ کرکے خالص عصری یونیورسٹیز کا رخ کر یں گے، عموما ان یونیورسٹیز
کا ماحول خراب ہونےکی وجہ سے طلبہ کے بے راہ رو ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے، یہ چیز
بھی اس طرح کے مدرسہ کے مقاصد پر پانی پھیر دے گی۔
حل:
یہ بات بجا ہے، مگر آج خالص مدارس میں پڑھنے والے طلبہ بھی کثیر تعداد میں خالص عصری
یونیورسٹیز کی طرف رخ کر رہے ہیں، ان کی توجہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اب ہم انہیں چاہ
کر بھی نہیں روک سکتے؛ اس لیے اب اس کا رونا رونا بے کار ہے، آہ و فغاں کرنے کے بجائے
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کو بگڑنے کے اسباب کم ملیں اور
وہ اعلی دنیوی تعلیم بھی حاصل کرلیں؛ تو علما، پیران کرام اور قوم مسلم کو اپنے بچوں
کے لیے ان خالص عصری یونیورسٹیز کا بدل پیش کرنا ہوگا اور پیر طریقت خانقاہ برکاتیہ
کے پھول امین ملت دام ظلہ و کرمہ کے نقش قدم پر چل کر ان کے قائم کردہ البرکات انسٹیٹیوٹ،
علی گڑھ کی طرح ہر ہر ضلع یا کم از کم ہر ہر اسٹیٹ میں انتظام کرنا ہوگا بلکہ اگر ممکن
ہو؛ تو اس سے بڑھ کر بھی انتظام و انصرام کیا جائے۔
(۶) اس
صورت میں بہت ممکن ہے کہ سارے طلبہ ہائی لیویل کے عصری علوم حاصل کرنے کے لیے خالص
عصری یونیورسٹیز ہی کا رخ کرلیں؛ تو علماے دین کی تعداد پر اثر پڑے گا اور یہ بھی اس
طرح کے مدارس کے مقاصد پر ایک طرح سے قدغن ہوگا، جو امت مسلمہ کے لیے مضر ہوگا!
حل:
اولا: اگر عمدہ تربیت کی جائے، دینی و عصری ہر دو علوم کے فوائد و ضروریات بتائی جائیں؛
تو ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا، اور جس طرح طلبہ یونیورسٹیز کا رخ کریں گے، اسی طرح
ان شاء اللہ فقہ و حدیث وغیرہ میں تخصص کرنے کی طرف بھی متوجہ ہونگے، ثانیا: اگر ایسا
برسبیل تنزل ہوتا ہے؛ تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ دوسرے مدارس اسلامیہ خالص علماے
دین تیار کررہے ہیں، جن سے ان شاء اللہ تعداد
کی کمی کا مداوا ہوجائے گا۔
ایک
شبہ:
اس
طرز تعلیم کو دیکھ کر بہت سارے مخلصین و محبین کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے اور تامل
ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ دینا جائز ہوگا یا نہیں؛ کیوں
کہ اس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے گی۔
شبہ
کا ازالہ: محبین و مخلصین کا تامل سر آنکھوں پر ہے، مگر میں بتانا چاہوں گا کہ اس
طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ دینا اس وقت ناجائز ہے جب اس میں اکثر تعلیم عصری
تعلیم ہو، مگر یہاں اس مدرسہ میں ایسا نہیں؛ کیوں کہ اس میں اکثر تعلیم دینی تعلیم
اور یہی اصل کی حیثیت رکھتی ہےاور عصری تعلیم دینی تعلیم سے کم ہے اور وہ فرع کی حیثیت
رکھتی ہے؛ لہذا اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ لگانا جائز و درست ہے۔
تنبیہات:
(۱) گھر
کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ بچوں کے کلاس اور ہوم ورک کے اوقات حتی الامکان انہیں گھریلو
اور دیگر کاموں سے فارغ رکھیں تاکہ بچے اپنی پڑھائی عمدہ طریقہ سے کرکے اپنے اور والدین
کے خوابوں کو شرمندئہ تعبیر کرسکیں، اللہ پر اعتمادپھر قربانی، صبر اورجہد مسلسل ہی
ایک مسلم کی کامیابی کا اہم راز ہے، جس کا آج قوم مسلم میں عموما فقدان نظر آتا ہے،
کامیاب ہونا ہے؛ تو قربانی دینی پڑےگی!
(۲) اس
طریقہ کار کو اختیار کرکے صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاںبھی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور
اپنے آپ کو دینی و عصری علوم سے مزین کرکے اپنےبچوں اور اپنی قوم کے افراد کے کردار
کو سنوار سکتی ہیں، لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان تعلیمی میدان میں تفریق کرنے کی چنداں
ضرورت نہیں!
(۳)اس
طرح کے اقدام کے بعدقوم مسلم کو چاہئے کہ وہ نتیجہ اخذ کرنے میں جلد بازی نہ کرے، ورنہ
بے قراری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گااور قوم مسلم آگے بڑھنے کے بجاے پیچھے چلی جائے
گی؛ کیوں کہ جب کمیاں قوم میں زیادہ ہوں؛ تو ان کی معتد بہ اصلاح چند دنوں، چند مہینوں،
چند سالوں میں نہیں بلکہ نصف صدی، یا ایک صدی یا کئی صدی کے بعدہوتی ہے، کچھ نہ کچھ؛
تو ان شاء اللہ ہمیشہ فائدہ ہوگا، مگر وہ فائدہ جو اکثریت میں ہو، اس کے لیے کافی وقت
درکار ہے؛ اس لیے جلد بازی مناسب نہیں، نیز قوم مسلم کو کبھی یہ سوچ کر کام نہیں کرنا
چاہئے کہ ہماری زندگی ہی میں سب کچھ پورا ہوجائے بلکہ یہ سوچ کر کرنا چاہئے کہ یہ کام
قابل رشک ثمر بار ہو، چاہے کوشش کرنے والے کی زندگی میں یا اس کی زندگی کے بعد ہی کیوں
نہ ہو!
نوٹ:
اگر مخلصین و محبین ساتھ دیں؛ تو ان شاء اللہ ان کے صدقات نافلہ کے ذریعہ لڑکوں اور
لڑکیوں کے الگ الگ انتظام کے ساتھ ان کی ہائی ایجوکیشن کے لیے دینی ماحول میں ایک عصری
یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جاسکتا ہے تاکہ قوم مسلم کے بچے انٹر میڈیٹ کرنے
کے بعد وقت کی مناسبت سے اس میں مزید اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے اور قوم مسلم کے مستقبل
کو تابناک بناسکیں، و سیجدونہ إن شائ اللہ فی أقرب وقت ممکن، فإن مع العسر یسرا،فلیس
إتمام ذلک علی اللہ بعسیر، و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ
امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 8318177138
Masha Allah
ReplyDeleteBahut umda wazahat ke saath byan Farmaya
Allah hame Amal ki taufeeq ata farmaye Aameen
بہت شکریہ
ReplyDeleteآمین ثم آمین
جزیتم خیرا و کفیتم شرا
حالات حاضرہ کے تناظر میں نہایت عمدہ اور مفید پوسٹ
ReplyDelete