Friday, February 5, 2021

صدیق اکبر کی اسلام کے لیے قربانیاں

 مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

            یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے کا شرف آپ ہی کو حاصل ہوا، آپ ہی کے لیے فرمان نبی جاری ہوا کہ مسجد کی طرف کھلنے والے سارے دروازے بند کردئے جائیں مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دروازہ بند نہیں کیا جائے گا، آپ ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگ آپ کے پاس آئیں؛ اسی لیے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں آنے والی عورت نے جب یہ شبہ ظاہر کیا کہ میں آؤں اور آپ نہ ملیں؛  تو میں کیا کروں، اس وقت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوجاؤ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ہی وہ ذات ہے کہ جسے جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا، چنانچہ نماز والے کو جنت میں نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جہاد والے کو جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، صدقہ والے کو صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا اور روزہ والے کو روزہ اور ریان کے دروازے بلایا جائے گا  مگر امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک مردوں میں سب سے افضل ہونے کا مرتبہ بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی کو حاصل ہے؛ اسی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نے بھی آپ ہی کو اپنے درمیان سب سے افضل و اعلی تسلیم کیا، ایسا کیوں؛ اس لیے  کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کی دین اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے لیے قربانیاں بے مثال ہیں اور بے نظیر ہیں، آپ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا اس وقت ساتھ دیا، جب آپ کا کسی نے ساتھ نہیں دیا، آپ نے مال و دولت اور اپنی پوری زندگی اللہ تعالی کی راہ میں قربان کردی اور جب حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم اس دنیا سے کوچ کرگئے؛ تو اس وقت بھی آپ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نیابت کا حق کما حقہ ادا کیا اور اپنی زندگی میں اسلام و مسلمانوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دی، آپ کی یہ سب تاریخی قربانیاں کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں؛ کیوں کہ اللہ تعالی نے آپ کی قربانیوں کے زندہ رکھنے کا ذمہ لیا ہے؛ تو اب انہیں کون مٹاسکتا ہے؟! ان کی چمک کو کون کم کرسکتا ہے اور ان کی روشنی کیسے ماند پڑسکتی ہے؟! آج بروز جمعہ ۲۲؍جمادی الآخرۃ، امیر المؤمینن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال کی تاریخ ہے، اس کی مناسبت سے میں آج کی اس بزم میں آپ کی بےلوث قربانیوں کو بعض احادیث کی روشنی میں ذکر کرنے کی کوشش کرتا ہوں، جو یقینا علماے حق، اہل سنت و جماعت کے لیے مشعل راہ ہے، وما توفیقي إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔

            حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو جب اس دنیا میں نبی بناکر بھیجا گیا؛ تو آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا، کسی نے شاعر کہا تو کسی نے مجنون، مگر امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ ذات تھی کہ اس وقت بھی آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق فرمائی، ہر ممکن اپنی جان و مال کے ذریعے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو تسلی دینے کی کوشش کی اور آپ کی پریشانیوں کے ازالہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اس کا اظہار حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان کسی بات پر کچھ تلخی ہوگئی اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے درگزر کرنے سے انکار کردیا، حضور نبی آخر الزماں ارشاد فرماتے ہیں:

            ((بے شک اللہ تعالی نے مجھے تمہاری جانب مبعوث فرمایا؛ تو تم سب نے کہا کہ تم جھوٹے ہو اور ابوبکر نے کہا کہ وہ سچے ہیں اور ابوبکر نے اپنی جان اور مال کے ذریعے میرے ہمّ و غم کو دور کرنے کی کوشش کی، تو کیا تم میرے لیے میرے صاحب کو چھوڑسکتے ہو)) حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے یہ دو مرتبہ فرمایا۔ پھر اس کے بعد آپ کو کبھی کوئی تکلیف نہیں دی گئی۔ (صحیح البخاری، رقم: ۳۶۶۱)

نیز آقاے دوجہاں صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

((بے شک اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ سب سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے ابوبکر ہیں)) (صحیح البخاری، رقم: ۳۶۵۴)

            نیز حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے رسول اللہ صلی تعالی علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مشرکین کے سب سے سخت سلوک کے بارے میں پوچھا؛ تو آپ نے فرمایا:

            ’’میں نے عقبہ بن ابی معیط کو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے پاس اس حال میں آتے ہوئے دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، اس نے آپ کی گردن میں اپنی چادر ڈال کر اسے خوب سے خوب تنگ کرنے لگا، اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور اسے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم سے دور کیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

{أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ، وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ} [غافر:۴۰، آیت:۲۸] ترجمہ: {کیا ایک مرد کو اس پر مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے اور بے شک وہ روشن نشانیاں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے لائے} (کنز الإیمان) (صحیح البخاری، رقم: ۳۶۷۸)

            حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان  فرمان عالی شان سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانیاں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں؛ کیوں کہ آپ نے اپنی جان، مال اور قوت و طاقت سے دین اسلام اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا حق بجانب ہوکر، ہر ممکن دفاع کیا، وہیں ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے ان فرمان اور صدیقی کردار سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

            حق کی پہچان ظاہری کثرت و قلت، جبہ و دستار اور دولت و ثروت کی بنیاد پر نہیں بلکہ پختہ دلیل کی بنیاد پر ہوتی ہے اور جب حق کی پہچان ہوجائے؛ تو اس کی تائید و توثیق میں تامل نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ حق ہی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم تنہا تھے، آپ کے بالمقابل پوری قوم تھی مگر جیسے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر حق واضح ہوا، آپ نے تائید و تصدیق میں کوئی تامل نہیں کیا، آج بھی ہمیں صدیقی طریقہ کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حق کا بول بالا ہو اور باطل سرنگوں ہوتا ہوا دکھائی دے۔

            اور جب حق کی پہچان ہوجائے؛ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے پہچان کر چھوڑ دیا جائے بلکہ اسے قبول کیا جائے اور قبول کرنے کے ساتھ ساتھ تن، من، دھن سے اس کے لیے قربانی دی جائے، جیسے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حق کو پہچانا، اس کو قبول بھی کیا اور اس کے لیے تن، من، دھن سے قربانی بھی پیش کی، ایسی قربانی جسے قرآن پاک بھی ذکر کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اعلان کرتے ہیں۔ آج بھی ہم مسلمانوں کو صرف اسلام کو پہچاننے اور قبول کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ منہج صدیقی کو اپناتے ہوئے پہچان و قبول کے ساتھ ساتھ اپنی جان و مال کو دین اسلام کے لیے قربان کردینے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے تاکہ اسلام و مسلمان کو قوت ملے اور اسلام و مسلمان کا بول بالا ہو۔

            اور جو حق قبول کرکے حق کا ساتھ دے، اسے کوئی مشکل پیش آئے؛ تو حق بجانب ہوکر، اس کا دفاع ہونا چاہیے اور برملا اس کی قربانیوں اور اس کی جاں فشانیوں کا ذکر بھی ہونا چاہیے، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا دفاع بھی کیا اور لوگوں کے سامنے آپ کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ آج لوگ صرف قربانیاں لینا جانتے ہیں، مگر مشکل میں ساتھ دینے کی بات آجائے؛ تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے بلکہ مخلصین کو پہچان کر ان کے اخلاص کی قدر کرنی چاہیے تاکہ وہ آپ کے دست و بازو بنیں اور آپ وہ خدمات انجام دے سکیں، جو ہر کوئی نہیں دے سکتا؛ کیوں کہ ہر کسی کو مخلص افراد میسر نہیں ہوتے۔

            اس پہلو سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی قابل توجہ ہے کہ عموما ایسا ہوتا ہے کہ جب تک مقتدیٰ باحیات ہوتا ہے، لوگ اس کے مشن کو پروان چڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، مگر مقتدیٰ کے جانے کے بعد، مقتدیٰ کے مشن سے متعلق لوگوں کی کوششوں میں گہن لگنے لگتا ہے، مگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا معاملہ بالکل الگ نوعیت کا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے  جس طرح  حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کے دست و بازو بنے رہے، اسی طرح آپ کے اس دار فانی سے رخصت ہونے کے بعد بھی اس پر اپنی جانیں نچھاور کرتے نظر آئے، ان میں سب سے پیش پیش حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات بابرکات ہے، آپ کی  قربانیاں صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری زندگی کے ساتھ خاص نہ تھی بلکہ آپ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی مذہب اسلام پر قربان ہونے کے لیے تیار رہتے تھے، چنانچہ جب زکاۃ کے منکرین پیدا ہوئے؛ تو آپ نے اسلام کے نظام و قانون کی حفاظت کرتے ہوئے، ان کی سرکوبی کی اور یوں اسلام کے خلاف کسی بغاوت کو پنپنے نہیں دیا۔

            اسی طرح جب حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی موت کی خبر سننے کے بعد  عام طور سے صحابہ کرام رضون اللہ تعالی علیہم اجمعین کے جذبات قابو میں نہ رہے، یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ  خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا اور جس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوگیا ہے، میں اپنی اس تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا، حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے ان جذباتی حالات سے معاملات بگڑنے کا بہت زیادہ امکان تھا، اس وقت محافظ اسلام امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سامنے آئے اور اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا، جس سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے جذباتی حالات اپنی حدود میں آگئے اور تمام معاملات پرسکون ہوتے ہوئے دکھائی دئے، وہ تاریخی جملہ یہ ہے:

            ’’خبر دار! جو شخص حضور سید کائنات محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کی عبادت کرتا تھا؛ تو بے شک وہ انتقال کرگئے اور جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا؛ تو وہ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آنی ہے اور یہ آیت کریمہ تلاوت کی: {إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ} [الزمر:۳۹، آیت:۳۰] ترجمہ:{بے شک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے} (کنز الإیمان) نیز آپ نے یہ آیت کریمہ بھی پڑھی: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} [آل عمران: ۳، آیت:۱۴۴] ترجمہ:{اور محمد تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے اور جو الٹے پاؤں پھرےگا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرےگا اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا}‘‘۔ (صحیح البخاری، رقم: ۳۶۶۸)

            امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے عملی اقدام اور نقوش قدم سے یہ بتا دیا کہ اسلام اور مسلمانوں کا پیغامِ حق ایسا پیغام ہے، جس کی آب یاری صرف مقتدیٰ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ مقتدیٰ کے بعد بھی اس کی آب یاری جان، مال اور طاقت و قوت سے ہوگی اور ان شاء اللہ تا قیامت ہوتی رہے گی۔ آج ہمارے دور حاضر کے مقتدیٰ حضرات کو بھی اس جہت سے سوچنا چاہیے اور لائحہ عمل تیار کرکے پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ صدیقی کردار کا کچھ تو حق ادا کیا جاسکے، مگر آج ہم فضائل و مناقب بیان کردینا ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں، فضائل و مناقب مسلم ہیں، انہیں مٹایا نہیں جاسکتا؛ اس لیے ہمیں فضائل و مناقب بیان کرنے سے کہیں زیادہ، صاحب فضائل و مناقب کے کردار کو اپنانے کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

            حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانیاں جگ ظاہر ہیں اور جسے قرآن پاک ظاہر کرے، اسے بھلا کون چھپاسکتا ہے، مگر جن لوگوں کے دلوں پر مہر لگ جائے،  وہ اپنی دریدہ دہنی سے بعض نہیں آتے، عام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی ہتک عزت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، مگر جسے اللہ تعالی عزت دے، اسے کوئی ذلت سے دو چار نہیں کرسکتا، ہاں دریدہ دہنی کرنے والا اپنے ایمان کی تباہی کا سامان ضرور مہیا کرلیتا ہے اور دنیا میں بے عزتی کے ساتھ آخرت میں اپنے لیے جہنم کا دروازہ ضرور وا کرتا ہے، ایسے بدمزاج لوگ مندرجہ ذیل حدیث پاک پڑھیں اور اپنی زبان کو لگام دیں۔

حضور آقاے کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ((میرے اصحاب کو گالی مت دو؛ کیوں کہ تم میں سے اگر کوئی اُحد پہاڑ کے مثل بھی خرچ کردے؛ تو وہ ان میں سے ایک کے مد برابر بلکہ اس کے آدھے تک بھی نہیں پہنچے گا)) (صحیح البخاری، رقم: ۳۶۷۳)

صدیقی کردار کی اس ادنی سی ایک جھلگ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم عدل و انصاف، فضل و کمال اور قربانیاں دینے والے ہیں، البتہ ان میں امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی شان سب سے افضل و اعلی ہے، آپ کی ذات فضل و کمامل، عدل و انصاف میں یکتاے روزگار ہے، اور آپ کی قربانیاں بھی ان کے درمیان بے مثال و بے نظیر ہیں، آج ہمیں حالات کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہم کی سنت کا احیا کی ضرورت ہے، ان کی قربانیوں کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطابق چلنے کی کوشش کرنے کی حاجت ہے؛ کیوں کہ قول سے کہیں زیادہ عمل کا اثر ہوتا ہے؛ اس لیے قول و ذکر اپنی جگہ مگر ان کا عملی کردار ہمیں کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے، ان شاء اللہ تعالی کامیابی اپنا مقدر ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کو ذکر و بیان کے ساتھ خلوص کے ساتھ عملی اقدام  کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ اس مختصر  مضمون کے محرک محبی و مکرمی حضرت مولانا ابوہریرہ مصباحی زید علمہ ہیں، اللہ تعالی انہیں دارین کی سعادتیں عطا کرے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے

بانی فلاح ملت ٹرسٹ، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یو پی

۲۲؍جمادی الآخرۃ ۱۴۴۲ھ

دور حاضر میں دار الإفتاء کی اہمیت و ضرورت

 مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

اسلام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کے ماننے والے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں، اس کے لیے اس نے اپنے ماننے والوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک نظام دیا کہ اگر تم اس کے مطابق زندگی گزاروگے؛ تو تمہیں دنیا کا وافر حصہ بھی ملے گا اور آخرت میں بھی جنت جیسی عظیمت نعمت دے کر تمھیں سربلندیاں عطا کی جائیں گی، لیکن اگر اس نظام کے خلاف گئے؛ تو دنیا بھی ہاتھ سے جائے گی اور آخرت میں بھی انجام بہتر نہیں ہوگا، نظام اسلام کے خلاف جانے میں کبھی ہوسکتا ہے کہ دنیا بظاہر بہتر ہوجائے مگر آخرت میں اپنی بے راہ روی کا نقصان ضرور اٹھانا پڑے گا؛ اس لیے ہماری تگ و دَو  سب سے پہلے اسی جہت سے ہونی چاہیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ نظام اسلام کے مطابق چلیں اور اس سے دور و نفور ہونے سے بچیں اور اس کے بعد دوسری ضروریات زندگی کی طرف بھی متوجہ ہوں تاکہ دین و دنیا سے مزین ہوکر قوم کی سچی و پکی رہنمائی کرسکیں؛ جس کی وجہ سے قوم مسلم اپنے اندر سر اٹھاکر جینے کی صلاحیت کو محسوس کرسکےاور پھر اس کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔

            نظام اسلام کے مطابق قوم کو چلانے کا سب سے بہترین ذریعہ مساجد و مدارس اسلامیہ ہی ہیں، اگرچہ دور حاضر میں بعض کمیوں کی وجہ سے اصحاب مساجد و مدارس کماحقہ نظامِ اسلام کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں، لیکن اگر آج بھی حالات حاضرہ کے مطابق مساجد کو عبادت کے ساتھ ساتھ، بہترین تبلیغ کا ذریعہ بنادیا جائے اور مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم کے ساتھ اس کو عصر حاضر کی تعلیم سے جوڑ دیا جائے؛ تو ضرور یہ اپنی عظمت رفتہ کو اپنے دامن میں جلد ہی سمیٹ لیں گے اور دین و دنیا کے ہر میدان میں اپنی قوم کی بہترین رہنمائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور اپنی قوم کو ہر میدان میں وہ بلند مقام و مرتبہ دلائیں گے جو عام طور سے دور حاضر کے ارباب حل و عقد کی نظروں سے اوجھل ہے۔

            لوگوں کو نظام اسلام کے مطابق چلنے کی طرف رغبت دلانے میں سب سے بڑا کردار مدارس اسلامیہ کی ایک بہت ہی اہم کڑی دار الإفتاء و القضاء کا ہے، اس کی اہمیت کل بھی تھی، آج بھی ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گی، اگر ہر ضلع میں منظم طریقے پر اس کی جانب پیش رفت کی جائے، لائق و فائق و جہاں دیدہ مفتی ہی کو اس کی ذمہ داری دی جائے؛ تو ان شاء اللہ اس کا نتیجہ کم از کم علاقے والوں کے لیے بہت عمدہ ثابت ہوگا، لیکن اسی صورت میں جب ہم اخلاص کے ساتھ اس اہم کام کے لیے بھر پور کوشش و محنت کریں، مگر قوم مسلم کی عجیب و غریب حالت ہے کہ وہ ہر معاملہ میں تقریبا سنجیدہ نظر آتی ہے مگر جب دین اسلام اور دار الإفتاء وغیرہ کی بات آتی ہے؛ تو اِدھر  اُدھر سے کام چلانے کی بات سوچتی ہے،  قوم مسلم کا یہ رویہ  بالکل غلط ہے، جس طرح قوم مسلم دیگر معاملات میں سنجیدہ ہے، اسی طرح اسے اپنے دین و اسلام اور دار الإفتاء وغیرہ کے بارے میں بھی سنجیدگی دکھانی  ہوگی؛ کیوں کہ یہی چیزیں قوم کی دین و سنیت کے بارے میں صحیح رہنمائی کرنے والے ہیں۔

کیا ہم نہیں دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے اسلام مخالف بل پاس کرکے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دے دیا، اس سے اور اس جیسے دیگر اسلام مخالف فیصلوں سے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حکومت مسلمانوں کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی چاہتی ہے کہ یہ لوگ اسلام و سنت کے مطابق زندگی گزاریں، اگر ہم خود اسلام و سنیت اور دار الإفتاء وغیرہ سے متعلق سنجیدہ نہیں ہوئے؛ تو حکومت کا یہ رویہ اور مدارس اسلامیہ اور دار الإفتاء وغیرہ سے ہماری بے اعتنائی، ایک دن ہمیں لے ڈوبے گی؛ اس لیے ڈوبنے سے پہلے جاگنا ہوگا، تباہ ہونے سے پہلے  ہوش میں آنا ہوگا؛ تاکہ ہماری قوم مسلم کو کسی کی تباہ کاری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اگر کرنا پڑ گیا؛ تو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھے۔

لہذا مسلمانوں کو چاہیے محض جذبات والے نہیں بلکہ ہوش و خرد والے مخلص علما و مفتیان کرام کو لے کر ہر ضلع میں معیاری دار الإفتاء کا قیام کریں، مگر قیام کرکے چھوڑ نہ دیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے ذرائع پیدا کریں؛ تاکہ خواہی نہ خواہی لوگ دار الإفتاء کی طرف رجوع کرکے اپنے مسائل شریعت کی روشنی میں باآسانی حل کرلیں اور انہیں کورٹ و کچہری کے چکر میں دَر دَر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑے، کیا ہمیں اور آپ کو نہیں معلوم کہ کورٹ و کچہری کے چکر میں نہ جانے کتنی چپلیں اور جوتیاں گھِس جاتی ہیں مگر معاملہ حل نہیں ہوتا؟! کیا ہمیں نہیں معلوم کہ گھوس و پہچان کی بنیاد پر حق کو ناحق ثابت کردیا جاتا ہے؟! کیا ہمیں نہیں معلوم کہ مقدمات کے چکر میں نسلیں گزر جاتی ہیں مگر فیصلہ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے؟! لیکن ہم آپ کو بتائیں کہ اگر ہم نے اپنے دار الإفتاء کی طرف قوم مسلم کو موڑ دیا؛ تو قوم مسلم، اسلام مخالف فیصلوں پر عمل کرنے سے محفوظ ہوجائے گی،  اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کا رخ دکھا دیا؛ تو قوم مسلم دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے گی، اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کا راستہ دکھا دیا؛ تو قوم مسلم چپلیں اور جوتیاں گھِس گھس کر نڈھال ہونے سے مامون جائے گی، اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کی حقیقی خدمات سامنے رکھ دی؛ تو قوم مسلم لوٹ کھسوٹ سے بچ جائے گی، اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کی صحیح پہچان کرادی؛ تو قوم مسلم کے لوگ نسل در نسل پانی کی طرح روپئے بہانے سے بچ جائیں گے۔

میں آپ کو اس کی ایک جیتی جاگتی مثال پیش کرتا ہوں؛ تاکہ آپ پر دار الإفتاء کی اہمیت اور اس کے فوائد بالکل آشکار ہوجائیں، بنگلور بھارت کا بہت بڑا و مشہور و معروف شہر ہے، یہاں کے قاضی محب گرامی وقار حضرت مولانا مفتی محمد اسلم مصباحی صاحب قبلہ زید مجدہ ہیں، آپ کے دار الإفتاء میں لوگ جوق در جوق اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے آتے ہیں، شریعت اسلامیہ کی روشنی میں چند گھنٹوں یا چند دنوں کے درمیان ان کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور وہ خوشی کے ساتھ مطمئن ہوکر زندگی گزارنے کے لائق ہوجاتے ہیں، وجہ یہ ہے کی دین و شریعت بھی ہاتھ سے نہیں جاتی، روپئے بھی خرچ نہیں ہوتے اور حیرانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا، آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ وہ معاملات جو مہینوں، سالوں، کورٹ کچہری میں چلتے رہتے ہیں، وہ معاملات اس دار الإفتاء میں چند گھنٹوں یا چند دنوں یا چند ہفتوں میں بڑی آسانی سے شریعت اسلامیہ کے دائرے میں حل ہوجاتے ہیں، اب یہ آسانیاں اور سہولتیں کون نہیں چاہتا، یقینا ہر شخص چاہتا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے خود ہم دار الإفتاء کی اہمیت پہچانیں، لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت بیٹھائیں اور لوگوں کو اس کی آسانیاں اور اس کے فوائد بتائیں، ان شاء اللہ ہر دار الإفتاء قوم مسلم کی بہترین خدمات کرتا ہوا نظر آئے گا اور ایسی بے نظیر خدمات پیش کرے گا جس کی قوم مسلم برسوں سے متلاشی ہے۔

            ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ضلع میں دار الإفتاء کی کیا ضرورت ہے، کبھی حاجت محسوس ہوئی؛ تو دوسرے ضلع کے دار الإفتاء سے رجوع کرلیں گے، ٹھیک ہے، ایسا ہوسکتا ہے مگر یہ  اطمینان بخش سوچ نہیں ہے؛ کیوں کہ دار الإفتاء کی ضرورت صرف کبھی نہیں بلکہ ہمیشہ ہے اور دوسرے ضلع کے مفتی کے ذریعے ہمیشہ یہ کام ہونا ممکن نہیں، نیز آپ سوال بھیجیں گے، پھر جواب آئے گا، جواب آنے میں ہفتہ، مہینہ بلکہ کبھی مہینوں تاخیر ہوسکتی ہے؛ جس کی وجہ سے مقصود فوت ہوسکتا ہے، نیز دور حاضر میں خط بھیج کر جواب حاصل کرنا، ایک بھاری کام محسوس ہوتا ہے؛ جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ دار الإفتاء کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں اور مزید یہ کہ تحریر کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا آمنے سامنے کا لوگ اثر قبول کرتے ہیں، مزید یہ کہ اس میں فیصلہ لینے میں آسانی ہوتی ہے؛ اسی لیے بھارت کا کورٹ بھی اس لیٹر سسٹم پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ اسلامی نظام بھی یہی ہے کہ لوگ قاضی کے پاس حاضر ہوں، پھر فیصلہ کیا جائے، مگر بھارت میں عام طور سے مسلمانوں کے حالات اتھل پتھل رہے؛ جس کی بنیاد پر اس کا کوئی خاص نظام نہیں بن سکا اور تھوڑا بہت بنا بھی؛ تو پورے طور سے منظم نہیں ہوسکا؛ اس لیے آج کے دور میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ منظم طور پر ہر ضلع میں دار الإفتاء و القضاء قائم کیا جائے تاکہ لوگ مفتی یا قاضی اسلام کے پاس جاکر اپنے دینی و دنیوی، ہر مسائل کو بسہولت حل کریں، عام طور سے دور دراز خط بھیجنے کی ضرورت محسوس نہ ہو، آمنے سامنے بات ہو تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور ساتھ ہی مقصود اصلی حاصل ہو کہ لوگ شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت، دونوں بہتر بنائیں، دور دراز سے مسائل حل کرنے میں اگر مگر وغیرہ کا بھی بہت زیادہ سہارا لینا پڑتا ہے؛ جس کی وجہ سے بعض دفعہ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید لاینحل ہوجاتے ہیں؛ اس لیے اگر اپنے ضلع میں دار الإفتاء ہوگا؛ تو متحرک و فعال ہونے کی صورت میں اگر مگر کی ضرورت نہیں پڑے گی؛ کیوں دونوں فریق آمنے سامنے ہوں گے، دونوں فریق کی بات سن کر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں فیصلہ سنا دیا جائے گا اور کہیں لوگ کسی وجہ سے نہ آسکیں؛ تو قاضی یا مفتی کے لیے اپنے ضلع میں ایسے لوگوں کے پاس جاکر فیصلہ کرنے اور مسئلہ حل کرنے میں کوئی خاص دقت محسوس نہیں ہوگی، ہاں اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے کہ وہ ضلع کے مفتی یا قاضی سے حل نہیں ہوتا؛ تو اب ضرور اپنے سے بڑے دار الإفتاء جیسے منظر اسلام، بریلی شریف، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور اور مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج کی طرف ضرور رجوع کرنا چاہیے تاکہ مسئلے کی پیچیدگی مزید نہ بڑھنے پائے اور اپنے سے بڑے کی طرف وقتا فوقتا، ضرورت پڑنے پر رجوع کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ہر سسٹم کا یہ طریقہ کار ہے کہ چھوٹا، بڑے کی طرف رجوع کرتا ہے۔

            بہر حال منظم طریقے سے  دار الإفتاء و القضاء  کا وجود کبھی مضر نہیں تھا، نہ مضر ہے اور نہ ہی کبھی مضر رہے گا، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح طریقے سے اس کی خدمات حاصل کی جائیں، اس کی خدمات کے لیے قابل قدر اور دین و سنیت کا درد رکھنے والے مفتی رکھے جائیں  اور لوگوں کے دلوں میں اس کی ضرورت و حاجت جاگزیں کردی جائے، ان شاء اللہ کامیابی اپنا مقدر ہوگی، اللہ تعالی ہم سب کو دین و سنیت کا درد عطا کرے، حالات کے مطابق شریعت اسلامیہ کے دائرہ میں رہ کر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے دین و سنیت کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی فلاح ملت ٹرسٹ

 اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا، ۱۰؍ جمادی الآخرۃ ۱۴۴۲ھ

ترجیحات میں ترمیم وقت کا جبری تقاضا

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

 حالات کے اعتبار سے ترجیحات میں ترمیم ہر وقت کی اہمت ضرورت ہوتی ہے بلکہ ہر وقت کا جبری تقاضا ہوا کرتا ہے، جس قوم نے بھی حالات کو سمجھا اور اس کے لحاظ سے ترجیحات میں تبدیلی لائی؛ تو وہ قوم ترقی یافتہ نظر آئی، اس نے اپنی نسل کو تابناک مستبقل دیا بلکہ انہیں حالات کی تبدیلی کا خاص خیال کرنے کی وجہ سے وہ قوم صدیوں تک مختلف ملکوں پر حکومت کرتی ہوئی نظر آئی۔ قوم مسلم نے بھی شریعت کے دائرے میں رہ کر جب تک جبری تقاضے کا پاس و لحاظ رکھا، اس نے خود کو پوری دنیا کے سامنے عوج ثریا پر پایا، اپنی آنے والی نسلوں کو بہترین اور چمکتا ہوا مستقبل دیا اور صدیوں تک مختلف ممالک تو مختلف ممالک، وہاں کے باشندوں کے دلوں پر بھی حکومت کرتی رہی، یہ قوم مسلم ہی کی شان ہے کہ جسم و زمین کے ساتھ، دل پر بھی حکومت کرنا جانتی ہے، مگر یہ قوم جب سے شریعت کے دائرے میں رہ کر حالات کے اعتبار سے ترجیحات کو نظر انداز کرنے لگی، تنزلی اس کی پرچھائیں بن گئی، زمینی سطح پر اس کا وجود مٹتا چلا گیا اور تباہی و بربادی اس کا مقدر بنتی ہوئی نظر آئی۔ قوم مسلم کے لیے دو قسم کی ترجیحات ہوتی ہیں:

ایک قسم وہ ہے جسے ہر زمانہ میں ترجیح حاصل ہونی چاہیے، مثلا ایک وقت تھا کہ لوگ اچھائی کو برائی پر ترجیح دیتے تھے، مگر آج حال یہ ہوچکا ہے کہ لوگ برائی کو اچھائی پر ترجیح دیتے ہیں حالاں کہ آج بھی اچھائی ہی کو ترجیح دینا وقت کی ضرورت ہے، ایک وقت تھا کہ لوگ انفرادی فائدے کو اجتماعی فائدے پر قربان کردیتے تھے مگر آج حالت ایں جا رسید کہ لوگ اجتماعی فائدے کو اپنے انفرادی فائدے کےلیے قربان کردیتے ہیں، حالاں کہ آج بھی اجتماعیت کو فوقیت دینے کی سخت ضرورت ہے، ایک وقت تھا کہ لوگ اپنی ضرورت کے باوجود اپنے مسلم بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے اور آج بات یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ اپنی ضرورت نہ ہو؛ تو بھی اپنے مسلم بھائی کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں، حالاں کہ ایک مسلم کو اپنے مسلم بھائی کا ہمہ وقت خیال کرنا آج بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، ایک وقت تھا کہ یہ قوم اپنے آپ کو تعلیم و تربیت سے مزین کرنے کو ہر چیز پر فوقیت دیتی ہے مگر آج حالت دگر گوں ہے، آج یہ قوم تعلیم و تربیت کو پس پشت ڈال کر صرف کھانے کو جینا سمجھ چکی ہے، حالاں کہ آج بھی تعلیم و تربیت ہی کو اپنا اصل مقصد بنانا اور اسی کو زندگی سمجھا وقت کا اہم تقاضا ہے، ایک وقت تھا کہ یہ قوم ہمیشہ اپنے آپ کو باقوت و مضبوط بنانے کی فکر میں رہتی تھی مگر آج یہ قوم صرف عمارت کی چمک دمک پر توجہ دیتی ہے، حالاں کہ آج بھی اسے اپنی مضبوطی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے کو ہی ترجیح دینا چاہیے، ایک وقت تھا کہ یہ قوم اصل کو اصل اور فرع کو فرع ہی کے منزل میں رکھتی تھی مگر آج بالکل اس کے برعکس نظر آتا ہے، عقیدتا کچھ بھی ہو، مگر عملا  یہ قوم اصل کے ساتھ فرع  اور فرع کے ساتھ اصل کا برتاؤ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور فرع کے ساتھ یہ برتاؤ اس قدر دل میں گھر کرگیا ہے کہ اس کے سامنے اصل کی بات ہیچ نظر آتی ہے۔ حالاں کہ آج بھی عملا اصل ہی کو فوقیت دینا وقت جبری تقاضا ہے۔

دوسری قسم وہ ہے جس میں حالات کے اعتبار سے تبدیلی ہونی چاہیے، مثلا ایک وقت تھا کہ قوم مسلم کو رہنمائی کی گئی کہ وہ غریبوں کو کھانا کھلائیں؛ کیوں کہ آج کے بنسبت اس وقت غربت بہت زیادہ تھی، لوگوں کے لیے دو وقت کھانے کے لالے پڑے رہتے تھے، مگر آج حالت ایسی نہیں ہے؛ شاید باید ہی کوئی مل جائے جسے دو وقت کی روٹی نہ ملتی ہو؛ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دسترخوان پر عموما امیر یا کھاتے پیتے لوگ ہی نظر آتے ہیں؛ اس لیے غریب مل جائیں، فبہا ورنہ اس زمانہ میں ایصال ثواب کی نیت سے کھانے پلانے پر خرچ کرنے کے بجائے، وقت کے لحاظ سے اعلی تعلیم و تربیت، اپنی قوم کو باقوت اور بڑا تاجر وغیرہ بنانے پر خرچ کرنا چاہیے۔  ایک وقت تھا کہ لوگ علمی پیاس بجھانے کے لیے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے، مگر آج حالت یہ ہے کہ عموما لوگ بار بار مختلف ممالک میں موجودہ زیارت گاہوں کی زیارت کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں، حالاں کہ یہ ایک بار ہوجائے، یہی کافی ہے اور نہ بھی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ حالات زمانہ، قوم مسلم کو یہ باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ یہ وقت نفلی سفر پر خرچ کرنے کا نہیں بلکہ اپنی قوم کی واجبی حالات پر خرچ کرنے کا وقت ہے، ایک وقت تھا کہ قوم مسلم اپنی ضروریات و حاجات تک محدود رہتی تھی یا حالات کے اعتبار سے ٹھاٹھ باٹھ میں تھوڑی بہت تبدیلی لاتی تھی، مگر آج حالت یہ ہے کہ ضروریات و حاجات سے بڑھ کر طرح طرح کی سہولیات جتنی بھی میسر آجائیں، سب کم ہی ہیں، ٹھاٹھ باٹھ میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی عجیب ہوڑ لگی ہوئی ہے، حالاں کہ دور حاضر کے حالات ہمیں یہ بار بار سمجھانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ میاں آپ ضروریات و حاجات تک محدود رہو یا حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑی بہت سہولیات بھی حاصل کرو، ایک دوسرے سے بڑھنے کی بھی انتھک کوشش کرو، مگر اس کے چکر میں اپنی قوم مسلم کی ضروریات و حاجات کو کبھی نہ بھولو، انہیں قعر مذلت میں نہ جانے دو، انہیں پس پشت ڈالنے کا سبب نہ بنو، ان کے مستقبل کو بھی سنوارنے کی فکر کرو تاکہ آپ کی قوم اس عالی مقام پر ہو، جہاں اسے ہونا چاہیے؛ کیوں کہ ہر مسلم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف محض فرد مسلم کی سلامتی میں فرد یا قوم مسلم کی سلامتی نہیں بلکہ اکثریت مسلم کی سلامتی میں ہی فرد و قوم مسلم کی سلامتی ہے۔

 یاد رکھیں اگر اکثریت قوم مسلم سلامت نہیں رہی؛ تو آپ اپنے  فردی وجود کو بھی مٹنے سے نہیں روک پاؤ گے، اگر اکثریت قوم مسلم جیتی جاگتی نہیں رہی؛ تو آپ بھی جیتے جاگتے زیادہ دن نہیں رہ پاؤ گے، اگر قوم مسلم کی اکثریت خوشحال نہیں رہی؛ تو آپ بھی زیادہ دن خوش حال نہیں رہ پاؤ گے، اگر قوم مسلم کی اکثریت امن و امان سے نہیں رہی؛ تو عبادت گاہیں اور زیارت گاہیں بھی مامون نہیں رہ جائیں گی؛ اس لیے آج حالات کا جبری تقاضا ہے کہ ہم حالات و زمانے کے مطابق اپنے اور اپنی قوم کے اندر جائز طریقے سے تبدیلی لائیں، کیسی بھی حالت ہو، اچھائی کو ہمیشہ برائی پر ترجیح دیں، اجتماعی فائدے کے لیے ہمیشہ فردی قربانی کے لیے تیار رہیں، اپنی ضرورت پر مسلم بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیں یا کم از کم اپنی ضرورت کے ساتھ مسلم بھائی کی ضرورت کا ضرور خیال رکھیں، کھانے سے زیادہ اعلی دینی و عصری تعلیم و تربیت پر توجہ دیں، عمارت زیادہ چمکانے کے بجائے اپنی اور اپنی قوم کی مضبوطی کے لیے پیش قدمی کریں، صرف عقیدتا نہیں بلکہ عملی طور پر بھی اصل کو اصل اور فرع کو فرع ہی کا درجہ دیں۔

نیز ترجیحات میں ترمیم لاکر ایصال ثواب کی نیت سے دور حاضر میں امیر کبیر اور کھاتے پیتے لوگوں کو کھانا کھلانے کے بجائے، ان پیسوں سے قوم کے بچوں کی دینی و عصری اعلی تعلیم و تربیت پر خرچ کریں، بار بار مختلف ممالک یا ملک کی زیارت گاہوں کی طرف جانے کے بجائے، ایک ہی بار پر اکتفا کریں اور باقی روپیوں سے ضرورت کے مطابق اپنی قوم کی لازوال خدمات انجام دیں، ضرورت سے زیادہ ٹھاٹھ باٹھ یا امیری کبیری دکھانے کے بجائے، اس کو اپنی حد میں رکھیں اور باقی روپئے سے اپنے بچے یا قوم کے بچوں کے مستقبل کو روشن و تابناک کرنے کی سعی مسعود کریں، یاد رکھیں کہ آنے والی نسلیں یہ نہیں دیکھیں گی کہ آپ نے کیا کھایا، کیا پیا،  کیسا گھر بنایا اور کیسی کیسی سہولتیں حاصل کیں بلکہ وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے ان کے مستقبل کے لیے کیا اقدام کیا، ان کی قوم کے لیے کونسا ایسا عمل کیا؛ جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان سر اٹھاکر جینے کے قابل ہوگئیں، وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے انہیں کونسا پلیٹ فارم دیا؛ جس کی بنیاد پر وہ دینی و عصری قوت سے لیس ہوکر بھارت کے دشمنوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوگئیں، وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے کونسی قربانی دی؛ جس کی بنیاد پر آج وہ قعرمذلت سے نکل کر دین و دنیا کی بلندیوں میں پرواز کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، وہ تو یہ دیکھیں گی کہ آپ نے انہیں کونسی قوت و طاقت دی ہے جس کی بنیاد پر کوئی انہیں ان کے ناکردنی کی سزا دینے کی جسارت نہیں کر پارہا ہے۔

صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے؛ تو عموما ہمارے اندر صحیح سوچ و فکر کا نہ ہونا یہ ہماری خود غرضی کا نتیجہ ہے، دور حاضر میں ہمارا مسلم معاشرہ بہت ہی خود غرض ہوچکا ہے، تقریبا ہر چھوٹا و بڑا اس خود غرضی کے بندھن میں ایسا جکڑ گیا ہے کہ اسے اپنے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا، ہمیں اپنے اور اپنے معاشرے کے اس بندھن کو توڑنا ہوگا؛ کیوں کہ اسلام میں کھبی خود غرضی تھی ہی نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے جو قربانیاں دیں اور آج تک ان کی اتباع میں جو لوگ قربانیاں دیتے آرہے ہیں، اگر ان کی بھی سوچ و فکر ہماری خود غرضی کی طرح ہوتی؛ تو شاید اسلام مکہ و مدینہ ہی میں سمٹ کر رہ جاتا، مگر رب تعالی نے انہیں وہ فکر و سوچ دی تھی جس کے ذریعے وہ  صرف اسلام کے لیے ہی جیتے و مرتے تھے، ان کے اندر خود غرضی نام کی بھی نہیں تھی، آج ہمیں اسی فکر کو اپنانے اور اپنے معاشرے میں اسی فکر و سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ اگر وقت اور حالات کے لحاظ سے ہم اور آپ نے ترجیحات و ترمیات پر توجہ نہیں دی؛ تو مذہب اسلام کا کچھ نہیں بگڑے گا؛ کیوں کہ اسلام اپنی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر بلند تھا، بلند ہے اور قیامت تک بلند رہے گا، البتہ بگڑے گا؛ تو ہمارا اور ہمارے معاشرے کا بگڑےگا، قوم مسلم کی حالت دگر گوں ہوگی، ان کی ذلت و رسوائی اور کمزوری کی وجہ سے اسلام اور قوم مسلم کو گالیاں پڑیں گی؛ اس لیے اپنے ساتھ، اپنی قوم مسلم کی بھی فکر کریں؛ کیوں کہ اسلام زندہ تھا، زندہ ہے اور تا قیامت زندہ رہے گا؛ اس لیے  وہ ہمیں اور آپ کو  اپنے صحیح طریقے پر بلاکر ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید رکھنا چاہتا ہے:

اسلام  تیری  نبض  نہ   ڈوبے   گی  حشر  تک

تیری رگوں  میں  خون  رواں ہے  چار   یار کا

انداز  بیاں  گر چہ  بہت   شوخ   نہیں  ہے

شاید کہ  اتر جائے ترے دل میں میری  بات

 

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

موبائل نمبر: 9936691051

امام العلماء کی حدیثی خدمات

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

 درجہ بندی کے اعتبار سے دنیاے اسلام میں علم فقہ کا درجہ تمام علوم اسلامیہ سے پہلے آتا ہے؛ اسی وجہ سے اس علم کو تمام علوم اسلامیہ پر فوقیت دی جاتی ہے، اس کے بعد علم حدیث کا درجہ آتا ہے، علم فقہ کی ترویج و اشاعت اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی صورت میں جس طرح فقہ کے علماے ذوی الاحترام نے کافی تگ و دو کی اور اس کے لیے انہوں نے رات کو رات اور دن کو دن نہیں سمجھا بالکل اسی طرح علم حدیث کے علماے کرام نے بھی اس فن کی ترویج و اشاعت میں انتھک کوشش فرمائی اور احادیث کو اپنی صحیح حالت پر لوگوں تک پہونچانے میں کسی طرح کی کوئی کسر باقی نہ رکھی،  جس کی بنا پر علماے فقہ کو احادیث سے احکام استخراج کرنے میں کافی حد تک آسانی میسر آئی، اسلام کے ابتدائی ادوار میں علم حدیث و فقہ بلکہ تمام علوم کی ترویج و اشاعت کا اصل ذریعہ درس و تدریس ہی تھا، تحریری یا کتابی شکل میں علوم کی نشر و اشاعت بہت کم بلکہ نہ کے برابر تھی، یقینا تحریر کی اپنی ایک خاص اہمیت و افادیت ہے مگر درس و تدریس کی اہمیت اس سے کم نہیں بلکہ بعض جہت سے درس و تدریس کی اہمیت تحریر سے کہیں زیادہ ہی ہے؛ کیوں کہ ایک عالم محرر بھی عموما درسگاہ کی خیر و برکت ہی سے بنتا ہے، تحریر سے فائدہ اٹھانے والے کو اگر بات سمجھ میں نہ آئے؛ تو محرر سے رابطہ کرکے حل کرنا ایک مشکل امر ہوتا ہے لیکن اگر درسگاہ کی بات  سمجھ میں نہ آئے؛ تو تدریس کا کام انجام دینے والے سے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے، بہر حال اپنی اپنی جگہ ہر ایک طریقہ کار کے بہت سارے فوائد ہیں؛ اسی لیے درس یا تحریر یا دونوں سے دلچسپی رکھنے والے علما اپنے اپنے انداز میں علم فقہ و حدیث و غیرہ کی خدمت ابتدائی ادوار سے کرتے آرہے ہیں اور ان شاء اللہ قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، انہیں علماے کرام میں سے  ماضی قریب میں علم فقہ و حدیث سے دلچسپی رکھنے والے امام العلماء مفتی شبیر حسن رضوی رحمہ اللہ کی ذات ہے، آپ کی ذات علم فقہ و حدیث میں کافی درک رکھتی تھی، اگرچہ آپ نے تحریری شکل میں علم حدیث پر کوئی کتاب نہیں لکھی مگر ایک طویل زمانہ تک آپ نے  درس و تدریس کے ذریعہ علم حدیث سے طالبان علوم نبویہ کو سیراب کیا ہے، آج کی اس بزم میں حضرت کے حدیثی خدمات کے چند اہم گوشے بیان کرنے کی کوشش کروں گا، و ما توفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔

 

تفقہ فی الحدیث

 

            امام العلماء علیہ الرحمۃ و الرضوان مدرسہ عزیز العلوم، نانپارہ اور الجامعۃ الإسلامیۃ، روناہی میں تعلیم کے دوران تقریبا اکیاون (۵۱) سال شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے اور آپ نے اکیاون (۵۱) سال حدیث کی سب سے معیاری کتاب بخاری شریف کا درس دیا، آپ کو فقہ حدیث میں کس قدر مہارت تھی، یہ آپ کے طریقہ درس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،  آپ کے درس کا انداز کچھ یوں تھا:

            (۱)ترجمہ کے ساتھ لغوی و اصطلاحی تشریح۔

            (۲) نقلی دلائل کے ساتھ عقلی دلائل پیش کرنا۔

            (۳) احادیث سے مسائل کا استنباط۔

            (۵) دلائل کی بنیاد پر علمی انداز میں فقہ حنفی کا دفاع۔

            (۶) دفاع کی تائید جہاں آپ اعلی حضرت مجدد دین و ملت اور دیگر ائمہ کرام کے اقوال سے کرتے وہیں آپ اپنی رائے بھی پیش فرماتے تھے۔

            (۷) دفاع کی صورت میں اگر کوئی جواب کمزور ہوتا؛ تو اس کی کمزوری بھی واضح فرماتے تھے۔

            (۸) احادیث کے درمیان بظاہر تعارض کے دفاع کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ (مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمۃ بحیثیت شیخ الحدیث،  محمد سلیمان رضوی جامعی، ص۲)

            آپ جب افتتاح بخاری فرماتے؛ تو نہایت ہی عمدہ گفتگو کرتے بالخصوص  آپ کی اس گفتگو میں بسملہ و حمدلہ کے متعلق بہت ہی دقیق اور علمی گفتگو کے جلوے نظر آتے، آپ امام بخاری علیہ الرحمۃ کا اپنی کتاب کو بسملہ سے شروع کرنے اور حمدلہ کو ترک کرنے کے گیارہ جوابات بڑی آسانی سے دیتے اور درمیان گفتگو جوابات کے ضعف و قوت کا بھی اظہار فرماتے، اسی طرح ختم بخاری شریف میں بھی علمی جواہر پارے بکھیرتے ہوئے نظر آتے جس سے طالبان علوم نبویہ  پورے طور سے محظوظ ہوتےاور ان علمی موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اطمینان محسوس کرتے، آپ نے درس بخاری شریف اور اس کے افتتاح و اختتام میں جو علمی طریقہ کار اختیار کیا، وہ اس بات پر روشن دلیل ہے کہ آپ کو فقہ حدیث میں کافی درک حاصل تھا۔

 

فتاوی میں حدیث سے استدلال

 

            اپنے دور کے علماے ہند کے درمیان  امام العلماء علیہ الرحمۃ کی شخصیت فقہ کے میدان میں ایک چمکتے ہوئے ستارہ کے مانند تھی، آپ کی شخصیت مرجع فتاوی ہونے کے ساتھ ساتھ مرجع علما بھی تھی، آپ اپنے فتاوی میں جہاں فقہی جزئیات کا ذکر کرتے تھے وہیں ضرورت پڑنے پر احادیث  سے استدلال کرنے کا اہتمام بھی کرتے تھے، چنانچہ آپ نے صحابہ کرام وغیرہ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے متعدد احادیث سے بھی استدلال کرنے کا بخوبی اہتمام کیا ہے جس سے آپ کے تفقہ فی الحدیث کی خوبی مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔

علم اصول حدیث

 

            ہمارے ممدوح امام العلماء علیہ الرحمۃ کی زیادہ توجہ اگرچہ فقہ حدیث پر تھی مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ علم اصول حدیث سے بالکل تہی دامن تھے اور ایسا  ہو بھی نہیں سکتا؛ کیوں کہ علم اصول حدیث سے متعلق اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی کتابیں آپ کے مطالعہ کی میز پر تھیں؛ اسی لیے تو آپ طالبان علوم نبویہ کو ’الھاد الکاف فی حکم الضعاف‘ مطالعہ کرنے کی ترغیب دلاتے تھے، امام العلماء رحمہ اللہ تعالی حدیث ضعیف کے متعلق مختلف جہات سے کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تعدد اسناد سے حدیث ضعیف کم از کم حسن لغیرہ کے درجہ کو پہونچ جاتی ہے اور حدیث جس کے ذریعہ کسی مجتہد نے مسئلہ کا استنباط و استخراج کر لیا، اگرچہ وہ حدیث از روے سند ضعیف ہو، درجہ صحت کو پہونچ جاتی ہے اور حدیث ضعیف دربارۂ فضائل و مناقب معتبر ہے، ملخصا‘‘۔ (مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمۃ بحیثیت شیخ الحدیث،  محمد سلیمان رضوی جامعی، ص۲)

اسی طرح  بعض علماے کرام نے امام بخاری کا اپنی کتاب بسملہ سے شروع کرنے اور حمدلہ کو چھوڑنے کے جواب میں جب یہ فرمایا کہ حدیث حمدلہ ضعیف ہونے کی وجہ سے امام بخاری علیہ الرحمۃ نے حمد سے ابتدا نہیں فرمائی؛ تو امام العلماء رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف قرار دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ حدیث حمدلہ ضعیف نہیں حسن بلکہ صحیح ہےنیز قرہ بن عبد الرحمن راوی جس کی وجہ سے حدیث حمدلہ کو ضعیف قرار دیا گیا تھا، اس کے متابعت کی طرف بھی اشارہ فرمایا اور ان ساری باتوں کو ائمہ کرام کے اقوال سے مزین بھی فرمایا، ملاحظہ فرمائیں:

            ’’جواب چہارم: حدیث حمد ضعیف ہے؛ اس لیے کہ اس حدیث کے تمام طرق کا دار و مدار قرۃ بن عبد الرحمن روای ہے، جو ضعیف ہے۔

            مگر یہ جواب بھی ضعیف ہے کہ حدیث حمد ضعیف نہیں؛ کیوں کہ یہ حدیث نہ صرف حسن بلکہ صحیح ہے، ابن حبان اور ابوعوانہ نے اس کی تصحیح فرمائی اور سعید بن عبد العزیز نے قرۃ کی متابعت بھی کی ہے جس کی تخریج امام نسائی نے فرمائی جیسا کہ علامہ امام بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بخاری شریف کی شرح ’عمدۃ القاری‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

            الحدیث صحیح، صححہ ابن حبان و أبوعوانۃ و قد تابع سعید بن العزیز قرۃ کما أخرجہ النسائی‘‘۔ (مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمۃ بحیثیت شیخ الحدیث،  محمد سلیمان رضوی جامعی، ص۲)

            امام العلماء رحمہ اللہ کا اپنے درس میں یہ انداز گفتگو، اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ آپ کو جہاں تفقہ فی الحدیث کا ملکہ حاصل تھا وہیں علم اصول حدیث پر بھی آپ کی گہری نظر تھی اور آپ وقتا فوقتا اس دقیق علمی زاویہ سے بھی اپنے طلبہ کو سیراب فرمایا کرتے تھے۔

            امام العلماء علیہ الرحمۃ نے اس طرح تقریبا اپنی پوری زندگی درس و تدریس کے ذریعہ اسلام کی خدمت اور فقہ و حدیث وغیرہ علوم اسلامیہ کی نشرو اشاعت میں گزاردی جس کی بنا پر کثیر تعداد میں آپ کی بارگاہ سے  فیض یافتہ علما و فقہا و محدثین پیدا ہوئے جو  دنیا کے مختلف مقامات پر آج بھی دین متین کی نشر و اشاعت میں مصروف عمل ہیں، اللہ تعالی آپ کی مرقد انور پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے اور ہم سب پر آپ کا فیضان عالی شان جاری و ساری رکھے، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

 

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۸؍ربیع الأول ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۲۰۲۰ء

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts