حقیقی معنوں میں ایک حقیقی
مفتی کے لیے فتوی دینا، حکم شرعی بیان کرنا، جہاں بہت اہم ذمہ داری ہے، وہیں اس کے
لیے بہت بڑی فضیلت کا باعث بھی ہے؛ کیوں کہ مفتی وارث انبیا علیہم الصلاۃ والسلام ہوتا
ہے، مگر ساتھ ہی اس سے خطا ہونے کا امکان بھی ہوتا ہے؛ اسی وجہ سے بہت سارے مفتیان
کرام، فتوی صادر کرنے میں بہت محتاط رہے، اسی احتیاط کے پیش نظر حضرت ابن منکدر رحمہ
اللہ فرماتے ہیں: ’’عالم، اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے درمیان ہے؛ تو اسے چاہیے کہ
ان کے درمیان داخل ہوتے وقت غور و فکر کرلے کہ ان کے درمیان کیسے داخل ہورہا ہے‘‘ اسی
اہم ذمہ داری ہی کی وجہ سے بہت سارے علماے کرام نے ’لاأدری‘ کا قول کیا اور فتوی دینے
سے گریز کیا، نیز حکم شرعی بیان کرنا فرض عین نہیںبلکہ فرض کفایہ ہے، ایک مفتی نے بیان
کردیا، سب کی گردن سے ذمہ داری اتر گئی اور اگر کسی نے بھی نہیں بیان کیا؛ تو سب گنہ
گار ہوئے، جب فرض کفایہ کی صورت میں ایک کا بیان کرنا یا ایک کا ذمہ داری نبھادینا،
سب کا اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا ہے؛ تو یہیں سے معلوم ہوا کہ اس صورت میں ہر ایک
کا فتوی جاری کرنا یا بیان دینا ضروری نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ
تعالی عنہم کے درمیان اختلاف ہوا؛ تو صحابہ کرام تین گروہ میں بٹ گئے، ایک گروہ امیر
المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگیا، دوسرا گروہ کاتب وحی حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگیا اور تیسرا گروہ سیکڑوں کی تعداد میں خاموش رہا اور دونوں
میں سے کسی کی بھی تائید نہیں کی اور نہ ہی تردید فرمائی مگر راقم الحروف کے علم کے
مطابق کہیں ایسی روایت نہیں ملتی کہ پہلے دو گروہ میں سے کسی گروہ نے بھی خاموش رہنے
والے تیسرے گروہ کے کسی فرد سے کہا ہو یا دباؤ ڈالا ہو کہ ہم دونوں میں سے کون حق
ہے اور کون ناحق ہے، اظہار راے کرنا ہی ہوگا اور ایسا نہ کرنے پر مخالف گروہ میں ڈال
دیا جائے گا! عجیب حال ہے! خیر القرون میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور
تبع تابعین رحمہم اللہ کے ذریعہ کوئی حکم صادر ہوتا اور دیگر حضرات خاموشی اختیار کرتے؛
تو سکوت کرنے والے کو صادر ہونے والے حکم کی موافقت کرنے والا مانتے تھے جس کی وجہ
سے اجماع سکوتی وجود میں آتا تھا اور دور حاضر میں سکوت کرنے والے کے بارے میں مثبت
پہلو کو نظر انداز کرکے، صرف منفی پہلو کو مضبوطی سے تھام کر مخالف مانا جاتا ہے جس
کے سبب اجماع یا اتفاق کے بجاے انتشار و اختلاف وجود میں آتا ہے! نیز آداب فتوی میں
سے ہے کہ سوال سمجھنے کے باوجود بھی مفتی کو فتوی دینے اور نہ دینے کا اختیار ہے، چاہے
تو جواب دے اور چاہے تو جواب نہ دے، مگردور حاضر میں عجیب صورت حال پیدا ہوگئی ہے،
کچھ مفتیان کرام کسی مسئلہ پر فتوی جاری کرتے ہیں، پھر دستخط کرانا شروع کردیتے ہیں،
جس نے دستخط کردیا اس کا ہزار خون معاف اور جس نے دستخط نہیں کیا یا سکوت اختیار کرنے
میں بھلائی سمجھا؛ تو اسے مخالف گروہ میں ڈال دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی ناکردنی
کی بھی سزا بھگتنی پڑتی ہے! دستخط کرانا جرم نہیں مگر یہ مخالف گروہ میں ڈالنا کیسا؟!
یہ سزا کیسی؟! جب کہ ایک مفتی فتوی کی اہم ذمہ داری کے پیش نظر خاموش رہ سکتا ہے! اختلاف
و انتشار کی وجہ سے بچنے کی کوشش کرسکتا ہے! مفتی اپنے اختیار کے پیش نظر دستخط کرنے
سے احتراز کرسکتا ہے! فرض کفایہ ادا ہونے کی وجہ سے فتوی دینے سے پرہیز کرسکتا ہے!
ان تمام وجوہات کے باوجود، سکوت اختیار کرنے والے کے بارے میں صرف منفی پہلو قائم کرکے
مجرم قرار دینا اور ذلیل کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں بلکہ ظلم و زیادتی ہے، راقم الحروف
آج کی اس بزم میں آیت کریمہ، حدیث شریف، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماے ذی وقار
کے اقوال کی روشنی میں ان چیزوں کے متعلق کچھ بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اللہ تعالی
اسے قبول فرمائے، وماتوفیقی إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
اللہ
تعالی ارشاد فرماتا ہے:{ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید}(ق: ۵۰،
آیت: ۱۸) ترجمہ: ((کوئی بات
وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو)) (کنز الایمان)
یہ
آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کا ہر قول و عمل لکھا جاتا ہے؛ اس لیے جس طرح
کام و بات کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے، اسی طرح فتوی جاری کرنے اور حکم شرعی بیان
کرنے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
حدیث
شریف میں ہے:((من
صمت نجا)) ترجمہ:
((جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا)) (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الشفاعۃ، باب، رقم: ۲۵۰۱) ترجمہ:
((جو خاموش رہا، نجات پاگیا))
شرح
حدیث: خاموشی نجات کا سبب ہے مگر بھلائی کی بات کرنا، اچھائی کا حکم دینا، برائی روکنااور
ذکر و اذکار و تلاوت قرآن پر مداو مت برتنا خاموش رہنے سے بہتر ہے؛ کیوں کہ اس طرح
کی گفتگو غنیمت اور خاموش رہنا سلامتی ہے اور غنیمت سلامتی سے بڑھ کرہے (الاستذکار،
ابن عبد البر رحمہ اللہ، باب ماجاء فی الطعام والشراب، ج۸ص ۳۶۶)
حدیث
شریف میں ہے: ((من
رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف
الإیمان)) (صحیح مسلم، ص۵۱، کتاب الإیمان، باب کون
النہی من الإیمان إلخ، رقم: ۴۹) ترجمہ : ((تم میں سے جو شخص
کسی برائی کو دیکھے؛ تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے، اس کی استطاعت نہ ہو؛ تو اپنی زبان
سے اسے ختم کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو؛ تو اپنے دل سے اس کو برا جانے اور یہ
ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے))
شرح
حدیث: اس حدیث کی شرح میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی یہ فکر بیان کردینا ہی کافی ہے،
آپ یہ حدیث پاک: ((کلا
لتأمرن بالمعروف ولتنہون عن المنکر أو لیضربن اللہ بقلوب بعضکم علی بعض ثم لیلعنکم
کما لعنہم)) ذکر
کرنے کے بعد فرماتے ہیں: مگر یہ امر و نہی نہ ہر شخص پر فرض، نہ ہر حال میں واجب؛ تو
بحال عدم وجوب اس کے ترک پر یہ احکام نہیں بلکہ بعض صورمیں شرع ہی اس کے ترک کی ترغیب
دے گی، جیسے جب کہ اس سے کوئی فتنہ اشد پیدا ہوتا ہو، یوہیں اگر جانے کہ بے سود ہے،
کار گر نہ ہوگا؛ تو خواہی نہ خواہی چھیڑنا ضرور نہیں، خصوصا جب کہ کوئی امر اہم اصلاح
پارہا ہو، مثلا کچھ لوگ حریر کے عادی نماز کی طرف جھکے یا عقائد سنت سیکھنے آتے ہیں
اور جب حریر و پابندی وضع میں ایسے منہمک ہیں کہ اس پر اصرار کیجیے تو ہرگز نہ مانیں
گے، غایت یہ کہ آنا چھوڑ دیں گے، وہ رغبت نماز و تعلم عقائد بھی جائے گی تو ایسی حالت
میں بقدر تیسر انہیں ہدایت اور باقی کے لیے انتظار وقت، و حالت ترک امر و نہی بلکہ
اسی کی تدبیر و سعی ہے (فتاوی رضویہ، کتاب الحظر و الإباحۃ، ج۹
ص ۲۱۶،
ط: نوری دار الاشاعت، بریلی شریف)
الفتاوی
الھندیۃ میں ہے: ’’
إن الأمر بالمعروف علی وجوہ، إن کان یعلم بأکبر رأیہ أنہ لو أمر بالمعروف یقبلون
ذلک منہ و یمنعون عن المنکر فالأمر واجب علیہ ولایسعہ ترکہ و لو علم بأکبر أنہ لو
أمرہم بذلک قذفوہ و شتموہ فترکہ أفضل، و کذلک لو علم أنہم یضربونہ و لایصبر علی
ذلک ویقع بینہم عداوۃ ویہیج منہ القتال فتوکہ أفضل، و لو علم أنہم لو ضربوہ صبر علی
ذلک و لایشکو إلی أحد فلا بأس بأن ینہی عن ذلک و ہو مجاہد و لو علم أنہم لایقبلون
منہ و لایخاف منہ ضربا و لا شتما فہو بالخیار والأمر أفضل کذا فی المحیط‘‘- (الباب
السابع عشر فی الغناء واللہو وسائر المعاصی والأمر بالمعروف، ج۵ص۳۵۲)
فتوی جاری کرنے میں احتیاط
ضروری
حضرت
عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار
میں سے ایک سو بیس لوگوں کا زمانہ پایا، ان میں سے کسی ایک سے مسئلہ کے بارے میں پوچھا
جاتا؛ تو وہ دوسرے کے پاس بھیج دیتے اور وہ دوسرے تیسرے کے پاس بھیج دیتے، اسی طرح
سلسلہ جاری رہتا، یہاں تک کہ پھر پہلے ہی کے پاس مسئلہ واپس آجاتا‘‘ (المجموع شرح
المہذب، امام نووی رحمہ اللہ، باب آداب الفتوی و المفتی و المستفتی، ج۱ص۴۰،
دار الفکر، مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۴)
انصار
میں سے ایک سو بیس صحابہ کرام ایسے تھے جن سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جاتا؛ تو
فتوی اور حکم شرعی کی اہم ذمہ داری کے پیش نظر اس سے بچنے کی کوشش کرتے اور فتوی جاری
نہیں کرتے!
امام
اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر
علم ضائع ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کی جانب سے خوف نہ ہوتا؛ تو میں فتوی نہیں دیتا،
سوال کرنے والوں کے لیے خوشی کا باعث ہوگا اور جواب دہ مجھے ہونا پڑے گا‘‘ (المجموع
شرح المہذب، امام نووی رحمہ اللہ، باب آداب الفتوی و المفتی و المستفتی، ج۱ص۴۱،
مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۵)
امام
اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات بابرکت کا بلند و بالا مرتبہ ہر کس و ناکس پر روز ورشن
کی طرح واضح ہے، اس کے باوجود آپ فتوی صادر نہ کرنے اور حکم شرعی نہ بتانے کے بارے
میں سوچ رہے ہیں!
حضرت
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی، فرماتے ہیں:
’’جو
ہر سوال کے بارے میں فتوی جاری کرے وہ مجنون ہے‘‘ (المجموع شرح المہذب، امام نووی رحمہ
اللہ، باب آداب الفتوی و المفتی و المستفتی، ج۱ص۴۰،
مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۴)
اس
قول مبین سے واضح طور پر یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ مفتی کو ہر سوال کا فتوی نہیں دینا
چاہیے، اگر وہ ایسا کرتا ہے؛ تو وہ مجنون ہے؛ لہذا اگر کوئی مفتی کسی مسئلہ کا جواب
نہ دے یا کسی مسئلہ پر دستخط نہ کرے؛ تو وہ مستحق لعن و طعن نہیں۔
فتوی بیان کرنا فرض کفایہ
حکم
شرعی بیان کرنا اور فتوی صادر کرنا فرض کفایہ ہے، یعنی ہر ہر مفتی کا بیان کرنا ضروری
نہیں، بلکہ بعض نے بیان کردیا؛ تو سب سے ذمہ داری ساقط ہوگئی، امام نووی علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں:
’’فتوی
دینے والا فرض کفایہ کی ذمہ داری نبھانے والا ہے‘‘ ((المجموع شرح المہذب، امام نووی
رحمہ اللہ، باب آداب الفتوی و المفتی و المستفتی، ج۱ص۴۰،
مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۴)
مسئلہ کا جواب معلوم ہونے
کے باوجود سکوت
امام
شافعی رحمہ اللہ سے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، آپ نے جواب نہیں دیا، اس کے بارے
میں آپ سے کہا گیا؛ تو آپ نے فرمایا:
’’یہاں
تک کہ میں جان لوں کہ بھلائی کثرت جواب یا خاموش رہنے میں ہے‘‘(المجموع شرح المہذب،
امام نووی رحمہ اللہ، باب آداب الفتوی و المفتی و المستفتی، ج۱ص۴۰،
مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۵)
امام
شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول روز روش کی طرح اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو مسئلہ
کا جواب معلوم تھا مگر پھر بھی آپ نے اس مسئلہ کا جواب دینے سے احتراز کیا! مگر کسی
نے آپ کے اس طریقہ کار پر انگشت نمائی نہیں کی!
حضرت
اَثرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں
نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو ’لا أدری‘ یعنی میں نہیں جانتا،کثرت سے کہتے ہوئے
سنا، آپ کا یہ جواب ان مسائل کے بارے میں ہوتا جن میں مفتیان کرام کے اقوال مشہور
و معروف ہوتے‘‘(المجموع شرح المہذب، امام نووی رحمہ اللہ، باب آداب الفتوی و المفتی
و المستفتی، ج۱ص۴۰، مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی،
ص۵)
حضرت
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان مسائل جن کے بارے میں اقوال علما مشہور تھے، فرمایا:
میں نہیں جانتا، مسائل کے متعلق اقوال علما مشہور ہونے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ
اللہ کا یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا، اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ
آپ ان مسائل کے بارے میں اظہار راے نہیں فرمانا چاہتے تھے، مگر کسی نے جواب دینے پر
دباؤ نہیں ڈالا اور نہ ہی جواب نہ دینے کی وجہ سے ان پر کسی نے لعن و طعن کیا!
امام
شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں
نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس میں اللہ تعالی نے فتوی دینے کی وہ خوبی جمع فرمائی
جو حضرت ابن عیینہ رحمہ اللہ میں فرمائی تھی، مگر اس کے باوجود میں نے انہیں فتوی دینے
سے زیادہ تر سکوت اختیار کرنے والا پایا‘‘ (المجموع شرح المہذب، امام نووی رحمہ اللہ،
باب آداب الفتوی و المفتی و المستفتی، ج۱ص۴۱،
مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۵)
امام
اجل حافظ ابن عیینہ رحمہ اللہ کے اندر اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے فتوی دینے کا
اہل بنایا تھا، اس کے باوجود آپ اکثر فتوی دینے سے احتراز فرماتے!
حضرت
صیمری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر
استفتا کے کاغذ میں چند مسائل ہوں اور مفتی نے ان میں سے بعض کو سمجھا اور بعض کو نہیں
سمجھا یا سب مسائل سمجھ گیا مگر ان میں سے بعض مسائل کے جواب نہ دینے کا ارادہ کیا
یا ان میں سے بعض کے بارے میں غور و فکر یا مطالعہ کی ضرورت محسوس کی؛ تو جس کا چاہے
جواب دے اور باقی سے خاموش رہے اور کہے: باقی میں تامل ہے یا مزید غور و فکر کی ضرورت
ہے‘‘ (المجموع شرح المہذب، امام نووی رحمہ اللہ، فصل فی آداب الفتوی، ج۱ص۵۲،
مقدمۃ شرح عقود رسم المفتی، ص۵۲)
مسائل
کے جواب معلوم ہیں، اس کے باوجود مفتی کو اختیار ہے کہ وہ جس مسئلہ کا چاہے جواب دے
اور جس مسئلہ کے جواب کا ارادہ اس کا جواب نہ دے، مفتی اپنے اس طریقہ پر لعن و طعن
کا مستحق نہیں اور نہ ہی اس کی وجہ سے اس کے عہدہ پر کوئی فرق پڑتا ہے!
والد
ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ کے زمانہ میں اشرفی اور رضوی کے درمیان اختلافات کتنے
بامے عروج پر تھے، کون نہیں جانتا؟! یہاں تک کہ بعض رضوی حضرات نے اعلی حضرت علیہ الرحمہ
کی راے کے خلاف اشرفی حضرات کے سید ہونے کا انکار کردیا! اور بعض اشرفی حضرات نے اپنے
اس اختلافات میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کو بھی نہیں چھوڑا! فروعی مسائل کی وجہ افراط
و تفریط کی حد ہوگئی تھی، مگر حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ اگرچہ اس طریقہ کار سے نالاں
تھے، لیکن چونکہ یہ اہل سنت و جماعت کے فروعی مسائل کا معاملہ تھا؛ اس لیے آپ نے نہ
تو کسی کے خلاف کوئی تقریر کی اور نہ ہی کسی کے خلاف آپ کی کوئی تحریر وجود میں آئی،
کوئی شاید یہ کہنے کی کوشش کرے کہ شاید حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ کو اس کے بارے علم
نہ رہا ہو، مگر میں اس سے گزارش کروں گا کہ حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ کی ذاتی لائبریری
میں رکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرو، راے بدل جائے گی، آپ کو ساری چیزوں کا علم تھا،
اس کے باوجود آپ نے اس شدید اختلاف کے بارے میں سکوت فرمایا!
حضور
فقیہ ملت علیہ لرحمہ کے نزدیک بھی اہل سنت و جماعت کے آپسی اختلافی مسائل میں خاموشی
اختیارکرنا، اس کے متعلق تقریر نہ کرنا، کوئی تحریر نہ دینا اور فتوی صادر نہ کرنا
جائز و درست ہے۔
تکفیر مسلم میں سکوت
لیکن
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ضروریات دین اور اصول عقائد میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو؛
تو اس میں بھی تاویل کی جائے؛ کیوں کہ ایسا شخص کافر ہے، اس میں کسی طرح کی تاویل مسموع
نہیں، بلکہ اگر کوئی اس کے بارے میںشک کی بنا پر سکوت اختیار کرے؛ تو اسے بھی کافر
ہی قرار دیا جائے گا۔
امام
ابوحامد غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر
اس کی تاویل ایسے امر کے بارے میں ہے جس کا تعلق اصول عقائد اور اس کے معمات سے نہیں
ہے؛ تو ہم اس کی تکفیر نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر اس کی تاویل کا تعلق اصول عقائد
مہمہ سے ہو؛ تو اس شخص کی تکفیر واجب ہے جو کسی دلیل قاطع کے بغیر ظاہری حکم کو بدلتا
ہے‘‘ (مجموعہ رسائل، امام غزالی رحمہ اللہ، ص ۲۶۳، ۲۶۴،
ط: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر)
امام
ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تمام
مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گالی
دینے والا کافر اور اس کا حکم قتل ہے، اور جو اس کے عذاب و کفر میں شک کرے؛ تو اس نے
بھی کفر کیا‘‘ (رد المحتار، ابن عابدین رحمہ اللہ، کتاب الجہاد، باب المرتد، ج۶
ص ۳۷۰)
البتہ
اگر ضروریات دین کے علاوہ مسائل کی وجہ سے کفر کا مسئلہ ہے؛ تو حتی الامکان اس کی تکفیر
سے بچا جائے، اگر تاویل کی گنجائش ہو؛ تو تاویل کی جائے یا اگر کوئی سکوت اختیار کرنا
چاہتا ہے؛ تو اسے اس کی اجازت ہے۔
امام
ابوحامد غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رہی
وصیت تو یہ ہے کہ حتی الامکان اہل قبلہ کی تکفیر سے زبان کو روکو، جب تک کلمہ طیبہ
کی مخالفت کے بغیر اس کے قائل ہیں اور اس کی مخالفت یہ ہے کہ وہ کسی عذر یا بغیر کسی
عذر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کذب کو جائز قرار دیں؛ اس لیے کہ تکفیر
میں خطرہ ہے اور سکوت میں کوئی خطرہ نہیں‘‘ (مجموعۃ رسائل، امام غزالی رحمہ اللہ، ص
۲۶۵)
نیز
امام ابوحامد غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور
یہ گمان کرنا مناسب نہیں کہ تکفیر اور عدم تکفیر کا ادراک ہر جگہ قطعی طور پر ہوتا
ہے، بلکہ تکفیر حکم شرعی ہے جو مال اور خون بہانے کو مباح کرتا ہے اور ہمیشہ جہنم میں
رہنے کا پروانہ سناتا ہے، اس کا ماخذ تمام احکام شرعیہ کے ماخذکی طرح ہے، کبھی یقین
تو کبھی ظن غالب سے حاصل ہوگا اور کبھی اس میں تردد پیدا ہوگا اور جب تردد حاصل ہو؛
تو اس کے بارے میں تکفیر سے توقف اولی ہے اور تکفیر میں جلد بازی ایسی طبیعت کے مالک
پر غالب ہوتا ہے جن پر جہل کا غلبہ ہوتا ہے‘‘ (مجموعہ رسائل، امام غزالی رحمہ اللہ،
ص۲۶۶)
اس
کی سب سے بہترین مثال یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یزید پلید پر لعنت بھیجتے
اور اس کی تکفیر فرماتے ہیں مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ یزید پلید کی لعنت و
تکفیر سے احتیاطا سکوت فرماتے ہیں۔
اعلی
حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں :
’’لہذا
امام احمد اور اس کے موافقین اس پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی
عنہ لعن و تکفیر سے احتیاطا سکوت کہ اس سے فسق و فجور متواتر ہیں، کفر متواتر نہیں
اور بحال احتمال، نسبت کبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر‘‘ (فتاوی رضویہ، ج۶
ص ۱۰۷)
دور
حاضر میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ماضی میں فیورک کے تقریبا متفق علیہ کفریہ مسئلہ
کے متعلق کسی دار الافتاء سے فتوی صادر ہونے کی وجہ سے نالاں تھے اور سکوت کی صورت
اختیار کرکے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ میں زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کہاں فتوی دینا
دار الافتاء کے لیے مضر اور کہاں مفید ہے؛ اس لیے اس طرح کے فتاوی میری اجازت کے بغیر
دار الافتاء سے صادر نہ کیے جائیں، اس وقت حواریوں مواریوں کی بھی زبانیں گنگ تھیں،
ایک لفظ بھی بولنے کی جرأت نہیں کرسکے کہ آپ تقریبا متفقہ علیہ کفر کے بارے میں ایسا
کیوں کہ رہے ہیں؟! مگر آج یہی بعض افراد مختلف فیہ مسئلہ یا بر سبیل تنزل مختلف فیہ
کفر کے فتوی پر دستخط کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں بلکہ علما کی ایک ٹولی لے کر زبر دستی
دوسروں سے اظہار راے کروانا چاہتے ہیں!! اور حواری مواری بھی پیش پیش ہیں!! الحفظ و
الامان۔
مگر
وہی ہے کہ آپ تقریبا متفق علیہ مسئلہ میں سکوت و خاموشی اختیار کریں بلکہ ترغیب دلائیں؛
تو مصلحت شرعیہ ہے، عین مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل و جماعت کے موافق ہے اور اگر
دوسرے لوگ اولی و افضل یا غیر اولی و افضل پر عمل کرتے ہوئے مختلف فیہ مسئلہ یا بر
سبیل تنزل مختلف فیہ کفر کے بارے میں سکوت و خاموشی اختیار کریں یا تکفیر نہ کریں؛
تو فضیحت، شریعت اسلامیہ کے خلاف، مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت و جماعت کے خلاف
اور گردن زدنی کے مستحق ہیں! !
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری
ہے
مندرجہ
بالا بیان سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:
(۱) فتوی
دینے میں احتیاط ضروری ہے، اگر کوئی احتیاط کی بنا پر خاموش رہے؛ تو یہ اس کا حق ہے
(۲) فتوی دینا فرض کفایہ ہے، اگر کسی نے فتوی دے کر فرض
کفایہ ادا کردیا؛ تو دوسرے پر فتوی دینا ضروری نہیں (۳)
مسئلہ
کا واضح جواب معلوم ہونے کے بعد بھی ایک مفتی کو خاموش رہنے اور جواب نہ دینے کا اختیار
ہے (۴) اصول عقائد میں سے کسی ایک کے منکر کی تکفیر کی جائے
گی، اس کے بارے میں شک کی بنیاد پر توقف کرنے والا خود کفر کا مرتکب ہوگا (۵) اصول
عقائد کے علاوہ کسی تکفیری مسئلہ میں تردد ہو؛ تو تکفیر میں توقف اولی ہے (۶) تکفیر
میں جلد بازی جہالت سے مغلوب ہونے کی علامت ہے۔
جو
لوگ اصول فتوی پڑھے یا پڑھ کر بھول گئے وہ اصول فتوی کے خلاف کام کریں اور جہل مرکب
کے شکار ہونے کی جوہ سے اوندھے منھ کھائی میں گریں؛ تو سمجھ میں آتا ہے، اس میں کوئی
تعجب کی بات نہیں؛ کیوں کہ جہل مرکب کے شکار کا انجام کھائی میں گرنے کے سوا کچھ نہیں،
مگر وہ لوگ جو اصول فتوی سے واقف ہونے کے باوجود اصول فتوی کی خلاف ورزی کرتے ہیں،
ان کو کیا کہا جائے؟! سواے اس بات کے کہ اتباع نفس و ہوی، سستی شہرت و عزت اور مچھر
سے کمتر دنیا کے کچھ جز حاصل کرنے لیے ایسا کرتے ہیں! اصول فتوی صرف پڑھنا کافی نہیں
بلکہ پڑھ کر عمل کرنا بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ پڑھائی عمل کے بغیر لایعتد بہ ہے، اللہ
تعالی ہم سب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی
مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف،
مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن،
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:
8318177138
(تقدیم سالنامہ مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی)
(تقدیم سالنامہ مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی)
No comments:
Post a Comment