مبسملا و حامدا و مصلیا
و مسلما
اہل علم پر یہ پوشیدہ نہیں
ہے کہ از روئے اصطلاح حدیث مصطفی ﷺ کی متعدد قسمیں ہیں، بلکہ رئیس المحدثین حافظ ابو
بکر محمد بن موسی حازمی علیہ الرحمہ متوفی ۵۸۴ھ نے تو حدیث کی
سو قسمیں بتائی ہیں،اور ساتھ ہی یہ فر مایا ہے کہ ہر قسم کے لئے کم از کم ایک شخص کی
پوری عمر درکار ہے ۔دوسرے علوم کی مانند اس علم کے ماہرین نے بھی ان تمام اقسام پر
سیر حاصل گفتگو کی ہے، حدیث کی انہیں اقسام میں سے ایک قسم ’’حدیث معل‘‘ کے نام سے
جانی جاتی ہے، حدیث کی یہ قسم تمام قسموں میں دشوار ترمانی جاتی ہے، کیونکہ کسی حدیث
کی علت پر آگاہ ہونا اس فن کے ماہرین ہی کا حصہ ہے، اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ماہر فن
نہیں ہوسکتا، اس قسم کے دشوار ہونے ہی کی وجہ سے اس کے ماہرین کی تعداد بہت کم رہی،
اور دوسرے اقسام کی بنسبت اس قسم پر کام بھی بہت زیادہ نہ ہوسکا، اس فن کے اولیں علماء
میںتابعی جلیل امام محمد بن سیرین(ت ۱۱۰ھ) امام ایوب سختیانی و شعبہ
بن حجاج (ت۱۶۰ھ) یحی بن سعید قطان (ت۱۹۸ھ) یحی بن معین (ت۲۳۳ھ) احمد بن حنبل (ت۲۴۱ھ) بخاری
(ت۲۵۶ھ) مسلم بن حجاج (ت۲۶۱ھ) نسائی (ت۳۰۳ھ) ترمذی (ت۲۷۹ھ) ابن عدی
(۳۶۵ھ) اور دارقطنی (ت ۳۸۵ھ) علیھم الرحمہ وغیرہم کے
اسماء سرے فہرست ہیں،ان ائمہ کے بعد بھی بعض دیگر محدثین نے اس فن میں قابل ذکر کاوش
فرمائی، اوریہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، یہاں تک کہ علامہ زین الدین عبد الرحمن بن رجب
حنبلی صاحب’’ شرح علل الترمذی‘‘ متوفی ۷۹۵ھ اس دقیق فن پر
کلام کرنے والے علماء کی آخری کڑی شمار کئے گئے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ابن
رجب حنبلی علیہ الرحمہ کے بعد اس فن کا دروازہ بند ہوگیا، نہیں بلکہ اس کے بعد بھی
محدثین کرام مثلا استاذ المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی(ت۸۵۲ھ)محمد بن عبد الرحمن
سخاوی (ت۹۰۲ھ)اورابو بکر جلال الدین سیوطی(ت۹۱۱ھ)
رحمھم اللہ و غیرہم کو اس فن کے ماہرین میں شمار کیا گیا ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان
کی تصنیفات اول الذکر علماء کی تصنیفات کا عطرو خلاصہ ہیں،ان حضرات نے اس فن میں کوئی
خاص اضافہ نہ کیا،مگر بایں ہمہ ان کی کاوشیں متاخرین علماء کے لئے مشعل راہ کی حیثیت
رکھتی ہیں،اور تا ہنوز ان محدثین عظام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علمائے کرام کے ذریعہ’’
حدیث معل‘‘ پر کلام کرنے کا سللسہ جاری و ساری ہے، اور انشاء اللہ تعالی قیامت تک جاری
رہے گا۔ حدیث کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے قارئین
کو محدثین کی خدمات اور علم حدیث کے اصول و ضوابط سے روسناش کراسکیں، راقم السطور کی
یہ حقیر کاوش بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، مگر اس مرتبہ مصروفیت کے باعث صرف’’ ڈاکٹر
احمد محمد علی بیومی مصری استاذ شعبہ حدیث، جامعہ ازہر شریف‘‘ کی کتاب ’’اتحاف ذوی
المقل ببیان حدیث المعل‘‘ کا خلاصہ و وضاحت ہدیہ ناظرین کررہا ہوں، اللہ رب العزت سے
دعاء ہے کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے
اور خلوص کے ساتھ اس کی خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سید الرسلین صلی اللہ
علیہ وسلم۔
حدیث
معل کی لغوی تعریف:
محدثین
کرام نے اس حدیث کو تین ناموں سے یاد کیا ہے: معل، معلول، معلل، علم صر ف کے قواعد
کے اعتبار سے اس حدیث کو معل ایک لام کے ساتھ ہونا چاہئے ، کیونکہ یہ اعلہ رباعی باب افعال سے مشتق ہے، اور باب افعال سے اسم
مفعول مفعل کے وزن پر آتا ہے ناکہ مفعول کے وزن پر، اسی لئے علمائے لغت نے اسے معلول
کہنے سے منع کیا ہے، مگر امام بخاری، ترمذی، حاکم اور دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہم نے
لفظ معلول کا استعمال کیا ہے، اسی طر ح ابو اسحاق زجاج لغوی نے بھی معلولکا اطلاق کیا
ہے، جس سے اس کو معلول کہنے کا جواز فراہم ہوتا ہے، اسی لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
نے اپنی کتاب کا نام (الزہر المطلول فی الخبر المعلول) رکھا ہے،اسی طرح بعض محدثین
نے اس کے لئے علل باب تفعیل استعمال کر کے معلل بھی کہا ہے، جو بطور استعارہ جائز ہے۔(۱)
حدیث معل کی اصطلاحی تعریف: وہ حدیث جو بظاہر صحیح ہو مگر غور
کرنے پر اس میں کوئی علت (عیب) قادحہ (جو ضعف کا سبب ہو) پائی جائے جس کی وجہ سے اس
حدیث کو ضعیف قرار دے دیا جائے۔
علت
کی لغوی تعریف :علت کو لغت میں ایسے مرض کو
کہتے ہیں جو مریض کو دوسرے کاموں سے روک دے ، اس کی جمع’ علل‘ آتی ہے جیسے ’ سدرۃ‘
کی جمع ’سدر‘ آتی ہے، چنانچہ بولا جاتا ہے :اعلہ اللہ فعل فھو معلول (۲)
علت
کی اصطلاحی تعریف : یہ ایسا خفی اور غامض سبب ہے جو حدیث کی صحت پر مؤثر ہوتا ہے،
حالانکہ حدیث اپنی ظاہری ہیئت کے اعتبار سے اس طرح کے سبب سے خالی نظر آتی ہے۔
اس
تعریف سے واضح ہوگیا کہ حدیث کے معلول یا معل ہونے کے لئے اس میں دو شرطیں
پائی
جانا ضروری ہیں:(۱) علت مخفی ہو جو ہر کس و ناکس پر ظاہر نہ ہوسکے(۲)اور
حدیث کی صحت سے مانع ہو۔اگر ان دونو ںمیں سے کوئی بھی علت مفقود ہوئی مثلا علت خفی
نہیںبلکہ ظاہر ہے یا علت خفی ہے مگر قادح نہیں تو اس طرح کی حدیث کو محدثین کرام کی
اصطلاح میں حدیث معلول یا معل نہیں کہا جاتا ہے(۳)
ؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑؑ علل کن حدیثوں میں پائی جاتی ہیں؟: علتیں ان حدیثوں
میں پائی جاتی ہیںجو بظاہر شروط صحت کی جامع ہوتی ہیں،رہی ضعیف حدیثیں تو وہ بذات خود
مردود ہیںان کی علت معلوم کرنے کی ضرورت نہیں(۴)
فن
علل حدیث :
ؑؒ علل حدیث کا فن بہت
وسیع ہے، اس کی و سعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں:’’حدیث کے صحیح اور سقیم کی وجوہات میں سے ایک وجہ ثقات کا پہچاننا اور اسناد یا
وصل و ارسال یا وقف و رفع میں اختلاف کے وقت ان بعض ثقات کا بعض پر ترجیح دینا بھی
ہے‘‘ (۵) احادیث کریمہ میں تعارضات واختلافات بکثرت موجود ہیں
جو محدثین و محققین کی نظر سے پوشیدہ نہیں،یقینا ان کے درمیان توجیہ و ترجیح دینے کے
لئے وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ دقت نظری ، تفکر و تدبراور صبرو تحمل کا ہونا بہت ضروری
ہے۔
علت
کی معرفت کا طریقہ:علت کی معرفت کے متعددطریقے ہیںجو مندرجہ ذیل ہیں:
علت
کی معرفت کا پہلا طریقہ:حدیث کی تمام سندیں یکجا کر نے کے بعد ان کے تمام راویوں کی
قوت حافظہ ، یاد داشت اور اختلافات کا تقابلی جائزہ لیا جائے ۔امام احمدبن حنبل رحمہ
اللہ فرماتے ہیں : ’’جب تک حدیث کے تمام طرق کو جمع نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس
کے سمجھنے میں مشکلیں پیش آتی رہیں گی ،کیونکہ بعض حدیثیں بعض کی توضیح وتفسیر کرتی
ہیں‘‘۔
(ص۷۸)علت
کی معرفت کا دوسرا طریقہ:
اس
راوی کا تعین کرنا جس پر حدیث کی متعدد سندیں اکٹھی ہوجاتی ہیں، ایسے راوی کو محدثین
کی اصطلاح میں ’’مدار سند‘‘ کہتے ہیں۔
محدثین مدارسند پر گفتگو کرتے وقت بعض اصطلاحات کا
استعمال کرتے ہیں مثلا مدار اور مخرج وغیرہ ، اس لئے جب مدار سند کی بات آہی گئی ہے
تو بہتر سمجھتا ہوں کہ حدیث معلول کے اقسام بیان کرنے سے پہلے ان کی اصطلاحات کا ذیل
میں اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے:
حدیث
یا سند کے مدار کی لغوی تعریف:کسی شیء کے دوران کی جگہ کو مدار کہتے ہیں (۶)
حدیث
یا سند کے مدار کی اصطلاحی تعرف : وہ راوی جس کے پاس جاکر ساری فرعی سندیں مل جاتی
ہوں ، اور وہ راوی اس حدیث کی روایت کرنے میںمنفرد ہو،اور یہ انفرادیت صحابی یا تابعی
وغیرہ تک برقرار رہے۔
مدار
کی معرفت کا فائدہ:اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ حدیث کے علت کی معرفت حاصل ہوجاتی
ہے، جس کے سبب حدیث پر حکم لگانا آسان ہوجاتا ہے،کیونکہ راوی مدار حدیث اگر ضعیف ہے
تو حدیث ضعیف قرار پائے گی،یا یہ کہ ثقہ ہے مگر دوسرے ثقات نے اس ایک ثقہ کی مخالفت
کی ہے،تو اس صورت میںاس ایک ثقہ راوی کی روایت مرجوح ہوگی اور ثقات کی روایت راجح قرار
پائے گی۔
مدار
حدیث کی مثال :
کتاب
بدء الوحی میں بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے،امام بخاری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:حدثنا الحمیدی
عبد اللہ بن الزبیر قال حدثنا سفیان قال حدثنایحی بن سعید الانصاری قال اخبرنی محمد
بن ابراہیم التیمی انہ سمع علقمۃ بن وقاص اللیثی یقول سمعت عمر بن الخطاب رضی اللہ
عنہ علی المنبر قال: سمعت رسول اللہﷺ یقول :انما لکل امری ما نوی فمن کانت ہجرتہ الی
دنیا یصیبھااو امراۃ ینکحھافہجرتہ الی ما ھاجر الیہ۔
اس
حدیث کو رسول اکرم ﷺسے کئی صحابہ نے روایت کیا ہے مگر سند صحیح کے ساتھ صرف حضرت عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، آپ سے صرف حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ نے،
ان سے صرف محمد بن ابراہیم تیمی رضی اللہ عنہ نے، اور ان سے صرف یحی بن سعید قطان رضی
اللہ عنہ نے،پھر آپ سے سیکڑوں محدثین نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
مذکور
بالا حدیث میں مدار حدیث کون؟:مذکور بالا حدیث میں یحی بن سعید قطان رضی اللہ عنہ ایسے
راوی ہیں،جن کے پاس جاکر ساری فرعی سندیں ملتی ہیں، محمد بن ابراہیم تیمی رضی اللہ
عنہ سے اس صحیح حدیث کو اسی صورت میں روایت کرنا ممکن ہے جبکہ اسے یحی بن سعید قطان
رحمہ اللہ کے طریق سے روایت کیا جائے، اسی کو محدثین کی اصطلاح میں مدار حدیث کہتے
ہیں ۔
مخرج
کی لغوی تعرف : مخرج خرج یخرج خروجا سے اسم
مکان ہے۔
مخرج
کی اصطلاحی تعریف : اصطلاح محدثین میں’’ مخرج‘‘ سند کے اس حصہ کو کہتے ہیں
جہاں
سے حدیث کا خروج ہوتاہے،لہذا مخرج اصل سند اور راویوں کا وہ مجموعہ ہے جو حدیث کے روایت
کرنے میں منفرد ہو، اس مجموعہ کا پہلا راوی مدار حدیث اور آخری راوی صحابی رسول ہوتے
ہیں۔ اور کبھی مخرج حدیث سے اس حدیث کی تاویل و وضاحت مراد ہوتی ہے، جیسا کہ امام شافعی
رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ میں فر مایا ہے۔
اخراج
کی لغوی تعریف:ظاہر کرنااور واضح کرنا یعنی کسی شیء سے کسی چیز کو نکالنا(۷)
اخراج
کی اصطلاحی تعریف: اس بات کا اظہار کرنا اور بتاناکہ فلاںحدیث فلاں مصنف کی کتاب میںانہیں
کی سند سے مروی ہے ، چنانچہ محدثین کہتے ہیں:اخرجہ البخاری باسنادہ فی کتابہ،اس مادہ
کے اعتبار سے حدیث مخرج ہوگی جو اخرج یخرج اخراجا سے ماخوذہے۔
استخراج
کا معنی و مفہوم :یہ ہے کہ کوئی حافظ حدیث کسی حدیث کی کتاب کو لے ، پھر صاحب کتاب
کی اسناد کے علاوہ اپنی اسناد سے اس کتاب کے احادیث کی تخریج کرے ،اس طور سے کہ حدیث
کی روایت کرنے میں صاحب کتاب کے شیخ یا ان کے شیخ کے شیخ کے ساتھ مل جائے ،اور طریق
اقرب کے ہوتے ہوئے طریق ابعد کو اختیار نہ کرے ، ہاںاگرعلو سند ، کوئی اہم بات یا اس
طرح کی دوسری شیء مقصود ہو تو طریق ابعداختیار کیا جاسکتا ہے۔
تخریج
کا معنی و مفہوم :حدیث کے مخرج جان لینے کے بعد اس کے مخرج کی معرفت حاصل کر نا۔
وجہ
کی لغوی تعریف : عربی زبان میں کسی بھی چیز کے سامنے کے حصہ کو وجہ کہتے ہیں، اس کو
وجہ اس لئے کہا گیا کیونکہ وہ سامنے سے آنے والی ہر چیز کا مواجہہ یعنی مقابلہ کرتا
ہے۔
وجہ
کی اصطلاحی تعریف :وجہ سند کا مرادف ہے یہ لفظ خاص طور سے اس سند کے بارے میں بولا
جاتا ہے جس کے مقابلہ میں دوسری سندیں بھی ہوں،اس اعتبار سے ہر وہ سند وجہ کہلاتی ہے
جو دوسری سند کے مقابل ہو ،اسی لئے محدثین فرماتے ہیں :روی من وجوہ کثیرۃ:یہ حدیث کئی
سندوں کے ساتھ مروی ہے۔
طریق
کی لغوی تعریف :عربی ڈکشنری میںاس کے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں: (۱)ڈھکنے
کے لئے ایک شئی کو دوسری شئی پر ڈالنا (۲)ہر وہ شئی جو زمین
کے او پر ہوتی ہے گویا کہ زمین اس شئی سے ڈھک دی گئی (۳)
شام
کے وقت آ نے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
طریق
کی اصطلاحی تعریف :طریق سند کا مرادف ہے ،راستہ جس طرح چلنے والے کو مقصد تک پہونچا
تا ہے، اسی طرح سند بھی راوی کو متن تک پہونچا دیتی ہے ،یہی محدثین کے نزدیک طریق کہلاتا
ہے (۸)
طریق ’’وجہ ‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، چنانچہ
محدثین کرام فرماتے ہیں :رواہ فلان و فلان من طریق مالک عن الزھری،اور اسی طرح طریق
کا استعمال فرعی سندوں میں ’وجہ ‘کے لئے بھی
کیا جاتا ہے،چنانچہ محدثین عظام فرماتے ہیں :رواہ البخاری من طریق القعنبی عن مالک
و مسلم من طریق یحی بن یحی عن مالک(۹)
علت کی معرفت کے طریقے اور مدار حدیث وغیرہ کی بعض
اصطلاحات معلوم ہوجانے کے بعد اب میں یہاںپر پہلے حدیث معل کی ظہور و خفاء کے اعتبار
سے جو قسمیں ہیں اس کا ذکر کرتا ہوں، اس کے بعد انشاء اللہ اس کی بعض دوسری قسمیں بھی
ذکر کرکے تطبیقی طور پر ان کی بعض مثالیں پیش کر دوںگا، تاکہ فن حدیث سے دلچسپی رکھنے
والوں کے لئے علت حدیث کی معرفت حاصل کرنے اور سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے اور
وہ اسے آسانی کے ساتھ اپنے ذہن و دماغ میں بیٹھا سکیں ۔
سندو
متن اور ظہور وخفاء کے اعتبار سے’’ حدیث معل‘‘ کی تقسیم :
اولا:زیادہ
تر علت سند حدیث اور کبھی کبھی متن میں بھی پائی جاتی ہے :
(أ)اکثر
علت سند میں پائی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں: (۱)سند اور متن دونوں
میں ایک ساتھ قادح ہوتی ہے ،اس کی مثال جیسے حدیث متصل کو مرسل اور حدیث مرفوع کو موقوف
روایت کرنا ۔ (۲)ایسی علت جوصرف سند میں قادح ہوتی ہے ۔ اس کی مثال
جیسے علت کسی حدیث کی سند میں پائی جائے اور قادح بھی ہو، مگر اس حدیث کا متن دوسری
صحیح سند کے ساتھ مروی ہو۔
(ب)کبھی
کبھی علت متن میں پائی جاتی ہے ،اس کی مثال صحیح مسلم شریف میں موجود ہے اور وہ یہ
ہے: روایۃ
الولید بن مسلم حد ثنا الاوزاعی عن قتادۃ انہ کتب الیہ یخبرہ عن ابی بن مالک قال صلیت
خلف النبی ﷺ و ابی بکر و عمر و عثما ن فکا نوایستفتحون بالحمد للہ رب العالمین لا یذکرون
بسم اللہ الرحمن الرحیم فی اول قراء ۃ و لا فی آخرھا۔
امام
ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ایک جماعت نے حدیث کے مذکورہ الفاظ کو اس وجہ سے
معل قرار دیا، کیونکہ اکثر راویوں نے صرف اتنا متن ذکر کیا ہے :فکانوا یستفتحون
القرائۃ بالحمد للہ رب العالمین، اور بسم اللہ پڑھنے اور نہ پڑھنے کا بالکل
ذکرنہیں کیا ، نیزاتنے ہی متن کی تخریج پر امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ کا اتفاق
بھی ہے ۔ نیز فرمایا :جن راویوں نے ’’لا یذکرون بسم اللہ الخ‘‘ کے ساتھ متن کا ذکر
کیا ہے، ان لوگوں نے آپﷺکے قول ’’کانوا یستفتحون بالحمد للہ‘‘
سے
یہ سمجھا کہ وہ لوگ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے ،اور اسی سمجھ کے اعتبار سے حدیث کوبا
لمعنی روایت کیا اور ان سے خطا ء واقع ہوئی‘‘۔
ثانیا:ظہور
و خفاء کے اعتبار سے علت کی دو قسمیںہیں:
(۱)علت
ظاہرہ:ایسی علت کو کہتے ہیں جو حدیث میں کسی ظاہری سبب کی وجہ سے پائی جاتی ہے، جس
کو حدیث کا ابتدائی طالب علم بھی باآسانی معلوم کر سکتا ہے مثلا راوی کا ضعیف ہونا،
حدیث کا منقطع یا مدرج وغیرہ ہونا ۔
(۲)علت
خفیہ :ایسی علت کو کہتے ہیں جس کی معرفت حدیث کی سند و متن میں دقیق بینی سے بحث و
تمحیص بعد حاصل ہوتی ہے، کیو نکہ حدیث بظاہر علت سے خالی ہوتی ہے اور صحت کی تمام شرطوں
کو جامع ہوتی ہے (۱۰) اس کی مثال: جیسے مرسل کو موصول یاموقوف کو مرفوع
روایت کرنا ہے۔
ایک اہم تنبیہ: اصطلاح محدثین میں حدیث معل وہی حدیث
ہوتی ہے جس میںعلت خفیہ پائی جائے ،ساتھ ہی وہ بظاہر علت خفیہ سے محفوظ بھی معلوم ہوتی
ہو، لیکن بعض محدیثین اس حدیث پر بھی معل کا اطلاق کر دیتے ہیں جس میں علت ظاہرہ پائی
جاتی ہو مثلا راوی کا کذاب یا ضعیف ہونا یا حدیث کا منقطع وغیرہ ہونا۔
حدیث معل کا حکم : اگر علت حدیث کی صحت میں سند و
متن کے اعتبار سے قادح ہو تو وہ حدیث قابل قبول نہ ہوگی ،کیونکہ صحت حدیث کے لئے جو
پانچ شرطیںہیں اس میں سے ایک شرط یہاں پر مفقود ہے ،اور وہ ہے حدیث کا علت قادحہ سے
محفوظ رہنا، اور اگر علت ہو مگر قادحہ نہ ہو تو حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔
حدیث
معل کی بعض دوسری قسمیں:
یہ
چھ قسمیں ہیں:(۱)حدیث موقوف و مرفوع کے درمیان تعارض کا ہونا جبکہ
صحیح حدیث کا موقوف ہونا ہے(۲)حدیث کے الفاظ کے درمیان
اختلاف و تعارض(۳) صریح سماعت یا عنعنہ کے ذریعہ سماعت کی نفی(۴)پوری
سند یا بعض سند کا بدل دینا (۵)شیوخ کو جمع کرکے ان کی احادیث
کے الفاظ کو ایک ہی سیاق کے ساتھ ذکر کردینا(۶)
اس
راوی کا مجروح ہونا جس سے ثقہ و ضابط راوی
نے رویت کی ہے ۔
(۱)حدیث
موقوف و مرفوع کے درمیان تعارض، جس میں حدیث موقوف کو راجح قرار دیا گیا ہے، اس قسم
کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
حدیث سعید بن
جبیر عن ابن عمر رضی اللہ عنہ : سئل رسول اللہ ﷺ عن لیلۃ القدر :فقال ھی فی رمضان۔ امام دار قطنی رحمہ
اللہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا ،آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا :’’ابو اسحاق
سبیعی رحمہ اللہ مدار حدیث ہیں،ان سے روایت کرنے والے دو راوی ہیں:ایک موسی بن عقبہ
رحمہ اللہ جنہونے اس حدیث کو مرفوعا روایت کی ہے،دوسرے راوی علی بن صالح رحمہ اللہ
ہیں جنہونے اس حدیث کو موقوفا روایت کی ہے، عالم علل حدیث امام دارو قطنی رحمہ اللہ
حدیث موقوف و مرفوع کے درمیان ترجیح دیتے ہوے فرماتے ہیں: حدیث موقوف ہی قوی ہے‘‘۔
آپ کی فرمودہ عربی عبارت یوں ہے :
یرویہ
ابو اسحاق السبیعی واختلف عنہ:
(أ)
فرواہ موسی بن عقبۃ عن ابی اسحاق عن سعید بن جبیر عن ابن عمر رضی اللہ عنہ عن النبی
ﷺ ۔
(ب)
وخالفہ
علی بن صالح فرواہ عن ابی اسحاق عن سعید بن جبیر عن ابن عمر موقوفا۔ قال الدار قطنی
والموقوف اشبہ (العلل للدارقطنی)
ٰٰٰٰٰ یہ حدیث دو
وجہوں سے موقوفا و مرفوعا روایت کی گئی ہے جیسا کہ امام دار قطنی رحمہ اللہ کے بیان
سے واضح ہے۔وجہ اول راجح ہے یا وجہ ثانی ؟اس کا فیصلہ کر نے کے لئے ضروری ہے کہ ہم
غور کریں، اس حدیث کے مزیدطرق ہیں یا نہیں؟ اور اس حدیث کی کن کن محدثین نے تخریج کی
ہے؟
وجہ
اول حدیث مرفوع کی تخریج:اس کی تخریج امام ابو دائود،طحاوی ،بیہقی، جصاص، ابو نعیم
اور سیوطی رحمہم اللہ سب کے سب نے :’’محمد بن جعفربن ابی کثیر عن موسی بن عقبۃ عن
ابی اسحاق السبیعی بہ‘‘ کے طریق سے ــ مرفوعا روایت کی ہے۔
وجہ
ثانی حدیث موقوف کی تخریج: اس کی تخریج امام طحاوی رحمہ اللہ نے پہلے طریق کے علاوہ
مزید دو طرق سے اور کی ہے :
پہلا
طریق: ابو
نعیم عن حسن بن صالح عن ابی اسحاق السبیعی بہ۔
دوسراطریق:شعبہ والثوری عن ابی اسحاق السبیعی بہ (۱۱)
مزکوربالا
مثال میںوجہ علت :
جب
ہم مرفوع و موقوف کے دونوں طریقوں کو ناقدین کی نظر سے دیکھتے ہیں تو واضح ہو جاتا
ہے کہ اس مثال میں راجح حدیث موقوف ہے، اور اس کے راجح ہونے کی تین وجہیں ہیں۔
پہلی وجہ:حدیث کے موقوف ہونے پر علی بن صالح کی متابعت
ان کے بھائی حسن بن صالح،شعبہ اور ثوری رحمہم اللہ نے کی ہے۔دوسری وجہ: تین راویوں
کا ایک راوی سے موقوفا روایت کرنا، ایک راوی کا اس ایک راوی سے مرفوعا روایت کرنے سے
بہتر و اقوی ہے۔تیسری وجہ: ائمہ علل حدیث نے
حدیث موقوف کو حدیث مرفوع پر ترجیح دی ہے،چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے
ہیں:’’اس حدیث کی اصل موقوف ہے، اسی طرح ثبت راویوں نے ابو اسحاق سبیعی سے روایت کی
ہے‘‘-
اورامام دار قطنی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث موقوفا اور مرفوعا روایت کی گئی ہے اور موقوف اشبہ ہے‘‘-
اس تفصیلی بیان سے واضح ہوگیا
کہ حدیث موقوف راجح ہے اور طریق مرفوع طریق موقوف کے جوکہ متابعت پر مشتمل ہے،معارض
ہونے کی وجہ سے طریق مرفوع مرجوح ہے۔
(۲)حدیث
کے الفا ظ کے درمیان اختلاف و تعارض ،اس کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
حدیث
عبداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من سل السیف علی
امتی فلیس من امتی۔
عالم
علل حدیث امام دار قطنی رحمہ اللہ سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا گیا ،آپ نے اس
کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’اس حدیث کے مدار عبید اللہ بن عمر ہیں،ان سے روایت کرنے
والوں نے زیر بحث حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے ، آپ سے روایت کرنے والے
راوی دو طرح کے ہیں:
ٓ (أ) سویدبن عبدالعزیزجنہوں
نے حدیث کو مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔(ب)دوسرے اسماعیل بن زکریا ،یحٰی
قطان اور ابو اسامہ نے سویدبن عبدالعزیزکی مخالفت کرتے ہوئے عبید اللہ بن عمر سے ان
الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے:’’من حمل علینا السلاح فلیس منا‘‘۔
امام
دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اور یہی صحیح ہے، اسی طرح ایوب سختیانی،یٰحی بن
ابی کثیر اور جویریہ بن اسماء رحمہم اللہ نے حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے‘‘۔
امام
دار قطنی رحمہ اللہ کی فرمودہ عربی عبارت ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:یرویہ عبید اللہ بن
عمر ، و اختلف عنہ:
(أ)فرواہ سوید بن
عبد العزیز عن عبید اللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن النبی ﷺ بھذا اللفظ ۔
(ب)وخالفہ اسماعیل
بن زکریا و یحی القطان وابو اسامۃ رووہ عن عبید اللہ عن نافع عن ابن عمر ان النبیﷺقال:’’
من حمل علینا السلاح فلیس منا ۔ قال الدار قطنی: وہوالصواب وکذ لک رواہ ایوب السختیانی
ومالک بن انس ویحی بن ابی کثیر و جویریۃ بن اسماء عن نافع ۔
مذکور
بالا حدیث میں علت کی وجہ سے ایک لفظ کی دوسرے لفظ پر ترجیح:
جب
ہم دونوںمرفوع طریقوں پر غائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو متعدد اسباب کی وجہ سے ’’من حمل
علینا السلاح فلیسا منا‘‘ کے الفاظ کے ساتھ روایت کردہ حدیث راجح نظر آتی ہے۔
پہلا
سبب :پہلا طریق سوید بن عبد العزیز عن عبید اللہ مرجوح ہے ،کیو ں کہ امام احمد بن حنبل
رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق ’’سویدبن عبدالعزیز‘‘ مترو ک الحدیث ہیں، امام بخاری رحمہ
اللہ فرماتے ہیں ــ:عندہ مناکیر، اور
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس راوی کو ثقات کی منزل میں رکھنے کی کوشش کی تھی مگر
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی اس کاوش کو رد کردیا، چنانچہ آپ ان کا تعقب کرتے ہوئے
فرماتے ہیں :لا ولا کرامۃ بل ھو واہ جدا:نہیں سوید بن عبد العزیز ثقہ نہیں بلکہ وہ
شدید ضعیف ہیں۔
دوسرا
سبب :پہلے طریق کے راوی کے الفاظ عبید اللہ کے اصحاب مثلا یحی بن قطان، عیسی، اسماعیل
اور حماد وغیرہ راویوں کے الفاظ کے مخالف ہیں۔ تیسرا سبب: طریق ثانی جو کہ راجح ہے
اس کے الفاظ کے ساتھ حدیث شریف صحیح مسلم شریف میں مروی ہے ، لہذا سوید کی روایت کی
جانب التفات نہ کیا جائے گا۔چوتھا سبب: طریق ثانی کو امام دارقطنی جیسے فن علل حدیث
کے ماہر نے صحیح قرار دیا ہے ،نیز عبیداللہ کی متابعت کرتے ہوئے کبار محدثین مثلا ایوب
سختیانی،مالک، یحی بن ابی کثیر اور جویریہ بن اسما ء رحمھم اللہ نے نافع رضی اللہ عنہ
سے ’’من
حمل علینا السلاح فلیس منا‘‘کے متن کے ساتھ روایت کی ہے۔بہر حال اگر چہ حدیث کے
دونو ں طرق مرفوع ہیںمگر ان تمام اسباب مذکورہ کی وجہ سے طریق ثانی راجح اور طریق اول
مرجوح ہوگا۔باقی چار اقسام کی مثالیں طوالت
کے خوف سے ذکر کرنے سے تہی دامن کرتا ہوں، جن حضرات کو مزید تفصیل درکار ہے یا اور
اقسام کی مثالیں پڑھنا چاہتے ہیں وہ’’ اتحاف ذوی المقل ببیان الحدیث المعل لاحمد محمد
علی بیومی،کی طرف رجوع کریں ، یہ کتاب جامعہ اشرفیہ مبارکپور کی لائبیریری میں ان شاء
اللہ مل جائے گی۔
علت
کے اسباب:
حدیث
میں علت پائے جانے کے بہت سارے اسباب ہیں ، یہاں پر ان میں سے بعض اسباب کا اختصار
کے ساتھ ذکر کیاجاتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)انسانی کمزوری :یہ ایسا سبب
ہے جس سے کوئی بھی انسان محفوظ نہیں، اکثر علتیں اسی کی وجہ سے پائی جاتی ہیں ،امام
ابن معین رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:’’من زعم انہ لایخطی فی الحدیث فھو کاذب‘‘ ۔ترجمہ:جو
شخص یہ سمجھے کہ اس سے حدیث میں غلطی نہیں ہوتی ہے تو وہ خود غلطی پر ہے(۱۲)
(۲)سوء
حفظ اور خفت ضبط: یہ خرابی قوت حافظہ میںخلل کی وجہ سے درپیش آتی ہے، اسی وجہ سے امام
ابن مہدی رحمہ اللہ نے راویوںکو تین قسموں میں بانٹا ہے:
اول
:وہ راوی جو حافظ و متقن ہے اس کی حدیث قبول کرنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ثانی: وہ راوی
جس کو وہم تو ہوتا ہے مگر اس کی اکثر حدیثیں صحیح ہوتی ہیں،لہذا ایسے راوی کی حدیثیں
نہیں چھوڑی جائیں گی ۔ثالث:ایسا راوی جو اکثر حدیثوں میں وہم کا شکار ہوتا ہے، ایسے
راوی کی حدیثیں چھوڑدی جائیں گی(۱۳)
ّ (۳)بعض
آفت اور پریشانی کا لاحق ہونا: جس کی وجہ سے راوی کے ضبط اور قوت حافظہ میں اضطراب
پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے ایک شہر کی روایت دوسرے شہر سے مختلف ہوجاتی ہے۔
(۴)ایسے
راوی جو اپنی کتاب پرا عتماد کر کے روایت کرنے کا التزام کرتے ہیں: لیکن کسی سبب مثلا
سفر یا کتاب کے ضائع ہوجانے سے اپنے قوت حافظہ پر اعتماد کرکے روایت کرنا شروع کردیتے
ہیں، جس کی وجہ سے ان کی روایتوںمیں علت واقع ہو جاتی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
ارشاد فرماتے ہیں: حماد بن سلمہ کی کتاب جس میں وہ قیس بن سعد سے روایت کرتے تھے ضائع
ہوگئی ،پھر وہ اپنے قوت حافظہ پر اعتماد کرکے روایت کرنے لگے، جس کے سبب احادیث روایت
کرنے میںان سے غلطی واقع ہو جاتی تھی۔
(۵)راوی
کا ایسی کتابوںسے روایت کرنا جن کی اسے سماعت حاصل نہیں:
یہ
طریق کار اختیار کرنا بھی احادیث میں علل واقع ہونے کا سبب بنتا ہے ۔اس کی بہترین مثال
امام لیث رحمہ اللہ کی ہے، آپ فرماتے ہیں :میںمکہ میں ابو زبیر رحمہ اللہ کے پاس گیا،
آپ نے مجھے دو کتابیں دیں،میں اسے لے کر واپس ہی ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا،
اگر میں ان کے پاس جاکر پوچھ لیتا کہ ان دونوں کتابوں میں جتنی حدیثیں ہیں سب آپ نے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے یا نہیں،توبہتر ہوتا،یہ خیال آتے ہی
الٹے پاؤں پلٹا، اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دونوں کتابوں کی سماعت کے بارے میں
دریافت کیا ،آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:ان دونوں کتابوں میں بہت سی ایسی حدیثیں
ہیںجس کو میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ،اور بہت سی دیگر ایسی بھی حدیثیں ہیں
جو مجھے ان سے بیان کی گئی ہیں ،میں نے ابوزبیررحمہ اللہ سے عرض کیا:آپ نے جن احادیث
کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اس کی نشاندہی کردیں،آپ نے میری خواہش کے مطابق
نشاندہی کردی،اور وہی میرے پاس موجود ہے(۱۴)
یہاں
سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر امام لیث رحمہ اللہ ابو زبیر رحمہ اللہ کی حضرت جابر رضی
اللہ عنہ سے ذکر کردہ ساری روایتیں لے لیتے تو واہم اور احادیث مدلسہ روایت کرنے والوں
میں شمار کئے جاتے،کیونکہ ابو زبیر رحمہ اللہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے
میںتدلیس کرتے ہیں،مگر چونکہ ابو زبیر رحمہ اللہ نے قدر مسموع بیان کردیا ،اس لئے امام
لیث رحمہ اللہ علت اور خطا میں واقع ہونے سے محفوظ رہے۔
ٍ ان
اسباب کے علاوہ مزید دوسرے اسباب ڈاکٹر احمد محمد علی بیومی نے اپنی کتاب۔’’اتحاف ذوی
المقل ببیان الحدیث المعل‘‘ میںذکر کی ہے، مزید تفصیل کے خواہاں حضرات اس کتاب کی جانب
رجوع کریں۔
علم
علل میں اہم تصانیف:
اگر
چہ علوم حدیث میں یہ قسم دوسرے اقسام کی بنست مشکل اور جہد طلب ہے مگر محدثین کرام
اور جہابذئہ حدیث نے اس پر بھی قدرے کلام کیا ہے جو یقینا آب زر سے لکھنے کے قابل
ہے جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہو چکا،ذیل میں ’’حدیث معل‘‘ پر لکھنے والے بعض علمائے
عظام اور ان کی کتابوں کے اسماء ذکر کرتا ہوں، پھر انشاء اللہ تعالی امام دار قطنی
رحمہ اللہ تعالی اور آپ کی کتاب کا قدرے تفصیلی تعارف پیش کیا جائے گا۔
بعض
کتابوں کے اسما:
(۱) علل
الحدیث ومعرفۃ الرجال لعلی بن المدینی (ت ۲۳۴ھ)
(۲) العلل
لابی محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم (ت ۳۲۷
ھ)
(۳) العلل
لابی بکر احمد بن محمد الخلال (ت ۳۱۱
ھ)
(۴) العلل
الکبیر و العلل الصغیر للترمذی (ت ۲۷۹
ھ)
(۵) العلل
الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ للدارقطنی (ت
۳۸۵ ھ)
(۶) العلل
و معرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل (ت ۲۴۱
ھ)
(۷) العلل
المتناہیۃ فی الاحادیث الواہیۃ لابی الفرج عبدالرحمن بن الجوزی (ت ۵۹۷ ھ )
امام
دارقطنی رحمہ اللہ اور ان کی کتاب ’’العلل‘‘ کا تعارف:
آپ
کااسم گرامی: علی بن عمر بن مہدی البغدادی اور کنیت ابو الحسن ہے، آپ دارقطنی سے جو
بغداد میں ایک محلہ کا نام ہے مشہورہوئے، آپ کی پیدائش ۳۰۶ ھ میں ہوئی۔
امام
دارقطنی رحمہ اللہ تعالی کی شخصیت علم دوست شخصیت تھی، آپ نے علم حاصل کرنے کے لئے
مصر، شام، واسط، کوفہ اور بصرہ وغیرہ کا سفر کیا، اور دیگر علوم کے ساتھ علم علل حدیث
میں خاص مہارت حاصل کی۔ ابو القاسم ازہری رحمہ اللہ تعالی اسی مہارت کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:’’میں نے محمد بن ابی فوارس کو دیکھا ، آپ نے امام دارقطنی سے کسی
حدیث کی علت یا حدیث میں مذکور کسی نام کے بارے میںپوچھا، آپ نے اس سوال کا جواب دینے
کے بعد ارشاد فرمایا:اے ابو الفتح مغرب و مشرق کے درمیان میرے سوا کوئی شخص نہیں جو
اس فن کو جانتا ہو‘‘ (۱۵) آپ کی وفات بروز بدھ ۲؍ذیقعدہ
۳۸۵ ھ میں ہوئی۔
آپ
کی کتاب ’’العلل‘‘ کی اہمیت و افادیت محدثین عظام کے اقوال کی روشنی میں:
امام
بلقینی رحمہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:’’علم علل میں جو کتابیں تصنیف کی گئیں، ان
میں سے سب سے عظیم کتاب ابن مدینی،ابن ابی حاتم اور خلال کی کتاب ہے، اور ان میں سب
سے زیادہ جامع امام دارقطنی کی کتاب ہے‘‘ (۱۶)
حافظ
عبد الغنی بن سعید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی احادیث طیبہ پر اپنے اپنے دور میں کلام کرنے والے لوگوں میں سب سے بہترین افراد
یہ ہیں:علی بن مدینی ، موسی بن ہارون، علی بن عمر دارقطنی رحمہم اللہ تعالی‘‘ (۱۷)
امام
ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اگر تم اس منفر المثال امام کی براعت وعلمی پختگی دیکھنا
چاہتے ہو تو ان کی کتاب ’’العلل‘‘ کا مطالعہ کرو، یقینا تم حیر ت و استعجاب میں پڑ
جاؤگے‘‘(۱۸)
امام
دارقطنی رحمہ اللہ کا اپنی کتاب ’’العلل‘‘ میں گفتگو کرنے کا اسلوب:
(۱)آپ
نے صحابہ کی تقسیم ان سے روایت کرنے والوں کے اعتبار سے کی ہے جیسے: نافع عن ابن عمر،
ابو صالح الاشعری عن ابی امامۃ۔
(۲) آپ
اس راوی کا ذکر کرتے ہیں جس سے اختلاف سند واقع ہوتا ہے، پھر اختلاف کی ساری وجوہات
ذکر کرتے ہیں۔
(۳) کبھی
طریقئہ ترجیح اختیار کر تے ہیں، اور کبھی حدیث کی ساری سندوں کو یکجا کرکے محض اختلاف
ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔
(۴) کبھی
راوی سے واقع شدہ غلطی کی اصلاح کر تے ہوئے فرماتے ہیں:’’حدث بہ فلان عن فلان‘‘ اور
کہتے ہیں: راوی سے یہاں پر وہم ہوا ہے، درست یہ ہے۔
(۵) راوی
کا تفرد بیان کر تے ہیں، مثلا آپ فرماتے ہیں: ’’ تفرد بہ فلان ‘‘ حالانکہ دوسرے راوی
نے اس طرح روایت کیا ہے، اور یہی درست ہے۔
(۶)اور
کبھی حدیث کی پوری سند ذکر نہ کرکے اتنی ہی سند ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جس میں علت موجود ہوتی ہے۔
(۷) کبھی
حدیث کو معل قرار دینے یا راجح ٹھہرانے کی دلیل ذکر کرنے کے ساتھ بقدر ضرورت راوی کے بارے میں جرح و تعدیل بھی بیان کر دیتے
ہیں۔
(۸)کبھی
اجمالی طور پر متعدد راویوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:رواہ فلان و فلان وغیرہم
او آخرون۔
(۹)جس
راوی پر مدار سند ہے اس کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی ان سے روایت کرنے والوں کا
اختلاف بھی بیان
کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر
احمد محمد علی بیومی اپنی کتاب ’’اتحاف ذوی المقل‘‘ میں ۱۵۴؍ علمائے علل حدیث
کا ذکر کیا ہے،اللہ تعالی علمائے کرام و محدثین عظام کے نقش قدم پر چلنے والوں کو اجر
جزیل عطاء فرمائے،اور جنۃ الفردوس میں اعلی تر مقام سے نوازے، اور ہمیں بھی ان ائمہء
کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق مر حمت فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم وعلی آلہ و صحبہ اجمعین۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
مراجع و مصادر
(۲)(المصباح المنیر۴۲۶)
(۳) (تدریب الراوی، ج۱ص۲۹۶۔۲۹۷،مقدمۃابن
الصلاح، ص۹۶۔۹۷)
(۴)(تدریب الراوی ج۱،ص۲۹۶۔۲۹۷،
مقدمۃابن الصلاح ۹۶۔۹۷)
(۵)(شرح علل الترمذی ص۶۶۳)
(۶)(مقیاس اللغۃ۴،۳۱۰۔لسان العرب ی۴
،۴۹۷)
(۷)(مقایس اللغۃ،ج۲،ص۱۷۵)
(۸) (نزھۃ النظر لابن حجر ص۴۱،توجیہ النظر للحزائری
۱ /۸۹)
(۹)(التمھید لابن عبد البر ۱۲/۶۷،الموضوعات لابن
الجوزی ۱/۳۳۱)
(۱۰)(المقنع ص۲۱۲،النکت ص۱۰۳)
(۱)(تدریب الراوی ج۱ص۲۹۴)
(۱۱)(شرح معانی الآثار،ج۳ص۸۴)
(۱۲)(تاریخ الدوری ص ۵۲)
(۱۳)(الکفایۃ للخطیب ص۲۲۷)
(۱۴)(تدریب الراوی،ج۱ ،ص۵۲۹)
(۱۵) (البدایۃ والنہایۃ، ج۱۱ص۳۱۷،
السیر،ج۱۶ص۴۴۹)
(۱۶)(تدریب الراوی،ج۱ص۲۵۸)
(۱۷) (تاریخ دمشق، ج۴۳ص۱۱۰)
(۱۸) (تذکر ۃ الحفاظ، ج۳ص۳۹۳)
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی
مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف،
مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن،
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:
8318177138
(یہ مقالہ جامعہ ازہر
شریف، مصر میں دوران تعلیم لکھا گیا)
No comments:
Post a Comment