Thursday, November 7, 2019

اردو میں جمعہ کا خطبہ ایک جائزہ

                      ۳ ستمبرکو مراسلہ (سہارا اخبار میں) بعنوان فلاں پڑھنے کا موقع ملا، جس میں مراسلہ نگار نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:
            ’’جمعہ کے دن عربی میں خطبہ کے ساتھ، ساتھ اردو میں بھی خطبہ ہونا چاہیے‘‘ ہمارے ایک قریبی بزرگ نے اس مراسلہ کو پڑھ کر فورا تائید کردی کہ اردو میں خطبہ ہونا چاہیے، اس سے عربی زبان نہ جاننے والے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ایسے ہی نہ جانے کتنے ناواقف کار مسلمان بھائی اس مراسلہ کو پڑھ کر، اس کے حق میں تائید و توثیق کر چکے ہونگے، اور اس بات کے خواہاں ہونگے کہ اردو زبان میں بھی خطبہ پڑھا جانا چاہیے۔
            میں خالص لوجہ اللہ مراسلہ نگار اور مراسلہ پڑھ کر جن افراد کے اذہان و قلوب، اس کی موافقت کر رہے ہیں، ان کو بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو یا کسی اور زبان میں خطبہء جمعہ پڑھنا مکروہ اور سنت متوارثہ کے خلاف ہے، حضور اعلی حضرت مجدد اعظم علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: ’’جمعہ کا خطبہ پڑھ کر اردو میں ترجمہ کرنا، جمعہ میں مطلقا مکروہ و نامستحسن، دلیل حکم یہ کہ زمان برکت نشان رسالت سے عہدہ صحابہ کرام و تابعین عظام و ائمہ اعلام تک تمام قرون و طبقات میں جمعہ کے خطبے ہمیشہ خالص زبان عربی میں مذکور و ماثور، اور باآنکہ زمانہء صحابہ میں بحمد اللہ تعالی اسلام صدہا بلاد عجم میں شائع ہوا، جوامع بنیں منابر نصب ہوئے، باوصف تحقق حاجت کبھی کسی عجمی زبان میں خطبہ فرمانا یا دونوں زبانیں ملانا مروی نہ ہوا، تو خطبے میں دوسری زبان کا خلط، سنت متوارثہ کا مخالف و مغیر ہے اور مکروہ‘‘۔ (فتاوی رضیہ:ج۳ص۶۹۲)
             اور رہی بات کہ عربی سمجھ میں نہیں آتی یہ جان لینا از حد ضروری ہے کہ خطبہ کا معنی سمجھنا ضروری نہیں، اور اگر عوام سمجھنا ہی چاہتی ہے تو عربی زبان سیکھے، ہاں موجودہ حالات کے پیش نظر مسجد کے امام حضرات یہ کر سکتے ہیں کہ اذان ثانی سے پہلے خطبہء جمعہ کا ماحصل اردو میں بیان کرکے اس کی توضیح و تشریح کردیں، جیسا کہ عام طور پر امام خطاب کیا کرتے ہیں، اس طرع خطبہء جمعہ عربی میں ہوگا، اور لوگوں کو اردو میں خطبہء جمعہ کے پند و نصائح معلوم ہوجائیں گے۔
            مگر مسلمانوں کے لئے کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جس کے نبی کی زبان عربی، جس کے اسلام کے قوانین کے ماخذ و مراجع کی زبان عربی، جنت کی زبان عربی، آج مسلمان اسی زبان سے اتنا بے بہرہ ہوگیا ہے، اتنی تساہلی برتتا ہے کہ آسان عربی خطبہ کو بکوشش نہیں سمجھ سکتا ہے، آج مسلمان مادی ترقی کے لئے، معاشی حالت بحال کرنے کے لئے، مختلف زبانوں میں عبور حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن مسلمان کیا آج اتنا گیا گزرا ہوگیا ہے ہے کہ اپنے اسلامی ماخذ و مراجع اور اسلامی قوانین کو سمجھنے کے لئے عربی زبان تھوڑی بہت نہیں سیکھ سکتا، ضرور سیکھ سکتا ہے، مگر اس سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے؛ کیونکہ جہاں غیر مسلموں نے ہمیں دوسری زبانوں میں مہارت حاصل کرنے پر مجبور کردیا ہے، وہیں پر ہماری بھی غلطیاں ہیں، جس کی وجہ سے ہم بے دست و پا ہوکر رہ گئے ہیں، ہم اپنے بچوں کو عربی اردو تعلیم دینے سے کتراتے ہیں، اور ابتدا ہی سے اپنے بچوں پر انگریزی اور ہندی کا بھوت سوار کردیتے ہیں، اگر آج ہم اپنے بچوں کو ضرورت بھر عربی تعلیم دئے ہوتے؛ تو یقینا آج اس مطالبہ کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اردو میں بھی خطبہء جمعہ ہونا چاہیے۔ ہماری مسلمان بھائیوں سے اپیل ہے کہ وپ اپنے بچوں کو ہندی اور انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی مہارت حاصل کرائیں، ساتھ ہی عربی کی بھی کم ازکم اتنی تعلیم ضرور دیں کہ اسلامی ماخذ و مراجع جو کہ عربی زبان میں ہیں، انہیں کچھ حد تک سمجھ سکیں، کیونکہ ابھی بہت سی ایسی باتیں ہیں جو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نہیں مل سکتی۔
            مسلمان بے دار ہوں، ہوش کے ناخن لیں، کہیں عربی زبان سے بے اعتنائی کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ ہمارا مسلم معاشرہ یہ مطالبہ کرنے لگے کہ چونکہ عربی زبان ہمارے پلے نہیں پڑتی اس لئے ہماری سہولت کے لئے، نماز اور دیگر اورادو و ظائف میں قرآن شریف کی تلاوت اردو یا کسی اور زبان میں کی جائے!!!

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138

(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) سہارا اخبار کے ایک مراسلہ نگار کے جواب میں لکھا گیا)

احساس ذمہ داری اور عملی اقدام وقت کی اہم ضرورت

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أمابعد!
فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
((ألاکلکم راع وکلکم مسئول عن رعییتہ))
            اس حدیث کی روشنی میں کچھ عرض کرنے سے قبل آیئے ہم اور آپ مل کرنہایت ہی عقیدت کے ساتھ حضور آقاے نامدار دونوں عالم کے مالک و مختار کی بارگاہ بے کس پناہ میں درود وسلام کا نذرانہ پیش کریں: اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد معدن الجود و الکرم و آلہ الکرام و ابنہ الکرام و بارک و سلم۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اسے   جتناہی   دباؤ گے   اتناہی   ابھرے  گا
اسلام  تیری  نبض  نہ   ڈوبے  گی  حشر   تک
تیری  رگوں میں خون  رواں  ہے  چار  یار کا
            میری پیاری ماؤں اور بہنو! میں نے جس حدیث کے پڑھنے کاشرف حاصل کیاہے، اس کاترجمہ یہ ہے کہ یاد رکھو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی یعنی ذمہ داروں سے ان کی اولاد کے بارے میں سوال ہوگا کہ آپ نے اپنے بچوں کو کس راستے پر ڈالاتھا، انہیں کیسی تعلیم دی تھی ؟
            والدین سے پہلے سوال ہوگا؛ کیونکہ بچوں کے بناؤ بگاڑ پر سب سے زیادہ اثر انداز والدین ہی ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ یہی بچوں کی شخصیت میں رنگ و روغن بھرتے ہیں، شکل و صورت کی طرح ان کے اخلاق و عادات، خیالات و  احساسات، جذبات ومیلانات پر بھی والدین ہی کا اثر پڑتاہے۔ بچے جو کچھ والدین خصوصا ماں کی گود میں سیکھ لیتے ہیں، ساری زندگی اس کی گہری چھاپ برقرار رہتی ہے؛ اسی وجہ سے تربیت کی اصل ذمہ داری انہیں پر ڈالی گئی ہے؛ اسی لئے اس ضمن میں زیادہ ذمہ دسری والدہ ہی پر عائد ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں پر بھی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائدہوتی ہے ۔
            دادی اور نانی کی ذمہ داری قابل ذکرہے چونکہ یہ اپنی عمر کے لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں؛ اس لئے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں ۔آپ اپنے چھوٹوں کے لئے نمونہ عمل ہیں، اگر آپ کا قدم صحیح راستے پر ہو؛ تو آپ کے گھر کی بچیوں کاراستہ بھی ٹھیک ہوگا اور آپ کے بگڑ جانے کی صورت میں گھر کی بچیاں بھی بگڑ جائیں گی، آپ گھر کی نگراںہیں ۔اسی لئے اپنی نگرانی اسی طرح انجام دیجئے کہ صبح سویرے اٹھئے اپنی پوتیوں، نواسیوں کو بھی بیدار کیجئے، دیگر ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد خود وضو کیجئے، انہیں وضو کی تلقین کیجئے، پھر انہیں ساتھ لے کر نماز ادا کیجئے، اسی طرح دوسری نماز میں بھی پاکی کے ساتھ نماز ادا کیجئے، ان کی تعلیم وتربیت کا جائزہ لیں اور اپنے مرتبے کے لحاظ سے انہیں اسلامی قصے اور کہانیاں سنائیں تاکہ ان کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو، یہ اسی وقت ہو سکتاہے جب آپ خود تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی ہوں۔
            ماں کی ذمہ داریاں بھی بہت ہی اہم ہیں۔کہاجاتاہے کہ ماں کی گود بچے اور بچیوں کی پہلی درسگاہ ہے، اسی درسگاہ سے انہیں جیسی تعلیم وتربیت ملے گی، وہ اسی سانچے میں ڈھلیں گے ۔اس لحاظ سے ماں کی ذمہ داریاں اپنے بچوں کے لئے کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے، اس بات کو مثال کے ذریعہ سمجھئے، اگر آپ اپنی بچیوں کے ساتھ دیہاتی زبان نہ بولیں بلکہ ان کے ساتھ اردو یاکوئی دوسری زبان بولیں؛ تو ظاہرہے کہ آپ کی بچی جب بولنے کے لائق ہوگی تو اپنی دیہاتی زبان نہیں بولے گی بلکہ اردو یا دوسری زبان بولے گی، ۔بچے اور بچیوں کے اندر نقل کی صلاحیت بہت ہوتی ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس گھر کی عورتیں نماز پڑھتی ہیں، ان کے گھر کی بچیاں اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ نمازپڑھنے کی کوشش کرتی ہیں، جس گھر کی عورتیں گاتی بجاتی ہیں، ان کی بچیاں بھی بچپن ہی سے گانا بجانا سیکھ لیتی ہیں ۔اسی طرح بہنوں اور بھائیوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گھر کے ماحول اور بچوں وبچیوں کو سدھارنے کی کوشش کریں ۔
            اے میری ماؤں اور بہنو! اس دور میں بچے اور بچیوں کو تعلیم، دینی اور دنیوی دونوں ضروری ہے۔ ہمارے بچے اور بچیوںمیں دنیوی کچھ حد تک تو ٹھیک اور بچوںمیں دینی تعلیم بھی کافی حد تک ٹھیک ہے مگر بچیوںمیں بعض علاقوں کوچھوڑ کر دینی تعلیم تو بالکل پائی ہی نہیں جاتی؛ جس کی وجہ سے انہیں روز مرہ کے مسائل بھی نہیں معلوم ہوتے ہیں اور نماز میں پڑھنے کے لئے انہیں آیتیں نہیں یاد ہوتی ہیں، اس پر ہم جتنا افسوس کریں، جتنا روئیں کم ہے ۔ آج ہمارے مخالف خاص طور سے دیوبندی، وہابی کافی بڑھتے جارہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچے اور بچیوں کو ٹھوس دینی تعلیم دیتے ہیں ۔ والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ نے اپنی آخری تقریر میں فرمایاتھا:  کیا وجہ ہے کہ ہمارے اتنے مدارس ہیں، اتنے مقرر ہیں، پھر  بھی دیوبندی بڑھتے چلے جارہے ہیں !؟ اس کا جواب انہوں نے خود ہی دیا: اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ دیوبندی، غیر مقلد اپنے بچوں اور بچیوں کو ٹھوس تعلیم دیتے ہیں، چونکہ بچوں کاذہن بالکل خالی ہوتاہے، جو انہیں بتایا جائے، پڑھایا جائے، ذہن میں بیٹھ جاتاہے، جو پوری عمر برقرار رہتاہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیوبندی وغیرہ سنیوں کے یہاں شادی کرتے ہیں؛ تاکہ انہیں اپنا ہم مذہب بنایا جاسکے؛ لہذا میری ماؤں اور بہنو! ہمیں باطل قوتوں سے ٹکرانے کے لئے اور اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے، اسلام کے قوانین کی پابندی کرنے کے لئے، خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے، ہم خاص طور سے اپنی بچیوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی خوب ٹھوس دیں اور دیوبندیوں کے عقائد معلوم کر کے، ان کے یہاں شادی کرنے سے بعض رہیں اور یہ اسی وقت ہو سکتاہے جب کہ ہم، ہماری بچیاں پڑھی لکھی ہوں؛ تاکہ ہم خداکے فرمان سے سبکدوش ہو سکیں اور اس کے عذاب سے محفوظ رہیں۔
            میری ماؤں اور بہنو! یہ یاد رکھو اگر ایک لڑکی خراب ہو گئی یا جاہل رہ گئی؛ تو پورا خاندان جاہل ہو سکتاہے، پورا خاندان برباد ہو سکتاہے؛ لہذ ابہت ضروری ہے کہ ہم اور آپ اپنی بچیوں کو دینی تعلیم دیں؛ تاکہ وہ اپنے روز کے مسائل خود ہی حل کرسکیں اور اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکیں ۔ یہی بچیاں کل ماں ہوں گی تو اگر یہ خود صحیح راستے پر نہ ہوں گی تو یہ دوسروں کو کیوں کر صحیح راستے پر لاسکتی ہیں؟! لہذا ہمیں اپنی بچیوں کو ضرور دینی تعلیم دینی چاہئے ۔ اللہ جو ستار ہے، رحمان ہے، غفارہے، قہار ہے، اس کے عذاب سے صحیح عمل کرکے اسلام کی نشر و اشاعت کرکے ہم بچیں رہیں۔
            آپ کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوگی کہ جامعۃ الزہراء، آپ کے گاؤں کے قریب ہی کھل رہاہے، اس میں آپ اپنی بچیوں کو بخوبی دینی تعلیم دے سکیں گی، آپ اس جامعۃ الزہراء کو تعاون اور مدد دیں روپئے سے کچھ کام کراکر، خاص طور سے اپنی بچیوں کو اس جامعہ میں بھیج کر اور اعلی تعلیم دے کر حضرت مولانا مسعود احمد مصباحی، مولاناریاض احمد مصباحی، مولاناسراج احمد مصباحی، نثار بھائی اور دیگر لوگوں کی نگرانی میں جامعہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتاچلاجائے اور دیکھتے ہی دیکھتے، اس جامعہ کو پورے ملک میں شہرت حاصل ہوجائے اور دور دور سے لوگ آکر اس جامعہ سے علم دین حاصل کریں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں، ہمارامقصد صرف اور صرف اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کافروغ ہے ۔آج ہی ہمیں عہد و پیمان لے لینا چاہئے کہ ہم اپنی بچیوں کو ایسی تعلیم دیں گے کہ آنے والی جو بچی ماں بنے گی وہ جاہل نہیں ہوگی بلکہ ایک عالمہ ہوگی، جو بچی دادی یا نانی بنے گی یا بہن یا بھابی بنے گی، وہ جاہل یا بدکار نہیں ہوگی بلکہ وہ ایک فاضلہ ہوگی، عابدہ ہوگی، زاہدہ ہوگی تاکہ کل کی مائیں، دادیاں اور نانیاں اپنے بچے اور بچیوں کو خوب اچھی تعلیم دے سکیں ۔
            اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل میں اسلام کے قوانین پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطافرمائے (آمین)

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 8318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) غالبا اپنی بڑی بہن دام کرمہا، اہلیہ شیخ الحدیث حضرت مولانا ریاض احمد برکاتی دام ظلہ کے لیے لکھا تھا)

عصری جامعات کے بعض طلبہ سے ملاقات لمحہ فکریہ

               طالبان علوم نبویہ کا یونیورسٹیز کی طرف رخ کرنا یقینا خوش آئند ہے، مگر بعض حضرات کی سیرت طیبہ دیکھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اگر یہ اس نہج پر گامزن رہے؛ تو اس کا نتیجہ کافی حد تک افسوس ناک ہوسکتا ہے، اس دنیا میں اختلاف کا سبب مختلف طبائع انسانیہ ہیں، ہر شخص اپنی فکر و نظر اور اپنی طبیعت کے مطابق اپنی اپنی سطح کی سوچ کے ساتھ دنیا کے مختلف شعبہ جات میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کوشاں و سرگرداں نظر آتا ہے، ظاہری سبب پر نظر ڈالی جائے؛ تو یقین محکم یہ فیصلہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ اگر اقوام عالم کے اذہان باہم مختلف نہ ہوتے؛ تو شاید نظام کائنات میں یہ روانی اور تابانی نہ ہوتی، اختلاف اذہان ہی کا نتیجہ ہے کہ سماجی، سیاسی اور تشریعی امور کی بعض صورتوں میں ارباب حل و عقد کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، کبھی چھوٹا اپنے سے بڑے، کبھی شاگرد اپنے استاذ کی مخالفت کرتا ہے، بہر حال یہ اختلاف اگر علمی تحقیق و تدقیق کی بنیاد پر ہوں تب تو مخالفت کرنے والا قابل تحسین ہے اور اگر محض یہ اختلافات ذاتیات یا عصبیت یا بلا وجہ وجیہ کسی دوسرے کے دامن کو داغدار کرنے پر مبنی ہوں، تو وہ شخص یقینا قابل توہین ہے، الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، دارالعلوم علیمہ جمداشاہی اور دیگر مدارس سے یونیورسٹیز کی طرف پیش قدمی کرنے والے طلبہ میں سے مجھے پانچ طرح کے طلبہ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے بعض نے اپنی لقا سے میرے دل کو فرحت و انبساط بخشا جس کی خوشی ابھی تک باقی ہے اور کچھ نے اپنی باتوں اور نظریات سے دل برداشتہ کردیا، جس کی تکلیف ابھی تک برقرار ہے، میں اس موضوع پر لکھنے کے لئے قلم اٹھانے کی جسارت نہیں کرتا، مگر حالات نے کچھ صفحہء قرطاس کے حوالے کرنے پر مجبور کردیا، قارئین کرام مضمون پڑھتے ہوئے یہ بات ضرور ملحوظ رہے کہ میرے مخاطب وہی لوگ ہیں، جو اپنے اساتذہ کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کئے یا کرتے رہتے ہیں،یا وہ لوگ جنہوں نے اپنے نظریات و خیالات اور اپنا اسلامی تشخص کھوکر کے علما کی دل آزاری کا سبب بنے اور مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا؛ لہذا وہ لوگ جو حدود شرع کی رعایت برتنے کے ساتھ، مدارس اسلامیہ کے اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، حصول علم میں لگے ہوئے ہیں، انہیں میری اس تحریر سے قطعا دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے؛ کیونکہ وہ اپنے اس طریقہء کار کی وجہ سے قابل مبارکباد ہیں اور جو غلط روش اختیار کر بیٹھے ہیں، انہیں یہ تحریر پڑھنے کے بعد سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، یقینا انہیں احساس زیاں ہوگا، اور وہ اپنی اس روش سے باز آنے میں اپنی سر بلندی سمجھیں گے۔
            (۱)الجامعۃ الاشرفیہ کی ایک تقریب میں شرکت کی غرض سے میرے ایک کلاس فیلو کا ورود مسعود ہوا، تقریب بحسن و خوبی اپنے اختتام کو پہونچ گئی، غالبا اس تقریب میں آں جناب کو کسی استاذ سے تکلیف پہونچ گئی، یہ تکلیف کیسی تھی، اگر میں اس کا ذکر کردوں تو قارئین حضرات ضرور ان کی اعلی ظرفی پر ہنسے بغیر نہ رہ سکیں گے، بہر کیف انہوں نے مجھے اور میرے بعض احباب کو ملاقات کے لائق سمجھا، دوسرے دن ہمارے کمرے میں تشریف لائے، میں نے اور میرے دوستوں نے انہیں اہلا و سہلا اور مرحبا کہا، ہم سب نے سوچا ہمارے حضرت دہلی سے یونیورسٹی کی آب وہوا میں کچھ مہینے گزارکر آئے ہیں، کچھ ہمیں بتائیں گے کہ وہاں کا کیا ماحول ہے، اس لئے کہ بعض حضرات کے بقول یہاں پر ہماری فکریں محدود ہوتی ہیں اور ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں رہتی کہ عالمی یا ملکی پیمانے پر کیا ہورہا ہے اور ہم کوئیں کے میڈک کی طرح ایک پرسکون یا خاموش زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں، بہر حال اسی غرض سے ہم لوگ موصوف کے ارد گرد حلقہ بناکر بیٹھ گئے، ہم نے ان سے کچھ سوالات کئے، جناب والا گویا ہوئے اور انہوں نے بہت سی ایسی مفید اور کار آمد باتیں بتائیں، جس سے ہمیں خوشی ہوئی؛ جس کی وجہ سے ہم نے جناب والا کو مبارکباد بھی دی اور خوشی کا اظہار بھی کیا، لیکن رخصت ہوتے ہوئے، انہوں نے ایک پل میں میری ساری خوشیوں کا خون کردیا، انہوں نے کہا: راجدھانی دہلی میں ہمارے بڑے بزرگ اپنے بچوں کو آگے بڑھاتے ہیں، انہیں خود کی فکر نہیں ہوتی، اس کے بعد اپنے اساتذہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے: ’’یہ سالے حرام خور یا حرامی (بہر حال اسی طرح کوئی جملہ تھا) اپنے طلبہ کو ترقی کی طرف گامزن دیکھنا نہیں چاہتے‘‘۔ اس جملہ کو سنتے ہی میرادل دھک سے ہوگیا، اگر قدرت ہوتی؛ تو میں اپنے ہاتھوں سے محترم کے لبہائے مبارک کا ایسا بوسہ لیتا کہ وہ گلاب کی طرح سرخ نظر آنے لگتے، حسب استطاعت میں نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کہا: اساتذہ کو گالی دینا بجا نہیں، آپ اپنی زبان کو لگام دیں، میرے دوستوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی، وہ صاحب سٹپٹا گئے اور اثبات میں سر ہلانے لگے، معلوم نہیں موصوف کے سر میں جو جنبش پیدا ہوئی تھی، وہ خفگی کے باعث یا خفت کے باعث تھی، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات کہیں ادھر ادھر نہیں بلکہ اسی مادرعلمی کے سایہ تلے کہی، جس نے انہیں کم و بیش آٹھ سال تک اپنی گود میں رکھ کر کھلایا، پلایا، ان کی تعلیم و تربیت اور علمی نشو نما کے لئے حتی المقدور کوشش کی، اساتذہ نے علم جیسی لازوال نعمت سے نوازا اور انہیں اس لائق بنایا کہ وہ یونیورسٹیز کی طرف پیش قدمی کرسکیں، عصری علوم حاصل کریں اور وہ لوگ جو مذہب اسلام کے تعلق سے بدگمان ہیں، انہیں صحیح حالات سے آگاہ کریں، مگر جو اپنے اساتذہ کو گالی دیتے، اور برا بھلا کہتے ہیں، بھلا ان سے خیر کی کیا امید کی جاسکتی ہے، ہاں اللہ تعالی ہدایت دے دے تو الگ بات ہے، بہر کیف ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے والد سے بھی زیادہ اپنے اساتذہ کا احترام کریں کہ اساتذہ کا احسان والد کے احسان سے کہیں زیادہ ہے اور ’’ہل جزاء الإحسان إلا الإحسان‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے، پھر اگر ہم اپنی سوچ کے سبب ان کے احسانات کا بدلہ نہ چکا سکیں؛ تو کم ازکم ہمیں ان کو اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے لئے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی نہیں بنانا چاہئے، مگر کچھ طلبہ نااہلی کا شکار ہوکر اساتذہ کے احسانات سے منھ پھیر لیتے ہیں، بلکہ برا بھلا بھی کہنے سے نہیں چوکتے، بالفرض اگر اساتذہ میں سے کسی سے کوئی تکلیف پہونچے یا دل آزاری ہو؛ تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کی شان میں برے کلمات بلکہ ایسے گھٹیا الفاظ استعمال کئے جائیں، جسے ایک شریف آدمی تو دور کی بات ایک سڑک چھاپ آدمی بھی برداشت نہ کرسکے، بلکہ چاہئے کہ ان کے احسانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے نذر انداز کردے، حصول علم کے ساتھ ضروری ہے کہ علمائے کرام کی عزت و احترام اپنے دل میں بسائے رکھے کہ اس کے بغیر علم کے میدان میں ترقی مشکل ہے۔
            بہر حال ناچیز ایسے لوگوں سے عرض کرتا ہے کہ ان علمائے کرام کا ہم پر احسان ہے، انہوں نے ہی علم جیسی بے بہا نعمت سے نوازا اور اپنی وسعت کے مطابق ترقی کی طرف منزل بمنزل بڑھایا اور یونیورسٹیز کی طرف پیش قدمی کرنے کے لائق بنایا، تو کم ازکم اتنا ضرور کریں کہ اپنی زبان فیض ترجمان سے ایسے جملے ادا نہ کریں، جس سے آپ کی شخصیت مجروح ہوجائے، اساتذہ اور دیگر علما کو سخت تکلیف پہونچے، وگرنہ شریعت کی روشنی میں اپنے خانہء دل کا محاسبہ بہت ضروری ہے، ہر شخص کو اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔
            (۲)میں ایک بار اپنے کمرے میں محو مطالعہ تھا، ایک صاحب کمرے میں جلوہ بار ہوئے، یہ صاحب بھی راجدھانی حیسے شہرکی آب و ہوا میں رہ کر آئے تھے، جو شاید مجھ سے ایک سال سینیر تھے، میر ے دو چار روم پارٹنر، ان سے ہم کلام ہوئے، میں کسی عرض عارض کی بنا پر ان کی طرف متوجہ نہ ہوسکا، انہوں نے دوران گفتگو ایسی بات کہی کہ میں اپنے آپ کو ہمہ تن گوش ہونے سے نہ روک سکا، وہ گویا تھے: ’’اردو کتابوں سے فتوی نہیں دینا چاہئے؛ کیونکہ اس میں خطا کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور اس کی علت سلسلہ بسلسلہ نقل کرنا قرار دی‘‘ اول وہلہ میں تو ان کی بات لگتی سی معلوم ہوتی ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ علت درست نہیں؛ کیونکہ فقہائے کرام کی عربی کتابیں بھی سلسلہ بسلسلہ تقریبا نقل ہوکر ہی منظرعام پر آتی ہیں، جس طرح اردو کتابوں میں خطا کا امکان ہے، بعینہ عربی کتابوں میں بھی امکان خطاہے، میرے خیال سے اگر علت ہی بتانی تھی؛ تو یہ کہنا چاہئے تھا: چونکہ عام طور سے لوگ فتوی کے معاملہ میں اردو کتابوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے؛ اس لئے جواب کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عربی عبارتیں پیش کی جائیں، مگر اس علت پر گزارش ہے کہ فتاوی کی کئی کتابیں نظر سے گزریں، شاید باید کوئی ایسا فتوی ہوتاہے جس میں محض اردو فتاوی کی کتابوں پر اکتفا کیا گیا، جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ ان کتابوں پر لوگ پورے طور سے اعتماد کرتے ہیں، اگر مان بھی لیا جائے کہ بعض مفتیان کرام اردو فتاوی کی کتاب سے فتوی دیدیتے ہیں؛ تو یہ ان کی مجبوری ہے؛ کیونکہ انہیں گراں قدر فتاوی کی کتابیں دستیاب نہیں ہوپاتیں اور ضرورت پڑنے پر فتوی دینا پڑتا ہے، تو اردو کتاب ہی کا سہارا لے لیتے ہیں۔ ابھی آں حضرت کی پیاس بجھی نہیں تھی، پھر نہایت بے اعتنائی برتتے ہوئے فقیہ اعظم صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی مایہ ناز کتاب ’بہار شریعت‘ کے بارے میں گویا ہوئے: یہ کیا کتاب ہے، بس مسائل کو اردو میں جمع کردیا گیا ہے‘‘۔ حالانکہ آں جناب سے اگر یہی کرنے کو کہ دیا جائے تو چھٹھی کا دودھ یاد آجائے گا، خیر اس جملہ نے صاف واضح کردیاکہ موصوف نے اردو کتاب سے فتوی کے متعلق تنقیدا یا مشورۃ جو بات کہی وہ برائے تعمیر و اصلاح نہیں بلکہ برائے تخریب تھی۔
            مگر میں اور میرے روم پارٹنرز نے اس تخریب کو کامیاب نہ ہونے دیا اور یک لخت بول اٹھے یقینا یہ کتاب اردو زبان میں مسائل کا مجموعہ ہے، لیکن صرف اس طور سے نہیں کہ بس اٹھایا اور یکجا کردیا، بلکہ فقیہ اعظم نے اس کے لئے تگ و دو کی، مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا، پھر اپنے اجتہاد سے مفتی بہ اقوال نقل فرمائے، یہ اپنے دور کے مفتی اعظم تھے، آپ کے مطاوق تو انہوں نے صرف مسائل یکجا کردیا، اگر آپ ہی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین ہو، ہم سب آپ کے حوالے، درمختار، رد المحتار، فتاوی ہندیہ، بدائع الصنائع، اور جدالممتار جیسی چند کتابیں پیش کئے دیتے ہیں، ذرا ایک باب کے مفتی بہ اقوال بلکہ آپ جیسے عالم دین جنہوں نے ابھی فقہ کے دروازے پر قدم تک نہیں رکھا، صرف ایک فصل کے مفتی بہ اقوال نقل کرکے دکھادیجیے، اتنا سنتے ہی ان صاحب کے چہرے کا رنگ آنے جانے لگا، شاید انہیں خلاف توقع جواب مل گیا تھا، یہ صاحب فقیہ اعظم کے دامن سے نکلنے والے لعل و گہر ہی کے پروردہ تھے۔بہر حال حضور فقیہ اعظم  اور آپ کی کتاب کے معتمد ہونے کے لئے یہ حدیث کافی ہے:
            ((من یرد اللہ به خیرا یفقھه في الدین)) (صحیح البخاری) اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی فرماتا ہے، اسے دین کا فقیہ بنادیتا ہے۔
            لوگ کیسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگتے ہیں، تعجب ہوتا ہے، آج کوئی مدرسہ، کوئی دار الافتاء، ایسا نہیں ہے جہاں بہار شریعت نہ ہو، بلکہ غیر بھی اس کتاب سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، مجھ جیسا حقیر سراپا تقصیر اتنی عظیم کتاب کی اہمیت و افادیت پر کیا روشنی ڈالے گا، اس کتاب کی اہمیت کیا ہے، اس کی معرفت کے لئے، علمائے کرام، مفتیان کرام اور فقہائے عظام کے حوالے کرتا ہوں، جو شب و روز اس کے قیمتی جواہر پارہ سے مستفید ہوتے ہیں، ان جیسے نقاد سے اتنا کہ کر گزر جانا چاہتا ہوں:
ع ساحل سے کبھی موجوں کا اندازہ نہیں ہوتا
            (۳)دہلی کی سر زمین پر میری ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی، جن کے چہرے سے داڑھی غائب تھی، ہم ایک دوسرے سے متعارف ہوئے، انہوں نے تعارف کے دوران فخریہ کہا کہ میں فلاں ادارہ سے فارغ ہوں، میں نے ان سے برجستہ کہا: ٹھیک ہے آپ فارغ التحصیل ہیں، مگر آپ کے چہرے کا جغرافیہ بدلا ہواہے، فاضل دین ایسا تو نہیں ہوا کرتے، میرے اس بے باکانہ استفسار پر آں جناب بغلیں جھانکنے لگے، شاید ان کو مجھ سے یہ توقع نہ تھی۔ ایسے حضرات اگرچہ زبان سے اپنے اسلاف کو تکلیف نہیں پہونچاتے، مگر حال سے ضرور تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں، انہیں صاحب کے بارے میں سنا گیا کہ یہ شرم کی وجہ سے اپنے اساتذہ سے ملنے نہیں جاتے۔ میں عرض کروں، آخر ایسی تعلیم کس کام کی جو اپنا اسلامی تشخص برقرار نہ رکھنے دے، اپنے اساتذہ کرام اور بزرگان دین سے ملنے کے لئے مانع ہو اور شرمندگی و ندامت کا سبب بنے، ایسے حضرات کو غور کرنا چاہئے، کیا کوئی اپنے بزرگان دین کے نقش قدم سے ہٹ کر ترقی کرسکتا ہے، اگر دنیاوی ترقی مل بھی جائے تو کیا یہی کافی ہے، ایسے لوگ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر پوچھیں تو یہی جواب ملے گا، ہرگز نہیں؛ کیونکہ اصل زندگی آخرت ہے، ہر ایک کو اسی کی طرف رجوع لانا ہے، اس کے لئے عامل شریعت بننا پڑے گا، بزرگوں اور اساتذہ کے دامن کو تھامے رہنا ہوگا، اگر آج انہیں کو لازم پکڑ لیا جائے تو دنیا اور آخرت دونوں جھولی میں ہوگی۔
            (۴)بعض یونیورسٹیز کی طرف رخ کرنے والے طلبہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ مدارس کو معاش کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ جو عالم دین بنے وہ مالی بحران سے دو چار نہ ہو اور پرسکون زندگی گزار سکے۔
            اس طرح کی فکر رکھنے والے حضرات کا مسلمانوں خصوصا علما کے تئیں یہ خوش کن جزبہ ہے مگر ایسے حضرات کو اس طرح کے نظریات، اپنے ذہن سے محو کردینا چاہئے؛ کیوں کہ مدرسہ کی بنیاد محض خلوص و للہیت کے ساتھ اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے رکھی گئی ہے؛ لہذا جنہیں معاش کی فکر ہو وہ یا تو اول وہلہ میں اس کی طرف پہل کریں یا یہ کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کی طرف بڑھیں بلکہ صحیح یہی ہے؛ تاکہ ضروریات دین سے آگاہ ہوجائیں اور عموما کسی طرح کی بے راوہ روی کا خطرہ نہ ہو۔
            اصل میں ان کا یہ جملہ بھی مدارس کے لئے عصری علوم کے انتظام کی طرف اشارہ ہے، میں ایسے لوگوں سے عرض کروں کہ ایک ہی وقت میں عالم دین بھی بن جائے اور عصری علوم کی ڈگری بھی حاصل کر لے؛ تو یہ بہت بعید ہے؛ کیونکہ عالم دین بننے کے لئے جہد مسلسل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نو سال کا نصاب ناکافی ہوتا ہے، اگر اس کے ساتھ عصری علوم کی کتابیں داخل کردی جائیں تو یہی صورت حال ہوگی:
نہ   خدا    ہی   ملا   نہ   وصال   صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
            آج بعض مدارس میں کمپیوٹر سکھائے جاتے ہیں، پر ڈے مشکل سے ڈیڑھ دو گھنٹے کلاس کے لئے دئے جاتے ہیں، یہی ہماری اصل تعلیم پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اگر اس پر پورے طور سے توجہ دی جائے؛ تو اصل، فرع اور فرع، اصل بن کر رہ جائے گی، یہ ایک تلخ تجربہ ہے، تو کیا خیال ہے اس تعلق سے کہ عصری کتابیں دینی کتابوں کے ساتھ داخل نصاب کردی جائیں؛ تو یقینا اصل فرع بن کر رہ جائے گی اور اسے کوئی ادارہ برداشت نہیں کرسکتا۔
            بعض لوگ اس طرح کی بھی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مدارس کو اجازت دینی چاہئے کہ طلبہ علم دین حاصل کرنے کے ساتھ کالج سے ہائی اسکول، انٹر کرنے کے مجاز ہوں، اس نظریہ کو تو اپنے ذہن سے محو کر ہی دینا چاہئے؛ کیونکہ کوئی ادارہ، مدرسہ یہ پسند نہیں کرسکتا کہ اس کا ادارہ مسافر خانہ بن کر رہ جائے، اس کا سبب یہ ہے کہ آج جب کہ ادارہ اجازت نہیں دیتا، پھر بھی خفیہ طور سے بعض طلبہ فارم پر کردیتے ہیں اور جب دونوں کے امتحان ایک ساتھ پڑتے ہیں؛ تو بڑی آسانی سے مدرسہ کے امتحان کو خیرآباد کہ دیتے ہیں، اگر اجازت دے دی جائے؛ تو سوائے اس کے کیا ہوگا کہ مدرسہ ایک مسافر خانہ بن کر رہ جائے اور اسے کون ادارہ برداشت کرسکتا ہے؟!
            اہل مدارس طلبہ کے لئے انتظام کرسکتے ہیں، اس کی ایک ہی صورت ہے کہ مدارس میں مختلف شعبہ جات ہوں، دینی تعلیم کے الگ اور عصری تعلیم کے الگ تاکہ کوئی بھی طالب علم، علم دین حاصل کرنے کے بعد کسی بھی شعبہ میں داخلہ لے کر اپنی معاشی حالت صحیح کرسکے اور یہ گنبد پر اکھروٹ رکھنے کے مترادف ہے؛ کیونکہ مدارس اسلامیہ کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، آج ہمارے اسلامی شعبہ جات مثلا فقہ، حدیث، تفسیر اور ادب وغیرہ کا انتظام ایک اہم مسئلہ ہے، بروقت اہل خیر کی مدد سے مدارس اسلامیہ میں ان کا انتظام و انصرام ہوجائے یہی بہت ہے، میں پھر ایسے نظریات کے حاملین سے عرض کرتا ہوں کہ مدارس حقیقت میں انہیں کے لئے ہیں جو خلوص و للہیت کے ساتھ علم دین حاصل کریں، پھر تبلیغ اسلام میں لگ جائیں، اگر کوئی علم دین حاصل کر رہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ میں عالم دین بن کر بہت بڑا سرمایہ دار بنوں گا؛ تو یہ اس کی سوچ تو ہے مگر غلط ہے۔ ہاں اتنا ہوسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ مدارس میں دیگر علوم کے ساتھ عربی ادب اور انگلش پر خصوصی توجہ دی جائے اور جد و جہد کرکے یونیورسٹیز سے معادلہ کرا دیا جائے؛ تاکہ جو طلبہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہیں وہ محض بے بس ہوکر نہ رہ جائیں۔ اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ ہمارے مدارس کے اراکین، ذمہ داران، اس تعلق سے بالکل چست ہوچکے ہیں اور پوری ذمہ داری اور تگ و دو کے ساتھ اس کے لئے کوشش کررہے ہیں، ان شاء اللہ ان کی کوشش اور جد و جہد رنگ لائے گی اور آنے والی نسل اس کے لئے فکر مند نہ ہوگی۔ (اس کے متعلق میری سوچ و فکر  میں اب کچھ تبدیلی آگئ ہے، دیکھیے میرا جدید مضمون، بنام: دینی و عصری علوم کی ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت)
            (۵)مدارس سے فارغ ہونے کے بعد جو طلبہ یونیورسٹیز کی طرف رخ کئے، ان میں سے بعض اپنے ملے جنہیں دیکھ کر دل خوشی سے جھوم اٹھا، نورانی چہرا، اسلامی تشخص کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول میں لگے ہیں۔
            یہ ایسے افراد ہیں جو اپنے اساتذہ، علمائے کرام اور عامہ مسلمین کے لئے دل آزاری کا سبب نہ بنے بلکہ اپنے اسلاف کے آئینہ دار اور ان کی زندہ مثال بن کر سامنے آئے، بے شک یہی لوگ دنیوی و اخروی نعمتوں کے حقدار ہیں، اور حقیقت میں یہی کامیاب و کامراں ہیں، ایسے ہی افراد کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:((و اولئک ھم المفلحون))
            اللہ تعالی ہم سب کو مدارس اسلامیہ کے مقاصد کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) لکھا گیا)

علم و علما اور عوام

            دنیا مختلف مخلوقات کی آماجگاہ ہے، ان تمام مخلوقات میں سے انسان کو اللہ رب العزت نے اعلی و اشرف بنا یا، اور انسان کو اسی عقل و شعور کی بنا پر تمام مخلوقات سے ممتاز فرمایا۔ پھر انہیں انسانوں میں سے بعض افراد کو نبوت سے سرفراز کر کے تمام انسانوں سے ممتاز کردیا، ساتھ ہی انہیں احکام الہی کی تبلیغ کی اہم ذمہ داری دی گئی جس کو انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام نے بخوبی انجام دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انبیا علیہم الصلاۃ و السلام کا سلسلہ منقطع ہوگیا، اور احکام الہی کی تبلیغ اور اشاعت جیسی عظیم مہم کے لئے صحابہ کرام، علمائے عظام کو چنا گیا، جنہوں نے انبیا علیہم الصلاۃ و السلام کے وارث ہونے کا حق ادا کیا۔ اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو پہونچاکر لوگوں کو حق سے روشناش کرایا، آج بھی علمائے کرام اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اس عظیم فریضہ کو انجام دے رہے ہیں، اور ان شاء اللہ تا قیامت انجام دیتے رہیں گے، علما اور صوفیا ہی کا عظیم کارنامہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مدارس کی شکل میں اسلامی قلعے نظر آتے ہیں، علما کی اہمیت و افادیت ایک مسلم حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مگر وقت کی ستم ظریفی ہے کہ جس طرح کچھ غیر مسلم فرقہ پرست جماعتوں کو مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، اور ان کے خلاف ہمیشہ بر سر پیکار رہتے ہیں، اسی طرح خود کو سیکولر مزاج باور کرانے والے مسلم شر پسند عناصر علما کی شبیہ خراب کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
            علما کے تعلق سے ان کے خیالات کچھ اس طرح ہوتے ہیں:’’یہ ملا اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور وقت کا المیہ ہے کہ یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، عالم و علما عوام کو تعلیم سے آگاہ کرکے ترقی دلانا نہیں چاہتے‘‘ ۔
سوال یہ ہے کہ وہ انبیا کرام جن کا مشن ہی یہی ہو کہ وہ بندگان خدا کو تعلیم دیں، اور اور جہالت کی تاریکی اور پسماندگی کی ذلت سے نکال کر انہیں تعلیم و ترقی کی نعمت سے سرفراز کریں؛ تاکہ حق کی سربلندی ہو، اب جو ان کا وارث ہوگا تو کیا وہ اسلام کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے؟ کیا وہ ملت کو اندھیرے میں رکھ کر اپنی ترقی چاہے گا؟  کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں تعلیم یافتہ شخص اپنی قوم کا بدخواہ ہوسکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، اگر یہ اسلام کے لئے خطرہ ہوتے تو وہ تبلیغ اسلام کا کام اتنی خوش اسلوبی سے انجام نہیں دیتے، ان کے ہاتھوں قائم کئے گئے مدارس اسلامیہ کی شکل میں نورانی قلعے عالم وجود میں نہیں آتے، مگر:
ع دیدہ کو ر کو کیا نظر آئے کیا دیکھے
            علما کی عظمت و رفعت، تقوی و پرہیز گاری اور قوم و ملت کی خیر خواہی پر اللہ اور اس کے رسول کے فرمان عالی شان شاہد عدل ہیں، جن کی عظمت و رفعت پر قرآن و حدیث گواہ ہوں وہ مذہب اسلام کے لئے ہرگز خطرہ نہیں ہوسکتے، وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو پستی میں ہرگز نہیں ڈال سکتے۔
            قارئین علما کی عظمت شان اور ان کے اخلاق و کردار کو قرآن و حدیث کے حوالہ سے آنے والی سطور میں ملاحظہ کریں؛ تاکہ معلوم ہو کہ یہ علما ہی قوم ملت کی جان ہیں:
            اللہ رب العزت فرماتا ہے: ((اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوکہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں)) (توبۃ:۹، آیت:۱۲۲)
            وہ گروہ علمائے کرام ہی کا ہے جو صدیوں سے اس کار خیر کو انجام دے رہا ہے، اور تشنگان علوم نبویہ ان کے منبع علم و حکمت سے فیض یاب ہورہے ہیں، عوام و خواص ان کی صحبت، تقریر و تحریر سے صالح عقائد و نظریات کے حامل ہیں، علما ہی کے ذریعہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خوف خدا کیا ہے، اور اس کے رسول ﷺ کی عزت و حرمت کیا چیز ہے، ایسا کیوں نہ ہو کہ تقوی ان کا شعار ہے، اللہ تعالی ان کی تقوی اور پرہیزگاری بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ((اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں)) (فاطر: ۳۵، آیت: ۲۸) اور اللہ سے ڈرنے کا نتیجہ کتنا خوش آئند ہے، ملاحظہ فرمائیں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے: ((اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا، اور نفس کو خواہش سے روکا تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے)) (النٰزعٰت:۷۹، آیت: ۴۰–۴۱)
            چونکہ علمائے کرام اپنے دل میں خدا کا خوف رکھتے ہیں؛ اس لئے یہ جو فیصلہ کریں گے، قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی کریں گے، ان کا حکم قابل عمل ہوگا؛ اس لئے خدائے تعالی ان کی اطاعت و فرمابرداری کا حکم دیتا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ((اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں عالم ہیں ان کی اطاعت و فرماں برداری کرو)) (پ۵ع  ۶)
            احادیث کریمہ علما کے فضائل و مناقب میں کثرت سے وارد ہیں، میں ان میں سے یہاں چند احادیث ذکر کرتا ہوں:
            حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک عالم دین کے لئے آسمانوں اور زمین کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں دعائے مغفرت کرتی ہیں، اور یقینا عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسی چودہویں رات کے چاند کی فضیلت، تمام ستاروں پر، اور بے شک علما انبیا کے وارث ہیں، اور انبیائے کرام نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم کو وراثت میں چھوڑا ہے، جس نے علم حاصل کرلیا، اس نے پورا حصہ پالیا (مسند احمد و سنن ترمذی)
            یہ علما ہی کی شان ہے کہ ان کے لئے مچھلیاں بلکہ سارا جہان، ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے؛ کیوں کہ نظام عالم کا وجود، علم دین ہی کی برکت سے ہے، اور حدیث شریف میں حضور نبی کریم ﷺ نے خاص طور سے مچھلیوں کا تذکرہ اس لئے فرمایا؛ کیونکہ علمائے حق کی برکت سے ان پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے اور انہیں رزق عطا کی جاتی ہے، نیز حضور نبی کریم ﷺ معلم بناکر بھیجے گئے؛ اسی لئے آپ نے علم کی مجلس کو زاہد کی مجلس پر ترجیح دی، اور ان دو مجلسوں میں سے علم کی مجلس کو اختیار کیا، چونکہ حضور ﷺ کا مقصد حیات تعلیم و تعلم تھا؛، اس لئے آپ کے جانشین و وارث علمائے کرام ہوئے، حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
            ’’علما دنیا کے چراغ، انبیاکے جانشیں، اور میرے و دیگر انبیا کے وارث ہیں‘‘۔ (کامل، ابن عدی، ۷۱)
            فتنہ سے ٹکرانے کی سکت عالم میں جتنی ہوتی ہے، وہ ایک عابد و زاہد میں نہیں ہوتی؛ اسی لئے جب فتنہ برپا ہوگا تو عبادت کے محل کو تاراج کردے گا، مگر عالم اپنے علم کی بدولت فتنہ پر غالب آجائے گا، مدنی تاجدار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’بے شک فتنہ اٹھے گا، تو عبادت کے محل کو پورے طور پر ڈھا دے گا، اور عالم اپنے علم کی بدولت اس فتنہ سے نجات پائے گا‘‘۔ (حلیہ، ابو نعیم، ۷۳)
            حضور سرور کائنات ﷺ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’عالم کی فضیلت عابد پر ستر درجہ ہے، ہر درجہ کے درمیان ستر سال گھوڑا دوڑنے کے برابر فرق ہے، اور وہ اس لئے کہ شیطان لوگوں کے لئے بد مذہبی پیدا کرتا ہے، تو عالم اسے دیکھ کر مٹادیتا ہے، اور عابد عبادت میں مشغول رہتا ہے، ادھر متوجہ نہیں ہوتا، اور نہ بدمذہبی کو پہچانتا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر :ج۱ص ۲۷۵)
            جس طرع آج اس دارفانی میں لوگوں کو عالم کی ضرورت ہے، اور لوگ ان کی طرف جوق در جوق حصول علم کے لئے اور اپنے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لئے دور دراز مقام سے آرہے ہیں، کل دار جاودانی میں بھی، انہیں عالموں کی حاجت محسوس ہوگی، اس سے علما کی عزت و وقار کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں کس حدتک محبوب رکھتا ہے، آقائے دوجہاں ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
            ’’جنتی یقینا جنت میں علما کے محتاج ہونگے، اور اہ اس لئے کہ ہر جمعہ اللہ کے دیدار سے سرفراز ہونگے، تو خدائے تعالی ان سے فرمائے گا: جس کی چاہو تمنا کرو، وہ علما کے پاس جائیں گے اور ان سے پوچھیں گے: ہم کس چیز کی تمنا کریں؟ علما خدائے تعالی سے کہیں گے: ایسی ایسی تمنا کرو، تو جنتی جنت میں عالموں کے محتاج ہونگے جیسا کہ دنیا میں وہ ان کے محتاج ہیں‘‘۔ (ابن عساکر)
            دوسری حدیث پاک میں ہے، جو شخص درس و تدریس یا تصنیف و تالیف سے علم دین کی نشرو اشاعت کرے گا، وہ قیامت کے دن بڑی شان و شوکت اور جاہ و حشمت کے ساتھ آئے گا، اور اس عزت و وقار کے حقدار علما ہیں؛ کیونکہ یہی وہ افراد ہیں جو تن، من اور دھن سے علم کے دین کی اشاعت میں لگے ہوئے ہیں، الا ماشاء اللہ۔
            حضور پر نور ﷺ فرماتے ہیں: ’’کیا تم لوگ جانتے ہو، سب سے بڑا سخی کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ سب سے بڑا سخی ہے، پھر انسان میں سب سے زیادہ سخی میں ہوں، اور میرے بعد سب سے زیادہ سخی وہ شخص ہے جس نے علم دین حاصل کیا، پھر اس کو پھیلایا، وہ اکیلا یا جماعت کی حیثیت سے امیر ہوکر آئے گا‘‘۔ (بیہقی: ۸۶)
            مگر یہ خوبیاں، بشارتیں اور جہاں کی مغفرت کرنا صرف انہیں علما کے لئے ہے جو احکام شریعت پر کاربند ہوں، اپنے علم کے مطابق عمل کریں، دوسروں کو تنبیہ کرنے کے ساتھ اپنی ذات کو بھی پاک اور منزہ رکھیں، ایسے عالم جو خود عمل نہیں کرتے، اور دوسروں کو حسنات کی ترغیب نہیں دیتے وہ ان بشارتوں کے مستحق نہیں ہیں، چنانچہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس منفی پہلو کو بھی اجاگر کردیا گیا ہے؛ تاکہ وہ علما جو شریعت و طریقت کی بات تو کرتے ہیں، اور زبان و بیان کے غازی کہلاتے ہیں، مگر عملی دنیا میں ان کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا، وہ ان آیات اور احادیث سے عبرت حاصل کریں، آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں: ((قیامت کے دن سب سے سخت عذاب والا وہ عالم ہوگا جسے اس کے علم نے فائدہ نہیں دیا‘‘۔ (سنن ابی داود)
            دوسری حدیث شریف میں فرماتے ہیں: ’’قیامت کے دن زیادہ افسوس کرنے والا وہ شخص ہوگا جس نے علم تو حاصل کرلیا، مگر خود اس نے اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور دوسروں نے اس سے سن کر فائدہ اٹھالیا‘‘۔ (ابن عساکر)
            بے عمل عالم کو اس کے علم کا ثواب نہیں ملے گا خواہ وہ کتنا ہی علم جمع کرلے، رسول کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو علم چاہو حاصل کرو مگر خدا کی قسم تمہیں علم جمع کرنے پر ثواب نہیں دیا جائے گا، یہاں تک کہ عمل کرو، یعنی عمل کرنے ہی پر ثواب دیا جائے گا ، صرف علم جمع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ (امالی، ابوالحسن)
            اور وہ علما جو دوسروں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور خود کی اصلاح نہیں کرتے، ان کے بارے میں حدیث پاک جو کہتی ہے، وہ دیدہ عبرت سے پڑھنے کے قابل ہے، آقائے کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو جہنم میں لاکر ڈال دیا جائے گا، جس کی وجہ سے اس کی آنتیں فورا پیٹ سے نکل کر آگ میں گر پڑیں گی، پھر وہ انہیں پیسے گا، یعنی ان کے گرد چکر کاٹے گا، جیسے پن چکی کا گدھا آٹا پیستا ہے، دوزخی یہ دیکھ کر اس کے پاس جمع ہوجائیں گے، اور اس سے کہیں گے : اے فلاں، تیرا کیا حال ہے، یعنی تو یہ کیا کر رہا ہے؟ کیا تو ہم کو نیک کام کرنے اور برے کام سے باز رہنے کا حکم نہیں دیتا تھا؟ وہ شخص کہے گا: ہاں، میں تم کو نیک کام کام حکم دیتا تھا اور خود اس کو نہیں کرتا تھا، اور برے کام سے تم کو روکتا تھا اور خود اس کوکرتا تھا‘‘۔ (متفق علیہ)
            ان احادیث کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا میں کچھ ایسے افراد بھی عالم کہلائیں گے، جن کے اندر عمل کا نام و نشان نہ ہوگا، جس کے باعث وہ عذاب کے مستحق ہونگے۔
            یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہر شعبہ، ہر جماعت، اور ہر قوم میں کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں، جو اس شعبہ یا جماعت کی قابل اتباع شخصیت نہیں کہی جاسکتی، مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی اتباع کرتے ہوئے ہمیں فخر محسوس ہوتاہے، یہیں سے یہ امر بھی ظاہر ہوکر سامنے آگیا کہ کچھ افراد کی تساہلی اور بے اعتنائی کی وجہ سے پوری قوم، شعبہ یا جماعت کو بے راہ روی شکار نہیں کہا جاسکتا، اگر ایسا ہوجائے تو کوئی قوم، اور شعبہ اس الزام سے بری نہیں ملے گا، جو لوگ ایسے خیالات کے حامل یا حامی ہیں یقینا وہ دانشمندانہ راہ کی طرف گامزن نہیں، انہیں اس طرح کے خیالات فاسدہ سے بچنے کی ضرورت ہے، خاص طور سے اس جماعت کے تعلق سے جو دین متین کی ترویج و اشاعت میں منہمک ہے، ذرا سوچو تو سہی اگر ان علما کا ہر جگہ پایا جانا ہی کسی کے نزدیک وقت کا المیہ ہے؛ تو مجھے افسوس کے ساتھ یہی کہنا پڑے گا، مہد سے لحد تک، اور پیدائش سے موت تک اس خود ساختہ المیہ کی چکی میں پستے رہنا ہوگا، اور کسی پہلو سکون میسر نہ ہوگا، اگر یہ علمائے کرام اسلام و مسلمین کی حفاظت نہیں کریں گے تو پھر اسلام و مسلین کا محافظ کون ہوگا؟!
            کیا دنیا کے سکولر مزاج سیاستدان، پروفیسر، اور ڈاکٹر سے اس کار خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟ علما امت مسلمہ کی جان ہیں، انہیں کے دم قدم سے ہر چہار سو دنیا چمک دمک رہی ہے، جن لوگوں نے علما کی مخالفت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے، وہ مذکورہ بالا قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے بیمار دل و دماغ کا علاج کریں، ورنہ ان کی حیثیت کیا ہے، وہ آنے والی حدیث کو پڑھ کر اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
            ’’عام بنو یا طالب علم بنو یا عالم کی بات سننے والا بنو یا عالم سے محبت کرنے والا بنو اور پانچواں نہ بنو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے‘‘۔ (مسند البزار)
            دوسری حدیث شریف میں ہے: ’’بے شک اللہ تعالی نے فرمایا: جس نے میرے پسندیدہ بندہ سے دشمنی کی تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان کیا‘‘۔
ہم نے حسین خوابوں کی تعبیر کے لئے
جو لوگ محو خواب تھے ان کو جگا دیا
            بلکہ قوم جماعت اور شعبہ کی بات تو دور ہے، شاید ان خیالات کے متحمل افراد کا اپنا گھر صالح افراد پر مشتمل نہ ہو، اگر فردا فردا تجزیہ کیا جائے؛ تو کسی قوم، جماعت یا شعبہ کی بات تو دور کی ہے ان فاسد خیالات کے متحمل افراد کا خود اپنا گھر بھی ان  شعلوں کی لپٹ سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔
اے   چشم    اشک    بار   دیکھ   تو   سہی
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 8318177138

نوٹ: (یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) صدیق محترم حضرت مولانا مفتی کہف الوی نیپالی مصباحی زید علمہ کی نگرانی میں سہار اخبار میں علما کے خلاف چھپی ہوئی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے لکھا گیا تھا)

حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند کردار ساز پہلو


            خالق ارض و سما نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار یا دو لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسل کو اس دار فانی میں مبعوث فرمایا، تمام انبیاے کرام نے اپنے فرائض منصبی کا حق ادا کیا اور اللہ کے احکام کو اس کے بندوں تک پہونچایا، ان انبیا میں سے کسی کی بعثت پر رب کائنات نے احسان نہ جتایا مگر جب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے درمیان مبعوث فرمایا؛ تو اس نعمت عظمی پر خالق دوجہاں نے احسان جتایا، آپ کو رحمۃ للعلمین کے لقب سے نوازا، اپنی طرف سے بھیجا ہوا نور بتایا، آپ کو تمام صفات کمالیہ کا جامع بنایا، آپ کو تمام انبیاے کرام کے اخلاق حسنہ کا پیکر بناکر ایک انسان کامل کو وجود بخشا، بلاشبہ یہ آپ ہی کا حصہ تھا کہ افضل الانبیاء، سید المرسلین ہیں:
حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
            جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا وقت آیا، ماہتاب رسالت طلوع ہونے کو ہوا؛ تو ایسے ایسے محیر العقول واقعات پیش آئے جو آپ کی آمد کی بشارت دے رہے تھے، چنانچہ اسی موقع پر ناگہاں باران رحمت سے سرزمین مکہ سرسبز و شاداب ہوگئی، بت منھ کے بل گر پڑے، حضرت آمنہ بی بی رضی اللہ عنہا کے جسم اطہر سے ایسا نور رونما ہوا جس نے بصری کے محل کو روشن کردیا، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات پیش آئے جو نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوہ گر ہونے پر شاہد عدل تھے۔
            ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا جب اس دنیا میں ورود مسعود ہوا، آپ کے نور سے سارا عالم منور ہوگیا، تاریکیاں چھٹ گئیں، آپ نے حق و باطل کے درمیان خط فاصل کھینچ دیا، آپ نے اخلاق و کردار اور صدق و عدل کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ کفار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے نظر آئے، آپ صبر و تحمل میں یگانہ روزگار تھے، چنانچہ کفار مکہ نے اعلان نبوت کے بعد آپ پر ایسے مظالم ڈھائے جنہیں پڑھ کر ہماری آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، آپ نے عدل و انصاف اور مساوات کا وہ درس دیا کہ دنیا آج تک ایسا منصف پیش کرنے سے عاجز ہے، خداے تعالی نے آپ کو تمام تر صلاحیت، سیاسی تفکر و تدبر، حکمت و دانائی سے آراستہ فرمایا تھا، جب کسی نااہل کی ریشہ دوانی سے انتشار و افتراق کا اندیشہ ہوتا؛ تو آپ اپنی خدا داد صلاحیت سے ایسا فیصلہ فرماتے ہیں کہ سب کے سب آپ کے فیصلہ کے سامنے سر خم کردیتے اور فتنہ و فساد یکسر ختم ہوکر رہ جاتا، یقینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے، بلاشبہ ان کی زندگی انسانی زندگی کے ہر گوشے پر روشنی ڈالتی ہے، جس پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی دلیل ہے، مگر آج مسلمان کا عجب حال ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو اپنانے کے بجائے شعوری یا غیر شعوری طور پر کفار و مشرکین اور یہود و نصاری کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کل کے مسلمان احکام خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے تمام شعبہاے زندگی میں ارتقائی منازل طے کرنے میں کامیاب و کامراں رہے، مگر آج مسلمان انحطاط و پستی کے قعر عمیق میں گرتے جارہے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ظاہر و باہر ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے احکام پر عمل کرنا ترک کردیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے نقش قدم پر چلنا چھوڑ دیا ہے، آج اگر مسلمان آپ کی زندگی کو مشعل راہ بنالیں اور اپنی زندگی کے مسائل ان کے طریقہ کار کی روشنی میں حل کریں؛ تو ہماری پریشانیاں دور ہوسکتی ہیں، آپ کے طریقہ کار کو چھوڑکر کوئی بھی فرد منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا:
طریق  مصطفی  کو  چھوڑنا ہے  وجہ  بربادی
اسی سے قوم دنیامیں ہوئی بے اقتدار اپنی
            لہذا کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو اپنایا جائے، اسی کے پیش نظر آپ کی زندگی کے چند اہم گوشے قارئین کرام کے نذر کرتا ہوں جو یقینا عالم اسلام کے لیے قابل عبرت اور نمونہ عمل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صبروتحمل اور ایثار و قربانی
            فاصدع بماتؤمر آیت کریمہ نازل کرکے آپ سے حاکم مطلق نے فرمایا: اے محبوب آپ کو جو حکم دیا گیاہے علی الاعلان بیان فرمادیں، احکم الحاکمین کاحکم ملتے ہی حضور  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علی الاعلان دین متین کی تبلیغ کرنے لگے، یہ دیکھ کر کفار مکہ آپ کے خلاف بر سر پیکار ہوگئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو کفار مکہ نے سخت اذیتیں دیں حتی کہ آپ کو قتل کرنے کے درپہ ہوگئے مگر کفار مکہ بنو ہاشم کے خوف سے بعض رہے، اس کے باوجود ایذا رسانی کا کون سا حربہ ایسا تھا جس کاانہوں نے استعمال نہ کیاہو، چنانچہ ابتدا میں آپ کو ساحر، کاہن، مجنون کہنا شروع کیا، جب انہیں اپنے منصوبہ قبیحہ میں کامیابی نہ ملی؛ تو آپ کے پیچھے بچوں، نوجوانوں کی فوج ڈال دی، جو آپ پر طعنہ زنی کرتے، گالیاں دیتے، راستے میں کانٹے ڈالتے، حتی کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوتے؛ تو آپ پر کفار نامراد نجاست تک ڈال دیتے ،مگر آپ صبر وشکر کے پیکر بنے رہے، آپ کے صبر وتحمل کے چند واقعات نظر قارئین کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حرم کعبہ میں اپنے معبود حقیقی کی عبادیت میں مشغول تھے، ایک ظالم آیا اورآپ کی گردن مبارک میں چادر کافندہ ڈال کر اتنی قوت سے کھینچا کہ دم گھٹنے لگا، آپ کے جانثار رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ دردناک منظر دیکھا نہ گیا، آپ بے اختیار دوڑ پڑے اور اس کافر کو وہاں سے ہٹا کر آپ کو اس تکلیف سے آزاد کیا۔
            حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ایمان لانے کے بجائے کفار مکہ نے آپ کو ستانا شروع کردیا اور جب ان کی سرکشی، عناد و اسلام دشمنی حد سے تجاوز کر گئی، آپ کو ان کی طرف سے مایوسی ہوئی؛ تو آپ نے مکہ کے اطراف میں تبلیغ اسلام کا قصد کیا، چنانچہ آپ اپنے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر طائف کی طرف تشریف لے گئے، جس کے بارے میں مدت مدیدہ کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر جنگ احد سے زیادہ بھی سخت آزمائش کا دن گزرا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، وہ دن جب میں طائف میں تبلیغ دین کے لیے گیا تھا، آپ کے صبر و تحمل کو آنے والی تحریر میں ملاحظہ فرمائیں:
            طائف میں بڑے بڑے امرا اور سرمایہ دار لوگ تھے، ان رئیس زادوںمیں عمیر کاقبیلہ تمام قبائل کاسردار مانا جاتاتھا، یہ تین برادر کا مجموعہ تھا جن کانام عبد یا لیل، مسعود، حبیب تھا، آپ ان کے پاس تشریف لےگئے اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا، انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا اور بہت بد تہذیبی سے پیش آئے، اور انہوں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ جب وہاں سے نکلے؛ تو آپ کے پیچھے نوجوان بدمعاشوں اور لفنگوں کو لگادیا جو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے، انہوں نے آپ پر اتنے پھتر برسائے کہ قدم مبارک زخمی ہو گئے، آپ زخم کی تاب نہ لاکر بیٹھ جاتے تو یہ اوباش ظام نہایت ہی بے رحمی سے آپ کو اٹھا دیتے اور آپ کو چلنے پر مجبور کرتے، پتھر کی چوٹ سے آپ کی پاؤں سے اتنازیادہ خون نکلا کہ آپ کے موزے اور نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے، آپ کے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی حفاظت کی کوشش میں سخت لہو لہان ہوگئے، اسی عالم میں چلتے چلتے آپ مکہ کے ایک انگور کے باغ میں پہنچے، جو عتبہ بن ربیعہ کی ملکیت میں تھا، آپ کی حالت زار کو دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کی خاندانی حمیت نے جوش مارا اور آپ کو باغ میں حفظ و امان کے ساتھ ٹھہرایا اور آپ کے پاس اپنے نصرانی غلام عداس کے ذریعہ انگور کا ایک خوشہ تناول فرمانے کے لئے بھیجا، آپ نے جب کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بسم اللہ پڑھا، نصرانی غلام یہ کلام سن کر متعجب ہوا، اس نے کہا یہاں اطراف کے لوگ اس طرح کے کلمات نہیں پڑھتے، آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے باشندے ہو، اس نے جواب میں کہا کہ میں نینوا کا رہنے والاہوں، حضور نے فرمایا: وہی جو یونس بن متی علیہ السلام کاشہرہے، وہ بھی میری طرح خدا کے فرستادہ تھے، یہ سنتے ہی نصرانی غلام آپ پر ایمان لے آیا (زرقانی، ص۳۰۰)
            حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وادی قرن الثعالب میں پہنچ کر جب میں نے کچھ راحت محسوس کی؛ تو میں نے آسمان دنیاکی طرف سر اٹھاکر دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا سایہ فگن ہے، حضرت جبرئیل امین علیہ السلام جلوہ افروز ہوئے، آپ کہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا جواب سن لیاہے، آپ کے حضور پہاڑوں کا فرشتہ حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کابیان ہے، فرشتہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: اللہ جل شانہ نے آپ کی قوم کاجواب سن لیا، آپ ہمیں حکم فرمائیں تاکہ میں دونوں کوہ اخشب کو ان کفاروں پر الٹ دوں مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حسن کرم دیکھئے کہ ان ظالموں کے ظلم کی پاداش میں آپ نے انہیں کتنا اچھا صلہ دیا آپ نے فرشتہ سے جواب میں فرمایا کہ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دو امید ہے کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ دنیامیں رونماہوں گے جو صرف اور صرف خدا وحدہ لاشریک کی عبادت و ریاضت کریں گے، کیادنیا اس صبر وشکر کی مثال پیش کرسکتی ہے ؟!!
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیاسی تدبر
            حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم امانت داری، پارسائی اور راستبازی کی وجہ سے مقبول عوام وخواص تھے، آپ کی حکمت و دانائی اور سیاسی تدبر کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑا الجھا ہوا مسئلہ بڑی آسانی سے سلجھا دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ قریش نے آپ کو اپنا فیصل تسلیم کرلیا اور آپ کے فیصلے کے آگے بڑے بڑے عقلمند، دانشور سرتسلیم خم کرتے ہوئے نظر آئے، اسی فیصلے کی ایک کڑی تعمیر کعبہ شریف کا واقعہ ہے۔
            واقعہ یہ ہے کہ موسلہ دھار بارش کی وجہ سے حرم کعبہ میں سیلاب آگیا جس کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بالکل منہدم ہو گئی، قریش نے از سرنو اس کی تعمیر کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے تعمیر شروع کردی، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک ہوئے ۔ جب عمارت مقام حجر اسود تک مکمل ہو گئی؛ تو ایک اہم مسئلہ حجر اسود کے نصب کرنے کا پیش آیا، قریش مکہ کا ہر قبیلہ خواہشمند تھا کہ ہمیں یہ شرف حاصل ہو، بظاہر کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی تھی، جس سے ہر قبیلہ کو حجر اسود نصب کرنے کا شرف حاصل ہوجائے؛ اس لئے قبائل میں یہ اختلاف طول پکڑتاگیا اورلوگ اس کے لئے مرمٹنے پرتیارہوگئے اور اپنی بات کو مضبوط و پختہ کرنے کے لئے دورجاہلیت کاطریقہ کار اختیار کیا اور پیالہ میں خون بھر کر اس میں انگلی ڈوبانے لگے ۔ چنانچہ اسی پس وپیش میں چارپانچ دن گزر گئے، ایک بزرگ شخص نے مشورہ دیا کہ کل جوشخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا وہی ہمارافیصل ہوگا۔ خدا کی مرضی جب صبح نمودار ہوئی؛ تو سب سے پہلے آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حرم کعبہ میں داخل ہوئے ۔ قریش آپ کو دیکھ کر خوشی سے امین امین کہ کرپکارنے لگے، اور انہیں یقین ہو چلاکہ یہ ہمارے امین ہیں، یہ ضرور ایسا فیصلہ فرمائیں گے جس سے ہر قبیلہ متفق ہوجائے گا اور کسی کی دل آزاری نہ ہوگی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے حکمت و دانائی اور سیاسی تدبر کی وجہ سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ ہر ایک نے سر تسلیم خم کردیا۔ آپ نے فرمایاکہ جتنے قبیلے اس اعجاز کے لئے کوشاں ہیں، ان میں کا سردار آگے بڑھے، حکم کے مطابق عمل ہوا ۔آپ نے اپنی چادرمبارک بچھادی اور اس پر حجر اسود کورکھ دیا، تمام قبائل چادر مبارک کو اٹھاکر مقام حجر اسود کے قریب پہنچے؛ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ نصب کردیا۔اس طرح ایک اختلاف جو خون خرابے کی شکل اختیار کرتا جارہاتھا، بہت آسانی سے ختم ہوگیا ۔
            اسی طرح بہت سے معاملات میں آپ نے اپنی حکمت عملی اور دوررس نگاہ سے ایسا فیصلہ کیا کہ ہر چہار جانب اس کی ستائش ہوئی۔ اسی کی ایک اورکڑی صلح حدیبیہ بھی ہے ۔اس میں کفار کی جانب سے ایسے معاہدہ تیار کئے گئے، جس سے بظاہر اسلام کی ہتک اور بے عزتی کی جھلک محسوس ہوتی تھی، جس کی بناپر بعض صحابہ نے اپنی خفگی کا بھی اظہارکیا مگرحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دور رس نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے معاہدہ کو تسلیم کرتے ہوئے دستخط کردیا۔خداکی شان معاہدہ کے بعد کثیرتعدادمیں لوگ مشرف بااسلام ہونے لگے اور یہی معاہدہ جو بظاہر اسلام کی خفگی کاباعث تھا فتح مکہ کاسبب بنا۔ اور اسی کے متعلق سورہ فتح میں ارشاد ہوا: ((انافتحنالک فتحامبینا))
                                       حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ
            اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو محسن انسانیت ، پیکر جود و کرم اور رحمت عالم بنا کر بھیجاتھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((وماارسلنٰک الارحمۃ للعالمین))آپ انسان وحیوان، ہر ایک سے محبت کرتے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، آپ نے الفت ومحبت، حسن سلوک کا وہ نظریہ پیش کیا جس کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں دی جاسکتی ۔ آپ کے حسن سلوک کو احادیث کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:
            ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھے، ایک اعرابی حاضر خدمت ہوئے اور کچھ مدد کرنے کی درخواست کی، آپ نے عنایت فرمادیا اور ساتھ ہی کہا: میں نے تم پر احسان کیا، اس نے کہا آپ نے اچھا نہ کیا، اس کی زبان درازی پر صحابہ کرام غصہ میں اس کی طرف بڑھے تاکہ اس کو بے ادبی کی سزا دیں، مگر آپ کی شفقت ومحبت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا، پھر گھر تشریف لےگئے اور اس اعرابی کو پھر کچھ عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا: میں نے تمہارے ساتھ بھلائی کی، اس نے کہا: ہاں اللہ جل جلالہ آپ کو آپ کے اہل وعیال کو جزاے خیر عطا فرمائے، آپ نے ارشاد فرمایا: اگر تم پسند کرو تو میرے اصحاب کے رو برو یہی جملہ کہ دو تاکہ پہلی گفتگو کے سبب جو ان کے دل میں تمہارے تعلق سے کدورت پیدا ہوگئی ہے، وہ ختم ہوجائے، پھر دوسرے دن یا شام کو وہی اعرابی آیا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس اعرابی نے جو کہا اس کو میں نے نظر انداز کیا اور مزید عطاکردیا، تو اس نے سمجھاکہ میں راضی ہو گیا، آپ نے اعرابی سے ارشاد فرمایا کہ کیا ایسا نہیں ہے؟ اس نے جواب میں کہا: ہاں، اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو جزاے خیر عطا  فرمائے ۔ پھو آپ گویا ہوئے اور فرمایا: میری اور اس اعرابی کی مثال بالکل اس شخص کی طرح ہے جس کی اونٹنی بدک کر بھاگ نکلی اور لوگ اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے، تو وہ اونٹنی رکنے کے بجائے بھاگتی ہوئی مزید دور نکل گئی، اونٹی کے مالک نے لوگوں کو آواز دی اور کہا اوٹنی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو، میں تم سے زیادہ اس پر رحم دل ہوں، پھر مالک اس کی جانب متوجہ ہوا، کسی گروہ نے اسے پکڑ کر مالک کے حوالے کردیا، اس نے اونٹنی کو بٹھایا اور کجاوہ باندھ کر سوار ہو گیا، حضور نے فرمایا: اگر میں تمہیں روکتا نہیں تو تم اس اعرابی کو قتل کردیتے اور جہنم رسید ہوتے۔ (انسان کامل)
            یعنی جس طرح یہ اوٹنی کا مالک اس کے ساتھ نرمی سے پیش آیا اور اوٹنی قبضہ میں آگئی، اسی طرح آپ اس اعرابی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے تو وہ آپ کا فرمانبردار اور شکر گزارہوگیا ۔اگر اوٹنی کا مالک پیچھا کرنے والوں کو نہ روک لیتا؛ تو اوٹنی غائب بھی ہو جاتی اور لوگ اس کے پیچھے سرگرداں رہتے، اسی طرح اگر آپ اپنے اصحاب کو نہ روکتے تو وہ اعرابی ہلاک ہو جاتا اور اس کے جرم میں جہنم کے مستحق ہوجاتے ۔آپ نے اپنے حسن سلوک سے اپنے اصحاب اور اعرابی دونوں کو ہلاکت سے بچالیا ۔ اس طرح کی بہت سی احادیث آپ کے اخلاق کریمانہ پر شاہد عدل ہیں ۔
            اسی طرح سے آپ اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش دلی سے پیش آتے اور گھر کے کام خود ہی انجام دیتے، مریضوں کی عیادت کرتے، بچوں سے انسیت رکھتے، انسان تو انسان آپ حیوانوں سے بھی محبت کرتے ۔اور لوگوںکو منع کرتے کہ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیں اور وقت پر کھانا دیں، اس طرح کی کثیر تعداد میں احادیث موجود ہیں جومحسن انسانیت حضور صلی اللہ تعالیٰ کے حسن سلوک پر شاہد و عادل ہیں، ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ رحمۃ للعالمین ہیں۔
            حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہی اپناکر انسان ترقی کی طرف گامزن ہوسکتاہے، آج قوم مسلم پستی اور انحطاطی دور سے گزر رہی ہے، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے خدائی قوانین پر عمل کرنا ترک کردیاہے، بے شک کوئی بھی قوم خداے جل و اعلی کی نافرمانی کر کے ارتقائی منزل طے نہیں کرسکتی، کل کا مسلمان خدا اور اس کے رسول کے احکام کاپابند تھا، جس کی وجہ سے انہیں روحانی سکون اور جد وجہد کا حوصلہ میسر تھا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور انہیں کے نقش قدم پر چل کرکے عظیم سے عظیم معرکہ سر کرلیا، قیصر وکسری جیسے عظیم بادشاہوں کو زیر کرلیا، اسی اخلاق حسنہ کی بنیاد پر اسلام عرب کی سرزمین سے نکل کرساری دنیامیں پھیلتا گیا۔ اسلام نے اپنے پاکیزہ قوانین ہی کی بنیاد پر لوگوں کے دلوںمیں گھر کرلیا، جب تک مسلمان اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کابند رہا، دینا اس کے پیچھے بھاگتی رہی اور مسلمان ہر شعبہ جات میں ارتقائی منزلیں طے کرتارہا، مگر جب مسلمان کی نگاہ دنیا کی لذتوں اور بے جا خواہشات پر مرکوز ہو کر رہ گئی اور اسلامی قوانین کی پرواہ نہ رہی، لوگ بے عمل ہوتے گئے، وہیں سے مسلمان کے انحطاطی دور کا آغاز ہوا، بندوں کو خدانے اپنی عبادت کے لئے پید اکیا مگر انہیں برتنے کی مہلت بھی دی؛ تاکہ انسان کو زندگی کے ہر پر پیچ مراحل طے کرنے میں آسانی ہو، مگر یہ انسان خدا کو یکسر ہی بھول گیا اور دنیاکی رنگینیوںمیں کھوگیا، ظاہر ہے کہ اس نافرمانی کی سزا ملنی ہی تھی۔ آج اگر کوئی بادشاہ بلکہ ادنی سا لیڈر حکم کر دے اور اس کی بجا آوری نہ ہو؛ تو انسان اس کے عتاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ پر وہ خدا وحدہ لاشریک جو مالک مطلق، ساری دنیا کا پالنہار ہے، اس کی نافرمانی کی جائے تو کیا اسے سزادینے کا حق نہیں!؟ یقینا ہے، یہ خداکی خاموش لاٹھی ہے جو آج مسلمان معاشی، ٹیکنالوجی، تعلیمی، ثقافتی، سیاسی، ہر اعتبار سے انحطاط کا شکار ہے۔ آج مسلمان اگر خدا اور اس کے رسول کے احکام پر کاربند ہوجائے اور حضور اور ان کے صحابہ کرام کے لائحہ عمل کو اپنا لے اور اسی کی روشنی پر عمل کرے؛ تو دنیا کا کوئی ایسا شعبہ نہ ہو گا، جہاںمسلمانوں کی پکڑ مضبوط نہ ہو، خواہ وہ سیاست کا میدان ہو یاتعلیمی عروج وارتقا کا معاملہ، ہر میدان میں مسلمان کا سر بلند ہوگا، مگر اس کے لئے شرط ہے کہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل پیرا ہوجائے اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام کے طریقہ کار کو مطمح نظر رکھے۔ اس کے بغیر مسلمان کے لئے دنیوی و  اخروی، دونوں اعتبار سے ارتقائی منزل طے کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إن الحکم إلا للہ﴾ دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے: ﴿ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنه فانتھوا﴾ حدیث پاک ہے: ((أصحابي کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم)) بے شک یہ کامیابی کاراز ہے، اس سے الگ ہو کر رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
آج بھی ہو گر براہیم سا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
انتباہ
            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اخلاق و کردار ایثار و قربانی انسان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے مشعل راہ ہیں، مگر ہم ہیں کہ انہیں فراموش کیے ہوئے ہیں، قوم مسلم جب تک حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے طریقہ کار کو اپنائے رہی، منزل بہ منزل ترقی کرتی گئی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس نے نمایا ں کام انجام دیا، جسے رہتی دنیا تک یاد کیاجاتارہے گا، لیکن جیسے ہی اس قوم نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے طریقہ کار کو پس پشت ڈالا اور ان کو اپنا آیڈیل بنانے کے بجائے کفار ومشرکین کو آئڈیل بنایا، ان کی تقلید کی، وہیں سے یہ قوم زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی اور اس حد تک انحطاط پذیر ہوئی کہ تاریخ کے اس سیاہ دور کو آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا، ہمارے بعد آنے والی نسلیں اس دور کو دور سیاہ کے طور پر یاد کریں گی؛ لہذا اے قوم مسلم! اگر تم چاہتے ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والی نسلیں ہماری طرح یہود ونصاری کی تقلید کرکے تباہی کے دہانے پر نہ پہنچیں اور اہپنے اسلاف کو کوسنے کے بجائے، خود ان کی اقتدا کرکے نمایاں کام انجام دے سکیں؛ تو ابھی بھی وقت ہے، احکام خدا اور رسول کے پابند ہوجاؤ، اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب نے جو نقوش قدم چھوڑے ہیں، اسی کو لائحہ عمل بناؤ تاکہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکیں اور آنے والی نسلیں اپنے اسلاف پر سر پیٹنے کے بجاے خوشی کے ترانے گنگناسکیں۔
            اس دورکے ارباب حل وعقد مسلم قوم کے زوال پذیر ہونے کی کوئی بھی وجہ بتائیں مگر اس امر سے قطعا چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ اس انحطاطی دور سے گزرنے کی خاص وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے یہود ونصاری کی اقتدا کی ہے۔ جو قوم مسلم کے سب سے بڑے دشمن ہیں، یہ قوم کب چاہے گی کہ مسلمان خوش حال رہیں اور ترقی کی طرف گامزن ہوں، چنانچہ اپنے مکر و فریب کے جال میں ایسا پھنسایا کہ آج مسلمان کفار ومشرکین کی طرف جھکنے کے لئے مجبور ہو گئے، ہر قدم پر ان کے محتاج ہو گئے، اتنا ہی نہیں بلکہ ان سے اس قدر متأثر ہوئے کہ احکام خدا اور رسول کو بھول گئے، اور اپنی ہیئت و حالت ایسی بنائی کہ بظاہر انہیں دیکھ کر مسلمان نہیں کہا جاسکتا، کل جو قوم اپنے اخلاق و کردار سے دوسروں پر اثر اندا ز ہو کر، انہیں اپنا گرویدہ کرلیتی تھی اور ان کے حسن سلوک ہی کا نتیجہ تھا کہ کفار ان سے متاثر ہو کر بآسانی حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے، مگر آج اسی قوم کا یہ حال ہے کہ دوسرے پر اثر انداز ہونا تو بہت دور کی بات ہے، خود اسے اپنا ایمان بچانا مشکل ہو گیاہے، اف کیا حالت ہے مسلمانوں کی، آج بھی قوم مسلم آنکھ کھولے اور احکام خدا وندی پر عامل ہوجائے، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے نقوش فکر کو اپنائے اور اسی کے حساب سے لائحہ عمل تیارکرے؛ تو ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور اسے زندگی کے تمام شعبہ جات میں کامیابی ملے گی، خواہ اس کاتعلق تعلیم و تعلم یا سیاست وصنعت سے ہو، خواہ تخلیقی کارنامے انجام دینے کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی کا میدان، اس طور سے قوم مسلم اپنے سیاہ دور کا کافی حد تک مدوا  کر سکے گی، یقین جانئے قوم مسلم رسول دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے طریقہ کار کو چھوڑ کر، ان کو نظر انداز کرکے کبھی کامیاب و کامران نہیں ہوسکتی، ان کے لائحہ عمل اپنائے بغیر عروج و ارتقا کا خواب دیکھنا، ہوا میں محل تعمیر کرنے کے مترادف ہوگا، سنبھل جائیے ابھی بھی وقت ہے:
تو   شمع   کے  مانند  اگر   خود  کو   جلادے
بن  جائے   تو  تہذیب  حجازی   کا  نگہباں
تو   نقش   کف   سید   کونین   پہ   مر مٹ
پھر ہیں تیرے خدام یہ سب عالم امکاں
                                                                                                            (بدر القادری)
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 8318177138

(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) صدیق محترم حضرت مولانا مفتی کہف الوی نیپالی مصباحی زید علمہ کی نگرانی میں لکھا گیا)




Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts