Friday, September 6, 2019

خاموشی ہزار نعمت بدگوئی ہزار زحمت

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ظاہر سی بات ہے نعمت ہے؛ تو اس کی حفاظت ضروری ہے؛ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے انسان کو ہر نعمت کی حفاظت کا طریقہ بھی بتادیا تاکہ ایک انسان اس سے مکمل فائدہ اٹھاکر اپنی دنیا و آخرت سنوار سکے، انہی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت زبان ہے، اللہ تعالی نے اس کی حفاظت کا حکم دیا  اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی صیانت کی طرف خاص توجہ دلائی ہے؛ اس لیے زبان کی حفاظت از حد ضروری ہے، زبان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان برائی اور بے جا باتوں سے اپنی زبان روکے رکھے اور جب بھی زبان کھولے؛ تو اچھا ہی بولے، یہی حقیقت میں زبان کی حفاظت ہے، زبان کی حفاظت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قدرت و ضرورت اور حاجت کے ہونے کے باوجود بھی حق بات بولنے یا پہونچانے سے خاموش رہے، اسی طرح بولنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو منھ میں آیا بکتا چلا گیا، لیکن یہ وقت کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ضرورت و قدرت کے باوجود عوام تو عوام خواص بھی دنیاوی مقاصد کے پیش نظر حق بات بولنے سے گریز کرتے ہیں اور جہلا تو جہلا بہت سارے علما، خطبااور نقبا اپنی زبان کی قدر نہیں کرتے، بہت سارے علما غلط، بے جا باتیں اور فحش کلامی بے جھجک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ الزام تراشی اور  تہمت جیسے عظیم گناہ سے نہیں بچتے، بغیر دلیل کہ دیتے ہیں کہ فلاں مفتی نے یہ فتوی روپیے لے کر دیا ہے اور فلاں جماعت چراغی فرقہ ہے، کسی بھی سنی مفتی یا کسی سنی جماعت کے متعلق بلا ثبوت شرعی کسی بھی سنی عالم کی اس طرح کی فکر پر اف اور تف ہے، ایسے عالم کو تو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجانا چاہیے اور آج بہت سارے خطبا جنہیں اپنے خطاب کے ذریعہ میلاد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، عرس اور جلسوں میں سامعین کی اصلاح کرنی چاہیے مگر افسوس کہ انہوں نے ایسے مواقع پر اپنے خطاب کو دوسرے کا مذاق اڑانے اور استہزا کا ذریعہ بنا لیا ہے اور نقبا حضرات تو چار قدم آگے ہیں، ایک دو تقریر کرنے والے کو فاتح ایشیا بنادیا، ایک سفر امریکہ یا لندن کا ہوگیا؛ تو اسے فاتح امریکہ و لندن بنادیا، جسے افتا کے تدریب کی ہوا تک بھی نہیں لگی اسے مفتی بنادیا، جسے کسی فن میں بھی مہارت نہیں اسے علامہ بنادیا وغیرہ! اور اس کے علاوہ آج کل عوام و خواص سبھی عیب جوئی اور تجسس جیسے مہلک مرض میں اس قدر مبتلا ہیں کہ  انہیں اس کے انجام کی کوئی فکر ہی نہیں ہے، جب کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جہاں زبان کی حفاظت دنیا و آخرت میں اچھا نتیجہ پیش کرنے والی ہے وہیں پر اس کی حفاظت سے لاپرواہی دنیا و آخرت کے معاملہ کو خسارے میں ڈالنے والی ہے، مگر اس کے باوجود پھر بھی لوگ اپنی زبان کی  کی حفاظت میں حد درجہ لاپرواہی برتتے نظر آتے ہیں حالاں کہ انہیں ایسا کرنے کی بالکل اجازت نہیں؛ اس لیے ہر انسان خاص کر علما، مفتیان کرام، پیران عظام، خطبا اور نقبا کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کریں، میں یہاں پر قرآن پاک اور احادیث طیبہ کی روشنی میں زیر بحث موضوع پر تھوڑی گفتگو کرنے کی کوشش کرونگا، و ما توفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان اچھی یا بری جو بھی بات احباب کے درمیان یا عام لوگوں کے سامنے یا تنہائی میں یا کہیں بھی بولتا ہے، اسے فرشتے اپنے رجسٹر میں محفوظ کرلیتے ہیں، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ} (س ق:۵۰، الآیۃ:۱۸)
ترجمہ: ((کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو)) (کنز الایمان)
اچھی بات انسان کے لیے مفید اور بری بات نقصان دہ ہے، یہ نقصان دنیا میں یا آخرت میں ہوسکتا ہے یا دنیا و آخرت دونوں میں ہوسکتا ہے، یہ اللہ تعالی کے سپرد ہے وہ جسے چاہے جیسی چاہے سزا دے، اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ} (البقرۃ:۲، الآیۃ:۲۸۶) ترجمہ: ((اس کا فائدہ ہے جو اچھا کمایا اور اس نقصان ہے جو برائی کمائی)) (کنز الایمان) نیز رب تعالی فرماتا ہے:{وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ، ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ، فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ} (البروج:۸۵، الآیۃ:۱۴-۱۶) ترجمہ: ((اور وہی بخشنے والا اپنے نیک بندوں پر پیارا، عزت والے عرش کا مالک ہمشیہ جو چاہے کر لینے والا)) (کنز الایمان)
مگر چوں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت ہی مہربان، کرم والا اور شفقت فرمانے والا ہے؛ اس لیے ہر انسان کو وہی حکم دیا جو اس کے لیے دنیا و آخرت میں مفید ہے، اسی کے پیش نظر بولنے کے متعلق یہ حکم دیا کہ وہ جو بھی بولے اچھا بولے؛ کیوں کہ یہ چیز اس کے لیے دنیا و آخرت میں مفید ہے؛ اس لیے ہر انسان پر لازم ہے کہ جب بھی بولے؛ تو اچھی بات ہی بولے، بیان کرے اور بات اگرچہ رشتہ ادر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، وہاں بھی اگر بولے؛ تو  وہاں بھی حق بولے، وہاں بھی ایک بندہ عدل و انصاف کا ساتھ نہ چھوڑنے؛ کیوں کہ یہاں بھی اسے حق و صحیح بات چھوڑنے کی اجازت نہیں، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى} (س الأنعام:۶، الآیۃ:۱۵۲)
ترجمہ: ((اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ تمہارے رشتہ دار کا معاملہ ہو)) (کنز الایمان)
اگر بندہ رب تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی سے ڈرے، سیدھی اور اچھی بات بولے؛ تو اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے بندہ کے لیے اس کے اعمال کو سنوار دیتا ہے، اس کے گناہوں کی مغفرت فرمادیتا ہے، چوں کہ بندہ کا اللہ تعالی سے ڈرنا اور اچھی و عمدہ بات کہنا رب تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت ہے؛ اس لیے بندہ کے لیے یہی سب سے بڑی کامیابی و کامرانی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا} (س الأحزاب:33، الآیۃ:۷۰-۷۱)
ترجمہ: ((اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو، تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی)) (کنز الایمان)
شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے، وہ ہمیشہ اس فراق میں رہتا ہے کہ انسان کے درمیان آپس میں فساد و افتراق پیدا کرے، اس کے لیے وہ طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے، اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو برا کہنے اور بولنے پر ابھارتا ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اس طرف توجہ دلائی اور حکم دیا کہ صرف اچھی بات نہیں بلکہ سب سے اچھی بات بولو؛ کیوں یہ چیز جہاں شیطان کو ناکامی کا منھ دکھائے گی وہیں پر انسان اپنی کامیابی کا جھنڈا لہراتا ہوا نظر آئے گا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا} (الإسراء:۱۷، الآیۃ:۵۳)
ترجمہ: ((اور میرے بندوں سے فرماؤ وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈالتا ہے، بے شک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے)) (کنز الایمان)
مگر چوں کہ اللہ تبارک و تعالی کے علم میں ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو صرف حکم اور اچھی بات کے پھل دار باغ سے نصیحت نہیں پکڑیں گے، ان کے نصیحت پکڑنے کے لیے ان کے غلط بولنے کے انجام کو بھی دکھانا پڑے گا تب جاکر وہ کہیں مانیں گے؛ اسی لیے فرمایا کہ کوئی بھی فرد مرد ہو یا عورت کسی فرد کا مزاق نہ اڑائے؛ کیوں کہ مزاق اڑانے والے سے وہ شخص بہتر ہوسکتا ہے جس کا مزاق اڑایا جارہا ہے، نیز اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ کوئی کسی کو برے القاب سے نہ پکارے اور نہ ہی کسی کا نام بگاڑے؛ کیوں کہ ایمان کے بعد بھی اس طرح کی بری حرکت کرنا فسق و فجور ہے لیکن اگر اس کے بعد بھی کوئی بد قسمت اپنی زبان درازی، استہزا اور مزاق اڑانے سے باز نہ آئے، توبہ نہ کرے؛ تو وہ ظالم ہے اور اللہ تعالی ظالم کو پسند نہیں کرتا اور جسے اللہ تعالی پسند نہ کرے وہ دنیا و آخرت، کہیں بھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور اگر اتفاق سے اس کی چکنی چپڑی یا لغو باتوں سے اسے زائل ہونے والی دنیا میں کچھ فائدہ ہوبھی گیا؛ تو آخرت میں یقینا یہ باتیں اسے فائدہ نہ دیں گی بلکہ ضرر پہونچنانے کا سبب بنیں گی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (الحجرات:۴۹، الآیۃ:۱۱)
((اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں)) (کنز الایمان)
اسی کے پیش نظر وہ لوگ جو اخلاص کے ساتھ صدقہ کرنے والے مؤمنوں کی عیب جوئی  اور ان کے صدقات کو بلاثبوت شرعی ریا کاری پر محمول کرتے ہیں اور ان کی ہنسی کرتے ہیں جو  اپنی طاقت، قوت اور کوشش کو بطور صدقہ پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کے اس صدقہ سے بے نیاز ہے، ایسے نیک لوگوں کا اللہ تعالی حامی ہے، اللہ تعالی ہنسی کرنے والوں کو ان کے ہنسی کرنے کا بدلہ دے گا اور دردناک عذاب سے دوچار کرے گا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} (التوبۃ:۹، الآیۃ:۷۹)
ترجمہ: ((اور جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے تو ان سے ہنستے ہیں، اللہ ان کی ہنسی کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے)) (کنز الایمان)
مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالی کا حکم و فرمان اور زجر و توبیخ امت مسلمہ کے سامنے موجود ہے، اس کے باوجود بھی لوگ دریدہ دہنی دکھاتے ہوئے اپنی زبان کا غلط استعمال کرتے ہیں، دوسروں کا مزاق اڑاتے ہیں، طعنہ زنی کے شکار ہیں، ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں، یہ افسوس اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب اس میں عوام تو عوام بعض علما و خواص بھی ملوث نظر آتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ اپنے اساتذہ کا بھی نام بگاڑتے اور انہیں برے القاب سے یاد کرتے ہیں، اس کے بعد خود ہی استاذ کی توہین کا رونا روتے ہیں! اور دل اس وقت خون کے آنسو روتا ہے جب بعض خطیب کہے جانے والے لوگ  منبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی اپنی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بناکر  موقر علماے کرام کا مزاق بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں! اگر یہاں پر یہ کہا جائے کہ آج اس طرح بعض علما و خطبا سب سے نچلی سطح کی عوام کا کردار ادا کررہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا! انہیں بے تکی باتوں کی وجہ سے آج عوام علما سے دور و نفور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے!
اور کتنے ایسے عام مسلمان بلکہ بہت سارے علما و خواص سمجھے جانے والے ایک دوسرے پر بہتان طرازی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتے کہ یہ ان کی زبان کیسے اور کیوں بے لگام ہورہی ہے، یہ تو کافروں کی صفت ہے، یہ ہمارے اندر کہاں سے آگئی، یہ ہمارے اندر نہیں ہونی چاہیے مگر افسوس کہ اس کے برعکس وہ اسے واہ واہی اور علمی بخار سمجھتے ہیں! اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ} (النحل:۱۶، الآیۃ:۱۰۵)
ترجمہ: ((جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں)) (کنز الایمان)
ایک مسلم،  خاص کر ایک عالم کو تو ایسا ہونا ہی چاہیے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کرتے ہوئے ناجائز و حرام تو ناجائز و حرام لغو باتوں سے بھی پرہیز کرے نہ کہ اس میں خود ملوث ہو؛ کیوں کہ ناجائز و حرام اور لغو و بے کار بات کرنا یہ عالموں کا نہیں بلکہ جاہلوں کا کام ہے ایک عام مسلم اگر جاہلوں جیسا کام کرے؛ تو وہ ناپسندیدہ ہے اور اگر ایک عالم کرے تو وہ بدرجہ اولی ناپسندیدہ اور قابل مذمت ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ} (القصص:28، الآیۃ:55)
ترجمہ: ((اور جب بے ہودہ بات سنتے ہیں، اس سے تغافل کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے عمل اور تمہارے لیے تمہارے عمل، بس تم پر سلام، ہم جاہلوں کے غرضی (چاہنے والے) نہیں)) (کنز الایمان)
            ہر مسلم خاص کر علما، خطبا اور نقبا کو اس بات کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے کہ ان کی زبان لغو ، بے کار، جھوٹ اور بہتان جیسی مہلک بیماری سے ملوث نہ ہو؛ اگر اس امر میں لحاظ اور احتیاط نہ برتا گیا؛ تو کوئی بعید نہیں کہ زبان سے کوئی ایسی بے ہودہ بات نکل جائے جسے بہت ہلکا سمجھا جائے مگر اسی بات کی وجہ سے اللہ سخت ناراض ہوجائے اور جہنم کی سیر کرنی پڑ جائے؛ کیوں کہ کتنے ایسے لوگوں کو دیکھا گیا ہے جو اپنی زبان کو لغو و بے کار باتوں سے نہیں بچاتے وہ ایسی ایسی بے ہودہ باتیں کرتے ہیں جس کا انجام عذاب شدید اور جہنم ہے، اسی انجام سے بچنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ)) (صحیح البخاری، باب حفظ اللسان، رقم:۶۴۷۸)
ترجمہ: ((بے شک بندہ کبھی اللہ سے راضی ہونے والی بات کہتا ہے مگر اس کی اہمیت کی طرف توجہ نہیں دیتا، اللہ تعالی اس بات کے سبب اس کے درجات بلند فرمادیتا ہے اور بے شک بندہ کبھی اللہ تعالی کی ناراضگی کی بات کرتا ہےمگر اس کی طرف اپنی توجہ مبذول نہیں کرتا، اس کی وجہ سے جہنم چلا جاتا ہے))
زیادہ بولنے، بے سود بات کرنے، خرافات بکنےاور زبان کی حفاظت نہ کرنے کا نتیجہ چوں کہ بہت خطرناک ہے؛ اسی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
 ((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَه)) (صحیح البخاری، باب حفظ اللسان، رقم: ۶۴۷۵)
ترجمہ: ((جو اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات بولے یا خاموش رہے، جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے بھائی کو تکلیف نہ پہونچائے اور جو رب تعالی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہان کی تعظیم کرے))
زبان کا معاملہ اس قدر خطرناک کہ اگر وہ بگڑجائے؛ تو جسم کے سارے اعضا کا معاملہ بگڑ جاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ انسانی جسم کے تمام اعضا ہر صبح ابڑی تواضع اور انکساری کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارا خیال کرو اور ہمارے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو؛ کیوں کہ ہماری اچھائی اور برائی تمہیں سے متعلق ہے، اگر تم نے ایمان کو محفوظ رکھا؛ تو ہمارے اعمال کو اہمیت دی جاے گی لیکن اگر تم نے ایمان کو محفوظ نہیں رکھا بلکہ اسے ضائع کردیا؛ تو ہمارے اعمال اکارت و تباہ و برباد ہوجائیں گے، اگر تم نے اچھی بات کی؛ تو لوگ ہمارے افعال کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے لیکن اگر تم نے بدزبانی کی، بے حیائی دکھائی، دروغ گوئی سے کام لیا، الزام تراشی کی، بہتان باندھا اور انسانیت کی سطح سے بھی گر کر تم نے  علما کے وقار کو مجروح کرنے کی ناپا کوشش کی اور مفتیان کرام و محققین عظام کا مزاق اڑایا؛ تو ہمارے اعمال کی کوئی اہمیت نہیں دی جاے گی، حدیث پاک میں ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ، رَفَعَهُ قَالَ: ((إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ، فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا)) (سنن الترمذی، باب ما جاء فی حفظ اللسان، رقم:۲۴۰۷)
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((جب ابن آدم صبح کرتا ہے؛ تو سارے اعضا زبان سے نہایت ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ کہتے ہیں: ہمارے حقوق کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو؛ کیوں کہ ہمارا تعلق تمہیں سے ہے، اگر تم سیدھے رہے؛ تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تم ٹیڑھے ہوگیے؛ تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے))
اسی وجہ سے ایک انسان کو سب سے زیادہ زبان ہی سے خوف کھانا چاہیے؛ کیوں کہ زبان تمام اعضا میں عمل کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے؛ اسی وجہ سے کوئی نیک کام ہو یا گناہ کا کام، سب میں اس زبان کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے زبان کو بے لگام کردیا؛ تو شیطان اسے ہر اچھے و برے میدان کا کھلاڑی بنادے گا اور اسے ہلاکت و تباہی کے دہانے پر لے جاکر کھڑا کردےگا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابی رضی اللہ عنہ کو کیا نصیحت کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ: ((قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ)) ،قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ، قال: فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: ((هَذَا)) (سنن الترمذی، باب ما جاء فی حفظ اللسان، رقم:۲۴۱۰)
ترجمہ: حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں مضبوطی سے پکڑے رہوں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((تم کہو: میرا رب اللہ ہے، پھر اسی کے مطابق پوری زندگی اسی پر قائم رہو)) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سی چیز ہے جس کا آپ مجھ پر سب سے زیادہ خوف کھاتے ہیں؟ حضرت سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس سوال پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا: ((تم پر اس زبان کا سب سے زیادہ خوف ہے))
لغو و بے کار بات جس کا رب تعالی کے ذکر اور شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہ ہو، وہ کلام قساوت قلب کا باعث ہے، یعنی ایسا شخص حق سننے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لوگوں کے ساتھ بے مقصد شرعی بیٹھنے کا خوگر ہوتا ہے، خشوع و خضوع اور رب تعالی کے ڈر سے بالکل پرے ہوتا ہے نیز آخرت سے پورے طور سے غافل رہتا ہے اور ظاہر سی بات ہے ایسا شخص عام آدمی ہو یا خاص، عالم ہو یا جاہل، اللہ تعالی کی رحمت و عنایت سے سب سے زیادہ دور ہوگا، دور حاضر کے حالات کو پیش نظر رکھیں اور پھر مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُكْثِرُوا الكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ القَلْبُ القَاسِي)) (سنن الترمذی،رقم: ۲۴۱۱)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((ذکر باری تعالی کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو؛ کیوں کہ ذکر باری تعالی کے بغیر زیادہ کلام کرنا قساوت قلب کا سبب ہے اور بے شک اللہ تعالی کی رحمت سے سب سے زیادہ دور قساوت قلب والا شخص ہے))
چوں کہ لغو اور بےکار باتیں مضر ہوتی ہیں؛ اسی وجہ سے ابن آدم کی ہر وہ بات جو بھلائی کا حکم دینے، برائی سے روکنے اور ذکر باری تعالی سے خالی ہو، وہ خود ابن آدم کو نقصان پہونچانے والی ہے اور اس کا کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں، یہ معلوم ہونے کے بعد بھی اگر قوم مسلم اپنی زبان کی حفاظت کے تئیں سنجیدہ نہ ہوئی؛ تو اسے تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، دور حاضر میں بے جا استعمال زبان و بیان کے فتنہ کو پیش نظر رکھ کر حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ رضی اللہ عنہا، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((كُلُّ كَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ أَوْ ذِكْرُ اللَّهِ )) (سنن الترمذی، رقم:۲۴۱۲)
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زوجہ محترمہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((بھلائی کا حکم، برائی سے روکنے اور ذکر باری تعالی کے سوا ابن آدم کا ہر کلام اس کے خلاف ہے، اس کے موافق نہیں))
اسی بے راہ روی کی وجہ سے اللہ تعالی بے لگام خطباو نقبا کو جو زمیں کو آسماں اور ثریا کو ثری بنانے کی ناپاک کوشش کرتے ہیں بلکہ جھوٹ اور کذب بیانی کا سہارا لیتے ہیں، اللہ تعالی انہیں سخت ناپسند فرماتا ہے، خاص انہیں بے راہ رو خطبا اور نقبا کے بارے میں حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ اللَّهَ يَبْغَضُ البَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ كَمَا تَتَخَلَّلُ البَقَرَةُ)) (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الفصاحۃ و البیان، رقم:۲۸۵۳)
ترجمہ: عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((بے شک اللہ تعالی فصاحت و بلاغت میں مبالغہ کرنے والے اس شخص کو سخت ناپسند فرماتا ہےجو مبالغہ کے طور پر اپنی زبان کو اپنے منھ میں ایسے ہی چلاتا ہے جیسے کہ گائے اپنی زبان منھ میں گھماتی ہے))
اسی وجہ سے جو اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتا وہ کامل مؤمن نہیں، کامل مؤمن وہی ہے جس کی زبان و ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں اور حقیقت میں ہجرت کرنے والا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کی منع کی ہوئی چیز کو خیر آباد کہ دے، حدیث پاک بنظر عبرت ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ)) (صحیح البخاری، باب حفظ اللسان، رقم:۱۰)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((کامل مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں اور حقیقت میں ہجرت کرنے والا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کی منہیات سے دور رہے))
اخیر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر کوئی اچھا نہیں بول سکتا؛ تو اس کے لیے برا بولنا، لغو بات کرنا، مبالغہ میں حد سے تجاوز کرنا، ہر کس و ناکس کو تل کا تاڑبنانا اور بے جا خلافت یا کھلی آفت کا حق ادا کرنا فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ ایسی صورت میں فرض و واجب یہ ہے کہ خاموش رہے؛ کیوں کہ اسی میں اس کے  لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، حدیث نبوی ملاحظہ فرمائیں:
((مَنْ صَمَتَ نَجَا)) (سنن الترمذی ، باب إکرام الضیف وقول الخیر، رقم:۲۵۰۱)
حضرت عبد اللہ بن عمر ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا ))
میں ڈاکٹر اقبال کے ان اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، آپ فرماتے ہیں:
خدا  تجھے  کسی  طوفاں   سے  آشنا  کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے  کتاب   سے ممکن  نہیں  فراغ  کہ  تو
کتاب  خواں  ہے  مگر صاحب کتاب نہیں
            زبان کی حفاظت اور اس کی آفت کے متعلق احادیث بہت ہیں، میں یہاں اسی قدر پر اکتفا کرتا ہوں، اللہ تعالی ہمیں اچھا بولنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور برا کہنے سے محفوظ مامون رکھے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
            حضرت مولانا عبد القدوس مصباحی زید علمہ نے زبان کی حفاظت و صیانت کی اہمیت کے پیش نظر ہی خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب ’’حسن السمت فی الصمت‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا، الحمد للہ آپ نے بڑی محنت و لگن کے ساتھ ترجمہ کرنے میں احادیث نبویہ اور اشعار کی بہترین ترجمانی کی ہے، اللہ تعالی آپ کی اس پہلی کاوش کو مقبول  عام و خاص فرمائے، مزید تحریری و تقریری خدمات خلوص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں آپ کے لیے اس اہم خدمت کو ذریعہ نجات بنائے، آمین بجاہ سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 8318177138
۲۱؍ذوالقعدۃ ۱۴۳۹ھ مطابق ۳؍اگست ۲۰۱۸ء

(تقدیم) 

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts