Monday, October 7, 2019

لکھتا ہوں درد دل کی بات


مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
            یقینا علم ایک ایسا خوبصورت زیور ہے جس سے انسان کی فکر سنورتی ہے، یہی زیور ایمان و عمل میں پختگی کا سبب بنتا ہے، اسی کے ذریعہ ایک صالح معاشرہ پرورش پاتا ہے ، یہی زیور ہی ایثار و قربانی کا جزبہ پیدا کرتا ہے اور ایسی روشن زندگی بخشتا ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اسے یاد کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیںبلکہ یہ کہ لیجئے کہ اسلام اور قانون اسلام کے جتنے مطالبات ہیں سب اسی زیور کی مرہون منت ہیں، لیکن اگر اس زیور سے ایک انسان خالی و عاری ہو؛ تو جہالت سر چڑھ کر بولتی ہے؛ جس کی وجہ سے فکر سنورنے کے بجائے فساد کا شکار ہوجاتی ہے، ایمان و عمل میں پختگی پیدا ہونے کے بجائے بے ایمانی اور بے عملی کی کمزوری اپنا راستہ ہموار کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک صالح معاشرہ پرورش پانے کے بجائے ایک فاسد و پراگندہ ماحول عروج پاتا ہوا نظر آتا ہے، جزبہ ایثار و قربانی کے بجائے خود پرستی، نفس پرستی اور بزدلی جیسے اوصاف پھولتے پھلتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک زندہ انسان زندہ ہونے کے باوجود بھی مردہ نظر آتا ہے، بلکہ ایک انسان جہالت کے اندھیرے میں یوں گم ہوجاتا ہے کہ اسلام اور قانون اسلام سے پیچھا چھڑانے میں فخر محسوس کرتا ہے اور پھر دنیوی و اخروی تباہیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔
علم دین سے پاتی ہے انسانیت فروغ
انسان زندہ  لاش ہے  تعلیم کے بغیر
            پہلے مدارس و مساجد کم تھے مگر علم کی پختگی اپنے عروج پر تھی؛ کیوں کہ پہلے عموما نااہل کو اہل کا درجہ نہیں دیا جاتا تھا، خطیب عالم باعمل ہوا کرتا تھا، تعلیم و تعلم کو پس پشت ڈال کر گھر گھر گھوم کر قرآن خوانی نہیں کی جاتی تھی، پہلے قرآن خوانی وغیرہ میں بچوں کو نہ بھیجنے کی وجہ سے مدارس کے بند ہونے کا احمقانہ خوف و ڈر نہیں پایا جاتاتھا، سرعام مدارس کے قانون کی دھجیاں نہیں اڑائی جاتی تھی، بلامجبوری مہینوں مدارس سے غائب ہونے کی لت نہیں تھی، اساتذہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے، ذمہ دار کسی کو کوئی ذمہ داری دینے کے بعد بلاوجہ اس میں دخیل نہیں ہوتا تھا اور نہ اسے کٹھ پتلی سمجھتا تھا، ذمہ دار اپنے ماتحتوں کے درمیان سوتیلے برتاؤ سے گریز کرتا تھا اور مساوات کا کوئی ایسا پہاڑا نہیں پڑھتا تھا جس کی وجہ سے مساوات بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے، اساتذہ اور تلامذہ کے درمیان حد درجہ سہل پسندیاں نہیں پائی جاتی تھیں، دور طالب علمی بلکہ زمانہ درس و تدریس میں بھی اس حد تک دولت حاصل کرنے کا جزبہ کار فرما نہیں ہوتا تھا جس سے تعلیم و تعلم حد سے زیادہ متاثر ہوتا نظر آئے، مدرسہ کو کالج بناکر اصل کو فرع بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، معلم و مدرس زیادہ اور خطیب و شاعر بلکہ ضمیر فروش خطیب اور گوئیے بہت کم ہوا کرتے تھے، نا اہل بلکہ عالم نما جاہل کو دستار دینے کا رواج نہیں تھا، رشد و ہدایت کے تینوں میناروں: انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام، اولیاے کرام اور علماے کرام کی پورے طور سے ہر آن پاسداری کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور تین اہم مقامات: مساجد، مدارس اور خانقاہیں اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے، گویا پہلے زمانہ میں پورا معاملہ ایک سسٹم اور ڈسپلین کے ساتھ چلتا تھا مگر حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ آج مدارس و مساجد کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر علم کی پختگی اور اس کی جولانیت مفقود نظر آتی ہے؛ کیوں کہ آج کل عموما نا اہل کو اہل کا درجہ دینے کی بے بنیاد کوشش کی جاتی ہے، خطیب کی بے عملی اور لاپرواہی کا بول بالا نظر آتا ہے، تعلیم و تعلم کو پس پشت ڈال کر قرآن خوانی وغیرہ کو پیشہ بنالیا گیا ہے، روکنے کی کوشش کی جائے؛ تو مدرسہ بند ہونے کا عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے، جبرا مدارس کے قوانین کو بالاے طاق رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلا مجبوری مہینوں مدرسہ سے غائب نظر آتے ہیں، اساتذہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں حد درجہ کوتاہ نظر آتے ہیں، سرکردہ حضرات اپنے ماتحتوں کو ذمہ داری دینے کے باجود اس میں پورے طور سے دخل اندازی کرتے نظر آتے ہیں اور ذمہ دار ایک کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے، سہولت طلبی اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے، مادیت پرستی اس قدر در آئی ہے کہ تعلیم و تعلم حد درجہ متاثر نظر آتا ہے، اصل کو فرع کی حیثیت دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ماہر معلم و مدرس بہت کم اور ضمیر فروش خطیب اور گویئے زیادہ پائے جاتے ہیں، عالم نما جاہل کو دستار دینے کا رواج حد سے تجاوز کرتا دکھائی دے رہا ہے، تینوں میناروں کی پاسداری ماند پڑتی جارہی ہے، تینوں اہم مقامات ان کے نگراں کی لاپرواہی، ہٹ دھرمی اور جہالت کی وجہ سے اپنا وقار کھوتے ہوئے نظر آرہے ہیں؛ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ دور حاضر میں عموما مدارس و مساجد اور خانقاہوں کا سارا سسٹم اور ڈسپلین تباہ و برباد ہوچکا ہے؛ تو بے جا نہ ہوگااور جب بات ایسی ہے بلکہ ایسی ہی ہے؛ تو قوم کا انجام وہی ہوگا جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، محب گرامی وقار حضرت مولانا مفتی کہف الوری مصباحی زید علمہ کی کتاب ’مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی، اسباب اور حل‘ میں اوپر ذکرکردہ نکات پر پوری تفصیلی سے گفتگو ملے گی، اکثر نکات سے مجھے بھی اتفاق ہے، ان میں سے دو چند نکات پر اپنے درد دل کی بات کچھ تفصیل سے سپرد قرطاس کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            آج کل اکثر مدارس میں ذمہ ادارارن کے ذریعہ نااہل کو اہل کا درجہ دینے کی وبا بہت عام ہوتی جارہی ہے؛ کیوں کہ پیش نظر صرف اور صرف مادیت کا نفع ہے، کوئی شخص بارہ، پندرہ بیس لاکھ دیدے عالیہ فوقانیہ میں جگہ مل جائے گی، خواہ وہ عالیہ کے عین اور فوقانیہ کے فا سے بھی واقف نہ ہو، بیٹا، پوتا، نواسہ یا اور کوئی رشتہ دار یا پیر صاحب کا لڑکا ہو، عالیہ و فوقانیہ میں تقرری ہوجائے گی، چاہے وہ عالیہ و فوقانیہ کی کتابیں پڑھانے میں صفر کی حیثیت رکھتا ہو، خوددار اور باصلاحیت استاذ کو اہم ذمہ داری نہیں دی جاسکتی؛ کیوں کہ اپنی ٹوپی نیچی ہوجائے گی اور چاپلوس کو اس کے چاپلوسی کی بنا پر سب سے اہم عہدہ دے دیا جائے گا، اگرچہ مدرسہ کے در و دیوار چیخ چیخ کر کہ رہے ہوں کہ یہ شخص مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا، اس کے ہوتے ہوئے اخلاق و کردار اپنی آخری سانسیں لینے پر مجبور ہوجائیں گے اور تعلیم و تعلم کا جنازہ نکلتا ہوا نظر آئے گا مگر چاپلوسی اتنی میٹھی ہوتی ہے کہ نہ تو کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سنائی دیتا ہے اور اس طرح مدرسہ اپنے انجام کو پہونچ جاتا ہے، اس کے باوجود سینہ تان کر ایسے چلیں گے جیسے کہ پوری دنیا فتح کرلی ہو۔
            مدارس کی طرح اکثر مساجد و خانقاہوں کا حال بھی کچھ کم نہیں ہے، مسجد کے امام کی قراء ت صحیح نہیں، مسائل میں درک کی تو بات دور ضروری مسائل بھی معلوم نہیں اور خانقاہوں میں فرائض و واجبات کا اہتمام، تصوف اور خلوص للہیت کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے، یہاں پر بھی صرف مادیت پرستی کا دور دورہ نظر آتا ہے، اس کے لیے جتنا ڈھونگ کرنا پڑے کم ہے اور اپنی جہالت پر زرق برق کپڑے اور جبہ و دستار کی آڑ میں جتنا بھی پروپیگنڈہ کرنا پڑے اور دوسرے کو نیچا دکھانا پڑے، سب کم ہے، ایسی جگہوں سے ضمیر فروش تو پیدا ہوسکتے ہیں مگر ضمیر کی حفاظت کرنے والا پیدا نہیں ہوسکتا، ایسی جگہوں سے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی داستان لکھنے کے مواد تو فراہم کیے جاسکتے ہیں مگر سنہرے حرفوں سے سنہری تاریخ لکھنے کا موقع فراہم نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ دل میں بس یہی ہے:
دوچار امیروں کا مجھے پیر بنادے
            موجودہ مروجہ قرآن خوانی وغیرہ کا بھی عجیب و غریب حال ہے، یقینا یہ چیز مدارس کے طلبہ کی تعلیم اور ان کے معیار کو دیونک کی طرح کھاتی جارہی ہے، اس سے دو طرح کے نقصانات سامنے آئے ہیں، ایک یہ کہ عوام نے فرائض و واجبات کو چھوڑ کر صرف دوسرے کی تلاوت وغیرہ کے تبرکات و نوافل پر تکیہ کرلیا ہے، ایسا تکیہ کہ بھولے سے بھی ان کی توجہ فرائض و واجبات یا خود تلاوت قرآن وغیرہ کی طرف نہیں جاتی، دوسرابہت بڑا نقصان طلبہ کی تعلیم کا ہوتا ہے، قرآن خوانی وغیرہ میں خاطر خواہ وقت لینے والوں کویہ کون بتائے کہ یہ طلبہ مروجہ قرآن خوانی وغیرہ کے لیے نہیں بلکہ دین و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں تاکہ اس تعلیم کی روشنی میں وہ قوم و ملت کی صحیح طور سے رہنمائی کرسکیں، مگر جہالت کی دبیز پٹی اس قدر پڑی ہوئی ہے کہ اس طرح کی باتیں ایسے لوگوں کو سمجھ میں ہی نہیں آتی یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں، جب چاہیں گے آ دھمکیں گے اور بچوں کی پڑھائی تباہ کرکے اپنے تبرکات سمیٹنے کی بھر پور کوشش کرکے کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھنے کی بھر پور کوشش کریں گے، اگر یہی طریقہ کار رہا اور اہل مدارس نے اس سے بچنے کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا؛ تو ان نیم پڑھے لکھے لوگوں کی وجہ سے علم و عمل کا جنازہ ہی نکلے گا اور جہالت اپنی فتح کا جھنڈا لہراتا ہوا نظر آئے گا جس کا مداوی ہم اگلی کئی صدیوں میں بھی کرنا چاہیں گے؛ تو نہیں کرسکیں گے اور اس کا بھیانک خمیازہ قوم مسلم کو بھگتنا ہی پڑے گا بلکہ ایک حد تک بھگت ہی رہی ہے بس دیکھنے اور سمجھنے کے لیے عبرت والی نگاہ، دل اور دماغ چاہیے۔
            اساتذہ اور طلبہ کی بھی تساہلی، آرام طلبی اور پزمردگی کچھ کم نہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ بارہا احساس ذمہ داری دلانے کے باوجود احساس ذمہ داری کی کوئی رمق نظر نہیں آتی، درس و تدریس میں لاپرواہی، حاضری و غیر حاضری کا کوئی مطلب نہیں، کد و کاوش کی کوئی چاہت نہیں، بس جوں توں زندگی گزرجائے بس یہی کافی ہے، حالاں کہ زندگی گزرانے کے لیے نہیں بلکہ کچھ کرگزرنے کے لیے ہوا کرتی ہے مگر ضد یہی ہے کہ ہم اسی بے حسی اور بے غیرتی کے عالم میں زندگی گزاریں گے اور یوں دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اور ادھر کچھ سالوں سے عموما گورنمنٹی نوکری والوں کا حال بد سے بد تر ہوتا چلا جارہا ہے، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف تنخواہ کے بارے میں ہی بات کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا کام نہیں، اب ایسی جگہوں سے ماہر عالم، ماہر مفتی اور ماہر محدث وغیرہ کی امید رکھنا کسی سراب سے کم نہیں۔
            ضمیر فروش اور بکاؤ خطبا اور گویوں کی اتنی کثرت ہوچکی ہے کہ وہ اپنا دام لگانے میں ذرہ برابر عار و عیب محسوس نہیں کرتے، حد درجہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ طریقہ کار اور یہ بے ڈھنگی زمانہ طالب علمی ہی سے دل و دماغ میں بسنے لگتی ہے بلکہ اسی وقت سے زبان و بیان بیچ کر اور گاکر پیسے کمانے کی ہوڑ لگی رہتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مدرسہ میں پڑھنے نہیں بلکہ روپئے کمانے آئے ہیں، انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ مدرسہ دین کا قلعہ ہے، یہ قلعہ دین و سنیت کا سپاہی پیدا کرنے کے لیے ہے نہ کہ بے ڈھب خطبا اور گویوں کے وجود میں اضافہ کرنے کے لیے ہے، طلبہ اور اساتذہ کے اندر اس طرح کی خواہشات نے ان کے ذہن و دماغ کو بالکل مفلوج کردیا ہے؛ جس کی وجہ سے ان کے اندر قوم کی فلاح و بہبود کی نہ تو کوئی فکر نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی صالح جزبہ دکھائی دیتا ہے اور یہ ایسے افراد کے لیے ممکن بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ مادیت پرستی کے دیوانوں کا انجام ہی یہی ہے کہ صم بکم عمی کی طرح زندگی گزاریں اور یوں ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں۔
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا   جہل  ہے  بدنام  خرد  ہوتی ہے
            مدارس کے ذمہ داروں پرفارغین کی کثرت تعداد دکھانے کا اس قدر بھوت سوار رہتا ہے کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، ثانیہ و ثالثہ کے بچہ کو عالمیت و فضیلت کی دستار دے دیں گے، دس بیس پارہ حافظ قرآن کو حفظ کی دستار دے دیں گے، ذمہ دار نے دستار تو دے دی مگر یہ نہ سوچا کہ یہ بچہ اس پگڑی و دستار کا ناجائز فائدہ اٹھائے گا اور اپنے آپ کو مولانا و حافظ کہتا پھرے گا اور جب پڑھانے بیٹھے گا تو بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرے گا، ان کے گارجن کی امیدوں پر پانی پھیرتا دکھائی دے گا اور مدارس کے ذمہ داران اس کھلواڑ اور تباہی کو ترقی کا نام دیتے نہیں تھکیں گے، ایسی ترقی پر اف اور تف ہے۔
            نیز عموما مدارس کے سسٹم اور ڈسپلین کا تو پوچھئے مت، پورا سسٹم تہس نہس ہوچکا ہے، آج قانون بنا، آج ہی اس کا جنازہ نکال دیا گیا، نماز جیسی اہم عبادت کا کوئی مول نہیں، کسی استاذ نے برمحل سختی کی تو دوسرا استاذ اس کے خلاف ذہن سازی کرنے کی کوشش کرنے لگے گا، تھوڑی سی پریشانی ہوئی یا سختی کی گئی تو طلبہ مدرسہ سے چلے جانے کی دھمکی دینے لگیں گے اور اگر خدا نہ خواستہ کہیں ایسا ہوگیا تو پورے عوام و خواص مل کر حقیقت جانے بغیر اساتذہ کو سب و شتم کرنے لگیں گے اور یوں بھڑاس نکالیں گے گویاکہ برسوں کی دشمنی کا حق ادا کررہے ہیں۔
            یہ اور اس کے علاوہ دوسری ساری خرابیاں نہ تو اسلام کا حصہ ہیں اور نہ ہی اسلام میں ان کی کوئی جگہ ہے؛ اس لیے فوری طور پر مدارس، مساجد اور خانقاہ کے ذمہ داران، طلبہ اور علما کو ہوش کے ناخون لینا از حد ضروری ہے؛ تاکہ اس گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر علم و عمل کی روشنی میں زندگی گزاریں اور دوسرے لوگوں کو بھی اسی روشنی کی کرنوں میں رچاتے بساتے نظر آئیں۔
            بہر کیف یہ سب اور اس طرح کی بہت ساری خرابیوں کی نشان دہی قارئین کرام کو محب مکرم حضرت مولانا مفتی کہف الوری مصباحی زید علمہ کی اس کتاب ’مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی اسباب اور حل‘ میں ملیں گی، یہ بظاہر نشتر تو ضرور ہے مگر یہ وہی نشتر ہے:
اس بزم میں مقصود ہے اصلاح مفاسد
نشتر جو لگاتا ہے  وہ  دشمن  نہیں ہوتا
            اس لیے موصوف مصنف زید علمہ یا مجھ فقیر کو برا بھلا کہنے کے بجائے سنجیدگی سے پیش کردہ امور پر غور و خوص کرنے کی سخت ضرورت ہے؛ تاکہ کوئی بہترین حل نکل کر سامنے آئے اور ایک بار پہلے کی طرح پھر ہم اپنے مقصد میں متحد نظر آئیں اور قوم کو علما، خطبا اور نعت خواں اسی طرح کے دے سکیں جس کی قوم کو ضرورت ہے اور جس کی عملی تصویر ہمارے سلف صالحین نے ماضی میں پیش فرمائی ہے، اللہ تعالی مولانا موصوف زید علمہ کو اس حق گوئی و بے باکی کا دنیا و آخرت میں بہترین جزا عطا فرمائے، مزید خلوص کے ساتھ لکھنے، پرھنے اور بولنے کی توفیق رفیق سے نوازے اور آخرت میں ہم سب کے لیے اسے ذریعہ نجات بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

دعا گو دعا جو:
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفر لہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:8318177138
ای میل:fmfoundation92@gmail.com
       ۲۳؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق ۳۱؍ اپریل ۲۰۱۹ء

(تقدیم کتاب: مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی، اسباب و علاج، از مفتی کہف الوری مصباحی زید علمہ)

نقابت اور ہماری ذمہ داریاں

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
            جلسہ اور دیگر پروگرام میں عموما تین طرح کی شخصیات، مختلف صلاحیت کے مالک اناؤنسر، نعت خواں اور خطبا جمع ہوتے ہیں، جلسہ وغیرہ کو کامیاب بنانے کے لیے جہاں نعمت خواں اور خطبا کا اہم کردار ہوتا ہے، وہیں اناؤنسر کا بھی کلیدی رول ہوتا ہے، چونکہ ہر اناؤنسر بننے کی خواہش رکھنے والے کے اندر یہ خوبی نہیں ہوتی کہ وہ کسی کتاب وغیرہ کے تعاون کے بغیر از خود اناؤنسری کرسکے؛ اسی لیے ایسے لوگوں کی ضرورت کی تکمیل کے پیش نظر مولانا نور محمد برکاتی تنویری سلمہ، متعلم: تنویر الاسلام امرڈوبھا نے ایک رسالہ بنام ’’تنویری نقابت‘‘ تحریر کیا ہے، آپ کے منتحب نقابت کے الفاظ، القابات و انداز اچھے ہیں اور آپ نے اشعار وغیرہ کو بھی چن کر بر محل رکھا ہے، اب اس سے استفادہ کرنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انہیں برمحل استعمال کریں، آج کل یہ دیکھا جاتا ہے کہ عموما اناؤنسر حضرات القابات کو بے محل رکھتے ہیں، ان میں سے دو اہم اور بھاری بھر کم القابات بہت عام ہوچکے ہیں، ایک علامہ اور دوسرا مفتی، کوئی بھی خطیب ہو، خواہ ان کی اہلیت رکھتا ہو یا نہیں، اسے یہ اناؤنسر حضرات علامہ و مفتی کے لقب سے ضرور نوازدیتے ہیں! اناؤنسر حضرات کا یہ طریقہ یعنی جو جن القابات کا مستحق نہ ہو ان کو ان القابات سے نوازنا یا جو جن القابات کا مستحق ہو اسے ان القابات سے نہ نوازنا قرآن کریم اور سنت نبوی کے خلاف ہے،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
            {وهو الذي جعلکم خلائف الأرض و رفع بعضکم فوق بعض درجات لیبلوکم في ما آتاکم إن ربك سریع العقاب و إنه لغفور رحیم} (الانعام:۶، آیت:۱۶۵)  ترجمہ: ((اور وہی ہے جس نے زمین میں تمھیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بے شک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بے شک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے)) (کنز الایمان)
             حضرت میمون بن شعیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک سائل ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے گزرا؛ تو آپ نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیا اور ایک دوسرا مرد ان کے پاس سے گزرا، جس کی حالت اچھی تھی؛ تو آپ نے اسے بیٹھایا، پھر اس نے کھایا، اس تفریق کے بارے میں ان سے پوچھا گیا؛ تو آپ نے کہا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((أنزلوا الناس منازلھم)) (سنن أبی دواؤد، ج۴ص۲۶۱، باب فی تنزیل الناس منازلھم، رقم: ۴۸۴۲) ترجمہ: ((لوگوں کو ان کی منزلت و مرتبہ کے اعتبار سے عزت دو))
            نیز ہر ایک خصوصا اناؤنسر کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات ضرور ہونی چاہئے کہ وہ جو بات کہ رہا ہے، وہ سب لکھا جارہا ہے، اسے ان سب کا آخرت میں حساب بھی دینا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {ما یلفظ من قول إلا لدیه رقیب عتید} (ق: ۵۰، آیت: ۱۸)  ترجمہ: ((کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو)) (کنز الایمان)
            حضور نبی دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ عبادات کو ذکر کرنے کے بعد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
            ((ألا أخبرك بمَلاك ذلك کله)) قلت: بلی یا نبی اللہ؛ فأخذ بلسانہ، قال: (کف علیك)) فقلت: یا نبی الله! و إنا لمؤاخذون بما نتکلم به؟ فقال: ((ثکلتك أمك یا معاذ، و هل یکب الناس في النار علی وجوههم أو علی مناخرهم إلا حصائد ألسنتهم)) (سنن الترمذی، ج۵ ص۱۲، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، رقم: ۲۶۱۶)
            ترجمہ: ((کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتادوں کہ تمہاری وہ سب گزشتہ عبادتیں درست رہیں، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں: کیوں نہیں اے اللہ کے نبی! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ((اس کی حفاظت کرو)) اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا ہم جو کچھ بات کرتے ہیں، اس کا حساب ہوگا؟! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہا فرمایا: ((تمہاری ماں تمہیں کھودے، لوگوں کو ان کی زبان کا کیا دھرا ہی انہیں ان کے چہرے یا ناک کے بل انہیں جہنم میں ڈالے گا))
            اس لیے سب بالخصوص اناؤنسر پر لازم ہے کہ وہ جو کچھ کسی کے بارے میں کہ یا بول رہا ہے، پہلے اس کے بارے میں سوچ سمجھ لے کہ وہ اس کا مستحق ہے یا نہیں، وہ اس کے قابل ہے یا نہیں، پھر اسی کے مطابق کلام کرے تاکہ یہ کلام اس کے لیے وبال جان بننے کے بجائے دارین میں سعادتوں کا سبب بنے اور دل بھی چین و اطمینان کا سانس لے سکے، اللہ تعالی ہم سب کو زبان کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
            اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل میں اس رسالہ کو مقبول خاص و عام فرمائے، مولانا نور محمد برکاتی تنویری سلمہ اور دیگر علما کو خلوص کے ساتھ مزید تحریری، دینی و ملی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا کرے اور اس رسالہ کو ان کے لیے آخرت میں ذریعہ نجات بنائے، آمین۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفر لہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:8318177138
ای میل:fmfoundation92@gmail.com
۲۰؍رجب المرجب ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۸؍۴؍ ۲۰۱۸ء

(تقدیم) 

مضمون ’’ بابا رتن ہندی بحیثیت صحابی رسول‘‘ آخری قسط کا منصفانہ جائزہ



مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
ایک ماہ قبل ایک ساتھی کی زبانی یہ سننے کو ملا کہ ہندوستان کے کسی ماہنامہ میں بابا رتن ہندی کو جس کی وفات  ۶۳۲؁ھ  میں ہوئی صحابی ثابت کیا گیا ہے سن کر بڑا تعجب ہوا، کیونکہ ہم حدیث اور علوم حدیث کی کتابوں میں یہی پڑھتے آیے ہیں کہ آخری صحابی رسول ﷺ ابو طفیل عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جن کی وفات  ۱۱۰ ھ ؁ میں ہوئی ، اس جدید تحقیق نے میرے دل میں یہ اشتیاق پیدا کیا کہ ضرور اس مضمون کا مطالعہ کیا جائے، پھرکچھ دنوں بعد مولانا شاہد رامپور ی ازہری کے ذریعہ ماہنامہ ’’کنز الایمان ‘‘شمارہ مارچ  ۲۰۱۰ھ؁ دستیاب ہوا ساتھ ہی اس بات سے با خبر کیا کہ اسی ماہنامہ میں مضمون ’’بابا رتن ہندی بحیثیت صحابی رسول‘‘ شایع ہوا ہے،تو میں نے اولا اسی مضمون کا مطالعہ شروع کیا اور جب میں اختتام کوپہونچا تو یہ احساس ہوا کہ یہ  مضمون یقینی طور پر کافی محنت اور ورق گردانی کے بعد منظر عام پر آیا ہے جس کی عکاسی حوالا جات کر رہے ہیں،مگر میرا دل اس جدید تحقیق پر مطمئن نہ ہوسکا اور ہو بھی کیسے سکتا تھا اس لئے کہ اکابر علمائے حدیث کی آراء وتحریریں اس مضمون کے بر خلاف تھیں ، تو میں نے ضروری سمجھا کہ ان حضرات کی آراء کو دلائل سے مزین کرکے حقیقت حال قارئین پر آشکارا کروں ۔
 اس میں دورائے نہیں کہ مضمون ’’بابا رتن ہندی بحیثیت صحابی رسول‘‘ کسی کے صحابی ہونے اور نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اصول حدیث اور متن حدیث پر مشتمل ہے مگر مضمون میںمتن پر زیادہ زور ہے اور تقریبا اصول حدیث سے بے اعتنائی برتی گئی ہے۔ متن حدیث صحیح ہے یانہیں ، اور جرح و تعدیل کب معتبر ہے کب نہیں ،جرح کرنے والا اگر مجرح کا معاصر ہو تو اس کا کیا اثر پڑے گا ،خاص طور سے جب کہ آپس میں کوئی چپقلش یا حسد کی بو آتی ہو ، یا یہ کہ جارح بعض مسائل میں اختلاف کی وجہ سے افراط و تفریط کا شکار ہو ، ان کے علاوہ اور بہت ساری چیز یں ہیں جن کے حل کے لئے علماء حدیث اور ان کے اقوال کی طرف لازما رجوع کرناچاہئے جنھوں نے بہت ہی شر ح و بسط کے ساتھ علم حدیث کے اصول و قواعد کو واضح کر دیا ہے ،اور کبھی بھی کسی شخص کی جرح وقدح کے لئے فقط ایک عالم کے قول پراکتفاء نہیں کرنا چاہئے ورنہ کبھی بھی علم حدیث خاص کر علم رجال میںحق واضح نہ ہوسکے گا۔  لہذا ضروری ہے کہ اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کی بارگاہ عالی میں زانو ئے ادب تہہ کیا جائے تا کہ صحیح ڈھنگ سے مرض کا تعین ہو اور اس کے مطابق دوا کا انتخاب کر کے بہتر طریقہ سے علاج کیا جا سکے ۔ انہیںجہابذہ حدیث کے اقوال وقوانین کی روشنی میں’’ بابا رتن ہندی بحیثیت صحابی رسول‘‘کی آخری قسط پر کچھ معروضات پیش خدمت ہیں ۔
ہمارے معروضات دو حصوں پر مشتمل ہیں پہلا حصہ رد جس میں ہم مقالہ نگار کے دلائل کا جائزہ لیںگے،اوردوسراحصہ اثبات ، جس میں ’’حدیث عمر الامۃ‘‘ کاصحیح مفہوم اور بابا رتن ہندی کے کذاب ہونے کو اقوال علمائے حدیث کی روشنی میں پائے ثبوت تک پہونچائیں گے ،اور اواضح کریںگے کہ محدثین کرام نے جو سمجھاہے وہی صحیح ہے،نہ کہ وہ جو مقالہ نگار نے زبردستی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
پہلا حصہ: رد اورمقالہ نگار کے دلائل کا جائزہ:
صاحب مقالہ بعض علماء جنھوں نے با با رتن ہندی کے صحابی ہونے کا انکار کیا ہے ان کے حوالہ جات نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :ــــ’’ لیکن ان میں سے کسی کا قول مضبوط نہیں کہ لگ بھگ سب کی بنیاد امام ذہبی کے قول پر ہے اور سب کی بات میں تزلزل ہے‘‘ ۔
صاحب مقالہ نے میری سمجھ سے بابا رتن ہند ی کو صحابی ثابت کرنے کے لئے اپنے مقالے میںپانچ دلیلیں پیش کی ہیں شاید  انھیں دلیلو ںپر توکل کرکے مذکورہ بالاقول کرنے کی جرات کی ہے ۔ (۱)  بابارتن ہندی کی صحابیت کا انکار کرنے والے امام ذہبی رحمہ اللہ ہیں اور باقی علماء اس معاملے میں ان کے متبع ہیں اور امام ابن سبکی نے ا ن پر بہت لعن و طعن کر کے تشنیع و تحقیر میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، یہاں تک فرمادیا: لا یعتمد علیہ، ولا ینبغی ان یوخذ من قولہ،کیونکہ وہ اہل سنت کے متعلق کلام کرنے میں بہت افراط و تفریط سے کام لیتے تھے لہذا جب اتنے بڑے عالم نے کہہ دیا تو اب ان کے قول کاا عتبارنہیں ،لہذا ان کی اتباع کرنے والے دیگر علما کا بھی اعتبار نہیں (۲) اولیا و ابدال با با رتن ہندی کے صحابیت کی تصدیق کر چکے ہیں لہذا تنہاایک امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول کو ان کی تصحیح پر کیسے ترجیح دیاجا سکتا ہے ؟  دوسر ی جگہ فرماتے ہیں: آپ کی صحابیت کی اور آپ سے اخذ حدیث وتصحیح سند کرنے والے حضرات کے اسمائے گرامی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۳) خلاصہء حدیث میںحدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’یعنی جتنے لوگ حجاز مقدس پر رہنے بسنے والے ہیں ان میں سے کسی کی بھی سو سال سے زیادہ عمر نہیں ہوگی ، البتہ ا س صدی کے بعد والوں کی عمر حجاز میں بھی سو سال سے زیادہ ہو سکتی ہے‘‘۔(۴) ’’ پھر اگر درازی عمر ہی پر اعتراض ہو توحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تقریبا تین سو سال ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمام حضرات حجاز مقدس سے باہر تھے اس لئے اس حدیث شریف سے ان پر کوئی اعتراض نہیں پڑے گا ، اسی طرح بابا رتن ہندی بھی عہد رسالت ہی میں ہندوستان چلے آیے تھے،اس لیے آپ بھی قیدصدی سے باہر سمجھے جائیںگے‘‘۔(۵) اور اگر کوئی بضد ہو اور حدیث کو عموم پر ہی محمول کرتا ہو تو کوئی حرج نہیں،کیونکہ حضور اکرم ﷺنے بابارتن ہندی کی درازی عمر کے لئے چھ مرتبہ دعاء فرمائی،ہر بارمیں سوسال کی آپ کو عمر ملیـ‘‘۔  پھر حدیث ذکر کی: وقال لی عند خروجی الخ۔۔۔۔۔ آیئے دیکھتے ہیں ان کی مذکورہ بالا بنیادوں میں کتنا قرار اور کتنا تزلزل ہے۔ 
پہلی دلیل کتنی کمزور اور ناقص ہے مندرجہ ذیل نکات کی روشنی میں انشاء اللہ واضح ہوجائے گااور یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ امام ابن سبکی رحمہ اللہ کی جرح ونقد امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول کے انحطاط کا باعث نہیں بن سکتا ،لہذا امام ذہبی رحمہ اللہ معتمد علیہ ہونگے ۔
پہلا نکتہ: امام ابن سبکی رحمہ اللہ کی جرح ونقد کا اعتبار امام ذہبی رحمہ اللہ کے حق میںمقبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر چہ دونوں کے درمیان استاذ اور شاگردی کا رشتہ ہے مگرچونکہ دونوں ایک دوسرے کے معاصر ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے درمیان صفات باری تعالیٰ وغیرہ کے مسئلہ میں سخت اختلاف بھی ہے ،اس لیے امام ابن سبکی رحمہ اللہ کی جرح امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں معتبر نہیں ہوگی ۔امام ابو محمد عبدا للہ بن وہب قرشی ’’المبسوطۃ ‘‘میں فرماتے ہیں :
            انہ لا یجوز شھادۃ القاری علی القاری ۔یعنی العلماء ۔ لانھم اشد الناس تحاسد اوتباغضا،وقالہ سفیان الثوری ومالک بن دینار۔ ترجمہ: ایک عالم کی دوسرے عالم کے خلاف گواہی معتبر نہیں ، کیونکہ ان کے اندر بغض و حسدبہت زیادہ پایا جاتا ہے ، اور اسی کے قائل سفیان ثوری اور مالک بن دینار رحمہمااللہ بھی ہیں ۔(۱)  یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم عصر کی جرح ایک دوسرے کے حق میں قابل قبول نہیں ہوگی،محدث کبیر ابو غدۃ حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اسی کو علمائے متاخرین یوں فرماتے ہیں : لا یسمع کلام الاقران بعضھم فی بعض۔(۲)
اور امام ابو الحسنات ابو الحسن لکنو ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر کوئی عالم جرح عداوت یا تعصب یا نفرت کی وجہ سے کرے تو اس کی جرح غیر قابل قبول بلکہ مردود ہو گی، پھر مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ولہذا : لم یقبل قول الامام مالک فی ’’محمد بن اسحاق‘‘صاحب المغازی : انہ دجال من الدجاجلۃ لما علم انہ صدر من منافرۃ باھرۃ ۔ ترجمہ: اس لئے امام امالک رحمہ اللہ کا قول ’’محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کے بارے میں قبول نہیں کیا گیاکہ : وہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے کیونکہ انہوں نے ان کے حق میں شدید نفرت کی وجہ سے ایساکلام کیاہے۔ (۳)
پھر مزید کچھ مثالیں دینے کے بعد فرماتے ہیں : ومن ثم قالوا: لا یقبل جرح المعاصر علی المعاصر ای اذا کان بلا حجۃ لان المعاصرۃ تفضی غالبا الی المنافرۃ ۔ ترجمہ: ائمہ حدیث فرماتے ہیں : معاصر کی معاصر کے خلاف جرح قبول نہیں کی جائے گی جبکہ بغیر دلیل کے ہو ، کیونکہ معاصرت عموما نفرت کا باعث بنتی ہے(۴)
معاصرت اور ان دونوں کے درمیان صفات باری تعالیٰ کے تعلق سے شدید اختلاف کی وجہ سے ہی امام ابن سبکی رحمہ اللہ کے نقد کوعلماء کرام نے رد کردیا ،یا یہ کہکرغیر مقبول قراردے یا کہ امام ابن سبکی رحمہ اللہ نے جس تعصب اور بے جا نقد کو امام ذھبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرکے ان کوغیر معتبر بنانے کی کوشش کی ہے وہ خود بھی اسی بلاء میں ملوث ہیں بلکہ ان سے دو چار ہاتھ آگے ہی ہیں۔ چنانچہ امام صنعانی رحمہ اللہ ’’صاحبــ سبل السلام‘‘ اپنی کتاب ’’ توضیح الافکار لمعانی تنقیح الانظار ‘‘ میں ان کے قول پر تعقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قلت لا یخفی ان ابن السبکی شافعی حاد اشعری وان الذھبی امام کبیر الشان ، حنبلی الاعتقاد ، شافعی الفروع و بین ھاتین الطائفتین الحنابلۃ والاشعریۃ فی العقائد : فی الصفات و غیرھا تنافر کلی فلایقبل السبکی علی الذہبی بعین ما قالہ فیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔فلم یبقی للباحث طمانینۃ الی قول احد بعد قول ابن السبکی : انہ لا یقبل الذھبی فی مدح حنبلی ولا ذم اشعری وقد صار الناس عالۃ علی الذھبی و کتبہ، ولکن الحق انہ لا یقبل علی الذھبی ابن السبکی لما ذکرہ ھو ، ولما ذکرہ الذھبی من انہ لا یقبل الاقران بعضھم علی بعض۔
ترجمہ: واضح ہے کہ ابن سبکی رحمہ اللہ شافعی ہونے کے ساتھ متشدد اشعری ہیں اور ذہبی رحمہ اللہ بڑے امام ، اعتقاد میں حنبلی ہیں اور فروعیات میں شافعی کی پیروی کرتے ہیں ، اوران دو نوں جماعتوں کے درمیان خدا کی صفات وغیرہ میں اعتقاد کے تعلق سے پورے طور سے بعد ہے۔۔۔۔۔۔ امام ابن سبکی رحمہ اللہ کا امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں ایسا قول کرنے کے بعد کہ : امام ذہبی کا قول کسی حنبلی کی تعریف  یا کسی اشعری کی مذمت میں قبول نہیں کیا جائے گا ،کوئی معتبر آدمی نہیں رہ گیا کہ جس کی طرف باحث رجوع کرکے اپنے دل کو اطمینان بخشے ، اور حال یہ ہے کہ لوگ امام ذہبی اور ان کی کتابوں پر پورہ اعتماد کرنے لگے ہیں ، بہر حال حق یہ ہے کہ: خود امام سبکی رحمہ اللہ کے قائدہ کی بنیاد پر ان کی جرح اور امام ذہبی رحمہ اللہ کے اصول کی بنا پر معاصر کی جرح ایک دوسرے کے خلاف معتبر نہیں ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے خلاف قابل قبول نہ ہو گی(۵)
امام سخاوی رحمہ اللہ امام سبکی رحمہ اللہ کے نقد کو امام ذہبی کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :فالذی نسب الذہبی لذلک ہو تلمیذہ التاج السبکی وہو علی تقدیر تسلیمہ،انما ہو فی افراد مما وقع التاج السبکی اقبح منہ ۔
ترجمہ: جس افراط و تفریط کی طرف امام سبکی نے اپنے شیخ کو منسوب کیا ہے اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے ، تو و ہ تو خودبھی بعض افراد کے بارے میں افراط و تفریط کے شکار ہوئے ہیں جو ان سے زیادہ قبیح ہے(۶) اس کی مثالیں امام سخاوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاعلان بالتوبیخ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
قاضی شوکانی امام سبکی رحمہ اللہ پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ومن جملۃ ما قالہ السبکی فی الحافظ الذھبی : انہ کان اذا اخذ القلم غضب حتی لا یدری مایقول وھذا باطل ، فمصنفاتہ تشھد بخلاف ھذہ المقالۃ ، وغالیھا الانصاف والذب عن الافاضل و اذ جری قلمہ با لو قیعۃ فی احد ، فان لم یکن من معاصریہ فھو انما روی ذلک عن غیرہ، وان کان من معاصریہ فالغالب انہ لا یفعل ذلک الا مع من یستحقہ وان وقع ما یخالف ذلک نادر ا  فھذا شان البشر وکل احد یوخذ من قولہ و یترک الا المعصوم ، والا ھویۃ تختلف ،والمقاصد تتباین وربک یحکم بینھم فیما کانوا فیہ یختلفون ۔
ترجمہ: اور امام سبکی رحمہ اللہ کی تنقید میں سے امام ذہبی رحمہ اللہ پر یہ بھی ہے : امام ذہبی رحمہ اللہ جب لکھنے کا ارادہ کرتے تو غصہ میں آجاتے اور کیا لکھتے وہ خود نہیں سمجھ پاتے تھے ۔یہ قول باطل ہے، جس کے بطلان پر ان کی کتابیں شاہد عدل ہیں ، ان کی کتاب کا اکثر حصہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ علماء کے حق میں انصاف سے کام لیتے تھے اور ان سے خرابیوں کو دور کرتے تھے، اور اگر ان کا قلم کسی کے بارے میں نقد کے لئے اٹھا اور خطا واقع ہوئی تووہ ان کاہم عصر نہیں ہو گا اور دوسرں کا قول ان کے بارے میں ذکر کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا، اور اگر ان کے معاصر میںسے ہے تو نقد کرنے کے لئے انہیںپر قلم اٹھایا اور وہی لکھا جس کا وہ مستحق تھا، اور اگر کبھی غلطی سے خلاف حق جرح ہوگئی تو یہ تو بشر کی فطرت سے ہے ،اور معصوم کے سوا ہر شخص کے بعض قول لئے جاتے ہیں اوربعض چھوڑ دیئے جاتے ہیں، اور خواہشات ہر ایک کی مختلف ہوتی ہیں اور تمہارا رب ان کے اختلاف کا فیصلہ کرے گا (۷)
اور دوسری جگہ امام سخاوی فرماتے ہیں: بالغ السبکی فی کلامہ مع ان الذھبی عمدتہ فی جل التراجم و کونہ ھو ـای السبکی ـ قدزاد التعصب علی الحنابلۃ کما اسلفتہ فشارکہ فیما زعمہ من التعصب و دعوی الغیبۃ ۔            
ترجمہ: امام سبکی رحمہ اللہ نے امام ذہبی رحمہ اللہ پر نقد کرنے میں مبالغہ کیا ہے حالانکہ وہ اکثر تراجم میں عمدہ ہیں، اور ابن سبکی تو خود حنابلہ کے ساتھ تعصب سے پیش آئے ہیں ، لہذا امام ذھبی کے بارے میں تعصب اور بے جا نقد کا دعوی کرتے کرتے خود اس میں گرفتار ہو گئے (۸)
دوسرا نکتہ:اور اگر بر سبیل تنزل یہ مان لیا جائے کہ امام سبکی رحمہ اللہ کی نقد و جرح امام ذہبی رحمہ اللہ کے حق میں معتبرہے ، اگر چہ وہ ایک دوسرے کے معاصر ہیں اور بعض مسائل میں سخت اختلاف بھی رکھتے ہیں ،اس صورت میں بھی جب ہم ان کے اقوال کی طرف نظر کرتے ہیں تو یہ واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے کہ امام سبکی رحمہ اللہ کی جرح وقدح کو دلیل بناکر امام ذہبی رحمہ اللہ کے قول کو رد کرنا اور پھر بابا رتن ہندی کو صحابی ثابت کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ جرح و قدح صرف اہل سنت و صوفیاکے ساتھ خاص ہے اور یہ مسئلہ نہ تو اہل سنت سے تعلق رکھتا ہے اونہ ہی صوفیاء کے ارد گرد گھومتا ہے بلکہ یہ مسئلہ تو کسی کے صحابی ہونے اور نہ ہونے پر ہے ۔ جس میں کسی فریق کی وجہ سے کسی کے صحابی ہونے کا انکارکرنا خطرے سے خالی نہیں اور ایسی امید ایسے امام علم و فن سے نہیں کی جاسکتی ۔
امام ابن سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لہ علم و دیانۃ ، وعند ہ علی اھل السنۃ تحامل مفرط فلا یجوز ان یعتمد علیہ(۹) ترجمہ: اگر چہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا علم اور ان کی دیانتداری مسلم ہے مگر ساتھ ہی ان کے کلام میں اہل سنت پر زیادتی بھی موجود ہے اس لئے ان کی جرح و تعدیل پراعتماد نہیں کیا جائے گا ۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں : واما تاریخ شیخنا الذھبی غفراللہ لہ ۔ فانہ علی حسنہ و جمعہ ۔ مشحون بالتعصب المفرط لا واخذہ اللہ، فقد اکثر الوقیعۃ فی اھل الدین ، اعنی الفقراء الذین ھم صفوۃ الخلق الخ۔۔۔۔۔ ترجمہ: اور ہمارے شیخ امام ذہبی رحمہ اللہ کی ’’تاریخ الاسلام ‘‘اگر چہ عمدہ کتاب ہے مگر وہ کتاب بے جا تعصب سے بھری پڑی ہے ، اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے انہوں نے صوفیائے کر ام جو صفوۃ الخلق ہیں ان پر بہت بے جا نقدکیا ہے(۱۰)
اور تیسرے مقام پر فرماتے ہیں : والذی افتی بہ انہ لا یجوز الاعتماد علی کلام شیخنا الذھنی فی ذم الاشعری ولا شکر حنبلی واللہ المستعان ۔ ترجمہ: اور فتوی یہ ہے کہ جب ہمارے شیخ امام ذہبی رحمہ اللہ کا کلام کسی اشعری کی مذمت یا کسی حنبلی کی تعریف میں ہو تو ان کے کلام پر اعتماد نہیں کیا جائے گا(۱۱)
            اور اگر ان اقوال سے استدلال درست مان بھی لیا جائے اور مذکورہ مسئلہ کو اہل سنت کا مسئلہ قرار دیدیا جائے پھر بھی اگرہم ان کے اقوال کی طرف غائرانہ نظرڈالتے ہیں اور پھر امام ذہبی رحمہ اللہ کے مصنفات کی طرف نظر کرتے ہیں تو حقیقت ان کے اقوالـ ـ جن کو وہ جرح سمجھتے ہیں کے خلاف نظر آتی ہے۔ آخران تینوں اقوال کا نچوڑ یہی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ اہل سنت ،صوفیاء کرام پر کلام کرکے ان پر حد سے زیادہ شدت برتی ہے، لہذاان کا قول معتبر نہیں ہو گا ۔ حالانکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ امام ہبی نیک اور متقی آدمی تھے ، صوفیاء اور صلحاء سے محبت رکھتے تھے ، ان کے محبت کی دلیل یہ ہے کہ اگر چہ انہیں بعض صوفیاء کے افعال پر ا عتراض ہوتا مگر وہ ان کے بارے میں حسن ظن کا حکم دیا کرتے تھے۔
چنانچہ جب صوفی شیخ ابن الفارض کا ترجمہ لکھا، اس وقت فرمایا: حدث عن القاسم بن عساکر ینعق بالاتحادالصریح فی شعرہ وھذہ بلیۃ عظیمۃ فتدبر نظمہ و لا تستعجل ولکن حسن الظن بالصوفیۃ۔ ترجمہ: ابن عساکرسے روایت کی گئی ہے کہ وہ یعنی (ابن الفارض) اپنے شعر میں صریح اتحاد کا ذکر کرتے ہیں اور یہ بلائے عظیم ہے ، تو پہلے ان کے اشعار کو غور سے پڑھو اور حکم لگانے میں جلدی نہ کرو بلکہ صوفیاء کرام کے تعلق سے حسن ظن رکھو ۔ (۱۲)
اور ان کے اہل سنت و جماعت اور صوفیائے کرام سے محبت کی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی کتابوں میں صوفیاء کرام اور صلحاء کا ذکر بہت بہتر طریقہ سے ہے ان کی جابجا امام ذہبی رحمہ اللہ تعریف و توصیف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، ان کی کرامت اور خوابوں کا ذکر کرتے ہیں ، ان حضرات کے ذکر خیر سے ان کی کتابیں مملوء ہیں یہ یقینا ان کے صلاح قلب اور دین حق میں خیر خواہی کی دلیل ہے ۔
ان کی محبت کوصوفیاء اور اہل سنت سے آشکارہ کرنے کے لئے اور ان سے تعصب کی تہمت اتارنے کے لئے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل زاہدوں اور صلحاء کے تراجم دیکھنا ضروری ہے جن کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ شرح و بسط کے ساتھ ترجمہ لکھ کر ان سے اپنی محبت والفت کا اظہار کیا ہے :
(أ)عظیم تابعی اویس قرنی یمانی رحمہ اللہ ۔(۱۳)
(ب) تابعی جلیل ابو مسلم خولانی، دارانی، دمشقی رحمہ اللہ ۔ (۱۴)
(ج) جلیل تابعی محمد بن واسع بصری رحمہ اللہ تعالی۔ (۱۵)
ان کے علاوہ اور بہت سارے تابعین کرام اور بعد کے صوفیاء کرام کا طویل ذکر ان کی مذکورہ دونوں کتابوںمیں ملے گا خاص کر جب دوسرے تراجم کی طرف نسبت کر کے دیکھا جائے تو یقینا صوفیاء کرام کے مناقب اور اولیاء کرام کی کرامات ذکر نے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کو فوقیت حاصل ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے تراجم میں تشدد کر تے تھے صحیح نہیں۔
تیسرا نکتہ :اگر مزید تنزلی کی جائے اور مان لیا جائے کہ آپ کے مطابق ان کی جرح معتبر ہے اور ان کی دلائل و اقوال بھی ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں بالکل صحیح اور واقع کے مطابق ہے ، تو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے کیا صرف ایک یا دو مجرح کی وجہ سے ان کے قول کو رد کر دیا جائے گا اگر چہ ان کی توثیق و توصیف میں علماء و محدثین کی ایک طویل فہرست ہو ، یقینا ایسا نہیں ہو گا بلکہ جمہور کا قول لیا جائے گا کیونکہ یہ اصول حدیث کے موافق ہے خاص طور سے جبکہ مجرح کی دلیل مضبوط نہ ہو ۔
ہمارے ا ستاذ رضا بن زکریا بن محمدصاحب قبلہ فرماتے ہیں : ان کان عدد المعدلین اکثر قدم التعدیل لان کثرۃ المعدلین تقوی حالھم وقلۃ الجارحین تضعف خبرھم ( ای یقدم الاکثر عددا) ترجمہ: اگر معدلین کی تعداد زیادہ ہو تو ان کو مجرحین پر مقدم رکھا جائے گا کیونکہ ان کا زیادہ ہونا ان کی حالت کو تقویت بخشتا ہے اور مجرحین کا کم ہونا ان کی خبر کو ضعف کی طرف لے جاتا ہے ۔(۱۶)
اور اگر تھوڑا غور کیا جائے تو خود امام ابن سبکی رحمہ اللہ کا قاعدہ اس بات پرشاہد عدل ہے کہ ان کا قول امام ذہبی رحمہ اللہ کے حق میں مقبول نہ ہوگا ،خصوصا جبکہ اس کا سبب آپسی اختلافات ہوں، یا عصبیت کی بنا پر اس کا صدور ہو اہو ، اور قرینہ شاہد عدل ہے کہ ان کی جرح وقدح انہیں چیزوں کی وجہ سے تھی جیسا کہ ثابت ہو چکا۔
چنانچہ فرماتے ہیں : الجارح لا یقبل منہ الجرح وان فسرہ فی حق من غلبت طاعاتہ علی معاصیہ ، ومادحوہ علی ذامیہ ، ومزکوہ علی جارحیہ ، اذا کانت ھناک قرینۃ یشھد العقل بان مثلھا حامل علی الوقیعۃ فی الذی جرحہ من تعصب مذھبی او منافسۃ دنیویۃ ، کما یکون بین النظراء او غیر ذلک۔
ترجمہ: جارح کی جرح اگر چہ مفسر ہو اس شخص کے حق میں جس کی طاعات اس کے معاصی پر اور اس کے مدح کرنے والے مذمت کرنے والے پر اور معدلین مجرحین پر غالب ہوں ، قبول نہیں کی جائے گی ، یہ اس صورت میں ہے جبکہ جارح مجروح کے حق میں مذھبی تعصب یا دنیوی تنافس کا شکار ہو ا ہو ، جیسا کہ ہم عصر وغیر ہ کے درمیان ہوتا ہے۔ (۱۷)
امام ذہبی رحمہ اللہ کے تعلق سے مختصرا چند اقوال ذکر کرتا ہوں جس سے صاف واضح ہو جائے گا کہ وہ اس مذکورہ قاعدہ کی روشنی میں اس قابل ہیں کہ امام ابن سبکی رحمہ اللہ کے قول کو ان کے حق میں قبول نہ کیاجائے ۔
(۱)قال تلمیذہ الحافظ المحدث الفقیہ الاصولی المورخ تاج الدین السبکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واما استاذنا ابو عبد اللہ فبحر لا نظیر لہ، و کنز ھو الملجا اذا نزلت المعضلۃ، امام الوجود حفظا، وذھب العصر معنی و لفظا، و شیخ الجرح  والتعدیل، ورجل الرجال فی کل سبیل، کانماجمعت الامۃ فی صعید فنظرھا، ثم اخذ یخبر عنھا اخبار من حضرھا، وھو الذی خرجنا فی ھذہ الصناعۃ،وادخلنا فی عداد الجماعۃ ،جزاہ اللہ عنا افضل الجزاء، وجعل حظہ من غرفات الجنان موفر الجزاء۔(۱۸)
 (۲) وقال الحافظ السیوطی فی ترجمۃ الذھبی : ’’حکی عن شیخ الاسلام ابی الفضل بن حجر ، انہ قال شربت ماء زمزم لاصل الی مرتبۃ الذھبی فی الحفظ ۔ والذی اقولہ : ان المحدثین  عیال الان فی الرجال وغیرھا من فنون الحدیث علی اربعۃ : المزی،والذھبی، والعراقی، وابن حجر ‘‘۔انتھی۔(۱۹)
(۳) وقال الحافظ ابن کثیر فی الثناء علی الذہبی:’’الشیخ الحافظ الکبیر مورخ الاسلام و شیخ المحدثین۔۔۔۔۔وقد ختم بہ شیوخ الحدیث وحفاظہ‘‘۔(۲۰)
(۴) وقال تلمیذ الذھبی ایضا العلامۃ المورخ الادیب صلاح الدین الصفدی ، فی ’’ الوافی بالوفیات ‘‘ ۲: ۱۶۳، فی ترجمتہ : ’’ ۔۔۔۔حافظ لا یجاری ، ولا فظ لا یباری ، اتقن الحدیث و رجالہ ،و نظر عللہ واحوالہ وعرف تراجم الناس ، وازال الابھام فی تواریخھم والالباس،ذھن یتوقد ذکاوہ، ویصح الی الذھب نسبتہ وانتماوہ ، جمع الکثیر، و نفع الجم الغفیر ، واکثر من التصنیف ، ووفر بالاختصار مؤونۃ التطویل فی التالیف۔
اجتمعت بہ واخذت عنہ ، وقرات علیہ کثیر امن تصانیفہ ، ولم اجد عندہ جمود المحدثین ، ولاکودنۃ النقلۃ بل ھو فقیہ النظر ، لہ دربۃ باقوال الناس ومذاھب الائمۃ من السلف وارباب المقالات ۔ واعجبنی منہ ما یعانیہ فی تصانیفہ ، من انہ لا یتعدی حدیثا یوردہ حتی یبین ما فیہ من ضعف متن، او ظلام اسناد، اوطعن فی رواتہ، و ھذا لم ار غیرہ یراعی ھذہ الفائدۃ فیما یوردہ ‘‘۔انتھی(۲۱)
امام ذہبی رحمہ اللہ کے مزید اوصاف جاننے کے لیے مندرجہ ذیل کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے:
(۱) البدر الطالع  ۲:۱۱۰،۱۱۲(۲)تاریخ ابن الوردی  ۲:۲۴۹(۳)الدرر الکامنۃ  ۳:۴۲۶،۴۲۷ (۴)الدارس فی اخبار المدارس  ۱:۷۸،۷۹(۵)ذیول العبرۃ  ۲۶۷،۲۶۸ (۶) شذرات الذہب  ۶:۱۵۳،۱۵۷ (۷) طبقات الاسنوی  ۱:۵۵۸،۵۵۹(۸) طبقات القراء  ۲:۷۱(۹) طبقات ابن ہدایۃ اللہ :۲۳۲ (۱۰) فہرس الفہارس  ۱:۳۱۲،۳۱۴ (۱۱) فوات الوفیات  ۲:۳۷۰،۳۷۲ (۱۲) مرآۃ الجنان  ۴:۳۳۱،۳۳۳ (۱۳) مفتاح السعادۃ  ۱:۲۶۱:۲،۳۵۸،۳۵۹ (۱۴) النجوم الزاہرۃ  ۱۰:۱۸۲(۱۵) نکت الہمیان  ۲۴۱،۲۴۴ (۱۶) الوافی بالوفیات  ۲:۱۶۳،۱۶۸۔
ان تمام نکات سے یہ بات اجاگر ہوکر سامنے آگئی کہ ابن سبکی رحمہ اللہ کی نقد ذہبی رحمہ اللہ کے حق میں جارح نہیں، نیز یہ کہ ذہبی رحمہ اللہ کی شخصیت علمائے حدیث کے نزدیک مسلم ہے ،یہاں تک کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آب زمزم پیا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے حفظ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کے مرتبہ تک پہونچا دے۔ لہذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ بابا رتن ہندی کی تکذیب میں محق ہیں،مزید برآں وہ اس رائے میں تنہا نہیں بلکہ ان کی تائید میں ان کے ایک ہم عصر عالم جلیل کا قول بھی موجود ہے:
امام ذہبی رحمہ اللہ کے ایک ہم عصر فقیہ ،محدث ابو عبد اللہ معین الدین محمد بن جابر الودیاشی نے بھی با با رتن ہندی کو صحابی نہیں مانا ، چنانچہ تینک جنھوں نے معمر ین کذابوں کے تعلق سے دو شعر کہے تھے ، ان کی تائید کرتے ہوئے انہوں نے بھی ایک شعر کہا اور اس میں رتن ہندی کو ذکر کر کے ان کے اشعار کے ساتھ ضم کر کے ان کے اشعار کو تقویت بخشی۔
چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : انشدنی الودیاشی یعنی بہ ابا عبد اللہ معین الدین محمد بن جابر بن محمد بن قاسم بن احمد بن محمد بن حسان القیسی الفقیہ المحدث المصری الرحال المکی قال تینک البیتین فیشفع یعنی بھما۔۔۔حدیث بن نسطور ویسر ویغنم۔۔۔وافک اشج الغرب ثم خراش۔۔۔ونسخۃ دینار واخبار رتبۃ۔۔۔ابی ھدبۃ القیسی شبہ فراشی۔۔۔ قال الذہبی:فعززہما یعنی الودیاشی بقولہ۔۔۔رتن ثامن والماردینی۔۔۔ تاسع ربیع بن محمود وذلک فاشی۔ ولم یصرح الذہبی فی ربیع الوضع۔(۲۲) ان تمام نکات اور اقوال علما سے واضح ہو گیا کہ امام ابن سبکی رحمہ اللہ کی جرح امام ذہبی رحمہ اللہ کے حق میں مقبول نہیں، اس بنا پر امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول رتن ہندی کے حق میں قابل قبول اور صحیح تسلیم کیا جائے گا۔
دوسری دلیل : ’’یہ ہے کہ جب لوح محفوظ کا مطالعہ کرنے والے اولیا وابدال آپ کی صحابیت کے بارے میں تصدیق فرمائیں تو محض ایک امام ذہبی صاحب کے قول کی بنیاد پر آپ کی صحابیت کاانکار کرنا مناسب نہیں ‘‘۔ص۳۲۔  دوسر ی جگہ فرماتے ہیں: آپ کی صحابیت کی اور آپ سے اخذ حدیث وتصحیح سند کرنے والے حضراتا کے اسمائے گرامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص۳۶۔
            مقالہ نگار کا صرف یہ کہدینا کافی نہیں کہ اولیا کرام و ابدال نے آپ کی صحابیت کی تصدیق فرمائی، بلکہ ضروری ہے کہ دلائل و براہین کی روشنی میںاپنے قول کو ثابت کرتے ،اور پورے مقالے میں ایسا کچھ نہیں ، ہاں کچھ لوگوں کی بابا رتن ہندی سے اخذ حدیث کے تعلق سے ذکر ہے اگر صاحب مقالہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی توثیق و تعدیل ہے تو یہ جمہورعلمائے محدثین و دیگر علما کے قانون کے خلاف ہے، کیونکہ صرف اخذ حدیث مروی عنہ کے موثق ہونے کی علامت یا دلیل نہیں ہو سکتی، انشاء اللہ ذیل کی عبارت سے واضح ہو جائے گا ۔
حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وکذا لیس تعدیلا مطلقاعلی القول الصحیح الذی قال بہ اکثر العلماء من المحدثین وغیرہم روایۃ العدل الحافظ الضابط فضلا عن غیرہ عن الراوی علی وجہ التصریح باسمہ لانہ یجوز ان یروی عمن لا تعرف عدالتہ، بل و عن غیر عدل فلا تتضمن روایتہ عنہ تعدیلہ ولا خبرا عن تصدیقہ۔(۲۳)
اور اگر اصولیین اور بعض محدثین کا اعتبار کیا جایے تو بھی ان کا روایت کرنا مروی عنہ کے لیے معدل نہیں ہو سکتیں، کیونکہ جن کے بارے میں اخذ حدیث و تصحیح سند کا ذکر کیا گیا ہے ان کے بارے معلوم نہیں کہ وہ عدول سے روایت کرنے کا التزام کرتے تھے یا نہیں؟اور حالات یہی بتاتے ہیں کہ التزام نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان لوگوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس کے بارے میںاکثر علمائے عظام کذاب ہونے کا قول کر چکے ہیں۔
والثابت التفصیل، فان علم انہ لایروی الا عن عدل کانت روایتہ عن الراوی تعدیلا لہ والا فلا، وہذا ہو الصحیح عند الاصولیین کالسیف الآمدی الخ۔۔۔۔۔۔۔(۲۴)
لہذا مولانا کی یہ دلیل بھی با با رتن ہندی کی صحابیت ثابت کرنے کے حق میں قابل قبول نہیں ہوگی۔
تیسری دلیل: مقالہ نگار نے حدیث کا مفہوم بیان کرنے کے لئے چار طرح کے اقوال نقل کئے ہیں(۱) حدیث کے الفاظ ’’علی وجہ الارض‘‘ کا مفہوم پوری دنیا کو شامل ہے (۲) ان الفاظ سے مراد صرف’’ مدینہ‘‘ ہے جو ’’قیل ‘‘سے ذکر کیا گیا ہے (۳) ان سے مراد عرب ہے (۴) مذکورہ الفاظ سے مراد حجاز ہے اور اس میں وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے۔ پھرخلاصہء حدیث میںحدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’یعنی جتنے لوگ حجاز مقدس پر رہنے بسنے والے ہیں ان میں سے کسی کی بھی سو سال سے زیادہ عمر نہیں ہوگی ، البتہ ا س صدی کے بعد والوں کی عمر حجاز میں بھی سو سال سے زیادہ ہو سکتی ہے‘‘۔ مذکورہ بالا اقوال سے لگتا ہے کہ ان کے پاس اپنے موقف کے ثابت کرنے کے لئے کئی ایک دلیلں ہیں ، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے انشاء اللہ ذیل میں بیان سے واضح ہو جائے گا۔
صاحب مقالہ کی مذکورہ بالاعبارت سے واضح ہے کہ ان کو یہ تسلیم ہے کہ حدیث کے الفاظ ’’علی وجہ الارض ‘‘ کی وسعت حجاز کو شامل ہے وبس۔ لہذا پہلا قول تو ان کے لئے دلیل بن ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پوری روئے زمین کو شامل ہے، اور علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ کا ’’قیل ‘‘سے ذکرکیا ہوا قول بھی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس کا قائل ’’علی وجہ الارض ‘‘‘ حدیث کے الفاظ سے صرف’ ’مدینہ‘‘ مراد لے رہا ہے ۔ نیز اس قول کے قائل پر ابن حجر رحمہ االلہ رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اور حق تو یہ ہے کہ ’’الارض‘‘ میں الف لام عموم کے لئے ہے اور تمام بنی آدم کو شامل ہے۔ وابعد من قال ان اللام فی الارض عھدیۃ والمراد ارض المدینہ والحق انھا للعموم وتتناول جمیع بنی آدم (۲۵) او رآگے مقالہ نگار لکھتے ہیں: علامہ مازری فرماتے ہیں:’’حدیث شریف کے’’الارض‘‘ میں ’’الف لام‘‘  عھد کا ہے،اس سے عرب کی سرزمین مراد ہے ‘‘ اور آگے لکھتے ہیں: حضرت شاہ سید محمد علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں :’’ اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ ایک صدی کے بعد کوئی میرا دیکھنے والا نہ رہے گا، مراد اس کی زمین حجاز سے ہے‘‘۔ یعنی حجاز میں جس نے حضور کو دیکھا ہے وہی اس حدیث کے حکم میں شامل ہے باقی لوگ صدی سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں ۔ آیئے پہلے حجاز وعرب کی وسعت کو سمجھتے ہیں۔ حجاز: مکہ اور اس سے متعلق مدینہ تک جو تہامہ اور نجد کے درمیان ہے اسے حجاز کہتے ہیں۔ محمد ابراہیم سلیم فرماتے ہیں: الحجاز:’’مکۃ و ما یتعلق بہا الی المدینۃما بین تھامۃ و نجد‘‘۔(۲۶) اور عرب: مکہ و مدینہ کے علاوہ یمن وغیرہ کو بھی شامل ہے، حجاز اور عرب کے حدود بیان کرنے سے واضح ہوگیا کہ یہ دلیل یعنی علامہ مازری رحمہ اللہ کا قول بھی قابل استدلال نہیں ہے۔ کیونکہ صاحب مقالہ پہلے ہی مان چکے ہیں کہ حدیث کی وسعت حجاز کو شامل ہے وبس، اور عرب حجاز کے علاوہ دوسرے ملکوںمثلا یمن وغیرہ کو بھی شامل ہے۔ بہر کیف اس بیان سے واضح ہو گیا کہ مقالہ نگار کے موقف کے موافق فقط ایک قول ہے جس کو بنیاد بنا کر با با رتن ہندی کو صحابی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو جمہور علماء کے قول کے خلاف ہے لہذا حضرت شاہ سید محمد علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی صاحب کے قول سے بھی اپنا موقف ثابت کرنا  درست نہ ہو گا ۔
 چوتھی دلیل: مقالہ نگارتحریرکرتے ہیں :’’ پھر اگر درازی عمر ہی پر اعتراض ہو توحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تقریبا تین سو سال ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمام حضرات حجاز مقدس سے باہر تھے اس لئے اس حدیث شریف سے ان پر کوئی اعتراض نہیں پڑے گا ، اسی طرح بابا رتن ہندی بھی عہد رسالت ہی میں ہندوستان چلے آیے تھے،اس لیے آپ بھی قیدسے باہر سمجھے جائیںگے‘‘۔ اولا: عرض کروں، اعتراض صرف عمر کی درازی پر نہیں ہے بلکہ صریح حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہے ، نیز قرائن اس بات پر واضح دلالت کرتے ہیں کہ بابا رتن ہندی یا تو کذاب تھا یا اس کا نام گڑھ کے اس کی طرف حدیثیں منسوب کر دی گئیں ۔ کیونکہ کوئی صحابی ہو اور اس کی شہرت نہ ہو، چلیں مان لیتے ہیں پہلی صدی میں مشہور نہیں ہوئے مگر دوسری صدی جس میں تدوین کا دور شروع ہوکر،تیسری ،چوتھی صدی میں اپنے آب و تاب پر پہونچ چکا تھا، علمائے عظام اس دور میں تابعین اور تبع تابعین سے علم حاصل کرنے کے لئے دور دور کا سفر کرنے لگے تھے ،اس وقت بھی انہیں شہرت حاصل نہیں ہوئی ،کیا اس سے عقلی طورپر تقریبا یہ بات یقین کو نہیں پہونچ جاتی کہ رتن ہندی نام کاکوئی صحابی نہیں تھا ،اور اگر کوئی ابو طفیل عامر بن واثلہ لیثی کے  ۱۱۰ھــ؁ میں انتقال کے بعد دوسری ، تیسری ، چوتھی صدی میںاس نام کا پایا جاتا تو ضرور ان دنوں وہ مشہور ہوجاتا ، اور دنیا کے اطراف و اکناف سے لوگوں کا ان سے حدیث اخذ کرنے اور زیارت کرنے کا تانتا بند ھ جاتا ۔ 
ثانیا: شاید مقالہ نگار نے حدیث کا مطلب یہ سمجھ لیاکہ جس کی بھی عمر سو سال کی ہو جائے گی اس کا خاتمہ ہو جائے گاچاہے حدیث کے ورود سے پہلے اس کی عمر کا شمار کیا جایے یا اسی رات سے کاونٹ کیا جایے ، اسی لیے شاید صاحب مقالہ نے فرمادیا: ’’پھر اگر درازی عمر ہی پر اعتراض ہو توحضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تقریبا تین سو سال ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمام حضرات حجاز مقدس سے باہر تھے اس لئے اس حدیث شریف سے ان پر کوئی اعتراض نہیں پڑے گا‘‘ ۔  حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مطلب وہ ہے جوصاحب مقالہ نے امام نووی کے قول میں ذکر کیا ہے فرماتے ہیں :’’ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جو جان بھی اس رات میں موجود ہو گی وہ اسی رات کے بعد سو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہے گی ، پہلے چاہے اس سے زیادہ عمر ہو یا کم‘‘ ۔ اس عبارت کو غور سے پرھیں پھر سوچیں کیا وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جن کا مقالہ میں ذکر کیا گیاہے ان میں سے کسی کی عمر اس مذکورہ حدیث کے ورود کی رات سے کا ونٹ کرنے میں سو سے زیادہ ہوئی ؟ واضح جواب ملے گا ۔نہیں ۔ تو پھر حدیث سے ان ذکر کردہ صحابۂ کرام پر اعتراض بھی نہیں ہو گا اگر چہ وہ حجاز ہی میں کیوں نہ ہوں، لہذا یہ کہنا بجا نہ ہوگا: ’’ پھر اگر درازی عمر ہی پر اعتراض ہو الخ۔۔۔۔۔اورساتھ ہی ان صحابہ کو مشبہ بہ بناکر یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا : ’’اسی طرح با با رتن ہندی عہد رسالت ہی میں ہندوستان چلے آیے تھے اس لئے آپ بھی قید صدی سے باہر سمجھے جائیںگے ‘‘ ۔
پانچوی دلیل:لکھتے ہیں:’’اور اگر کوئی بضد ہو اور حدیث کو عموم پر ہی محمول کرتا ہو تو کوئی حرج نہیں،کیونکہ حضور اکرم ﷺنے بابارتن ہندی کی درازی عمر کے لئے چھ مرتبہ دعاء فرمائی،ہر بارمیں سوسال کی آپ کو عمر ملیـ‘‘۔  پھر حدیث ذکر کی: وقال لی عند خروجی الخ۔۔۔۔۔ جس مزعومہ صحابی بابا رتن ہندی پر ان احادیث کا مدار تھا،مذکورہ بالا بیان سے جب اس کا صحابی ہونا باطل ہو گیاتو اس کی احادیث بھی باطل ہو گئیں،اور ان احادیث سے استدلال کرنا بھی باطل ہوگیا۔
دوسرا حصہ: ’’حدیث عمر الامۃ‘‘ کا صحیح مفہوم محدثین کرام کی نظر میں
بخاری شریف کی حدیث ہے:
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال: صلی بنا رسول اللہ ﷺ لیلۃ صلاۃ العشاء و ہی التی یدعو الناس العتمۃ ثم انصرف فاقبل علینافقال ارایتکم لیلتکم ہذہ فان راس مائۃ سنۃ منہا لا یبقی ممن ہو علی ظہر الارض احد۔(۲۷)
اسی میں دوسری جگہ پر ہے:
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال: صلی رسول اللہ ﷺ  صلاۃ العشاء فی آخر حیاتہ فلما سلم قام النبی ﷺ فقال: ارایتکم لیلتکم ہذہ فان راس مائۃ لا یبقی ممن ہو الیوم علی ظہر الارض احد۔ فوہل الناس فی مقالۃ رسول اللہ ﷺ الی ما یتحدثون من ہذہ الاحادیث عن مائۃ سنۃ و انما قال النبی ﷺ : ’’لا یبقی ممن ہو الیوم علی ظہر الارض‘‘ یرید بذلک انہا تخرم ذلک القرن۔ (۲۸)
یہ دونوں حدیثیں امت کی عمر کے بارے میں ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو بھی انسان آج روئے زمین پر ہے وہ سو سال کے اندر اس دار فانی سے کوچ کر جائے گا،یہی مفہوم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا، جیسا کہ دوسری حدیث شریف کی تفسیر میں ان کے بیان سے ظاہر ہے۔
علامہ زین الدین ابو الفرج ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیث شریف سے مراد یہ ہے کہ جتنے لوگ اس وقت زمین پر موجود تھے سب کا وجود سو سال کے اندر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ، اور حدیث کی یہی تفسیر بڑے بڑے صحابہ کرام مثلا حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے بھی فرمائی ہے۔
واما ما قالہ ﷺ ۔ من انہ لا یبقی علی راس مائۃ سنۃ من تلک اللیلۃ احد ، فمرادہ بذلک انخرام قرنہ و موت اھلہ کلھم الموجودین منھم فی تلک اللیلۃ علی الارض ، و بذلک فسرہ اکابر الصحابۃ علی بن ابی طالب و ابن عمر و غیرھما۔(۲۹)
اس عبارت سے ظاہر ہوا کہ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے بھی حدیث کا مفہوم یہی سمجھا۔
اس حدیث کے تعلق سے کیا موقف ہونا چاہئے اس کے لیے صحابہ کرام کی آراء کافی تھیں، مگر چونکہ بات آگئی ہے تو چند علما کے اقوال ذکر کر دیتا ہوں تاکہ ظاہر و باہر ہوجائے کہ جمہور علمائے کرام نے بھی ان احادیث کا یہی مطلب سمجھا اور  بتایا ،اور سوسال کے بعد اگر کسی نے صحابیت کا دعوی کیا تو انہیں احادیث اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنھم کے پیش نظر بغیر ادنی تدبرکے رد کردیا ، نیز اگر کسی کو غلط فہمی ہو گئی ہوکہ شاید صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بعد رائے بدل گئی ہے تو وہ ان اقوال کی تابناک روشنی میں اپنی اصلاح کرلے۔ ذیل میں محدث زمانہ، حامل سنت ، حافظ دین و ملت کے کچھ اقوال پیش ہیں۔
            امام شرف الدین نووی رحمہ ا للہ فرماتے ہیں : حدیث سے مراد یہ ہے کہ اس رات جو شخص بھی زمین پر با حیات تھا وہ سو سال سے زیادہ زندہ نہ رہے گا ، اگر چہ اس کی عمر مذکورہ رات سے پہلے زیادہ ہو یا کم۔ والمراد ان کل نفس منفوسۃ کانت اللیلۃ علی الارض لا تعیش بعدھا اکثر من مائۃ سنۃ سواء قل عمرھا قبل ذلک ام لا۔(۳۰)
جلالۃ العلم حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص صحابیت کا دعوی کرے تو اس کی صحابیت کو ماننے کے لئے ضروری ہے کہ ظاہری حالات اس کے موافق ہوں ، لہذا اگر کسی نے سو سال کے بعد صحابی ہونے کا دعوہ کیا تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ، جیسا کہ سو سال کے بعد ابو الدنیا اشج و مکلبۃ بن ملکان اور رتن ہندی نے صحابی ہونے کا دعوی کیا ،مگر علمائے حدیث نے ’’ارایتکم لیلتکم ھذہ ‘‘ الخ، کے پیش نظر ان کی صحابیت کے دعوی کو رد کر دیا ، اور ان کی تکذیب پر متفق ہو گئے ۔
وعلی کل تقدیرفلابد من تقیید ما اطلقہ بان یکون ادعاوہ لذلک یقتضیہ الظاہر، اما لو ادعاہ بعد مائۃ سنۃ من وفاتہ ﷺ فانہ لا یقبل ذلک منہ کجماعۃ ادعوا الصحبۃ بعد ذلک کابی الاشج، ومکلبۃ بن ملکان ورتن الہندی فقد اجمع اہل الحدیث علی تکذیبہم و ذلک لما ثبت فی الصحیحین من حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ قال:’’صلی بنا رسول اللہ ﷺ ذات لیلۃ صلاۃ العشاء فی آخر حیاتہ فلما سلم قام فقال ارایتکم الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وکان اخبارہ ﷺ بذلک قبل موتہ بشہر۔ (۳۱)
شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث سے مراد وہ امت ہے جو اس وقت روئے زمین پر تھی ۔
فان مرادہ ممن ھو علی ظھرا لارض امتہ و القرائن تدل علی ذلک منھا قولہ: ’’ارایتکم لیلتکم ھذہ‘‘ وکل من علی وجہ الارض من المسلمین و الکفار امتہ، اما المسلمون فانھم امۃ اجابۃ واما الکفار فانھم امۃ دعوۃ وعیسی و الخضر علیھما السلام لیسا داخلین فی الامۃ واما الشیطان فانہ لیس من بنی آدم(۳۲)
امیر المومنین فی الحدیث علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس حدیث سے مرادیہ ہے کہ : حضور ﷺ کے فرمان کے وقت سے ایک سو سال کی تکمیل تک وہ صدی ختم ہو جائے گی اور کوئی باقی نہ رہے گا۔ اور استقرائے تام سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جس صحابی کے ذریعہ آپ ﷺ کا قول حق ثابت ہوا وہ ابو طفیل عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ عنہ تھے، اور اصحاب حدیث کااس پر اجماع ہے کہ سب سے آخر میں انتقال ہونے والے صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
وقد بین ابن عمر فی ھذا الحدیث مراد النبی ﷺ وان مرادہ ان عند انقضاء مائۃ سنۃ من مقالتہ تلک ینخرم ذلک القرن فلا یبقی احدممن کان موجودا حال تلک المقالۃ، وکذلک وقع بالاستقراء فکان آخر من ضبط امرہ ممن کان موجودا حینئذ ابو الطفیل عامر بن واثلۃ، وقد اجمع اھل الحدیث علی انہ کان آخر الصحابۃ موتا، وغایۃ ما قیل فیہ انہ بقی الی سنۃ عشر ومائۃ وھی راس مائۃ سنۃ من مقالۃ النبی ﷺ ۔(۳۳)
حافظ حدیث علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر کوئی مدعی ہو کہ میں صحابی ہوں اور اس کے اس دعوی کے صحیح ہونے کا امکان ہو تو اس کا صحابی ہونا تسلیم کر لیا جائے گا ، لیکن اگر کسی نے ایسے وقت میں دعوی کیا جس میں اس کا  صحابی ہونا ممکن ہی نہ ہو مثلا کسی نے حضور ﷺ کی وفات کے بعد صحابی ہونے کا دعوی کیا تواگر چہ قبل دعوی اس کی عدالت مسلم رہی ہو، حدیث ’’ارایتکم لیلتکم ھذہ ‘‘ کی وجہ سے اس کا دعوی قبول نہیں کیا جائے گا ۔
او قولہ ’’ھو ‘‘ انا صحابی’’اذا کان عدلا ‘‘اذا امکن ذلک فان ادعاہ بعد مائۃ سنۃ من وفاتہ ﷺ فانہ لا یقبل وان ثبتت عدالتہ قبل ذلک، لقولہ ﷺ فی الحدیث ’’اریتکم لیلتکم ھذہ فانہ علی راس مائۃ سنۃ لم یبق احد علی ظھر الارض ۔ یرید انخرام ذلک القرن ۔قال ذلک سنۃ وفاتہ ﷺ۔(۳۴)
اور اگر مزید حدیث کی وضاحت چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل محدیثین کرام کے مصنفات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
موضوعات الصغانی لابی الفضائل الحسن بن محمد بن الحسن القرشی الصغانی، ص۳۱۔تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ لابی الحسن علی بن محمد بن العراقی الکنانی :۲ص۳۹۔موضوعات الفتنی لمحمد طاہربن علی الفتنی الہندی، ص۱۰۴۔کشف المشکل علی صحیح البخاری لابی الفرج ابن الجوزی ج۱ص۱۱۷۔ کشف الخفاء لاسماعیل بن محمد الجراحی العجلونی ج۲ص۴۱۵۔ الشذ الفیاح من علوم ابن الصلاح لابراہیم بن موسی بن ایوب  البرہان الابناسی ج۲ص۴۹۷۔ المفصل فی اصول التخریج لعلی بن نایف الشہودج۲ص۵۔رحمہم اللہ تعالی۔
بابا رتن ہندی صحابی نہیں بلکہ کذاب:
مذکورہ بالا حدیث اور اجماع محدثین کی وجہ سے علمائے کرام نے بابارتن ہندی کو کذاب قرار دیا،اور اس کی حدیثوں کواپنی اپنی موضوعات میں شمار کیا۔ ذیل میں کچھ مصنفوں کے نام ذکر کئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی موضوعات میں بابا رتن ہندی کو کذاب یا ان کی احادیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
امام صغانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رتن ہندی کی حدیثیں موضوع ہیں ۔
’’واحادیث رتن الھندی موضوعۃ‘‘۔(۳۵)
ابو الحسن علی بن محمد الکنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رتن ہندی وہی مشھور کذاب ہے جس نے چھ سو سال کے بعد صحابی ہونے کا دعوی کیا۔
’’رتن الھندی ذلک الکذاب المشھور ظھر بعد الستمائۃ فادعی الصحبۃ‘‘ (۳۶)
محدث عصرعلامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ  بابا رتن ہندی کی ایک حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ یہ رتنی موضوعات سے ہے۔
من اعان تارک الصلاۃ بلقمۃ فکانما قتل الانبیاء کلہم۔ موضوع رتنی۔(۳۷)
مزید برآں بابا رتن ہندی کیا تھا اور اس کی حدیثیں کس درجہ کی ہیں ،یہ جاننے کے لئے ذیل میں ذکر کردہ محدثین کے مولفات کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
ذیل الموضوعات لجلال الدین السیوطی ص۸۱، الفوائد المجموعۃ لمحمد بن علی الشوکانی،ج۱ص۲۰۴،موضوعات الصغانی لابی الفضائل الحسن بن محمد بن الحسن القرشی، تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ لابی الحسن علی بن محمد بن العراقی الکنانی، تذکرۃ الموضوعات لمحمد طاہربن علی الفتنی الہندی، وغیرہم رحمہم اللہ تعالی۔
کچھ چیزیں تنقیح طلب ہیں ؟
صاحب مقالہ فرماتے ہیں :
(۱) ’’امام ذہبی صاحب کے بارے میں تو اسماء الرجال کی بعض کتابوں میں یہ مصرح ہے کہ جب ان کی جرح و تعدیل کے ساتھ کسی امام کی جرح و تعدیل ٹکرا جائے تو اس کو ذہبی پر ترجیح دی جائے گی ‘‘یہ قول کس کا ہے اور کس کتاب میں ہے؟
(۲) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ حجاز سے باہر کب گئے ، کیا ان کے حجاز سے باہر وفات پانے سے یہ لازم آتا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بیان کے وقت وہ حجاز میں نہ رہے ہوں؟
(۳)مقالہ نگار نے قال قال رسول اللہ ﷺکرکے رتن ہندی کی مرویات بغیر تحقیق کئے بہت سی ایسی کتابوں کا حوالہ دیکرذکر کی ہیں جس کے مصنفین نے اس کے کذاب یا صحابی نہ ہونے کا قول کیا ہے ، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟
فائدہ: مقالہ کی عبارت ہے ’’ و عندہ علی اھل السنۃتحمل مفرط ‘‘تحمل، نہیں بلکہ تحامل ہے ، چنانچہ محدث کبیر عبد الفتاح ابو غدۃ حنفی رحمہ اللہ عبارت کی تصحیح کے بعد فرماتے ہیں :وقع فی طبعۃ البابی : ’’تحمل‘‘ وہو تحریف(۳۸)
نوٹ: مقالہ نگار نے بابا رتن ہندی کی بعض مرویات اور ان سے اخذ حدیث کرنے والوں کے محض اسماء ذکر کرنے پر اکتفا کیا، چاہئے تو یہ تھا کہ جب وہ ایسے شدید مختلف فیہ شخص کی مرویات ذکر کر رہے تھے تو مکمل سند بیان کرتے اور اتصال سند کو علمائے حدیث کے اقوال کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔
 فقیر الی اللہ طالب حدیث، فضائل ہند کی بعض روایتوںکی صحت سے متفق نہیں ہے ، ارادہ تو یہ تھا کہ اس پر تحقیق و دراسہ کرتا مگر امتحان قریب ہو نے کی وجہ سے وقت کی قلت دامن گیر ہے، انشاء اللہ عز وجل اگر زندگی نے ساتھ دیا تو اس نیک کام کی تکمیل کی جائے گی۔ 
اسال اللہ ان یمنحنا الرشاد وان یباعد بیننا و بین مواطن الخطاء انہ علی ما یشاء قدیر وبالاجابۃ جدیر۔
ماخذ ومراجع
(۱) قاعدۃ فی الجرح و التعدیل لابن السبکی من اربع رسائل فی علوم الحدیث ص۲۱،۲۲تحقیق: عبد الفتاح ابوغدۃ،مطبع:شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،لبنان۔
(۲) حاشیۃ المرجع السابق۔
(۳) الرفع والتکمیل فی الجرح و التعدیل ص۴۰۹،۴۱۰،۴۱۱:تحقیق: عبد الفتاح ابوغدۃ، مطبع:شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،لبنان۔
(۴) المرجع السابق ص۴۱۵۔
(۵) حاشیۃ قاعدۃ المورخین لابن السبکی من اربع رسائل فی علوم الحدیث ص ۷۸ تحقیق: عبد الفتاح ابوغدۃ،مطبع:شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،لبنان۔
(۶) الاعلان بالتوبیخ ص۱۰۱تحقیق: فرانز روز نزال،مطبع: دار الباز للنشر، مکۃ المکرمۃ۔
(۷) البدر الطالع ۲:۱۱۱مطبع:دارالمعرفۃ،بیروت۔
(۸)الاعلان بالتوبیخ ص۱۳۵تحقیق: فرانز روز نزال،مطبع: دار الباز للنشر، مکۃ المکرمۃ۔
(۹) قاعدۃ فی الجرح والتعدیل ص ۴۲تحقیق: عبد الفتاح ابوغدۃ، مطبع:شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،لبنان۔
(۱۰) قاعدۃ المورخین لابن السبکی من اربع رسائل فی علوم الحدیث ص ۶۶تحقیق: عبد الفتاح ابوغدۃ،مطبع:شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،لبنان۔
(۱۱) المرجع السابق ص۷۷۔
(۱۲) میزان الاعتدال: ۳:۲۱۴ تحقیق علی محمد البجاوی،دار المعرفۃ،البیروت۔
(۱۳) تاریخ الاسلام: ۲:۱۷۳ـ۱۷۵تحقیق:عمر عبد السلام، مطبع: دار الکتب العربی ۔سیر اعلام النبلاء ۴:۱۹ـ۳۳ تحقیق: مامون الصاغری۔
(۱۴) المرجع السابق:۲:۲۹۲ـ۲۹۸۔المرجع السابق:۴:۷ـ۱۴۔
(۱۵) المرجع السابق:۵:۲۵۹ـ۲۶۲۔ المرجع السابق:۶:۱۱۹ـ۱۲۳۔
(۱۶) الارشاد الی کیفیۃ دراسۃ الاسناد ص۱۷۷۔
(۱۷) قاعدۃ فی الجرح و التعدیل من اربع رسائل فی علوم الحدیث، ص۳۰  تحقیق: عبد الفتاح
 ابوغدۃ،مطبع:شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت،لبنان۔
(۱۸) طبقات الشافعیۃ الکبری ۹:۱۰۰،۱۰۱تحقیق: محمود محمد الطحانی وعبد الفتاح عبد الحلو۔
(۱۹) ذیل طبقات الحفاظ ص۳۴۸، احیاء التراث العربی۔
(۲۰) البدایۃ والنھایۃ:۱۴:۲۲۵مطبع: مکتبۃ المعارف البیروت، الطبعۃ السادسۃ۔
(۲۱) ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح و التعدیل للذہبی من اربع رسائل فی علوم الحدیث ص۱۵۸، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدۃ،مطبع: شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ۔
(۲۲) الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث لابراھیم بن محمد ابن العجمی الحلبی، ص۱۷۶، تحقیق: صبحی السامرائی، مطبع: مطبعۃ العانی، بغداد۔
(۲۳) فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث:۱:۲۶۵، تحقیق: مجدی فتحی السید، مطبع: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر۔
(۲۴) المرجع السابق، ص۲۶۶۔
(۲۵) فتح الباری بشرح صحیح البخاری:۲:ص۸۹،مطبع: دار الحدیث،مصر۔
(۲۶) نسبک و معناہ، ص۳۶، مطبع: مکتبۃ ابن سینا، مصر۔
(۲۷) صحیح البخاری:۱:ص۵۵،باب السمر فی العلم، مطبع: دار ابن کثیر، بیروت۔
(۲۸) المرجع السابق:۱ص۲۱۶، باب السمر فی الفقہ۔
(۲۹) فتح الباری لابن رجب:۴ص ۸۲،کتاب الصلاۃ۔
(۳۰) المنھاج للامام النووی علی الصحیح مسلم:۸ص۳۱۶۔
(۱۳) التقیید و الایضاح، ص۳۰۰، مطبع: المکتبۃ السلفیۃ بالمدینۃ المنورۃ۔
(۳۲) عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:۳ص ۳۴۳، باب السمر فی العلم۔
(۳۳) فتح الباری بشرح صحیح البخاری:۲، ص۸۹،مطبع: دار الحدیث،مصر۔
(۳۴) تدریب الراوی، ص ۴۸۱، تحقیق: محمد ایمن بن عبد اللہ الشبراوی، مطبع: دار الحدیث، مصر۔
(۳۵) موضوعات الصغانی ص۱۔
(۳۶) تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ:۱:۵۵، تحقیق: مجدی فتحی السید، مطبع: المکتبۃ التوفیقیۃ۔
(۳۷) المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ص۱۶۱، تحقیق: عبد الفتاح ابو غدۃ، مطبع: شرکۃ دار البشائر الاسلامیۃ،بیروت۔
(۳۸)حاشیۃ قاعدۃ الجرح و التعدیل للسبکی من اربع رسائل فی علوم الحدیث ص۴۳۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفر لہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:8318177138
ای میل:fmfoundation92@gmail.com

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts