عزیزم مولانا محمد نور الحسن
قادری علیمی زید علمہ نے راقم الحروف سے اپنے رسالہ ’الأربعون العلیمیۃ‘ کی تصحیح
اور اس پر مقدمہ لکھنے کے لیے کہا، وقت کی قلت اور مصروفیت کی وجہ سے میں نے ان سے
تصحیح کے لیے ہاں تو کہ دیا مگر تقدیم کے لیے معذرت چاہی، لیکن ان کی خواہش و اصرار
کے پیش نظر تصحیح کے ساتھ تقدیم بھی لکھنے پر مجبور ہوگیا، اختصار کے ساتھ اس تقدیم
میں پہلے میں چالیس احادیث کے فضائل پر گفتگو کروں گا، پھر ان شاء اللہ نماز کے بعد
دعا کے منکرین کی دلیل کا جواب دینے کی کوشش کروں گا، اللہ تعالی اسے قبول فرمائے،
و ما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ أنیب۔
چالیس
احادیث کو یاد اور ان کو محفوظ کرکے امت تک پہونچانے کی فضیلت احادیث میں کثرت سے وارد
ہے، اسی طرح کسی تعداد کی قید کے بغیر فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ
احادیث کو بیان کرنے اور ان کو لوگوں تک پہونچانے کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ اسی وجہ سے
سیکڑوں متقدمین و متاخرین علماے کرام رضی اللہ عنہم نے ان احادیث پر اعتماد کرتے ہوئے
چالیس احادیث پر مشتمل بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں، آج بھی ان احادیث کے پیش نظر
یا سابق علماے کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس باب میں کتابیں لکھی
جارہی ہیں اور ان شاء اللہ تا قیامت لکھی جاتی رہیں گی، الحمدللہ اسی باب کی ایک کڑی
آج آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
حدیث:
((من
حفظ علی أمتی أربعین حدیثا)) کو تیرہ صحابہ کرام نے روایت کیا ہے (العلل المتناھیۃ
فی الأحادیث الواھیۃ؍ابن الجوزی رحمہ اللہ، ج۱ص۱۱۲،ط:ادارۃ
العلوم الأثریۃ، فیصل آباد، پاکستان) مگر ہر ایک روایت علت قادحہ سے خالی نہیں، حافظ
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’پھر میں نے اس حدیث کی روایات و طرق کو ایک جز میں
جمع کیا، ان میں سے کوئی بھی طریق علت قادحہ سے محفوظ نہیں‘‘ ( التلخیص الحبیر؍ابن
حجر عسقلانی رحمہ اللہ، ط: دار الکتب العلمیۃ) میں ان میں سے یہاں پر تین ایسی روایتوں
کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتاہوں جن کے راویوں پر ان تمام روایات میں سے سب سے کم درجے
کا کلام کیا گیا ہے، یعنی انہیں ضعیف قرار دیا گیا یا یہ کہا گیا ہے کہ یہ راوی قابل
احتجاج نہیں یا متروک سے متصف کیا گیا ہے، احادیث ملاحظہ فرمائیں:
پہلا
طریق:عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
((من حفظ علی
أمتی أربعین حدیثا مما ینفعھم اللہ بہ فی أمر دینھم بعثہ اللہ عز و جل یوم القیامۃ
فقیھا عالما و کنت لہ شفیعا و شھیدا)) (العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواھیۃ؍ابن الجوزی
رحمہ اللہ، ج۱ص۱۱۲،رقم:۱۶۷)
ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:
((جس
نے میری امت کے لیے چالیس احادیث ایسی محفوظ کرلی جو ان کے دین کے معاملہ میں انہیں
نفع بخش ہو، اللہ تعالی عز وجل اسے قیامت کے دن فقیہ عالم اٹھائے گا اور میں اس کی
شفاعت کرنے والا اور گواہ رہوںگا))
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے اس طریق
میں ’محمد بن یزید‘ اور ’یزید بن سنان‘ ہیں، حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابو سعید خدری رضی
اللہ عنہ کی روایت مظلِم ہے، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے محمد بن یزید بن سنان اور ان
کے والد کو ضعیف قرار دیا ہے، اور یحی نے فرمایا: یزید ’لیس بشی ء‘ ہے، امام نسائی
نے فرمایا: متروک ہے‘‘ (العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ؍ابن جوزی رحمہ اللہ، ج۱ص۱۱۲)
دوسرا
طریق:عن
أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول:
((من
حفظ علی أمتی أربعین حدیثا من سنتی أدخلتہ یوم القیامۃ فی شفاعتی)) (معجم ابن عساکر،ج۱ص۵۸۰،
رقم:۷۱۵،ط:دار البشائر،دمشق)
حضرت
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((جس
نے میری سنت سے میری امت کے لیے چالیس احادیث یاد کرلی، میں اسے قیامت کے دن اپنی شفاعت
میں داخل کروں گا))
حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے اس طریق میں ایک راوی عبد الرحمن بن معاویہ ہیں، ان
کے بارے میں یحی نے فرمایا: ’’ان کی حدیث سے احتجاج نہیں کیا جائے گا‘‘ (العلل المتناھیۃ
فی الاحادیث الواھیۃ؍ابن جوزی رحمہ اللہ، ج۱ص۱۱۲) اور
وہابیوں کے امام ناصر الدین البانی نے بھی اس روایت کو صرف ضعیف ہی قرار دینے پر اکتفا
کیا ہے (ضعیف الجامع الصغیر و زیادتہ، رقم:۵۵۶۱، ط: المکتب الاسلامی)
عن
أنس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
((من حفظ علی
أمتی أربعین حدیثا مما یحتاجون الیہ من الحلال و الحرام کتبہ اللہ فقیھا عالما)) (العلل المتناھیۃ
فی الأحادیث الواھیۃ؍ابن الجوزی رحمہ اللہ، ج۱ص۱۱۲،رقم:۱۸۰)
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((جس
نے میری امت کے لیے ایسی چالیس احادیث کی حفاظت کی، جن کے وہ حلال و حرام میں محتاج
ہیں؛ تو اللہ تعالی اسے فقیہ عالم لکھ دے گا))
حافظ
ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کے پہلے
طریق میں حفص بن جمیع ہیں، ان کے بارے امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خطا کرتے
تھے، یہاں تک کہ حدود احتجاج سے نکل گئے، اور اس کی روایت میں ابان راوی، متروک ہیں‘‘
(العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ؍ابن جوزی رحمہ اللہ، ج۱ص۱۱۲)
اس
حدیث کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حفاظ
کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث کے طرق زیادہ ہونے کے باوجود یہ حدیث ضعیف ہے،
علماے کرام رضی اللہ عنہم نے اس باب میں لاتعداد کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، میرے علم
کے مطابق اس باب میں سب سے پہلے تصنیف فرمانے والے عبد اللہ بن مبارک ہیں، اس کے بعد
عالم ربانی محمد بن اسلم طوسی، حسن بن سفیان نسائی، ابوبکر آجری، ابوبکر بن ابراہیم
اصفہانی، دارقطنی، حاکم، ابونعیم، ابوعبد الرحمن سلمی، ابوسعید مالینی، ابوعثمان صابونی،
عبد اللہ بن محمد انصاری، ابوبکر بیہقی اور متقدمین و متاخرین میں سے بے شمار علما
نے اس باب میں کتابیں تصنیف فرمائیں، میں نے ان ائمہ، اَعلام اور حفاظ اسلام کی اقتدا
کرتے ہوئے چالیس احادیث جمع کرنے کے لیے استخارہ کیا، اور علماے کرام کا فضائل اعمال
میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے جواز پر اتفاق ہے، اس کے باوجود میرا اعتماد اس حدیث
پر نہیں، بلکہ احادیث صحیحہ میں موجود حضو ر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان اقوال
پر ہے: ((لیبلغ
الشاھد منکم الغائب)) ترجمہ: ((چاہئے کہ تم میں سے جو حاضر ہو وہ غائب کو پہونچائے))
(صحیح البخاری، باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب، ج۱ص۳۳،
رقم:۱۰۵، ط:دار طوق النجاۃ) دوسرا فرمان ہے:((نضر اللہ امرأ
سمع مقالتی فوعاھا فأداھا کما سمعھا)) ترجمہ: ((اللہ تعالی اس شخص کے چہرے کو روشن
کرے جس نے میری بات سنی، اس کو یاد رکھا، پھر جس طرح اس نے بات کو سنا، اسی طرح دوسروں
تک پہونچایا)) (مسند أحمد، ج۲۷ص۳۰۱، رقم:۱۶۷۳۸)
پھر
علماے کرام میں سے بعض نے اصول دین، بعض نے فروع، بعض نے جہاد ، بعض نے زہد، بعض نے
آداب اور بعض نے خطاب میں چالیس احادیث کا مجموعہ تصنیف فرمایا اور سب کے مقاصد نیک
و صالح ہیں، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہو۔۔۔۔۔الخ‘‘ (الأربعون النوویۃ؍امام نووی رحمہ
اللہ،ص۱، ط: دار المنھاج، لبنان)
امام
نووی رحمہ اللہ کے اس کلام سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(۱) چالیس
احادیث کی فضیلت کے متعلق کثرت سے احادیث وارد ہیں (۲)
تعدد
طرق کے باوجود بھی سب احادیث ضعیف ہیں، یعنی کوئی حدیث اس قابل نہیں کہ کوئی دوسری
حدیث اسے تقویت دے اور وہ ضعیف سے ترقی کرکے حسن لغیرہ یا صحیح لغیرہ ہوجائے (۳) حافظ
عبد اللہ بن مبارک جیسے عظیم عالم اور بے شمار علما نے مل کر اس باب میں لاتعداد کتابیں
تصنیف فرمائی ہیں (۴) علماے کرام رضی اللہ عنہم
کا باب فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے جواز پر اتفاق ہے؛ اس لیے اس باب کی احادیث
ضعیفہ پر اعتماد کرتے ہوئے بھی ان میں وارد شدہ فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے کتاب لکھنا
جائز و درست ہے (۵) لیکن خود امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: ’الأربعون
النوویۃ‘ ان احادیث کے پیش نظر نہیں بلکہ علماے سابقین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور
دوسری صحیح احادیث پر اعتماد کرتے ہوئے تصنیف فرمائی (۶)
علماے
کرام رضی اللہ عنہم نے ’الأربعون‘ کسی خاص باب میں نہیں بلکہ مختلف ابواب میں تصنیف
فرمائی۔
تعریف
حدیث متواتر: وہ حدیث ہے جس کو شروع سے آخری سند تک ایسے لوگوں نے نقل کیا ہو جن کے
صدق کا علم بدیہی طور پر حاصل ہو، یعنی اتنے لوگ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا ممکن
نہ ہو۔ حدیث متواتر کا حکم: ایسی حدیث پر اس کے رجال سے متعلق بحث کیے بغیر عمل کرنا
واجب ہے (تدریب الراوی؍جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، ج۲ص۶۲۷،
النوع الثلاثون،ط:دار طیبۃ)
ہر
طبقہ میں کتنے راوی حدیث روایت کریں؛ تو وہ حدیث متواتر ہوگی، اس کے بارے میں علماے
کرام کا اختلاف ہے، ان کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) اصح
یہ ہے کہ اس کے متعلق کوئی تعداد متعین نہیں (۲)
ہر
طبقہ میں چار راوی کا ہونا کافی نہیں، البتہ اس سے زیادہ ہو؛ تو صالح ہے اور پانچ میں
توقف ہے (۳) اس کی اقل مقدار دس ہے، یہی مختار ہے؛ کیوں کہ یہی
جمع کثرت کا پہلا درجہ ہے (۴) نقباے بنی اسرائیل کے مطابق
بارہ کی تعداد ہے (۵) بیس ہونی چاہیے (۶) چالیس
ہونی چاہیے (۷) اصحاب موسی علیہ الصلاۃ و السلام کے مطابق ستر ہونی
چاہیے (۸) اصحاب طالوت اور اہل بدر کی تعداد کے مطابق تین سو
تیرہ ہونی چاہیے (تدریب الراوی؍جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، ج۲ص۶۲۷،
النوع الثلاثون،ط:دار طیبۃ)
حافظ
ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’چالیس
احادیث کے متعلق فضیلت والی حدیث حضرت علی، حضرت عمر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم وغیرہ
سے متعدد اسانید کے ذریعہ مروی ہے، مگر سب میں مقال ہے، اس میں سے کسی ایک کی بھی تصحیح
کی گنجائش نہیں، لیکن کثرت طرق اس حدیث کو تقویت بخشتی ہے اور ان میں سب سے اجود و
عمدہ طریق حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے، اگرچہ وہ بھی ضعیف ہے‘‘ ( فیض القدیر
شرح الجامع الصغیر؍عبد الرؤف بن تاج مناوی رحمہ اللہ، ج۶ص۱۱۸،
رقم:۱۲۳۳۵،ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
بعض
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چالیس احادیث کے متعلق ساری احادیث موضوع ہیں، ان کا یہ سمجھنا
غلط ہے، اکثر شدید ضعیف یا ایک مذہب کے اعتبار سے موضوع اور بعض صرف ضعیف ہیں جیسا
کہ مذکورہ بالا بعض اقوال اور کتاب: ’العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواھیۃ‘ کی بحث
سے واضح ہے۔
خاتم
الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے پہلے اپنی کتاب: ’الأزھار المتناثرۃ فی الأخبار
المتواترۃ‘ تصنیف فرمائی، پھر اس کی تلخیص کرکے اس کا نام:’قطف الأزھار‘ تجویز فرمایا،
آپ نے اپنی اس کتاب کو ہر طبقہ میں دس راویوں یا اس سے زیادہ موجود ہونے کے اعتبار
سے ترتیب دیا ہے، اس لحاظ سے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب کو مرتب
کرنے میں تیسرے قول مختار کو ترجیح دی ہے، اگر خاتم الحفاظ رحمہ اللہ کے اس ترجیحی
پہلو کو پیش نظر رکھا جائے؛ تو کہا جاسکتا ہے کہ چالیس احادیث کے متعلق فضیلت والی
حدیث متواتر ہے؛ کیوں کہ اس حدیث کے رایوں میں صحابہ کرام دس سے زائد ہیں اور دیگر
طبقات میں بھی راوی دس سے کم نہیں؛ اس لیے اس حدیث کو متواتر کہا جانا چاہیے اور اس
حدیث کے راویوں کی تفتیش کے بغیر اس حدیث کو قابل قبول و عمل سمجھا جانا چاہیے؛ کیوں
کہ حدیث متواتر کو قبول کرنے کے لیے اس کے رجال کی تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی؛
کیوں کہ ان سب راویوں کاجھوٹ پر اتفاق ممکن نہیں ہوتا۔
بہر
صورت چالیس احادیث کے متعلق جو فضیلت آئی ہے، اس کو یا محض حدیث پہونچانے کا ثواب
حاصل کرنا مرغوب و محبوب ہے، خواہ اس اعتبار سے کہ احادیث ضعیفہ فضائل کے باب میں معتبر
ہیں یا اس لحاظ سے کہ لاتعداد علماے کرام رضی اللہ عنہم نے اس باب میں بے شمار کتابیں
تصنیف فرمائی ہیں یا اس اعتبار سے کہ یہ حدیث متواتر ہے، اور حدیث متواتر اعلی درجہ
کی قابل قبول و عمل حدیث ہوتی ہے۔
اس
حدیث کی فضیلت میں شمولیت:
علامہ
مناوی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’چالیس احادیث یاد کرنے سے مراد وہ شخص ہے جس نے
تخریج و اسناد کے ذریعہ چالیس احادیث، احادیث صحیحہ یا حسنہ امت تک پہونچایا، بعض لوگوں
نے کہا: یا احادیث ضعیفہ جو فضائل کے باب میں مقبول ہیں، ان کو امت تک پہونچایا، بعض
لوگوں نے جرح و قدح سے محفوظ ہونے کی بھی شرط لگائی ہے، نیز احادیث کا ابواب علم کے
کسی خاص باب سے ہونا ضروری نہیں،بلکہ احادیث احکام اور احادیث رقائق وغیرہ سے بھی ہوسکتی
ہیں‘‘۔ احادیث کس باب کی ہو، اس کے بارے میں علما کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے
ہیں:
’’اور
جس نے بھی ان اقوال میں سے کسی ایک قول پر بھی عمل کرکے محنت و لگن سے چالیس احادیث
محفوظ کیا اور علم و معرفت، رشد و ہدایت کا پیکر بن کر یہ خدمت انجام دی، اسے قیامت
کے دن اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کیا ہوا وعدہ ملے گا‘‘
(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر؍عبد الرؤف بن تاج مناوی رحمہ اللہ، ج۶ص۱۱۸،
رقم:۱۲۳۳۵،ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
نیز
فرما تے ہیں: ’’اورجس نے تخریج و اسناد کے ذریعہ امت اسلامیہ تک نہیں پہونچایا، اسے
اس حدیث کا وعدہ شامل نہیں ہوگا اگرچہ اس نے انہیں چالیس احادیث کو زبانی یاد کرلیا
ہو؛ کیوں کہ اس حدیث کی فضیلت کو پانے کا مدار امت کو نفع پہونچانے پر ہے اور وہ محض
یاد کرنے کی صورت میں پایا ہی نہیں گیا، اور نص سے کسی ایسے معنی کا استخراج جو نص
کو خاص کردے، جائز ہے، پھر اگر ان چالیس احادیث کو اسناد و اجتہاد کے ذریعہ نقل کیا
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کے مثل دوسرے حضرات نے کیا؛ تو وہ نقل کرنے میں
اعلی درجہ پر فائز ہیں، اور اگر چالیس احادیث کو ان دواوین سے لیا جیسے کہ مصنف وغیرہ
نقل کرتے ہیں؛ تو اس کا اس فضیلت میں داخل ہونا محل نظر ہے؛ کیوں کہ اس نے ان احادیث
کو امت کے لیے محفوظ نہیں کیا بلکہ صاحب کتاب نے کیا ہے، جس نے ان کی تخریج میں تگ
و دو کی، اور اگر اس کا فضیلت میں داخل ہونا تسلیم بھی کرلیا جائے؛ تو اس کا داخل ہونا
مسند و مجتہد کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اس کو صرف دیوان سے احادیث کو الگ کرنے کے سبب
لوگوں تک آسانی سے پہونچنے کا اجر و ثواب ملے گا، اسناد کا ثواب نہیں ملے گا، حاصل
کلام یہ ہے کہ اگر حفظ تام نہیں پایا گیا؛ تو اس فضیلت میں دخول تام بھی نہیں ہوگا‘‘
(المرجع السابق، رقم:۱۲۳۳۶)
وہابی
اور ان کے متبعین وغیرہ فرض نماز کے بعد دعا کو جائز نہیں سمجھتے، حالانکہ ایک نہیں
بلکہ کئی ایک احادیث نماز فرض کے بعد دعا کے جواز پر صریح طور پر دلالت کرتی ہیں، اور
جو صریح طور پر تو نہیں مگر اپنے عموم و اطلاق کی وجہ سے نماز کے بعد دعا کے جواز کا
ثبوت پیش کرتی ہیں، وہ بہت زیادہ ہیں؛ لہذا اس انکار کی گنجائش نہیں رہ جاتی، ان منکرین
کا رد کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: ’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘
میں ’باب الدعاء بعد الصلاۃ‘ کے تحت فرماتے ہیں:
’’اس
’باب الدعاء بعد الصلاۃ‘ میں نماز سے مراد نماز فرض ہے، اس باب میں ان لوگوں پر رد
ہے جو نماز کے بعد دعا کو مشروع نہیں مانتے ہیں، ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم
رحمہ اللہ نے اپنی ’صحیح‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تخریج کی ہے، اس کے الفاظ
یہ ہیں: کان
النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اذا سلم لایثبت الا قدر ما یقول: ((اللھم أنت السلام
و منک السلام تبارکت یا ذا الجلال و الاکرام))
استدلال
کا جواب: نفی مذکور سے مراد سلام سے پہلے کی ہیئت پر بیٹھے رہنے کے استمرار کی نفی
ہے، مگر اسی مقدار جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا ہے؛ کیوں کہ یہ ثابت
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے صحابہ کرام کی
طرف متوجہ ہوجاتے؛ لہذا جن احادیث میں نماز کے بعد دعا کرنا مذکور ہے اس دعا کو اس
بات پر محمول کیا جائے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسے اپنے صحابہ کرام کی
طرف متوجہ ہونے کے بعد پڑھتے تھے‘‘ (فتح الباری؍حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، کتاب الدعوات،
ج۱۱ص۱۶۰، ط:قدیمی کتب خانہ، کراچی،
پاکستان)
پھر
ابن قیم جوزیہ کی طویل عبارت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’میں
کہتا ہوں: ابن قیم جوزیہ کا فرض نماز کے بعد مطلقا دعا کی نفی کا دعوی کرنا مردود و
نامقبول ہے؛ کیوں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا: ((یا معاذ أی واللہ لأحبک، فلاتدع دبر کل صلاۃ
أن تقول: اللھم أعنی علی ذکرک و شکرک و حسن عبادتک)) (سنن أبی داود) (المرجع
السابق)
چند
احادیث سے استدلال کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’اگر
یہ کہا جائے کہ احایث میں ہر نماز کے بعد سے مراد نماز کے اخیر کے قریب کا وقت ہے اور
وہ تشہد ہے، ہم کہیں گے: ہر نماز کے بعد ذکر کرنے کا حکم وارد ہے اور اس بات پر اجماع
ہے کہ اس ذکر سے مراد سلام کے بعد کا وقت ہے؛ اس لیے دعا میں بھی سلام کے بعد کا وقت
ہی مراد ہوگا جب تک کہ اس کے خلاف دلیل سے ثابت نہ ہوجائے‘‘ (المرجع السابق)
پھر
تقریبا تین سطر کے بعد فرماتے ہیں:
’’کثیر
حنابلہ جن سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے یہ سمجھا کہ ابن قیم کی مراد مطلقا نماز کے
بعد دعا کی نفی کی ہے حالانکہ ایسا نہیں؛ کیوں کہ ان کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ انہوں
نے نمازی کے استقبال قبلہ پر استمرار اور سلام کے بعد دعا کرنے کی قید کے ساتھ نفی
کو مقید کیا ہے، لیکن اگر نمازی سلام پھیرنے کے بعد استقبال قبلہ سے پھر گیا یا مشروع
اذکار پڑھنے کے بعد دعا کیا؛ تو ان کے نزدیک بھی اس وقت دعا ممنوع نہیں‘‘ (المرجع السابق)
امام
ابن حجر رحمہ اللہ کے اس بیان میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے؛ کیوں کہ آپ نے پہلے ابن
قیم جوزیہ کے قول کو نماز کے بعد مطلقا دعا کی نفی پر محمول کرکے اس کا رد کیا، پھر
حنابلہ میں سے جنہوں نے ابن قیم جوزیہ کے قول سے مطلقا نفی سمجھا، آپ نے اس کا انکار
کرکے اس کی نفی کو سلام کے بعد ایک خاص حالت پر محمول کیا، جس سے بظاہر آپ کے بیان
میں تضاد نظر آتا ہے۔
حل:
غالبا امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن قیم جوزیہ کے اس قول کے بارے میں بعض حنابلہ کی
راے کو مد نظر رکھتے ہوئے ابن قیم جوزیہ کے قول کو مطلقا نفی پر محمول کرکے ان کا رد
کیا، ورنہ خو دامام ابن حجر رحمہ اللہ کی راے یہ ہے کہ ابن قیم جوزیہ نماز کے بعد مطلقا
دعا کے منکر نہیں۔
مذکورہ
بالا بیان سے مندرجہ ذیل چیزیں ثابت ہوئیں:
(۱) چالیس
احادیث کی فضیلت میں جو احادیث وارد ہیں، وہ سب شدید ضعیف یا موضوع نہیں بلکہ بعض صرف
ضعیف بھی ہیں (۲) اس ضعیف حدیث یا متواتر پر عمل کرکے یا لاتعداد علما
کے نقش قدم پر چل کر یا مطلق حدیث پہونچانے کے حکم کا اعتبار کرتے ہوئے چالیس احادیث
محفوظ کرکے امت تک پہونچانا جائز و درست ہے (۳)
یہ
فضیلت احادیث صحیحہ یا حسنہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس شخص کو بھی حاصل ہوگی جس نے فضائل
کے باب میں مقبول چالیس احادیث ضعیفہ کو محفوظ کرکے امت تک پہونچایا (۴) جس
نے چالیس احادیث کے محفوظ کرنے میں یہ شرط لگائی ہے کہ وہ احادیث جرح و قدح سے خالی
ہوں، قابل التفات نہیں، ہاں موضوع احادیث نہ ہونا مشروط ضرور ہے (۵)محض
دواوین کتب سے نقل کرکے چالیس احادیث امت تک پہونچانے والا بھی اس شرف کا مستحق ہوگا
اگرچہ اس کا شرف بطور تخریج و اسناد پہونچانے والوں سے کچھ کم ہو (۶) چالیس
احادیث کا جمع کرنا کسی باب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جس باب میں چاہیں جمع کرسکتے ہیں
(۷) فرض نماز کے بعد دعا کرنا جائز و درست ہے، اس کے مطلقا
منکرین غلطی پر ہیں۔
عزیزم
مولانا نور الحسن قادری علیمی زید علمہ اپنی اس کامیاب کوشش کی بنیاد پر قابل مبارک
باد ہیں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی اس کاوش کو قبول کرکے ثمر بار بنائے، آئندہ
خلوص و عمل ، اعتدال و وسطیت کے ساتھ مزید دینی و ملی خدمات اور اہم موضوعات پر لکھنے
اور بولنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کاوش کو آخرت میں ان کے اور والدین کے لیے ذریعہ
نجات بنائے، الحمد للہ کم و بیش دس گھنٹے میں یہ مقدمہ اپنی تکمیل کو پہونچا، اللہ
تعالی ہم سب کو تا حیات اپنی توفیقات سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی
مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف،
مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن،
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:
8318177138
۲؍جمادی الأولی۱۴۳۹ھ
مطابق ۲۰؍جنوری ۲۰۱۸ء
(تقدیم)
(تقدیم)
No comments:
Post a Comment