Monday, October 7, 2019

اعلی حضرت محدث بریلوی اور اصول حدیث ایک تحقیقی جائزہ


مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
تمہیدی کلمات :
فن حدیث دیگر فنون علم فقہ وغیرہ کی طرح بہت ہی پسندیدہ اور اہمیت کا حامل فن ہے، اسی فن کے ذریعہ احادیث کی صحت و ضعف کا علم ہوتا ہے، اسی کی مدد سے احادیث گڑھنے والوں کا چہرا سامنے لاکر اسلام اور احادیث نبوی کا دفاع کیا جاتا ہے، اسی کا طرہ امتیاز ہے کہ اس فن کی خدمات حاصل کرکے جاہلوں کے تعصب و تعنت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ دین اسلام، قرآن پاک اور احادیث طیبہ پر کیے گئے اعتراضات کا کامل جواب دیا جاتا ہے، بہر حال یہ فن بہت ساری خوبیوں اور امتیازات و کمالات کا جامع ہے؛ اسی سبب روز اول ہی سے علما ے ربانیین کی ایک بڑی جماعت اس فن میں مہارت حاصل کرتی رہی اور اس کے ذریعہ اس جماعت نے دین متین کی بیش بہا خدمت انجام دی اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت انجام دیتی رہے گی۔
 انہیں علماے ربانیین میں سے چودہویں صدی کے مجددِ دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ ہیں، احادیث کی مختلف اقسام پر سیر حاصل ناقدانہ گفتگو آپ کی مہارت علم حدیث پر شاہد عدل ہے، ان ابحاث و اقسام کو راقم نے ’تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی‘ کی ترتیب پر رکھا ہے۔راقم الحروف اسی عبقری شخصیت کی بارگاہ میں اپنی یہ ادنی کاوش: محدث بریلوی اور اصول حدیث ایک تحقیقی جائزہ،کے طور پر بطور خراج عقیدت مندرجہ ذیل عناوین کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کرے گا:
(الف) اصول حدیث کا تعارف۔
 (ب) علم حدیث اور اعلی حضرت محدث بریلوی:
(۱) علم حدیث میں اعلی حضرت کی مہارت اقوال علماکی روشنی میں ۔(۲) علم حدیث میں اعلی حضرت کی مہارت آپ کے افکار کی روشنی میں ۔
(ج)محدث بریلوی کی علم حدیث پر مستقل کتب اور حواشی۔
 و ماتوفیقی إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
(الف) اصول حدیث کا تعارف
اصول حدیث کے تعارف کے لیے اصول حدیث کی تعریف، موضوع اور غرض و غایت، اس کی اہمیت، اس علم کی تاریخ آغاز و فروغ اور ارتقا کے اعتبار سے جان لینا، نیز اس فن کے ماہرین اور ان کی کتابوں کے بارے میں ایک اجمالی خاکہ ذہن کی سطح پر آجانا ضروری ہے، غیر مخل اختصار کے ساتھ مندرجہ بالا نکات پر گفتگو ملاحظہ فرمائیں:
علم حدیث کی تعریف:
علم حدیث کی مختلف تعریف کی گئی ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں: شیخ عز الدین ابن جماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ایسے قوانین کا علم رکھنا جس کے ذریعہ سند و متن کے احوال کو جانا جاسکے‘‘۔  اور امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قواعد اور راوی و مروی کی حالت جاننے کا نام علم حدیث ہے‘‘۔
موضوع: اس علم کا موضوع سند و متن ہے۔
غرض و غایت: اس علم کی غرض و غایت صحیح اور غیر صحیح کا جاننا ہے اور امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کی غرض و غایت دارین کی سعادت سے سرفرز ہونا ہے۔
(تدریب الراوی، مقدمۃ، ج۱ص۲۶۔۲۷، ط: دار طیبۃ)
 علم حدیث کی اہمیت: علم حدیث بہت اہم علم ہے، اس علم سے کسی بھی دور میں کنارہ کشی نہیں کی جاسکتی؛ کیوں کہ اللہ تعالی خود اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے حاصل کرنے اور اس کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دے رہا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{وَ مَا آتاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَ اتَّقُوْا اللّٰہ اِ نَّ  اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ} (الحشر:59،الآیۃ:7)
ترجمہ: ((اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے)) (کنز الایمان)
اس آیت مبارکہ میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو احکام بتائے امت کو اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔
اور مختلف احادیث میں بھی اس علم کی اہمیت و فضیلت خوب اجاگر کی گئی ہے؛ اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس علم کو دوسروں تک پہنچانے کی ترغیب دلائی اور اس کی نشر و اشاعت کا حکم دیا تاکہ اس علم کے ذریعہ استفادہ عام و تام ہو،  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
عَنْ زَیدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یقُولُ: ((نَضَّرَ اللَّہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدیثًا، فَحَفِظَہُ حَتَّی یبَلِّغَہُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلَی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ  لَیسَ بِفَقِیہٍ)) (سنن أبی داود، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، ج۳ص۲۲۳، رقم: ۳۶۶۰، ط:المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
ترجمہ: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((اللہ تعالی اس شخص کو روشن کرے جس نے ہم سے حدیث سنی پھر اسے یاد کرکے لوگوں تک پہونچائے؛ کیوں کہ حامل فقہ کبھی ایسے شخص تک فقہ پہونچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حامل فقہ فقیہ ہی نہیں ہوتا))
اور یہ علم ہر کس و ناکس سے نہیں بلکہ انہیں حاملین سے قبول کیا جائے گا جو ثقہ و عادل ہوں یا قابل اعتماد و اعتبار ہوں، حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:((بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آیۃً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِیلَ وَلاَ حَرَجَ، وَمَنْ َکذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) (صحیح البخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب ماذکر عن بنی إسرائیل، ج۴ص۱۷۰، رقم:۳۴۶۱، ط:دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
(میری طرف سے لوگوں تک اگرچہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو، اسے پہنچاؤ، بنی اسرائیل سے بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے؛ تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے)
مذکورہ بالا آیت اور بعض احادیث سے پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کو قرآن پاک اور احادیث سے ثابت شدہ احکام پر عمل کرنے اور ان کو لوگوں تک پہونچانے کا حکم دیااور یہ بھی معلوم ہوا کہ احادیث اور احکام کو بیان کرنے والے جہاں عادل و ثقہ یا قابل اعتماد و اعتبار بھی ہونگے وہیں غیر معتبر بلکہ جھوٹے لوگ بھی ہونگے؛ اس لیے احادیث کو قبول کرنے اور نہ کرنے میں چھان بین اور تحقیق کی ضرورت پیش آئے گی؛ اسی تحقیق و تدقیق اور قبول و عدم قبول کی اہمیت کی طرف آنے والی آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ مزید توجہ دلاتی ہوئی نظر آرہی ہے:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:{ یٰا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ} (الحجرات:49، الآیۃ:6)
ترجمہ: ((اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہو)) (کنز الایمان)
عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ:((یحْمِلُ ہَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُولُہُ یَنْفُونَ عَنْہُ تَحْرِیفَ الْغَالِینَ، وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِینَ، وَتَأْوِیلَ الْجَاہِلِینَ)) (شرح مشکل الآثار،امام  طحاوی رحمہ اللہ، باب بیان مشکل ما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في دفعہ میراث المتوفی فی زمنہ إلی مولاہ الأسفل الذي کان أعتقہ، ج۱۰ص۱۷، رقم: ۳۸۸۴، ط:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
ترجمہ: حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((ہر خلَف میں سے عادل لوگ اس علم کو لیں گے، اس علم سے غلو کرنے والے کی تحریف، اہل باطل  کے گڑھنے اور جاہلوں کی تاویل کو دور کریں گے))
اسی قبول اور عدم قبول کے پیش نظر  علماے کرام نے اس علم کے لیے قواعد و ضوابط مرتب فرمایا تاکہ انہی قواعد کے آئینہ میں احادیث کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا جائے۔
علم حدیث کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بے شک علم حدیث علوم فاضلہ اور فنون نافعہ میں سے افضل و انفع علم ہے، اصحاب فضیلت اس علم کو پسند فرماتے ہیں، محققین اور کامل علما اس کی نشر و اشاعت پر توجہ دیتے ہیں، اس علم کو کم ظرف لوگ ہی ناپسند کرتے ہیں، تمام علم میں اس علم کا اپنے  فنون خاص کر فن فقہ میں زیادہ دخل ہے جو کہ فنون کے آنکھوں کی پتلی ہے؛ اسی وجہ سے فقہ کے مصنفین جو اس فن سے دور رہے، ان سے غلطی زیادہ ہوئی اور وہ علما جو اس فن میں ناقص رہے ان کے کلام میں خلل پایا گیا، ایک زمانہ تھا کہ حدیث کی شان بہت عظیم تھی،اس علم کے شائقین کی پوری جماعت عظمت والی تھی اور اس کو یاد رکھنے اور روایت کرنے والوں کا مرتبہ بہت بلند تھا، یہ ایسے لوگ تھے کہ ان کی حیات میں علم حدیث زندہ و جاوید تھا، اس کے فنون کے افنان ان کی زندگی میں بالکل پھل پھول رہے تھے، اس علم کے اہل و مستحقین کی وجہ سے اسے بے نیازی حاصل تھی، پھر اس فن کے جاننے والے کم ہوتے رہے یہاں تک کہ ان کی تعداد بہت کم ہوگئی، اس کے حصول کی طرف توجہ صرف غفلت کے ساتھ سننے کے سوا کچھ نہیں، اس کے مقید کرنے میں اس کے علوم کو چھوڑ تے ہوئے جس کی وجہ سے اس کی قدر و منزلت تھی، اس کے معارف سے دور رہتے ہوئے جس کی وجہ سے اس علم کی عظمت تھی اب صرف لکھنے کے سوا کچھ نہیں رہا‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، مقدمۃ، ص۵-۶، ط:دار الفکر، بیروت)
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علم حدیث کی قدر و منزلت بہت ہے، قابل فخر اور قابل ذکر بھی ہے، ہر نیک عالم اس سے شغف رکھے گا اور ہر ناتجربہ کار جاہل اس سے محروم رہے گا، اس کے محاسن ہمیشہ باقی رہیں گے، اور میں اس علم کے موج سمندر میں غوطہ زن ہوا، جب کہ میرے علاوہ دوسرے لوگ اس فن کے ابتدائی مراحل تک پہونچنے پر ہی اکتفا کیے رہے، میں نے صرف اس کی گزرگاہ کے پاس آنے پر بس نہیں کیا بلکہ اس کے چشمہ اور پیدا ہونے کی جگہ کو بھی کھولا اور میں نے راحت پر اعتماد کرنے والے کو شاعر کے اس قول سے مثال پیش کرتے ہوئے کہا:
اگرچہ ہم حسب والے ہیں مگر کسی دن بھی ہم حسب و نسب پر بھروسہ نہیں کرتے، ہم اپنے اگلوں کی طرح تعمیر کرتے ہیں اور انہوں نے جس طرح کام کیا اسی طرح کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
پھر دوسرے علوم میں اپنی خدمات ذکرکرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’میں نے ان تمام فنون پر کتابیں لکھیں اور قواعد و مہمات کو ان کتابوں میں بہتر طریقہ سے بیان کیا، میں ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو علم کے بغیر حدیث کا دعوی کرے جس کا  مطمح نظر فقط ہر شیخ اور بزرگ سے زیادہ سماعت کرنا ہے، اس کی نظر التفات محدث کو جس کی حاجت ہے اس کے حاصل کرنے کی طرف نہیں ہوتی اور نہ ہی جائز و ناجائز چیز تلاش کرنے سے بچتا ہے، پھر گمان کرتا ہے کہ بہت ساری کتابیں جمع کرلیں اور حد تو یہ ہے کہ ان کتابوں سے طلبہ کو فائدہ اٹھانے نہیں دیتا، اس کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جو بہت ساری کتابیں اپنے جسم پر لادے ہوتا ہے مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھا تا۔
اگر مصطلح کے متعلق اس سے کوئی سوال کرلیا جائے؛ تو اس کا جواب دینے کی استطاعت نہیں رکھتا یا کوئی دینی مسئلہ پیش آگیا؛ تو غلط و صحیح کے درمیان امتیاز نہیں کرپاتا یا حدیث کا کوئی کلمہ بولا؛ تو اس کے اعراب میں غلطی کرنے سے مامون نہیں ہوتا؛ جس کی وجہ سے لوگ اس کا مزاق اڑاتے ہیں، و اللہ تعالی حسبی و ھو خیر الناصرین‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ۲۳-۲۴، ط: دار طیبۃ)
علم حدیث کی تاریخ:
اگر علم حدیث کی تاریخ باعتبار تدوین و کتابت دیکھا جائے؛ تو اس کی ابتدا رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ ہی میں ہوچکی تھی، چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد خطبہ دیا؛ تو خطبہ کے بعد یمن کے ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے لکھوادیں؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((اکتبوا لأبی شاہ)) ترجمہ: ((ابو شاہ کے لیے لکھ دو))
 اس حدیث کے ایک راوی ولید بن مسلم رحمہ اللہ نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے عرض کیا: اس صحابی کے قول: ’’اکتبوا لی یا رسول اللہ‘‘۔ سے کس چیز کا لکھنا مراد ہے؛ تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جو اس نے خطبہ سنا وہی لکھنا مراد ہے۔ (صحیح البخاری رحمہ اللہ، کتاب فی اللقطۃ، باب کیف تعرف لقطۃ أھل مکۃ، ج۳ص۱۲۵، رقم: ۲۴۳۴، ط: درا طوق النجاۃ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَ حَدِیثًا مِنِّي إِلَّا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو فَإِنَّہُ کَانَ یکْتُبُ وَکُنْتُ لا أکتب‘‘۔ (صحیح ابن حبان، ذکر کثرۃ الروایۃ أبی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱۶، ص۱۰۳، رقم: ۷۱۵۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
ترجمہ: ’’اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ حدیث والا نہیں تھا البتہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ زیادہ حدیث والے تھے؛ کیوں کہ وہ حدیث لکھ لیا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا‘‘۔
اور شک یا شبہ کی بنا پر حدیث قبول کرنے نہ کرنے میں احتیاط و تثبت کا آغاز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ادوار ہی میں ہوچکا تھا، اس کی دو چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
قبیصہ بن ذویب سے مروی ہے کہ جدہ (دادی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور آپ سے وراثت کا مطالبہ کیا؛ تو آپ نے فرمایا:
’’میں آپ کے لیے کلام پاک میں کچھ نہیں پاتا اور میرے علم میں بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے لیے کچھ ذکر کیا ہے، پھر آپ نے لوگوں سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا؛ تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
((میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر تھا، آپ انہیں چھٹا حصہ دیتے ہیں)) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: کیا تمہارے ساتھ کوئی اور ہے؟ اس مطالبہ پر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسی کے مثل گواہی دی؛ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے نافذ فرمادیا۔ (تذکرۃ الحفاظ،طبقات الحفاظ، امام ذہبی رحمہ اللہ، الطبقۃ الأولی، ج۱ص۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن قیس ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے تین مرتبہ سلام کیا مگر انہیں اجازت نہیں دی گئی؛ تو آپ لوٹ آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے آئے اور فرمایا: آپ کیوں لوٹ گئے؛ تو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ سلام کرے اور اسے جواب نہ دیا جائے؛ تو وہ لوٹ جائے))
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطور وعید فرمایا: آپ جو کہ رہے ہیں اس پر دلیل قائم کریں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا کروں گا؛ تو حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس اس حال میں آئے کہ میں ایک مجلس بیٹھا ہوا تھااور ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا، ہم نے کہا: کیا بات ہے؛ تو آپ نے کہا: میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سلام کیا، پھر انہیں میں نے حدیث سنائی؛ تو کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے؟ سب نے کہا: ہم سب نے اس حدیث کو سنا ہے، پھر ان لوگوں نے ان میں سے ایک شخص کو ان کے ساتھ بھیجا، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر اس کی خبر دی۔ (جامع معمر بن راشد رحمہ اللہ، باب الاستئذان، ج۰۱ص۳۸۱،ط: المجلس العلمی، پاکستان)
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا؛ تو اللہ تعالی جو چاہتا اس سے مجھے نفع پہنچتا اور جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آپ کے سوا کوئی مجھ سے حدیث بیان کرتا؛ تو میں اس سے قسم لیتا، اگر وہ قسم کھالیتا؛ تو میں اس کی تصدیق کردیتا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی اور انہوں نے سچ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((کوئی شخص کوئی گناہ کرے، پھر بہتر طریقہ سے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھ لے اور اللہ تعالی سے مغفرت چاہے؛ تو اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمادے گا)) (سنن ابن ماجہ، کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیہا، باب ماجاء فی أن الصلاۃ کفارۃ، ج۱ص۴۴۶، رقم: ۱۳۹۵، ط: دار إحیاء الکتب العربیۃ)
اور سب سے پہلے اسناد کی تفتیش و تحقیق کے بارے جس کا قول سامنے آتا ہے وہ امام ابن سیرین رحمہ اللہ (ت۰۱۱ھ) ہیں، آپ فرماتے ہیں:
’’إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِینٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِینَکُمْ‘‘۔ (صحیح مسلم رحمہ اللہ، مقدمۃ، باب فی أن الإسناد من الدین، ج۱ص۱۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ:’یہ علم دین ہے؛ لہذا جس سے اپنا دین سیکھو اسے پرکھ لو
نیز آپ ہی فرماتے ہیں:
’’لَمْ یَکُونُوا یَسْأَلُونَ عَنِ الْإِسْنَادِ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَۃُ، قَالُوا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَکُمْ، فَیُنْظَرُ إِلَی أَہْلِ السُّنَّۃِ فَیُؤْخَذُ حَدِیثُہُمْ، وَیُنْظَرُ إِلَی أَہْلِ الْبِدَعِ فَلَا یُؤْخَذُ حَدِیثُہُم‘‘۔ (صحیح مسلم رحمہ اللہ، مقدمۃ، باب فی أن الإسناد من الدین، ج۱ص۱۵)
ترجمہ: ’’علماے کرام اسناد کے بارے میں نہیں پوچھتے تھے؛ مگر جب فتنہ واقع ہوا؛ تو ان حضرات نے کہنا شروع کیا: ہمیں اپنے رجال کے نام بتاؤتاکہ اہل سنت کی حدیث لی جائے اور اہل بدعت کی حدیث چھوڑ دی جائے‘‘۔
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (ت۱۷۹ھ) فرماتے ہیں:
’’الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَائَ مَا شَائَ‘‘۔ (صحیح مسلم رحمہ اللہ، مقدمۃ، باب فی أن الإسناد من الدین، ج۱ص۱۵)
ترجمہ: ’’اسناد دین میں سے ہے، اگر اسناد نہ ہوتی؛ تو جو شخص جو چاہتا بیان کردیتا‘‘۔
عن أَبَی إِسْحَاقَ إِبْرَاہِیمَ بْنَ عِیسَی الطَّالْقَانِيَّ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَکِ، یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: الْحَدِیثُ الَّذِي جَائَ: ((إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْبِرِّ أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَیْک مَعَ صَلَاتِک، وَتَصُومَ لَہُمَا مَعَ صَوْمِکَ)) قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللہِ: یَا أَبَا إِسْحَاقَ، عَمَّنْ ہَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَہُ: ہَذَا مِنْ حَدِیثِ شِہَابِ بْنِ خِرَاشٍ، فَقَالَ: ثِقَۃٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ، قَالَ: ثِقَۃٌ، عَمَّنْ قَالَ؟ قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم، قَالَ: یَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ بَیْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِینَارٍ وَبَیْنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ تَنْقَطِعُ فِیہَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَکِنْ لَیْسَ فِي الصَّدَقَۃِ اخْتِلَافٌ‘‘۔(صحیح مسلم رحمہ اللہ، مقدمۃ، باب فی أن الإسناد من الدین، ج۱ص۱۶)
ترجمہ: ابواسحاق ابراہیم بن عیسی طالقانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ اے ابوعبد الرحمن: اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں: ((نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے روزہ رکھو))
آپ کہتے ہیں کہ عبد اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! یہ حدیث کس سے مروی ہے؟ میں نے ان سے عرض کیا: یہ شہاب بن خراش کی حدیث سے ہے؛ تو آپ نے فرمایا: وہ ثقہ ہیں، انہوں نے کس سے روایت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: یہ ثقہ ہیں، انہوں نے کن سے روایت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، آپ نے فرمایا: اے ابواسحاق! بے شک حجاج بن دینار اور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ ہے کہ اس میں چلنے والے کی زندگیاں ختم ہوجائیں، لیکن بہر حال صدقہ میں کوئی اختلاف نہیں۔
عن عَلِيَّ بْنَ شَقِیقٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللہ بْنَ الْمُبَارَکِ، يیقُولُ عَلَی رُُؤسِ النَّاسِ: دَعُوا حَدِیثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّہُ کَانَ یَسُبَّ السَّلَفَ‘‘۔ (صحیح مسلم رحمہ اللہ، مقدمۃ، باب فی أن الاسناد من الدین، ج۱ص۱۶)
علی بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو مجمع عام میں کہتے ہوئے سنا: ’’عمرو بن ثابت کی حدیث چھوڑ دو؛ کیوں کہ وہ سلف صالحین کو گالی دیتا ہے‘‘۔
فن کے ماہرین اور ان کی کتابوں کا اجمالی تذکرہ: فن علوم حدیث میں کلام کرنے والے سلف صالحین کثرت سے پائے جاتے ہیں، صحابہ کرام میں جیسے امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم، امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ، تابعین میں جیسے امام اعظم ابوحنیفہ، امام شعبی اور امام ابن سیرین رحمہم اللہ وغیرہ، اس فن کے مباحث ابتدا میں اصول فقہ وغیرہ کی کتابوں میں مخلوط ذکر کیے جاتے تھے، اس وقت اس فن میں مستقل کسی کتاب کا تصور نہیں تھا، سب سے پہلے اس فن میں مستقل کتاب تقریبا چوتھی صدی کے نصف میں لکھی گئی، اس پہلی کتاب کا نام: المحدث الفاصل بین الراوی و الواعی، مؤلف: ابومحمد حسن بن عبد الرحمن رامہرمزی فارسی رحمہ اللہ (ت ۳۶۰ھ)
اس کے بعد امام حاکم، ابونعیم اصبہانی اور خطیب بغدادی رحمہم اللہ وغیرہ نے مستقل مفید کتابیں تصنیف کیں اور آج تک یہ علمی سلسلہ جاری ہے، اس فن کے بعض اہم علما اور ان کی کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:
معرفۃ علوم الحدیث، مؤلف: ابو عبد اللہ حاکم محمد بن عبد اللہ نیساپوری رحمہ اللہ(ت ۴۰۵ھ) المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث، مؤلف: ابونعیم احمد بن عبد اللہ اصبہانی رحمہ اللہ (ت ۴۳۰ھ) الکفایۃ فی علم الروایۃ، الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع، مؤلف: ابوبکر احمد بن علی بغدادی رحمہ اللہ (ت۴۶۳ھ)  الإلماع إلی معرفۃ أصول الروایۃ و تقیید السماع، مؤلف: ابوالفضل عیاض بن موسی سبتی رحمہ اللہ (ت ۵۴۴ھ) مالایسع  المحدث جہلہ، مؤلف: ابوحفص عمر بن عبد المجید میانجی رحمہ اللہ (ت۵۸۰ھ) علوم الحدیث معروف بہ مقدمۃ ابن الصلاح، مؤلف: ابوعمرو عثمان بن عبد الرحمن شہرزوری رحمہ اللہ (ت۶۴۳ھ) التقریب و التیسیر لمعرفۃ سنن البشیر و النظیر صلی اللہ علیہ و سلم، مؤلف: محی الدین یحی بن شرف نواوی رحمہ اللہ (ت۶۷۶ھ) نظم الدرر فی علم الأثر، مؤلف: زین الدین عبد الرحیم بن حسین عراقی رحمہ اللہ (ت ۸۰۶ھ) نخبۃ الفکر فی مصطلح أھل الأثر، مؤلف: ابوالفضل احمد بن علی عسقلانی رحمہ اللہ (ت۸۵۲ھ) فتح المغیث فی شرح ألفیۃ الحدیث، مؤلف: محمد بن عبد الرحمن سخاوی رحمہ اللہ (ت۹۰۲ھ) تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، مؤلف: جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر سیوطی رحمہ اللہ (ت۹۱۱ھ) المنظومۃ البیوقونیۃ، مؤلف: عمر بن محمد بیقونی رحمہ اللہ (ت۱۰۸۰ھ) اور ان کے علاوہ ’قواعد التحدیث‘ کے مصنف جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (ت۱۳۳۲ھ) وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔
(ب) محدث بریلوی اور علم حدیث
حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان کے علم حدیث سے متعلق عمدہ افکار اور تحقیقی کارنامے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، یہ وہ کارنامے ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، آپ کے اس فن سے متعلق کارنامے اور افکار و نظریات مندرجہ ذیل عناوین کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کو فن اصول حدیث میں بھی ید طولی اور مہارت تامہ حاصل تھی:
(۱)علم حدیث میں اعلی حضرت کی مہارت اقوال علماکی روشنی میں:
امام اہل سنت اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی شخصیت اہل سنت و جماعت کے نزدیک ایسی شخصیت ہے جو پچاس سے زائد علوم و فنون میں مہارت رکھتی ہے بلکہ غیر بھی علم فقہ وغیرہ میں آپ کی مہارت تامہ کا اعتراف کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے،ہاں علم حدیث کی بات آتی ہے؛ تو غیر اپنی لاعلمی یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ علم حدیث کو ان کے ماہرین کے ساتھ ہی خاص رکھا جائے، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کو ماہرین علم حدیث میں شمار نہ کیا جائے، میں یہاں پر محض دعوی کے بجائے علماے کرام، خاص کر علماے عرب کی آرا کو اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی حدیث دانی و مہارت کے بارے میں پیش کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں تاکہ اپنوں کا اضطراب دور ہو اور غیروں کی آنکھیں کھلیں اور حق قبول کرنے کی سعی مسعود کرنے کی کوشش کرسکیں، توجہ فرمائیں:
استاذی المکرم فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر مصطفی محمد ابوعمارۃ دام ظلہ، استاذ علم حدیث: جامعہ ازہر شریف، مصر، فرماتے ہیں:
’’کتاب ’الھاد الکاف فی حکم الضعاف‘ ایسی عبارتوں کے متعلق گفتگو پر مشتمل ہے جن کو محدثین کرام حدیث ضعیف کے بارے میں استعمال کرتے ہیں، صاحب کتاب ان عبارات کی عمدہ طریقہ سے تحلیل اور ان کی مراد بیان کرتے ہیں، مثلا آپ کلمہ ’لایصح‘ کی توضیح و تحلیل دیکھ سکتے ہیں جسے محدثین کرام عموما استعمال کرتے ہیں، جس سے عادتا پڑھنے والے کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ جب یہ عبارت محدثین کے کلام میں پایا جائے؛ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث ضعیف ہے حالاں کہ یقینی طور پر محدثین کی یہ مراد نہیں؛ کیوں کہ یہ عبارت صحیح کے علاوہ حسن لذاتہ، حسن لغیرہ اور ضعیف کی دونوں قسموں کو شامل ہے؛ لہذا حدیث کے متعلق صحت کی نفی سے حدیث کے حسن یا خفیف ضعیف کی نفی کو مستلزم نہیں۔
اسی طرح مصنف علیہ الرحمۃ مصطلح حدیث کے قضایا کے متعلق شرح و بسط کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور اپنے کلام کی تائید ائمہ علم حدیث کے کلام سے پیش کرتے ہیں، جیسے امام نواوی، عراقی، ابن صلاح اور ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ۔۔۔الخ، اور مصنف علیہ الرحمۃ ناقل محض نہیں بلکہ آپ آرا کے درمیان موازنہ کرتے ہیں، یہ ایسا موازنہ ہے جس کے ذریعہ قاری کو پتہ چلے گا کہ آپ قواعد محدثین کو سمجھنے میں دقت نظر رکھتے ہیں اور قواعد کی حرفیت ہی پر ٹھہرے نہیں رہتے بلکہ قواعد کے مضمون اور اس کے سیاق و سباق کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنی اس سمجھ کو سابقین اہل فن کی سمجھ و فہم سے توثیق بھی کرتے ہیں۔
آپ کے فقہ علم حدیث کا انوکھا پن ہی ہے کہ آپ فرماتے ہیں: حدیث کے ذریعہ جن قضایا کے متعلق استدلال کیا جاتا ہے، ان کی تین اقسام ہیں:
عقائد: عقائد میں خبر آحاد کافی نہیں، احکام: ان میں حدیث صحیح لذاتہ، صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ کافی ہیں، فضائل: ان میں ضعیف احادیث بھی مقبول ہیں۔۔۔ آپ ان تمام اقسام اور ان کے علاوہ دیگر مباحث رصینہ اور فوائد قیمہ کے متعلق شرح و بسط کے ساتھ کلام کرتے ہیں، یہ ایسی گفتگو ہے جو آپ کو صرف اسی کتاب میں ملے گی بلکہ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اسے ’توضیح الأفکار للصغانی، کی صف میں رکھا جائے؛ کیوں کہ اس کتاب میں علمی مناقشات اور دلائل سے پر گفتگو موجود ہے۔
بہر حال عام طور سے کتاب اپنے باب میں منفرد اور مواد کے اعتبار سے بے مثال ہے، علم حدیث کا طالب علم اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی علما اس سے اپنا دامن جھاڑ سکتے ہیں (الھاد الکاف فی حکم الضعاف، محدث بریلوی رحمہ اللہ، صKJ، ط: مرکز أھل السنۃ برکات رضا، فوربندر، گجرات، الھند)
فضیلۃ الاستاذ ڈاکٹر محمد فواد شاکر رحمہ اللہ، استاذ: جامعہ عین شمس، قاہرہ مصر، لکھتے ہیں:
’’قاری محترم جو چیز آپ کے ہاتھ میں ہے وہ موہوب ربانی کی بڑی کتاب میں سے ایک کتاب ہے جس سے اللہ تعالی نے شریعت اسلامیہ کے اعلام میں سے ایک علم اور منہج محمدی کا دفاع کرنے والے ایک عظیم فارس کو مختص کیا، وہ ہمارے شیخ امام محدث احمد رضا خاں اپنے زمانہ کے حنفی اعلام میں سے ایک اور سیدی عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے سلسلہ سے منسلک ہیں، ہمارے مبارک و محترم شیخ نے سیدنا و مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام سننے کے وقت ’تقبیل الإبھامین‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، اس کو حدیث ضعیف کے دراسہ اور اس کے متعلق موقف شریعت کو جاننے کا اہم ذریعہ بنایا؛ اسی وجہ سے آپ نے محدثین کے نزدیک حدیثی الفاظ کے مدلولات کا ذکر کیا، اور کبھی کسی محدث کے نزدیک لفظ حدیثی سے کوئی مراد ہوگی جو دوسرے کے نزدیک مقصود نہیں ہوگی، نیز اس بات کی تاکید فرمائی کہ کسی راوی کے متہم یا کسی ضعیف طریق یا کسی محدث کا اسے ضعیف قرار دینے کی وجہ سے حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں جلدی کرنا سخت اٹکل پچھو مارنا ہے، ہاں اگر اس طرح کا حکم لگانا ہے؛ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ خوب تفتیش و تدقیق سے کام لیا جائے اور قرائن کا لحاظ کرتے ہوئے اس حدیث پر وضع کا حکم لگایا جائے؛ لہذا اگر یہ چیزیں خبر میں موجود نہ ہوں تو اس پر وضع کا حکم لگانے پر ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہیے؛ کیوں کہ کتنی ایسی احادیث ہیں جو کتب موضوعات میں ذکر کی گئیں اور انہیں موضوع قرار دیا گیا پھر علماے حدیث نے ان پر تعقب کیا اور ان کے دوسرے طرق پائے گیے جس نے ان احادیث کو قوی کرکے ان کے مرتبہ کو بلند کردیا یہاں تک کہ وہ احادیث قابل احتجاج ہوگئیں اور علامہ طیب اللہ ثراہ و جزاہ اللہ عن الإسلام خیرا نے ثابت کیا کہ اہل علم کا کسی حدیث پر عمل کرنا اس کو تقویت بخشتا ہے، آپ نے بہت ساری دلائل پیش کی ہیں جو اس خبر کے مطابق اہل علم کے عمل کرنے کو ثابت کرتی ہیں جس کی وجہ سے آپ نے حدیث ضعیف کا حکم اور حدیث ضعیف و حدیث موضوع کے درمیان فرق بیان کرنے میں تفصیل کی ہے، علامہ محدث رحمہ اللہ نے علوم حدیث کے غایت درجہ دقیق مباحث میں لکھا اور اس کی مزید توضیح و تفصیل کی اور بہت سارے مفاہیم سے پردہ اٹھایا جن سے علوم حدیث میں بحث کرنے والوں کی فکر متعلق ہوتی ہے‘‘(الھاد الکاف فی حکم الضعاف، محدث بریلوی رحمہ اللہ، صML، ط: مرکز أھل السنۃ برکات رضا، فوربندر، گجرات، الھند)
عالم نبیل حضرت مولانا عیسی رضوی صاحب قبلہ لکھتے ہیں:
’’جب ہم اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی تصانیف عالیہ کو دیکھتے ہیں؛ تو فن حدیث، طرق حدیث، علل حدیث اور اسماء الرجال وغیرہ میں وہ انتہائی منزل کمال پر دکھائی دیتے ہیں اور یہی وہ وصف ہے جس میں کمال و انفرادیت ایک مجدد کے تجدیدی کارناموں کا رکن اہم ہے، فن حدیث میں ان کی جو خدمات ہیں ان سے ان کی علمی بصیرت و وسعت کا اندازہ ہوتا ہے‘‘۔ (امام احمد رضا اور علم حدیث، مولانا عیسی رضوی، ج۱ص۶، ط: رضوی کتاب گھر، دہلی)
(۲)علم حدیث میں اعلی حضرت کی مہارت آپ کے افکار کی روشنی میں:
النوع الاول، حدیث صحیح:
حدیث صحیح لذاتہ کی تعریف: ’’وہ حدیث جس کی سند شذوذ و علت کے بغیر عدول و ضابطین کے ذریعہ متصل ہو‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الاول الصحیح، ج۱ص۵۹، ط:دار طیبۃ)
حدیث صحیح لغیرہ کی تعریف: ’’وہ حدیث جس کی سند شذوذ و علت کے بغیر عدول اور خفت ضبط راوی کے ذریعہ متصل ہو نیز اسی کے مثل یا اس سے اقوی دوسرا طریق بھی موجود ہو‘‘۔ (نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر، ص۷۸، ط:مطبعۃ سفیر، الریاض)
محدث بریلوی علیہ الرحمۃ حدیث کے قابل احتجاج ہونے کے ضمن میں صحیح حدیث کی انہیں دو اقسام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر صحیح سے مقابلِ حسن مراد؛ تو ہر گز حجت اس میں منحصر نہیں، صحیح لذاتہ و صحیح لغیرہ و حسن لذاتہ و حسن لغیرہ سب حجت اور خود مثبت احکام ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج۲۹ص۱۹۰، گجرات)
تلقی بالقبول: ایسی حدیث جس کی سند ضعیف ہو، اگر علما اس کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ تو ان کا یہ عمل اس ضعیف حدیث کو تقویت بخشتا ہے اور یہ ضعیف حدیث علما کے عمل کرنے کی وجہ سے صحیح قرار پاکر قابل احتجاج ہوجاتی ہے۔
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام نواوی رحمہ اللہ کی صحیح حدیث کی تعریف پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا: حدیث حسن جب دوسرے طریق سے مروی ہو؛ تو وہ درجہ حسن سے صحت کی منزل تک پہونچ جائے گی حالاں کہ یہ صحیح حدیث امام نواوی رحمہ اللہ کی اس تعریف میں داخل نہیں اور اسی طرح وہ حدیث حسن جسے علما قبول کرلیں وہ بھی صحیح ہے مگر اس تعریف میں شامل نہیں، بعض علما نے فرمایا: جب علما کسی ایسی حدیث کو قبول کرلیں اگرچہ اس کی کوئی سند صحیح نہ ہو، اس حدیث پرصحت حکم لگایا جائے گا۔۔۔۔۔جواب: امام نواوی کی اس تعریف سے مراد حدیث صحیح لذاتہ کی تعریف مراد ہے، حدیث صحیح لغیرہ مراد نہیں اور اعتراض صحیح لغیرہ سے کیا گیا ہے؛ اس لیے قابل توجہ نہیں‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الأول، ج۱ص۶۵، ط: دار طیبۃ)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ اسی اہل علم کے عمل سے حدیث کو تقویت ملنے اور اس کے درجہ صحت تک پہونچنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اہل علم کے عمل کرلینے سے بھی حدیث قوت پاتی ہے، اگرچہ سند ضعیف ہو‘‘ پھر اپنے اس قول کو محدثین کے اقوال سے مزین کرتے ہیں، ان میں سے ایک دو ملاحظہ فرمائیں:
’’امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے، سید میرک رحمہ اللہ نے امام نواوی رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ اس کی سند ضعیف ہے؛ تو گویا امام ترمذی عمل اہل علم سے حدیث کو قوت دینا چاہتے ہیں، واللہ اعلم‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، محدث علی قاری رحمہ اللہ، باب ما علی المأموم من المتابعۃ للإمام، ج۴ص۲۵۴، رقم: ۱۱۴۲، ط: دار الفکر، بیروت)
خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’معتمد علما نے تصریح فرمائی ہے کہ اہل علم کا حدیث کو قبول کرنا  حدیث صحیح ہونے کی دلیل ہے اگرچہ اس حدیث کی کوئی قابل اعتماد سند نہ ہو‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات، محدث سیوطی رحمہ اللہ، فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۷۷، ط: ، گجرات)
اس کے بعد محدث بریلوی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
’’یہ ارشاد علما احادیث احکام کے بارے میں ہے پھر احادیث فضائل تو احادیث فضائل ہیں‘‘۔ (ایضا)
فلاں حدیث صحیح نہیں کا مطلب: اگر کسی ناقد نے یہ کہ دیا کہ فلاں حدیث صحیح نہیں؛ تو بہت سارے لوگ تعصب یا جہل کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں حدیث ضعیف یا موضوع ہے، اس بیماری کے وہابیہ زیادہ شکار ہیں، حالاں کہ یہ فیصلہ محدثین کی رائے کے بالکل خلاف ہے، خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جب کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں، اور امام نواوی رحمہ اللہ اگر غیر صحیح کے بجائے ضعیف کہتے؛ تو زیادہ مختصر ہوتا اور ان کا یہ قول حدیث حسن کو شامل ہونے سے محفوظ رہتا، بہر حال اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس کی سند شرط مذکور کے اعتبار سے صحیح نہیں، نہ یہ کہ وہ نفس الامر میں جھوٹ ہے؛ کیوں کہ جھوٹے کا سچ بولنا جائز اور جو کثرت سے خطا کرتا ہے اس کا صحیح روایت کرنا ممکن ہے‘‘۔ (تدریب الروی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الاول الصحیح، ج۱ص۷۶، ط: دار طیبۃ)
امام محقق محمد محمد محمد ابن امیر الحاج حلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ اس بات میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، حدیث حسن اور اس کے مثل حدیث کی نفی نہیں کرتا‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم بحوالہ حلیۃ شرح منیۃ، امام حلبی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۳۷، برکات رضا، گجرات)
سند الحفاظ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحت کی نفی سے حسن کا انتفا نہیں ہوتا‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم بحوالہ تخریج للامام ابن حجر علی أذکار النواوی، ج۵ص۴۳۸)
نیز امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں:
’’حدیث کے صحیح نہ ہونے سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا‘‘۔ (القول المسدد فی عن مسند احمد، الحدیث السابع، ص۳۷، مکتبۃ ابن تیمیۃ، قاہرہ)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اسی تعصب یا غلط فہمی اور جہل کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محدثین کرام کا کسی حدیث کو فرمانا کہ صحیح نہیں، اس کے یہ معنی نہیں کہ غلط و باطل ہے بلکہ صحیح ان کی اصطلاح میں ایک اعلی درجہ کی حدیث ہے جس کے شرائط سخت و دشوار اور موانع و علائق بسیار، حدیث میں ان سب کا اجتماع اور ان سب کا ارتفاع کم ہوتا ہے، پھر اس کمی کے ساتھ اس کے اثبات میں سخت دقتیں، اگر اس مبحث کی تفصیل کی جائے کلام طویل تحریر میں آئے، ان کے نزدیک جہاں ان باتوں میں کہیں بھی کمی ہوئی فرماتے ہیں:’یہ حدیث صحیح نہیں‘ یعنی اس درجہ علیا کو نہیں پہنچی، اس سے دوسرے درجہ کی حدیث کو حسن کہتے ہیں، یہ باآنکہ صحیح نہیں پھر بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ورنہ حسن ہی کیوں کہلاتی، فقط اتنا ہوتا ہے کہ اس کا پایہ بعض اوصاف میں اس بلند مرتبے سے جھکا ہوتا ہے، اس قسم کی بھی سیکڑوں حدیثیں صحیح مسلم وغیرہ کتب صحاح بلکہ عند التحقیق بعض صحیح بخاری میں بھی ہیں، یہ قسم بھی استناد و احتجاج کی پوری لیاقت رکھتی ہے، وہی علما جو اسے صحیح نہیں کہتے برابر اس پر اعتماد کرتے اور احکام حلال و حرام میں حجت بناتے ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۳۷)
مزید تفصیل کے لیے علوم حدیث کی دیگر کتابوں اور محدث بریلوی رحمہ اللہ کی کتاب: ’منیر العین فی تقبیل الإبھامین‘ و باسم دگر ’الھاد الکاف فی احکام الضعاف، کی طرف رجوع کریں۔
صحیح احادیث کاحصر:
بہت سارے لوگ تشدد بے جا یا جہل و لاعلمی کی وجہ سے صحیح احادیث صرف صحیح البخاری یا صحیح مسلم یا کتب ستہ ہی سے مطالبہ کرتے ہیں اور اگر انہیں ان کتب کے علاوہ سے صحیح حدیث پیش کی جائے؛ تو اسے یہ کہ کر رد کردیتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح البخاری یا صحیح مسلم یا کتب ستہ میں نہیں ہے، گویا کہ صحیح احادیث ان میں سے بعض یا انہیں کتابوں میں محصور ہیں، حالاں کہ ان کا یہ طریقہ محدثین کرام کے خلاف اور تشدد و تعنت سے ناشی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیا اور نہ ہی آپ حضرات نے صحیح احادیث کے احاطہ کرنے کا التزام کیا، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ’الجامع‘ میں صحیح حدیث کے علاوہ کوئی دوسری حدیث شامل نہیں کی اور طوالت کے خوف سے دوسری صحیح احادیث چھوڑ دی‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الاول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، ط: دار زاہد القدسی)
نیز امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں‘‘۔
 (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الاول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص ۳۹۲، ط: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر)
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ حدیث جو صحیح ہے، اسے میں نے یہاں اس کتاب میں ذکر نہیں کیا بلکہ میں نے یہاں اسی صحیح حدیث کو ذکر کیا ہے جومجمع علیہ شرائط صحیح کی جامع ہے‘‘۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ، ج۱ص۳۰۴، رقم:۴۰۴،ط: دار إحیاء التراث العربی، مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الاول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، ط: دار زاہد القدسی، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۲)
امام ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں انہی احادیث کو رکھا ہے جن میں ان کے نزدیک صحیح مجمع علیہ کی شرائط پائی گئی اگر چہ ان میں سے بعض احادیث میں بعض کے نزدیک وہ شرائط نہیں پائی گئیں‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح، النوع الاول معرفۃ الصحیح، ص۱۰، حاشیۃ الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص۳۹۳)
امام مسلم رحمہ اللہ ہی سے مروی ہے کہ جب ایک کتاب میں صحیح احادیث جمع کرنے کی وجہ سے ان پر عتاب کرتے ہوئے کہا گیا: آپ کا یہ عمل اہل بدعت کے لیے ہم اہل سنت و جماعت کے خلاف راستہ ہموار کردے گا اور جب ان کے خلاف کسی حدیث کے ذریعہ استدلال کیا جاے گا؛ تو وہ کہیں گے: یہ حدیث صحیح میں نہیں ہے؛ تو امام مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں نے یہ کہا ہے کہ اس کی احادیث صحاح ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ اس کتاب میں جس حدیث کی میں نے تخریج نہیں کی وہ ضعیف ہے‘‘۔ (توجیہ النظر إلی اصول الاثر، طاہر بن صالح دمشقی، ج۱ص۲۲۶، ط: مکتبۃ المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، الحدیث و المحدثون، محمد محمد ابوزہو، ص ۳۹۲-۳۹۳)
امام عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ سنن اربعہ اور دیگر کتب احادیث کے متعلق تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’دوسرے سوال کے جواب میں جو باتیں میں نے لکھی ہیں شاید اس کے ذریعہ غور و خوص کرنے والا یہ سمجھ جائے کہ بعض عوام کے ذہن جو یہ بات ذہن نشیں ہو چکی ہے کہ کتب سنن کی ہر حدیث قابل احتجاج ہے، یہ قابل اعتبار نہیں اور اسی طرح بعض کے ذہن میں جو یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ کتب ستہ یا کتب سبعہ کے علاوہ میں جو موجود ہے، وہ حدیث ضعیف ہے، یہ بات بھی قابل توجہ اور قابل احتجاج نہیں‘‘۔ (الاجوبۃ الفاضلۃ للاسئلۃالعشرۃ الکاملۃ، عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ، ص۱۱۷، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، بیروت)
 مزید تفصیل کے لیے راقم الحروف کا مقالہ: احادیث صحیحہ صحیح البخاری یا صحیحین یا کتب ستہ میں محدود د! قائلین کا منصفانہ جائزہ، مطالعہ کریں۔
ہمارے ممدوح محدث بریلوی رحمہ اللہ محدثین کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اسی تشدد و تعنت اور جہل کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور استناد کا روایات صحیحہ مرفوعہ متصلۃ الاسناد میں حصر اور صحاح کا صرف کتب ستہ پر قصر جیسا کہ ’صاحب مأۃ مسائل‘ سے یہاں واقع ہوا، جہل شدید و سفہ بعید ہے، حدیث حسن بھی بالاجماع حجت ہے، غیر عقائد و احکام حلال و حرام میں حدیث ضعیف بھی بالاجماع حجت ہے، ہمارے ائمہ کرام حنفیہ و جمہور ائمہ کے نزدیک حدیث مرسل غیر متصل الاسناد بھی حجت ہے، ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک حدیث موقوف غیر مرفوع قول صحابی بھی حجت ہے کہ یہ سب مسائل ادنی طلبہ علم پر بھی روشن ہیں اور حدیث صحیح کا ان چھ کتابوں میں محصور نہ ہونا بھی علم حدیث کے ابجد خوانوں پر بین و مبرہن و لکن الوہابیۃ قوم یجہلون‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۶۵۱، ط: گجرات)
نیز اسی جہل اور ہٹ دھرمی سے پردہ چاک کرتے ہوئے  حصر احادیث  کے متعلق محدث بریلوی رحمہ اللہ مزید گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رابعا ان حضرات کا داب کلی ہے کہ جس امر پر اپنی قاصر نظر ناقص تلاش میں حدیث نہیں پاتے اس پر بے اصل و بے ثبوت ہونے کا حکم لگادیتے اور اس کے ساتھ ہی صرف اس بنا پر اسے ممنوع و ناجائز ٹھہراتے ہیں۔۔۔صاحبو! لاکھوں حدیثیں اپنے سینوں میں لے گئے کہ اصلا تدوین میں بھی نہ آئیں، امام بخاری کو چھ لاکھ حدیثیں حفظ تھیں، امام مسلم کو تین لاکھ، پھر صحیحین میں صرف سات ہزار حدیثیں ہیں، امام احمد کو دس لاکھ محفوظ تھیں، مسند میں فقط تیس ہزار، خود شیخین وغیرہما ائمہ سے منقول کہ ہم سب احادیث کا استیعاب نہیں چاہتے، اور اگر ادعاے استیعاب فرض کیجئے؛ تو لازم آئے کہ افراد بخاری، امام مسلم اور افراد مسلم، امام بخاری اور صحاح افراد سنن اربعہ، دونوں اماموں کے نزدیک صحیح نہ ہوں، اور اگر اس ادعا کو آگے بڑھائیے؛ تو یوں ہی صحیحین کی وہ متفق علیہ حدیثیں جنہیں امام نسائی نے مجتبی میں داخل نہ کیا، ان کے نزدیک حلیہ صحت سے عاری ہوں وہو کما تری‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۰۲ص۲۹۴)
صحیح احادیث کے حصر کا مفسدہ کتنا زیادہ خطرناک ہے خود امام محدث بریلوی رحمہ اللہ کے اس علمی تبصرہ سے بخوبی واضح و ظاہر ہے مگر بے جا تشدد تعنت کا انجام چوں کہ قعر مذلت ہی میں گرنا ہے؛ اسی لیے وہابیہ اور ان کے ہم نوا بولتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔
حدیث معلق:
حدیث معلق وہ ہے جس کی سند کے شروع سے ایک یا ایک سے زائد راوی صیغہ جزم کے ذریعہ ایک ساتھ حذف کردئے گیے ہوں (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۵۰، ط: دار طیبۃ)
شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کا صیغہ جزم  کے ساتھ حدیث روایت کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اور امام بخاری رحمہ اللہ صیغہ جزم جیسے قال فلان کو ان بعض احادیث میں بھی استعمال کرتے ہیں جن کو آپ نے اپنے شیوخ سے نہیں سنا پھر ان شیوخ اور اپنے درمیان دوسری جگہ واسطہ کے ذریعہ حدیث ذکر کرتے ہیں، جیسا کہ ’التاریخ‘ میں آپ نے فرمایا: قال إبراہیم بن موسی: حدثنا ہشام بن یوسف، اس کے بعد حدیث ذکر کیا، پھر فرماتے ہیں، حدثونی بہذا عن إبراہیم، لیکن یہ بات آپ کی ہر صیغہ جزم کے ساتھ ذکر کی گئی حدیث کے بارے میں نہیں کہ سکتے، لیکن جب تک یہ احتمال باقی ہے اس وقت تک اس صیغہ سے ذکر کی گئی حدیث کو ان کے اپنے شیوخ سے سماع پر محمول کرنا درست نہیں۔
اس بیان سے امام عراقی رحمہ اللہ کی جانب امام ابن صلاح رحمہ اللہ کی پیش کردہ مثال پر کیا ہوا اعتراض بھی دفع ہوگیا، مثال یہ ہے: قال: عفان و قال: القعنبی، یہ دونوں امام بخاری کے شیوخ سے ہیں، اگرچہ ان سے امام کی روایت سماع میں صراحت والے صیغہ سے نہیں وہ اتصال پر محمول ہے۔۔۔ پھر اس تقسیم میں ہمارا یہ کہنا کہ صیغہ جزم کی حدیثِ معلق امام بخاری کی شرط کے ساتھ ملحق ہوگی اور یہ نہیں کہا کہ امام کی شرط پر ہے؛ کیوں کہ یہ حدیث اگرچہ صحیح ہے مگر صحیح مسند کی قسم سے نہیں‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱۲۵)
امام عراقی رحمہ اللہ کا اعتراض اس لیے دفع ہوگیا؛ کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی حدیث معلق ان کے شیوخ کے ذریعہ متصل تو ہوتی ہے مگر احتمال کی وجہ سے بعض احادیث کے متعلق اپنے شیوخ سے سماع مشکوک ہوتا ہے۔
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ عدوی کے ثبوت اور عدم ثبوت پر گفتگو کرتے ہوئے  امام بخاری رحمہ اللہ کی اسی طرح کی حدیث معلق کے  بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’رہیں قسم اول کی حدیثیں، وہ اس درجہ عالیہ صحت پر نہیں جس پر احادیث نفی ہیں۔۔۔صرف حدیث اول کی تصحیح ہوسکتی ہے مگر وہی حدیث اس سے اعلی درجہ پر جو صحیح بخاری میں آئی خود اسی میں ابطال عدوی موجود۔۔۔مع ہذا صحت میں اس کا پایہ بھی دیگر احادیث نفی سے گرا ہوا ہے کہ اسے امام بخاری نے مسندا روایت نہیں کیا بلکہ بطور تعلیق۔چنانچہ امام بخاری نے فرمایا: عفان نے کہا، یہ عفان اگرچہ شیوخ بخاری میں سے ہیں، تاہم ان سے بسا اوقات بالواسطہ روایت کرتے ہیں جیسا کہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے اور امام بخاری کا حدثنا چھوڑکر لفظ قال اختیار کرنا بغیر کسی وجہ کے نہیں ہوسکتا، اگرچہ علامہ ابن صلاح کے طریقہ پر یہ صورت وصل ہے تاہم مختلف فیہ، متفق علیہ کی طرح نہیں، محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر کے باب العنین میں اس پر یقین اور وثوق کیا کہ امام بخاری نے اسے معلق روایت کیا ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۴۲ص۲۳۷، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
النوع الثانی، حدیث حسن:
حدیث حسن کی دو اقسام ہیں: حسن لذاتہ، حسن لغیرہ، ان دونوں اقساکی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
حدیث حسن لذاتہ:’’وہ حدیث جس کی سند شذوذ و علت کے بغیر عدول اور خفیف ضبط راوی کے ذریعہ متصل ہو‘‘۔
حدیث حسن لغیرہ: ’’وہ حدیث ہے جس کا حسن اعتضاد کے سبب ہو، جیسے مستور راوی کی حدیث جو متعدد طرق سے مروی ہو‘‘۔ (نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر، محدث ابن حجر رحمہ اللہ، ص۷۸، ط:مطبعۃ سفیر، الریاض)
نیز فرماتے ہیں: ’’اور حسن کی یہ دونوں اقسام میدان احتجاج میں صحیح حدیث کے ساتھ شریک ہیں‘‘۔ (ایضا)
جب کچھ ناعاقبت اندیشوں نے صرف صحیح حدیث کو قابل احتجاج قرار دینے کی کوشش کی؛ تو امام محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے حدیث حسن کو میدان احتجاج میں صحیح کے مشارک ہونے کی بات پیش کرتے ہوئے، اس حدیث کی انہیں دو اقسام کی طرف بھی اشارہ کیا اور فرمایا:
’’اگر صحیح سے مقابلِ حسن مراد؛ تو ہر گز حجت اس میں منحصر نہیں، صحیح لذاتہ و صحیح لغیرہ و حسن لذاتہ و حسن لغیرہ سب حجت اور خود مثبت احکام ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۹ص۱۹۰، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
حدیث حسن کی تقسیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
’’دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ ان کے لیے اگرچہ اتنی قوت درکار نہیں پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہیے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۷۸)
نیز حدیث حسن کے قابل احتجاج ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’حدیث حسن بھی بالاجماع حجت ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۶۵۱)
مزید بطور احتجاج حدیث حسن ذکر کرنے کے بعد صاحب ’الحلیۃ‘ کی عبارت نقل فرماتے ہیں، جس سے وضاحت ملتی ہے کہ صحیح حدیث کی طرح حدیث حسن بھی قابل احتجاج ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’امام ترمذی نے فرمایا: اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی چیز سند صحیح سے ثابت نہیں، ان کا یہ قول حدیث حسن اور اس کے مثل کے وجود کی نفی نہیں کرتا، اور مطلوب کا ثبوت صرف صحیح حدیث پر موقوف نہیں بلکہ اس سے ثابت ہونے کی طرح  حدیث حسن سے بھی ثابت ہوتا ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۴۰)
تعدد طرق سے حدیث حسن:
 کبھی حدیث راوی کے حافظہ میں ضعف یا سند میں انقطاع وغیرہ ہونے کی وجہ ضعیف قرار دی جاتی ہے، مگر جب اسی کے مثل یا اس سے اقوی کوئی دوسری سند آجاتی ہے جو پہلی والی سند کی تائید کرتی ہے؛ تو وہ ضعیف حدیث حسن ہوجاتی ہے، خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب حدیث متعدد ضعیف اسانید سے مروی ہو؛ تو اس کے مجموع سے حدیث کا حسن ہونا لازم نہیں بلکہ جس حدیث کا ضعف راوی صدوق امین کے ضعفِ حافظہ کی وجہ سے ہو؛ تو یہ ضعف اس حدیث کے دوسری سند سے آنے کی وجہ سے ختم ہوجائے گا اور ہمیں اس سے معلوم ہوجاے گا کہ انہوں نے حدیث کو محفوظ رکھا اور اس حدیث کے یاد رکھنے میں ان کا ضعف مخل نہیں رہا اور اس دوسری سند کی وجہ سے حدیث حسن ہوگئی۔۔۔اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کہ حدیث کا ضعف ارسال یا تدلیس یا جہالت کی وجہ سے ہویعنی اس صورت میں بھی دوسری سند کی وجہ سے یہ ضعف زائل ہوجائے گا اور اس کا درجہ حسن لذاتہ سے کم ہوگا۔۔۔اور وہ ضعف جو فسق راوی یا اس کے کذب کی وجہ سے ہو؛ تو غیر کی موافقت اس میں اثر انداز نہیں ہوگی جب کہ یہ دوسری بھی اس کے مثل ہو؛ کیوں یہ دوسری خود قوت ضعف میں زیادہ ہے اور اس میں جابر بننے کی صلاحیت نہیں، البتہ اس حدیث کے مجموع طرق سے اتنا ہوگا کہ حدیث منکر اور لااصل سے بلند مرتبہ والی ہوجائے گی، شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے، آپ فرماتے ہیں: بلکہ کبھی کثرت طرق راوی کو درجہ مستور اور سیی حفظ تک پہونچادے گی یہاں تک کہ اگر اس کے لیے کوئی دوسرا ایسا طریق پایا گیا جو ضعیف تو ہے مگر نقصان کی تلافی کے قابل ہے؛ تو حدیث مجموع طرق سے درجہ حسن کو پہنچ جاے گی‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۹۲-۹۴، ط: درا طیبۃ)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث معلق اور تین مسند ضعیف احادیث ذکر کرنے کے بعد  تعدد طرق سے حدیث ضعیف کے انجبار اور ضعف کے دور ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ چاروں حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں مگر تعدد طرق سے اس کا انجبار ہوتا ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۴۰، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
نیز اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدیث اگر متعدد طریقوں سے روایت کی جائے اور وہ سب ضعف رکھتے ہوں؛ تو ضعیف ضعیف مل کر بھی قوت حاصل کرلیتے ہیں بلکہ اگر ضعف غایت شدت و قوت پر نہ ہو توجبر نقصان ہوکر حدیث درجہ حسن تک پہنچتی اور مثل صحیح خود احکام حلال میں حجت ہوتی ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۷۲)
اس کے بعد محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنے اس قول کی تائید محدثین کرام کے اقوال سے پیش کرتے ہیں، ایک دو آپ بھی ملاحظہ فرمائیں، محدث علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’متعدد طرق و اسانید، حدیث ضعیف کو ضعیف سے نکال کر درجہ حسن تک پہنچادیتا ہے‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، محدث علی قاری رحمہ اللہ، باب مالایجوز من العمل فی الصلوۃ، ج۲ ص۷۹۵، رقم:۱۰۰۸، ط: دار الفکر، بیروت)
امام ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حسن حدیث کے لیے یہ جائز ہے کہ کثرت طرق کی وجہ سے صحت تک پہونچ جائے اور حدیث ضعیف تعدد طرق  کے سبب قابل حجت ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ تعدد اسانید ثبوت واقعی پر قرینہ ہے‘‘۔ (فتح القدیر، امام ابن ہمام رحمہ اللہ، باب النوافل، ج۱ ص۴۴۶، ط: دار الفکر، بیروت)
بلکہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’متروک یا منکر جب ان کے طرق متعدد ہوں؛ تو یہ بھی ضعیف قریب بلکہ کبھی درجہ حسن تک پہونچ جاتی ہیں‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ص۲۹۹، ط:دار الجنان)
النوع الثالث، حدیث ضعیف:
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ نے حدیث کی متعدد اقسام پر فنی گفتگو کی ہے مگر ان اقسام میں سے ایک قسم حدیث ضعیف کے متعلق آپ نے جس قدر تفصیل سے گفتگو کی ہے اتنی تفصیل سے آپ کی گفتگو کسی دوسری قسم پر نہیں ملتی، یہ علمی و فنی گفتگو فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ ص۰۳۴ سے ج۵ص۸۲۶ صفحات پر تیس افادات (۳۰) اور بارہ فوائد (۱۲) کے تحت پھیلی ہوئی ہے، میں یہاں اس باب میں صرف حدیث ضعیف پر عمل کے متعلق اپنے ممدوح  کی راے  پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
حدیث ضعیف کی تعریف:
حدیث ضعیف وہ ہے جو حدیث حسن کی صفات کی جامع نہ ہو (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۱۹۵، ط: دار طیبۃ)
حدیث ضعیف پر عمل کے متعلق خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اہل حدیث وغیرہ کے نزدیک اسانید ضعیفہ میں تساہل، موضوع کے علاوہ ضعیف حدیث کا روایت کرنا اور اللہ تعالی کی صفات اور احکام جیسے حلال و حرام وغیرہ کے علاوہ میں حدیث ضعیف کے ضعف کو بیان کیے بغیر اس پر عمل کرنا جائز ہے، جیسے قصص، فضائل اعمال اور مواعظ وغیرہ جن کا عقائد و احکام سے تعلق نہیں‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، ، ج۱ص۳۵۰)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ ابواب فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:
’’تیسرا مرتبہ فضائل و مناقب کا ہے، یہاں بالاتفاق ضعیف حدیث بھی کافی ہے، مثلا کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گا اتنا ثواب پائے گا یا کسی نبی یا صحابی کی خوبی بیان ہوئی کہ انہیں اللہ عز و جل نے یہ مرتبہ بخشا، یہ فضل عطا کیا؛ تو ان کے مان لینے کو ضعیف حدیث بھی بہت ہے، ایسی جگہ صحت حدیث میں کلام کرکے اسے پایہ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشی۔۔۔حسن بھی نہ سہی، یہاں ضعیف مستحکم ہے۔۔۔ عبارت ’تعقبات‘ میں تصریح تھی کہ نہ صرف ضعیف محض بلکہ منکر بھی فضائل اعمال میں مقبول ہے، با آں کہ اس میں ضعف راوی کے ساتھ اپنے سے اوثق کی مخالفت بھی ہوتی ہے کہ تنہا ضعف سے کہیں بدتر ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص ۴۷۸، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
اپنی رائے پیش کرنے کے بعد ہمارے ممدوح امام محدث بریلوی رحمہ اللہ اہل فن و شان کی آرا سے اپنی رائے کی توثیق کرتے ہیں، بعض آرا پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
شیخ العلما سیدی ابوطالب محمد بن علی مکی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں:
’’فضائل اعمال اور تفضیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی احادیث کیسی ہی ہوں، ہر حال میں مقبول و ماخوذ ہیں، مقطوع ہوں خواہ مرسل، نہ ان کی مخالفت کی جائے نہ انہیں رد کیا جائے، ائمہ سلف کا یہی طریقہ تھا‘‘۔ (قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب، ، ج۱ص۱۷۸، ط: دار صادر، مصر، فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۷۹)
امام ابوزکریا نواوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کے جواز پر علماے کرام کا اتفاق ہے‘‘۔ (الأربعون النوویۃ، ص۴۳، ط: دار المنہاج، بیروت، فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۷۹)
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب حدیث فضائل اعمال سے متعلق ہو؛ تو علما اس میں تساہل فرماتے ہیں‘‘۔ (المقاصد الحسنۃ، محدث سخاوی رحمہ اللہ، ص۶۳۵، رقم:۱۰۹۱، ط: دار الکتاب العربی، بیروت)
زیر بحث موضوع کے متعلق امام ابن صلاح، امام علی قاری رحمہما اللہ وغیرہ کے اقوال ذکر کرنے کے بعد امام محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بلکہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کے معنی ہی یہ ہیں کہ استحباب مانا جائے ورنہ نفس جواز؛ تو اصالت اباحت و انعدام نہی شرعی سے آپ ہی ثابت، اس میں حدیث ضعیف کا کیا دخل ہوا؛ تو لاجرم ورود حدیث کے سبب جانب فعل کو مترجح مانیے کہ حدیث کی طرف اسناد متحقق اور اس پر عمل ہونا صادق ہو اور یہی معنی استحباب ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۸۳، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
اور صرف فضائل اعمال ہی میں ضعیف حدیث مقبول نہیں بلکہ اگر احکام میں بھی وارد ہو اور مقام مقامِ احتیاط ہو؛ تو ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا، امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل کیا جائے گا جب کہ اس حدیث ضعیف پر عمل کرنے میں احتیاط ہو‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الثانی و العشرون، ج۱ص۳۵۱، ط: دار طیبۃ)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ محدثین کرام کے شانہ بشانہ اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ظاہر ہے کہ حدیث ضعیف اگر مورث ظن نہ ہو، مورث شبہ سے تو کم نہیں؛ تو محل احتیاط میں اس کا قبول عین مراد شارع صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۹۵، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
اپنی اس بات کو قرآن پاک اور حدیث نبوی سے مضبوط کرنے کے بعد امام محدث بریلوی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’لاجرم علماے کرام نے تصریحیں فرمائیں کہ دربارہ احکام بھی ضعیف حدیث مقبول ہوگی جب کہ جانب احتیاط ہو‘‘۔(فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۹۶)
پھر آپ اپنی اس فکر سدید کی تائید مختلف محدثین کرام کے اقوال سے فرماتے ہیں، ان میں سے صرف ایک قول آپ بھی ملاحظہ فرمالیں، امام نواوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’محدثین، فقہا وغیرہ علما فرماتے ہیں:۔۔۔اور رہی بات احکام کی، جیسے حلال، حرام، بیع، نکاح، طلاق وغیرہ؛ تو اس میں صرف حدیث صحیح یا حسن ہی پر عمل کیا جائے گا مگر یہ کہ حدیث ضعیف ان مواقع میں کسی احتیاطی بات میں وارد ہو، جیسے کسی بیع یا نکاح کی کراہت میں حدیث ضعیف آئے؛ تو مستحب ہے کہ اس سے بچیں مگر بچنا واجب نہیں‘‘۔ (الأذکار، محدث نواوی رحمہ اللہ، ص۸، ط: دار الفکر، بیروت)
النوع السادس، حدیث مرفوع:
تعریف: حدیث مرفوع وہ ہے جس کی اضافت خاص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر کی طرف کی گئی ہو، خواہ وہ متصل ہو یا کسی صحابی یا ان کے علاوہ کسی راوی کے ساقط ہونے کی وجہ سے منقطع ہو۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع السادس، ج۱ص۲۰۲، ط: دار طیبۃ)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث مرفوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الحمد للہ تین چہل حدیث کا عدد تو کامل ہوا جن میں چوراسی حدیثیں مرفوع اور سترہ تذییلات علاوہ، پہلے گزری تھیں اس تکمیل میں پڑھیں، ان سترہ میں بھی پانچ مرفوع تھیں؛ تو جملہ مرفوعات یعنی وہ حدیث جو خود حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی حضور کے ارشاد و تقریر کی طرف منتہی ہیں، نواسی ہوئیں؛ لہذا چاہا کہ ایک حدیث مرفوع اور شامل ہو کہ نوے احادیث مرفوعہ کا عدد ہو‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱۵ص۷۰۹، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
نیز امام محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث مرفوع کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اور جو بات قیاس سے نہ کہی جاسکے اسے حکما حضور کا فرمان قرار دیا جاتا ہے بشرط کہ اس کے راوی اسرائیلیات سے لے کر روایت نہ کرتے ہوں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم،ج۱ص۲۳۸)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’مع ہذا امور قبور و احوال ارواح مفارقہ میں رائے کو دخل نہیں؛ تو یہاں موقوف بھی مرفوع میں داخل‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۷۴۲)
النوع السابع، موقوف:
تعریف: صحابہ کرام کے قول یا فعل یا تقریر کو جس کی سند متصل ہو یا غیر متصل حدیث موقوف کہا جاتا ہے، لفظ موقوف کا استعمال صحابہ کرام کے علاوہ تابعین کے لیے بھی  کیا جاتا ہے مگر مقید ہوتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے: وقفہ فلان علی الزہری۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع السابع، ج۱ص۲۰۲، ط: دار طیبۃ)
اسی حدیث موقوف کی اصطلاح امام محدث بریلوی رحمہ اللہ نے اپنی اس عبارت میں بھی استعمال کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’امام اجل عبد اللہ بن مبارک و ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری و مسلم حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے موقوفا۔۔۔ راوی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۶۵۱، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
نیز امام محدث بریلوی رحمہ اللہ ارشادات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک حدیث موقوف غیر مرفوع قول صحابی بھی حجت ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۶۵۱)
النوع التاسع، حدیث مرسل:
مرسل کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں، یہاں پر تدریب الراوی میں موجود پہلی تعریف اور اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی پیش کردہ ایک دوسری تعریف ملاحظہ فرمائیں:
تعریف: مختلف جماعت کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ تابعی کبیر جیسے عبید اللہ بن عدی بن خیار وغیرہ کے قول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کذا أو فعلہ کذا کو مرسل کہا جاتا ہے (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، ، ج۱ص۲۱۹، ط: دار طیبۃ)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث مرسل کی تعریف  کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’امام ابن الصلاح کتاب معرفۃ أنواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں: فقہا وغیرہ مصنفین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا یا اس کے مثل کوئی کلمہ، یہ سب معضل کے قبیل سے ہے، حافظ ابوبکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس کا نام مرسل رکھا ہے اور یہ اس کے مذہب کے مطابق ہے جو ہر غیر متصل کا نام مرسل رکھتے ہیں‘‘۔ (مقدمۃ ابن الصلاح فی علوم الحدیث، النوع الحادی عشر، ص۶۰، ط: دار الفکر، بیروت)
مسلم الثبوت میں ہے: ’’حدیث مرسل عادل کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا‘‘۔ (مسلم الثبوت، مسئلۃ تعریف المرسل، ص۲۰۱، ط: مطبع انصاری، دہلی)
حدیث مرسل کا حکم: اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کے نزدیک حدیث مرسل کا حکم ’فوات الرحموت‘ کی روشنی ملاحظہ فرمائیں:
’’مرسل اگر صحابی سے ہو؛ تو مطلقا مقبول ہے اور اگر غیر صحابی سے ہو؛ تو اکثر ائمہ بشمول امام اعظم، امام مالک اور امام احمد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ راوی ثقہ ہو؛ تو مطلقا مقبول ہے۔۔۔الخ‘‘۔ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، مسئلۃ فی الکلام علی المرسل، ج۲ص۱۷۴، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۳۰ص۶۵۴،، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث مرسل کی حجیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث زیادہ سے زیادہ مرسل ثابت ہوگی؛ تو کیا ہوا؟! حدیث مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک مقبول ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱ص۴۱۱)
نیز اسی حدیث کی حجیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۲۹۲)
البتہ جماہیر محدثین، امام شافعی اور بہت سارے فقہا و اصولیین کے نزدیک قابل احتجاج نہیں، خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدیث مرسل حدیث ضعیف ہے، جمہور محدثین، امام شافعی اور بہت سارے فقہا و اصحاب اصول کے نزدیک قابل اجتجاج نہیں‘‘۔(تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۲۳، ط: دار طیبۃ)
النوع العاشر، منقطع:
تعریف: حدیث منقطع وہ ہے جس کی اسناد متصل نہ ہو،  انقطاع خواہ صحابی یا اس کے علاوہ کے ساقط ہونے کی وجہ سے ہو، لیکن اکثر اس کا استعمال تابعی کے بعد والے کا صحابی سے روایت کرنے پر ہوتا ہے، جیسے امام مالک رحمہ اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کریں۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع العاشر، ج۱ص۲۳۵)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اسی حدیث منقطع کی تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دوسری حدیث کہ خود نفس اسناد میں امام ابوداود نے اس کی سند میں ارسال یا انقطاع کا پتا بتادیا تھا، تابعی تک رکھتے ہیں؛ تو مرسل ہوتی ہے، صحابی تک رکھتے ہیں؛ تو منقطع ہوئی جاتی ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۲ص۶۱۲، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
حدیث منقطع کی حجیت: حدیث منقطع کی حجیت اور اس کے موضوع نہ ہونے کے بارے میں اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح سند منقطع ہونا مستلزم وضع نہیں، ہمارے ائمہ کرام اور جمہور علما کے نزدیک؛ تو انقطاع سے صحت و حجیت ہی میں کچھ خلل نہیں آتا‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۴۸)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنے اس قول کے ذکر کرنے کے بعد اس کی تائید فقہاے کرام اور محدثین عظام کے اقوال سے کرتے ہیں، ان میں سے بعض آپ بھی ملاحظہ فرمائیں، امام محقق کمال ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسے انقطاع کی بنا پر ضعف قرار دیا ہے جو کہ نقصان دہ نہیں؛ کیوں کہ راویوں کے عادل و ثقہ ہونے کے بعد منقطع ہمارے نزدیک مرسل کی طرح ہی ہے‘‘۔ (فتح القدیر، کتاب الطہارات، ج۱ص۲۲، ط:دار الفکر، بیروت)
امام علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابوداود فرماتے ہیں: یہ مرسل یعنی مرسل کی قسم منقطع ہے لیکن مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، محدث علی قاری رحمہ اللہ، باب مایوجب الوضوء، ج۱ص۳۶۸، ط: دار الفکر، بیروت)
اس کے بعد اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور جو اسے قادح مانتے ہیں وہ بھی صرف مورث ضعف مانتے ہیں نہ کہ مستلزم موضوعیت‘‘۔(فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۴۹، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
پھر اپنے اس قول کی تائید امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ کے اس قول سے کرتے  ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’یعنی یہ امر یہاں کچھ استدلال کو مضر نہیں کہ منقطع پر فضائل میں تو بالاجماع عمل کیا جاتا ہے‘‘۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، محدث علی قاری رحمہ اللہ، باب الرکوع، ج۲ص۷۱۵، دار الفکر، بیروت)
النوع الحادی عشر، معضل:
اگر کسی حدیث کی سند سے دو یا دو سے زائد بلکہ سب راوی محذوف ہوں؛ تو محدثین کے نزدیک اسے معضل کہا جاتا ہے، اگر قابل اعتماد ائمہ دو یا دو سے زائد راوی بلکہ پوری سند کو حذف کرکے روایت کریں؛ تو ائمہ محدثین کے نزدیک وہ فضائل کے باب میں معتبر ہے بلکہ فقہاے کرام کے نزدیک احکام میں بھی قابل قبول ہے، حدیث معضل کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
حدیث معضل کی تعریف: ’’وہ حدیث ہے جس کی سند سے دو یا دو سے زائد راوی ایک ساتھ ساقط ہوں‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الحادی عشر، ج۱ص۲۴۱، ط: دار طیبۃ)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اذہان اکثر قاصرین زمان میں سند کی فضیلتیں اور کلام اثریین میں اتصال کی ضرورتیں دیکھ دیکھ کر مرتکز ہورہا ہے کہ احادیث بے سند اگرچہ کلمات ائمہ معتمدین میں بصیغہ جزم مذکور ہوں مطلقا باطل و مردود و عاطل کہ احکام، مغازی، سیر، فضائل کسی باب میں اصلا نہ سننے کے لائق نہ ماننے کے قابل، حالاں کہ یہ محض اختراع، بین الاندفاع، مشاہیر محدثین و جماہیر فقہا دونوں فریق کے مخالف اجماع ہے، غیر صحابی جو قول یا فعل یا حال حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے سند متصل نسبت کرے محدثین کے نزدیک باختلاف حالات و اصطلاحات مرسل، منقطع، معلق، معضل ہے اور فقہا و اصولیین کی اصطلاح میں سب کا نام مرسل، اصطلاح حدیث پر تعلیق و اعضال یا اصطلاح فقہ و اصول پر ارسال میں کچھ بعض سند کا ذکر ہرگز ضروری نہیں بلکہ تمام وسائط حذف کرکے علماے مصنفین جو قال یا فعَل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و امثال ذلک کہتے ہیں یہ بھی معضل و مرسل ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۶۲۱، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ اس قول فیصل کو بیان کرنے کے بعد علماے محدثین و فقہا سے اپنی فکر سدید کی تائید پیش کرتے ہیں، ان میں سے دو چار اقوال آپ بھی ملاحظہ فرمائیں، امام اجل ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’معضل حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند سے دو یا دو سے زائد راوی ساقط ہوں۔۔۔ مثلا وہ جسے تبع تابعی یہ کہتے ہوئے روایت کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اور اسی طرح وہ روایت جسے تبع تابعی کے بعد کا کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا ابوبکر و عمر یا دیگر کسی صحابی سے حضور اور صحابہ کے درمیان واسطہ ذکر کیے بغیر روایت کرے، حافظ ابومکبر نصر سجزی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ راوی کا قول: بلغنی مثلا امام مالک کا قول کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت پہونچی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مملوک کے لیے کھانا اور کپڑے۔۔۔الحدیث، اور آپ نے فرمایا کہ محدثین ایسی روایت کو معضل کہتے ہیں، میں کہتا ہوں: فقہا اور دیگر مصنفین کا قول کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس اس طرح فرمایا، یہ تمام از قبیل معضل ہی ہے، جیسا کہ اس کا ذکر پہلے گزرچکا، اور حافظ ابوبکر خطیب بغدادی نے بعض مقامات پر اسے مرسل کا نام دیا ہے اور یہ ان لوگوں کے مذہب کے مطابق ہے جنہوں نے ہر اس روایت کو مرسل کہا جو متصل نہ ہو جیسا کہ گزرا‘‘۔ (معرفۃ انواع علوم الحدیث، محدث ابن صلاح رحمہ اللہ، النوع الحادی عشر، ص۶۱، ط: دار الفکر، بیروت)
توضیح التلویح میں ہے: ’’ارسال وہ ہے جس میں سند کا ذکر نہ ہو، وہ یوں کہ کوئی راوی بغیر سند ذکر کیے کہ دے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمایا‘‘۔ (توضیح التلویح، فصل فی الانقطاع، ص۴۷۴، ط: نورانی کتب خانہ، پشاور، فتاوی رضویہ، محدث بریلوی رحمہ  اللہ، ج۵ص۶۲۲)
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ اس کے متعلق دوسرے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’پھر باجماع علما و محدثین و فقہا یہ سب انواع نوع موضوع سے بے گانہ ہیں اور مادون الاحکام مثل فضائل اعمال و مناقب رجال و سیر و احوال میں سلفا و خلفا ماخوذ و مقبول، جملہ مصنفین علوم حدیث موضوع کو شر الانواع بتاتے اور انہیں اس سے جدا شمار فرماتے آئے اور تمام مؤلفین سیر بلانکیر منکر، مراسیل، و معضلات کا ذکر و اثبات کرتے رہے، افادہ ۲۳ میں علامہ حلبی کا ارشاد گزرا کہ سیر بلاغ و مرسل و منقطع و معضل غرض ماسواے موضوع ہر قسم حدیث کو جمع کرتی ہے کہ ائمہ کرام نے ماوراے احکام میں مساہلت فرمائیں ہے، یہ عبارت دونوں مطلب میں نص ہے، معضل کا موضوع نہ ہونا اور اس کا مادون الاحکام میں مقبول ہونا، خود صحیح بخاری و صحیح مسلم و صحیح مؤطا میں معضلات و بلاغات موجود ہیں، وسط میں بقلت، طرفین میں بکثرت، خصوصا بعض بلاغات مالک وہ ہیں کہ ان کی اسناد اصلا نہ ملی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۶۲۳، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
پھر امام محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لیے متعدد محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیں، ان میں سے صرف ایک قول ملاحظہ فرمائیں، امام ابو الفضل زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام مالک نے احادیث صحیحہ کو الگ نہیں بلکہ اس میں مرسل، منقطع اور بلاغات کو شامل کردیا ہے حالاں کہ ان کی بلاغات میں ایسی احادیث بھی ہیں جو معلوم نہیں، جیسا کہ ابن عبد الربر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الاول الصحیح، ج۱ص۹، ط: دار طیبۃ)
نیز ان اقوال کے ذکر کرنے کے بعد بعض لوگوں کو اسناد کی فضیلت کے متعلق اقوال علما و محدثین کی وجہ سے جو یہ وہم ہوا کہ سند کامل کے بغیر مطلقا کوئی حدیث قبول نہیں کی جاے گی، اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے امام محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسناد کے سنت مطلوبہ و فضیلت مرغوبہ و خاصہ امت مرحومہ ہونے میں کسے کلام، محققین قابلین مراسیل و معاضیل بھی مسانید کو ان پر تفضیل دیتے اور منقطع سے متصل کا نسخ نہیں مانتے ہیں کما نص علیہ فی المسلم و غیرہ (جیسا کہ مسلم الثبوت وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے) تاکید اثریین بجاے خود ہے اور قول بقیہ بن الولید: ذاکرت حماد بن زید بأحادیث فقال: ما أجودھا لو کان لھا أجنحۃ یعنی الإسناد (میں نے حماد بن زید سے بعض احادیث کے متعلق مذاکرہ کیا؛ تو آپ نے فرمایا: بہت عمدہ ہیں اگر ان کے لیے پر یعنی اسناد ہو) قطع نظر اس سے کہ واقعۃ عین لا عموم لہا (یہ ایک مخصوص واقعہ ہے جس کے لیے عموم نہیں) ممکن کہ وہ احادیث دربارہ احکام ہوں، یوں بھی صرف نفی جودت کرے گا وہ بطور محدثین مطلقا مسلم کہ معضل ضعیف ہے اور ضعیف جید نہیں، قول امام سفیان ثوری: الإسناد سلاح المؤمن فإذا لم یکن معہ سلاح فبأی شیء یقاتل (سند مؤمن کا اسلحہ ہے، جب اس کے پاس اسلحہ نہ ہو؛ تو وہ کس چیز سے لڑے گا) صراحۃ دربارہ عقائد و احکام  ہے‘‘۔
فإن الحاجۃ إلی القتال إنما ہی فیما یجری فیہ التشدید و التماکس دون ما أجمعوا علی التساہل فیہ (کیوں کہ لڑائی کی نوبت وہاں آتی ہے جہاں سختی اور باہم جھگڑا ہو، نہ کہ وہاں جس میں نرمی پر اجماع ہو)
یوں ہی ارشاد امام عبد اللہ بن مبارک: لو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء (اگر اسناد کا اعتبار نہ ہوتا؛ تو جس کی جو مرضی ہوتی وہ کہتا) کہ قبول ضعاف فی الفضائل میں دخول تحت اصل خود مشروط اوامر عمل قواعد مقررہ شرعیہ مثل احتیاط و اختیار نفع بے ضرر سے منوط؛ تو ضعیف اثبات جدید نہ کرے گی اور من شاء ماشاء (جو جس کی مرضی ہوتی وہ کہتا) صادق نہ آئے گا کما قدمنا بیانہ فی الإفادۃ الثانیۃ و العشرین (جیسا کہ ہم اس کا بیان بائیسویں افادہ میں پہلے کر آئے ہیں) پُر ظاہر کہ یہ اور ان کی امثال جتنے کلمات محدثین کرام سے ضرورت اسناد میں ملیں گے سب کا مفاد ضرورت خاص اتصال ہے کہ نامتصل بجمیع اقسامہ ان کے نزدیک ضعیف اور ضعیف خود مجروح ہے نہ کہ سلاح و صالح قتال، یوں ہی ایک راوی بھی ساقط؛ تو ان کے طور پر وہی من شاء ما شاء کا احتیاطی احتمال؛ و لہذا بالاتفاق منقطع و معضل  اور معضل دون معضل میں اصلا کوئی فرق حکم نہیں کرتے؛ اسی لیے ’فواتح الرحموت‘ میں اصطلاحات مرسل و معضل و منقطع و معلق بیان کرکے فرمایا:
 لم یظہر لتکثیر الاصطلاح و الأسامی فائدۃ (کثیر اصطلاح اور ناموں سے کوئی فائدہ ظاہر نہیں ہوتا) (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، مسئلۃ فی الکلام علی المرسل، ج۲ص۱۷۴،ط: منشورات الشریف الرضی،  فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ،ج۵ص۶۲۳، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
پھر اپنی بات کو مزید پختہ اور مضبوط کرتے ہوئے امام محدث بریلوی رحمہ اللہ ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’بالجملہ جب اتصال نہ ہو؛ تو بعض سند کا مذکور ہونا نہ ہونا سب یکساں، آخر نہ دیکھا کہ انہیں امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے حدیث ابن خراش عن الحجاج بن دینار: قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا:
امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح کے مقدمہ میں فرمایا:… ابواسحاق ابراہیم بن عیسی طالقانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ اے ابوعبد الرحمن: اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں: ((نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے روزہ رکھو))
آپ کہتے ہیں کہ عبد اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! یہ حدیث کس سے مروی ہے؟ میں نے ان سے عرض کیا: یہ شہاب بن خراش کی حدیث سے ہے؛ تو آپ نے فرمایا: وہ ثقہ ہیں، انہوں نے کس سے روایت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: یہ ثقہ ہیں، انہوں نے کن سے روایت کی ہے؟ میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، آپ نے فرمایا: اے ابواسحاق! بے شک حجاج بن دینار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اتنا لمبا فاصلہ ہے کہ اس میں چلنے والے کی زندگیاں ختم ہوجائیں، لیکن بہر حال صدقہ میں کوئی اختلاف نہیں۔(صحیح مسلم رحمہ اللہ، مقدمۃ، باب فی أن الإسناد من الدین، ج۱ص۱۴، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت،فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۶۲۵)
امام نواوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معنی ہذہ الحکایۃ أنہ لایقبل الحدیث إلا بإسناد صحیح‘‘۔ (شرح صحیح مسلم، محدث نواوی رحمہ اللہ، ج۱ ص۸۹، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت) اس حکایت کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ حدیث کو سند صحیح کے بغیر قبول نہیں کیا جائے گا۔
اگر ان اقوال کو اپنے اطلاق پر رکھا جائے؛ تو اجماع کی خلاف ورزی لازم آئے گی، اسی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام محدث بریلوی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں، حضور والا کی دور رس نگاہ سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیجیے:
’’اب اگر ان کلمات کو عموم پر رکھیے مرسل، منقطع، معلق، معضل، ہر نامتصل باطل و ملتحق بالموضوع ہوجاتی ہے اور وہ بالاجماع باطل، افادہ سوم میں ابن حجر مکی شافعی و علی قاری حنفی سے گزرا: المنقطع یعمل بہ فی الفضائل إجماعا (منقطع پر فضائل میں بالاجماع عمل کیا جائے گا) لاجرم واجب کہ یہ سب عبارات صرف باب اہم و اعظم یعنی احکام میں ہیں اگرچہ ظاہر اطلاق و ارسال ہو نہ کہ جب نفس کلام تخصیص پر دال ہو کما قررنا فی الکلمات المذکورۃ (جیسا کہ ہم نے کلمات مذکورہ میں گفتگو کی ہے) اور واقعی دربارہ رد و قبول غالب و محاورات علما صرف نظر بہ باب احکام ہوتے ہیں کہ وہی اکثر محط انظار نخبہ و نزہہ و غیرہما میں دیکھیے کہ حدیث کی دو قسمیں ہیں: مقبول و مردود، مقبول میں صحیح و حسن کو رکھا اور تمام ضعاف کو مردود میں داخل کیا، حالاں کہ ضعاف فضائل میں اجماعا مقبول، ہکذا ینبغی التحقیق و اللہ ولی التوفیق‘‘ (تحقیق اسی طرح کرنی چاہیے اور توفیق دینے والا اللہ تعالی ہے) (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۶۲۵، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
پھر امام محدث بریلوی رحمہ اللہ جمہور فقہاے کرام کے نزدیک بے سند حدیث کے فضائل تو فضائل احکام میں حجت ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ سب کلام بطور محدثین تھا، اور جمہاہیر فقہاے کرام کے نزدیک؛ تو معضلات مذکورہ فضائل در کنار خود باب احکام میں حجت ہیں جب کہ مرسل امام معتمد، محطاط فی الدین، عارف بالرجال، بصیربالعلیل، غیر معروف بالتساہل ہواور مذہب مختار امام محقق علی الاطلاق وغیرہا اکابر میں کچھ تخصیص قرن غیر قرن نہیں، ہر قرن کے ایسے عالم کا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنا حجت فی الاحکام ہے کما نص علیہ فی المسلم و شروحہ و غیرہا (جیسا کہ مسلم الثبوت اور اس کی شروح وغیرہ میں اس کی تصریح ہے)‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۶۲۶)
بے سند حدیث علما کے قبول کرنے کی وجہ سے حسن ہوجاتی ہے یا کم از کم قابل قبول ضرور ہوتی ہے، اس کی مثال حدیث جابر رضی اللہ عنہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  فرماتے ہیں:
((یا جابر! إن اللہ تعالی قد خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ۔۔۔الحدیث))
امام محدث بریلوی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ حدیث امام بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ میں بنحوہ روایت کی، اجلہ ائمہ دین مثل امام قسطلانی مواہب لدنیہ اور امام ابن حجر مکی افضل القری اور علامہ فاسی مطالع المسرات اور علامہ زرقانی فی شرح مواہب اور علامہ دیار بکری خمیس اور شیخ محقق دہلوی مدارج وغیرہا میں اس حدیث سے استناد اور اس پر تعویل و اعتماد فرماتے ہیں، بالجملۃ وہ تلقی امت بالقبول کا منصب جلیل پائے ہوئے ہے؛ تو بلاشبہ حدیث حسن صالح مقبول معتمد ہے، تلقی علما بالقبول وہ شیء عظیم ہے جس کے بعد ملاحظہ سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہو؛ تو حرج نہیں کرتی۔۔۔لاجرم علامہ محقق عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی فرماتے ہیں:
’’بے شک ہر چیز نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نورسے بنی، جیسا کہ حدیث صحیح اس معنی میں وارد ہوئی‘‘۔ (الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ، عارف باللہ نابلسی رحمہ اللہ، المبحث الثانی، ج۲۳۷۵، ط: مکتبہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۰۳ص۶۵۹)
النوع الثانی عشر، تدلیس:
تدلیس کی دو قسمیں بلکہ تین سے زائد ہیں، یہاں پر صرف تدلیس کی دو قسمیں ذکر کی جاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
اول، تدلیس الإسناد:  اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ امام نواوی رحمہ اللہ کے حوالے سے تدلیس اسناد کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’تدلیس اسناد یہ ہے کہ راویت کرنے والا اپنے ہم عصر سے اس چیز کو روایت کرے جو اس سے سنا نہ ہو، اس سے سننے کے متعلق وہم میں ڈالتے ہوئے، مثلا کہے: قال فلان یا عن فلان یا اس کے مثل دوسرے الفاظ استعمال کرے۔ (التقریب والتیسیر، محدث نواوی رحمہ اللہ،ص۳۹، ط: دار الکتاب العربی، بیروت)
ثانی، تدلیس الشیوخ: تدلیس شیوخ یہ ہے کہ روایت کرنے والا اپنے شیخ کا ایسا نام ذکر کرے یا ایسی کنیت بتائے یا ایسی نسبت بیان کرے یا ایسا وصف لائے جس سے وہ مشہور نہ ہو۔ (ایضا)
تدلیس کا حکم: مدلس کے عنعنہ کا حکم بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’رابعا ملا جی! آپ تو بہت محدثی میں دم بھرتے ہیں، صحیح حدیثیں بے وجہ محض تو رد کرتے آئے، بخاری و مسلم کے رجال ناحق مردود الروایۃ بنائے، اب اپنے لیے یہ روایت حجت بنالی جو آپ کے مقبولہ اصول محدثین پر ہرگز کسی طرح حجت نہیں ہوسکتی، اس کا مدار ابن ابی نجیح پر ہے، وہ مدلس تھا اور یہاں روایت میں عنعنہ کی اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار میں مردود و نامستند‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ ص۲۴۵، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
پھر امام نواوی رحمہ اللہ کی تدلیس کے متعلق وضاحتی بیان سے اپنے قول کی توثیق و تائید فرمائی، ملاحظہ فرمائیں:
’’صحیح یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے یعنی مدلس کی روایت  ایسے لفظ سے ہو جو سماع کا احتمال تو رکھتا ہو مگر سماع کی تصریح نہ ہو؛ تو وہ مرسل اور غیر مقبول ہے اور جس میں سماع کی صراحت ہوجیسے سمعت، حدثنا، اخبرنا اور ان جیسے الفاظ؛ تو وہ مقبول اور قابل استدلال ہے‘‘۔ (التقریب والتیسیر، محدث نواوی رحمہ اللہ،ص۳۹، ط: دار الکتاب العربی، بیروت)
نیز مدلس کا سماعت کی صراحت یا ایسے شیخ سے روایت کی صورت میں جس سے مدلس کثرت سے روایت کرتا ہے، اس کی حدیث مقبول ہوتی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اصل حدیث جسے ہم نے روایت کیا ’مسند احمد‘ میں اس سند کے ساتھ ہے: یعقوب حدثنا أبی عن ابن إسحاق قال: حدثنی محمد بن مسلم بن عبید اللہ الزہری، عن السائب بن یزید، یہاں یہ حدیث لفظ حدثنی سے مروی ہے؛ تو اب اس روایت پر تدلیس کا اعتراض نہیں ہوسکتا ہے، یہ ایک جواب۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ امام محمد بن اسحاق امام زہری سے کثرت سے روایت کرنے والے ہیں اور ایسے راوی کا عنعنہ بھی سماع پر محمول ہوتا ہے، امام ذہبی فرماتے ہیں:
راوی جب روایت میں لفظ عن  کا استعمال کرے؛ تو تدلیس کا احتمال ہوتا ہے مگر جب راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے وہ کثرت سے روایت کرنے والا ہو؛ تو یہ روایت متصل ہوگی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۸ص۷۹،، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
النوع الرابع عشر،منکر:
تعریف: منکر اس روایت کو کہتے ہیں جس کا راوی ضعیف ہو اور روایت کرنے میں منفرد اور ثقہ راویوں کے خلاف ہو۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، باب وفاتہ و مایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، ج۱ص۱۹۶، ط: عامرہ، مصر)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ امام زرقانی رحمہ اللہ کی طرف سے حدیث منکر کی یہ تعریف پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’اور صرف ضعیف کا مرتبہ منکر سے احسن و اعلی ہے جسے ضعیف راوی نے ثقہ راویوں کے خلاف روایت کیا ہو‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۴۸، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
حدیث منکر کا حکم: اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث منکر کا حکم بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’حدیث کا مضطرب بلکہ منکر ہونا بھی موضوعیت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا، یہاں تک کہ دربارہ فضائل مقبول رہے گی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۵۰)
اس کے بعد ہمارے ممدوح اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنے اس دعوی کو خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے مختلف اقوال سے ثابت کرتے ہیں، یہاں پر صرف ان کی دو عبارت پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں، خاتم الحفاظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’منکر موضوع کے علاوہ ایک دوسری نوع ہے جو کہ ضعیف کی ایک قسم ہے‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات، محدث سیوطی رحمہ اللہ، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۵۰)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’منکر ضعیف کی قسم ہے اور یہ فضائل کے ابواب میں قابل قبول ہے‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ص۳۲۱، ط: دار الجنان، فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۵۰)
النوع الخامس عشر معرفۃ الاعتبار و المتابعۃ:
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے مختلف روایات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ روایت متابع بننے کے قابل ہے اور فلاں روایت متابع بننے کے قابل نہیں، محدث بریلوی رحمہ اللہ کے اس مستخدم اصطلاح کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اعتبار اور متابع کی حقیقت کو ان کی تعریف کی روشنی میں جان لیا جائے، ملاحظہ فرمائیں:
اعتبار کی تعریف: اعتبار یہ ہے کہ راویوں کی بعض حدیث کو لے، پھر حدیث کے طرق کی چھان بین کرکے دوسرے راویوں کی روایات کے ذریعہ اس حدیث کا اعتبار کرے؛ تاکہ معلوم ہو کہ اس حدیث میں دوسرے راوی نے پہلے راوی کی مشارکت کی ہے، اس طور سے کہ اس دوسرے راوی نے پہلے راوی کے شیخ سے روایت کی ہے یا نہیں، اگر روایت نہیں کی ہے؛ تو دیکھے کہ کیا کسی راوی نے اس پہلے راوی کے شیخ کے شیخ کی متابعت کی ہے، اس طور سے کہ اس کے شیخ کے شیخ سے روایت کی، اسی طرح آخری اسناد تک کرے اور یہی متابعت ہے۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۸۱، ط: دار طیبۃ)
متابعت تامہ و ناقصہ کی مثال: متابعت تامہ یہ کہ مثلا حماد بن سلمہ نے ایوب سے کوئی حدیث روایت کی اور حماد کے علاوہ کسی راوی نے بھی ایوب سے وہ حدیث روایت کی، اور متابعت ناقصہ یہ ہے کہ ایوب سے حماد کے علاوہ کسی راوی نے روایت نہیں کی مگر ابن سیرین سے ایوب کے علاوہ راوی نے روایت کی یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابن سیرین کے علاوہ راوی نے روایت کی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابی نے روایت کی، یہ ساری صورتیں متابعت کی ہیں مگر پہلی والی متابعت سے یہ متابعت ناقص ہے۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۸۳)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ ’غنیۃ المستملی‘ کے حوالے سے متابعت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اس لیے کہ یہ طے شدہ ہے کہ راوی کا ضعف جب فسق کی وجہ سے نہ ہو بلکہ غفلت کی وجہ سے ہو؛ تو وہ متابعت کی وجہ سے دور ہوجاتا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ راوی نے اس میں عمدگی برتی ہے اور وہم کا شکار نہ ہوا؛ تو وہ حدیث حسن ہوجاتی ہے‘‘۔
 (غنیۃ المستملی، نواقض وضو، ص۱۳۸، فتاوی رضویہ مترجم، ج۱ص۴۰۷، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
نیز فرماتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں ابن ہلال؛ تو متابعت کے قابل نہیں، یحیی بن سعید نے اسے کاذب کہا  ہے‘‘۔ (ایضا)
مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور امام بخاری و امام طحاوی کی روایت میں امام زہری سے ابن ابی ذئب نے بلفظ دوم روایت کی ((کنت اغتسل أنا و النبی۔۔۔الخ)) ابن ابی ذئب کی متابعت امام نسائی کی روایت میں معمر اور ابن جریج نے اور امام طحاوی کی ایک روایت میں جعفر بن برقان نے کی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱ ص۵۸۷)
النوع الثامن عشر، معلول:
            تعریف: حدیث معلل وہ ہے جس میں کوئی ایسی علت پائی جو اس کی صحت میں قادح ہو اگرچہ حدیث بظاہر اس علمت سے محفوظ معلوم ہوتی ہو۔ (تدریب الراوی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۹۴، ط: دار طیبۃ)
حدیث معل تمام اقسام علوم حدیث میں سب سے زیادہ دقیق اور اہمیت کا حامل ہے، اس کی اسی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علوم حدیث کی یہ قسم تمام اقسام میں سب سے زیادہ عظمت و شرف والی ہے اور ساتھ ہی دقت طلب بھی ہے، حفاظ کرام، تجربہ کار اور فہم ثاقب رکھنے والے اس کی معرفت حاصل کرپاتے ہیں؛ اسی وجہ سے اس نوع کے بارے میں کم ہی علماے کرام نے کلام کیا ہے، جیسے امام ابن مدینی، احمد اور بخاری رحمہم اللہ وغیرہ‘‘۔(تدریب الراوی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۹۴)
اس نوع کے دقت طلب ہونے ہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اب علل خفیہ و غوامض دقیقہ پر نظر کرے جس پر صدہا سال سے کوئی قادر نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ متجرم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۷ص۷۰، مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
نیز فرماتے ہیں:
            ’’ملا جی بایں پیرانہ سالی و دعوی محدثی ابھی حدیث معلول ہی کو نہیں جانتے کہ اس کے لیے کچھ ضعف راوی ضرور نہیں بلکہ باوصف وثاقت و عدالت رواۃ حدیث میں علت قادحہ ہوتی ہے کہ اس کا رد واجب کرتی ہے جسے بخاری و ابوداؤد وغیرہما جیسے ناقدین پہچانتے ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریولی رحمہ اللہ، ج۵ص۲۰۶)
            کبھی علت کے مقتضی کے خلاف پر بھی علت کا اطلاق ہوتا ہے، یعنی علت خفی یا پوشیدہ نہیں بلکہ بالکل ظاہر ہوتی ہے، اس کے باوجود اس پر علت کا اطلاق ہوتا ہے یا حدیث کو معلول کہا جاتا ہے، خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            ’’اور کبھی علت کا اطلاق اس کے تقاضا کے خلاف پر بھی ہوتا ہے، جیسے راوی کا جھوٹ، فسق، غفلت، برا حافظہ اور اس کے مثل دوسرے ضعف حدیث کے اسباب، یہ چیز کتب علل میں موجود ہے‘‘۔ (تدریب الراوی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، ج۱ص۳۰۲، دار طیبۃ)
            اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے اس ظاہری سبب کی وجہ سے بھی مندرجہ ذیل حدیث پر معلل ہونے کا حکم لگایا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
            عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((تَذْهَبُ الْأَرَضُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا الْمَسَاجِدَ، فَإِنَّهَا تَنْضَمُّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ))
            اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ مندرجہ بالا حدیث اور مزید ایک حدیث  ذکر کرنے کے بعد اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
            ’’اور پہلی روایت میں سخت تعلیل ہے‘‘ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱۶، ص۴۲۶، مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
            اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے مذکورہ بلا حدیث میں جس سخت تعلیل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی اصرم بن حوشب، کذاب ہے (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، امام ہیثمی رحمہ اللہ، باب فضل المساجد و مواضع الذکر، ج۲ص۶، ط: مکتبۃ القدسی، قاہرہ، مصر)
            امام ابن ہمام رحمہ اللہ نے بقیہ بن ولید راوی کے عنعنہ کی وجہ سے حدیث کو معل قرار دیا، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ امام کا قول ذکر کرتے ہیں اور مزید تطفلا کیا فرماتے ہیں، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
            ’’واقعہ دوم: معاویہ بن معاویہ مزنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے مدینہ طیبہ میں انتقال کیا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تبوک میں ان پر نماز پڑھی۔۔۔۔۔اس کی سند میں بقیہ بن ولید مدلس ہے اور اس نے عنعنہ کیا یعنی محمد بن زیاد سے اپنا سُننا نہ بیان کیا، بلکہ کہا کہ ابن زیاد سے روایت ہے معلوم نہیں راوی کون ہے!
بہ أعلہ المحقق فی الفتح، أقول: لکن سند أبی أحمد الحاکم ھکذا: أخبرنا أبوالحسن أحمد بن عمیر بد مشق ثنا نوح بن عمرو بن حری ثنا بقیۃ ثنا محمد بن  زیاد عن أبی أمامۃ فذکرہ۔
حضرت محقق نے فتح القدیر میں اسی سے اس کو معلول ٹھہرایا۔ أقول: مگر ابواحمد حاکم کی سند اس طرح ہے : ہمیں خبر دی ابوالحسن احمد بن عمیر نے د مشق میں ، انھوں نے کہا ہم سے حدیث بیان کی نوح بن عمروبن حری نے، کہا ہم سے حدیث بیان کی محمد بن زیاد نے ، وہ ابوامامہ سے راوی ہيں، اس کے بعد حدیث ذکر کی‘‘۔  (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۹ص۳۵۳، ط: رضا فاؤنڈیشن)
ان مقامات کے علاوہ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے اس حدیثی اصطلاح کو دیگر مقامات پر بھی استعمال کیا ہے، جیسے:
(فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۱۷۷، ج۵ص ۲۲۱، ج۵ص۵۵۱، ج۵ص۵۹۴، ج۲۷ص۷۹، ج۲۸ص۲۶۲، ط: رضا فاؤنڈیشن)
            النوع التاسع عشر، مضطرب:
            تعریف: حدیث مضطرب وہ ہے جو ایک راوی سے دو مرتبہ یا زیادہ یا دوسرے راوی یا کئی رواۃ سے ایسے وجوہ سے مروی ہو کہ ان کے درمیان ترجیح نہ دی جاسکے۔
 لیکن  اگر دو یا کئی روایات میں سے ایک کو راوی کے حفظ یا مروی عنہ کی کثرت صحبت وغیرہ کی وجہ سے ترجیح دے دی گئی؛ تو جو حدیث راجح ہے وہی محکم قرار دی جائے گی اور حدیث راجحہ یا مرجوحہ کوئی حدیث مضطرب نہیں ہوگی البتہ جو مرجوحہ ہوگی اسے شاذ یا منکر قرار دیا جائے گا (تدریب الروی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع التاسع عشر، ج۱ص۳۰۸، دار طیبۃ)
اضطراب کی تین قسمیں ہیں: (۱) سند میں اضطراب (۲) متن میں اضطراب (۳) سند و متن دونوں میں اضطراب۔ (ایضا)
غیر مقلدین جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پر تعدد نماز جنازہ والی روایت سے اس کے متعدد ہونے پر استدلال کرتے ہیں، اس روایت کے متن میں اضطراب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثانیاً:اُس کی خود حالت یہ کہ اس کی کوئی سند مسند مقال سے خالی نہیں اور متن بشدت مضطرب اگر اس کی تفصیل کیجئے ایک رسالہ مستقل ہوتا ہے (ج۹ص۳۰۰، ط: مرکز اہل سنت برکاتے رضا، گجرات)
معنی میں اضطراب کی دوسری مثال، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اسی اضطراب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سابعاً اعلان حج کے مقام میں حضرت ابن عباس سے روایتیں مضطرب ہیں ۔ بعض میں تو وہی مقام ابراہیم ہے ، اوربعض میں یہ ہے کہ جبل ابوقبیس پر اعلان حج ہوا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ "حضرت ابراہیم علیہ السلام جبل ابو قبیس پر چڑھے اورکہا: اللہ أکبر ،اللہ أکبر، أشہد أن لاإلہ إلا اللہ ، و أشھد أن إبراھیم رسول اللہ ۔ اے لوگو!مجھے اللہ تعالٰی نے حکم دیا کہ میں لوگوں میں حج کا اعلان کروں تو تم لوگ اللہ تعالٰی کی پکار کا جواب دو‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج۲۸ص۲۸۱)
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی ثقہ راوی نے دوسرے راویوں کے برخلاف کچھ اضافہ کردیا؛ تو حدیث مضطرب قرار پائے گی، حالاں کہ ایسا نہیں؛ کیوں کہ  محض اضافہ ثقہ کے سبب حدیث مضطرب نہیں ہوتی ، اس کی مزید وضاحت اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ للہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’نفحہ ۵: اما م زہر ی کے اکثر شا گر دو ں نے حد یث میں ((علی با ب المسجد)) اور ((بین ید یہ )) کا ذکر نہیں کیا ہے، ان دونو ں ٹکڑو ں کا ذکر صر ف ابن اسحق نے کیا ہے جو ایک ثقہ روا ی کا اضا فہ ہے اور اس کا قبو ل کر نا وا جب ہے؛ تو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ((بین یدیہ)) کو تسلیم کیا جا ئے اور ((علی با ب المسجد ))کو تر ک کر دیا جا ئے اور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ابن اسحق کے اس اضا فہ کو اس وجہ سے تر ک کیا جا ئے کہ صر ف ابن اسحا ق اس کے را و ی ہیں اورو ں نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے اور اسی بنا پر اس اضا فہ کو ان کی ثقہ راویو ں کی مخا لفت قرا ر دیا جا ئے اور حد یث کو مضطرب قرار دیا جا ئے اگر یہ ظلم روا رکھا جا ئے؛ تو چند معدو د اور مختصر روا یتیں ہی اضطر ا ب سے محفو ظ رہیں گی؛ کیو نکہ کو ن حد یث ہے جو دو یا دو سے ز ائد طر یقو ں سے مر و ی نہیں اور ہر طر یقہ روا یت کے متن میں کچھ ایسا حصہ بھی ضر و رہے جو دو سر ے میں نہیں، شا ید ہی ایسا ہو گا کہ دونوں روایتوں کے الفاظ بالکلیہ یکساں اور  برا بر ہو ں اور نا در  کاکیا اعتبا ر‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۸ص۹۳)
حدیث مضطرب کا حکم:
حدیث مضطرب کا حکم کیا ہے، صحیح ہے یا حسن، موضوع ہے یا ضعیف، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اس حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حدیث کا مضطرب بلکہ منکر ہونا بھی موضوعیت سے کچھ علاقہ نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۵۰، مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
اس کے بعد اپنے اس دعوی کو خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے قول سے تقویت دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’مضطرب حدیث ضعیف کی قسم ہے، موضوع نہیں‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات، سیوطی رحمہ اللہ، فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۵۰)
ان کے علاوہ مزید اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے، بعض مقامات کی طرف اشارہ کردیتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
(فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۴۴، ج۵ص۲۱۶، ج۱۱ص۳۶۱، ج۲۵ص۱۷۶، ط: رضا فاؤنڈیشن)
النوع العشرون، مدرج:
تعریف: حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث مدرج  اس طور سے ہوتی ہے کہ راوی حدیث کے بعد اپنا یا کسی اور کا کلام ذکر کرے؛ تو اس کے بعد کا راوی اس کلام کو متصلا بیان کر کرے؛ جس کی وجہ سے یہ گمان ہو کہ یہ غیر کا کلام بھی حدیث ہی ہے (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع العشرون، ج۱ص۳۱۴، ط: درا طیبۃ)
حدیث مدرج کا حکم:
بعض متشددین یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث مدرج موضوع حدیث کے قبیل سے ہے، مگر ان کی سمجھ غلط اور محدثین کی آرا کے خلاف ہے؛ کیوں کہ محدثین فرماتے ہیں کہ حدیث مدرج موضوع نہیں بلکہ ضعیف کے قبیل سے ہے، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بلکہ فرمایا کہ مدر ج بھی موضوع سے جدا قسم ہے حالاں کہ اس میں تو کلام غیر کا خلط ہوتا ہے‘‘۔
اس کے بعد خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے قول سے اپنے قول کی تائید پیش کرتے ہیں،  ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ تم صوف کا لباس پہنو، اس سے تمہارے دلوں کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوگی(طویل حدیث)اس میں کدیمی راوی حدیث گھڑنے والا ہے،میں کہتا ہوں کہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں کہا ہے: حدیث کا یہ حصہ اس سند کے علاوہ سے معروف ہے اور کدیمی نے اس میں ایسی زیادتی کی ہے جو منکر ہے اور ممکن ہے کہ یہ کسی راوی کاکلام ہو اور انہوں نے اسے حدیث کاحصہ بنادیاہو، انتہی، اور اس جملہ معروفہ کی امام حاکم نے مستدرک میں تخریج کی ہے اور یہ طویل حدیث مدرج ہے، موضوع نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۵۱، مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
حدیث مدرج کی مثال:
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کے مندرجہ ذیل قول سے حدیث مدرج کی مثال بخوبی واضح ہوجاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’تنبیہ : اس میں شک نہیں کہ اس قول:   اور عقیل وارث ہوا ابوطالب کا حدیث میں داخل کیا گیا اس کا قائل ان کتابوں میں مذکور نہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور میں نے اختیار کیا ہے کہ وہ امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ امام عینی نے عمدۃ القاری میں کہا کہ اس کا قول   وکان عقیل  بعض راویوں کی طرف سے حدیث میں داخل کیا گیا ہے ،  ممکن ہے یہ ادراج و ادخال اسامہ کی طرف سے ہو۔کرمانی نے یوں ہی کہا ہے اھ ،  اور درست وہی ہے جو میں نے ذکر کیا،  اور میں نے عمدۃ القاری پر حاشیہ لکھا جس کی صراحت یہ ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۹ص۶۸۱)
مزید حدیث مدرج کی مثال اس جگہ پر بھی دیکھی جاسکتی ہے (فتاوی رضویہ مترجم، ج۱ص۱۴۴) حدیث مدرج کی متن و اسناد کے اعتبار سے کئی اقسام ہیں، جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، ساری تفصیلات دیکھنے کے لیے ’تدریب الراوی‘ کی طرف رجوع کریں۔
النوع الحادی و العشرون، موضوع:
تعریف: موضوع حدیث کی تعریف اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ ’علوم الحدیث‘ اور ’التقریب ‘ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
’’الموضوع ھو المختلق المصنوع‘‘۔ (تقریب النووای) (موضوع وہ حدیث ہے جو من گھڑت اور بناوٹی ہو۔ ت)
 ’إرشاد الساری‘ کے حوالے لکھتے ہیں:
’’موضوع وہ حدیث ہے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم پر جھوٹ گھڑا گیا ہو، اسے مختلق بھی کہتے ہیں‘‘۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، الفصل الثالث فی نبذۃ لطیفۃ ۔۔الخ، ج۱ص۱۳، ط: درا الکتاب العربیۃ، فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۵۸۷)
موضوع حدیث کا ثبوت:
حدیث کا موضوع ہونا محض سند نہ ہونے یا راوی کے ضعیف یا شدید ضعیف ہونے یا اس طرح کے دوسرے ضعف کی وجہ سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں میں سے کسی ایک بات کا پایا جانا ضروری ہے، وہ باتیں اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی زبانی سماعت فرمائیں:
’’ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون: (۱) قرآن عظیم (۲) یا سنت متواترہ (۳) یا اجماع قطعی قطعیات الدلالۃ (۴) یا عقل صریح (۵) یا حسن صحیح (۶) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہو کہ احتمال تاویل و تطبیق نہ ر۔
(۷) یا معنی شنیع و قبیح ہوں، جن کا صدور حضور پر نور صلوات اللہ علیہ سے منقول ہو، جیسے معاذ اللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔
(۸)یا ایک جماعت جس کا عدد حدِ تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے، اُس کے کذب وبطلان پر گواہی مستنداً الی الحس دے (۹)یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی، مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں (۱۰)یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت یا صغیر امر کی مذمّت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز، نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔ یہ دس۱۰ صورتیں تو صریح ظہور ووضوحِ وضع کی ہیں (۱۱) یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک وسخیف ہوں، جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو (۱۲)یا ناقل رافضی حضرات اہل بیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے، جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:لحمک لحمی ودمک دمی‘‘۔(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خُون میرا خُون۔ ت)
أقول: انصافاً یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں''کمانص علیہ الحافظ أبویعلی و الحافظ الخلیلی فی الإرشاد''۔ (جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظ خلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ ت) یونہی نواصب نے مناقب امیر معٰویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حدیثیں گھڑیں کماأرشد إلیہ الإمام الذاب عن السنۃ  أحمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ ت)
(۱۳)یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے، حدیث سبق میں زیادت ’جناح‘ اورحدیث ذم معلمین اطفال (۱۴)یا تمام کتب وتصانیف اسلامیہ میں استقراے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے، یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہِ شان کا کام تھا،جس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم (۱۵)یاراوی خود اقرار وضع کردے خواہ صراحۃً خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو،مثلاً ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعوی سماع روایت کرے ، پھراُس کی تاریخِ وفات وہ بتائے کہ اُس کااس سے سننامعقول نہ ہو۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۶۰-۴۶۲، مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
مندرجہ بالاباتوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم مگر اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کا یہ کلام ان باتوں کی اہمیت میں مزید اضافہ کردیتا ہے، محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ پندرہ۱۵ باتیں ہیں کہ شاید اس جمع وتلخیص کے ساتھ ان سطور کے سوانہ ملیں ولوبسطنا المقال علٰی کل صورۃ لطال الکلام وتقاصی المرام، ولسناھنالک بصددذلک (اگر ہم ہر ایک صورت پر تفصیلی گفتگو کریں تو کلام طویل اور مقصد دُورہوجائے گالہذا ہم یہاں اس کے درپے نہیں ہوتے۔ (ت)‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ ص۴۶۲)
موضوعیت کا حکم اور مذاہب محدثین:
اگر مندرجہ بالا باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی جائے؛ تو کیا کوئی دوسری گنجائش ہے جس کی بنا پر حدیث پر موضوع ہونے کا حکم لگایا جاسکے، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث کا راوی متہم بالکذب یا صرف کذاب حدیث کے روایت کرنے میں متفرد ہو؛ تو حدیث پر موضوع ہونے کا حکم لگانے کی گنجائش ہے بلکہ ضروری ہے، حالاں کہ ایسا نہیں بلکہ اس میں قدر تفصیل ہے، قارئین کرام اس تفصیل کو اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی ناقدانہ و محدثانہ گفتگو کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں، ہمارے ممدوح مکرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ثم أقول: رہا یہ جو حدیث ان سب سے خالی ہو، اس پر حکم وضع کی رخصت کس حال میں ہے، اس باب میں کلمات علماے کرام تین طرز پر ہیں:
(۱)انکار محقق، یعنی بے امور مذکورہ کے اصلاً حکم وضع کی راہ نہیں، اگرچہ راوی وضاع، کذاب ہی پر اُس کا مدار ہو،امام سخاوی نے فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث میں اسی پر جزم فرمایا، فرماتے ہیں:مجرد تفرد الکذاب بل الوضاع و لوکان بعد الاستقصاء فی التفتیش من حافظ متبحر تام الاستقراء غیر مستلزم لذلک بل لابد معہ من انضمام شیئ مماسیأتی۔(فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث، الموضوع،محدث سخاوی رحمہ اللہ، ج ۱ص۲۹۷، دارالامام الطبری      ،  بیروت)
یعنی اگر کوئی حافظ جلیل القدرکہ علمِ حدیث میں متبحر اور اس کی تلاش کا مل ومحیط ہو،تفتیش حدیث میں استقصائے تام کرے اور بااینہمہ حدیث کا پتا ایک راوی کذاب بلکہ وضاع کی روایت سے جدا کہیں نہ ملے تاہم اس سے حدیث کی موضوعیت لازم نہیں آتی جب تک امور مذکورہ سے کوئی امر اس میں موجود نہ ہو۔ (ت)
مولانا علی قاری نے موضوعاتِ کبیر میں حدیث ابن ماجہ دربارہ اتخاذ وجاج کی نسبت نقل کیا کہ اُس کی سند میں علی بن عروہ دمشقی ہے، ابن حبان نے کہا:وہ حدیثیں وضع کرتا تھا۔ پھر فرمایا: و الظاھر أن الحدیث ضعیف لاموضوع  (ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، موضوع نہیں) (ت) ( الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ،   ص۳۳۸، رقم: ۱۲۸۲، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت)
حدیث فضیلت عسقلان کا راوی ابوعقال ہلال بن زیدہے، ابنِ حبان نے کہا وہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موضوعات روایت کرتاولہذا ابن الجوزی نے اُس پر حکم وضع کیا۔امام الشان حافظ ابن حجر نے ’قولِ مسدد‘ پھر خاتم الحفاظ نے ’لآلی‘ میں فرمایا: ھذا الحدیث فی فضائل الأعمال و التحریض علی الرباط، و لیس فیہ مایحیلہ الشرع و لا العقل؛ فالحکم علیہ بالبطلان بمجردکونہ من روایۃ أبی عقال لایتجہ، و طریقۃ الإمام أحمد معروفۃ فی التسامح فی أحادیث الفضائل دون أحادیث الأحکام ۔
یہ حدیث فضائل اعمال کی ہے، اس میں سرحد دارالحرب پر گھوڑے باندھنے کی ترغیب ہے اور ایسا کوئی امر نہیں جسے شرع یا عقل محال مانے؛ تو صرف اس بنا پر کہ اس کا راوی ابوعقال ہے باطل کہہ دینا نہیں بنتا، امام احمد کی روش معلوم ہے کہ احادیث فضائل میں نرمی فرماتے ہیں نہ احادیث احکام میں۔ (ت) یعنی تو اسے درج مسند فرمانا کچھ معیوب نہ ہوا-
(۲)    کذاب وضاع جس سے عمداً نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر معاذ اللہ بہتان وافترا کرناثابت ہو،صرف ایسے کی حدیث کو موضوع کہیں گے وہ بھی بطریقِ ظن نہ بروجہ یقین کہ بڑا جھُوٹابھی کبھی سچ بولتا ہے اور اگر قصداً افترا اس سے ثابت نہیں تو اُس کی حدیث موضوع نہیں اگرچہ مہتم بکذب و وضع ہو، یہ مسلک امام الشان وغیرہ علما کا ہے۔
نخبہ ونزھہ میں فرماتے ہیں: الطعن إماأن یکون لکذب الراوی بأن یروی عنہ مالم یقلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و سلم متعمدا لذلک أو تھمتہ بذلک، الأول ھوالموضوع، والحکم علیہ بالوضع إنما ھو بطریق الظن الغالب لا بالقطع؛ إذ قد یصدق الکذوب، والثانی ھو المتروک اھ ملتقطا۔
طعن یا تو کذب راوی کی وجہ سے ہوگا، مثلاً اس نے عمداً اپنی بات روایت کی جو نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نہیں فرمائی تھی یا اس پر ایسی تہمت ہو،پہلی صورت میں روایت کو موضوع کہیں گے اور اس پر وضع کا حکم یقینی نہیں بلکہ بطور ظن غالب ہے؛ کیونکہ بعض اوقات بڑا جھُوٹابھی سچ بولتا ہے، اور دوسری صورت میں روایت کو متروک کہتے ہیں اھ ملتقطاً۔ (ت)  (شرح نخبۃ الفکر معہ نزھۃ النظر ،   بحث الطعن،   ص ۵۴ تا ۵۹، ط: مطبع علیمی لاہور)
یہی امام کتاب ’الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ‘ میں حدیث: ((إن الشیطان یحب الحمرۃ فإیاکم والحمرۃ وکل ثوب فیہ شھرۃ)) (شیطان سُرخ رنگ پسند کرتا ہے تم سُرخ رنگت سے بچو اور ہر اس کپڑے سے جس میں شہرت ہو۔ ت) کی نسبت فرماتے ہیں:
قال الجوزقانی فی کتاب الأباطیل: ھذا حدیث باطل و إسنادہ منقطع، کذا قال، وقولہ باطل: مردود؛ فإن أبابکر الھذلی لم یوصف بالوضع وقد وافقہ سعید بن بشیر و إن زاد فی السند رجلا، فغایتہ أن المتن ضعیف أماحکمہ بالوضع فمردود۔ (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، القسم الأول: حرف الراء، ج۱ص۵۰۰، ط: دارصادر، بیروت    )
جو زقانی نے کتاب ’الاباطیل‘ میں کہا کہ یہ روایت باطل ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اسی طرح انہوں نے کہا اور ان کا باطل کہنا مردود ہے کیونکہ ابوبکر ہذلی وضاع نہیں اور اس کی سعید بن بشیر نے موافقت کی، اگرچہ سند میں انہوں نے ایک آدمی کا اضافہ کیا ہے، زیاد سے زیادہ یہ ہے کہ متن ضعیف ہے لیکن اس پر وضع کا حکم جاری کرنا مردود ہے۔ (ت) (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۶۲-۴۶۴)
پھر اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اس مذہب کے متعلق دوسرے علما و ناقدین کے اقوال پیش کرنے کےبعد امام مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو اسی مذہب کی تائید میں پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خلیفہ منصور عباسی سے ارشاد کہ اپنا منہ حضور پُرنور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیوں پھیرتا ہے وہ تیرا اور تیرے باپ آدم علیہ الصلاۃ والسلام کا اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں،اُن کی طرف منہ کر اور اُن سے شفاعت مانگ کہ اللہ تعالٰی ان کی شفاعت قبول فرمائے گا، جسے اکابر ائمہ نے باسانید جیدہ مقبولہ روایت فرمایا،ابن تیمیہ متہّورنے جزافاً بک دیا کہ إن ھذہ الحکایۃ کذب علٰی مالک''۔ (اس واقعہ کا امام مالک سے نقل کرنا جھُوٹ ہے۔ ت) علامہ زرقانی نے اُس کے رَد میں فرمایا: ھذا تھوّر عجیب، فإن الحکایۃ رواھا أبوالحسن علی بن فھر فی کتابہ فضائل مالک بإسناد لابأس بہ، و أخرجھا القاضی عیاض فی الشفاء من طریقہ عن شیوخ عدۃ من ثقات مشایخہ فمن أین أنھاکذب و لیس فی إسنادھا وضاع ولاکذاب‘‘۔(شرح الزرقانی علی المواہب، الفصل الثانی، المقصد العاشر ،ج ۸ص۳۴۸ ،ط: مطبعۃ عامرۃ، مصر)
یہ بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ اس واقعہ کو شیخ ابوالحسن بن فہرنے اپنی کتاب فضائلِ مالک‘ میں ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں کمزوری نہیں اور اسے قاضی عیاض نے شفا میں متعدد ثقہ مشائخ کے حوالے سے اسی سند سے بیان کیاہے؛ لہذااسے جھُوٹا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟حالانکہ اس کی سند میں نہ کوئی راوی وضاع ہے اور نہ ہی کذّاب(ت)۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص ۴۶۵)
(۳)    بہت علما جہاں حدیث پر سے حکمِ وضع اٹھاتے ہیں، وجہ رد میں کذب کے ساتھ تہمتِ کذب بھی شامل فرماتے ہیں کہ یہ کیونکر موضوع ہوسکتی ہے حالانکہ اس کا کوئی راوی نہ کذاب ہے نہ متہم بالکذب۔ کبھی فرماتے ہیں موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا، یہاں ایسا نہیں تو موضوع نہیں۔ افادہ دوم میں امام زرکشی وامام سیوطی کا ارشاد گزرا کہ حدیث موضوع نہیں ہوتی، جب تک راوی متہم بالوضع نہ ہو۔ افادہ پنجم میں گزرا کہ ابوالفرج نے کہا ملیکی متروک ہے،تعقبات میں فرمایامتہم بکذب تونہیں۔افادہ نہم میں انہی دونوں ائمہ کا قول گزرا کہ راوی متروک سہی متہم بالکذب تو نہیں۔ وہیں امام خاتم الحفاظ کے چارقول گزرے کہ راویوں کے مجہول ، مجروح ، کثیرالخطاء، متروک ہونے، سب کے یہی جواب دیے،نیز تعقبات  میں ہے:حدیث فیہ حسن بن فرقد لیس بشیء، قلت،لم یتھم بکذب، و أکثر مافیہ أن الحدیث ضعیف‘‘۔ (التعقبات علی الموضوعات      ،  باب البعث، ص ۵۳، مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل)
اس حدیث کی سند میں حسن بن فرقد کوئی شیئ نہیں،میں کہتا ہوں کہ یہ متہم بالکذب نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (ت)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ مزید دیگر اقوال سے اپنی بات کو اس مذہب کے متعلق مضبوط کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ بالجملہ اس قدر پر اجماعِ محققین ہے کہ حدیث جب اُن دلائل وقرائن قطعیہ وغالبہ سے خالی ہو اور اُس کا مدار کسی متہم بالکذب پرنہ ہوتو ہرگز کسی طرح اُسے موضوع کہنا ممکن نہیں جو بغیر اس کے حکم بالوضع کردے یا مشدد مفرط ہے یا مخطی غالط یا متعصب مغالط، واللّٰہ الھادی وعلیہ اعتمادی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۶۸، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
مذاہب میں احوط مذہب:
احوط و اقوی پہلا مذہب ہے وہ یہ ہے کہ جب تک پندرہ اسباب وضع میں سے کوئی ایک سبب نہ پایا جائے، اس وقت تک حدیث کے موضوع ہونے کا حکم نہیں دیا جائے گا، اسی کو امام سخاوی رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور یہی مذہب قوی تر ہے، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اس پہلے مذہب کی تائید و توثیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’موضوع کی ایک قسم وہ ہے جس کو ایک جماعت نے، جس میں شیخ الاسلام بھی ہیں، نے بیان کیا ہے، وہ یہ کہ جس کو کذاب لوگ روایت کریں، اور ایک دوسری جماعت جس میں سے خاتم الحفاظ بھی ہیں، نے بیان کیا ہے کہ موضوع وہ ہے جس کو متہم بالکذب روایت کریں۔ امام سخاوی نے ان دونوں بیان کردہ قسموں کو ’شدید الضعف‘ کے مساوی قرار دیا ہے، جس کو عنقریب بیان کریں گے، امام سخاوی کا خیال ہے کہ موضوع کی پہچان مقررہ قرائن ہی سے ہوتی ہے، جیسا کہ روایت کرنے والا کذّاب یا وضّاع اس روایت میں متفرد ہو، جیسا کہ امام سخاوی نے اس کتاب میں بیان کیا ہے، میرے نزدیک یہی موقف قوی اور اقرب الی الصواب ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۵۳۴)
مزید اسی توثیق و تائید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’افادہ دہم  دیکھیے جو حدیث  اُن پندرہ  قرائن وضع سے منزہ ہو ہم  نے اُس کے بارے میں کلمات علماء تین طرز پر نقل کئے اصلاً موضوع نہ کہیں گے تفرد کذاب ہوتو موضوع تفرد متہم ہو تو موضوع، اور افادہ ۲۳  میں اشارہ کیا کہ ہمارے نزدیک مسلک اول قوی واقرب بصواب ہے  افادہ ۱۰ میں امام سخاوی سے اُس کی تصریح اور کلام علی قاری سے نظیر صریح ذکر کی دوسری نظیر صاف وسفید حدیث مرغ سپید کہ کلام علامہ مناوی سے افادہ ۲۳ میں گزری وہیں دلیل ثامن میں بشہادت حدیث وحکم عقل اس کی تقویت کا ایما کیا۔
والاٰن أقول: یہی مذہب فقیر نے کلامِ امیرالمومنین فی الحدیث شعبہ بن طجاج سے استنباط کیا، فائدہ تاسعہ میں آتا ہے کہ انہوں نے قسم کھاکر کہا ابان بن ابی عباس حدیث میں جھُوٹ بولتا ہے پھر خود ابان سے حدیث سنی، اس پر پُوچھا گیا، فرمایا اس حدیث سے کون صبر کرسکتا ہے، معلوم ہوا کہ مطعون بالکذب کی ہر حدیث موضوع نہیں ورنہ اس کی طرف ایسی رغبت اور وہ بھی ایسے امام اجل سے چہ معنی‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۵۸۶)
سند واحد کے اعتبار سے موضوع یا ضعیف:
بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ناقدین حدیث کو موضوع یا ضعیف کہتے ہیں؛ تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ حدیث مذکورہ سند کے اعتبار سے موضوع یا ضعیف ہے نہ یہ کہ یہ حدیث اپنے جمیع سند کے اعتبار سے موضوع یا ضعیف ہے مگر ناواقف  اور کلام ناقدین کو سمجھنے سے عاری لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ناقد و محقق نے جس حدیث کو موضوع یا ضعیف کہ دیا؛ تو وہ حدیث موضوع یا ضعیف ہی رہے گی، خواہ وہ حدیث دیگر سند کے اعتبار سے صحیح یا حسن ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے ممدوح اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اسی کج روی کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’جو حدیث فی نفسہٖ ان پندرہ (۱۵) دلائل سے منزّہ ہو محدّث اگر اُس پر حکم وضع کرے؛ تو اس سے نفس حدیث پر حکم لازم نہیں بلکہ صرف اُس سند پر جو اُس وقت اس کے پیشِ نظر ہے،بلکہ بارہا اسانید عدیدہ حاضرہ سے فقط ایک سند پر حکم مراد ہوتا ہے یعنی حدیث اگرچہ فی نفسہٖ ثابت ہے، مگر اس سند سے موضوع وباطل اور نہ صرف موضوع بلکہ انصافاًضعیف کہنے میں بھی یہ حاصل، حاصِل ائمہِ حدیث نے ان مطالب کی تصریحیں فرمائیں؛ تو کسی عالم کو حکم وضع یا ضعف دیکھ کر خواہی نخواہی یہ سمجھ لینا کہ اصل حدیث باطل یا ضعیف ہے، ناواقفوں کی فہم سخیف ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ ص۴۶۸)
پھر اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنے اس قول کو محدثین و ناقدین کے اقوال سے مزین فرماتے ہیں، آپ بھی ان میں سے بعض ملاحظہ فرمائیں، امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابراہیم بن موسٰی المروزی مالک سے نافع سے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی ہیں کہ امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو حدیث: ((طلب العلم فریضۃ)) کو کذب فرمایا،اس سے مراد یہ ہے کہ خاص اس سند سے کذب ہے، ورنہ اصل حدیث تو کئی سندوں ضعاف سے وارد ہے۔(ت)‘‘۔ (میزان الاعتدال،ذہبی رحمہ اللہ، ترجمۃ: ابراہیم بن موسٰی المروزی، ج۱ص۶۹، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری کے حوالہ سے ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جس کے موضوع ہونے میں محدثین کا اختلاف ہے؛ تو میں نے اس حدیث کا ذکر اس خطرہ کے پیشِ نظر ترک کیا کہ ممکن ہے یہ ایک سند کے اعتبارسے موضوع ہو اور دوسری سندکے اعتبار سے صحیح ہو۔۔۔ الخ (ت)‘‘۔ (الأسرار المرفوعہ فی الأخبار الموضوعۃ    الدافع للمؤلف لتالیف ہٰذا المختصر ، ص ۴۵۔۴۶، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اپنے دعوی کو مضبوط کرنے کے لیے مزید ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور سنیے حدیث: ((صلاۃ بسواک خیرمن سبعین صلاۃ بغیر سواک)) (مسند احمد بن حنبل، از مسند عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، ج۶ص۲۷۲، ط: دارالفکر، بیروت  ) (مسواک کے ساتھ نماز بے مسواک کی ستّر۷۰ نمازوں سے بہتر ہے) ابونعیم نے کتاب السواک میں دو(۲ )جید وصحیح سندوں سے روایت کی، امام ضیا نے اسے صحیح مختارہ اور حاکم نے صحیح مستدرک میں داخل کیا اور کہا شرطِ مسلم پر صحیح ہے۔ امام احمد وابن خزیمہ وحارث بن ابی اسامہ وابویعلی وابن عدی وبزار وحاکم وبیہقی وابونعیم وغیرہم اجلّہ محدثین نے بطریق عدیدہ واسانید متنوعہ احادیث اُمّ المومنین صدیقہ وعبداللہ بن عباس وعبداللہ بن عمرو جابربن عبداللہ وانس بن مالک وام الدرداء وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تخریج کی، جس کے بعد حدیث پر حکمِ بطلان قطعاً محال، بااینہمہ ابوعمر ابن عبدالبرنے تمہید میں امام ابن معین سے اُس کا بطلان نقل کیا،علّامہ شمس الدین سخاوی ’مقاصد حسنہ‘ میں اسے ذکر کرکے فرماتے ہیں:
’’قول ابن عبدالبر فی التمھید عن ابن معین أنہ حدیث باطل، ھو بالنسبۃ لماوقع لہ من طرقہ‘‘۔ (المقاصد الحسنۃ، سخاوی رحمہ اللہ، ص۲۶۳، رقم: ۶۲۵، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
یعنی امام ابن معین کا یہ فرمانا (کہ یہ حدیث باطل ہے اُس سند کی نسبت ہے جو انہیں پہنچی) ورنہ حدیث تو باطل کیا معنی، ضعیف بھی نہیں، اقل درجہ حسن ثابت ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۶۹)
کتب موضوعات کی حقیقت:
بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث اگر کتب موضوعات میں مذکور ہے؛ تو وہ حدیث موضوع ہے حالاں کہ اگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے؛ تو سمجھ میں آئے گا کہ اس کے متعلق کتابیں دو طرح کی ہیں، اول وہ جن میں صرف موضوع احادیث کو ذکر کرنے کا التزام کیا گیا، اگر مصنف نے موضوعیت کی نفی نہ کی ہو؛ تو اس کتاب میں ذکر کردہ حدیث مصنف کے نزدیک موضوع ہوگی مگر اس سے قطعا یہ لازم نہیں کہ وہ حدیث ہر ایک کے نزدیک موضوع ہو، دوم وہ کتابیں جو دوسروں کے حکم وضع کی تحقیق کے لیے تصنیف کی گئیں، ایسی کتابوں میں ذکر کی گئی حدیث خود مصنف کے نزدیک موضوع نہیں ہوگی جب تک کہ اس میں ذکر کردہ حدیث کے موضوع ہونے کی صراحت نہ کردے، چہ جائے کہ اس میں ذکر کردہ حدیث دوسروں کے نزدیک موضوع ہے، مگر دور حاضر میں بے علمی اور تشدد و تعنت کا عجیب حال ہے، پہلی قسم تو پہلی قسم دوسری قسم کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث فلاں کتاب میں موجود ہے؛ اس لیے حدیث موضوع ہے! اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اسی خاص نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’أقول: کتابیں کہ بیان احادیث موضوعہ میں تالیف ہوئیں دو قسم ہیں:  ایک وہ جن کے مصنفین نے خاص ایراد موضوعات ہی کا التزام کیا جیسے موضوعاتِ ابن الجوزی واباطیل جوزقانی وموضوعات صغانی ان کتابوں میں کسی حدیث کا ذکر بلاشبہہ یہی بتائے گا کہ اس مصنّف کے نزدیک موضوع ہے جب تک صراحۃً نفی موضوعیت نہ کردی ہو، ایسی ہی کتابوں کی نسبت یہ خیال بجا ہے کہ موضوع نہ سمجھتے تو کتابِ موضوعات میں کیوں ذکر کرتے پھر اس سے بھی صرف اتنا ہی ثابت ہوگا کہ زعمِ مصنّف میں موضوع ہے بہ نظر واقع عدمِ صحت بھی ثابت نہ ہوگا نہ کہ ضعف نہ کہ سقوط نہ کہ بطلان، ان سب کتب میں احادیث ضعیفہ درکنار بہت احادیث حسان وصحاح بھردی ہیں اور محض بے دلیل اُن پر حکمِ وضع لگادیا ہے جسے ائمہ محققین ونقاد منقحین نے بدلائل قاہرہ باطل کردیا جس کا بیان مقدمہ ابن الصلاح وتقریب امام نووی والفیہ امام عراقی وفتح المغیث امام سخاوی وغیرہا تصانیف علما سے اجمالاً اور تدریب امام خاتم الحفاظ سے قدرے مفصلاً اور انہی کی تعقبات ولآلی مصنوعہ والقول الحسن فی الذب عن السنن وامام الشان کے القول المسدد فی الذب عن مسند احمد وغیرہا سے بنہایت تفصیل واضح و روشن، مطالعہ تدریب سے ظاہر کہ ابن الجوزی نے اور تصانیف درکنار خود صحاح ستّہ ومسند امام احمد کی چوراسی(۸۴) حدیثوں کو موضوع کہہ دیا جن کی تفصیل یہ ہے: مسند امام احمد (۳۸) صحیح بخاری شریف بروایت حماد بن شاکر (۱) صحیح مسلم شریف (۱) سنن ابی داؤد (۴) جامع ترمذی(۲۳) سنن نسائی (۱) سنن ابن ماجہ (۱۶) دوم وہ جن کا قصد صرف ایراد موضوعات واقعیہ نہیں بلکہ دوسروں کے حکمِ وضع کی تحقیق وتنقیح جیسے لآلی امام سیوطی یا نظر وتنقید کے لئے اُن احادیث کا جمع کردینا جن پر کسی نے حکم وضع کیا، جیسے اُنہیں کا ذیل اللآلی امام ممدوح ’خطبہ مضوعہ‘ میں فرماتے ہیں:
’’ابن الجوزی أکثر من إخراج الضعیف بل والحسن بل والصحیح کمانبہ علی ذلک الأئمۃ الحفاظ وطال مااختلج فی ضمیری انتقاؤہ وانتقادہ فأورد الحدیث ثم أعقب بکلامہ ثم إن کان متعقبا نبھت علیہ اھ ملخصا’’۔(اللآلی المضوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، محدث سیوطی رحمہ اللہ،  خطبہ کتاب،ج۱ص۲، ط:  ادبیۃ،مصر)
ابن جوزی نے کتاب ’موضوعات‘ میں بہت ضعیف بلکہ حسن بلکہ صحیح حدیثیں روایت کردی ہیں کہ ائمہ حفاظ نے اس پر تنبیہ فرمائی مدت سے میرے دل میں تھا کہ اُس کا خلاصہ کروں اور اُس کا حکم پرکھوں؛ تو اب میں حدیث ذکر کرکے ابن جوزی کا کلام نقل کروں گا پھر اس پر جو اعتراض ہوگا بتاؤں گا۔
اُسی کے خاتمہ میں فرماتے ہیں : و إذ قد أتینا علی جمیع مافی کتابہ فنشرع الآن فی الزیادات علیہ، فمنھا مایقطع بوضعہ ومنھا مانص حافظ علی وضعہ ولی فیہ نظر فأذکرہ لینظر فیہ‘‘۔(اللآلی المضوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، محدث سیوطی رحمہ اللہ،  خطبہ کتاب،ج۱ص۲۵۱، ط:  ادبیۃ،مصر)
اب کہ ہم تمام موضوعاتِ ابن الجوزی بیان کرچکے؛ تو اب اُس پر زیادتی شروع کریں، ان میں کچھ وہ ہیں جن کا موضوع ہونا یقینی ہے اور کچھ وہ جنہیں کسی حافظ نے موضوع کہا اور میرے نزدیک اس میں کلام ہے؛ تو میں اُسے نظرِ غور کے لئے ذکر کروں گا۔
پُر ظاہر کہ ایسی تصانیف میں حدیث کا ہونا مصنف کے نزدیک بھی اس کی موضعیت نہ بتائے گا کہ اصل کتاب کا موضوع ہی تنہا ایراد موضوع نہیں بلکہ اگر کچھ حکم دیا یا سند متن پر کلام کیا ہے؛ تو اسے دیکھا جائے گا کہ صحت یا حسن یا ثبوت یا صلوح یا ضعف یا سقط یا بطلان کیا نکلتا ہے، مثلاً ’لایصح‘  (یہ صحیح نہیں۔ ت) یا ’لم یثبت‘ (یہ ثابت نہیں۔ ت) یا سند پر جہالت یا انقطاع سے طعن کیا؛ تو غایت درجہ ضعف معلوم ہُوا، اور اگر ’رفعہ‘ کی قید زائد کردی؛ تو صرف مرفوع کا ضعف اور بنظرِ مفہوم موقوف کا ثبوت مفہوم ہُوا، وعلی ہذا القیاس اور کچھ کلام نہ کیا تو امر محتاج نظر وتنقیح رہے گا کمالایخفی، شوکانی کی کتاب موضوعات مسمّی بہ فوائدِ مجموعہ بھی اسی قسمِ ثانی کے ہے، خود اُس نے خطبہ کتاب میں اس معنٰی کی تصریح کی کہ میں اس کتاب میں وہ حدیثیں بھی ذکر کروں گا جنہیں موضوع کہنا ہرگز صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہیں بلکہ ضُعف بھی خفیف ہے بلکہ اصلاً ضعف نہیں، حسن یا صحیح ہیں کہ اہلِ تشدّد کے کلام پر تنبیہ اور اُس کے رَد کی طرف اشارہ ہوجائے، عبارت اُس کی یہ ہے:
’’وقد أذکر مالایصح إطلاق اسم الموضوع علیہ بل غایۃ مافیہ أنہ ضعیف بمرۃ وقدیکون ضعیفا ضعفاً خفیفاً، وقدیکون أعلی من ذلک والحاصل علی ذکر ماکان ھٰکذا، التنبیہ علی أنہ قدعد ذلک بعض المصنفین موضوعات کابن الجوزی فإنہ تساھل فی موضوعاتہ حتی ذکر فیھا ماھو صحیح فضلا عن الحسن فضلا عن الضعیف و قد تعقبہ السیوطی بمافیہ کفایۃ، وقد أشرت إلی تعقبات ۔۔۔ الخ‘‘۔(الفوائد المجموعۃ، شوکانی، خطبۃ الکتاب، ص۴، ط:       دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
کبھی میں اس کتاب میں وہ احادیث ذکر کروں گا جن پر موضوع کا اطلاق درست نہیں بلکہ وہ ضعیف ہوں گی اور بعض کے ضعف میں خفت ہوگی بلکہ بعض میں ضعف ہی نہیں، ان کے ذکر کا سبب یہ ہے تاکہ اس بات پر تنبیہ کی جائے کہ بعض مصنفین نے انہیں موضوع قرار دیا ہے جیسے ابن جوزی نے اپنی موضوعات میں تساہل سے کام لیا ہے۔ حتی کہ صحیح روایات کو موضوعات میں ذکر کردیا چہ جائیکہ حسن اور ضعیف، امام سیوطی نے ان کا تعاقب کیا ہے، میں نے بھی ان کے تعقبات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔۔۔الخ (ت)
تو متکلمِین طائفہ کا یہ سفیہانہ زعم کہ حدیث تقبیل ابہامین شوکانی کے نزدیک موضوع نہ ہوتی؛ تو کتابِ موضوعات میں کیوں کرتا، کیسی جہالتِ فاحشہ ہے۔
تنبیہ: ہر چند یہ افادہ اُن گیارہ افادات سابقہ سے زیادہ متعلق تھا جن میں حضرات طائفہ کے زعمِ موضوعیت کا ابطال ہوا مگر ازانجا کہ ایسی لچربے معنی بات سے توہمِ موضوعیت کسی ذی علم کا کام نہ تھا؛ لہذا ان افادات کے ساتھ منسلک کیا کہ واضح ہوکہ ذکر فی الموضوعات ضعفِ شدید کو بھی مستلزم نہیں جو ایک مسلک پر قبول فی الفضائل میں مخل ہو بلکہ حقیقۃ نفس ذکر بے ملاحظہ حکم، تو مفید مطلق ضعف بھی نہیں کہ دونوں قسم میں صحاح وحسان تک موجود ہیں کماتبین۔
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ وہابیوں کے امام شوکانی کی ناقص فہم پر متنبہ کرتے ہوئے ایک اہم امر کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’لطیفہ :أقول: حضرات وہابیہ کے پچھلے متکلم اگر موضوعات شوکانی کو موضوع نہ سمجھے تو کیا عجب کہ خود ان کے امام شوکانی کی سمجھ بھی ایسی ہی ناقص اور ناکافی تھی، یہیں خطبہ موضوعات میں علمائے نافیان کذب کی دو قسمیں کیں: ایک وہ جنہوں نے رواۃ ضعفا وکذابین وغیرہم کے بیان میں تصنیفیں کیں، جیسے کامل ومیزان وغیرہما، وقسم:جعلوا مصنفاتھم مختصۃ بالأحادیث الموضوعۃ (فواعد مجموعۃ، شوکانی) دوسرے وہ جنہوں نے اپنی تصانیف احادیث موضوعہ سے خاص کیں جیسے ابن جوزی وصغانی وغیرہما۔
اور اسی قسم دوم میں مقاصد حسنہ امام سخاوی کو گن دیا حالانکہ وہ ہرگز تصانیف  مختصہ بہ موضوعات سے نہیں بلکہ اُس کا مقصود ان احادیث کا حال بیان کرنا ہے جو زبانوں پر دائر ہیں، عام ازیں کہ صحیح ہوں یا حسن یا ضعیف یا بے اصل یا باطل۔
ولہذا اُس میں بہت احادیث کو ذکر کرکے فرماتے ہیں: یہ صحیح بخاری میں ہے یہ صحیح مسلم کی ہے، یہ صحیحین دونوں کے متفق علیہ ہے، بھلے مانس نے اُس کے نام کو بھی خیال نہ کیا: المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الأحادیث المشتھرۃ علی الألسنۃ (مقاصد حسنہ زبانوں پر دائر بہت سی مشہور حدیثوں کے بیان میں۔ ت) نہ اُسی کو آنکھ کھول کر دیکھا، اس کے پہلے ہی ورق کی چوتھی حدیث ہے، حدیث: آیۃالمنافق ثلث متفق علیہ (منافق کی تین علامات ہیں، بخاری ومسلم۔ ت) وہیں ساتویں حدیث ہے حدیث: ابدأ بنفسک، مسلم فی الزکٰوۃ من صحیحہ (اپنے آپ سے ابتدا کرو، اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں زکٰوۃ کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ت) طرفہ یہ کہ انہیں میں تخریج الإحیاء للعراقی بھی گن دی، سبحان اللہ! کہاں تخریج احادیث کتاب، کہاں تصنیف فی الموضوعات، اسی فہم پر ابوحنیفہ و شافعی سے دعوی مساوات، و لاحول و لاقوۃ إلا باللہ العلی العظیم‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۵۴۸-۵۵۱)
امام ابن عراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ زرکشی نے اپنی نکت علی ابن الصلاح میں لکھا کہ ہمارے قول: موضوع اور لایصح میں بہت بڑا فرق ہے، پہلی صورت میں کذب اور گھڑنے کا اثبات ہے اور دوسری صورت میں عدم ثبوت کی اطلاع ہوتی ہے اور اس سے عدمِ وجود کا اثبات لازم نہیں آتا اور یہ ضابطہ ہر اس حدیث میں جاری ہوگا جس کے بارے میں ابن جوزی نے ’لایصح‘ کہا یا اس کی مثل کوئی کلمہ کہا ہے، میں کہتا ہوں کہ حدیث کو ان الفاظ سے تعبیر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ان کے لئے اس حدیث میں کوئی ایسا ظاہری قرینہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ حدیث موضوع ہو، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے نزدیک اس میں موضوع ہونے کا احتمال ہے؛ کیونکہ یہ متروک یا کذاب سے مروی ہے اور یہ بات اس وقت تام ہوگی جبکہ وہ حدیث صرف اور صرف کذاب یا متہم سے مروی ہو، علاوہ ازیں حافظ ابن حجر نے ’نخجۃ الفکر‘ میں اسے متروک کا نام دیا ہے، موضوع کی لڑی میں اس کو شامل نہیں کیا۔ (ت)‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ، ابن عراق رحمہ اللہ،   کتاب التوحید، فصل ثانی،ج۱ص۱۴۰، ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اس قول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دیکھئے تفرد کذاب کو صرف احتمال وضع کا مورث بتایا اور ابن الجوزی نے موضوعات میں جہاں موضوع کہنے سے لایصح وغیرہ کی طرف عدول کیا اس کا یہی نکتہ ٹھہرایا کہ بوجہ تفرد کذاب یا متہم احتمال وضع تھا، اگر غلبہ ظن ہوتا حکم بالوضع سے کیا مانع تھا کہ آخر صحیح موضوع وغیرہما تمام احکام میں غلبہ ظن کافی اور بلاشبہہ حجتِ شرعی ہے۔
            أقول: زرکشی کے الفاظ ’’خص ھذا‘‘ میں اشارہ اقرب کی طرف یعنی متہم کی طرف ہے تو یہ وہی ہے جس کے لئے حافظ ابن حجر نے متروک کا نام خاص کیا ہے لیکن جس روایت میں کذب متفرد ہو وہ حافظ کے نزدیک بھی عین موضوع ہے کیونکہ انہوں نے خود موضوع کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ جس میں کذاب راوی کا طعن ہو، اس پر توجہ کرو یہ وہ امور تھے جو میرے لئے ظاہر ہوئے اور تمام حمداللہ کے لئے جو واحد وبلند ہے (ت) (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۵۹۳)
            اس کے بعد تنزیہ الشریعۃ کی عبارت سے ایک اہم نکتہ اخذ کرکے اس پر  متنبہ کرتے ہوئے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
            ’’ اس عبارت تنزیہ الشریعۃ سے ایک اور نفیس فائدہ حاصل ہوا کہ کتب موضوعات قسم اول میں بھی لفظ حکم پر لحاظ چاہئے اگر صراحۃً موضوع یا باطل کہہ دیا تو مؤلف کے نزدیک وضع ثابت ہوگی اور اگر لایصح وغیرہ ہلکے الفاظ کی طرف عدول کیا تو آخر یہ عدول بے چیزے نیست ظاہراً خود مؤلف کو اُس پر حکمِ وضع کی جرأت نہ ہُوئی صرف احتمال درج کتاب کیا، فافہم فلعلہ حسن وجیہ ولم أرہ لغیرہ فلیحفظ (اسے اچھی طرح سمجھ لیجئے شاید یہ بہتر توجیہ ہو اور میں نے اسے کسی غیر سے نہیں پڑھا پس اسے محفوظ کرلیجئے۔ ت) ‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۵۹۴)
موضوع حدیث کی مثال:
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ موضوع و من گھڑت حدیث کو ضعیف قرارد دے کر اس پر خود عمل کرتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں، یہ سراسر بہتان و افترا ہے، حقیقت میں اس طرح کی  ہفوات صرف اس وجہ سے ہے کہ ایسے لوگ اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی دقت نظری کو سمجھے ہی نہیں اور شاید کبھی سمجھ بھی نہ پائیں؛ کیوں کہ اجلہ علما و محدثین کی باتوں کو سمجھنے کے لیے علم کے ساتھ ساتھ توفیق الہی بھی چاہیے اور یہ قسمت والوں ہی کو ملتی ہے، اس افترا سے ہمارے ممدوح اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی ذات بالکل بری و پاک و صاف ہے، اس دعوی پر آپ کی طرف سے حدیث موضوع کو موضوع و من گھڑت قرار دینا یہ بذات خود دلیل بین اور واضح ثبوت ہے، یہاں پر دو چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
پہلی مثال: سوال: ’’ایک واعظ نے یہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ جناب رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ تم وحی کہاں سے اور کس طرح لاتے ہو؟آپ نے جواب عرض کیا کہ ایک پردہ سے آواز آتی ہے ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کبھی تم نے پردہ اٹھا کر دیکھا؟انہوں نے جواب دیا کہ میری یہ مجال نہیں کہ پردہ کو اٹھاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ اب کی مرتبہ پردہ اٹھاکردیکھنا۔ حضرت جبرئیل نے ایسا ہی کیا، کیادیکھتے ہیں کہ پردہ کے اندرخود حضور اقدس صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور عمامہ سر پر باندھے ہیں اور سامنے شیشہ رکھا ہے اور فرمارہے ہیں کہ میرے بندے کو یہ ہدایت کرنا،یہ روایت کہاں تک صحیح ہے، اگر غلط ہے تو اس کا بیان کرنے والا کس حکم کے تحت میں داخل ہے؟
الجواب یہ روایت محض جھوٹ اور کذب وافترا ہے اور اس کا بیان کرنے والا ابلیس کا مسخرہ اور اگر اس کے ظاہر مضمون کا معتقد ہے؛ تو صریح کافر۔واﷲ تعالٰی اعلم‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۱۴ص۳۰۸، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
دوسری مثال: اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ جو عوام میں بنام حدیث مشہور ہے کہ ذابح البقر وقاطع الشجر جنت میں نہ جائے گا'' محض غلط ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۳ص۵۳۹)
اسی روایت کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’وہ جو حدیث لوگوں نے دربارہ ذابح بقروقاطع شجر بنارکھی ہے محض باطل وموضوع ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۰ص۲۵۰)
تیسری مثال:  اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ حقہ نوشی کے خلاف حدیث گڑھنے والوں کا رد اور حدیث کے موضوع ہونے پر متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ فقیرنے اس باب میں زیادہ بے باکی متقشفہ افغانستان سے پائی کہ چندکتب فقہ پڑھ کرتقشف وتصلف کوحد سے بڑھاتے اورعامہ امت مرحومہ کوناحق فاسق وفاجربتاتے ہیں اور جب اپنے دعوی باطل پردلیل نہیں پاتے ناچارحدیثیں گھڑتے بناتے ہیں، میں نے ان کی بعض تصانیف میں ایک حدیث دیکھی کہ: من شرب الدخان فکأنما شرب دم الأنبیاء۔جس نے حقہ پیاگویا پیغمبروں کاخون پیا۔اوردوسری حدیث یوں تراشی :من شرب الدخان فکأنما زنی بأمّہ فی الکعبۃ۔جس نے حقہ پیاگویا اس نے کعبہ معظمہ میں اپنی ماں سے زناکیا۔
إنّا ﷲ و إنّا إلیہ راجعون (بیشک ہم اﷲ تعالٰی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ت) جہل بھی کیابد بلا ہے، خصوصاً مرکب کہ لادواہے۔ مسکین نے ایک مباح شرعی کے حرام کرنے کو دیدہ ودانستہ مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم  پربہتان اُٹھایا اورحدیث متواتر: ((من کذب علیّ متعمّدا فلیتبوأ مقعدہ من النار)) کا اصلاً دھیان نہ لایا،رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : جومجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ باندھے اپناٹھکانہ جہنم بنالے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۵ص۸۳)
اس کی مزید مثال اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی کتاب: فتاوی رضویہ مترجم ج۲۲ص۴۹۷ پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
النوع الثالث و العشرون، صفۃ من تقبل روایتہ:
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے مجہول راوی کی حدیث قبول ہونے اور نہ ہونے کے متعلق متعدد مقامات پر گفتگو کی ہے اور ہر جگہ اپنی گفتگو کو علماے ربانیین کے اقوال و آرا سے مزین فرمایا، یہاں پر مجہول کی تینوں اقسام ہمارے ممدوح اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی علمی گفتگو پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’مجہول کی تین قسمیں ہیں: اول مستور: جس کی عدالت ظاہری معلوم اور باطنی کی تحقیق نہیں،اس قسم کے راوی صحیح مسلم شریف میں بکثرت ہیں۔
دوم مجہول العین: جس سے صرف ایک ہی شخص نے روایت کی ہو۔وھذا علی نزاع فیہ؛ فإن من العلماء من نفی الجھالۃ بروایۃ واحد معتمد مطلقا أو إذاکان لایروی إلا عن عدل عندہ،کیحیی بن سعید القطان و عبد الرحمن بن مھدی و الإمام أحمد فی مسندہ، و ھناک أقوال أخر۔
اس قسم میں نزاع ہے بعض محدثین نے مطلقاً صرف ایک ثقہ راوی کی وجہ سے جہالت کی نفی کی ہے یا اس شرط کے ساتھ نفی کی ہے کہ وہ اس سے روایت کرتا ہے جو اس کے ہاں عادل ہے مثلاً یحیٰی بن سعید بن القطان،عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمداپنی مسند میں اور یہاں دیگر اقوال بھی ہیں۔ (ت)
سوم مجہول الحال: جس کی عدالت ظاہری وباطنی کچھ ثابت نہیں، وقدیطلق علی مایشمل المستور (کبھی اس کا اطلاق ایسے معنی پر ہوتا ہے جو مستور کو شامل ہوجائے۔(ت)
تینوں اقسام کا حکم: قسم اوّل یعنی مستور تو جمہور محققین کے نزدیک مقبول ہے، یہی مذہب امام الائمہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کاہے، فتح المغیث میں ہے:قبلہ أبوحنیفۃ خلافا للشافعی  (امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اسے قبول کرتے ہیں امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس میں اختلاف رکھتے ہیں ۔ ت) (فتح المغیث شرح ألفیۃ الحدیث،    معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد، ج۲ص۵۲، ط: دارالامام الطبری، بیروت)
امام نووی فرماتے ہیں یہی صحیح ہے، قالہ فی شرح المھذب، ذکرہ فی التدریب،وکذلک مال إلی اختیارہ الإمام أبوعمرو بن الصلاح فی مقدمتہ، حیث قال فی المسئلۃ الثامنۃ من النوع الثالث والعشرین: ویشبہ أن یکون العمل علی ھذا الرأی فی کثیر من کتب الحدیث المشھورۃ فی غیر واحد  من الرواۃ الذین تقادم العھد بھم وتعذرت الخبرۃ الباطنۃ بھم۔
یہ شرح المہذب میں ہے، تدریب میں بھی اسے ذکر کیا،امام ابوعمروبن الصلاح نے اپنے مقدمہ میں اسے ہی اختیار فرمایا،انہوں نے تیسویں (۳۰) نوع کے آٹھویں مسئلہ میں کہاہے، اس رائے پر متعدد ومشہور کتب میں عمل ہے جن میں بہت سے ایسے راویوں سے روایات لی گئی ہیں جن کا عہد بہت پُرانا ہے اور ان کی باطن کے معاملات سے آگاہی دشوار ہے۔ (ت) (مقدمۃ ابن الصلاح،    النوع الثالث والعشرون، ص۱۵۳، ط: فاروقی کتب خانہ، ملتان)
اور دو(۲) قسم باقی کو بعض اکابر حجّت جانتے، جمہور مورثِ ضعف مانتے ہیں، امام زین الدین عراقی الفیہ میں فرماتے ہیں:
واختلفوا ھل یقبل المجھول        وھو علی ثلثۃ مجعول
مجھول عین من لہ راو فقط        وردّہ الاکثر والقسم الوسط
مجھول حال باطن وظاھر        وحکمہ الردلدی الجماھر
الثالث المجھول للعدالۃ        فی باطن فقط فقدرأی لہ
حجیۃ بعض من منع            ماقبلہ منھم سلیم  فقطع
 (مجہول کے بارے میں علماے حدیث کا اختلاف ہے کہ آیا اسے قبول کیا جائیگا یا نہیں؟اس کی تین(۳) اقسام ہیں، مجہول العین جس کو صرف ایک شخص نے روایت کیا ہو، اسے اکثر نے رَد کردیا ہے۔اور دوسری قسم وہ مجہول ہے جس کے راوی کی ظاہری اور باطنی عدالت دونوں ثابت نہ ہوں، اسے جمہور نے رَد کردیا ہے، تیسری قسم وہ مجہول ہے جس میں راوی کی صرف باطنی عدالت ثابت نہ ہو،اسے بعض نے رَد کیاہے اور بعض نے قبول کیاہے اور قبول کرنے والوں میں امام سلیم ہیں تو انہوں نے قطعی قبول کیا ہے۔ ت) (ألفیۃ فی أصول الحدیث مع فتح المغیث، معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد، ج۲ص۴۳، ط: دارالامام الطبری، بیروت)
اسی طرح تقریب النواوی وتدریب الراوی وغیرہما میں ہے بلکہ امام نووی نے مجہول العین کا قبول بھی بہت محققین کی طرف نسبت فرمایا، مقدمہ منہاج میں فرماتے ہیں:
المجھول أقسام مجھول العدالۃ ظاھراً و باطنا، و مجھولھا باطنا مع وجودھا ظاھرا و ھو المستور، و مجھول العین، فأما الأول فالجمھور علی أنہ لایحتج بہ، و أمّا الآخران فاحتج بھما کثیرون من المحققین۔
مجہول کی کئی اقسام ہیں،ایک یہ کہ راوی کی عدالت ظاہر وباطن میں غیر ثابت ہو، دُوسری قسم عدالت باطناً مجہول مگر ظاہراً معلوم ہو، اور یہ مستور ہے، اور تیسری قسم مجہول العین ہے، پہلی قسم کے بارے میں جمہور کا اتفاق ہے کہ یہ قابلِ قبول نہیں اور دوسری دونوں اقسام سے اکثر محققین استدلال کرتے ہیں۔ (ت) (مقدمۃ للإمام النووی من شرح صحیح مسلم، ص۱۷، ط: قدیمی کتب خانہ کراچی)
بلکہ امام اجل عارف باللہ سیدی ابوطالب مکّی قدس سرّہ الملکی اسی کو فقہائے کرام واولیائے عظام قدست اسرارہم کا مذہب قرار دیتے ہیں،کتاب مستطاب جلیل القدر عظیم الفخر ’قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب‘ کی فصل (۳۱) میں فرماتے ہیں:
بعض مایضعف بہ رواۃ الحدیث وتعلل بہ أحادیثھم، لایکون تعلیلا و لاجرحاً عند الفقہاء و لا عند العلماء باللّٰہ تعالٰی مثل أن یکون الراوی مجھولا، لإیثارہ الخمول وقد ندب إلیہ، أو لقلۃ الأتباع لہ إذلم یقم لھم الأثرۃ عنہ۔
یعنی بعض وہ باتیں جن کے سبب راویوں کو ضعیف اور ان کی حدیثوں کو غیر صحیح کہہ دیا جاتاہے، فقہا وعلما کے نزدیک باعثِ ضعف وجرح نہیں ہوتیں،جیسے راوی کا مجہول ہونا؛اس لئے کہ اس نے گمنامی پسندکی کہ خود شرع مطہر نے اس کی ترغیب فرمائی یا اُس کے شاگرد کم ہُوئے کہ لوگوں کو اس سے روایت کا اتفاق نہ ہوا۔ (قوت القلوب، فصل الحادی والثلاثون، باب تفضیل الاخبار، ج۱ص۱۷۷، ط: دارصادر بیروت، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۴۳-۴۴۵)
مجہول راوی کی حدیث کا حکم:
بعض متشددین کا عجیب حال ہے کہ اگر کسی حدیث کی سند میں کوئی راوی مجہول ہوتا ہے تو محض اس مجہول راوی  کی بنا پر حدیث کو موضوع کہ دیتے ہیں، حالاں کہ اس کی وجہ سے اگر حدیث پر کوئی اثر ہوگا تو صرف اتنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے و بس، اسی بے جا تشدد کا رد کرتے ہوئے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’افادہ دوم : (جہالتِ راوی سے حدیث پر کیا اثر پڑتا ہے)کسی حدیث کی سند میں راوی کا مجہول ہونا اگر اثر کرتا ہے تو صرف اس قدر کہ اُسے ضعیف کہاجائے نہ کہ باطل وموضوع بلکہ علما کو اس میں اختلاف ہے کہ جہالت قادح صحت ومانع حجیت بھی ہے یا نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج۵ص۴۴۳)
پھر مذکورہ بالا اقسام مجہول اور ان کے قبول و عدم قبول کے بارے میں کلام کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ بہرحال نزاع اس میں ہے کہ جہالت سرے سے وجوہِ طعن سے بھی ہے یا نہیں، یہ کوئی نہیں کہتاکہ جس حدیث کا راوی مجہول ہو خواہی نخواہی باطل ومجعول ہو، بعض متشددین نے اگر دعوے سے قاصر دلیل ذکر بھی کی، علما نے فوراً ردوابطال فرمادیاکہ جہالت کو وضع سے کیا علاقہ، مولانا علی قاری ’رسالہ فضائل نصف شعبان‘ میں فرماتے ہیں:
جھالۃ بعض الرواۃ لاتقتضی کون الحدیث موضوعاً وکذا نکارۃ الألفاظ، فینبغی أن یحکم علیہ بأنہ ضعیف، ثم یعمل بالضعیف فی فضائل الأعمال۔
یعنی بعض راویوں کا مجہول یا الفاظ کا بے قاعدہ ہونا یہ نہیں چاہتا کہ حدیث موضوع ہو، ہاں ضعیف کہو، پھر فضائل اعمال میں ضعیف پر عمل کیاجاتا ہے۔ (رسالہ فضائل نصف شعبان، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۴۸)
            اس کے بعد دیگر محدثین کے اقوال سے اپنی بات کو مزید مضبوط کرنے کےبعد اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
            ’’خلاصہ یہ کہ سند میں متعدد مجہولوں کا ہونا حدیث میں صرف ضعف کا مورث ہے اور صرف ضعیف کا مرتبہ حدیث منکر سے احسن واعلٰی ہے جسے ضعیف راوی نے ثقہ راویوں کے خلاف روایت کیاہو، پھر وہ بھی موضوع نہیں، تو فقط ضعیف کو موضوعیت سے کیا علاقہ،امام جلیل جلال الدین سیوطی نے ان مطالب کی تصریح فرمائی، واللہ تعالٰی اعلم‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۴۸)
            بدعتی کی روایت کاحکم:
اگر بدعتی اپنی بدعت کی طرف بلاتا نہ ہو اور نہ ہی اس کی تبلیغ کرنے کی کوشش کرتا ہو؛ تو ایسے بدعتی کی روایت کردہ حدیث قبول کی جائے گی، خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور بعض علما کی رائے یہ ہے کہ اگر بدعتی اپنی بدعت کی طرف بلاتا نہیں ہے تو اس کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا اور اگر اپنی بدعت کی طرف بلاتا ہے؛ تو اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا؛ کیوں کہ اپنی بدعت کی تزئین کاری کبھی اسے روایات کو اپنے مذہب کے مطابق تحریف کرنے پر ابھارے گا، یہ قول زیادہ ظاہر و معتدل ہے، یہی اکثر علما کا مذہب ہے‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الثالث و العشرون، السابعۃ، ج۱۳۵۸، ط: دار طیبۃ)
بعض احمق اور علم حدیث سے نابلد لوگوں نے جب رمی بالتشیع کی جرح کی وجہ سے راوی محمد بن اسحاق کی حدیث کو رد کرنے کی کوشش کی بلکہ محض تشیع کی وجہ سے ان پر رفض کا حکم لگایا؛ تو اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے محدثین کی آرا اور اقوال علما کی روشنی میں تشیع و رفض اور شیعی و رمی بالتشیع کے فرق کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ بدعتی کے متعلق اسی معتدل حکم کی طرف بھی اشارہ فرمایا، ملاحظہ فرمائیں:
’’نفحہ ۲: تقر یب کے قو ل: ان پر تشیع کی تہمت لگا ئی گئی ہے، سے دھو کا کھا کر ان پر رفض کا عیب لگا نا بد بو دار جہا لت ہے، رفض و تشیع میں زمین و آسما ن کا فر ق ہے، بسا اوقا ت لفظ تشیع کا اطلا ق حضر ت مو لا علی کو عثمان غنی رضی اللہ تعا لی عنہم پر فضیلت دینے پر ہو تا ہے جبکہ یہ ائمہ با لخصو ص اعلا م کو فہ کا مذہب ہے، صا حب تقریب نے خو د بھی ’ہد ی السا ری‘ میں فر ما یا: تشیع حضر ت علی کی صحا بہ سے زائدمحبت کا نا م ہے؛ تو اگر کو ئی آپ کو ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے؛ تو وہ غا لی شیعہ ہے اوراس کے ساتھ گا لی اور بغض کا اظہا ر کر ے تو غا لی رافضی ہے۔اور اس کی پو ر ی تحقیق ہما ر ی تحر یر ا ت حد یثیہ میں ہے۔ (تقر یب التہذیب، حافظ الشان ابن حجر رحمہ اللہ، تر جمہ: محمد بن اسحا ق، ج۲ص۵۴،رقم: ۵۷۴۳، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیر وت، ھد ی السا ری مقد مۃ فتح البا ری، حافظ الشان ابن حجر رحمہ اللہ،   فصل فی تمییز أسبا ب الطعن فی المذکو رین، ج۲ص۲۳۱، ط:     مصطفی البا بی، مصر)
وفی المقا صد للعلا مۃ التفتا زا نی: الأ فضلیۃ عند نا بتر تیب الخلا فۃ مع تر دد فیما بین عثمان وعلی رضی اللہ تعا لی عنہما۔
مقا صد علامہ تفتازانی میں ہے: ہما رے نز دیک خلفا ئے اربعہ میں فضلیت، خلا فت کی تر تیب پر ہے، حضر ت عثمان و علی رضی اللہ تعالی عنہما میں تردد کے سا تھ۔ (المقا صد علی ہامش شرح المقا صد، امام تفتازانی رحمہ اللہ، البحث السا دس، الأفضلیۃ بترتیب الخلا فۃ، ج۲ص۲۹۸، ط:  دار المعا ر ف النعما نیۃ، لا ہور)
وفی شر حہا لہ: قا ل أھل السنۃ الأ فضل أبو بکر ثم عمر ثم عثما ن ثم علی و قد ما ل بعض منھم إلی تفضیل علیّ علی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما والبعض إلی التو قف فیما بینھما۔اھ۔
شر ح مقا صد للتفتا زانی میں ہے: اہل سنت نے کہا کہ سب سے افضل ابو بکر پھر عمر پھر عثما ن پھر علی اور بعض حضر ت علی کو عثما ن سے افضل ما نتے ہیں، رضو ا ن اللہ تعا لی علیہم اجمعین اور بعض ان دو نو ں کے در میا ن توقف کے قا ئل ہیں۔ (شر ح المقا صد، امام تفتازانی رحمہ اللہ،  البحث السا دس، الأفضلیۃ بتر تیب الخلا فۃ، ج۲ص۲۹۸، ط:  دار المعا ر ف النعما نیۃ، لاہور)
و فی الصوا عق للإ ما م ابن حجر: جز م الکو فیو ن و منھم سفیان الثو ر ی بتفضیل علیٍّ علی عثمان و قیل: با لوقف عن التفاضل بینھما وھو روایۃ عن ما لک۔ اھ۔
اما م ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی صوا عق محر قہ میں ہے: ائمہ کو فہ (انہیں میں سفیا ن ثو ر ی ہیں) نے حضر ت علی کو حضر ت عثما ن پر بالیقین افضل گر دا نا اور اما م ما لک وغیر ہ سے تو قف مر و ی ہے۔ (الصو ا عق المحر قۃ، ابن حجر مکی رحمہ اللہ، البا ب الثا لث،     الفصل الأول، ص۵۷، ط:مکتبہ مجید یہ، ملتا ن)
و فی تہذیب التہذیب فی تر جمۃ الإ ما م الأ عمش: کا ن فیہ تشیع ۔اھ۔
تہذیب التہذیب میں حضرت امام اعمش کے حالات میں تحریر ہے کہ ان میں تشیع تھا (تہذیب التہذیب، حافظ الشان ابن حجر رحمہ اللہ، تر جمہ: سلیما ن بن مہران المعر و ف بالاعمش، ج۲ص۱۱۰، ط:  مو سسۃ الر سا لۃ، بیر و ت)
و فی شر ح الفقہ الأ کبر لعلی قا ر ی: رو ی عن أبی حنیفۃ تفضیل علی علٰی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما و الصحیح ما علیہ جمہو ر أھل السنۃ و ھو ظا ہر من قو ل أبی حنیفۃ رضی اللہ تعا لی عنہ علی ما رتبہ ھنا وفق مرا تب الخلا فۃ ۔ اھ۔
اور امام علی قاری رحمہ اللہ کی ’شرح فقہ اکبر ‘ ہے: حضر ت ابو حنیفہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے حضرت عثما ن غنی پر حضر ت علی کی فضیلت مر و ی ہے (رضی اللہ تعا لی عنہ) لیکن صحیح وہی ہے جس پر جمہو ر اہل سنت ہیں اور فقہ اکبر میں اس کو تر تیب خلا فت کے مو افق رکھنے سے معلو م ہو تا ہے کہ یہی آپ کا قو ل بھی ہے۔ (منح الر وض الأ زہر شر ح الفقہ الأ کبر، محدث علی قاری رحمہ اللہ، أفضل النا س بعدہ۔۔ الخ، ص۱۸۷، ط: دا رالبشا ئر الإ سلا میۃ، بیرو ت)
’’ثم لا یذ ھب عنک الفر ق بین شیعی و رمی با لتشیع و کم فی الصحیحین ممن رمی بہ و قد عد فی ھد ی السا ر ی عشر ین منھم فی مسانید صحیح البخا ر ی فضلا عن تعلیقا تہ، بل فیہ مثل عبا د بن یعقو ب رافضی جلد ثم الشبھۃ لا قیمۃ لہا رأسا فکم فی الصحیحین ممن رمی  بأ نو ا ع البد ع و قد تقر ر عند ھم أن المبتدع تقبل روا یۃ إذا لم یکن دا عیۃ۔
پھر لفظ شیعی اور رمی با لتشیع کا فر ق بھی ملحو ظ رہنا چا ہیے ۔بخا ری کے کتنے ہی ایسے راوی ہیں جن پر تشیع کا الزا م ہے ۔’ہد ی السا ری‘ میں ایسی بیس سند و ں کی تفصیل ہے جو خاص مسا نید بخا ری میں ہیں، تعلیقات کا تو ذکر ہی الگ رہا بلکہ روا ۃ بخا ر ی میں عبا د بن یعقوب جیسا را فضی ہے جس پر کو ڑے کی حد جا ری کی گئی تھی اور جرح میں شبہہ کی تو کو ئی اہمیت نہیں خو د بخا ری ومسلم میں بہت سے روا ی ہیں جن پر مختلف بدعات  کا شبہہ کیا گیا اور اصول محد ثین کی رو سے خو د بد عتی بھی اپنے مذہب نا مہذب کا دا عی و مبلغ نہ ہو تو اس کی روایت مقبول ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، ج۲۸ص۷۷۔۸۱، ط: رضا فاؤنڈیشن)
            مراتب جرح  و تعدیل:
            ایسا غافل راوی جو دوسرے کی تلقین قبول کرے، اس کی بھی حدیث موضوع نہیں قرار دی جائے گی، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ اس حکم کو بیان کرنے کے بعد حافظ الشان امام ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کردہ مراتب جرح بنام اسباب طعن ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’امام الشان نے نخبۃ الفکر میں اسباب طعن کی دس(۱۰)  قسمیں فرمائیں:
 (۱)    کذب: کہ معاذاللہ قصداً حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افترا کرے (۲)    تہمت: کذب کہ جو حدیث اُس کے سوا دوسرے نے روایت نہ کی، مخالف قواعدِ دینیہ ہویا اپنے کلام میں جھُوٹ کا عادی ہو۔(۳)    کثرت غلط    (۴)    غفلت     (۵)    فسق        (۶)    وہم (۷)    مخالفتِ ثقات    (۸)    جہالت   (۹)    بدعت        (۱۰)    سُوءِ حفظ۔
اور تصریح فرمائی کہ ہر پہلا دوسرے سے سخت تر ہے:
حیث قال: الطعن یکون بعشرۃ أشیاء بعضھا أشد فی القدح من بعض وترتیبھا علی الأشد فالأشد فی موجب الرد۔اھ ملخصا۔
فرمایا: اسبابِ طعن دس (۱۰) اشیا ہیں، بعض بعض سے جرح میں اشد ہیں اور موجب رد میں ان کی ترتیب اشد فالاشد‘ کے اعتبار سے ہے اھ ملخصا (ت) (شرح نخبۃ الفکر، ابن حجر رحمہ اللہ، بحث المرسل الخفی  ،ص۵۴، ط:  مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ، لاہور)
نیز اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ امام نواوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے حدیث نقل کرنے والے مقبول، متروک اور مختلف فیہ طبقات کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’امام نووی ’مقدمہ منہاج‘ میں ابوعلی غسانی جیانی سے ناقل:
الناقلون سبع طبقات، ثلٰث مقبولۃ، و ثلٰث متروکۃ و السابعۃ مختلف فیہا(إلی قولہ)السابعۃ قوم مجھولون انفردوا بروایات، لم یتابعوا علیھا، فقبلھم قوم، ووقفھم اٰخرون ۔
ناقلین کے سات(۷) درجات ہیں، تین(۳) مقبول، تین (۳) متروک، اور ساتواں مختلف فیہ ہے (اس قول تک) ساتواں طبقہ وہ لوگ ہیں جو مجہول ہیں اور روایات کرلینے میں منفرد ہیں، ان کی متابعت کسی نے نہیں کی، بعض نے انہیں قبول کیا ہے اور بعض نے ان کے بارے میں توقف سے کام لیا ہے۔ (ت) (مقدمہ منہاج، محدث نووی من شرح صحیح مسلم، ط: قدیمی کتب خانہ کراچی ص ۱۷، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۴۵۳)
النوع الثالث و الثلاثون، المسلسل:
تعریف: وہ حدیث ہے جس کے اسناد کے رجال ایک ہی صفت یا ایک ہی حالت میں حدیث روایت کریں، یہ حالت و صفت کبھی راوی اور کبھی روایت کی ہوگی۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الثالث و الثلاثون، ج۲ص۶۴۰)
مسلسل احادیث کی مثالیں:
            رایوں کی ایک ہی حالت جیسے حدیث مسلسل بالإضافۃ، علماے کرام اور محدثین عظام جس سے روایت لینی ہے پہلے اس کی ضیافت کرتے پھر اس کے بعد اس سے حدیث لیتے، اسی طرح ہر راوی اپنے سابق راوی کے ساتھ کرتا ہے اور حدیث لیتا ہے، اس حدیث کو مسلسل بالإضافۃ کہتے ہیں، یہ حدیث اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے خود دو طرق سے لی ہے، اس کے دیدار سے بھی اپنی آنکھوں کو جلا بخشیں، حدیث مسلسل بالإضافہ کے متعلق خود اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی زبانی مندرجہ ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں:
            ’’سب سے طرفہ تر یہ کہ حدیث مسلسل بالاضافۃ کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کی اجازت مع ضیافت آب وخرما اپنے شیخ علامہ ابوطاہر مدنی سے لی اور اسی طرح مع ضیافت اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ عبدالعزیز اور انہوں نے اپنے نواسے میاں اسحاق صاحب کو دی اُس کا مدار عبداللہ بن میمون قداح متروک پر ہونے کے علاوہ خود الفاظِ متن ہی سخت منکر واقع ہوئے ہیں بااینہمہ اکابر محدثین کرام آج تک اس سے برکت تسلسل چاہا کئے ہیں ان کے اسماءِ کرام سلسلہ سند سے ظاہر، شیخ شیخانی الحدیث مولانا عابد سندی مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے ’ثبت حصر الشارد‘ میں اُسے ذکر کرکے فرماتے ہیں:
            یہ حدیث صرف بروایت قداح آئی اور متعدد ائمہ نے اُس کے متہم بکذب ووضع ہونے کی تصریح فرمائی، امام سخاوی فرماتے ہیں: اُس کا ذکر بے بیان موضوعیت روا نہیں مگر محدثین کثرت سے کلام اور مبالغہ آرائی کرتے رہے اور اُس پر وضع حدیث کا طعن کرتے رہے پھر بھی ہمیشہ اس حدیث کو ذکر کرتے، اس سے مسلسل برکت چاہتے رہے ہیں۔ اھ (ت) (ثبت حصر الشارد)
أقول: یہ حدیث ہمیں اپنے مشائخ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے دو(۲) طریق سے پہنچی، اول بطریق شیخ محقق مولانا عبدالحق محدّث دہلوی:
بسندہ إلی الإمام أبی الخیر شمس الدین محمد بن محمد بن محمد ابن الجزری بسندہ إلی أبی الحسن الصقلی بطریقہ إلی القداح عن الإمام جعفر الصادق عن آبائہ الکرام عن أمیرالمؤمنین علی کرم اللّٰہ تعالٰی وجوھھم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
انہیں کی سند سے امام ابوالخیر شمس الدین ابن جزری تک وہ اپنی سند سے ابوالحسن الصقلی تک وہ اپنی سند سے قداح تک امام جعفر صادق سے وہ اپنے آباءِ کرام سے وہ حضرت علی کرم اللہ وجوھھم سے وہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ (ت)
دوسری، بطریق شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی:
بسندہ إلی أبی الحسن إلی القداح إلی أمیرالمؤمنین عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
انہیں کی سند سے ابوالحسن تک وہ قداح تک وہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ تک وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ (ت) (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۵ص۵۶۸)
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث ’مسسلسل بالإضافۃ‘ کا متن  ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسی (پانی کے سیاہ رنگ  کے) سلسلہ میں ایک حدیث جو مسلسل بالاضافت ہے سفطی نے حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ کہ: ہم کئی راتیں بسر کرتے در انحالیکہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حجروں میں آ گ روشن نہ ہوتی اور (وہ خوراک) صرف دو سیاہ چیزیں پانی اور کھجور تھیں، کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کھجور کو غالب قرار دے کر پانی کو سیاہ فرمایا؛ کیونکہ کھجور خوراک ہے اور پانی مشروب ہے اور خوراک کو مشروب پر فضیلت ہونے کی وجہ سے کھجور کو پانی پر غلبہ ہے، یا اس لئے  پانی کو سیاہ فرمایا کہ اس وقت ان کے پانی والے برتن گہرے رنگ دار ہونے کی بنا پر غالب طور پر سیاہ ہوتے تھے اور کہا کہ یہ ساری بحث ہمیں شیخ عیدروس سے حاصل ہوئی اور اس کی ہمارے شیخ نے توثیق بھی کی اور اس طرح ہمارے شیخ امیر کے حاشیہ میں بھی اور ہمارے بعض شیوخ نے فرمایا کہ پانی کا رنگ سیاہ ہے انہوں نے اس حدیث کے ظاہر کو دلیل بنایا ہے۔ لیکن پہلی توجیہ ہی صحیح ہے، غور کرو اھ‘‘۔ (ت) (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۳ص۲۴۳)
            راویوں کی ایک ہی صفت جیسے سب راوی کوفی یا مصری ہوں، اس کی مثال اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی اس نے کہاکہ ہمیں اسمٰعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ مجھے عتبہ بن فرقد نے بتایاکہ میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضرہوا؛ تو آپ نے نبیذ کامشروب منگوایا یاجوسرکہ ہونے کے قریب تھا اورفرمایا:پیو، میں نے اس کو لے کرپیا؛تومجھے کچھ خوشگوار نہ لگا، پھر آپ نے اس کو لے کرپیا اورفرمایا اے عتبہ! ہم یہ سخت نبیذ اس لئے پیتے ہیں کہ یہ ہمارے پیٹوں میں اونٹوں کے گوشت کی ایذارسانی کوختم کرے۔(ت) (المصنف، ابن ابی شبیہ رحمہ اللہ، کتاب الأشربۃ، ج۸ص۱۴۲، رقم:۳۹۲۸)
 میں کہتاہوں کہ یہ اسمٰعیل وہی ہیں جوامام حافظ ہیں ان کی بزرگی پراتفاق ہے احمسی، کوفی، ثقہ، ثبت، صحاح ستہ کے رجال اورحفاظ تابعین میں سے ہیں۔ اورقیس مجہول نہیں وہ امام، ثقہ، حافظ جلیل، مخضرم، کوفی، صحاح ستہ کے رجال اوراکابر تابعین میں سے ہیں۔ اورعتبہ بن فرقد رضی اﷲ تعالٰی عنہ صحابی ہیں جو کوفہ میں قیام پذیر ہوئے، پس حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے جس کے راوی ابوبکر سے لے کر آخرسند تک مسلسل کوفی ہیں۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۵ص۱۳۳)
            شروع اسناد سے اخیر تک روایت کی صفت ایک ہی جیسی ہو، جیسے ہر راوی سعمت فلانا یا أخبرنا فلان وغیرہ سے روایت کرے (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الثالث و الثلاثون، ج۲ص۶۴۲) مسلسل کی مزید تفصیل اور اقسام کو جاننے کے لیے تدریب الراوی کی طرف رجوع کریں۔
        النوع الخامس و الثلاثون، مصحف:
            تعریف: خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ حدیث مصحف کے بارے میں فرماتے ہیں:
            ’’مصحف کی معرفت اہم فن کی حیثیت رکھتی ہے، اسے حفاظ کرام ہی جانتے ہیں، انہیں میں سے امام دارقطنی رحمہ اللہ ہیں، آپ کی اس فن میں ایک مفید تصنیف بھی ہے، کبھی تصحیف لفظ تو کبھی معنی اور کبھی تصحیف بصر تو کبھی تصحیف سمع سے ہوتی ہے اور یہ تصحیف یکساں اسناد و متن دونوں میں پائی جاتی ہے‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الخامس و الثلاثون، ج۲ص۶۴۸)
            سند میں تصحیف کی مثال: ہمارے ممدوح اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ حدیث اور حدیث کی سند ذکر کرنے کے بعد اس کی سند میں جو تصحیف واقع ہوئی ہے اس پر متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
            ’’حدیث ۳۷، ۳۸: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم: ((أعطیت قریش مالم یعط الناس))۔ (کنز العمال، متقی ہندی، بحوالہ حسن بن سفیان و ابو نعیم فی المعرفۃ، ج۱۲ص۲۴، رقم: ۳۳۸۰۵)
رواہ الحسن بن سفیان فی مسندہ، أبونعیم فی معرفۃ الصحابۃ عن الحلیس رضی اﷲ تعالٰی عنہ، و نعیم بن حماد عن أبی الزاھریۃ مرسلا وصلہ الدیلمی عنہ عن خنیس رضی اﷲ تعالٰی عنہ، ھکذا فیما نقلت عنہ بمعجمۃ فنون، رواہ مصحفا عن حلیس بمھلۃ فلام۔  واﷲ تعالٰی أعلم۔
قریش کو وہ عطا ہوا جو کسی کو نہ ہوا۔ اس کو روایت کیا ہے حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں، ابو نعیم نے معرفۃ الصحابہ میں حلیس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور نعیم بن حماد نے ابی زاہریہ سے مرسلا اور اس کو دیلمی نے عن أبی الزاھریۃ عن خنیس رضی اللہ تعالٰی عنھما کہہ کر متصل بنایا ہے، انہوں نے حلیس سے  بدل کر خنیس  کہہ کر روایت کیا ۔ واللہ تعالٰی اعلم‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۳ص۲۱۲)
متن میں تصحیف کی مثال: خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ متن میں تصحیف کی مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَرَ فِي الْمَسْجِدِ)) اس حدیث میں ایک لفظ: ((احتجر)) ’را‘ کے ساتھ ہے، ابن لہیعہ نے اسے تصحیف کرکے احتجم روایت کیا‘‘۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الخامس و الثلاثون، ج۲ص۶۴۸) اس نوع کے متعلق مزید تفصیلی علم حاصل کرنے کے لیے ’تدریب الراوی‘ کی طرف رجوع کریں۔
        النوع الثامن و الثلاثون، مرسل خفی:
            تعریف: مرسل خفی وہ ہے جس کا ارسال، مروی عنہ سے معاصرت کے باوجود ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے یا ملاقات ثابت ہونے کے باوجود سماعت نہ ہونے کی وجہ سے یا اگرچہ دوسری حدیث سنی ہو مگر بعینہ فلاں حدیث کی سماعت نہ ہونے کی وجہ سے معلوم ہوا ہو  (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی، محدث سیوطی رحمہ اللہ، النوع الثامن و الثلاثون، ج۲ص۶۶۳)
            خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ مرسل خفی کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: جیسے  حدیث : ((رحم اللہ حارس الحرس)) جسے امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عمر بن عبد العزیز، عن عقبۃ بن عامر سے مرفوعا روایت کیا ہے، امام مزی رحمہ اللہ ’الأطراف‘ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی ہے (ایضا)
            مرسل خفی کی مثال اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی بحث و تمحیص میں مندرجہ ذیل عبارت سے لی جاسکتی ہے، آپ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی حدیث ذکر کرتے ہیں پھر  فرماتے ہیں:
’’محدث ابن ماجہ نے فرمایا: ہم سے عمروبن رافع نے بیان کیا، اس نے کہا ہم سے ہشیم نے بواسطہ یعلٰی بن عطا بیان کیا۔۔۔الخ‘‘۔(سنن ابن ماجہ، أبواب الطب،باب الجذام، ص۲۶۱،ط: ایچ ایم سعیدکمپنی، کراچی)
’’ہشیم اور شریک دونوں مُدلِس ہیں اور دونوں نے عن عن کے الفاظ سے روایت کی ہے، چنانچہ التقریب میں فرمایا: ہشیم بن بشیر ثقہ، ثبت ہے مگربہت زیادہ تدلیس اور ارسال خفی کرنے والاہے‘‘۔ (تقریب التہذیب، ابن حجرعسقلانی، تحت حرف الہاء، ترجمہ: ۷۳۳۸، ج۲ص۲۶۹، ط:دارالکتب العلمیہ بیروت، فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۴ص۲۳۹)
        النوع الرابع و الخمسون، المتفق و المفترق:
خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’المتفق و المفترق‘ کی سات قسمیں کی ہے، ان میں سے اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے میرے علم کے مطابق دو قسموں پر کلام کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
            پہلی قسم: راویوں اور ان کے والد کے نام ایک ہوں، دوسری قسم: صرف راویوں کے نام ایک طرح ہوں، ان دونوں اقسام کی وضاحت اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کے مندرجہ ذیل تحقیقی کلام سے ملتی ہے، آپ فرماتے ہیں:
            ’’بدری حضرت سیدنا ثعلبہ بن حاطب بن عمرو بن عبید انصاری ہیں رضی اللہ عنہ اور یہ شخص جس کے باب میں یہ آیت اتری ثعلبہ ابن ابی حاطب ہے اگرچہ یہ بھی قوم اَوس سے تھا۔ اوربعض نے اس کانام بھی ثعلبہ ابن حاطب کہا۔ مگروہ بدری خودزمانہ اقدس حضورپرنورصلی اﷲ علیہ وسلم میں جنگ اُحد میں شہیدہوئے۔ اوریہ منافق زمانہ خلافت امیرالمومنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں مرا۔ جب اس نے زکوٰۃ دینے سے انکارکیا اور آیہ کریمہ  اس کی مذمت میں اتری۔ حضورپرنور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں زکوٰۃ لے کرحاضرہوا حضورنے قبول نہ فرمائی۔ پھرصدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی خلافت میں لایا انہوں نے فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تیری زکوٰۃ قبول نہ فرمائی اورمیں قبول کرلوں، ہرگز نہ ہوگا۔ پھرخلافت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں حاضرلایا، فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وابوبکر قبول نہ فرمائیں اورمیں لے لوں یہ کبھی نہ ہوگا۔ پھرخلافت عثمان ذی النورین غنی رضی اﷲ عنہ میں لایا، فرمایارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصدیق وفاروق نے قبول نہ فرمائی میں بھی نہ لوں گا۔ آخر انہیں کی خلافت میں مرگیا۔
اﷲ عزوجل اہل بدررضی اﷲ تعالٰی عنہم کی نسبت فرماچکا:اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم۔ جوچاہوکرو میں تمہیں بخش چکا۔ (کنزالعمال، متقی ہندی رحمہ اللہ،ج۱۴ص۶۹، رقم:۳۷۹۵۷ ،   مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
اوراس منافق کے باب میں فرماتاہے:فأعقبھم نفاقا فی قلوبھم إلٰی یوم یلقونہ۔اس کے پیچھے اﷲ نے ان کے دلوں میں نفاق پیداکیا کہ مرتے دم تک نہ جائے گا۔ (القرآن الکریم:۹/ ۷۷)
حاشاﷲ نوروظلمت کیونکر جمع ہوسکتے ہیں۔امام حافظ الشان ’اصابہ‘ میں فرماتے ہیں:ثعلبۃ بن حاطب بن عمرو الأنصاری ذکرہ موسٰی بن عقبۃ و ابن اسحٰق فی البدریین وکذا ذکرہ ابن الکلبی وزاد أنہ قتل بأحد۔ثعلبہ بن حاطب بن عمروانصاری کوموسٰی بن عقبہ اورابن اسحاق نے اہل بدرمیں ذکرکیا۔ اسی طرح ابن کلبی نے ذکرکیا اوریہ اضافہ کیاکہ وہ اُحدمیں شہیدہوئے۔(ت) (الإصابۃ فی تمییزالصحابۃ، حافظ الشان ابن حجر رحمہ اللہ، ج۱ص۹۲۷،  ترجمہ: ۹۲۷ ، ط:دارصادر،بیروت)
تفسیرامام ابن جریرمیں ہے:حدثنی محمد ابن سعد حدثنی أبی حدثنی عمی حدثنی أبی عن أبیہ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھما، أن رجلا یقال لہ ثعلبۃ ابن أبی حاطب أخلف ماوعدہ فقصّ اﷲ تعالٰی شانہ فی القراٰن:{ و منھم من عاھداﷲ} إلٰی قولہ {یکذبون}۔
مجھ سے محمدبن سعد نے بیان کیا،انہوں نے کہا:مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا،اس نے کہا:مجھ سے میرے چچانے بیان کیا،اس نے کہا: مجھ سے میرے باپ نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا:ایک شخص کوثعلبہ بن ابی حاطب کہاجاتاہے جس نے اﷲ تعالٰی کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کی خلاف ورزی کی، اﷲ تعالٰی نے اس کے حال کو قرآن مجید میں بیان فرمایایعنی: {ومنھم من عٰھداﷲ} سے {یکذبون} تک۔(ت)(جامع البیان،  ابن جریر، تحت آیۃ: ۹/ ۷۵ ، ج۱۰ص۲۱۳ ، ط: داراحیاء التراث العربی، بیروت، فتاوی رضویہ مترجم، ج۲۶ص۴۵۳-۴۵۵، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، گجرات)
ایک ہیں حضرت ثعلبہ بن حاطب بن عمرو بدری رضی اللہ عنہ اور دوسرا ثعلبہ بن ابی حاطب ہے، جس کے بارے میں آیت کریمہ نازل ہوئی، بعض علما کے اعتبار سے اس کا نام بھی ثعلبہ بن حاطب ہے، اس اعتبار سے ان دونوں اور ان کے والد کےنام متفق ہونگے، یہ پہلی قسم ہوگئی اور اگر بعض علما کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے؛ تو اس اعتبار سے دونوں لوگوں کا صرف نام میں اتفاق ہوگا، اس لحاظ سے یہ دوسری قسم ہوگئی۔
دوسری قسم کی مثال عبادلہ ثلاثہ بھی ہیں، جن کے نام آپس میں متفق ہیں مگر ان کے والد کا نام الگ ہے، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ، سوال: عبادلہ ثلاثہ محققین کی اصطلاح میں کن کو کہتے ہیں؟ کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’ابناے عمر و عباس و عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہم ، لاشترا کھم فی الزمان واقترابھم فی الأسنان، أما أفضل العبادلۃ عبداللّٰہ ابن مسعود فوق الکل و شیخ الکل رضوان اللہ تعالٰی علیھم أجمعین۔
ان کے ایک زمانے میں مشترک ہونے اور عمروں میں قریب قریب ہونے کی وجہ سے، ان سب میں افضل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، جو ان سب سے فائق اور سب کے شیخ ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین (ت)
ہاں ہماری اصطلاح فقہی میں بجائے ثالث یہ ادل الکل ہیں۔ کمافی فتح القدیر ، واللہ تعالٰی أعلم‘‘۔ (فتاوی رضویہ مترجم، محدث بریلوی رحمہ اللہ، ج۲۷ص۴۳)
مندرجہ بالا ان اقسام حدیث کے علاوہ دیگر مندرجہ ذیل حدیث کے اقسام پر بھی اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے علمی و فنی کلام کیا ہے، ان شاء اللہ مستقل تصنیف میں راقم الحروف ان اقسام اور دیگر مباحث پر تفصیلی گفتگو کرکے قارئین کے سامنے عنقریب پیش کرے گا، بروقت صرف ان باقی اقسام کی اجمالی فہرست ملاحظہ فرمالیں:
النوع الخامس و الخمسون: المتشابہ، النوع التاسع و الخمسون: مبہم، النوع الستون: وفیات، النوع الحادی و الستون: معرفۃ الثقات و الضعفاء، النوع الثالث و الستون: طبقات، النوع السادس و الستون: معلق، النوع السابع والستون: معنعن، النوع الثامن و الستون: متواتر، النوع السبعون، مستفیض وغیرہ۔
(ج) علم حدیث پر محدث بریلوی کی مستقل کتب اور حواشی
اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے علم حدیث پر گفتگو تقریبا اپنی مایہ ناز کتاب ’العطایۃ النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘ کے تیسوں جلدوں میں مختلف مقامات پر فرمائی ہے، آپ کی اس محبوب فن پر مستقل کتب و رسائل بنام: ’الھاد الکاف فی أحکام الضعاف، منیر العین فی تقبیل الإبھامین، حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین، مدارج طبقات الحدیث اور الروض البھیج فی آداب التخریج وغیرہ بھی موجود ہیں۔
            نیز ہمارے ممدوح اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے حواشی کی صورت میں بھی بہت ساری کتابوں پر علم حدیث کی روشنی میں گفتگو کی ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:
سنن ابن ماجہ، التعقبات علی الموضوعات، سیوطی رحمہ اللہ، اللآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، سیوطی رحمہ اللہ، ذیل اللآلی المصنوعۃ، سیوطی رحمہ اللہ، الموضوعات الکبیر، علی قاری رحمہ اللہ، فتح المغیث، سخاوی رحمہ اللہ، نصب الرایۃ لتخریج أحادیث الھدایۃ، زیلعی رحمہ اللہ، تقریب التھذیب، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، میزان الاعتدال، ج اول و ثانی، ذہبی رحمہ اللہ، تذکرۃ الحفاظ، ذہبی رحمہ اللہ، خلاصۃ تہذیب الکمال، صفی الدین انصاری رحمہ اللہ، الأسماء و الصفات، بیہقی رحمہ اللہ، کشف الأحوال فی نقد الرجال عبد الوہاب مدراسی رحمہ اللہ، العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواھیۃ، ابن جوزی رحمہ اللہ وغیرہ۔
راقم الحروف کی اتنی گفتگو سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اصول حدیث میں اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ یگانہ روزگار تھے، علم حدیث میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی، اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کے متعلق مذکورہ بالا اقوال علماے فن، آپ کی تحقیقی افکار و نظریات اور کتب فن علم حدیث کے باوجود بھی اگر کوئی شخص اعلی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کی حدیث دانی اور آپ کی علم حدیث میں مہارت کا انکار کرے یا شک و شبہ کی گنجائش رکھے؛ تو اس میں ہمارے ممدوح مکرم کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس شخص کے دل و دماغ اورآنکھ کا قصور ہے جو اپنے تعصب و تعنت یا جہالت کی وجہ سے حق بجانب چڑھتے ہوئے سورج کو سلامی پیش کرنے اور اس کی بلندی کا اعتراف کرنے سے قاصر یا گریز کر نے کی کوشش کررہا ہے ۔
دیدہ کور کو نظر کیا آئے کیا دیکھے
اللہ تعالی میری اس ادنی خراج عقیدت کو اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ کی بارگاہ میں قبول فرمائے اور مجھ حقیر کو اپنے علوم و فنون خاص کر علم فقہ و حدیث کا کچھ چھینٹا عطا کرے، راقم الحروف، علماے کرام اور تمام اہل سنت و جماعت کو صحیح طور پر اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف،مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا وخانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 8318177138
Email:fmfoundation92 @gmail.com
قسط اول:۲۹؍محرم الحرام۱۴۴۰ھ مطابق ۱۰؍اکتوبر۲۰۱۸ء، قسط ثانی: ۱۵؍صفر المظفرمطابق ۲۵؍اکتبوبر 

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts