تعارف فقیه ملت فاؤنڈیشن

فقیہ ملت فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف(عربی، اردو، ہندی، انگلش) پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں:

https://sites.google.com/site/azharahmadamjadi/home/almqalat-ballghte-alrbyte/fqyh-mlt-fawn-yshn

(ہر مسلمان مرد و عورت پر بقدر ضرورت علم دین حاصل کرنا فرض ہے) (سنن ابن ماجہ)
(بقدر حاجت مدارس اسلامیہ کا عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی اہم ضرورت) (ازہری)

فقیہ ملت فاؤنڈیشن
کا
مختصر تعارف

زیر نگرانی
شہزادہ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی ازہری کان اللہ لہ
فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی، یو پی، انڈیا

ترتیب
نبیرہ فقیہ ملت مولانا حافظ محمد ابوعبیدہ امجدی زید علمہ
متعلم جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ

شائع کردہ : ایف ایم فاؤنڈیشن، اوجھاگنج، بستی، یو پی، انڈیا
Mb No:8318177138, 8869951017, Email: fmfoundation92@gmail.com


ہدیہ تشکر

ایف ایم فاؤنڈیشن اپنے تمام معاونین، مخلصین، محبین بالخصوص امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں دام ظلہ و کرمہ، سجادہ نشیں خانقاہ مارہرہ مطہرہ شریف، شہزادہ امین ملت سید امان میاں دام فضلہ، ڈائریکٹر اسلامک ریسرچ سینٹر، جامعۃ البرکات، علی گڑھ، خطیب ذیشان حضرت مولانا مسعود احمد برکاتی مصباحی زید مجدہ، استاذ جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، عالم نبیل حضرت مولانا محمد اسلم نبیل ازہری زید علمہ، استاذ جامعہ احسن البرکات، مارہرہ شریف، فاضل جلیل ڈاکٹر محمد نعیم مصباحی زید علمہ، دہلی، عالم نبیل ریسرچ اسکالر محمد قیام الدین نظامی مصباحی زید علمہ، دہلی،  محترم المقام لائق صد احترام عالی جناب انجم ابراہیم، عالی جناب عاشق علی اور عالی جناب انصاف محمد صاحب دام کرمہم، امریکہ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے، اللہ تعالی ان تمام حضرات کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔


ایف ایم فاؤنڈیشن
کا
مختصر تعارف

            الحمد للہ فقیہ ملت (ایف ایم) فاؤنڈیشن ایک عوامی اورغیر حکومتی ادارہ ہے جس کی سرپرستی داماد فقیہ ملت حضرت مولانا ریاض احمد برکاتی زید مجدہ، شیخ الحدیث جامعہ حنفیہ، بستی فرمارہے ہیں، اس فاؤنڈیشن کا قیام مفتی ازہار احمد امجدی ازہری کے ہاتھوں سنہ 2016 بمقام اوجھا گنج، ضلع بستی میں ہوا، موصوف فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی (رحمہ اللہ) کے چھوٹے صاحبزادے اور ان کے خلیفہ ہیں۔ آپ کے اس اقدام کا محرک والد گرامی کی علمی وفقہی وراثت کی پاسداری اور اس کی نشاۃ ثانیہ ہے۔
مزید برآں، اس کے قیام کا مقصد اسلامی تعلیمات و روایات کی روشنی میں مذہبی وسماجی تعلیم کا رواج اور اس کی عملی بیداری کے خطوط واضح کرنا ہے۔ ایک طرف جہاں یہ قوم کی مذہبی اصلاح وتربیت کا داعی ہے، وہیں دوسری طرف دیگر سماجی امور جیسے تعلیم، پرامن بقائے باہم، آپسی بھائی چارہ، تسامح اور بین شخصی احترام کے اصول و اقدار کا علم بردار ہے۔
            ماضی میں بھی، دینی وسماجی اور ثقافتی اداروں نے برادران وطن کے بیچ سماجی قدروں، مذہبی روح اور تہذیبی وثقافتی روایات کی ترویج واشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نتیجتا انھوں نے ایک ساتھ مل کر شانہ بشانہ پوری قوت سے اپنے ورثے کی حفاظت وصیانت کی۔ بلا شبہ حضرت مفتی جلال الدین احمد امجدی  کاعظیم ورثہ ان کی گراں قدر کتابیں، فتاوے اور ایک اعلی دینی تعلیمی ادارہ "مرکز تربیت افتا‌" ہے جس میں عمدہ اسلامی تعلیم، خصوصا "تربیت فتوی نویسی" کا بہترین انتظام و انصرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ  ادارہ تشنگان علم ومعرفت کی ترجیحی منزل ہے۔
مفتی ازہار احمد امجدی جامعہ اشرفیہ کے شعبہ فقہ اور جامعہ ازہر مصر کے شعبہ  علم حدیث اور علوم اسلامی کے  تربیت یافتہ ہیں ۔دعوت وتبلیغ کے علاوہ   مذہبیات سے متعلق آپ کی متعدد کتابیں  منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اسلامیات کے میدان میں آپ کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئےجامعہ ازہر مصر کی طرف سے  سنہ 2017 کا  "علمی ایوارڈ" پیش کیا گیا۔
مندرجہ بالا امور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئےالحمد للہ، موصوف نے مذکورہ فاؤنڈیشن کی بنا ڈالی۔ فاؤنڈیشن کے اہداف، مقاصد، پیغامات اور اب تک کی سرگرمیاں درج ذیل ہیں:
ایف ایم فاؤنڈیشن
اغراض و مقاصد
(۱)مسلمانوں کے دینی عقائد اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی خاطر جدوجہد کرنا (۲) عوام کو بلا استثنا انصاف اور روزگاری کی فراہمی، ہر علاقے کے لیے لازمی تعلیم ،غریبوں کے لیے مفت تعلیم ،علاج اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نسواں کے تحفظ کی سعی کرنا (۳) مذہب اہل سنت و جماعت کی نشر و اشاعت کے لیے وسائل کی فراہمی ،شہرودیہات بالخصوص شہر بستی و اطراف بستی میں اہل سنت و جماعت کے افکار کی نشر و اشاعت (۴) مذہبی درسگاہوں کو دینی و عصری علوم سے ہم آہنگ کرکےشاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کی کوشش کرنا، دیہاتوں اور شہروں میں دینی و عصری تقاضوں کو پورا کرنے والے ابتدائی تعلیم کے لیے مدارس و اسکول قائم کرنا (۵) جس شہر و دیہات میں ابتدائی تعلیم کے لیے مدارس ہیں مگر وہ دینی و عصری تقاضوں کی رعایت سے خالی ہیں، انہیں دینی و عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا اور ان کی تعلیمی، اخلاقی اور مالی کمیاں دور کرکے ان کو صحیح راستے پر گامزن کرنا (۶) مسلمانون میں علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت، نونہالان اسلام کوعلوم دینیہ سے آراستہ کرنے کا شوق دلانا، عام طبقہ سے جہالت،بدعات و خرافات اور بے دینی کے اثرات کو ختم کرنا (۷)کالیج کے طلبہ اور صرف عصری علوم سے آراستہ لوگوں کے لیے آن لائن ضروری دینی تعلیم کا انتظام و انصرام کرنا (۸) مختلف علاقوں میں حسب ضرورت مساجد کا قیام (۹) تحریری اور تقریری مقابلوں کا اہتمام کرنا  (۱۰) اہل سنت و جماعت کو فروعی مسائل میں تشدد سے دور رہنے کی ترغیب دلانا (۱۱) سوالات کے جوابات اورمذہب حنفی کے مطابق مقدمات کے فیصلوں کے لیے دارالافتاء اور دارالقضاء قائم کرنا (۱۲) دینی و عصری علوم کی قدیم و جدید تصنیفات کی نشرو اشاعت کے لیے دارالکتب اور دارالمطالعہ قائم کرنا  (۱۳) ہفتہ واردرس قرآن، حدیث اور فقہ (۱۴) تربیتی پروگرام کا انعقاد (۱۵) سالانہ صوبائی ملکی اور بین الاقوامی روحانی اجتماعات کا انعقاد (۱۶) جشن عیدمیلادالنبی ﷺ، اہل بیت عظام، صحابہ کرام اور بزرگان دین کی یاد میں محافل کا انعقاد (۱۷) سماجی و فلاحی کاموں میں حصہ لینا مثلا  مخلص ڈاکٹروں کی مدد سے ملک کے پسماندہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ قائم کرنا جس سے بے شمار مریضوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کی جا سکے (۱۸) مسلم سماج میں جہیز کے مطالبہ کی لعنت وغیرہ کو ختم کرکے ان کی شادی کو آسان کرنا (۱۹) غیر مسلم کے درمیان اسلام کی صحیح صورت پیش کرکے  ان کو اسلام میں داخل ہونے کا شوق دلانا۔
ایف ایم فاؤنڈیشن کا پیغام
(۱)اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر حال میں لازم (۲) اللہ رب العزت اور آقاے دوجہاں ﷺ سے حد درجہ محبت (۳) تقویٰ اور پرہیزگاری (۴) احساس ذمہ داری (۵) اخوت و محبت (۶) خلق خدا کی خدمت (۷) روحانیت اور صداقت (۸ ) اتحاد، ایثاراور اخلاص (۹) تعمیر اور اصلاح معاشرہ (۱۰) زبانی خرچ کے بجاے عملی زندگی کا حد درجہ اہتمام (۱۱) قول و عمل میں اتفاق۔



ایف ایم فاؤنڈیشن
موجودہ سرگرمیاں
(۱)مدرسۃ الحسیب، بیاد گار: مخدومہ اہلیہ فقیہ ملت رحمہ اللہ کا بمقام اوجھاگنج بتاریخ ۲۷؍جمادی الاخری ۱۴۳۷ھ مطابق ۶؍اپریل ۲۰۱۶ء میں قیام ہوچکا ہے، جس میں جماعت اولی اور ثانیہ کی چند بچیاں زیر تعلیم ہیں، ان شاء اللہ اس مدرسہ میں آئندہ سال عید بعد ۲۰۱۸ء سے انگلش، حساب، سائنس اور ہندی پڑھانے کا بھی مزید بہترین انتظام کیا جائےگا تاکہ مسلم بچیاں عالمیت کے ساتھ ہائی سکول اور انٹر کی بھی عمدہ تعلیم حاصل کرکے دینی و عصری ہر طرح سے مضبوط ہوکر پوری دنیا میں دین متین کی بیش بہا خدمت انجام دے سکیں (۲) شہر بستی یا اطراف بستی میں کسی مناسب جگہ پر لڑکوں کے لیے بھی دینی و عصری علوم سے ہم آہنگ مدرسۃ الحسیب کے  قیام کی کوشش جاری ہے (۳) قرب و جوار میں وقتا فوقتا دین و سنت کی نشر و اشاعت کا بھی کام جاری ہے، ان شاء اللہ آئندہ مخلصین و محبین کے تعاون و کوشش سے اسے مزید وسیع کرنے کی سعی مسعود کی جاتی رہے گی (۴) چھوٹے پیمانے پر یتیم اور غریب بچوں اور بچیوں کی مدد کرنے کی ابتدا ہوچکی ہے۔
            نوٹ: آپ تمامی حضرات سے گزارش ہے کہ ایف ایم فاؤنڈیشن کے زیادہ سے زیادہ ممبر بن کر اس کا ساتھ دیں، ایف ایم اسلامک مشن کے اغراض و مقاصد اور قواعدو ضوابط کی مکمل پابندی کریں، اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کرنے کیی کوشش کریں، جو کام کریں وہ دل و جان سے کریں، ہرجائز کام میں دوسرے ساتھیوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں، کسی کام میں یا کسی بات میں ذاتی انا درمیان میں نہ لائیں، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ میں اس تنظیم کو اپنے نیک مقاصد میں اعلی کامیابی عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

مدرسۃ الحسیب
وقت کی اہم ضرورت
مبسلما و حامدا و مصلیا و مسلما
مدارس اسلامیہ کے طلبہ کا دور حاضر میں عصری علوم کی طرف رجحان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، تقریبا ہر ادارہ کے ذمہ داران و مدرسین جانتے ہیں کہ عصری علوم کی طرف توجہ دینے والے مدارس اسلامیہ کے طلبہ دو گروہ میں بٹے ہوئے ہیں، ایک قسم کے بیشتر طلبہ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم ہائی اسکول، انٹر اور بی اے وغیرہ کی تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں، دوسری قسم فارغین کی ہے، ان کی ایک اچھی تعداد فارغ ہونے کے بعد عصری اداروں کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور افسوس یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلبہ ہی کا نقصان ہوتا ہے، پہلی قسم کے اکثر طلبہ کا مقصد صرف تھوڑی بہت تیاری کرکے کسی طرح ہائی اسکول، انٹر اور بی اے وغیرہ پاس کرلینا ہوتا ہے، جس کا اچھا نتیجہ عملی میدان میں کالعدم یا بہت ہی کم ہوتا ہے، جو خود طلبہ اور ملت اسلامیہ دونوںکے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اور اس عصری تعلیم کی تگ و دو میں ان طلبہ کی دینی تعلیم جو متاثر ہوتی ہے وہ الگ! دوسری قسم کے طلبہ فارغ ہونے کے بعد ان کی عمر عموما چوبیس (۲۴) سے اٹھائیس (۲۸) کے درمیان ہوتی ہے، اب یہ عصری علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، بی اے، ایم اے، ایم فیل اور پی ایچ ڈی مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کتنے طلبہ عمر دراز وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد تک پہونچنے سے پہلے ہی تعلیم سے رشتہ توڑ لیتے ہیں، اور جو افراد تعلیم کی تکمیل کرتے ہیں، تکمیل تک ان کی عمر تینتیس (۳۳) سے سینتیس (۳۷) کے درمیان ہوجاتی ہے اور رزلٹ خراب ہوا تو سینتیس (۳۷) سے چالیس (۴۰) کے درمیان کی عمر ہوجاتی ہے، اس طرح سے اس قسم کے طلبہ کی تقریبا دو تہائی زندگی تعلیم حاصل کرنے میں ہی گزر جاتی ہے! ! اب اس کے بعد وہ میدان عمل میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں، کوشش، عملی زندگی اور اس زندگی کے کچھ اچھے نتائج ملتے ملتے اپنی زندگی کے آخری کگار پر آجاتے ہیں، زندگی کے اس مرحلہ پر پہونچ چکے ہوتے ہیں جب وہ تجربات کی روشنی میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر کرنے کی وہ قوت، وہ حوصلہ اور وہ جزبہ نہیں رہ جاتا جو اس کے اندر عصری علوم کی طرف متوجہ ہونے کے وقت ہوتا ہے، نیز اس قسم کے افراد کا داخلہ صرف دو چند مخصوص شعبہ جات جیسے عربی، اردو اور تاریخ وغیرہ ہی میں ہوسکتا ہے اور باقی عصری شعبہ جات ان کے اور قوم و ملت کے مستقبل سنوارنے کے لیے بند ہوتے ہیں؛ اس لیے دور حاضر میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے یکساں ایسے مدارس اسلامیہ کی سخت ضرورت ہے جو دینی و عصری ہم آہنگی کے جامع ہوں، جن میں اکثر دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا یوں انتظام کیا جائے کہ طلبہ عالمیت کے کورس کے ساتھ ساتھ انٹر میڈیٹ کا بھی کورس مکمل کرلیں،اس کے بعد جو طلبہ مزید دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں فقہ، حدیث وغیرہ کسی فن میں تخصص کراکے فضیلت کی دستار دے دی جائے، اس طرح سے فارغ ہونے کے بعد یہ کسی ایک فن میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ ہونے کی وجہ سے معتدبہ دینی، ملی و قومی خدمات انجام دے سکیں گے،اور جو طلبہ مزید عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتے  ہیںوہ عصری اداروں کی طرف رجوع کرکے باآسانی داخلہ لے سکتے ہیں اور ہائی لیویل کی تعلیم کی تکمیل کرکے اپنے اہل و عیال اور قوم و ملت کو خاطر خواہ عصری و دینی فائدہ پہونچانے کی سعی مسعود کرسکیں گے۔
            دینی و عصری علوم کی ہم آہنگی:
            فوائد: (۱) اِنٹر تک دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے پاس ہر دو کی صرف مارکشیٹ ہی نہیں بلکہ مارکشیٹ کے ساتھ ہر دو میدان کی کافی حد تک تعلیمی لیاقت بھی ہوگی (۲) عالمیت کا کورس کرنے کے بعد دینی و عصری تعلیم کا ہر دروازہ کھلا رہے گا، وہ مفتی، محدث اور ادیب وغیرہ بن سکتا ہے، اور اگر چاہے تو ڈاکٹر، پروفیسر، انسپیکٹر، ڈی ایم، بزنیس مین، آئی اے ایس، پی سی ایس، جج اور لائر وغیرہ جیسی ہر طرح کی اعلی پوسٹ بھی حاصل کرسکتا ہے (۳) اس طریقہ کار پر تعلیم حاصل کرنے والا مسلم بچہ اگر صرف انٹر تک ہی پڑھائی کرتا ہے یا مزید دینی تعلیم حاصل کرتا ہے؛ تو وہ خالص عالم دین ہی نہیں ہوگا بلکہ بقدر ضرورت عصری علوم: انگلش، میتھ، سائنس اور ہندی وغیرہ سے بھی آراستہ ہوگا، جن کے ذریعہ وہ با آسانی اپنی دنیوی زندگی کافی حد تک خود ہی ہینڈل کرسکے گا (۴) اس طرح سے تعلیم حاصل کرکے ایک مسلم بچہ جب کسی اعلی دنیوی پوسٹ پر پہونچے گا؛ تو یاد رہے کہ وہ خالص دنیادار نہیں ہوگا اور نہ ہی قرآن، حدیث، عربی، اردو اور دینی مسائل سے بالکل اپاہج ہوگا بلکہ ان شاء اللہ ان ساری چیزوں کا علم رکھنے کی وجہ سے مخلص عالم دین بھی رہے گا (۵) اس طرح کے مسلم افراد جب دنیوی اعلی پوسٹ پر کثرت سے ہونگے؛ تو حکومت پر دباؤ ہوگا اور کوئی بات منوانے میں آسانی ہوگی، نیز اگر اسلام یا اس کے ماننے والوں یا اس کے کسی قانون پر اعتراض ہوتا ہے؛ تو یہ لوگ فکری و قانونی جواب وقت کی مناسبت سے بہتر طریقہ سے دے سکیں گے، یہ کام خالص علما یا خالص دنیوی تعلیم والوں سے ہونا بہت مشکل امر ہے (۶) ان شاء اللہ یہ افراد دنیوی بڑی پوسٹ حاصل کرنے کے بعد بھی خالص علما کے ساتھ شانہ بشانہ رہ کر اسلام و سنیت کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے اپنے میدان میں پیش پیش رہیں گے (۷) اس طرح کے افراد زیادہ ہونگے؛ تو غیروں میں بھی مسلمانوں کی شخصیت مسلم ہوگی اور مسلم قوم کا معیار دین و دنیا کے ساتھ بلند و بالا ہوگا (۸) ایک مسلم ان شاء اللہ دین و دنیا کے ساتھ کم عمری ہی میں اعلی پوسٹ حاصل کرلے گا اور اسے قوم و ملت کی خدمت کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے گا۔
            دینی و عصری علوم کی ہم آہنگی:
نقصانات: (۱) اس طرز کی پڑھائی پر دینی و عصری علوم دونوں متاثر ہوسکتے ہیں اور ان دونوں میں کمی آسکتی ہے! اس طرح مقصد فوت ہوسکتا ہے!
            حل: یقینا خالص دینی یا عصری علوم حاصل کرنے کے بالمقابل اس صورت میں دینی و عصری دونوں تعلیم متاثر ہوسکتی ہے اور نقصان ہوسکتا ہے، مگر اساتذہ مخلص و جفاکش اور طلبہ مخلص ہونے کے ساتھ محنتی بھی ہوں تو یہ نقصان بھی نہیں ہوگا، اور اگرر نقصان ہوا بھی تو یہ نقصان بہت کم ہوگا، جسے دینی تعلیم والے تخصص کرکے اور عصری علوم والے مزید عصری اعلی تعلیم حاصل کرکے باآسانی دور کرسکتے ہیں۔
            (۲) دینی و عصری دونوں علوم پڑھانے کی وجہ سے گھنٹیاں بہت زیادہ ہونگی، بچے پورے دن پڑھنے کی وجہ سے تھکے ہونگے اور وہ اپنا ہوم ورک صحیح سے نہیں کرپائیں گے۔
            حل: خالص اسلامی مدرسہ میں بچے سات گھنٹیاں کرتے ہیں، ان دونوں علوم کے لیے ان سات گھنٹیوں پر صرف ایک گھنٹی کا اضافہ کرکے آٹھ گھنٹی کردی جائے، پانچ گھنٹی دینیات اور تین گھنٹی عصری ہوں، جو کتابیں زیادہ اہم ہوں، ان کی گھنٹیاںں مسلسل رہیں اور جو زیادہ اہم نہ ہوں، ان کی گھنٹیاں ہفتہ میں تین دن یا دو ہی دن رہیں، اس طرح سے طلبہ پر بار بھی نہ ہوگا، بہت زیادہ تھکن کا بھی احساس نہیں ہوگا اور وہ محنت و لگن کے ساتھ اپنا ہوم ورک بھی کرلیں گے۔
            (۳) اس طر ز پر پڑھانے کی وجہ سے انہیں ہر سال چار چار امتحان دینا ہوگا اور یہ طلبہ کے لیے کافی مشکل و پریشانی کا سبب بن سکتا ہے!
            حل: پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں گے تو نائنتھ تک ہر سال صرف دو مرتبہ ہی امتحان دینا پڑےگا، وہ اس طرح سے کہ دینی و عصری علوم کا ششماہی و سالانہ امتحان ایک ساتھ ہوا کرے گا، البتہ ہائی اسکول اور اِنٹر کے امتحان کی جب باریی آئے گی؛ تو اس وقت ہر سال چار امتحان دینا پڑے گا، مگر مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے اچھی طرح سے جاتنے ہیں کہ بہت سارے مدارس میں طلبہ چار چار امتحان: سہ ماہی، ششماہی، نوماہی اور سالانہ امتحان دیتے ہیں اور ان کی جفاکش ذات پر کچھ اثر نہیں پڑتا، اگر تگ و دو کی جائے؛ تو  ان شاء اللہ اس طرز پر بھی چار چار امتحان ہونے کے باوجود ان کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
            (۴) اس طرح مدارس میں ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان کے ذریعہ مارکشیٹ حاصل کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟! یہ تو عالم و فاضل کرکے ماکرشیٹ حاصل کرنے کی طرح ہوگا، جس کی گورمنٹ کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی!
            حل: ہائی اسکول اور اِنٹر کا امتحان مدرسہ میں دلاکر اس کی مارکشیٹ نہ دی جائے بلکہ کسی خالص عصری کالیج سے معادلہ کراکر، وہاں امتحان دلایا جائے، اس طرح سے ان طلبہ کی طرف سے ہائی اسکول اور اِنٹر کی حاصل کی گئی مارکشیٹ کی اہمیت وو افادیت وہی رہے گی جو ایک خالص عصری کالیج کے طلبہ کی مارکشیٹ کی ہوتی ہے۔
            (۵) جو لڑکے عالمیت اور اِنٹر میڈیٹ کرکے خالص عصری یونیورسٹیز کا رخ کر یں گے، عموما ان یونیورسٹیز کا ماحول خراب ہونےکی وجہ سے طلبہ کے بے راہ رو ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے، یہ چیز بھی اس طرح کے مدرسہ کے مقاصد پر پانی پھیر دے گی۔
            حل: یہ بات بجا ہے، مگر آج خالص مدارس میں پڑھنے والے طلبہ بھی کثیر تعداد میں خالص عصری یونیورسٹیز کی طرف رخ کر رہے ہیں، ان کی توجہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اب ہم انہیں چاہ کر بھی نہیں روک سکتے؛ اس لیے اب اس کا رونا روناا بے کار ہے، آہ و فغاں کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ کو بگڑنے کے اسباب کم ملیں اور وہ اعلی دنیوی تعلیم بھی حاصل کرلیں؛ تو علما، پیران کرام اور قوم مسلم کو اپنے بچوں کے لیے ان خالص عصری یونیورسٹیز کا بدل پیش کرنا ہوگا اور پیر طریقت خانقاہ برکاتیہ کے پھول امین ملت دام ظلہ و کرمہ کے نقش قدم پر چل کر ان کے قائم کردہ البرکات انسٹیٹیوٹ، علی گڑھ کی طرح ہر ہر ضلع یا کم از کم ہر ہر اسٹیٹ میں انتظام کرنا ہوگا بلکہ اگر ممکن ہو؛ تو اس سے بڑھ کر بھی انتظام و انصرام کیا جائے۔
            (۶) اس صورت میں بہت ممکن ہے کہ سارے طلبہ ہائی لیویل کے عصری علوم حاصل کرنے کے لیے خالص عصری یونیورسٹیز ہی کا رخ کرلیں؛ تو علماے دین کی تعداد پر اثر پڑے گا اور یہ بھی اس طرح کے مدارس کے مقاصد پر ایک طرح سے قدغن ہوگا، جو امت مسلمہ کے لیے مضر ہوگا!
            حل: اولا: اگر عمدہ تربیت کی جائے، دینی و عصری ہر دو علوم کے فوائد و ضروریات بتائی جائیں؛ تو ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا، اور جس طرح طلبہ یونیورسٹیز کا رخ کریں گے، اسی طرح ان شاء اللہ فقہ و حدیث وغیرہ میں تخصص کرنے کی طرف بھیی متوجہ ہونگے، ثانیا: اگر ایسا برسبیل تنزل ہوتا ہے؛ تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ دوسرے مدارس اسلامیہ خالص علماے دین تیار کررہے ہیں، جن سے  ان شاء اللہ تعداد کی کمی کا مداوا ہوجائے گا۔
            ایک شبہ: اس طرز تعلیم کو دیکھ کر بہت سارے مخلصین و محبین کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے اور تامل ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ دینا جائز ہوگا یا نہیں؛ کیوں کہ اس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دیی جائے گی۔
            شبہ کا ازالہ: محبین و مخلصین کا تامل سر آنکھوں پر ہے، مگر میں بتانا چاہوں گا کہ اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ دینا اس وقت ناجائز ہے جب اس میں اکثر تعلیم عصری تعلیم ہو، مگر یہاں اس مدرسہ میں ایسا نہیں؛ کیوں کہ اسس میں اکثر تعلیم دینی تعلیم اور یہی اصل کی حیثیت رکھتی ہےاور عصری تعلیم دینی تعلیم سے کم ہے اور وہ فرع کی حیثیت رکھتی ہے؛ لہذا اس طرح کے مدرسہ میں زکاۃ و صدقات واجبہ لگانا جائز و درست ہے۔
            تنبیہات: (۱) گھر کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ بچوں کے کلاس اور ہوم ورک کے اوقات حتی الامکان انہیں گھریلو اور دیگر کاموں سے فارغ رکھیں تاکہ بچے اپنی پڑھائی عمدہ طریقہ سے کرکے اپنے اور والدین کے خوابوں کو شرمندئہ تعبیر کرسکیں، اللہ پر اعتمادپھر قربانی، صبر اورجہد مسلسل ہی ایک مسلم کی کامیابی کا اہم راز ہے، جس کا آج قوم مسلم میں عموما فقدان نظر آتا ہے، کامیاب ہونا ہے؛ تو قربانی دینی پڑےگی!
            (۲) اس طریقہ کار کو اختیار کرکے صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیاںبھی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں اور اپنے آپ کو دینی و عصری علوم سے مزین کرکے اپنےبچوں اور اپنی قوم کے افراد کے کردار کو سنوار سکتی ہیں، لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان تعلیمی میدان میں تفریق کرنے کی چنداں ضرورت نہیں!
            (۳)اس طرح کے اقدام کے بعدقوم مسلم کو چاہئے کہ وہ نتیجہ اخذ کرنے میں جلد بازی نہ کرے، ورنہ بے قراری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گااور قوم مسلم آگے بڑھنے کے بجاے پیچھے چلی جائے گی؛ کیوں کہ جب کمیاں قوم میں زیادہ ہوں؛ تو ان کی معتد بہ اصلاح چند دنوں، چند مہینوں، چند سالوں میں نہیں بلکہ نصف صدی، یا ایک صدی یا کئی صدی کے بعدہوتی ہے، کچھ نہ کچھ؛ تو ان شاء اللہ ہمیشہ فائدہ ہوگا، مگر وہ فائدہ جو اکثریت میں ہو، اس کے لیے کافی وقت درکار ہے؛ اس لیے جلد بازی مناسب نہیں، نیز قوم مسلم کو کبھی یہ سوچ کر کام نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری زندگی ہی میں سب کچھ پورا ہوجائے بلکہ یہ سوچ کر کرنا چاہئے کہ یہ کام قابل رشک ثمر بار ہو، چاہے کوشش کرنے والے کی زندگی میں یا اس کی زندگی کے بعد ہی کیوں نہ ہو!
            اسی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر شہزادہ فقیہ مفتی ازہار احمد امجدی دام ظلہ نے حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے دیار اوجھاگنج، بستی میں مدرسۃ الحسیب (نسواں) کی بنیاد رکھ دی ہے جس  میں عالمیت کی دو جماعت کی تعلیم بھی جاری ہے، ان شاء اللہ اسی طرح لڑکوں کے لیے بھی مدرسۃ الحسیب کا قیام عن قریب عمل میں آئے گا، مخلصین و محبین سے امید قوی ہے کہ وہ اپنا قیمتی تعاون پیش کرکے قوم مسلم کے لڑکوں اور بیٹیوں کو دینی و عصری علوم سے مزین ہونے کے اسباب مہیا کریں گے اور پھر ان کے ذریعہ اولاد کی عمدہ تربیت ہوگی جو اولاد مسلم کو مستقبل سنوارنے میں کافی حد تک معاون و مددگار ثابت ہوگی۔
            مدرسۃ الحسیب کا تعلیمی خاکہ: (۱)اعدادیہ تا عالمیت کے ساتھ ہائی اسکول اور انٹیر میڈیٹ کی تعلیم (۷ سال) (۲) تخصص فی الفقہ (۳ سال) (۳)  تخصص فی الحدیث وغیرہ (۳ سال) (۴) کمپیوٹر سینٹر وغیرہ۔
مدرسۃ الحسیب کا تعمیری خاکہ: (۱)مدرسۃ الحسیب کے لیے دو بیگہا زمین کی خریداری (۲) معیاری بلڈنگ کی تعمیر (۳) معیاری لائبریری کا قیام (۴) مسجد کی تعمیر (۵) ڈائننگ ہال کی تعمیر وغیرہ۔
            نوٹ: اگر مخلصین و محبین کا ساتھ رہا؛ تو ان شاء اللہ ان کے صدقات نافلہ کے ذریعہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ انتظام کے ساتھ ان کی ہائی ایجوکیشن کے لیے دینی ماحول میں ایک عصری یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لانے کا ارادہ ہے تاکہہ قوم مسلم کے بچے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد وقت کی مناسبت سے اس میں مزید اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے اور قوم مسلم کے مستقبل کو تابناک بناسکیں، و ماتوفیقنا إلا باللہ علیہ توکلنا و إلیہ أنبنا، و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔

Email: fmfoundation92@gmail.com




((طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم)) (سنن ابن ماجہ)
(من أمس الاحتیاجات تفاعل المدارس الإسلامیۃ مع متطلبات العصر الراہن بقدر مایمکن) (الأزھری)

تعریف موجز عن المؤسسۃ
فقیہ ملت

تحت إشراف
فضیلۃ الشیخ المفتی أبی عاتکہ أزہار أحمد الأمجدی الأزہری کان اللہ لہ
الماجستیر بقسم الحدیث، کلیۃ أصول الدین، بجامعۃ الأزہر الشریف، مصر
المفتی بمرکز تربیۃ الإفتاء، أوجھاگنج، بستی، یو پی، إنڈیا

مترجم
مولانا حامد رضا المصباحی زید علمہ
أستاذ المرکز الإسلامی، دار الفکر، بہرائچ، یو پی

ناشر :إیف إیم فاؤنڈیشن، أوجھاگنج، بستی، یو پی، إنڈیا
رقم الہاتف: 00918318177138،00918869951017، إی میل: fmfoundation92@gmail.com

کلمات الشکر و الامتنان

إیف إیم فاؤنڈیشن یقدم الشکر و التقدیر لحضرۃ الدکتور  أمین الملۃ السید أمین میاں دام ظلہ و کرمہ، صاحب الزاویۃ البرکاتیۃ بمارہرہ المطہرۃ الشریفۃ، و ابن امین الملۃ السید أمان میاں دام کرمہ، مدیر مرکز الدراسات الإسلامیۃ و التربویۃ، بجامعۃ البرکات، علی گڑھ، و الخطیب البارع مولانا مسعود أحمد برکاتی المصباحی زید مجدہ، الجامعۃ الأشرفیۃ، مبارکپور، و العالم النبیل مولانا محمد أسلم نبیل الأزہری زید علمہ، استاذ جامعۃ أحسن البرکات، بمارہرہ المطہرۃ الشریفۃ، و الفاضل الجلیل الدکتور محمد نعیم المصباحی زید علمہ، دہلی، و العالم النبیل الباحث محمد قیام الدین نظامی المصباحی زید علمہ، دہلی و حضرۃ الأخ المحترم أنجم إبراہیم، و و الأخ المحترم عاشق علی و الأخ المحترم انصاف محمد زید کرمہم، أمریکا، حفظہم اللہ تعالی جمیعا و أسعدھم فی الدارین، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔



مؤسسة إیف إیم
                                                  مؤسسة إیف إیم (فقيه الملة)  (FM FOUNDATION)  هي منظّمة عمومية، غيرحكومية یرعاہا صہر فقیہ الملۃ مولانا ریاض أحمد البرکاتی زید مجدہ، شیخ الحدیث بالجامعۃ الحنفیۃ، بستی، یو پی، و تم تأسيسهاعلى یدي سماحة المفتي أبي عاتکة أزھار أحمد الأمجدی الأزہری حفظه الله ورعاه – وهو أصغر أولاد العلامة المفتي جلال الدين أحمد الأمجدي رحمه الله تعالي الملقب بـ " فقيه الملة " وخلفائه - عام 2016 بـ "أوجها گنج " بـمديرية "بستی " من " أترابراديش" الولاية الشمالية من "الهند".
ومن أهم أهداف هذه المؤسسة: الاحتفاظ بميراث أبيه العلمي والفقهي وإحياؤه من جديد و نشرالتوعية الدينية والاجتماعية وتجسيدها في ضوء التعاليم الإسلامية؛ فمن ناحية ھی دعوة إلى تربية الأمة الإسلامية تربية دينية صحيحة ، ومن ناحية أخرى هي ضمان لمبادئ الشؤون الاجتماعية وقيمها مثل التعليم والتعايش السليم والإخاء والسماحة المتزايدة والاحترام الشخصي المتبادل.
   وقد لعبت- مؤخرا- العلوم الدينية والمؤسسات الثقافية دوراً هاماً في تعزيز القيم الاجتماعية والأرواح الدينية والتقاليد الثقافية بين المواطنين رجالا ونساء، وبالتالي فقد اجتمعوا في صعيد واحد للحفاظ على تراثهم هذا الثمين باذلين بكل ما لديهم من وسع وطاقة.
    ومما لا مرية فيه أن فقیه الملة المفتي جلال الدين أحمد الأمجدي- رحمه اللہ - خلّف ورائه ميراثا عظيما يمثّل كتبا قيمة ، وفتاوي جليلة ، ومعهدا كبيرا إسلاميا يدعي "مركز تربیة الإفتاء" يتمتع بإدارة جيدة تعني بالدراسات الإسلامية على مستوي عال ،لا سيّما "مركز تدريب الإفتاء"مما تسبب في إقبال كبير للطلاب على هذا الصرح العلمي الشامخ.
                                                وقد تلقي أبوعاتکة المفتي أزهارأحمد الأمجدي الأزھري الدراسة النظامية و تخصص في الفقه والإفتاء في أشهر الجامعات الإسلامية في شبه القارة الهندية "الجامعۃ الأشرفیۃ" بـ "مبارکفور" بمديرية " أعظم جره" ،" أترابراديش" ، ثم يمّم وجهه شطر جامعة الأزهر الشريف بالقاهرة عاصمة جمهورية مصر المحمية و تخصص هنالك في الحدیث وعلومه ، إضافة إلى سعيه الدؤوب في مجال الدعوۃ و التبلیغ ، فقد ألف العديد من الكتب المحققة على شتي الموضوعات تم طبعها ونشرها داخل الهند وخارجها، ولاقت الاستحسان والقبول من أرباب الفكر والمعرفة ، ومما يزيد قولي هذا قوة واستنادا أنه قد تم تكريمه بـ"جائزة شیخ الأزھر" لعام 2017 م من قبل جامعة الأزھر الشریف اعترافا لخدماته وجهوده في مختلف المجالات ومتنوع الميادين.
نظرا إلى الأمور المذكورة أعلاه قام الموصوف – بتوفيق الله تعالي - بتأسیس المؤسسة المذکورۃ، وفيما يلي بيان أهداف المؤسسة ورسالتها وأنشطتها:
أهداف المؤسسة
(1) النضال من أجل تحفظ المعتقدات الدينية والحقوق الأساسية للمسلمين (2) إیصال الجمهور بدون استثناء إلى العدالة والتوظيف، والتعليم الإلزامي لكل منطقة، و السعی المشکور للتعليم المجاني للفقراء، و المعالجۃ و حمایۃ حقوق المرأۃ في ضوء التعاليم الإسلامية (3) توفير الموارد لنشر أفکار أھل السنة و الجماعۃ، و بث أفكارھا فی القری و الأمصار، لا سيما في مدینۃ " بستی " والمدن المجاورة لها (4) السعی المحمود لتنسيق المدارس الإسلامیۃ من خلال التعاليم الدينية و العلوم العصریۃ إلی التقدم و الازدھار، ومحاولة الانخراط في سلك الرقي ، وإنشاء المدارس للتعليم الابتدائي لتلبية الاحتياجات الدينية والعصریۃ في القرى والمدن (5) المدارس الابتدائية التی تقام فی القری والمدن لكنها حرة من قيد المتطلبات الدينية والعصریۃ، ومحاولۃ تنسيقها مع الاحتياجات الدينية و العصریۃ، والقضاء على أوجه القصور الأكاديمي و الخلقی والمالي لديهم، لجذبهم إلى الطريق الصحيح (6) ترویج العلوم الدینیۃ بین المسلمین و تشویقهم إلی التحلي بھا، و القضاء علی الجهل والأمية والابتكارات البدعیۃ من مناطق المسلمین کلھا (7) إدارة التعليم الهامّ المتاح عبر الشبكة (الإنٹرنیٹ) لطلاب الكليات والعلوم الحديثة فحسب (8) إنشاء مساجد مخصصة في مناطق مختلفة علی حسب مسيس الحاجة إليها(9) تنظيم المسابقات العلمیۃ من خلال الکتابۃ و الخطابۃ. (10) تشجيع أھل السنة و الجماعۃ على الابتعاد عن العنف في القضايا الفرعیۃ (11) تأسیس دار الإفتاء والقضاء للإجابة على الأسئلة و سماع القضایا و تقریرھا وفق المذھب الحنفی و غیرہ (12) إنشاء دار الکتب و دار المطالعۃ لنشر النصوص القديمة والحديثة للعلم الديني و العصری (13)  برنامج دروس القرآن والحديث والفقه أسبوعيا (14) إجراء برنامج تدريبي (15) لقاءات روحية سنوية محلية ودولية (16) عقد الاحتفاليات بذکری النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، وأھل البیت الکرام،و الصحابة و الأولیاء العظام رضی اللہ عنهم (17) المشاركة في مهام الرعاية الاجتماعية ، مع الأطباء المخلصين ، وإنشاء معسكر طبي في المناطق المتخلفة من البلاد ، والتي يمكن أن توفر العلاج المجاني لعدد من المرضى (18)  القضاء على لعنة طلب جهاز العروس في المجتمع المسلم و تسھیل الزواج (19) توجیہ الإسلام و أحکامہ بشکل صحیح بین غیر المسلمین و تشویقھم إلی الاعتناق بہ۔

رسالة مؤسسة إیف إیم
((1  لزوم طاعۃ الله تعالي ورسوله (ﷺ) في جميع الأحوال(2) محبة الله  و رسولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غایۃ المحبۃ (3) التقوی و الصلاح الکامل (4) تحمل المسؤولیۃ (5) الأخوۃ والمحبۃ (6) خدمة الخلق والبر بہم (8) الروحانية والصداقۃ (8) الاتحاد والإیثارو الإخلاص(9) التطور وإصلاح المعاشرۃ (10) الاہتمام بالحیاۃ العملیۃ أشد الاہتمام (11) التوافق فی القول و العمل.
الأنشطةالحالية للمؤسسۃ إیف إیم
((1 مدرسة الحسیب ، تذكارا للسيدة حسيب النساء زوجۃ فقيہ الملة رحمہ الله  التی تم تأسیسہا 27/ جمادی الأخری عام1437هـ المصادف 6/أبريل عام 2016للميلاد حيث تدرس بعض الطالبات في الصف الأول و الثانی في هذه المدرسة، و بعد عام 2018م سيتم تنظيم تعلیم اللغة الإنجليزية والحساب والعلوم و اللغۃ الهندية في العام المقبل أفضل، بحيث تحصل الطالبات المسلمات على التعليم الثانوی والمتوسط العصری مع العالمیۃ الدینیۃ علی المستوی الممتاز سواء؛ليمكنہن خدمۃ الإسلام فی العالم کلہ علی مایرام(2) لا تزال هناك محاولة لإنشاء مدرسة الحسیب للبنين علی المنہج السابق الذي يجمع بين الدین و العصر الحاضر في أي مكان مناسب في بلدۃ " بستی" أو في المدن المجاورة لها (3) و نشر الدین القویم و السنۃ النبویۃ مستمر فی بعض الأحیان في أطراف مدینۃ " بستی"، وسوف يواصل ہذا العمل أكثر اتساعًا لمزيد من الدعم من خلال جهود المؤمنین الصادقین(4) وقد ابتدأت على نطاق صغير حملة مساعدة الأطفال الأيتام والأطفال الفقراء۔
ملاحظة:الرجا منکم – أيها الإخوۃ الکرام- أن تساعدوا مؤسسة إیف إیم فاؤنڈیشن بأن تکونوا أعضاء لہا، والتزموا تماما بالأغراض و المقاصد و القواعد و الضوابط للمؤسسۃ، و حاولوا أن تکون حیاتکم وفق مقتضي التعالیم الإسلامیۃ، و افعلوا ما تفعلونه بالقلب والروح، و حاولوا أن يساعد بعضكم بعضا في كل مهمة، و لا تتدخل الأثرة الشخصية في أي عمل أو في أي أمر آخر، أدعوا الله سبحانه وتعالى أن یكتب لہذہ المؤسسۃ النجاح فی جميع مقاصدہا بحق الحبیب المصطفي صلی اللہ علیہ و آلہ، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔






مدرسۃالحسیب
حاجۃ شدیدۃ للعصر الحاضر

مبسلما و حامدا و مصلیا و مسلما
اتجاہ طلاب المدارس الإسلامیۃ فی الہند نحو العلم الحديث في العصر الحديث لیس بخفی علی أحد، المسؤولون و المدرسون من المدارس الإسلامیۃ یعرفون جیدا أن الطلاب الراغبین منہا ینقسمون إلى نوعین: النوع الأول، فہم الدارسون فی المدرسۃ التعلیم الدینی، و کثیر من طلابہ یدخلون فی امتحان التعلیم العصری مثل الثانوی و المتوسط و بکالوریوس بعد إعداد لہ مع التعلیم الدینی فیہا، و النوع الثانی ہم الخریجون، ينجذب عدد کثیر منہم إلى الجامعات و المؤسسات الحديثة، و الأسف الشدید أنهم في كلتا الحالتين هناك فقدان للطلاب الإسلامیين، النوع الأول من الطلاب بغیتہم ہو النحاح فقط فی امتحان الثانوی و المتوسط و بکالوریوس وغیرہ بإعداد قليل الذی نتائجہ الجیدۃ في المجال العملي صفر أو قلیل جدا، وهو مضر لكل من الطلاب وأمة الإسلام سواء، وفي سياق هذا التعليم الحديث یتأثر تعلیم الطلاب الدینی ہو مستزاد علی ذلک،و النوع الثاني من الطلاب بعد تخرجہم یکون عمرہم ما بين 24 سنة و28 سنۃ، و الآن هم ينجذبون إلى الدراسات الحديثة یحاولون استكمال درجة البكالوريوس، والماجستير، والدكتوراه ، فكم من الطلاب یوقفون تعليمهم قبل أن يتمكنوا من الوصول إلى أهدافهم بسبب طوال السن والعمر، والذين يحققون التعليم و یکملونہ يصلون إلى ما بين ثلاثۃ وثلاثين (33) إلى سبعۃ وثلاثين (37) ، و الذی فشل فی امتحان مرۃ أو مرتین تبلغ سنہ إلی ما بین سبعۃ و ثلاثین (37) إلی أربعين (40)، و بهذه الطريقة يمر ثلثا عمر هذا النوع من الطلاب فی تحصيل العلم! والآن يحاولون الوصول إلى المیدان العملی۔ الجہد، والحياة العملية و حصول بعض النتائج الجيدة لهذه الحياة، تأتي على آخر مبدع في حياتهم، لقد وصلوا إلی هذه المرحلة من الحياة عندما یستطيعون أن یفعلوا الكثير من العمل المفید في ضوء التجارب ولكن القدرة على القيام بذلك و المحاولۃ التامۃ فی ذلک لاتکون فی ہذہ الحالۃ کما کان فیہم عند الاتجاہ و الرغبۃ إلی العلوم العصریۃ،و أیضا كذلك لا يمكن أن يكون نوع القبول لہم فی الجامعات إلا في بعض المجالات الخاصۃ مثل اللغة العربية والأوردية والتاريخ وما إلى ذلك ، وبقية المجالات الحديثة مغلقة أمامہم لجعل مستقبل شعوبهم وأمتهم؛ فبالتالي، في الوقت الحاضر، بالنسبۃ إلی البنين والبنات سواء هناك حاجة كبيرة إلى المدارس الإسلامیۃ التی تجمع بين العلم الدینی و العلم العصری، بحیث ینظم فیہا أکثر المواد الدینیۃ مع التعلیم العصری الضروری بأن الطلاب أو الطالبات یحصلون علی البکالیوریوس فی الدین مع حصولہ علی المتوسط فی التعلیم العصری من خلال نہج صحیح مفید، و بعد ذلك الطلاب الذين يرغبون في الحصول على المزيد من التعليم الديني یجب السماح لہم بالتخصص في التفسیرأوالحديث أوالفقہ أوأي فن آخر،  و بعد كمالهم كمتخصص في أي فن، بالإضافة إلى العلوم الحديثة يمكنہم أن یقدموا بالخدمات المفیدۃ للدین والأمۃ قاطبۃ، والطلاب الذين يرغبون في الحصول على تعليم أكثر حداثة يمكنهم الدخول بسہولۃ و یسرفی المؤسسات و الجامعات الحدیثۃ وبعد إكمالهم التعليم العالی و حصولہم علی الماجستیر و الدکتوراہ فی العلوم الحدیثۃ يستطيعون أن یقدموا سعیا مشکورا لأہلہم وعیالہم والملۃ قاطبۃ من خلال العلوم الدینیۃ و العصریۃ  العالیۃ التی حصلوا علیہا بجہدہم الغالی۔
                                       انسجام العلوم الدينية والحديثة
الفوائد: (1)بعد حصول کل طاب على التعليم الديني و العصری من المتوسط ، لن يكون لديہ شہادۃ فقط بل مع الشہادۃ تکون لدیہ مهارات تامۃ فی المجالین سواء(2)  بعد دراستہ التعلیم الدینی من المتوسط سيكون باب التعليم الدینی و الحديث مفتوحًا أمامہ ، ويمكنه أن يصبح مفتیا و محدثا و أدیبا وغیر ذلک، و یستطیع أیضاأن يصبح طبيبًا وأستاذًا ومفتشًا وDMو رجل أعمال و IAS و PCS وقاضًيا و محاميا و ما إلى ذلک من الوظائف فی الہند و غیرہا(3)  الطفل المسلم الطالب الدارس علی هذه الطريقة إذا اکتفی بالمتوسط فقط أو يكسب المزيد من التعليم الديني؛ فإنه لن يكون عالم الدين بحتًا، بل یکون متحلیابالعلوم الحديثة الأساسية: الإنجليزية، والرياضيات، والعلوم، والهندية۔۔۔ إلخ، و من خلاله يمكنہ التعامل بنفسہ مع حياته المدنية بسهولة تامة (4) من خلال الدراسة بهذه الطريقة ، عندما يصبح طفل مسلم مؤظفا عالیا مثل الطبیب الحاذق و القاضی و غیرہ ، تذكر أنه لن يكون طاهيا ولن يكون بأن لایعرف من القرآن والحديث والعربية والأوردية و المسائل الدينية شیئا، بل لمعرفة كل هذه الأشياء سیکون عالم الدین مخلصا أیضا (5) مثل هؤلاء المسلمین إذا کانوا علی الوظائف العالیۃ کثیرا سيكونون مرهقين على الحكومة مؤکدین قبول مطالبہم، أیضا حتی لو کان ہناک اعتراض علی الإسلام أو أتباعه أو على أي قانون من قوانينه؛ سيكون ھؤلاء الناس قادرين على توفير طريقة أفضل للتفكير في الإجابة المادية والقانونية، فمن الصعب للغاية ہذا العمل لعلماء الدین خالصا أو لأصحاب تعاليم العصر صرفا (6)  مثل هؤلاء الأشخاص بعد وصولہم إلی الوظائف العالیۃ سيكونون حاضرين في مجالهم لنشر الإسلام والسنة جنبا إلى جنب مع علماء الدین المخلصین الصادقین إن شاء اللہ (7) و إذا کا مثل هؤلاء الناس أكثر کانوا مؤقرین و معظمین عند غير المسلمين أیضا،و نوعية الأمة المسلمة ستكون عالية مع الدين والدنیا(8) مسلم من المسلین إن شاء اللہ تعالى  سيحصل مع الدین و الدنیا على منصب رفيع بدرجة أو بوقت أقل؛ فيحصل على المزيد والمزيد من الفرص لخدمة الأمة و أقوام العالم۔
انسجام العلوم الدينية مع العلوم الحديثة
الأضرار: (1) القراءة على هذا النمط يمكن أن تؤثر سلبيا على كل من الدراسات الدينية والعصریۃ، وكلاهما يمكن أن ينقص؛ فيمكن أن يموت الهدف!
الحل: بالطبع ، في إطار العلوم الدينية و الحديثة الخالصة ، يمكن أن يتأثر كل من التعليم الديني والعقلي ويتضرر، ولكن إذا كان المعلمون صادقين و الطلاب مجتہدین مع إخلاصہم، فإنه لن يكون ضارًا، و إذا كان ضارا؛ فإن هذه الخسارة ستكون قليلة جدًا، والتي يمكن استنفادها من خلال التخصص في التعليم الديني وحصول المزيد من التعليم الحديثی.
(2) ستكون فترۃ الدراسۃو الدورس کثیرة جدًا نظرًا للدراسات الدينية والعصریۃ على حد سواء؛ فسيكون الأطفال متعبين بسبب قراءة اليوم بالكامل ولن يكونوا قادرين على أداء واجباتهم المدرسية بشكل صحيح.
الحل: يقوم الأطفال بسبعةدروس فی فترۃ الدراسۃمن المدرسة الإسلامية الخالصة ، فهناك درس  واحد فقط سيضاف لکلتی الدراستين فتکون ثمانية دروس، خمسة دروس للدینیات، وثلاثة دروس للعلوم الحدیثۃ، و الکتب التی لہا أكثر أهمية، تدرس متوالیة کل یوم من الأسبوع و الکتب التی لیس لہا أكثر أهمية، تدرس ثلاثة أيام أو يومين في الأسبوع، وبهذه الطريقة لن يكون علی الطالب ثقل، ولن يشعر بالكثير من التعب و یقوم بواجباته المدرسية بجد و اجتہاد أیضا۔
(3) نظرًا للتدريس علی ہذا النہج ، يجب عليهم تقديم أربعة اختبارات كل عام ، ويمكن أن يسبب الكثير من الصعوبة للطلاب!
الحل: أول شيء هو أنه إذا أردنا؛ فسوف نضطر إلى الاختبار  مرتین فقط كل عام حتى الصف التاسع، بحيث يتم إجراء اختبارالنصف السنوی والنهائي للعلم الديني و العصری في وقت واحد، إلا أنہ إذا أتت نوبۃ امتحان الثانوی و المتوسط للعلوم الحدیثۃفيتعين عليہم أربعة امتحانات كل عام، لكن القراء و المدرسين في المعاهد الدينية يدركون جيداً أن الطلاب في العديد من المدارس الدینیۃ لديهم أربعة امتحانات: الفصل الدراسی الأول، الفصل الدراسی الثانی، الفصل الدراسی الثالث و السنوي،و ليس لها أي أثر سلبي علیہم؛ إذا لو اجتہد إن شاء اللہ على الرغم من كونها أربع مرات علی هذا النمط، لن تتأثر أیضا۔
(4) كيف یستفادمن الحصول علیشہادۃالثانويةو المتوسطۃ من خلال الامتحانات في المدارس؟ہذا سيكون مثل حصول الشہادۃ للعالم و الفاضل فی المدارس الإسلامیۃ التي لا يكون لها أي أهمية في نظر الحکومۃ الہندیۃ و غیرہا!
الحل: لا ينبغي أن تُعطى المدرسة الثانوية والفحوصات للمدرسة في المدرسة ، ولكن من خلال فحصها بكليات حديثة بحتة ، ينبغي أن يكون هناك اختبار ، على هذا النحو ، لأهمية المدرسة الثانوية وتحقيق الماركسيين. وستكون المرافق هي نفسها ، وهي سوق الكليات الحديثة البحتة.
(5) الطلاب الذين يتجهون نحو الجامعات الحديثة بعد تکمیلہم للمتوسط للعلوم الدینیة و العصریة، وعموما بيئة الجامعات الحدیثۃ تشكل تهديدا كبيرا لفشل الطلاب، وهذا أيضا یؤدی إلی ابتعاد مثل هذه المدرسۃ عن مقاصدہا۔
الحل: ہذا صحیح ولكن اليوم يتجه کثیر من الطلاب الذين يدرسون في المدارس البحتة الصرفة نحو الجامعات العصرية البحتة، حالۃ انتباههم إلیہا قد وصلت إلی أننا لا نستطيع إيقافهم الآن،؛ و لہذا بکائنا لاینفعنا شیئا، بل دون البکاء من الضروري إذا أردنا أن یبتعد  طلابنا عن الفشل و فساد الأخلاق و یحصلون على تعليم عال، فالعلماء والشیوخ و المسلمون علیہم محاولۃ إعطاء  أطفالهم بدل الجامعات العصریۃ المحضۃ، و یفتح احتذاء للشیخ الدکتورالسيد أمین الملۃ دامت معاليهم فی بنائہ " البرکات انستیتیوت" بـ "علی جره" فی کل منطقۃ أو على الأقل فی كل ولاية، بل إذا كان ذلك ممكنا ، يجب أن يكون الاهتمام أحسن من ذلك۔
(6) في هذه الحالة، من المرجح جداً أن يحول جميع الطلاب إلی الجامعات الحدیثۃ البحتة للحصول على درجة عالية من المدرسة الثانوية؛ فيؤثر علی عدد علماء الدين وكذلك على أساس أهداف ہذہ المدارس والذي سيكون خطيراً على العالم الإسلامي!
الحل:أولا: إذا تم التدريب الجيد، و یہتم بإخبار مزايا واحتياجات كل اثنين من العلوم ؛ فلم یکن کذا إن شاء اللہ، والطريقة التي يتحول بها الطلاب نحو الجامعات الحدیثۃ، كذلك  یجتذبون نحو التخصص فی الفقہ و الحدیث وغیرہما، ثانيا: إذا كان هناك علی سبیل التنزل مثل هذا، فلا ضرر فيه؛ لأن المدارس الإسلامیۃ الأخرى التی تقوم بإعداد علماء الدين الخالص، مما سيتم قطع نقص العدد۔
شبہۃ واحدۃ: رؤية هذا النمط من التعليم يمكن العثور علي ذهن كثير من الصادق والحبيب  أنه ہل يجوز إعطاء زكاة المؤمنين في مثل هذه المدرسة أولا ؟؛ لأنها یدرس فیہا التعليم الديني مع التعليم العصری۔
إزالۃ الشبہۃ: شبہۃ المحبین المخلصین على العين و الرأس، لكني أود أن أقول إن إعطاء الزكاة والصدقات الواجبۃ إلى هذه المدرسة غير جائز عندما يكون التعليم العصری ہو الغالب، لكنه ليس هنا في مثل هذه المدرسة؛ لأن التعلیم الدینی ہو الغالب في مثل ہذہ المدرسۃ و هو وضع التعليم الأصلي و التعلیم الحديثی أقل من التعليم الديني وهو وضع التعلیم الفرعی؛ و لذا يجوز أداء الزكاة والصدقات الواجبۃ في مثل هذه المدرسة۔
تنبيهات: (1) يجب على المستجيبين في المنزل تفریغ الأطفال فی أوقات دروسہم و واجب منزلہم من الدرس عن الأشغال المنزلية و الأعمال الأخری حتى يتمكن الأطفال من تحقيق أحلام والديهم من خلال جہد کبیر فی الدراسۃ، التوکل علی اللہ تعالی و التضحیۃ و الصبر و الجہد المستمر هو سر رئيسي لنجاح المسلم الذي يُنظر إليه في كثير من الأحيان على أنه ضعيف في الأمة المسلمة؛و من أراد النجاح فعلیہ أن یقدم التضحية!
(2) اتباع هذہ الطریقۃفی التعلیم غیر محصور علی الأبناء بل الفتيات أيضا يستخدمنہا فی التعلیم، و بعد تحليهن بالعلوم الدینیة و العصریة يمكنہن أن یهذبن أخلاق أولادہن و أخلاق قومہن، و لا داعي هناك إلی التفریق بين الأبناء والبنات فی المجال التعليمي ۔
(3) بعد هذه الخطوة ، يجب على المسلم أن يصبر فی أخذ النتائج و لایتسرع، وإلا لن يتأتي له غیر الاضطراب، وستعود الأمة بدلاً من المضي قدماً إلی التخلف؛ لأن النقص إذا کان کثیرا فی القوم فإصلاحہ المفیدلا یکون فی بضعة أيام أو بضعة أشهر أو  بضع سنوات، بل یحتاج لذلک إلی نصف قرن ، أو قرن أو عدة قرون، و الفائدۃ و إن کانت قلیلة ستأتی إن شاء اللہ ولكن الفائدة الكبيرة نحن  بحاجة لہا إلى الكثير من الوقت ؛ لذلك ، فإن التعجل ليس مناسبًا ، وكذلك لا ينبغي للأمة المسلمة أن تعمل دائما على أساس أن يتم إنجاز كل شيء في حياتها ، ولكن يجب أن يتعتقد أن هذا العمل یثمر، سواء في حياة الشخص الذي يحاول أو  بعد حياته!
نظرا إلى هذه الأهمية، أسس ابن فقيه المفتی أبوعاتکة أزهار أحمد الأمجدی الأزہری مدرسۃ الحسیب للبنات فی أوجھاگنج من محافظۃ " بستی" التي یستمر فيہا التعليم للصف الأول و الثانی علی وفق المنہج السابق، وبنفس الطريقة سوف تؤسس مدرسة الحسیب فی أطراف محافظة "بستی" للأبناء إن شاء اللہ، والمرجو من الأحبة المخلصين أن يقدموا دعمهم الثمين لأبناء وبنات المسلمين، وهم مغرمون بالدراسات الدينية والعصریۃ، و سیکونون سببا للتربیۃ الجيدة و الخلق الحسن للأطفال، مما سيكون نافعا جدًا لحياة الأطفال المستقبلية ۔
مخطط تعلیمی لمدرسۃ الحسیب:
(1) تعليم الثانوي و المتوسط للعلوم العصریۃ مع التعلیم الدینی من الإعدادی إلی العالمیۃ (سبع سنوات)(2) التخصص فی الفقہ (ثلاث سنوات) (3) التخصص فی الحدیث و غیرہ (ثلاث سنوات) (4) مرکز الکمبیوتر و غیرہ۔
ملف البناء لمدرسة الحسيب:
((1 شراء أرض لمدرسة الحسیب (2) بناء العمارۃ (3)بناء المکتبۃ(4) بناء المسجد (5) بناء قاعة طعام وغیرہا۔
ملاحظة: إن استمر معنا تعاون الإخوة المحبین المخلصین فالمرجو إنشاء جامعة عصرية – إن شاء الله - في بيئة دينية للدراسة العليا للطلاب ، مع انتظام متميز للبنين والبنات، بحيث أولاد المسلمین بعد حصولہم علی التعلیم العصری من المتوسط یحاولون الحصول على التعليم العالي العصری فی ہذہ الجامعۃ؛لکی یجعلوا مستقبلہم ومستقبل الأمة الإسلامية ناجحا ومستنيرا، و ماتوفیقنا إلا باللہ علیہ توکلنا و إلیہ أنبنا و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔
عربی پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں:
Email: fmfoundation92@gmail.com


((To acquire learning is incombent for every Muslim men and women)) (Sunane Ibne Maja)
(To meet the requirement of the age is the utmost need Madrasa) (Azhari)


F.M. Foundation
A Brief Introduction


Under the supervision of
Mufti Azhar Ahmad Amjadi Misbahi Azhari
M.A. Hadith, Al-Azhar University, Egypt
Mufti,  Markaz Tarbiyat-e- Ifta, Ojhaganj, Basti, U.P. (India)

Translated by:
Dr Maulana Mohammad Naeem Misbahi
Ph.D. JNU, Delhi


Printed By:
F.M. Foundation, Ojhaganj, Distt. Basti, U.P. (India)
Mb: 00918318177138, 00918869951017,Email:fmfoundation92@gmail.com

Gift
F.M. Foundation, want to thank to all well-wishers and helping hands specially, Amine Millat Doctor Saiyed Amin Miyan, Successor of Khanqahe Barakatiya, Marehra Shareef, Son of Amine Millat Maulana Saiyed Aman Miyan, Director of Islamic Faculty at Al-Barakat Institute, Aligarh, Great Islamic speaker, Hazrat Maulana Masood Ahmad Barakati Misbahi, teacher of Jamia Ashrfia, Mubarkpur, Great Scholor Maulana Mohammad Aslam Nabeel Azhari, teacher of Ahsanul Barakat, Marehra Shareef, Doctor Mohammad Naeem Misbahi, Delhi, research scholor Mohammad Qayamuddin Misbahi, Delhi, respected Anjum Ibrheem, respected Ashiq Ali and respected Insaf Mohammad (America) May Allah bless them in both life (Duniya and Akherah) Ameen.








Faquih-e- Millat (FM) Foundation
Brief Introduction
Faquih-e-Millat (F M) Foundation is a not for profit and Non-political organization which is in the supervision of Hazrat Riyaz Ahmad Barakati, the head of Hadith Shareef of Al-Jamia Al-Hanafia, Basti, U.P. founded in 2016 by Mufti Azhar Ahmad Amjadi Azhari, a Mufti (Islamic Jury) and successor of Faquih-e-Millat Mufti Jalaluddin Ahmad Amjadi (May Allah be pleased with him). It is an initiative taken with the aim of reviving religious legacy left by Late Mufti Jalaluddin Ahmad Amjadi, his father, situated in Ojha Ganj, Distt, Basti, UP.
Moreover, it stands for creating awareness about socio-religious learning and its useful practice in view of the Islamic teachings and tradition. At a time, it strives for community’s religious reform and its’ cognitive approach, on the other hand it also covers social aspects as well, i.e. Education, peaceful living, co-existence, brotherhood, tolerance, mutual respect etc.
In past too, socio-religious and cultural establishments have been instrumental in propagating social values, religious merits and cultural cum civilizational ethics among the country men. As a result, they stood fast determined to protect their legacy with utmost effort. The grand legacy left by Mufti Jalaluddin Ahmad Amjadi, is represented in books, fatawas and a higher Islamic education institute, “MarkazTarbiat-e-Ifta” which offers quality Islamic learning (Islamic Jurisprudence especially). And thus, remained stimulus and preferred destination to the seekers of knowledge.
Mufti Azhar Ahmad Amjadi, is an alumnus of Al- Azhar University, Qairo, Egypt, in Hadith and Islamic Sciences. He also specialized in Fiquh from Al-Jamiatul Ashrafia, Mubarakpur, Azamgarh, UP. He composed a number of religious books apart from “Dawah” (Preaching). He has been conferred “Award of Excellence” in 2017 by Al- Azhar University, Qairo, in recognition of his valuable work in the field of Islamic Sciences.
In pursuit of the aforesaid, Alhamdu-lillah (by the grace of Allah, the almighty), Mufti Azhar Ahmed Amjadi, came forward and laid the foundation stone of the respective foundation. The objectives, purpose, message and activities of the organization are as under:
Aims & Objectives:
1.       To safeguard religious beliefs and basic rights of Muslims.
2.        To provide justice and jobs to the people indifferently.  To insure compulsory education in all areas, to provide free education to poor, to provide health care and to empower women in view of Islamic values.
3.        To provide resources for the upliftment of  the  sect; Ahle-Sunnat-Wal-Jamat and  to propagate thoughts and values of Ahle-Sunnat-Wal-Jamat specially in neighbouring towns and cities and its surroundings.
4.        To improve the condition of traditional Madarsas and to establish Madarsas imparting basic religious cum modern education.
5.       To assist Madrasas located in cities and rural areas and are incapable to meet the modern & traditional requirements of education system.
6.       To establish Darul-Ifta and Darul-Qaza as per the Hanafi School of thought to settle religious affiars and issues.
7.       To establish Darul-Kutub (Library) and Darul-motala’ (Reading Hall) consisting of books on religious and modern education equally.
8.       To spread religious education among Muslims. To encourage children for religious education. To eradicate illiteracy and un-Islamic deeds and thoughts among common masses. 
9.       To arrange online education for college students and people who are unaware of religious education.
10.   To establish mosques at different locations as and when required.
11.   To conduct written and oral competition time and again
12.    To set up medical camps for providing free medical facilities with help of qualified doctors in backward and marginalized areas.
13.   To urge people avoid unhealthy religious differences to be turned into serious issues.
14.   To lay the foundation of arbitrary councils to settle religious disputes in the light of Hanafi School of thought.
15.   To set up a publishing house for repriting valuable  modern and classical books
16.   To conduct weekly Dars – e- Quran, Hadith and Fiqh.
17.   To hold hands on work cum practical event
18.   To organize satewise, national and international spiritual gathering (Ijtima’a).
19.   To celebrate the birth anniversary of Prophet Muhammad “Jashne Miladun Nabi” (PBUH) and his beloved ones, companions, Sufis, Ulema etc.
20.   To take part in social works such as medical camp in marginalized rural regions with the help of qualified doctors and provide health assistance to the weaker sections of the society.
21.   To eradicate the evil of dawry system prevalent in Muslim Societies and to make Nikaah easier and affordable to each and everybody.
22.   To present true face of Islam & Muslims to the Non Muslims and make them eager to understand Islam and its teachings.
Message from F.M. Foundation
1.    Follow Quran and Hadith unconditionally.
2.       Love God and his Prophet Muhammad (PBUH).
3.       Fear God and stick to soul purification.
4.       Be a responsible citizen of the country.
5.    Live with the spirit of fraternity, peace and  brother hood.
6.    Respect and serve all creaturs of Allah, the Almighty.
7.    Stick to Spirituality and Truth.
8.    Believe in Unity, Sacrifice and Sincerity.
9.     Develop a constructive approach and try to   reform the society.
10.  Put utmost effort to be Practical in life rather than lip service.
11.  Combine between word and action.

Current Activities and Future Prospects:
1.    Madrasatul Hasib; An Islamic girls’ school founded at Ojha Ganj, Distt. Basti, UP, in April 2016 in the memory of the beloved wife of Faquih -e- Millat, where some girl students are getting their 8th and 10th standard education. It aims at offering other necessary subjects, i.e. English, Math, Science and Hindi as well among other disciplines from the next session. So that, the Muslim girls too may pursue modern education and complete 10th& 12th along with Alimiat Degree moving forward to serve the community and religion in a much better way.
2.    Founding of  Madrasatul Hasib for boys;
An attempt is being made to set up Madrasatul Hasib for boys as well, nearby Basti city or at some appropriate location accessible to the larger section of the society.
3.    Dawah & Preaching Drive, in the surrounding and nearby regions in view of new age challenges and ever emerging peculiar issues. As anticipated, it will continue in future as well, In sha Allah, with the help of well wishers & sincere members of the community.  
4.    Helping Poor families and extending helping hand to the needy and orphan children. It has been initiated earlier.
Appeal:
The F. M. Foundation, on behalf of administrative body and members, requests you to be part of this social and religious drive to make it more capable and extend your helping hand to carry forward its objectives in accordance with rules and regulation. Also, try to reform themselves in the light of Islamic teachings and values. Whatever you do, be honest and sincere to the core. Try to stand by others in every good deed and never ever make it a matter of ego or personal rivalry. I pray to Allah that he grants success to this noble cause and make it reason for our salvation hereafter.





Madrasatul Haseeb
A call of the time
The tendency among Madrasa students to move for modern education is quite prevalent. The management and teachers in every Madrasa are well informed of the fact that those enrolled there are of two types; one, who manages to acquire modern degrees such as intermediate and graduation while studying in the Madrasa. Another, who heads for institute of modern education after passing out from  Madrasa. Unfortunately, both are at stake. Because, if the former confines his efforts to acquire some modern degrees such as intermediate, B. A. etc, which either does not go well practically, or put an adverse effect both on the students and Muslim community as well. Moreover, it also affects their Islamic knowledge as well. The second category who graduates from Madrasas, is normally of the age between 24 - 28 at the time .Now they move towards modern education and put up their efforts to get their higher education degrees such as M.Phil and PhD. Some of them fall behind their educational journey owing to their age, While those who manage to reach destinations, cross over 33 and 37 of their age. Further, if outcome went wrong, some of them age up to forty. Thus, their two third of life goes in the way of aquiring knowledge. Now they try to launch themselves in practical domain. However, once the time is riped to see the efforts bearing fruits, they find themselves at the closing end of their lives. Now, at this stage of their lives they can do a lot owing to their hard earned experiences in their life. But they are not able to do so. As of now, they don’t own the vitality, vigor and passion which they had earlier. Moreover, such students are not able to secure their admission but in limited subjects such as Arabic, Urdu History, etc. Other streams of knowledge that could have better role in serving them and the community are closed upon them. Therefore, in this age, it is call of the time that we must have such Islamic educational institutions, equally for boys and girls, which are ecuipped of both religious and modern education. So that, at the time of getting their Alimiyat degrees they also would have received intermediate level education. Onwards, those interested in religious education should be imparted specialized education in Islamic jurisprudence (Fiqh), Hadith etc and coronated with Fazilat. In this way, once they graduate from Madrasas, having specialized Islamic education along with well acquaintance of modern education, will be capable of serving considerably their religion and people along. Those interested in further modern education can get admitted easily in modern institutions and will try to attain higher level of education and benefit their family, community and religion to their best.
Positive aspects of combined education (Religious cum Modern).
1-    At the attainment of intermediate level education, they won’t just own the degrees but enjoy the knowledge too.
2-    At time of their graduating as Alim, they will find doors flat open for them. They now can become either a Mufti, Muhaddis, Literary person or if they wish otherwise, a Physician, Professor, Inspector, D.M. Businessman, I.A.S., I.P.S., Judge, lawyer and many other white collar  designations.
3-    Such an educated Muslim student, even if he doesn’t get any further education, or just gets further religious education, he won’t be just an Alim, but will also be well acquainted with English, Math, Science etc, and thus capable enough to manage his own life.
4-    If a student with this system of education reaches higher designation and power, he won’t be just a so called worldly-minded person, neither would be suffering from mere deprivation from religious knowledge of The Holy Quran, Hadith, Arabic etc, and thus, will be an Alim in true meaning of word.
5-    Suppose, if such people are there in good number at higher levels of power hierarchy, they can act as a pressure group vis-a-vis the government, and can facilitate to get our demands accepted easily. Moreover, if Islam, its provisions or its followers are subjected to any kind of objection, they can put up apt theoretical and legal defence. Such things can’t be handled either by modern-educated or purely religious-educated persons alone.
6-    By Will of Allah, as expected, such people will stand shoulder by shoulder with religious scholars in serving and propagating Islam and Ahle-Sunnah, and will win the race head-on in their respective fields.
7-    If Muslims constitute considerable number among their colleages from Non Muslims in a high designation post, it will raise the standard of Muslim community.
8-    In this way, a Muslim, In sha Allah, can reach a high profile designation in his early age and may get sufficient time to serve the religion and the community as well.
Negativities of combined education:
1-    Such an arrangement can affect both religious and modern education, and the expected outcome can go into vain.
Solution: certainly, instead of getting purely modern or religious education, combined education can affect both and turn up with harm, but if teachers are devoted and hardworking, and are matched by equal devotion and endurance on the part of students, such affects can be worn off, or will be of meagre magnitude. If still they occur, it can be set off through student’s inclination toward specialization in religious education  as well as higher studies in modern education itself.
2-     In this mode of education there may be many some additional period owing to such combination, and students may get exhausted at the end of the day. As a result, they won’t be able to accomplish their homework.
Solution: Students in purely religious institutions, manage to do around seven periods. If one more period is added to them on every day basis, i.e. five periods for religious subjects and three for modern subjects, it will work properly. And thus, more important subjects should have regular periods, and those of lesser significance should have two or three periods a week. In this way, students will neither be over loaded, nor get exhausted. And can put up enough effort to do their homeworks willingly and attentively.
3-    Such education system will force them to appear for four examinations a year, which can put students in considerable difficulty and trouble!
Solution: If we succeed to find out the mechanism we can manage the exam twoice in a year till class IX. And the idea is that we hold both modern & traditional subject’s exam along whether it is half yearly or yearly. And once it is time to high school and 12th. Then it will be made into four. Fortunately, the students and teachers belonging to Madrasa background are well known to the fact that the students in most of the Madrsas are bound to appear in four exams in a year; Quarterly, Half Yearly, Nine monthly and Annualy.  And they seem not to be in much pressure or having extra burden. Therefore, if we engage sincerely, it can be discharge easily and may not have any adverse impact.  
4-    One may think that what if some one earns theses degrees through this mode of learning. It is just as having degrees of Alimiyat and Fazilat which are of no value to the govt. 
Solution: Upon comlition of 10th and 12th standard from Madrasa, the marksheet is issued to the student by some recognized school or collage to which the Madrsasa is affiliated. Given the mechanism, the student will be having the same as other main stream students of the collages and institutes at large.   

5-    The students having Alimiyat degree along with 12th and head for universities. They may fall prey to the unhealthy environment prevalent there, which can go against the intended aims and objectives.
Solution: It is true. However, our observation does not qualify the idea completely. Also, a considerable number of Madrasa student wish to go the universities. And the craze has gone to the extent that we can’t stop them even if we wish so. Therefore, there is no use of foul cry and regret. If we want our students not to go other way and explore new avenues in their lives, we (Muslims along Ulema and Peers) must have some ulternative programs. In this direction, an effective initiative has been taken by Prof. Sayed Mohammad Amin Miyan, in shape of Al- Barkat Institute, in Aligarh, UP. We must follow his foot print and try to have at least a branch or more in every District and at major locations if possible.
6-    Given the situation, it is quite possible that most of the students wish to go for higher education in universities and institute of modern education. It will decrease the number of qualified ulema in the religious circle which will have and adverse impact both on Madrasa and Muslim Ummah as well.
Solution: First of all, if they made trained sincerely and provided with merits and demerits of both traditional and modern system of education, it will work and bear fruit. And students will make mind to opt Fiqh (Islamic Jurisprodence) and Hadith as their career prospects.
Secondly, on the contrary if it happens, it may be compensated by other Islamic Madrasas engaged with the domain solely and this shortcoming fulfilled hopefully.
Confusion: Some well wishers and sincere members of the community may be of the opinion, what is use of donation and charity to the Madrasa which does not impart religious education.
Dear Members, you are right. However, I wish to bring into your notice that it will be unlawful at a time when most of the education in a Madrasa is based on modern system whereas the situation is equally changed here. Because as per the proposed idea, religious education will cover major portion of the Madrasa education system. While modern education would be as a prepatory to the future outlook.  So, it won’t be unlawful to extend helping hand toward such institutes and Madrasas.
Suggestions:
1-    The guardians are adviced not to engage their siblings into household work while they are busy doing their home work or school related affairs. So that the students may focus on their studies single mindedly and may find their dream come true. Believe in Allah, (the almighty), sacrifie, patience and continued effort is the key to success which is usually found missing in Muslim Ummah. One should learn that we have to sacrifie if we wish to succeed.
2-    Throgh this mode of learning not only boys rather girls also can receive their education and can enable themselves to work for the betterment of their family and community members as well. And it is worthless to differentiate between girls and boys in the field of education.
3-    Following taking such initiative, Muslims should look into the matter seriously and take time to decide the course of action ahead. On the contrary it may result into severe loss and will gain nothing. In the bargain, instead of development it may turn into legging behind and marginalization. Because, once there is a heap of shortcoming, it may not be reformed over night, rather gradually and steadily through months, years, decades or may be in a century long. However, it won’t go useless, In sha Allah. Yes, the major advantage of an initiative always requires a course of time. Therefore, don’t be in hurry. One should not think that he will see the outcome of his contribution during his life rather he should have a positive approach toward the move he has taken and wish its all around success and worth attraction. No matter whether it occurs during his life or beyond.
In view of the aforesaid, Madrasatul Haseeb girl’s school has been founded by Mufti Azhar Ahmad Amjadi, younger son of Faqeeh -e- Millat late Mufti Jalaluddin Ahmad Amjadi (May Allah be pleased with him), in which some girls are studying in first and second year of Alimiat. Like wise, Madrasatul Haseeb for boys will also come into being in near future.
I am quite hopefull to the sincere members and lovers of Muslim community that they will extend their helping hand and help us educate their sons & daughters with religious cum modern education which might enable them to raise a civilized and learned generation in future.





Educational Structure of Madrasatul Haseeb:
1.    E’adadiya (preliminary) till Alimiyat along with High School and Intermediate (7 Years)
2.    Specialisation in Islamic jurisprudence (3 Years)
3.    Specialisation in Hadith (3 Years)
4.    Computer Centre etc.
Construction Structure of Madrasatul Haseeb:
1-    To buy land space of 2 Bigha
2-    To construct a solid building
3-    To build a resourceful library
4-    To build a mosque
5-    To build a dining hall etc.
Note: We are immensely pleased to share with all concerned that we wish to make a separate arrangement of higher education both for boys and girls which is equally equipped with traditional and modern disciplines along in a civilized religious environment. So that Muslim generation can easily move towrd higher education following Matric and Intermediate and shape up its future.
 (وما توفيقنا إلا بالله، عليه توكلنا و إليه أنبنا، و صلى الله على خير خلقه محمد  و على آله  و أصحابه أجمعين)

انگلش پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں:

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts