Friday, September 6, 2019

رمضان میں آواز!!!

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
            پندرہ رمضان آواز آنے والی حدیث کو مخالفین موضوع قرار دینے کے درپے ہیں، ان کی تحریر پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ان حضرات کو علوم حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں!
            یہاں پر مختصرا زیر بحث مسئلہ کی حدیث کے متعلق چند باتیں ذکر کردیتا ہوں، قارئین کرام ان باتوں کو بغور ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ واضح ہوجائے گا کہ حدیث موضوع نہیں:
            (۱) امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الفتن‘ میں جس اسناد کے ساتھ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث ذکر کی ہے، جس میں رمضان کے مہینہ میں آواز آنے کا بیان ہے، اسی اسناد کے ساتھ امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المستدرک‘ میں ایک حدیث ذکر کی ہے، اسی حدیث کو اپنے وقت کے محدث و ناقد علامہ عبد اللہ بن صدیق غماری رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ’المہدی المنتظر‘ میں ذکر کی ہے۔اور فرمایا: اس حدیث کی اسناد حسن ہے، ان کے اس حکم سے پتہ چلا کہ امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ نے جس اسناد کے ساتھ زیر بحث مسئلہ کی حدیث ذکر کی ہے، اس کی اسناد بھی محدث و ناقد علامہ عبد اللہ بن صدیق غماری رحمہ اللہ کے نزدیک حسن ہے، اور حسن الإسناد حدیث ترغیب و ترہیب تو ترغیب و ترہیب احکام میں بھی قابل حجت ہوتی ہے!!
            (۲) امام ابن عدی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’الکامل‘ میں امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ کی قابل انکار احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: میں نے یہاں ان کی قابل انکار احادیث ذکر کردی ہے ، مجھے امید ہے کہ ان احادیث کے علاوہ جو ان کی روایت کردہ احادیث ہیں وہ مقبول ہونگی۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ان کی قابل انکار احادیث میں پندرہ رمضان یا مطلقا رمضان میں آواز آنے والی حدیث کا ذکر نہیں کیا، جس سے کم از کم یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک رمضان میں آواز آنے والی حدیث قابل حجت ہے۔
            (۳) مذکورہ بالا بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ زیر بحث حدیث موضوع نہیں، ہاں اگر تشدد برتا جائے توبرسبیل تنزل زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث حدیث ضعیف ہے، مگر ضعیف ہونے کی صورت میں بھی کوئی حرج نہیں ؛ کیونکہ حدیث باب ترہیب میں وارد ہے، اور اس باب میں اجماع- جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے تصریح فرمائی ہے- نہ سہی تو کم از کم جمہور کا مذہب ضرور ہے کہ حدیث اس باب میں قابل قبول ہے، اور اہل سنت و جماعت جمہور کے ساتھ رہنا لازم سمجھتے ہیں، نہ کہ مخالفین کی طرح چٹکی بھر لوگوں کے ساتھ جن کے بارے میں جہنم کی وعید وارد ہوئی ہے!
            (۴) بعض حضرات کو اہل سنت و جماعت کے موقف کی اگر کوئی حدیث امام ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’الموضوعات‘ میں مل جاتی ہے تو ان کی اپنی جہالت کی وجہ سے باچھیں کھل جاتی ہیں، اور اسے موضوع قرار دینے میں ذرہ برار تامل نہیں کرتے، انہیں میں سے زیر بحث حدیث بھی ہے، حالانکہ محدثین و ناقدین جیسے امام ابن حجر عسقلانی اور امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کی رائے ’الموضوعات‘ کے بارے میں یہ ہے کہ اس کتاب میں حدیث کے وارد ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حدیث موضوع ہے؛ کیونکہ اس میں موجودہ ہرایک حدیث کے جہاں موضوع ہونے کا احتمال ہے وہیں اس کے صحیح، حسن اور ضعیف ہونے کا بھی احتمال ہے؛ لہذا صرف اس کتاب میں حدیث کے وارد ہونے کی وجہ سے حدیث کو موضوع نہیں قرار دیا جاسکتا!ایسا کرنے والا محدثین و ناقدین کے طریقہ کار سے واقف نہیں!
            (۵) مخالفین نے اس حدیث کو یہ کہ کر رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ زیر بحث حدیث کسی معتبر کتاب میں نہیں، حالانکہ اس حدیث کی اصل محدثین و فقہا کے متفق علیہ قابل اعتماد امام طبرانی رحمہ اللہ کی کتاب ’المعجم الأوسط‘ میں موجود ہے، اس کے علاوہ یہ حدیث کتاب ’مسند الشاشی‘ اور کتاب ’الفتن‘ وغیرہ میں بھی موجود ہے، اگر چہ ان کتابوں کے بارے میں بعض محدثین کو کلام ہے، مگر اس کے بالمقابل بہت سارے محدثین و ناقدین کو ان کتابوں پر اعتماد ہے؛ لہذا کسی کا یہ کہنا کہ یہ حدیث کسی معتمد کتاب میں موجو د نہیں غلط ہے!
            (۵) اگر چہ امام عقیلی رحمہ اللہ وغیرہ بعض متشدد محدثین نے زیر بحث حدیث پر سخت حکم لگایا ہے، مگر ان کے مد مقابل بعض دوسرے محدثین و ناقدین، وسطیت کے علمبردار جیسے امام سیوطی(التعقبات) امام کنانی (تنزیہ الشریعہ المرفوعہ) او ر امام احمد رضا بریلوی (الفتاوی الرضویہ)رحمہم اللہ ان کے اس حکم سے راضی نہ ہوئے، بہر حال اس حدیث کے بارے  میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کا حکم مختلف فیہ ہے، اور اس طرح مختلف فیہ حدیث کے حکم کے متعلق دوسروں پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش کرنا ناقابل تلافی جرم ہے، اور مخالفین زیر بحث حدیث کے متعلق اسی جرم کے مرتکب ہیں، بہرحال میری اپنی رائے اس حدیث کے بارے میں یہ ہے کہ مجدد دین و ملت امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہی محتاط، حق اور قابل قبول ہے، اللہ تعالی ہم سب کو حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
            اس اجمالی بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ مخالفین کے اندر جلد بازی والی شیطانی صفت پائی جاتی ہے؛ لہذا اہل سنت و جماعت کے ہر فرد سے گزارش ہے کہ بغیر علمائے حق اہل سنت و جماعت کی طرف رجوع کیے مخالفین کے قول پر ہر گز ہرگز اعتماد نہ کریں۔ و اللہ تعالی أعلم۔
            (الحمد للہ میرا یہ مختصر مضمون دیار فقیہ ملت اوجھا گنج، بستی سے مدینۃ العلما گھوسی کے سفر میں فقط سابقہ مطالعہ اور حافظہ پر اعتماد کرتے ہوئے تقریبا ایک گھنٹہ کی توجہ کے بعد معرض وجود میں آیا)
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 831817713
15؍6؍2015

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts