مبسملا
و حامدا و مصلیا و مسلما
خاندان لونی
شریف علمی و دینی خدمات، تربیت، سلوک و معرفت کے اعتبار سے کافی مشہور و معروف ہے،
اسی مشہور و معروف گھرانے میں علامہ پیر سید عبد الشکور شاہ جیلانی علیہ الرحمہ کی
پیدائش ’کچھ‘ کے علاقہ ’واگڑ‘ میں واقع ایک گاؤں ’گاگودر‘ میں ہوئی، آپ کے بچپن ہی
میں یکے بعد دیگرے آپ کی والدہ ماجدہ پھر آپ کے والد ماجد رحمہما اللہ کا انتقال
ہوگیا، اس طرح سے آپ بچپن ہی میں والدین کے سایہ کرم سے محروم ہوکر یتیمی کے دور
میں داخل ہوگئے، مگر عموما اللہ تعالی کی خاص مہربانیوں کی وجہ سے یتیمی کی حالت
میں پلنے والا بچہ در یتیم ہوا کرتا ہے، ولایت کی منزلیں طے کرتے ہوئے اللہ تعالی
کا قرب حاصل کرلیتا ہے اور دینی و ملی ایسی خدمات انجام دیتا ہے جو دیگر حضرات کے
حصہ میں کم ہی آتا ہے، آپ انہیں درم یتیم میں سے ایک ہیں، اللہ تعالی نے اپنی خاص
عنایتوں سے اپنے بندے اور حضرت کے عم محترم علامہ الحاج پیر سید شاہ جیلانی رحمہ
اللہ کو حضرت اور آپ کے برادر محترم کی تربیت کی طرف توجہ دلائی، عم محترم رحمہ
اللہ نے دل و جان سے دونوں کی عمدہ تربیت فرمائی، دینی و فکری تعلیم سے آراستہ کیا،
حکمت و کتابت سے مزین ہونے کا موقع فراہم کیا اور ان پر آپ کی اس قدر عنایت ہوئی
کہ اپنی دو صاحبزادیوں کا اپنے انہیں دونوں بھتیجوں کے ساتھ نکاح کردیااور آپ نے
جب لونی شریف کی طرف ہجرت فرمائی؛ تو آپ کو ان کی جدائی قبول نہ ہوئی اور انہیں
بھی ساتھ لے لیا، میں آج کی اس بزم میں اسی شخصیت کے چند اہم گوشے ’تذکرہ سات لونی
شریف و سوجا شریف‘ میں موجود سوانح حیات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کرونگا، و ما توفیقی إلا
باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
پیر سید عبد
الشکور شاہ جیلانی علیہ الرحمہ نے گاؤں ’گاگودر‘ کے قائم شدہ مدرسہ میں رہ کر
باضابطہ اپنے والد محترم حضرت علامہ پیر سید احمد علی شاہ جیلانی رحمہ اللہ اور
دیگر علماے کرام سے اپنے عم محترم حضرت
علامہ الحاج پیر سید شاہ جیلانی رحمہ اللہ کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی، اللہ
تعالی کے فضل و کرم سے آپ علم و ہنر سے اس طرح مزین ہوئے کہ علم و فضل میں صاحب
روضہ یعنی حضرت پیر سید حاجی علی اکبر شاہ جیلانی نقشبندی ، لونی شریف کے بعد آپ ہی
کا اعلی مرتبہ و مقام تھا۔
اس سے جہاں
علامہ عبد الشکور علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت اجاگر ہوکر سامنے آتی ہے وہیں آپ کی
خانقاہ کا علمی وقار بھی ظاہر ہوتا ہے، جس نے اپنے اس اقدام سے عوام و خواص اور
خانقاہوں کو یہ بتادیا کہ جس طرح دوسروں کا علم دین سے مزین ہونا ضروری ہے، اسی
طرح سے خانقاہ کے افراد کا بھی علم دین سے آراستہ ہونا لازم ہے بلکہ دوسرے لوگوں
سے زیادہ خانقاہی افراد کو اس سے مزین ہونے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ عموما عوام انہیں
سے مربوط ہوتے ہیں اور انہیں ہی راہ نما اور آخرت کے لیے ذریعہ نجات بھی سمجھتے
ہیں، اگر یہ علم دین والے ہونگے؛ تو عوام بھی علم کی روشنی میں سانس لیں گے اور
اگر یہ بے علم رہے؛ تو عوام بھی جہالت کے اندھیرے میں سانس لیں گے، جس کا نتیجہ
نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوگا؛ لہذا ہر خانقاہ کو ہر دور میں اس اہم امر کی طرف توجہ
دینے اور اس پر سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت ہے، سابق بزرگان دین کی خانقاہوں کا یہ
معمول تھا کہ وہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے دین متین کی تعلیم دیتے اور اس سے
آراستہ کرتے، پھر اس کے بعد دوسری طرف ان کی توجہ مبذول ہوتی مگر آج کل عموما خانقاہی
لوگ سلف صالحین کے طریقہ کار کو چھوڑ چکے ہیں، مادیت اور شہرت حاصل کرنے کا اس قدر
غلبہ ہے کہ انہیں دینی تعلم کے لیے قربانی دینے کی توفیق ہی نہیں ملتی، آج بھی
خانقاہوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ وہ اپنی خانقاہوں کے افراد کو سب سے پہلے علم
دین سے مزین کریں پھر اس کے بعد کسی دوسری چیز کی طرف توجہ دیں؛ کیوں کہ اسی میں
خانقاہی وقار و عزت اور عوام کی بھلائی ہے۔
آپ نے علم دین میں مہارت حاصل کرنے کے بعد سرکار اول شاہ
اعظم خلیفہ خواجہ محمد مظہر حضرت شاہ صدیق اللہ علیہ الرحمہ سے بیعت ہوکر سلوک نقش
بندیہ کی تکمیل کی بلکہ دیگر سلاسل میں سبقت لے گیے، آپ کی لاجواب صلاحیت اور آپ
کا بے مثال کردار دیکھ کر مرشد کامل شاہ اعظم علیہ الرحمہ نے آپ کو چاروں سلاسل کی
اجازت و خلافت عطا فرمائی بلکہ ہندوستان میں مروجہ تمام سلاسل کی اجازتیں آپ کو
مرشد کریم نے مرحمت فرمائی۔
بیعت ہونا پھر بیعت کے مطابق سلوک کی تکمیل کرنا اور سلاسل
میں سبقت لے جانا اور آپ کی صلاحیت کو دیکھ کر آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا جانا،
آپ کا یہ عمل آج کے بیعت ہونے والے لوگوں کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ بیعت
ہونے کے بعد سلوک کا اہتمام نہ کرنا اور شریعت اسلامیہ کی کھلے عام مخالفت کرنا،
یہ بیعت کا مقصد نہیں، بیعت کا مقصد تو بیعت
ہونے کے بعد سلوک کا اہتمام کرنا، شریعت کی پابندی کرنا اور مخالفت کے قریب نہ
جانا ہے، نیز یہ بھی بتادیا کہ اگرچہ بطور تبرک خلافت کسی کو بھی دی جاسکتی ہے،
مگر خلافت کار آمد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ خلافت اسی کو دی جائے جو خلافت کا
حقدار ہو، ورنہ دور حاضر کی طرح عوما خلافت کھلی آفت ہوجاے گی اور ہر کس و ناکس اس کا غلط استعمال کرکے اس کا استغلال
کرتا ہوا نظر آےگا، اور یہ شعر ایسے لوگوں پر ضرور صادق آے گا:
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گیے
صلاحیت اور لیاقت کا اعتبار کرکے ہی خلافت دینی چاہیے، اس
کی عکاسی حضرت شاہ اعظم علیہ الرحمہ کا یہ حکم مزید تقویت بخش رہا ہے، آپ سید عبد
الشکور علیہ الرحمہ کے علم و ادب اور احترام کی ایک جھلک کو دیکھنے کے بعد حضور
صاحب سجادہ عبد الرحیم عرف قبے دھنی بادشاہ علیہ الرحمہ سے فرماتے ہیں:
’’دے دو جو کچھ فیض دینا ہو، دے دو، ہم نے بھی ان کی
صلاحیتیں دیکھ کر خوب دیا ہے، تم بھی دینے میں کمی یا توقف نہ کرو، ہم اجازت دیتے
ہیں، آپ بھی اپنی طرف سے خوب نوازش کرو، چنانچہ حضور صاحب سجادہ جانشین حضور شاہ
اعظم علیہ الرحمہ نے بھی آپ کو خوب خوب فیض عطا فرمایا اور اپنی اجازتوں سے مالا
مال فرمایا‘‘۔ (ص۴۰۳)
سید عبد الشکور علیہ الرحمہ کے اعلی ادب و احترام اور عمدہ
اخلاق و کردار ہی کی وجہ سے تینوں مرشدان اجازت و خلافت آپ پر بہت مہربان تھے اور
صاحب سجادہ صاحب قبہ کی مہربانیاں آپ پر مسلسل چالیس سال تک قائم رہیں۔
حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ اپنے شیخ طریقت حضور صاحب
قبہ علیہ الرحمہ سے کافی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور یہی عقیدت و محبت ان کا طرہ
امتیاز تھا، حضور صاحب قبہ علیہ الرحمہ کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے آپ جب ان سے
جدا ہورہے تھے، اس وقت کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
’’قدموں پر سر مبارک رکھ کر حضرت قدس سرہ اس قدر روئے کہ
ہچکی بندھ گئی، دل میں یہ خیال لیے ہوئے تھے کہ محبوب اس بھری دنیا میں ہمارا
سہارا اور آسرا یا وارث و وسیلہ آپ ہیں، آپ کے بعد ہمارا کیا حال ہوگا، مرشد
مہربان واقف اسرار نے تسلی دیتے ہوئے قدموں سے اٹھایا، سینے سے لگایا اور فرمایا:
پیر صاحب آپ بے فکر رہیں، ہم ان شاء اللہ تعالی ہر لمحہ ہر گھڑی آپ کے ساتھ ہیں،
آپ کبھی بھی اپنے کو تنہا محسوس نہ کریں، ہم ہر وقت آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔ (ص۴۰۴)
حضور سید عبد
الشکور علیہ الرحمہ نے اپنے شیخ کی صرف ان زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کے اس
دارفانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی اپنی ارادت کا خوب حق ادا کیا، یہ حق کی اداے گی
آپ بھی ملاحظہ کرلیں:
’’پیر سید عبد الشکور شاہ علیہ الرحمہ ہمیشہ حضرت پیر سید
حاجی محمد شاہ کے مزار پر عصر کے بعد تشریف لے جاتے، مغرب وہیں ادا کرتے، پھر
مراقبہ کرتے لیکن جب صاحب روضہ علیہ الرحمہ کی وفات ہوئی؛ تو ظہر تا عصر وہیں مزار
پر رہتے اور مراقبہ کرتے اور اکتساب فیض کرتے تھے، عصر نماز وہیں پڑھ کر پھر واپس
تشریف لاتے‘‘۔ (ص۴۰۷)
ایک عالم کو جس طرح اپنے استاد کا حق کبھی نہیں بھولنا
چاہیے بالکل اسی طرح ایک مرید کو اپنے پیر کے حق کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا
چاہیے؛ کیوں کہ ہر ایک کا اس کی زندگی کو سنوارنے میں اہم کردار ہے، اس اہم کردار
کا پاس و لحاظ حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ کی زندگی میں بخوبی دیکھا جاسکتا
ہے۔
حضور سید عبد الرشید علیہ الرحمہ نے جو خط اپنے مرشدد گرامی
وقار کو لکھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو غربت اور پریشانی میں زندگی گزارنا منظور
تھا مگر دولت و ثروت اور دنیا داری کے پیچھے بھاگنا کبھی منظور نہیں ہوا، آپ تحریر
فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’عرض یہ ہے کہ غلام کے گھٹنوں میں درد بے حد زیادہ ہے،
اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے، بدن میں بالکل طاقت نہیں رہی ہے، دوسرا عرض یہ ہے کہ
قرض خواہوں نے پریشان کر رکھا ہے‘‘۔ (ص۴۰۵)
ایک عالم دین اور صوفی بلکہ ہر مسلم کا یہی حق ہے کہ وہ
دنیا دار یعنی شریعت کی مخالفت کرنے والا نہ ہو، دنیا کے پیچھے نہ بھاگے بلکہ ایسی
زندگی گزارے کہ دنیا خود اس کے پیچھے بھاگے، اس زندگی کی عکاسی حضور سید عبد
الشکور علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ بخوبی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ صبر و تحمل کے پیکر تھے،
سیدہ بی بی بصرہ علیہا الرحمہ حضور بانی جامعہ صدیقیہ سے فرماتے ہیں:
’’تمہارے دادا درویش صفت انسان تھے، کوئی زیادتی بھی کرتا؛
تو معاف کردیتے اور بدلہ نہیں لیتے، یہ اکیلے تھے جب کہ ان کے چچا زاد بھائی چھے
تھے، پس وہ ان کو خاطر میں نہ لاتے اور کیا سے کیا بول دیتے، میں اگرچہ ان کو جواب
دیتی کہ ان کی بہن تھی، مگر تمہارے دادا اف تک نہ کہتے بلکہ صبر کر لیتے، کوئی
جواب نہیں دیتے، ممکن ہے کہ ان صبر آزما مرحلوں نے آپ کو صاحب روضہ علیہ الرحمہ کا
محبوب نظر بنادیا‘‘۔ (ص۴۰۷)
صبر و تحمل سے مزین شخص وہ اعلی منازل طے کرلیتا ہے جسے بے
صبرے لوگ کبھی حاصل نہیں کرپاتے، اگر ہم اس دنیاے رنگ و بو میں نظر دوڑائیں؛ تو
ہمیں اس کی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی، جس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے کوشش کی
وہ چوٹی کی بلندیوں پر پہونچ گیا اور جس نے بے صبری دکھائی وہ زوال کی طرف قدم
بڑھاتا چلا گیا اور تباہی اس کا مقدر بن گئی، صبر و تحمل ہی کی وجہ سے حضور سید
عبد الشکور علیہ الرحمہ صاحب روضہ علیہ الرحمہ کے محبوب نظر ہوگیے اور آپ کو وہ
مرتبہ حاصل ہوا جو دوسروں کو حاصل نہ ہوسکا۔
حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ اخلاق و کردار میں اپنی
مثال آپ تھے، آپ کے اخلاق کا اعتراف مسلم تو مسلم، غیر مسلم بھی کرتے تھے، یہی وجہ
تھی کہ جب گاؤں لونی شریف میں کسی سبب پیران عظام سے اختلاف ہوگیا؛ تو پورا گاؤں
آپ کے ساتھ ہوگیا، واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
’’کہتے ہیں کہ گاؤں لونی شریف میں کسی بات پر پیران عظام سے
اختلاف ہوگیا، حزب مخالف نے حضرت کو ملزم ٹھہرایا، حالاں کہ آپ اس واقعہ سے نابلد
تھے، آپ نے فرمایا: میرا نام سنبھل کر لینا، یہ سن کر آپ کا ساتھ دیتے ہوئے گاؤں
والے تمام لوگ یک زبان بول اٹھے کہ انہوں نے کبھی زمین پر چلتی چیونٹی کو بھی ایذا
نہیں دی، ایسے شخص پر آپ لوگوں کا الزام رکھنا غلط ہے، پھر بھی نہ مانے، دھمکیاں
دینے لگے، حضرت قدس سرہ کی مبارک زبان سے نکل گیا کہ آندرائی تالاب بھی پار نہیں کر
پاے گا، چنانچہ دوسرے روز اس کی تالاب میں آتے ہی موت ہوگئی‘‘۔ (ص۴۰۸)
قوم کا دل روپیے پیسے سے نہیں بلکہ اخلاق و کردار سے جیتا
جاتا ہے، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اپنے اعلی اخلاق و کردار
ہی کی وجہ سے لوگوں کا دل جیت لیا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے گیے، آج
اکثر لوگ اس اعلی اخلاق و کردار کو بھلاچکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اخلاق کتنا ہی
گھٹیا ہو، دولت کی فراونی کی وجہ سے قوم ان کے آگے سر تسلیم خم کردے گی، یہ خام
خیالی ہے، بلند اخلاق کے ساتھ دولت بھی ہو؛ تو دولت میں چار چاند لگ سکتا ہے مگر فقدان
اخلاق کے ساتھ دولت کوئی معنی نہیں رکھتی؛ اسی لیے علامہ عبد الشکور علیہ الرحمہ
نے دولت جمع کرنے کی طرف نہیں بلکہ اخلاق کو سنوارنے کی طرف توجہ دی جس کی وجہ سے
پوری قوم ان کی گرویدہ ہوگئی۔
پیر سید عبد الشکور علیہ الرحمہ کی وہ شخصیت تھی کہ حضرت
پاگارا بادشاہ حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ کے پوتے بانی جامعہ کو دیکھ کر خوش
ہوگیے اور اپنے فرزند کارنی بادشاہ کا غم بھول گیے، خوشی کی وجہ پوچھنے پر آپ نے
فرمایا:
’’پیر سید عبد الشکور شاہ کے پوتے ہیں، مولی تعالی نے ان
میں وہ تمام صلاحیتیں رکھی ہیں جو ان کے دادا میں پائی جاتی تھیں، بعد میں اس بنا
پر پاگارا بادشاہ نے بانی جامعہ پر مہربانیوں کی بارشیں کیں‘‘۔ (ص۴۰۶)
قارئین کرام اس واقعہ سے علامہ عبد الشکور علیہ الرحمہ کی
ذات کا اندازہ لگاسکتے ہیں، آپ کے پوتے کو دیکھ کر حضرت پاگارا بادشاہ اپنے بیٹے
کا غم بھول گیے، اگر آپ کہیں علامہ عبد الشکور علیہ الرحمہ کی زیارت کرلیتے؛ تو
حضرت کی کیفیت کیا ہوتی، قارئین خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔
حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ ولی کامل بھی تھے، کسی کے
ولی ہونے کا اصلی ثبوت یہ ہے کہ وہ پابند شریعت ہو، ہر معاملہ کے حل کے لیے شریعت
اسلامیہ ہی اس کا معیار ہو؛ کیوں کہ شریعت اسلامیہ کی پاسداری کے بغیر حسی کرامات
بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں بلکہ ایسی صورت میں انہیں کرامات کا نام بھی نہیں دیا
جاسکتا، ہاں جب شریعت کی پابندی ہو اور حسی کرامات کا ظہور ہو؛ تو اس صورت میں وہ
کرامات، حقیقت میں کرامت ہوتی ہیں، حضور سید عبد الشکور علیہ الرحمہ کے اندر شریعت
اسلامیہ کی پاسداری بدرجہ اتم موجود تھی اور آپ کے ولی ہونے کے لیے یہی کافی ہے، اس
کے ساتھ ساتھ آپ کے ذریعہ بعض حسی کرامتوں کا بھی ظہور ہوا، جیسے جج کا آپ کے ارد
گرد شیر کو دیکھ کر ڈر جانا، خالی رومال سے روپیے گرنا اور جنات کے بادشاہ کا آپ
کے مرید کو آپ کی وجہ سے معاف کردینا وغیرہ، اس طرح آپ کی ذات عملی اور حسی کرامات
کی بھی جامع تھی۔
تنبیہ: آج ہم ولی کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا فیض حاصل کرنے
کی بھی کوشش کرتے ہیں، ٹھیک ہے، اچھی بات ہے، ہونا ہی چاہیے، مگر دور حاضر میں
عموما یہ فیض حاصل کرنا صرف زبانی ہوتا ہے،
حالاں کہ یہ طریقہ کار ایک ولی کے بتائے ہوئے عملی طریقہ کے بالکل خلاف ہے، قوم کا
عجیب حال ہے ولی سے محبت کا دعوی کرتی ہے مگر انہیں کے طریقہ کار سے انحراف کرتی ہے،
ولی کا فیض حاصل کرنا چاہتی ہے مگر ولی کے عملی طریقہ کار سے گریز کرتی نظر آتی
ہے، اب ایسی صورت میں فیض کس حد تک ملے گا، شاید بیان کرنے کی ضرورت نہیں، مسلمانو!
حقیت میں ایک ولی کا اگر فیض حاصل کرنا ہے؛ تو قرآن و حدیث کی اتباع کرو، قرآن و
حدیث کی روشنی میں علما کے بتائے ہوئے احکام کو مانو، ولی کے عملی طریقہ کار کو
اختیار کرو، اس سے حقیقی معنوں میں محبت کرکے اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو، امت
مسلمہ نے جس دن ولی کی عملی زندگی کو اپنا لیا اگرچہ فرائض و واجبات کی اداے گی
ہی میں صحیح، اس دن اس امت کو ایک ولی کا
کامل فیض پانے سے کوئی نہیں روک سکتا اور جب ولی کا کامل فیض ملے گا؛ تو امت مسلمہ
کا ہر چہار جانب بول بالا ہوگا ورنہ ہم چاہے جتنی اتھل پتھل کرلیں زوال ہمارا مقدر
ہوگا۔
نہ سدھروگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو
تمہاری داستاں
تک نہ ہوگی داستانوں
میں
آپ کی زوجہ محترمہ کا نام بی بی بصرہ علیہا الرحمہ تھا،
مولی تعالی نے آپ کو ان سے پانچ صاحبزادے اور سات صاحبزادیاں عطا فرمائی، آپ کا
انتقال پرملال ۹؍ذی الحجہ ۱۳۶۳ھ مطابق ۲۴؍نومبر ۱۹۴۴ءشب جمعہ عید الاضحی کے موقع
پر ہوا اور جس کا شب جمعہ میں انتقال ہوتا ہے، اللہ تعالی کے فضل سے وہ قبر کے
سوال و جواب اور عذاب سے محفوظ ہوجاتا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ارشاد فرماتے ہیں:
((جو بھی مسلم جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں فوت ہوگیا؛ تو
قبر کے فتنہ سے بری ہوگیا)) (مشکل الآثار، امام طحاوی رحمہ اللہ، رقم:۲۷۷)
علما فرماتے ہیں کہ جس شخص کی وفات جمعہ کے دن یا رات میں
ہوئی؛ تو یہ اس کی سعادت مندی پر دال ہے، اس دن یا رات میں اسی کا انتقال ہوتا ہے
جس کا مقدر ہی سعادت مندی ہو، اس سے معلوم ہوا کہ حضور سید شاہ عبد الشکور علیہ
الرحمہ دنیا میں بھی سعادت مند تھے اور جمعہ کی رات میں آپ کے انتقال ہونے کی وجہ
سے آپ کی آخرت کی سعادت مندی کا بھی ثبوت مل گیا؛ کیوں کہ جو شخص اس دن یا رات میں
وفات پاتا ہے وہ فتنہ قبر سے محفوظ ہوجاتا ہے اور یہ یقینا آخرت کی بہت بڑی سعادت
مندی کی بات ہے۔
حضور علامہ سید
عبد الشکور علیہ الرحمہ کا مزار مبارک لونی شریف میں گنبد معلی کے پاس ایک حجرہ
میں غربی جانب، آخر میں ہے، اللہ تعالی ہم سب کو عالم باعمل ولی برحق حضور سید عبد
الشکور علیہ الرحمہ کے نقش قدم پر چل کر عملی اقدام کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے
سلوک و معرفت کا کچھ چھینٹا ہم لوگوں کو بھی عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ
امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 831817713
۲؍رمضان المبارک ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۱۸ء
No comments:
Post a Comment