حضور تاج الشریعۃ جانشین مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی ذات بابرکت یقینا مختلف الجہات ذات تھی، آپ ایک ممتاز عالم دین و فقیہ تھے، زہد و تقوی آپ کا طرہ امتیاز تھا، آپ ایک نیک اور باشرع پیر ہونے کے ساتھ ساتھ بے مثال ناصح و خطیب بھی تھے، ان تمام اوصاف حمیدہ کا جامع ہونے کے باوجود بھی سب سے خاص بات جو آپ کے اندر تھی وہ یہ تھی کہ آپ کو درس و تدریس میں مہارت تامہ حاصل تھی، آپ فقہ و فتاوی میں ید طولی رکھتے تھے، فن حدیث میں بھی آپ کی مہارت کا جواب نہیں تھا، آپ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے، آپ نے متعدد کتابوں کی تعریب کا اہم کام بھی بخوبی انجام دیا، آپ کی تحقیق و تدقیق بڑی عمدہ ہوتی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحقیقی کاوش کو عرب و عجم میں بنظر تحسین دیکھا جاتا تھا،ایسی شخصیت کسی زمانے والوں کو بڑے نصیب سے ملا کرتی ہے، آج اسی شخصیت بارزہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کر رہاہوں، آپ کی شخصیت کی ہر جہت پر اس تھوڑے وقت اور چند صفحات میں گفتگو کرنا ممکن نہیں؛ اس لیے میں یہاں پر صرف آپ کی تصنیف کردہ ایک کتاب ’الصحابۃ نجوم الاھتداء‘ جو فن حدیث کا عظیم شاہکار ہے، اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، و ماتوفیقی إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ نے غالبا اپنے مطالعہ کے
درمیان ’الشفاء‘ کے حاشیہ کو ملاحظہ فرمایا کہ کسی حدیثی نے اس کتاب میں مذکور
حدیث: ((أصحابی
کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم)) کو موضوع قرار دیا، آپ نے اپنے وسیع مطالعہ کی وجہ
سے اول وہلہ میں سمجھ لیا کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ اس لیے آپ نے اس غلط دعوی اور
کج روی سے عام مسلمانوں کو اپنی تحقیق کی روشنی میں آگاہ کرنے کا ارادہ کرکے اس کو
بحمد اللہ پایہ تکمیل تک پہونچایا، آپ نے پہلے حدیثی کی دلیل پیش کی پھر اس کے بعد
اس کی دلیل کا منصفانہ جائزہ لیا، آپ اس حدیثی کی دلیل ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ حدیث موضوع ہے، ذہبی نے اسے جعفر بن عبد الواحد ہاشمی
کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے، جعفر کے بارے میں دارقطنی نے فرمایا: یہ حدیث گڑھتا ہے
اور ابوزرعہ نے کہا: کچھ احادیث روایت کی ہے، جن کی کوئی اصل نہیں، یہ حدیث اسی راوی کی بلا سے ہے، مزید کے لیے ابن حجر کی
تلخیص الحبیر اور ابن حزم کی الإحکام دیکھی جائے‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء،تاج
الشریعہ رحمہ اللہ، ص۱۷، تحقیق: ابوسہل نجاح عوض، ط: المقطم للنشر و التوضیع،
قاہرہ، مصر)
ہمارے ممدوح گرامی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ فرماتے
ہیں: اس حدیث کے موضوع ہونے کا دعوی محل نظر بلکہ نادرست ہے، موضوع ہونے کا دعوی
کیوں نادرست ہے ملاحظہ فرمائیں:
اولا: ’’امام علی قاری نے خود ذکر کیا کہ امام دارقطنی رحمہ
اللہ نے اس حدیث کی تخریج ’الفضائل‘ میں کی اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اس کو تخریج کرنے کے بعد فرمایا: ’’اس حدیث
سے حجت قائم نہیں ہوگی‘‘۔
نیز امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’المدخل‘ میں فرمایا: ’’اس
حدیث کا متن مشہور ہے اور اس کی ساری اسانید ضعیف ہیں‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء،
ص۱۸)
اور جب امام حلبی رحمہ اللہ نے امام قاضی عیاض رحمہ اللہ پر
اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس حدیث کو انہیں اپنی کتاب ’الشفاء‘ میں صیغہ جزم کے
ساتھ نہیں ذکر کرنا چاہیے تھا؛ تو اس کا جواب دیتے ہوئے امام علی القاری رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
’’یہاں اس بات کا احتمال ہے کہ امام قاضی عیاض رحمہ اللہ کے
نزدیک اس حدیث کی کوئی سند ثابت ہو یا یہ کہ آپ نے کثرت طرق کی وجہ سے اس حدیث کو
حسن کے درجہ میں رکھا ہو، مزید یہ کہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کی
گنجائش ہے؛ اس لیے ان پر اعتراض مناسب نہیں‘‘۔(الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۱۸)
ہمارے ممدوح گرامی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ درمیان
گفتگو اس حدیث کے صرف ضعیف ہونے پر مزید ناقدین کے متعدد اقوال ذکر کرنے کے بعد
فرماتے ہیں:
’’امام علی القاری رحمہ اللہ کے کلام سے چند باتیں سامنے
آئیں:
(۱)اما دارقطنی رحمہ اللہ نے خود اس حدیث کو روایت کیا اور
اس پر موضوع ہونے کا حکم نہیں لگایا، اگر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو
موضوع قراردیا ہوتا؛ تو امام علی القاری رحمہ اللہ ان کے قول کو ضرور نقل فرماتے۔
(۲)امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام نے اس حدیث
کے متعلق جو الفاظ استعمال کیے ان کا مفاد صرف اتنا ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ
ضعیف ہے، نیز امام دارقطنی رحمہ اللہ کے قول سے: ’’اس حدیث کا متن مشہور ہے اگرچہ
اس کی ساری اسانید ضعیف ہیں‘‘ ایک اور فائدہ حاصل ہوا کہ اس حدیث کو تلقی بالقبول
کا درجہ حاصل ہے؛ جس کی وجہ سے کثرت طرق کے ساتھ اس حدیث کی قوت میں مزید اضافہ
ہوگیا۔
نیز علامہ شہاب خفاجی رحمہ اللہ نے بھی امام دارقطنی رحمہ
اللہ سے حکایت بیان کی کہ آپ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے لیکن یہ ذکر نہیں کیا کہ خاص
اس حدیث پر آپ نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے؛ لہذا صرف امام دارقطنی رحمہ اللہ کے
قول: ’’راوی جعفر حدیث گڑھتے ہیں‘‘ کے پیش نظر یہ استشہاد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ زیر
بحث حدیث موضوع ہے‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۱۹)
ثانیا: ’’امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کے قول:’’جعفر نے کچھ
احادیث روایت کی ہے جس کی کوئی اصل نہیں‘‘ سے بھی استشہاد تام نہیں؛ کیوں کہ یہ
حکم وضع میں صریح نہیں اور اس پر سب سے بڑی دلیل وہ کلام ہے جس کو امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’لسان المیزان‘
میں نقل کیا ہےکہ سعید بن عمرو بردعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ابوزرعہ رحمہ
اللہ سے بعض احادیث کے بارے میں مذاکرہ کیا جسے انہوں نے جعفر بن عبد الواحد سے
سنا تھا؛ تو آپ نے ان کا انکار کیا اور فرمایا: ان کی کوئی اصل نہیں اور بعض کے
بارے میں فرمایا: یہ باطل و موضوع ہیں۔
امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا ابتدا میں جعفر کی بعض احادیث کے
متعلق یہ کہنا کہ ان کی کوئی اصل نہیں، یہ حدیث کے موضوع ہونے کا فائدہ نہیں دیتا؛
کیوں کہ اس کے فورا بعد ہی آپ نے ان کی بعض احادیث کے بارے میں فرمایا کہ وہ باطل
و موضوع ہیں، اس کا واضح مفاد یہ ہے کہ آپ کے قول: لا أصل لہ اور موضو ع و
باطل کے درمیان فرق ہے، پہلے قول میں سند پر حکم ہے متن پر نہیں، نیز آپ کا قول: لا أصل لہ، آپ کے اپنے
علم کے اعتبار سے ہے اور اس پر قرینہ آپ کا ان کی احادیث کا انکار کرنا ہے‘‘۔
(الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۲۰)
ثالثا: ’’جعفر کے ترجمہ میں جو کہا گیا ہے کہ وہ ایسی
احادیث روایت کرتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں، ثقات سے مناکیر روایت کرتے ہیں، ان پر
سند کے گڑھنے اور احادیث چوری کرنے کی بھی تہمت لگائی گئی ہے، یہ تمام باتیں سند
کے وضع کرنے پر دال ہیں اور اسی وجہ سے کبھی کسی حدیث کے بارے میں صرف سند کے
اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ حدیث موضوع ہے، یہ حکم صرف سند پر ہی منحصر ہوگا اور متن تک
تجاوز نہیں کرے گا‘‘۔
پھر ہمارے ممدوح گرامی حضور تاج الشریعہ رحمہ اللہ جرح مفسر اور غیر مفسر کے بارے امام ابن صلاح
رحمہ اللہ کا قول فیصل ذکر کرنے کے بعد دوبارہ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کے قول کی
طرف متوجہ ہوتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
رابعا: ’’امام
ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے راوی جعفر کی بعض احادیث کے بارے میں جو یہ کہا کہ یہ
موضوع ہیں، اس سے کوئی دھوکا نہ کھائے؛ کیوں کہ اس حکم میں یہ احتمال بہرحال ہے کہ
ان احادیث کا دار و مدار انہیں راوی جعفر پر ہو؛ اس لیے ان کے متہم کا لحاظ کرتے
ہوئے احادیث کے موضوع ہونے کا حکم لگایا، جس کا مآل وضع کا حکم باعتبار ظن ہےاور
یہ اس بات کو مستلزم نہیں کہ جو بھی روای جعفر نے روایت کیا سب موضوع ہے؛ اس لیے خاص
اس زیر بحث حدیث کے متعلق یقین نہیں کیا جاسکتا بلکہ گمان کی بھی گنجائش نہیں کہ
یہ حدیث موضوع ہے‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۲۱)
خامسا: ’’یہ حدیث کیسے موضوع ہوسکتی ہے جب کہ امام ابن حجر
رحمہ اللہ اسی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ حدیث ضعیف
ہے، نیز فرماتے ہیں: بلکہ ابن حزم سے مروی ہے کہ انہوں نے اس حدیث کے موضوع
و باطل ہونے کا قول کیا ہے، مگر امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن حزم کے اس حکم کو قبول
نہیں کیا، چنانچہ اس کے بعد آپ مزید فرماتے ہیں: لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ سے
مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: بے شک مسلم شریف کی حدیث: ستارے آسمان کے امین
ہیں۔۔۔الحدیث، اس زیر بحث حدیث کے بعض
معنی کو ادا کرتی ہے، پھر امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام بیہقی رحمہ
اللہ نے سچ فرمایا، یہ حدیث صحابہ کرام کو ستاروں سے تشبیہ کی مؤید ہے، ہاں اقتدا
کے بارے میں تائید ظاہر نہیں، البتہ ممکن ہے کہ ستاروں کے ذریعہ ہدایت کے معنی کا
اعتبار کرتے ہوئے اقتدا کا معنی حاصل ہوجائے، امام علی القاری رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: ظاہر یہ ہے کہ اہتدا اقتدا کی فرع ہے‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۲۱)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اس کلام سے
بالکل واضح ہوگیا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن حزم کے دعوی موضوع کو قبول
نہیں کیا اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے جس حدیث کو نقل کیا ہے اس کے ذریعہ زیر بحث
حدیث کے معنی کی تائید کی ہے، یہیں سے حدیثی نے جو ابن حجر رحمہ اللہ کی طرف رجوع
کرنے کا مشورہ دیا تھا اس کا بھی جواب مل گیا اور وہ یہ کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے
اس حدیث کو موضوع و باطل قرار نہیں دیا اور ابن حزم کے دعوی کو بھی قبول نہیں کیابلکہ
امام بیہقی رحمہ اللہ کے قول کو باقی رکھا اور زیر بحث حدیث تائید کی حالاں کہ آپ
نے شروع کلام میں فرمایا تھا: یہ حدیث ہے‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۲۲)
سادسا: ’’امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے جو اس حدیث کے بارے میں
فرمایا: یہ حدیث جعفر کی بلا سے ہے، یہ اپنے ظاہر پر محمول نہیں؛ کیوں زیر بحث
حدیث کی تائید صحیح مسلم کی حدیث سے ہورہی ہے اور اس حدیث کا مدار صرف جعفر بن عبد
الواحد پر نہیں بلکہ یہ حدیث متعدد طرق کے ذریعہ حضرت عمر، جابر، ابن عمر اور ابن
عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، نیز امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا یہ قول حدیث کے ان الفاظ کے بارے میں
ہےجس کو انہیں سے ’المیزان‘ میں نقل کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے: ((أصحابی
کالنجوم من اقتدی بشیء منھا اہتدی)) قارئین واضح طور پر ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ یہ وہ
حدیث نہیں جس کو ’الشفاء‘ اور ’المشکاۃ‘ وغیرہ میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا: ((بأیہم
اقتدیتم اہتدیتم))
لہذا اگر مان بھی لیا جائے کہ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے اس
حدیث کے متن پر وضع کا حکم لگایا ہے؛ تو یہ حکم اسی لفظ کے ساتھ خاص ہوگا جس کا ذکر
’المیزان‘ میں ہوا اور ان کا یہ حکم حدیث کے دوسرے الفاظ پر صادق نہیں آئے گا‘‘۔
(الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۲۵)
پھر حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ امام ابن حجر رحمہ اللہ کی
’التقریر و التحبیر‘ کے حوالہ سے گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’امام ابن حجر رحمہ اللہ نے راوی جعفر کے بارے جس کلام کے
ذریعہ اپنی بات ختم کی ہے، اس سے بے توجہی نہیں برتی جاسکتی ، وہ کلام یہ ہے:
مسلمہ بن قاسم نے فرمایا: راوی جعفر کا مقام ثغر ۲۴۸ھ میں انتقال ہوا، یہ بصری ثقہ
ہیں، ان سے امام ابوداؤد نے روایت کی ہے اور اسی طرح ابوعلی جیان نے بھی انہیں
شیوخ ابوداؤد میں شمار کیا ہے‘‘۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اور یہ امام
ابن حجر رحمہ اللہ کی جانب سے راوی جعفر کے بارے میں صریح توثیق ہے اور جو راوی
جعفر کے بارے میں دوسروں کی جانب سے کلام کیا گیا ہے، وہ محتمل ہے؛ اس لیے راوی
جعفر کے بارے میں توثیق ہی مقدم ہونی چاہیے۔
پھر جو ناقد
ہوتا ہے وہ غیر کی رائے کے ساتھ مقید نہیں ہوتا ہےاور امام قاضی عیاض رحمہ اللہ
یقینی طور پر عظیم ناقد اور حدیث کی علل کو جاننے والے ہیں، اس طرح کے جو لوگ ہوتے
ہیں، انہیں اس بات کا حق ہوتا ہے کہ جس راوی کو وہ قابل قبول سمجھیں، ان سے روایت
کریں، اگرچہ دوسروں کے نزدیک وہ قابل قبول نہ ہو‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۲۸)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ اپنے اس دعوی پر صحیح
البخاری، مسلم اور ابوداؤد کے بعض متکلم فیہ راویوں کی مثال پیش کرنے کے بعد ابن
حزم کی رائے کی طرف اپنی نوک قلم کے ذریعہ متوجہ ہوتے ہیں، آپ فرماتے ہیں:
سابعا: ’’ابن حزم اپنے دعوی میں تمام لوگوں سے متفرد ہیں
اور ان کا تفرد ہمیں کوئی ضرر نہیں دے سکتا۔۔۔ابن حزم زیر بحث حدیث کے بارے میں
لکھتے ہیں:
’’اور روایت: أصحابی کالنجوم، یہ روایت ساقط ہے‘‘۔
پھر سند ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’ابو وہب ثقفی اور سلام بن سلیمان موضوع
احادیث روایت کرتے ہیں اور زیر بحث حدیث بلاشک انہیں موضوعات میں سے ہے؛ لہذا یہ روایت
ساقط ہے جس کی اسناد ضعیف ہے‘‘۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ ان کے اس قول کا تنقیدی تعاقب
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ابن حزم کا قول: ’’یہ روایت ساقط ہے‘‘۔ یہ حکم صرف سند پر
صادق آئے گا، اس پر قرینہ ابن حزم کی عبارت کے اخیر میں یہ قول ہے: ’’ لہذا یہ
روایت ساقط ہے جس کی اسناد ضعیف ہے‘‘۔ اس لیے یہ حکم صرف سند پر ہی منحصر ہوگا اور اس حکم کا
متن سے کوئی تعلق نہیں ہوگا‘‘۔
پھر اپنے جد امجد اعلی حضرت مجدد دین و ملت نور اللہ مرقدہ کی
کتاب: ’الھاد الکاف فی أحکام الضعاف‘ کا حوالہ دینے کے بعد ابن حزم کے دعوی کا رد
اور ان کے تناقض کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور گفتگو کے درمیان ابن حزم کا یہ کہنا: ’’یہ حدیث انہیں
موضوعات میں سے ہے‘‘ قابل قبول نہیں؛ کیوں کہ یہ دعوی دلیل سے خالی و عاری ہےاور ساتھ
ہی یہ دعوی ان کے ضعف سند کے اقرار کے منافی ہے؛ کیوں کہ ضعف سند، متن کے ضعیف
ہونے کے مستلزم نہیں چہ جائے کہ حدیث کے موضوع ہونے کو مستلزم ہو‘‘۔(الصحابۃ نجوم
الاھتداء، ص۳۰)
پھر حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ ابن حزم کا بعض دیگر
ناقدین کے اقوال سے استدلال جیسے متروک، مجہول اور عدم صحت کا علمی و تنقیدی جائزہ
لینے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ابن حزم کا ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد یہ کہنا: ’’یہاں
سے ظاہر ہوگیا کہ یہ روایت بالکل ثابت نہیں، بلاشبہ یہ روایت جھوٹی ہے‘‘۔ دعوی بلا
دلیل ہےاور اندازہ سے حکم لگانا ہے جو بہت سخت ہے، نیز تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ابن
حزم زیر بحث حدیث کی سند کے بارے میں گفتگو کرکے سند کے ضعیف ہونے کا اقرار کرتے
ہیں، امام بزار رحمہ اللہ کا ایسا قول ذکر کرتے ہیں جو ضعیف ہونے کا بھی فائدہ
نہیں دیتا، پھر متن کے بارے میں یقینی طور پر مکذوب و موضوع ہونے کا حکم لگادیتے
ہیں!‘‘۔ (الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۳۱)
اس کے بعد جانشین مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے آیات کریمہ
سے ابن حزم کا بے محل استدلال اور ان کی کج روی بیان کرتے ہوئے وضاحت فرائی کہ اس
طرح کے بے محل استدلال اور فکری انحراف کی وجہ سے تقلید سے منع کرنا، سارے صحابہ
کے اقوال کو رد کرنا، صحیح احادیث کو قبول نہ کرنا بلکہ قرآن کریم کو نہ تسلیم
کرنا اور ہر کس و ناکس کے لیے اجتہاد کا باب کھولنے جیسی مہلک خرابیاں لازم آئیں
گی۔
نیز ابن حزم نے جو بلادلیل امام بخاری اور راوی ہشام
کے درمیان انقطاع کا دعوی کرکے حرمت معازف کے بارے میں وارد حدیث کو رد کرنے کی
کوشش کی ہے، اس دعوی کو بھی جانشین مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اپنے علمی وسعت
کے پیش نظر قبول نہیں کیا اور بتایا کہ یہ دعوی بالکل غلط ہے؛ کیوں کہ امام بخاری
رحمہ اللہ کی راوی ہشام سے ملاقات اور سماعت دونوں ثابت ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس
بےجا استدلال ، بلادلیل دعوی اور کج روی سے واضح ہوگیا کہ ابن حزم نے اپنے نفس اور خواہش کی اتباع کرنے
کی مذموم کوشش کی ہے، اس پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن حزم نے عام راوی تو عام
راوی، صحابی رسول حضرت ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی بےجا تنقید
و طعن کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ مقدوح ہیں، یہ طعن صرف ایک صحابی رسول کے بارے
میں نہیں ہے بلکہ اس متفق علیہ اعتقاد کے بھی مخالف ہے کہ سارے صحابہ عدول ہیں؛
کیوں کہ کسی صحابی رسول کی عدالت کو طعن کرکے ساقط کرنا، تمام صحابہ کی عدالت کو
ساقط کرنا ہے۔
پھر حضور تاج
الشریعہ علیہ الرحمۃ نے ان بعض احادیث جن کی وجہ سے راوی جعفر کو متہم قرار دیا
گیا، ان کا فنی و تنقیدی جائزہ لیا اور ان کے بارے میں بتایا کہ یہ احادیث ایسی
نہیں ہیں کہ جن کی وجہ سے انہیں متہم قرار دیا جاسکے بلکہ اس میں سے تو بعض حدیث
متواتر یا کم ازکم حسن لغیرہ یا صحیح لغیرہ کو پہونچی ہوئی ہیں، اس کے باجود ان
احادیث کو روایت کرنے کی وجہ سے انہیں جرح و قدح کا نشانہ بنانا عجیب و غریب ہے۔
اس کے بعد حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ اپنی قیمتی گفتگوکو
سمیٹتے ہوئے اپنے جد امجد حضور اعلی حضرت
مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کا قول فیصل
پیش کرتے ہیں:
’’عقل شاہد ہے کہ حدیث ضعیف اس طرح کے مقام میں مقبول ہے‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں: جب عقل سلیم شاہد ہے کہ حدیث ضعیف ایسے
مقام پر معتبر ہے؛ تو سند میں خواہ کتنا ہی کیوں نقص نہ ہو، اس حدیث کے باطل ہونے
پر یقین نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ زیادہ جھوٹ بولنے والا بھی کبھی سچ بولتا ہے،
ممکن ہے کہ اس کے سوا دوسری سند کے ذریعہ صحیح طریقہ سے حدیث روایت کی گئی ہو‘‘۔(الصحابۃ
نجوم الاھتداء، ص۴۰)
پھر آپ نے اپنے اس دعوی پر متعدد ناقدین و علما کے اقوال
پیش کرکے اپنے دعوی کو مزید محکم اور مضبوط بنایا نیز یہ بھی وضاحت فرمائی کہ کبھی
حدیث سند کے اعتبار سے تو ضعیف ہوتی ہے مگر اہل کشف کے نزدیک وہ صحیح ہوتی ہے جیسے
امام اکبر ابن عربی اور خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہما اللہ نے متعدد احادیث
کو کشف کے ذریعہ صحیح قرار دیا ہے۔
اس کے بعد آپ نے اخیر میں ایک مفید مثال پیش کی، وہ مثال یہ
ہے:
’’ایک آدمی نے طبعی حرارت میں کمی محسوس کی؛ تو زید نے اس
سے کہا: فلاں ماہر ڈاکٹر نے اس مرض کے لیے ایک دوا تجویز کی ہے کہ سونے کے اوراق
کو بید مشک کے عرق کےساتھ ہاوون دستے میں سونے کے کوٹنے والے اوزار سے کوٹ کر یا اسے
ہتھیلی میں شہد کے ساتھ رگڑکر خوب باریک کرکے پی لیا جائے۔
اب مریض کو یہ تجویز معلوم ہونے کے بعد عقل سلیم کا تقاضا
یہ نہیں ہے کہ مذکور دوا کو حرام جانے جب تک کہ ڈاکٹر تک صحیح سند کے ذریعہ اس
نسخہ کی حیثیت معلوم نہ ہوجائے، یہاں پر اس کے استعمال کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ طبی
اصول کے مطابق اس کے استعمال میں کوئی خرابی نہیں، ورنہ بعید نہیں کہ وہ نسخہ کی
صحت کتابوں میں تلاش کرتا پھرے، راویوں کی ثقاہت کی تحقیق کرے اور اپنی بےوقوفی کی
وجہ سے اس دوا کے منافع سے محروم ہوجائے اور بیمار کو وقت پر نافع دوا نہ مل پائے۔
(الصحابۃ نجوم الاھتداء، ص۴۴)
اس کے بعد اپنی اس بات کو بطور نتیجہ اس فکر انگیز قول کے
ذریعہ اختتام کو پہونچایا، ملاحظہ فرمائیں:
’’فضائل اعمال کی حدیث کا بھی یہی حال ہے کہ ہمارے کانوں تک
اس طرح کی کوئی مفید حدیث پہونچی جس سے شریعت مطہرہ نے منع نہیں فرمایا قانون
اسلام سے متصادم نہیں؛ تو ہمارے لیے محدثین کے طریقہ کار پر حدیث کی تحقیق ضروری
نہیں، اگر حدیث صحیح ہے تو خوب، ورنہ ہماری اچھی نیت کی وجہ سے ہمیں بہترین ثمرہ
ملے گا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {هَلْ
تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ} (التوبۃ:۹، آیت:۵۲)
و صلی اللہ تعالی علی سیدنا محمد و آلہ و صحبہ و بارک وسلم‘‘۔(الصحابۃ نجوم
الاھتداء،تاج الشریعہ رحمہ اللہ، ص۴۵، تحقیق: ابوسہل نجاح عوض، ط: المقطم للنشر و
التوضیع، قاہرہ، مصر)
حضور تاج الشریعہ جانشین مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اپنی
اس علمی،تحقیقی و تنقیدی گفتگو میں مندرجہ ذیل پیغام امت مسلمہ کو پہونچانے کی
بہترین کوشش فرمائی ہے،ملاحظہ فرمائیں:
(۱)ایک ناقد و محقق کے لیے مناسب نہیں کہ کسی کی تحقیق خاص
کر کسی حدیثی کی تحقیق کو دیکھ کر مرعوب ہوجائے اور بلاتحقیق و تفتیش آمنا و صدقنا
کہے۔
(۲) اہل سنت و جماعت کے عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہر
معاملہ خاص کر وہ معاملہ جس کا تعلق دین متین سے ہے، اس میں ضرور اپنے علماے اہل سنت
ہی کی طرف رجوع کریں تاکہ حق سے انحراف کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو۔
(۳) زیر بحث حدیث کے متعلق حدیثی محقق کی تحقیق قابل قبول
نہیں؛ کیوں کہ اس نے جن علما و ناقدین کے اقوال سے استدلال کیا تھا وہ خود خاص اس
حدیث کے موضوع ہونے کے قائل نہیں، البتہ ابن حزم نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے مگر
خود ان کا استدلال ان کے دعوی کا ساتھ نہیں دے رہا ہے؛ اس لیے ان کی رائے قابل
اعتماد نہیں۔
(۴) اس حدیث کے راوی جعفر نے بعض احادیث روایت کی جس کی بنا
پر بعض لوگوں نے ان پر جرح و قدح کیا مگر چوں کہ یہ احادیث اصول شرع سے متصادم
نہیں بلکہ ان میں سے بعض متواتر یا صحیح ہیں؛ اس لیے ان احادیث کی بنا پر جرح اور
دیگر مبہم و محتمل جرح محل نظر ہے، خاص کر اس صورت میں کہ بعض ناقدین نے آپ کی
توثیق بھی کی ہے۔
(۵) اس حدیث کے متعلق جو اکثر اقوال ہیں وہ یہی بتاتے ہیں
کہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے بلکہ بعض رجحان کے مطابق اس حدیث کے حسن لغیرہ
ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
(۶) ابن حزم نامی شخصیت نے آیات سے بے محل استدلال کیا جو
بہت ساری شرعی خرابیوں کی جامع اور بعض اوقات یہ جرح و قدح میں بہت سخت ثابت ہوئے
ہیں یہاں تک کہ صحابی رسول ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی جرح و
قدح کا نشانہ بنایا جو تمام صحابی کی جرح و قدح کے مترادف ہے۔
(۷) کشف کے ذریعہ بھی احادیث کی صحت ثابت ہوتی ہے؛ اسی لیے
بعض اوقات محدثین کرام بعض احادیث کو موضوع یا ضعیف قرار دیتے ہیں مگر اہل کشف کے
نزدیک وہ حدیث صحیح ہوتی ہے۔
(۸) راوی کتنا
بھی ضعیف ہو، اس کی روایت کردہ حدیث کے متعلق موضوع ہونے کا یقین نہیں کیا جاسکتا؛
کیوں کہ کبھی بہت جھوٹ بولنے والا بھی سچ بولتا ہے اور یہی مذہب محتاط ہے۔
(۹) اگر بر سبیل تنزل زیر بحث حدیث کو ضعیف مان لیا جائے تو
بھی کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ اس طرح کی حدیث فضائل کے باب میں معتبر اور قابل عمل
ہے، نیز کوئی ایسی حدیث جس کی سند قوی نہیں بلکہ ضعیف یا شدید ضعیف ہے اور وہ اصول
شرع سے متصادم نہیں تو اس پر بھی عمل کرنا جائز ہے ۔
اللہ تعالی حضور
تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کی قبر انور پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے، ہمیں ان کے
علمی و عملی فیوض و برکات سے مالا مال کرے،ہم سب کو باطل سے بچنے، حق بولنے اور حق
قبول کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہرشریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ
امجدیہ ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳۰؍ذوالقعدۃ ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۲؍اگست ۲۰۱۸ء
ای میل:amjadiazhari@gmail.com
موبائل نمبر:8318177138
No comments:
Post a Comment