فتاوی الأزھري


کتاب العقائد


حدیث: ((شفاعتي لأھل الذنوب من أمتي)) کی کامل وضاحت؟

سوال السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حدیث: ابوبکر بن علی بغدادی حضرت ابودردا رءضی اللہ عنہ سے راوی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((شفاعتي لأھل الذنوب من أمتي)) میری شفاعت میرے گنہگار امتیوں کے لیے ہے، ابودرداء رضی اللہ عنہ نے عرض کی: و إن زنی و إن سرق، اگرچہ زانی ہو، اگرچہ چور ہو ((و إن زنی و إن سرق علی رغم أنف أبي درداء)) اگرچہ زانی ہو اگرچہ چور ہو برخلاف خواہش ابودردا کے (ایمان کامل، ص۸۰)
عرض یہ ہے کہ حدیث شریف کی مفصل وضاحت فرمائیں اور اس جملہ کا کیا مطلب ہے کہ اگرچہ زانی ہو اگرچہ چور ہو، برخلاف خواہش ابودرداء کے؟
المستفتی: محمد رضا، مصطفی آباد، دہلی ۹۴۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
            اس حدیث پاک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب یہ بتایا کہ میری شفاعت پوری امت مسلمہ کو شامل ہے؛ تو اس پر حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا؛ کیوں کہ اس عام حکم میں گناہ کبیرہ مثلا زانی اور شراب پینے والے مسلمان بھی شامل ہورہے تھے، آپ نے اپنے اس تعجب کو دور کرنے کے لیے عرض کیا: آپ کی شفاعت، کیا اس شخص کو بھی شامل ہوگی جو زانی و شرابی ہے؛ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے اس تعجب کو دور کرتے ہوئے فرمایا: اگرچہ یہ حکم ابودردا کے ارادہ کے خلاف ہے مگر سچ و حق یہی ہے کہ میری شفاعت زانی اور شراب پینے والے  کو بھی شامل ہوگی۔
            اس حدیث کی تخریج امام خطیب بغدادی علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ’تاریخ بغداد‘ میں کی ہے، اس حدیث کا پورا متن یوں ہے:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ. قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((شَفَاعَتِي لأَهْلِ الذُّنُوبِ مِنْ أُمَّتِي)) قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: وإن زنى وَإِنْ سَرَقَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((نعم، وإن زنى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي الدَّرْدَاءِ)) (تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج۱ص۴۳۳، رقم: ۴۱۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((میری شفاعت میری امت میں سے گناہ والوں کے لیے ہے)) حضرت ابودردا رضی اللہ نے عرض کیا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((ہاں، ابودردا کے ناپسند کرنے کے باوجود، اس کے لیے میری شفاعت ہے، اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے))
اس حدیث پاک سے بظاہر یہ پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، گناہ صغیرہ و کبیرہ کرنے والے، سب کی شفاعت  فرمائیں گے، مگر بعض روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شفاعت گناہ کبیرہ والوں کے ساتھ خاص ہے؛ کیوں کہ گناہ صغیرہ میں شفاعت کی حاجت نہیں، نیز یہ حدیث شریف اور اس طرح کی دیگر احادیث مبارکہ اہل سنت و جماعت کے اس موقف پر دلیل بھی ہیں کہ گناہ کبیرہ والوں کو حضو صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت شامل ہوگی۔
حدیث پاک میں ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي)) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ: فَقَالَ لِي جَابِرٌ: ’’يَا مُحَمَّدُ مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَهْلِ الكَبَائِرِ فَمَا لَهُ وَلِلشَّفَاعَةِ‘‘۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الشفاعۃ، باب منہ، ج۴ص۶۲۵، رقم:۲۴۳۶، ط: مطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، مصر)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((میری شفاعت میری امت کے گناہ کبیرہ والوں کے لیے ہے)) محمد بن علی کہتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’اے محمد جو شخص گناہ کبیرہ والوں میں سے نہ ہو، اس کا شفاعت سے کیا تعلق؟!
علامہ عبد الرءوف مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(شَفَاعَتِي لأهل الذُّنُوب) الْكَبَائِر (من أمتِي) قَالَ أَبُو الدَّرْدَاء وَإِن زنى وَإِن سرق قَالَ (وَإِن زنى وَإِن سرق) الْوَاحِد مِنْهُم (على رغم أنف أبي الدَّرْدَاء) فِيهِ حجَّة لأهل السّنة على حُصُول الشَّفَاعَة لأهل الْكَبَائِر (خطّ عَن أبي الدَّرْدَاء) بِإِسْنَاد ضَعِيف‘‘۔لتیسیر بشرح الجامع الصغیر، علامہ عبد الرؤوف مناوی، ج۲ص۷۸، ط: مکتبۃ الإمام الشافعی، الریاض)
آپ ہی اپنی دوسری کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’(شفاعتي لأهل الذنوب من أمتي) قال أبو الدرداء: وإن زنی وإن سرق قال: (وإن زنی وإن سرق) الواحد منهم (على رغم أنف أبي الدرداء) ظاهره أن شفاعته تكون في الصغائر أيضا وتخصيصها بالكبائر فيما قبله يؤذن باختصاصها بها وبه جاء التصريح في بعض الروايات ففي الترمذي عن جابر: من لم يكن من أهل الكبائر فما له وللشفاعة‘‘۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، عبد الرؤوف مناوی، ج۴ص۱۶۳، ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
مگر حدیث شریف میں گناہ کبیرہ سے مراد وہ گناہ ہے جو شرک و کفر نہ ہو؛ کیوں کہ رب تعالی ہر گناہ تو بخش سکتا ہے مگر شرک و کفر کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا} (النساء:۴، آیت:۴۸)
ترجمہ: ((بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے اور جس نے خدا کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑے گناہ کا طوفان باندھا)) (کنز الاِیمان)
اس جملہ ((وإن زنى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي الدَّرْدَاءِ)) کا مطلب یہ ہے کہ ابودردا کا ارادہ اگرچہ یہ ہے کہ شفاعت گناہ کبیرہ والوں کو شامل نہ ہویا وہ اس کو ناپسند کر رہے ہیں، پھر بھی شریعت اسلامیہ کا حکم یہی ہے کہ شفاعت گناہ کبیرہ والوں کو شامل رہے گی، البتہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کا اس طرح سے  اظہار، آپ کے گناہوں سے زیادہ تنفر کی وجہ سے تھا۔
حاشیہ صحیح مسلم میں ہے:
((على رغم أنف أبي ذر وإن رغم أنف أبي ذر)) مأخوذ من الرغام وهو التراب فمعنى أرغم الله أنفه أي ألصقه بالرغام وأذله فمعنى قوله صلى الله عليه وسلم: ((على رغم أنف أبي ذر)) أي على ذل منه لوقوعه مخالفا لما يريد وقيل معناه على كراهة منه وإنما قال له صلى الله عليه وسلم ذلك لاستبعاده العفو عن الزاني السارق المنتهك للحرمة واستعظامه ذلك وتصور أبي ذر بصورة الكاره المانع وإن لم يكن ممانعا وكان ذلك من أبي ذر لشدة نفرته من معصية الله تعالى وأهلها‘‘۔ (حاشیہ صحیح مسلم، محمد فواد عبد الباقی،  باب من مات لایشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ، ج۱ص۹۵، رقم:۱۵۴)
لیکن شفاعت حاصل ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پر تکیہ کرکے گناہ کیا جائے، یہ سوچ کر کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت سے جنت میں چلے جائیں گے؛ کیوں کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت سے پہلے ایمان پر خاتمہ ہونا ضروری ہے، پھر قبر کا ہولناک منظر ہے، اس کے بعد شفاعت کبری سے پہلے نفسی نفسی کا حشر بپا کرنے والا سخت ترین منظر ہے، پھر یقینی طور پر یہ معلوم نہیں کہ شفاعت کبری کے بعد، جنت میں داخل ہونے کے لیے، کس مسلمان کو شفاعت کب حاصل ہوگی، ہوسکتا ہے جہنم میں داخل ہونے کے بعد حاصل ہو اور ہوسکتا جہنم سے پہلے بھی حاصل ہوجائے، بہر حال جب مسلم کے لیے شفاعت کے حصول کا وقت یقینی طور پر معلوم نہیں؛ تو اس پر تکیہ کرکے گناہ کا ارتکاب کرنا سخت جہالت اور انتہائی درجہ کی بدقسمتی ہے۔
قبر کے عذاب سے متعلق حدیث پاک میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ: ((إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ)) ثُمَّ قَالَ: ((بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ، وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ)) قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا، فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ، ثُمَّ قَالَ: ((لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا)) (صحیح البخاری،باب عذاب القبر فی الغیبۃ و البول، ج۲ص۹۹، رقم: ۱۳۷۸، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے؛ تو آپ نے فرمایا: ((بے شک ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان دونوں کو ایسی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جارہا ہے جس سے ان کا بچنا بہت بھاری تھا)) راوی کہتے ہیں: پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((کیوں نہیں، ان دونوں میں سے ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا)) راوی کہتے ہیں: پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھجور کی بھیگی ٹہنی لی اور ان کے دوٹکڑے کئے، اس کے بعد ایک، ایک ٹہنی کو ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا، پھر فرمایا: ((امید ہے کہ ان دونوں سے عذاب کی تخفیف کردی جائے جب تک یہ ٹہنیاں نہ سوکھیں))
شفاعت کبری سے پہلے بندہ کی سخت پریشان کن حالت کے بارے میں حدیث شریف میں ہے:
عَنِ المِقْدَادُ، صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِذَا كَانَ يَوْمُ القِيَامَةِ أُدْنِيَتِ الشَّمْسُ مِنَ العِبَادِ حَتَّى تَكُونَ قِيدَ مِيلٍ أَوْ اثْنَيْنِ)) - قَالَ سُلَيْمٌ: لَا أَدْرِي أَيَّ الْمِيلَيْنِ عَنَى؟ أَمَسَافَةُ الْأَرْضِ، أَمُ الْمِيلُ الَّذِي يُكْحَلُ بِهِ الْعَيْنُ؟ - قَالَ: ((فَتَصْهَرُهُمُ الشَّمْسُ، فَيَكُونُونَ فِي العَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى عَقِبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حِقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا)) فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ: أَيْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی شأن الحساب و القصاص، ج۴ص۶۱۴، رقم:۲۴۲۱، ط: المصطفی البابی الحلبی، مصر)
ترجمہ: حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو  ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
((جب قیامت کا دن ہوگا؛ تو سورج کو بندوں سے ایک یا دو میل کے قریب کردیا جائے گا)) سلیم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کی دو میلوں میں سے کون سی میل مراد لی گئ ہے؟ زمین کی مسافت یا وہ میل جس سے آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے؟ ((تو سورج انہیں اپنی تپش سے پگھلائے گا، جس کی وجہ سے لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینہ میں ہوں گے، پسینہ ان میں سے بعض کے ٹخنہ تک ہوگا، بعض کے گھٹنے تک ہوگا، بعض کی گردن تک ہوگا اور بعض کے منھ تک ہوگا)) راوی کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے منھ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، یعنی پسینہ منھ میں لگام لگادے گا۔
مومن کو بھی اس کے گناہ کی وجہ سے جہنم کا عذاب دیا جائے گا، حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((أَتَدْرُونَ مَنِ الْمُفْلِسُ))؟ قَالُوا: المُفْلِسُ فِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((المُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِصَلَاتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصّ مَا عَلَيْهِ مِنَ الخَطَايَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ)) (سنن الترمذی، باب ماجاء فی شأن الحساب و القصاص، ج۴ص۶۱۴، رقم:۲۴۱۸، ط: المصطفی البابی الحلبی، مصر)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟)) صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہمارے درمیان وہ شخص مفلس ہے جس کے پاس درہم و دینار نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے اِس کو گالی دی اور اُس پر الزام لگایا، اِس کا خون بہایا اور اُس کو مارا، اس وجہ سے بطور قصاص اِس مظلوم کو ظالم کی نیکیوں سے دیا جائے گا اور اُس مظلوم کو ظالم کی نیکیوں سے دیا جائے گا، پھر اگر ظالم کی غلطیوں کے قصاص سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں؛ تو ان مظلوموں کی غلطیوں کا بار اس ظالم پر ڈال دیا جائے گااور پھر اسے جہنم کے حوالے کردیا جائے گا))
اس لیے کسی بھی مسلم کو اس بات کی شرعا اجازت نہیں کہ وہ شفاعت یا مستحبات وغیرہ پر اعتماد کرکے بڑے بڑے گناہ، جیسے نماز وغیرہ ترک کرنے  یا کسی کا حق مارنے کا جرم کرے، ورنہ دنیا میں اور دنیا میں نہیں تو آخرت میں ایسی سخت سزا ملے گی جو برداشت سے باہر ہوگی، و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۱۶؍ربیع الآخر ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۰؍دسمبر ۲۰۱۹ء

نشہ کی حالت میں قرآن پھینکنا کیسا؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ نشہ کی حالت میں ایک شرابی مسجد میں داخل ہوا اور قرآن کریم کو اٹھاکر مسجد سے باہر پھینک دیا، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
المستفتی: ثقلین رضا عزیزی
سنت کبیر نگر، ۱۸؍۰۸؍۱۸ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب قرآن پاک کو اٹھاکر پھینکنا، یہ اس کی اہانت ہے اور اہانتِ قرآن کفر ہے، مگر چوں کہ شرابی نے نشہ کی حالت میں ایسا کیا؛ اس لیے اس کفر کا حکم نہیں لگے گا۔
            الأشباہ و النظائر میں ہے: ’’لا تصح ردۃ السکران‘‘۔  (کتاب السیر، ص۲۱۹، ط: دار الفکر، دمشق) و اللہ أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۶؍ذو الحجۃ ۳۹ھ

کتاب الصلوۃ
کیا ظہر وغیرہ کی چار رکعت سنتیں صحیح حدیث سے ثابت نہیں؛ کیوں کہ اہل عرب دو ہی رکعت پڑھتے ہیں؟!


سوال حضرت ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ظہر، عصر، عشا اور جمعہ کی نمازوں میں جو چار رکعت سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ پڑھتے ہیں یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے عرب وغیرہ میں لوگ دو رکعت ہی سنت پڑھتے ہیں، حقیقت کیا ہے، واضح فرمائیں، اللہ تعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے، آمین۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب کسی شخص کا اس طرح سے استدلال کرتے ہوئے کہنا  کہ ظہر، عصر، عشا اور جمعہ کی نمازوں میں جو چار رکعت سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ پڑھتے ہیں، یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ اسی لیے عرب وغیرہ میں لوگ دو رکعت ہی سنت پڑھتے ہیں، یہ کم علمی اور علماے اہل سنت سے دوری کا نتیجہ ہے، کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی کے عمل کو دیکھ کر اس طرح استدلال کرے اور اپنی کم علمی و شدید تعصب کی بنیاد پر صحیح و حسن احادیث کے انکار کا مرتکب ہو نیز ہند و پاک کے علماے اہل سنت کے عمل کو مخالف حدیث قرار دینے کی اتنی بڑی جسارت کرے، بلکہ ایسے شخص پر لازم و ضروری ہے کہ وہ علماے اہل سنت کی طرف رجوع کرکے اپنی کم علمی کا ازالہ کرلے؛ تاکہ اس طرح کے بے جا استدلال اور اس کی وجہ سے صحیح احادیث کے انکار کا مرتکب نہ ہو، نیز شاید معترض، عرب سے حرمین طیبین مراد لے رہا ہے، اگر ایسا ہے تو ایک حد تک اس عمل کی نسبت ان کی طرف درست ہے، اگرچہ بعض سنتوں میں ان کا یہ عمل حدیث کے خلاف ہے، لیکن اگر عرب سے حرمین طیبین کے علاوہ دیگر عرب کے لوگ بھی مراد ہیں؛ تو یہ اس کی جہالت ہے اور ساتھ میں ’وغیرہ‘  کا لاحقہ جہالت در جہالت ہے؛ کیوں کہ اکثر عرب و عجم میں احناف کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور یہ لوگ ظہر سے پہلے چار رکعت سنت، جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ کے قائل ہیں، اسی طرح عصر اور عشا سے پہلے چار رکعت نماز سنت غیر مؤکدہ کے بھی قائل ہیں؛ کیوں کہ نماز ظہر ، عصر، عشا اور جمعہ کی اکثر سنتیں، صحیح و حسن احادیث سے ثابت ہیں، مندجہ ذیل سطور میں یکے بعد دیگرے احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
            نماز ظہر کی سنتیں:
نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور نماز ظہر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا سنت ہے، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر کسی سبب ظہر سے پہلے چار رکعت سنت ادا نہیں کرپاتے؛ تو انہیں ظہر کی نماز کے بعد ادا کرتے۔
سنن الترمذی میں ہے: عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ رضی اللہ عنھا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
))مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ)) (سنن الترمذي، باب ماجاء فیمن صلی في یوم و لیلة ثنتی عشرۃ رکعة من السنة، ما له فیه من الفضل، ج۲ص۲۷۴، رقم: ۴۱۵، ط: مصطفی البابي الحلبي، مصر) امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
سنن الترمذی ہی میں ہے: عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنھا: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُصَلِّ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ صَلَّاهُنَّ بَعْدَهَا)) (سنن الترمذي، باب آخر، ج۲ص۲۹۱، رقم: ۴۲۶) امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کے متعلق حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے جو اہل علم تھے، ان میں سے اکثر کا اسی پر عمل تھا۔
’’والعمل على هذا عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم‘‘۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الأربع قبل الظھر ، ج۱ص۵۵۰، رقم:۴۲۴، ط:دار الغرب الإسلامی، بیروت)
بلکہ بعض حدیث میں نماز ظہر کے بعد بھی چار رکعت نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے:
سنن الترمذی میں ہے: عن أم حبيبة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من صلى قبل الظهر أربعا وبعدها أربعا حرمه الله على النار)) هذا حديث حسن غريب. (سنن الترمذی، باب آخر، ج۱ص۵۵۳، رقم: ۴۲۷)
نماز جمعہ کی سنتیں:
نماز جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا سنت بلکہ اس سے زیادہ بھی پڑھنے کی اجازت ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:  عن سلمان الفارسي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من اغتسل يوم الجمعة وتطهر بما استطاع من طهر ثم ادهن أو مس من طيب ثم راح فلم يفرق بين اثنين فصلى ما كتب له ثم إذا خرج الإمام أنصت غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى)) (صحیح البخاري، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ، ج۲ص۸، رقم:۹۱۰، ط: دار طوق النجاۃ)
اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ آپ برابر جمعہ کی نماز سے پہلےچار رکعت سنت نماز پڑھا کرتے تھے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے: عن ابن عباس رضى الله عنھما، قال: ((کان النبي صلی اللہ علیه و آله وسلم یرکع قبل الجمعة أربعا لایفصل في شیء منھن)) (سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی الصلاۃ قبل الجمعۃ، ج۱ص۳۵۸، رقم:۱۱۲۹، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ) یہ روایت ضعیف ہے۔
نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے جمعہ کے بعد بھی چار رکعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلائی ہے۔
سنن الترمذی میں ہے: عن أبي هريرة رضي اللہ عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا)) هذا حديث حسن صحيح۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی الصلاۃ قبل الجمعۃ، ج۱ص۶۵۶، رقم:۵۲۳، ط:دار الغرب الإسلامی، بیروت)
نماز عصر کی سنتیں:
            نماز عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا سنت ہے، اگر یہ نماز کوئی پڑھتا ہے؛  تو ان شاء اللہ، وہ رب تعالی کی رحمت و کرم کا مستحق ہوگا۔
سنن الترمذی میں ہے: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ العَصْرِ أَرْبَعًا)) (سنن الترمذي، باب ما جاء فی الأربع قبل العصر، ج۲ص۲۹۵، رقم: ۴۳۰) امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
نماز عشا کی سنتیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز عشا کے بعد چار رکعت سنت یا اس سے زائد چھ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔
سنن ابی داؤد میں ہے: ((عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ: سَأَلْتُهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: «مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ قَطُّ فَدَخَلَ عَلَيَّ إِلَّا صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتَّ رَكَعَاتٍ)) (سنن أبی داؤد، رقم: ۱۳۰۳، ط: المکتبۃ العصریۃ، صیدا، بیروت)
نماز عشا سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا سنت ہے، اس پر فقہاے کرام نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت سے استددلال کیا ہے:
مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح میں ہے: ’’و‘‘ ندب أربع قبل ’’العشاء‘‘ لما روي عن عائشة رضي الله عنها: أنه عليه السلام كان يصلي قبل العشاء أربعا ثم يصلي بعدها أربعا ثم يضطجع‘‘۔ (مراقی الفلاح، شرنبلالی، فصل فی النوافل، ص۱۴۶،ط: المکتبۃ العصریۃ)
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے: (وَقَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا) وَقِيلَ: رَكْعَتَيْنِ. (وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا) وَقِيلَ: رَكْعَتَيْنِ، وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – ((كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يُصَلِّي بَعْدَهَا أَرْبَعًا ثُمَّ يَضْطَجِعُ)) (الاختیار، ابو الفضل حنفی،باب النوافل،ج۱ص۶۶،ط:مطبعۃ الحلبی، القاھرۃ)
البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے: ’’وأما الأربع قبل العشاء فذكروا في بيانه أنه لم يثبت أن التطوع بها من السنن الراتبة فكان حسنا لأن العشاء نظير الظهر في أنه يجوز التطوع قبلها وبعدها كذا في البدائع ولم ينقلوا حديثا فيه بخصوصه لاستحبابه‘‘۔
اس کے تحت منحۃ الخالق میں ہے: (قوله ولم ينقلوا حديثا فيه بخصوصه) نقل في الاختيار عن عائشة - رضي الله عنها – ((أنه - عليه الصلاة والسلام - كان يصلي قبل العشاء أربعا ثم يصلي بعدها أربعا ثم يضطجع)) اهـ. (منحۃ الخالق، ابن عابدین شامی، الصلاۃ المسنونۃ کل یوم، ج۲ص۵۴، ط: دار الکتاب الإسلامی)
مجھے عشا سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنے کے متعلق یہ روایت کسی حدیث کے کتاب میں نہیں مل سکی، لیکن فقہاے کرام نے استدلال کیا ہے؛ تو اس کا تذکرہ کسی حدیث کی کتاب میں ضرور ہونا چاہیے، یہ الگ بات ہے کہ ہماری وہاں تک رسائی نہیں ہوسکی ہے۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۷؍ربیع الأول ۱۴۴۱ھ

دیہات میں بروز جمعہ، نماز ظہر با جماعت کا حکم


سوال: ایک دیہات میں جمعہ کی باجماعت نماز کے ساتھ ظہر کی بھی باجماعت نماز پڑھی جاتی ہے، زید کہتا ہے کہ یہاں پر ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا جائز نہیں؛ کیوں کہ جمعہ کے دن صرف جمعہ کی نماز باجماعت پڑھی جاتی ہے، ظہر کی نہیں، کیا زید کا یہ کہنا صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب دیہات کے بارے میں زید کا یہ کہنا صحیح نہیں؛ کیوں کہ دیہات میں جمعہ فرض نہیں، حدیث شریف میں ہے:
            حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا جمعة و لاتشریق إلا في مصر جامع))
            ترجمہ: ((جمعہ اور تشریق صرف شہر میں ہے)) (مصنف عبدر الرزاق، ج۳ص۱۶۷، رقم:۵۱۷۵)
            دوسری حدیث میں ہے:حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: ((لیس علی أھل القری جمعة، إنما الجمعة علی أھل الأمصار))
            ترجمہ: ((گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہیں، جمعہ تو صرف شہر والوں پر فرض ہے)) (نصب الریۃ و یلیہ منیۃ الالمعی فیما فات الزیلعی؍قاسم بن قطلوبغا مصری، ج۵ص۶۴)
            جب حدیث سے ثابت ہوگیا کہ دیہات میں جمعہ فرض نہیں؛ تو اب جمعہ کا دن دیہات کے لیے عام دنوں کی طرح ہوگیا، یعنی وہاں جمعہ نہ قائم کیا جائے بلکہ ظہر کی نماز عام دنوں کی طرح باجماعت پڑھی جائے، حدیث شریف میں ہے:
            حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((من سمع المنادي فلم یمنعه من اتباعه عذر)) قالوا: و ما العذر، قال: ((خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلوۃ التي صلی))
            ترجمہ:((جس نے اذان سنی اور آنے سے کوئی عذرمانع نہیں (اور نہیں آیا) تو اس کی وہ نماز مقبول نہیں)) لوگوں نے عرض کیا: عذر کیا ہے؟ فرمایا: ((خوف یا مرض)) (سنن ابی داؤد: ج۱ ص ۱۵۱، باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ، رقم: ۵۵۱)
            مگر چونکہ جس دیہات میں جمعہ قائم کیا جا چکا ہے وہاں کے لوگوں کو جمعہ سے روکنے میں فتنے کا قوی اندیشہ ہے؛ اس لیے لوگوں کو فتنہ و آزمائش میں پڑنے سے بچانے کے لیے وہاں پر جمعہ کے ساتھ ظہر کی نماز بھی باجماعت پڑھی جاتی ہے؛ کیوں کہ لوگوں کو فتنے سے حتی الامکان بچانا مطلوب شرعی ہے، حدیث شریف میں ہے:
            عن جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنھما، قال: کان معاذ بن جبل یصلي مع النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم، ثم یرجع، فیؤم قومه، فصلی العشاء، فقرأ بالبقرۃ فانصرف الرجل، فکأن معاذا تناول منه، فبلغ النبي صلی اللہ علیه و آله وسلم فقال: ((فتان، فتان، فتان)) ثلاث مرات، أو قال: ((فاتنا، فاتنا، فاتنا)) و أمرہ بسورتین من أوسط المفصل۔
            ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ پڑھتے ، پھر لوٹ کر اپنی قوم کی امامت کرتے تھے، ایک مرتبہ عشا کی نماز پڑھائی اور سورئہ بقرہ کی تلاوت کی، ایک شخص نے نماز توڑدی اور تنہا پڑھی، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ان کا برائی سے ذکر کیا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ((اے معاذ! تم لوگوں کو بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والے ہو، تم بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والے ہو، تم بہت زیادہ آزمائش میں ڈالنے والے ہو)) یا فرمایا: ((اے معاذ تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالنے والے ہو، تم آزمائش میں ڈالنے والے ہو، آزمائش میں ڈالنے والے ہو)) اور انہیں اوساط مفصل سے دو سورت پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاری،کتاب الاذان، باب اذا طول الامام، و کان للرجل حاجۃ، فخرج فصلی، ج۱ص۱۴۱، رقم: ۷۰۱)
            اس طرح سے ایسے دیہات میں جہاں نماز جمعہ فرض نہیں، نماز جمعہ اور نماز ظہر باجماعت پڑھی جاتی ہے، وہاں کے لوگ فتنہ اور آزمائش سے بچنے کے ساتھ ساتھ ظہر کی نماز باجماعت پڑھ کر اور نماز نہ چھوڑکر گناہ سے بھی بچ جاتے ہیں؛ لہذا زید پر لازم ہے کہ لوگوں کو ظہر کی نماز باجماعت سے روک کر یا نماز چھوڑنے کا سبب بن کر گنہ گار نہ ہو اور نہ ہی لوگوں کو گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
            {و تعاونوا علی البر و التقوی و لا تعاونوا علی الاثم و العدوان} ترجمہ: ((اور نیکی و پرہیز گاری پر لوگوں کی مدد کرو اور گناہ و زیادتی پر لوگوں کی مدد نہ کرو)) (المائدۃ:۵، آیت:۲) و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا


دیہات میں جمعہ اور ظہر باجماعت کا حکم

سوالکیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ گووند نگر، ضلع مدنا پور، کلکتہ، ایک بڑا مسلم آبادی والا گاؤں ہے، یہ گاؤں پانسکوڑہ ریلوے اسٹیشن سے دس کلو میٹر اور ضلع مدنا پور سے پینتیس کلو میٹر دوری پر واقعے ہے، اس گاؤں میں دو ٹولہ ہے، ایک ٹولہ جس میں جامعہ مسجد ہے، مسلمانوں کے ساڑھے تین سو گھر آباد ہیں، جس میں عاقل بالغ مکلفین ساڑھے چارسو مردوں پر مشتمل ہوں گے، ووٹر لسٹ میں ووٹرس کی تعداد ساڑھے آٹھ سو ہے، جس میں چار سو عورتیں ہیں، جب کہ گووند نگر کے دوسرے ٹولہ میں مسلمانوں کا دو سو گھر ہے، جس میں ووٹر س چھ سو ہیں، اور مکلفین مردوں کی تعداد تین سو ہے، یہاں بھی ایک چھوٹی مسجد ہے، گووند پور میں اس وقت پوسٹ آفس، بینک، اسکول، مدرسہ، عیدگاہ اور ایک بڑا قبرستان ہے، یہاں ایک بازار بھی ہے جس میں ضروریات زندگی کے متعلق تمام سامان دستیاب ہیں، غرضیکہ یہ گاؤں اب قصبہ کا روپ اختیار کرچکا ہے، گووند نگر میں باپ دادا کے زمانے سے نماز جمعہ باجماعت مع اذان و اقامت ہوتی چلی آرہی ہے، لیکن پندرہ سال ہوئے کہ ایک امام صاحب نے جمعہ کی نماز کے بعد ظہر کی نماز باجماعت شروع کردی ہے، اس علاقہ میں باہر کے علما و مشایخ اور مفتیان کرام کا ورود مسعود گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے، بعض علما و مشایخ نماز جمعہ کے بعد ظہر باجماعت میں شریک ہوجاتے ہیں، جب کہ کچھ حضرات صرف جمعہ پڑھتے ہیں، ظہر ادا نہیں کرتے، حضرات علما و مشایخ کے اختلاف عمل کی وجہ سے ہم مسلمانان گووند نگر سخت اضطراب میں مبتلا ہیں کہ ایسے میں ہم عوام مسلمین کس طور پر عمل کریں، اس لیے آپ کی بارگاہ میں چند سوالات پیش ہیں، امید ہے کہ جواب عنایت فرماکر ہماری رہنمائی فرمائیں گے:
            (۱)کیا ہم مسلمانان گووند نگر پر روز جمعہ، ظہر باجماعت فرض ہے یا صرف جمعہ فرض ہے یا جمعہ و ظہر دونوں باجماعت فرض ہے؟
            (۲) اگر دونوں فرض ہوں؛ تو ان کے ادا کرنے کی کیا صورت ہوگی، کیا جمعہ و ظہر دونوں کے لیے اذان و اقامت الگ الگ کہنا ہوگی یا ایک ہی اذان و اقامت دونوں کے لیے کافی ہوگی، اسی طرح جمعہ و ظہر دونوں کی الگ الگ سنتیں بھی پڑھنی ہوں گی ای ایک ہی سنت دونوں کے لیے کافی ہوگی، یہ بھی وضاحت فرمادیں کہ پہلے جمعہ پڑھیں یا ظہر، نیز دونوں کے امام بھی ایک ہی ہوں گے یا الگ الگ ہوں گے؟
            (۳) جمعہ و ظہر دونوں پڑھنے کی صورت میں دوسری نماز کی شرعی حیثیت کیا ہوگی، جو دونوں میں سے صرف ایک پڑھے، دوسری نہ پڑھے، اس کے لیے کیا حکم ہوگا، ہم لوگ بنگال کے باشندے ہیں؛ لہذا نہایت ہی آسان انداز میں واضح حم شرع بیان فرمائیں بڑا کرم ہوگا۔
المستفتی: (مولانا) قاضی عارفین، بنگال۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب(۱)گووند نگر والوں پر جمعہ فرض نہیں، اگر پڑھیں گے، گنہ گار ہوں گےاور ظہر ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جمعہ فرض ہونے کے لیے شہر ہونا شرط ہے اور گووند نگر شہر نہیں بلکہ دیہات ہے؛ اس لیے یہاں کے رہنے والوں پر جمعہ فرض نہیں بلکہ ظہر پڑھنا فرض ہے۔
حدیث پاک میں ہے: (()) ()
الدر المختار میں ہے: ’’‘‘۔
اسی کے تحت رد المحتار میں ہے:’’‘‘۔ ()
شہر کی تعریف یہ ہے: ’’وہ آبادی جس میں متعدد کوچے ہوں، دوامی بازار ہوں، نہ وہ جسے پیٹھ کہتے ہیں، اور پرگنہ ہے کہ اس کے متعلق دہات گنے جاتے ہوں اور اس میں کوئی حاکم مقدمات رعایا فیصل کرنے پر مقرر ہو، جس کی حشمت و شوکت اس قابل ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، امام احمد رضا، ج۶ص۱۹۸، کتاب الصلاۃ، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
جس جگہ یہ تعریف صادق آئے گی، وہی شہر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تعریف گووند نگر پر صادق نہیں آتی؛ اس لیے وہ شہر نہیں؛ لہذا وہاں پر جمعہ بھی جائز نہیں بلکہ ظہر پڑھنا فرض ہے، اگر نہیں پرھیں گے، گنہ گار ہوں گے۔
لیکن چوں کہ گووند نگر کے رہنے والے ایک زمانہ سے جمعہ پڑھتے آرہے ہیں؛ اس لیے انہیں پڑھنے سے روکا نہیں جائے گا۔
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اور اگر اس کے سبب ظہر ترک کریں گے؛ تو تارک فرض ہوں گے اور ظہر احتیاطی تنہا پڑھی تو تارک واجب ہوں گے، بہر حال متعدد گناہ ان پر لازم ہیں، بایں ہمہ جہاں لوگ پڑھتے ہوں، انہیں نہ روکا جائے‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، ج۶ص۳۳۳، کتاب الصلاۃ)
البتہ اگر گووند نگر میں عاقل، بالغ و مکلف اتنے ہوں کہ اگر سب جامعہ مسجد میں آجائیں؛ تو وہ جامع مسجد ان کے لیے کافی نہ ہو، اس صورت میں احناف کے نزدیک ایک روایت کے مطابق ایسے گاؤں میں جمعہ جائز و درست ہے۔
الدر المختار میں ہے: ’’‘‘۔ ()
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ اسی روایت کے پیش نظر فرماتے ہیں: ’’مگر دربارہ عوام فقیر کا طریق عمل یہ ہے کہ ابتداء خود انہیں منع نہیں کرتا، نہ انہیں نماز سے باز رکھنے کی کوشش پسند کرتا ہے، ایک روایت پر صحت ان کے لیے بس ہے، وہ جس طرح خدا اور رسول کا نام پاک لیں، غنیمت ہے، مشاہدہ ہے کہ اس سے روکیے تو وہ وقتی چھوڑ بیٹھتے ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، کتاب الصلاۃ، ج۶ص۲۷۱)
(۲) پہلے سوال کے جواب سے واضح ہوگیا کہ گووند نگر والوں پر جمعہ فرض نہیں بلکہ صرف ظہر فرض ہے؛ اس لیے یہاں کے لوگ صرف ظہر کی سنتیں پڑھیں گےلیکن چوں کہ گووند نگر کے لوگ جمعہ کی باجماعت نماز کے ساتھ ظہر کی نماز بھی باجماعت پڑھتے ہیں؛ اس لیے اذان تو وہی کافی ہے جو جمعہ کے لیے ہوتی ہے، البتہ اقامت دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ کہںی گے، پہلے جمعہ پھر ظہر کی نماز پڑھیں گے اور دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ امام ہوں تو بہتر ہے ورنہ ایک ہی امام دونوں نمازیں پڑھاسکتا ہے۔
(۳) جمعہ و ظہر دونوں نماز پڑھنے کی صورت میں جمعہ سنت ہوگی اور ظہر بصورت فرض ادا ہوگی؛ لہذا جس نے فرض نماز پڑھی، اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوگیا اور جس نے صرف جعمہ کی نماز ادا کی، اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہ ہوا، اس پر لازم ہے کہ فرض نماز ادا کرے ورنہ گنہ گار ہوگا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر گووند نگر کے رہنے والے اتنے عاقل، بالغ و مکلف لوگ ہوں کہ وہ نماز پڑھنے آجائیں؛ تو جامع مسجد میں سما نہ سکیں، اس صورت میں عوام جمعہ نماز پڑھے، یہی ان کے لیے کافی ہے اور خواص ظہر نماز پڑھیں اور اگر یہ اتنے لوگ ہوں کہ ان کے لیے جامع مسجد کافی ہے؛ تو اس صورت میں عوام کو جمعہ پڑھنے سے نہ روکا جائے، البتہ اگر وہ حکم شرعی پوچھیں؛ تو بتادیا جائے کہ دیہات میں جمعہ صحیح نہیں؛ اس لیے ظہر کی نماز ضرور پڑھیں ورنہ گنہ گار ہوں گے اور اس صورت میں اگر چاہیں؛ تو حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کے فتوی کے مطابق ظہر نماز باجماعت قائم کرسکتے ہیں مگر عوام کے سامنے یہ وضاحت کرنے کے ساتھ کہ گووند نگر میں جمعہ صحیح نہیں؛ اس لیے یہاں جعمہ کے بعد ظہر کی نماز باجماعت پڑھی جائے گی؛ تاکہ عوام جمعہ و ظہر دونوں کو فرض سمجھنے سے محفوظ رہے۔ واللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۳؍محرم الحرام ۴۱ھ

محلے کی مسجد میں اذان سے پہلے نماز پڑھنے اور خود فاسق کی نماز کا حکم

سوال: (۱)جو شخص معذور ہے کہ مسجد نہیں جا سکتا، کیا وہ دخول وقت پر فرض ادا کرسکتا ہے یا نہیں، جبکہ محلے میں اذان نہ ہو ئی ہو؟
            (۲) فاسق کی خود کی نماز کا کیا حکم ہے کیا وہ مکروہ تحریمی  واجب الاعادہ ہے اور ہے  تو کیوں؟

المستفتی:محمد سلیم احمد چشتی
متعلم مدرسہ حنفیہ،جون پور

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب (۱)محلے کی اذان سے پہلے، وقت داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے سے نماز ہوجائے گی؛ کیوں کہ نماز کا سبب وقت ہے، جب سبب پالیا گیا تو اس کا ادا کرنا بھی درست ہوگی۔
            اللہ تعالی فرماتا ہے: {إن الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا} (النساء: ۴؍ آیت: ۱۰۳)
            الدر المختار مع تنویر الأبصار میں: ’’(سببھا) ترادف النعم ثم الخطاب ثم الوقت أی الـ (جزء) الـ (أول) منه إن (اتصل به الأداء و إلا فما) أی جزء من الوقت (یتصل به) الأداء (و إلا) یتصل الأداء بجزء (فالسبب) هو (الجزء الأخیر)‘‘۔  (ج۲ ص ۱۰، کتاب الصلاۃ)
            البتہ محلے کی مسجد کی جماعت ہونے سے پہلے نماز پڑہنا مکروہ تنزیہی ہے؛ لہذا مستحب یہ ہے کہ محلے کی مسجد کی اذان و جماعت کے بعد نماز ادا کرے۔
            الدر المختار میں ہے: ’’و یستحب للمریض تأخیرها إلی فراغ الإمام، وکرہ إن لم یؤخر هو الصحیح‘‘-۱ ص ۵۳، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی فی الأذان)
            اسی کے تحت ردالمحتار میں ہے: ’’قوله: (و یستحب للمریض) عبارۃ القهستاني: المعذور، و هی أعم۔ قوله: (وکرہ) ظاهر قوله: (یستحب) أن الکراهة تنزیهیة، نهر‘‘-۳ ص۳۳، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ)
            (۲) فاسق کی اپنی نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ نہیں۔

            رد المحتار میں ہے: ’’و في کل موضع لایصح الاقتداء هل یصیر شارعا في صلاۃ نفسه؟ عند محمد: لا، و عندهما: یصیر شارعا‘‘۔۲ ص ۳۲۹، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ،مطلب: إذا کانت اللثغۃ یسیرۃ)  و اللہ أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

صحیح احادیث سے حی علی الصلاۃ پر کھڑاہونا، انگوٹھے کانوں کے محاذات ہونا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا، رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت

       سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسائل مندرجہ ذیل میں:
            (۱)اقامت سے پہلے نہ کھڑے ہوکر اقامت شروع ہونے کے بعد حی علی الصلاۃپر کھڑا ہوجانا۔(۲)تکبیر تحریمہ میں انگوٹھے کو کانوں کے محاذات ہونا اور اس کا چھونا۔(۳)نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ۔(۴)پوری نماز میں تکبیر تحریمہ کےعلاوہ رفع یدین نہ کرنا۔ کیا احناف کے یہ مسائل کتب ستہ  یا صحیح  احادیث سے ثابت ہیں؟ بینوا وتوجروا۔

المستفتی: امتیاز احمد مصباحی پٹیل، زامبیا، افریقہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            جواب مسائل احناف الحمد للہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں:
            (۱)اقامت شروع ہونے کے بعد کھڑا ہونا حدیث صحیح سے ثابت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے پیش نظر ‘‘حی علی الصلاۃ’’ پر ہی کھڑا ہونا بہتر و اولی ہے، حدیث شریف میں ہے:
عن أبی قتادۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إذا أقيمت الصلاة، فلا تقوموا حتی تروني)) (صحیح البخاری، ج۱ص۱۲۹، کتاب الأذان،باب متی یقوم الناس،إذا رأوا الإمام عند الإقامۃ، رقم: ۷۳۶)
          ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے ؛تو اس وقت تک نہ کھڑے ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو))
بخاری شریف کی یہ حدیث اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتدیوں کو اقامت شروع ہونے کے بعد کھڑے ہونے کا حکم اس وقت دیا جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں،  ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اقامت شروع ہونے پر حجرہ مقدسہ سے نکل کر مقتدیوں کے رو برو ہونگے تو کچھ وقت لگے گا، حدیث میں اس وقت کی تحدید مذکور نہیں، مگر امکان قوی ہے کہ  جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ مقدسہ سے نکل کر مقتدیوں کے روبرو ہوئے  جو ان کے کھڑے ہونے کا وقت ہے وہ حی علی الصلاۃ کہنے کا وقت ہو؛ کیوں کہ حجرہ مقدسہ اور محل اقامت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں؛ اسی لیے احناف نے حی علی الصلاۃ پر کھڑے ہونے کا حکم دیا، مذکورہ بالا حدیث  کی شرح میں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
          ‘‘(وَلَا تَقُومُوا) : أَيْ: لِلصَّلَاة إِذَا أَقَامَ الْمُؤَذِّنُ (حَتّی تَرَوْنِي) : أَيْ: فِي الْمَسْجِدِ لِأَنَّ الْقِيَامَ قَبْلَ مَجِيءِ الْإِمَامِ تَعَبٌ بِلَا فَائِدَة، كَذَا قَالہ بَعْضہمْ، وَلَعَلّہ عَلَيہ السَّلَامُ كَانَ يَخْرُجُ مِنَ الْحُجْرَة بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ فِي الْإِقَامۃ، وَيَدْخُلُ فِي مِحْرَابِ الْمَسْجِدِ عِنْدَ قَوْلہ، حَيَّ عَلی الصَّلَاۃ، وَلِذَا قَالَ أَئِمَّتُنَا: وَيَقُومُ الْإِمَامُ وَالْقَوْمُ عِنْدَ حَيَّ عَلی الصَّلَاة، وَيَشْرَعُ عِنْدَ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاة’’. (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج۲ص۵۵۲، باب الأذان)
          (۲)تکبیر تحریمہ میں انگوٹھے کا کان کے محاذات میں ہونا سنت نبوی ہے، حدیث شریف میں ہے:
عن وائل رضی اللہ عنہ: ((أنہ أبصر النبي صلی اللہ علیہ وسلم حين قام إلی الصلاة رفع يدیہ حتی كانتا بحيال منكبیہ وحاذى بإبہامیہ أذنیہ، ثم كبر)) (سنن أبی داؤد، ج۱ص۱۹۱، باب رفع الیدین فی الصلاۃ)
ترجمہ: حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں:
((انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت دیکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں مبارک ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اور دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے بالمقابل ہوگئے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی))
اور انگھوٹھے کا کان کے محاذات میں ہونا یقینی طور پر اسی وقت متحقق ہوگا جب انگوٹھا کا ن کو چھو جائے۔
الدر المختار مع شرح تنویر الأبصارمیں ہے:‘‘(و رفع یدیہ) قبل التکبیر، و قیل معہ (ماسا بإبہامیہ شحمتی أذنیہ) ہو المراد بالمحاذاۃ؛ لأنہا لاتتیقن إلا بذلک’’۔(ج۲ص۱۸۲، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ)
(۳)نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، حدیث شریف میں ہے:
          عن علي رضي اللہ عنہ، قال:((من السنۃ وضع الكف علی الكف في الصلاة تحت السرة)) (سنن أبی داؤد، ج۱ص۲۰۱، باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ، رقم: ۷۵۶)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں:
((نماز میں ہاتھ کو ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا سنت سے ہے))
غیر مقلدین کے امام ابن قیم جوزیہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے (بدائع الفوائد:ابن قیم جوزیۃ)
          (۴)نماز میں صرف ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کریمہ ہے، حدیث پاک میں ہے:
          قال عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ: " ألا أصلي بكم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فصلی فلم يرفع يدیہ إلا مرة’’۔ (سنن أبی داؤد، ج۱ص۱۹۹، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، رقم: ۸۴۷)
          ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
            ‘‘کیا میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ راوی کہتے ہیں: پھر آپ نے نماز پڑھائی اور صرف ایک مرتبہ ہاتھ اٹھایا’’۔
غیر مقلدین کے امام شیخ البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(صحیح أبی داؤد)
          تنبیہ:(۱)کتب ستہ کی تحدید کرکے حدیث کا مطالبہ کرنا غلط ہے، اور اس سے زیادہ غلط صرف صحیحین سے حدیث کا مطالبہ کرنا ہے، یہ صرف جہالت یا ہٹ دھر می ہے؛ کیوں کہ صحیح احادیث صرف صحیحین یا کتب ستہ میں منحصر نہیں!!
            (۲)حدیث کی تصحیح و تضعیف کے اصول احناف اور عام محدثین کے نزدیک الگ الگ ہیں؛ لہذا صرف محدثین کے اصول کو معیار بناکر احناف کی دلائل کو ضعیف قرار دینا درست نہیں!! لہذا عوام و خواص اہل سنت و جماعت سب کو غیر مقلدین کی دسیسہ کاری سے متنبہ رہنے کی ضرورت ہے۔و اللہ أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا



کیا وتر کی نماز باجماعت مکروہ تحریمی؟!



کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل میں کہ فرض عشا تنہا پڑھنے والا وتر باجماعت پڑھ سکتا ہے یا نہیں، بہارشریعت میں ہے: وتر تنہا پڑھے (ج۱ص۶۹۳) اسی طرح فتاوی رضویہ میں ہے کہ وتر جماعت سے نہیں پڑھ سکتا؛ تو یہ ممانعت کونسی ہے، تحریمی یا تنزیہی یا کچھ نہیں، کچھ حضرات فقہ کی کتابوں میں ’’لیس لہ أن یصلی الوتر‘‘ اور ’’لایتبعہ الوتر‘‘ سے ممانعت تحریمی کا حکم  نکالتے ہیں پھر اعادہ نماز کا بھی حکم، اصول فقہ کی روشنی جواب سے نوازیں، کرم ہوگا۔
المستفتی: محمد آصف رضا امجدی، گھوسی، ضلع مؤ، یوپی، اندڈیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب عشا کی فرض تنہا پڑھنے والے کو نماز وتر جماعت سے پڑھنے کی اجازت نہیں لیکن اگر کسی نے پڑھ لیا؛ تو نماز ہوجائے گی البتہ مکروہ تنزیہی ہوگی، مکروہ تحریمی نہیں۔
کیوں کہ وتر کی جماعت اپنے اصل حکم کے اعتبار سے نفل کی طرح مکروہ تنزیہی ہےمگر رمضان المبارک میں  نماز وتر کی جماعت، فرض کے تابع ہوکر مستحب قرار دی گئی ہے، اور صورت مسؤلہ میں اب جب کہ متبوع یعنی فرض کی جماعت  نہیں مل سکی تو اب وتر کی جماعت اپنے اصل حکم کی طرف عود کر آئے گی یعنی اب جماعت کے ساتھ نماز وتر مکروہ تنزیہی ہوگی نہ کہ مکروہ تحریمی۔
نیز عشا فرض نماز جماعت سے پڑھنے والے کے لیے وتر کی نماز جماعت سے پڑھنا مستحب ہے، اب جو شخص جماعت نہیں پاسکا وہ اگر نماز وتر جماعت سے پڑھے گا؛ تو  مستحب کے خلاف کام کرنے والا ہوگا اور مستحب کے خلاف کام کرنے والے کی نماز زیادہ سے زیادہ سے مکروہ تنزیہی ہوگی نہ کی مکروہ تحریمی۔
لیکن کراہت تنزیہی بھی اس وقت ہے جب کہ برابر چار لوگوں سے زائد کی جماعت کی جائے لیکن اگر جماعت میں چار لوگ یا اس سے کم  ہیں یا چار سے زائد ہیں مگر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے؛ تو کراہت تنزیہی بھی نہیں؛ کیوں کہ نماز وتر کی جماعت کا حکم وہی ہے جو نفل کی جماعت کا حکم ہے۔
الدر المختار میں ہے: ’’(وَلَا يُصَلِّي الْوِتْرَ وَ) لَا (التَّطَوُّعَ بِجَمَاعَةٍ خَارِجَ رَمَضَانَ) أَيْ يُكْرَهُ ذَلِكَ عَلَى سَبِيلِ التَّدَاعِي، بِأَنْ يَقْتَدِيَ أَرْبَعَةٌ بِوَاحِدٍ كَمَا فِي الدُّرَرِ، وَلَا خِلَافَ فِي صِحَّةِ الِاقْتِدَاءِ إذْ لَا مَانِعَ نَهْرٌ. وَفِي الْأَشْبَاهِ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ: يُكْرَهُ الِاقْتِدَاءُ فِي صَلَاةِ رَغَائِبَ وَبَرَاءَةٍ وَقَدْرٍ، إلَّا إذَا قَالَ نَذَرْت كَذَا رَكْعَةً بِهَذَا الْإِمَامِ جَمَاعَةً. اهـ. قُلْت: وَتَتِمَّةُ عِبَارَةِ الْبَزَّازِيَّةِ مِنْ الْإِمَامَةِ، وَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَتَكَلَّفَ كُلَّ هَذَا التَّكْلِيفِ لِأَمْرٍ مَكْرُوهٍ وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة: لَوْ لَمْ يَنْوِ الْإِمَامَةَ لَا كَرَاهَةَ عَلَى الْإِمَامِ فَلْيُحْفَظْ‘‘۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’(قَوْلُهُ أَيْ يُكْرَهُ ذَلِكَ) أَشَارَ إلَى مَا قَالُوا مِنْ أَنَّ الْمُرَادَ مِنْ قَوْلِ الْقُدُورِيِّ فِي مُخْتَصَرِهِ لَا يَجُوزُ: الْكَرَاهَةُ لَا عَدَمُ أَصْلِ الْجَوَازِ، لَكِنْ فِي الْخُلَاصَةِ عَنْ الْقُدُورِيِّ أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ، وَأَيَّدَهُ فِي الْحِلْيَةِ بِمَا أَخْرَجَهُ الطَّحَاوِيُّ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: دَفَنَّا أَبَا بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَيْلًا فَقَالَ عُمَرُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: إنِّي لَمْ أُوتِرْ، فَقَامَ وَصَفّنَا وَرَاءَهُ فَصَلَّى بِنَا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَمْ يُسَلِّمْ إلَّا فِي آخِرِهِنَّ. ثُمَّ قَالَ: وَيُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ: الظَّاهِرُ أَنَّ الْجَمَاعَةَ فِيهِ غَيْرُ مُسْتَحَبَّةٍ، ثُمَّ إنْ كَانَ ذَلِكَ أَحْيَانًا كَمَا فَعَلَ عُمَرُ كَانَ مُبَاحًا غَيْرَ مَكْرُوهٍ، وَإِنْ كَانَ عَلَى سَبِيلِ الْمُوَاظَبَةِ كَانَ بِدْعَةً مَكْرُوهَةً لِأَنَّهُ خِلَافُ الْمُتَوَارَثِ، وَعَلَيْهِ يُحْمَلُ مَا ذَكَرَهُ الْقُدُورِيُّ فِي مُخْتَصَرِهِ، وَمَا ذَكَرَهُ فِي غَيْرِ مُخْتَصَرِهِ يُحْمَلُ عَلَى الْأَوَّلِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ اهـ.
قُلْت: وَيُؤَيِّدُهُ أَيْضًا مَا فِي الْبَدَائِعِ مِنْ قَوْلِهِ: إنَّ الْجَمَاعَةَ فِي التَّطَوُّعِ لَيْسَتْ بِسُنَّةٍ إلَّا فِي قِيَامِ رَمَضَانَ اهـ فَإِنَّ نَفْيَ السُّنِّيَّةِ لَا يَسْتَلْزِمُ الْكَرَاهَةَ، نَعَمْ إنْ كَانَ مَعَ الْمُوَاظَبَةِ كَانَ بِدْعَةً فَيُكْرَهُ. وَفِي حَاشِيَةِ الْبَحْرِ لِلْخَيْرِ الرَّمْلِيِّ: عَلَّلَ الْكَرَاهَةَ فِي الضِّيَاءِ وَالنِّهَايَةِ بِأَنَّ الْوِتْرَ نَفْلٌ مِنْ وَجْهٍ حَتَّى وَجَبَتْ الْقِرَاءَةُ فِي جَمِيعِهَا، وَتُؤَدَّى بِغَيْرِ أَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، وَالنَّفَلُ بِالْجَمَاعَةِ غَيْرُ مُسْتَحَبٍّ لِأَنَّهُ لَمْ تَفْعَلْهُ الصَّحَابَةُ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ اهـ وَهُوَ كَالصَّرِيحِ فِي أَنَّهَا كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ تَأَمَّلْ. اه‘‘۔ (الدر المختار شرح تنویر الأبصار مع رد المحتار، امام علاء الدین حصکفی، امام ابن عابدین شامی، باب الوتر و النوافل، ج۲ص۴۸، ط: دار الکتب العلمیۃ)
البحر الرائق میں ہے: (’’قَوْلُهُ وَيُوتِرُ بِجَمَاعَةٍ فِي رَمَضَانَ فَقَطْ) أَيْ عَلَى وَجْهِ الِاسْتِحْبَابِ وَعَلَيْهِ إجْمَاعُ الْمُسْلِمِينَ كَمَا فِي الْهِدَايَةِ وَاخْتَلَفُوا فِي الْأَفْضَلِ فَفِي الْخَانِيَّةِ الصَّحِيحُ أَنَّ أَدَاءَ الْوِتْرِ بِجَمَاعَةٍ فِي رَمَضَانَ أَفْضَلُ لِأَنَّ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِي الْوِتْرِ وَفِي النِّهَايَةِ اخْتَارَ عُلَمَاؤُنَا أَنْ يُوتِرَ فِي مَنْزِلِهِ لَا بِجَمَاعَةٍ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ لَمْ يَجْتَمِعُوا عَلَى الْوِتْرِ بِجَمَاعَةٍ فِي رَمَضَانَ كَمَا اجْتَمَعُوا عَلَى التَّرَاوِيحِ لِأَنَّ عُمَرَ كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِيهِ فِي رَمَضَانَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ كَانَ لَا يَؤُمُّهُمْ اهـ وَرَجَّحَ الْأَوَّلَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ بِأَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ أَوْتَرَ بِهِمْ ثُمَّ بَيَّنَ الْعُذْرَ فِي تَأَخُّرِهِ عَنْ مِثْلِ مَا صَنَعَ فِيمَا مَضَى فَالْوِتْرُ كَالتَّرَاوِيحِ فَكَمَا أَنَّ الْجَمَاعَةَ فِيهَا سُنَّةٌ فَكَذَلِكَ فِي الْوِتْرِ وَلَوْ صَلَّوْا الْوِتْرَ بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ فَهُوَ صَحِيحٌ مَكْرُوهٌ كَالتَّطَوُّعِ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ بِجَمَاعَةٍ وَقَيَّدَهُ فِي الْكَافِي بِأَنْ يَكُونَ عَلَى سَبِيلِ التَّدَاعِي أَمَّا لَوْ اقْتَدَى وَاحِدٌ بِوَاحِدٍ أَوْ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ لَا يُكْرَهُ وَإِذَا اقْتَدَى ثَلَاثَةٌ بِوَاحِدٍ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَإِنْ اقْتَدَى أَرْبَعَةٌ بِوَاحِدٍ كُرِهَ اتِّفَاقًا اه‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق،امام ابن نجیم، صلاۃ التراویح، ج۲ص۷۵، ط: دار الکتاب الإسلامی)
اس کے تحت منحۃ الخالق میں ہے: ’’(قَوْلُهُ وَلَوْ صَلَّوْا الْوِتْرَ بِجَمَاعَةٍ إلَخْ) قَالَ الرَّمْلِيُّ عَلَّلَ لَهُ فِي الضِّيَاءِ الْمَعْنَوِيِّ بِأَنَّهَا نَفْلٌ مِنْ وَجْهٍ حَتَّى وَجَبَتْ الْقِرَاءَةُ فِي جَمِيعِهَا وَتُؤَدَّى بِغَيْرِ أَذَانٍ وَإِقَامَةٍ وَالنَّفَلُ بِالْجَمَاعَةِ غَيْرُ مُسْتَحَبٍّ وَلِأَنَّهُ لَمْ تَفْعَلْهُ الصَّحَابَةُ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ - بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ اه، وَفِي النِّهَايَةِ مِثْلُهُ وَهَذَا كَالصَّرِيحِ فِي أَنَّهَا كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ تَأَمَّلْ‘‘۔ (منحۃ الخالق، امام ابن عابدین شامی، ایضا)
الجوھرۃ النیرۃ میں ہے: ’’(قَوْلُهُ: وَلَا يُصَلِّي الْوِتْرَ فِي جَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ) لِأَنَّهُ لَمْ يَفْعَلْهُ الصَّحَابَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَأَمَّا فِي رَمَضَانَ فَهِيَ بِجَمَاعَةٍ أَفْضَلُ مِنْ أَدَائِهَا فِي مَنْزِلِهِ؛ لِأَنَّ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِي الْوِتْرِ وَفِي النَّوَافِلِ يَجُوزُ الْوِتْرُ بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ وَمَعْنَى قَوْلِ الشَّيْخِ وَلَا يُصَلِّي الْوِتْرَ فِي جَمَاعَةٍ يَعْنِي بِهِ الْكَرَاهَةَ لَا نَفْيَ الْجَوَازِ. وَفِي الْيَنَابِيعِ إذَا صَلَّى الْوِتْرَ مَعَ الْإِمَامِ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ يُجْزِئُهُ وَلَا يُسْتَحَبُّ ذَلِكَ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ (الجوھرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری، امام ابوبکر بن علی بن محمد حدادی،  باب قیام شھر رمضان، ج۱ص۹۹، ط: المطبعۃ الخیریۃ)
            البنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے: ’’م: (ولا يصلي الوتر بجماعة في غير شهر رمضان) ش: لأنه نفل من وجه وجبت القراءة في ركعاته كلها، وتؤدى بغير أذان وإقامة، وصلاة النفل بالجماعة مكروهة ما خلا قيام رمضان وصلاة الكسوف لأنه لم يفعلها الصحابة، ولو فعلوا لاشتهرت، كذا ذكره الولوالجي.
وفي " الخلاصة ": قال القدوري: إنه لا يكره، وقال النسفي: اختار علماؤنا الوتر في المنزل في رمضان، لأن الصحابة لم يجتمعوا على الوتر بجماعة في رمضان كما اجتمعوا في التراويح فيها، فعمر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - كان يؤمهم في الوتر في رمضان، وأبي لا يؤمهم فيها في رمضان كذا في " المحيط " م: (بإجماع المسلمين) ش: أي على ترك الوتر بجماعة في غير رمضان بإجماع المسلمين قال تاج الشريعة لأن الصحابة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - لم يجتمعوا على الوتر بغير جماعة كما اجتمعوا على التراويح، وقال الأترازي: ولهذا لم يصل الوتر أحد بجماعة في سائر الأمصار من لدن النبي - عَلَيْهِ السَّلَامُ -، قلت: ذكر في الحواشي أنه يجوز عند بعض المشايخ‘‘. (البنایۃ شرح الھدایۃ، امام بدر الدین عینی،  صلاۃ الوتر جماعۃ فی غیر رمضان، ج۲ص۵۵۸، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
مجمع الأنھر میں ہے: ’’(وَيُوتِرُ) أَيْ يُصَلِّي الْوِتْرَ (بِجَمَاعَةٍ فِي رَمَضَانَ فَقَطْ) لِانْعِقَادِ الْإِجْمَاعِ عَلَيْهِ كَمَا فِي الْهِدَايَةِ وَفِيهِ إشَارَةٌ إلَى أَنَّهُ لَا يُوتِرُ بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ لِأَنَّهُ نَفْلٌ مِنْ وَجْهٍ وَالْجَمَاعَةُ فِي النَّفْلِ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ مَكْرُوهٌ فَالِاحْتِيَاطُ تَرْكُهَا قَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ صَلَّى الْوِتْرَ بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ لَهُ ذَلِكَ وَعَدَمُ الْجَمَاعَةِ فِي الْوِتْرِ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ لَا لِأَنَّهُ غَيْرُ مَشْرُوعٍ بَلْ بِاعْتِبَارِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ تَأْخِيرُهَا إلَى وَقْتٍ تَتَعَذَّرُ فِيهِ الْجَمَاعَةُ فَإِنْ صَحَّ هَذَا قُدِحَ فِي نَقْلِ الْإِجْمَاعِ كَمَا فِي الْفَتْحِ‘‘۔ (مجمع الأنھر فی شرح ملتقی الأبحر، امام شیخی زادہ عبد الرحمن بن محمد، فصل التراویح، ج۱ص۱۳۷، ط: دار إحیاء التراث العربی)
حاشیۃ الطحاوی میں ہے: "ويوتر بجماعة" استحبابا "في رمضان فقط" عليه إجماع المسلمين لأنه نقل من وجه والجماعة في النقل في غير التراويح مكروهة فالاحتياط تركها في الوتر خارج رمضان وعن شمس الأئمة أن هذا فيما كان على سبيل التداعي أما لو اقتدى واحد بواحد أو اثنان بواحد لا يكره وإذا اقتدى ثلاثة بواحد اختلف فيه وإذا اقتدى أربعة بواحد كره اتفاقا‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، امام احمد بن محمد طحطاوی، باب الوتر و أحکامہ، ص۳۸۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے: ’’(ولا يصلي الوتر) ولا التطوع (بجماعة في غير شهر رمضان) : أي يكره ذلك لو على سبيل التداعي. در. وعليه إجماع المسلمين. هداية‘‘۔ (اللباب فی شرح الکتاب، عبد الغنی بن طالب غنیمی، باب قیام شھر رمضان، ص۱۲۲، ط: المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
منحۃ السلوک میں ہے: ’’قوله: (ولا يصلى الوتر بجماعة خارج رمضان) عليه إجماع المسلمين، هذا لفظ الهداية. وفي النوازل وواقعات الصدر الشهيد: "أن الاقتداء بالوتر خارج رمضان يجوز"۔ (منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک،امام بدر الدین عینی،  فصل فی التراویح، ص۱۵۰، ط: وزارۃ الأقاف و الشؤن الإسلامیۃ، قطر)
تبیین الحقائق میں ہے: (قَوْلُهُ فِي الْمَتْنِ: وَيُوتَرُ بِجَمَاعَةٍ إلَى آخِرِهِ) يُوتَرُ عَلَى صِيغَةِ الْمَجْهُولِ أَيْ يُوتِرُ الْإِمَامُ اهـ ع (قَوْلُهُ عَلَيْهِ إجْمَاعُ الْمُسْلِمِينَ إلَى آخِرِهِ) يَعْنِي عَمَلًا، وَإِلَّا فَقَدْ ذَكَرَ فِي الذَّخِيرَةِ أَنَّ الِاقْتِدَاءَ فِي الْوِتْرِ خَارِجَ رَمَضَانَ جَائِزٌ وَفِي الْحَوَاشِي قَالَ وَيَجُوزُ عِنْدَ بَعْضِ الْمَشَايِخِ. اهـ. غَايَةٌ (قَوْلُهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ الْأَفْضَلُ أَنْ يُوتِرَ بِجَمَاعَةٍ إلَخْ) أَيْ؛ لِأَنَّهُ نَفْلٌ مِنْ وَجْهٍ، وَالْجَمَاعَةُ فِي النَّفْلِ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ مَكْرُوهَةٌ فَالِاحْتِيَاطُ تَرْكُهَا فِيهِ وَفِي بَعْضِ الْحَوَاشِي قَالَ بَعْضُهُمْ وَلَوْ صَلَّاهَا بِجَمَاعَةٍ فِي غَيْرِ رَمَضَانَ لَهُ ذَلِكَ وَعَدَمُ الْجَمَاعَةِ فِيهَا فِي غَيْرِ رَمَضَانَ لَيْسَ؛ لِأَنَّهُ غَيْرُ مَشْرُوعٍ بَلْ بِاعْتِبَارِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ تَأْخِيرُهَا إلَى وَقْتٍ يَتَعَذَّرُ فِيهِ الْجَمَاعَةُ فَإِنْ صَحَّ هَذَا قَدَحَ فِي نَقْلِ الْإِجْمَاعِ. اهـ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، امام فخر الدین زیلعی، باب الوتر و النوافل، ج۱ص۱۸۰، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، قاھرۃ)
زیر بحث مسئلہ کے بارے بعض علما نے  اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ وغیرہ کی عبارات سے استدلال کیا کہ ایسے شخص کی نماز مکروہ تحریمی واجب الإعادۃ  ہوگی حالاں کہ ان میں سے کوئی بھی عبارت ان کے  مدعی پر دلالت نہیں کرتی، بعض عبارت ملاحظہ فرمائیں:
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’فقد تحرر بما تقرر: أن جماعة الوتر تبع لجماعة الفرض في حق کل أحد من المصلین و لجماعة التراویح في الجملة لا في حق کل، و لرمضان بمعنی أنها تکرہ في غیرہ لو صلی علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعة بواحد ‘‘۔ (جد الممتار، ج۳ص۵۰۰)
اعلی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کی اس عبارت میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے استشہاد کیا جائے کہ عشا کی نماز منفرد پڑھنے والا اگر وتر کی جماعت میں شریک ہوجائے تو اس کی نماز مکروہ تحریمی واجب الإعادۃ ہوگی، بلکہ آخرکی عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص غیر رمضان میں وتر کی نماز باجماعت تداعی کے ساتھ  پڑھ لے؛ تو اپنے اصل کے اعتبار سے  مکروہ ہوگی، وہ بھی صرف مکروہ تنزیہی جب کہ تداعی کے طور پر یعنی چار سے زائد لوگ ہوں اور اگر تداعی کی صورت نہ ہو تو مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہوگی؛ لہذا اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی اس عبارت سے کراہت تحریمی پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
نیز اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’من صلی الفریضة منفردا لیس له أن یدخل في جماعة الوتر لا مع ھذا الإمام و لا مع غیرہ‘‘۔ (جد الممتار، ج۲ص۴۹۳)
فقیہ بے مثال اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی اس عبارت میں صرف اتنا ہے کہ جس شخص نے تنہا فرض پڑھی، اسے وتر کی جماعت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اس میں کہیں ایک لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ استدلال کیا جاسکے کہ اگر زیر بحث صورت میں جماعت میں داخل ہوگیا؛ تو اس کی نماز مکروہ تحریمی واجب الإعادۃ ہوگی؛ لہذا اس عبارت سے بھی اپنے موقف پر استدلال درست نہیں۔
اسی طرح کی بعض دیگر عبارت پیش کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’تو جب عشا پڑھنے والے کا جماعت وتر میں شامل ہونا جائز نہیں تو لاجرم یہ شمولیت نامشروع ہوئی، فلہذا صورت مسؤلہ میں اقتدا درست نہ ہوئی، نماز دوبارہ پڑھی جائے‘‘۔
یہ نتیجہ محل نظر ہے، پہلی بات اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی کوئی عبارت نماز کے واجب الإعادۃ ہونے پر دلالت نہیں کرتی، دوسری بات اگر یہی استدلال کا طریقہ ہے تو کیا فقہاے کرام بلکہ خود اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے جو یہ فرمایا کہ غیر رمضان میں تداعی کے ساتھ وتر کی نماز مکروہ یعنی مکروہ تنزیہی ہوگی جیسا کہ فقہاے کرام کے بیان سے واضح ہے، وہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ اس صورت میں نماز واجب الإعادۃ ہوگی، ہر گز نہیں اور جب وہاں نہیں تو یہاں بھی واجب الإعادہ نہیں ہوگی۔
اسی طرح حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے ’فتاوی مصطفویہ‘ کی بھی کوئی عبارت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ عشا کی نماز منفردا پڑھنے والا اگر وتر کی نماز، جماعت سے پڑھ لے؛ تو نماز واجب الإعادۃ ہوگی بلکہ اگر آپ کی عبارتوں بھی غور کیا جائے تو صرف کراہت ہی کا پہلو سامنے آتا ہے اور وہ بھی کراہت تنزیہی۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی مختلف عبارت ذکر کرنے کے بعد بطور نتیجہ لکھتے ہیں: ’’تاجدار اہل سنت سرکار مفتی اعظم ہند رضی اللہ عنہ کے ارشادات ہمارے موقف پر بین دلیل ہیں کہ عشا تنہا پرھنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ وتر کی جماعت میں شامل ہواور جب شمولیت جائز نہیں تو نماز دوبارہ پڑھ لیں‘‘۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے ارشادات کا موصوف کے موقف پر بین دلیل ہونا تو دور کی بات، ایک بھی ارشاد موقف پر دلیل بھی نہیں، اس کے باوجود اتنی جرأت سے آپ کے ارشادات سے اس طرح کا نتیجہ اخذ کرنا سخت محل نظر ہے۔
موصوف نے شاید عدم جواز کو مکروہ تحریمی پر محمول کرنے میں جلد بازی کی؛ جس کی وجہ سے جواب میں غلطی ہوئی، جیسا کہ موصوف خود اپنے فتوی میں لکھتے ہیں:
’’(لیس له  کا کلمہ کلام فقہا میں عموما عدم جواز کے لیے آتا ہے، کما ھو فی غیر واحد من المواضع فی الفتاوی الرضویۃ)‘‘۔
اولا: لیس له کا اطلاق عموما فقہا کے کلام میں عدم جواز پر ہوتا ہے، موصوف نے اس دعوی پر کوئی دلیل نہیں دی، ثانیا: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو  یہ بات تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ عدم  جواز سے ہمیشہ مکروہ تحریمی ہی مراد ہوتا ہے؛ کیوں کہ  لایجوز کا لفظ جب بولا جاتا ہے؛ تو  اسے یا تو حرام کے برابر قرار دیا جاتا ہے يا وہ عام کراہت تحریمی و تنزیہی سب کو شامل ہوتا ہے اور یہاں پر لایجوز سے کراہت تنزیہی ہی مراد ہے جیسا کہ پہلے جزئیہ میں امام قدروری علیہ الرحمۃ کے اقوال کی توجیہ سے واضح ہے، امام ابن امیر حاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فَإِنَّهُ لَا تَنَافِيَ بَيْنَ الْمُبَاحِ وَعَدَمِ الْحَرَامِ لِجَوَازِ اجْتِمَاعِهِمَا لِأَنَّ عَدَمَ الْحَرَامِ أَعَمُّ مِنْ الْمُبَاحِ وَلَا بَيْنَ غَيْرِ الْجَائِزِ وَالْحَرَامِ لِأَنَّ غَيْرَ الْجَائِزِ إمَّا مُسَاوِي الْحَرَامِ أَوْ أَعَمُّ مِنْهُ‘‘۔ (التقریر و التحبیر، امام محمد بن محمد ابن امیر حاج، خاتمۃ للکلام فی ھذہ المقالۃ الثانیۃ، ج۳ص۲۸۸، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت) و اللہ أعلم۔
كتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲؍شوال المکرم ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۶؍مئی ۲۰۲۰ء

  کتاب الجنائز
   نماز جنازہ کے بعد فورا میت کے لیے دعا کرنا کیسا؟!
    سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں:
نماز جنازہ کے فورا بعد میت کے لیے دعا کرنا کیسا ہے اور جیسا کہ بعض جگہوں پر اجتماعی طور پر دعا کرتے ہیں کیا یہ سنت سے ثابت ہے ۔ اور کچھ لوگ اس حدیث سے یعنی: ((إذا صلیتم علی المییت فأخلصوا له الدعاء)) سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ((فأخلصوا)) میں جو فا ہے وہ تعقیب کی لئے ہے، آیا یہ درست ہے یا نہیں، بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی:محمد سلیم احمد چشتی
متعلم مدرسہ حنفیہ،جون پور

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب میت وغیر میت سب کے لیے دعا کرنا بغیر کسی وقت کی قید کے مطلقا سنت سے ثابت ہے؛ لہذا نماز جنازہ کے بعد بھی میت کے لیے انفرادی و اجتماعی جس طرح سے بھی دعا کی جائے جائز و درست ہے۔
حدیث شریف میں ہے: عن أبي هریرة رضی اللہ عنه، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قال:
((لیس شیء أکرم علی اللہ تعالی من الدعاء))  (سنن الترمذی،ج۵ ص۴۵۵، باب ماجاء فی فضل الدعاء، رقم: ۳۳۷۰)
سوال میں مذکور حدیث شریف میں: ((إذا صلیتم علی المیت فاخلصوا له الدعاء)) جو فا ہے وہ تعقیب کے لیے ہے، کتب حدیث کی بہت ساری شروحات دیکھی مگر مجھے ابھی تک اس کی کہیں صراحت نہیں ملی۔ و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۶؍محرم الحرام ۳۸ھ

وہابی، دیوبندی اور غیر مقلد کی نماز جنازہ پڑھنے پڑھانے کا حکم


            سوال السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
            کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ وہابی، دیوبندی، غیرمقلد (جو اپنے آپ کو سید کہتے ہیں) ان کی یا ان سے میل جول رکھنے والوں کی نماز جنازہ یا نکاح پڑھنا پڑھانا کیسا ہے؟ اور جو عالم دین جان بوجھ کر نماز جنازہ یا نکاح پڑھائے، اس کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے، بینوا توجروا۔
المستفتی: انجمن صدیقیہ مسجد، کمیلا ٹرسٹ، پونہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب وہابی دیوبندی اپنے کفریات قطعیہ کی بنا پر کافر و مرتد ہیں، ان کی نماز جنازہ پڑھنا پڑھانا سخت ناجائز و گناہ ہے، اگر کوئی عالم کسی دیوبندی وہابی کے کفرقطعی مطلع ہونے کے باوجود اس کو مسلمان سمجھ کر، اس کی نماز جنازہ پڑھے، پڑھائے یا عقد نکاح کرے؛ تو ایسا عالم اسلام سے خارج ہے، ایسے شخص پر توبہ اور تجدید و نکاح لازم ہے اور اگر ایسے دیوبندی وہابی کو مسلمان نہیں جانا اور کوئی مصلحت شرعیہ بھی نہ تھی، پھر بھی اس کی نماز جنازہ پڑھا، پڑھایا، یا عقد نکاح کیا اور اس کے لیے مغفرت کی دعا نہ کی یا کسی غیر مقلد کی نماز جنازہ پڑھا، پڑھایا، یا عقد نکاح کیا؛ تو سخت گنہ گار، مستحق عذاب نار ہے، ایسے عالم پر اعلانیہ توبہ و استغفار لازم و ضروری ہے۔
            مکہ معظمہ میں خطیبوں  کے امام مولانا شیخ ابو الخیر احمد میر داد رحمہ اللہ وہابی دیوبندی کے بارے میں حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فإن من قال بھذہ الأقوال معتقدا لھا، کما ھي مبسوطة في ھذہ الرسالة، لا شبھة أنه من الکفرۃ الضالین المضلین، المارقین من الدین مروق السھم من الرمیة لدی کل عالم من علماء المسلمین المؤیدۃ لما علیه أھل الإسلام و السنة و الجماعة الخاذلة لأھل البدع و الضلالة و الحماقة‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، حسام الحرمین، ج۲۰ص۲۴۶، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ غیر مقلدین کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’بالجملہ ماہ نیم ماہ و مہر نیم روز کی طرح ظاہر و زاہر کہ اس فرقہ متفرقہ وہابیہ اسماعیلیہ اور اس کے امام نافر جام پر جزما قطعا یقینا اجماعا بہ وجوہ کثیرہ کفر لازم اور بلاشبہ جماہیر فقہاے کرام و اصحاب فتوی اکابر و اعلام کی تصریحات واضحہ پر یہ سب کے سب کرتد، کافر۔ بہ اجماع ائمہ ان سب پر اپنے تمام کفریات ملعونہ سے بالتصریح توبہ و رجوع اور از سر نو کلمہ اسلام پڑھنا فرض و واجب، اگرچہ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اِکفار سے کف لسان ماخوذ و مختار و مرضی و مناسب‘‘۔ (فتاوی رضویہ جدید، الکوکبۃ الشھابیۃ فی کفریات أبی الوھابیۃ، ج۲۰ص۷۰۷۱، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
اور وہابی دیوبندی و غیر مقلدین سے تعلقات رکھنا اگرچہ ناجائز و گناہ ہےمگر عالم ان سے تعلقات رکھنے والوں کی نماز جنازہ پڑھنے، پڑھانے یا نکاح پڑھانے کی وجہ سے گنہ گار نہیں ہوگا، البتہ عالم کو چاہیے کہ ان سے تعلقات رکھنے والے کو حتی المقدور، ان سے تعلقات قائم کرنے سے روکے؛ کیوں کہ حدیث شریف میں ہے:
((يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ)) (صحیح مسلم، باب فی الضعفاء و الکذابین، ج۱ص۱۲، رقم:۷، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
دوسری حدیث پاک میں ہے: ((مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ)) (صحیح مسلم، باب کون النھی عن المنکر من الإیمان، ج۱ص۶۹، رقم: ۷۸، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)  واللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

۲۱؍شعبان المعظم ۴۰ھ

کتاب النکاح

نواسی کا اپنے خالو خالد سے نکاح کرنا کیسا؟

            سوال ہندہ نے زید سے نکاح کیا، زید سے ہندہ کو ایک لڑکی پیدا ہوئی، زید نے تین سال کے بعد ہندہ کو طلاق دے دیا، لڑکی ہندہ کے پاس ہی رہی، ہندہ نے پھر بکر سے دوسری شادی کرلی، بکر سے بھی ہندہ کو ایک لڑکی پیدا ہوئی، ہندہ نے اپنی پہلے شوہر والی لڑکی کی شادی عمرو اور دوسرے شوہر والی لڑکی کی شادی خالد سے کردی، پھر دوسرے شوہر والی لڑکی کا انتقال ہوگیا اور پہلے شوہر والی لڑکی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، اب ہندہ اس لڑکی یعنی اپنی نواسی کی شادی اپنے پہلے لڑکی کے شوہر یعنی داماد سے کرنا چاہتی ہے، تو کیا یہ نکاح جائز ہے؟
المستفتی: ابرار احمد، مسلم پیکولیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب صورت مذکورہ میں دوسرے شوہر والی لڑکی، نواسی کی خالہ ہوئی، تو جب دوسرے شوہر والی لڑکی کا انتقال ہوگیا تو نواسی کا اپنے خالو خالد سے نکاح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ رضاعت وغیرہ کوئی اور وجہ مانع نہ ہو؛ اس لیے کہ عورت اور اس کی خالہ کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہےاور مذکورہ مسئلہ میں جمع کی صورت نہیں؛ لہذا دونوں کے درمیان نکاح جائز ہے۔
            الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’فَلَا يَجُوزُ الْجَمْعُ بَيْنَ امْرَأَةٍ وَعَمَّتِهَا نَسَبًا أَوْ رَضَاعًا، وَخَالَتُهَا كَذَلِكَ‘‘۔ (ج۱ص۲۷۷، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ط: دار الفکر)
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۲؍شعبان المعظم۳۷ھ

غیر کفو میں شادی کرنا کیسا؟

            سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ جو شیخ برادری سے تعلق رکھتی ہے، وہ ایک مسلم لڑکے زید جو سامانی یعنی تیلی برادری سے تعلق رکھتا ہے، اس سے شادی کرنا چاہتی ہے مگر لڑکی کے والدین اس شادی سے راضی نہیں، کیا ایسی صورت ہندہ اس لڑکی سے شادی کرسکتی ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی:
محمد فیصل رضوی
متعلم: مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب شیخ برادری سے تعلق رکھنے والی ہندہ اگر عاقلہ، بالغہ ہے؛ تو وہ سامانی برادری سے تعلق رکھنے والے زید سے بغیر والد کی رضا کے شادی کرنا چاہے تو کرسکتی ہے، نکاح صحیح ہوجائے گا، مگر غیر کفو میں شادی کرنے کی وجہ سے والد کو قاضی شرع کے یہاں معاملہ پیش کرکے نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
            مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے: ’’اصل مذہب حنفی اور امام اعظم سے منقول روایت ظاہرہ یہ ہے کہ عاقلہ، بالغہ اگر اپنا نکاح غیر کفو سے بے اذن ولی کرے تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور ولی کو اختیار ہوگا کہ قاضی کے یہاں مقدمہ دائر کرکے یہ نکاح فسخ کرادے‘‘۔ (ص ۴۱۹، مجلس شرعی، جامعہ اشرفیہ ، مبارکپور)
            الہدایۃ میں ہے: ’’و ینعقد نکاح الحرۃ العاقلة البالغة برضائها و إن لم یعقد علیها ولي بکرا کانت أو ثیبا عند أبي حنیفة و أبي یوسف رحمهما اللہ في ظاهر الروایة۔۔۔۔۔و وجه الجواز أنها تصرفت في خالص حقها وهی من أهله لکونها عاقلة ممیزۃ و لهذا کان لها التصرف في المال و لها اختیار الأزواج، و
أنها یطالب الولي بالتزویج کي لاتنسب إلی الوقاحة، ثم في ظاهر الروایة لا فرق بین الکفؤ وغیر الکفؤ و لکن للولي الاعتراض في غیر الکفؤ‘‘۔
۲ص۲۹۴، باب فی الأولیاء، مجلس برکات، مبارکپور) و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا


بھاگ کر نکاح کرنے کا حکم

سوال حضور سیدی و سندی، آقائی و مولائی، شہزادہ حضور فقیہ ملت مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان اسلام مسئلہ ذیل میں کہ زید کی بیٹی جو غیر شادی شدہ تھی، اپنے ماں باپ کے اجازت کے بغیر اسی لڑکے کے ساتھ گھر سے نکل گئی جس سے شادی ہونے کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی، لیکن وقت سے پہلے گھر سے نکل گئی اور اس لڑکے کے ساتھ نکاح بھی ہوا اور اپنے سسرال میں رہ رہی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ زید کے اوپر شریعت کی طرف سے کوئی قانون نافذ ہے یا نہیں، جب کہ زید کی لڑکی واپس گھر بھی نہیں آئی ہے؛ لہذا شریعت کے طرف سے زید پر کیا حکم ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔
لکھنے میں جو غلطی ہوئی ہوگی، حضور اسے معاف فرمائیں، فقط و السلام۔
المستفتی: واجد علی انصاری عرف لڈن
مقام رجوا پور، پرانی بازار، ضلع بستی، ۰۸؍۰۸؍۱۸ دن بدھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب زید نے اگر اپنی لرکی کی نگرانی میں کوئی کمی کی جس کی وجہ سے اس کی لڑکی موقع پاکر بھاگ گئی؛تو زید پر گاؤں والوں کے سامنے توبہ اور ندامت کا اظہار لازم ہے او راگر لاپرواہی نہیں کی تھی؛ توبہ کی حاجت نہیں۔
            اور لڑکا و لڑکی کا نکاح تو ہوگیا مگر شادی سے پہلے گھر سے ایک دوسرے کے ساتھ فرار ہونے کی وجہ سے دونوں سخت گنہ گار ہوئے، ان پر بھی توبہ لاز ہے، اگر لڑکی عورتوں کے سامنے اور لڑکا مردوں کے سامنے توبہ و اظہار ندامت کریں؛ تو زید اپنی لڑکی کو گھر لاسکتا ہے۔
            حدیث شریف میں ہے: ((كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا---الحدیث)) (صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری و المدن، ج۱ص۳۳، ط:دار طوق النجاۃ)
            اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى﴾(الأحزاب: ۳۳، آیت:۳۳)
            حدیث شریف میں ہے: ((لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ)) (سنن الترمذی، باب ماجاء فی کراہۃ الدخول علی المغیبات، ج۱ص۲۲۱)
            الدر المختار مع رد المحتار میں ہے: ’’الخلوۃ بالأجنبیة حرام‘‘۔ (کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل فی النظر و المس، ج۹ص۵۲۹، ط: دار الفکر، بیروت)  و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۸؍ذو القعدۃ ۳۹ھ

شیعہ مذہب سے توبہ کرانے کے بعد نکاح کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید سنی ہے اور ہندہ شیعہ اور ان دونوں میں محبت ہے، اب کچھ دنوں کے بعد ہندہ نے زید سے کہا کہ اب آپ میرے ساتھ شادی کرلیں، تو زید نے کہا کہ تم اپنا دین و مذہب چھوڑ دو اور ہمارے دین و مذہب میں داخل ہوجاؤ اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاؤ اور سنی بن کر میرے ساتھ رہنا پڑےگا اور تم اپنے ماں، باپ و بھائی، بہن وعزیز و اقارب سے دور رہنا پڑے گا اور وہاں نہ جاسکتی ہو اور آسکتی ہو، اگر یہ سب باتیں تمہیں منظور ہیں تو ہم شادی کے لیے تیار ہیں، تو ہندہ نے کہا کہ یہ سب باتیں ہمیں منظور ہیں، اور آپ اب جلدی کیجئے اور توبہ وغیرہ کراکر مذہب اسلام میں داخل کریں، پھر زید و ہندہ نے شادی کرلی اور شادی کو تیرہ سال گزرگئے اور اس کے بال بچے ہیں، اس کے بعد اپریل ۲۰۱۱ء گیارہ میں زید کے بڑے بھائی و بہن کی شادی ہوئی، اس میں برادریوں کی دعوت کی اور شرکت بھی کی، اس کے بعد اب تیسری شادی ہونے جارہی ہے، اب برادری و رہبران نے زید و ہندہ کو برادری سے الگ کردیا، یہ کہتے ہوئے کہ تم نے غیر برادری لڑکی سے شادی کی ہے، اس بنا پر تمہارا حقہ، پانی بند کردیا ہے؛ لہذا دریافت طلب یہ ہے کہ ایسے برادری و رہبران کے اوپر عند الشرع، شریعت مطہرہ کا کیا حکم عائد ہوتا ہے، خوب مدلل جواب عنایت فرمائیں، عین کرم ہوگا۔

المستفتی: شیخ عبد اللہ
محلہ میاں گنج، امام باڑہ، ضلع فیض آباد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب اگر واقعی ہندہ نے مذہب شیعہ سے توبہ کرکے براءت ظاہر کی، پھر مذہب اسلام میں کلمہ پڑھ کر داخل ہوئی، اس کے بعد اس کا نکاح زید کے ساتھ ہوا اور ہندہ نے اپنے گھر والوں سے رشتہ بھی منقطع کرلیا؛ تو اب ایسی صورت میں برادری و رہبران کو زید و ہندہ کا حقہ، پانی بند کرنا اور ان کا بائکاٹ کرنا جائز نہیں؛ کیوں کہ اس میں بلاوجہ شرعی مسلمان کو ایذا دینا ہے جو شرعا جائز نہیں، برادری کے لوگوں اور رہبران پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آئیں ورنہ سخت گنہ گار ہوں گے۔
            رد المحتار میں ہے: ’’لَوْ أَتَى بِالشَّهَادَتَيْنِ لَا يُحْكَمُ بِإِسْلَامِهِ حَتَّى يَتَبَرَّأَ عَنْ الدِّينِ الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ. وَزَادَ فِي الْمُحِيطِ: لَا يَكُونُ مُسْلِمًا حَتَّى يَتَبَرَّأَ مِنْ دِينِهِ مَعَ ذَلِكَ وَيُقِرُّ أَنَّهُ دَخَلَ فِي الْإِسْلَام‘‘۔ (ج۴ص۲۲۷، کتاب الجھاد، باب المرتد، ط: دار الفکر، بیروت)
            حدیث شریف میں ہے: ((مَنْ آذَى مُسْلِمًا فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ)) (المعجم الصغیر، طبرانی، رقم: ۴۶۸، ط: المکتب الإسلامی، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۳؍ذی القعدۃ۳۷ھ


کتاب الطلاق


طلاق دے دہن اور گھر سے نکل جا کا کیا حکم ہے؟

سوال کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے اپنی بیوی کو غصے میں کہا: تجھے طلاق دے دوں گا، گھر سے نکال دیں گے  اور اللہ کے گھر تک دور کردیں گے، پھر کہا: طلاق دے دہن، گھر سے نکل جا۔
            نیز ایک مرتبہ زید کی لڑکی رات میں غیر محرم کے ساتھ بھاک گئی، پھر آدھی رات کو زید اپنی لڑکی کو ڈھونڈکر گھر واپس لایا، اس کی وجہ سے گاؤں والوں نے زید کا سماجی بائیکاٹ کردیا، اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ بینوا و توجروا۔
المستفتی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب زید کا یہ جملہ ’طلاق دے دوں گا، گھر سے نکال دیں اور اللہ کے گھر تک دور کردیں گے‘‘ محض وعدہ ہے اور وعدہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’سُئِلَ نَجْمُ الدِّينِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِامْرَأَتِهِ اذْهَبِي إلَى بَيْتِ أُمِّك فَقَالَتْ طَلَاق دَهٍ تابروم فَقَالَ تَوّ بَرْو مِنْ طَلَاقِ دُمَادِم فَرُسْتُمُ قَالَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّهُ وَعْدٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ‘‘۔۱ص۳۸۴، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ، ط: دار الفکر)
البتہ زید کے اس جملہ سے ’’طلاق دے دہن، گھر سے نکل جا‘‘ زید کی بیوی پر دو طلاق بائن واقع ہوگئی۔
تنویر الأبصار میں ہے: ’’الصریح یلحق الصریح و البائن و البائق یلحق الصریح‘‘ (تنویر الأبصار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج۴ص۵۴۰)
اب زید اگر اپنی بیوی کو رکھنا چاہتا ہے اور بیوی بھی راضی ہے؛ تو اس سے جدید نکاح کرکے اسے رکھ سکتا ہے، اگر بیوی کی رضا یا جدید نکاح کے بغیر بیوی کو رکھا؛ تو سخت گنہ گار اور مستحق عذاب نار ہوگا۔
اور زید کی لڑکی غیر محرم کے ساتھ بھاگنے کی وجہ سے سخت گنہ گار ہوئی اور والدین بھی لاپرواہی کرنے کی وجہ سے گنہ گار ہوئے۔
گاؤں پر لازم ہے کہ گاؤں کی عورتوں کی عورتوں کو جمع کریں، زید کی لڑکی ان عورتوں کے سامنے اپنے گناہ سے توبہ کرے، شرمندہ ہو اور آئندہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کرے اور ایک گھنٹہ قرآن پاک اپنے سر پر رکھ کر ان کے سامنے کھڑی رہے، نیز لڑکی کے والدین بھی اپنی لاپرواہی سے توبہ کریں۔
حدیث شریف میں ہے: ((التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ)) (سنن ابن ماجہ، رقم: ۴۲۵۰، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ)
اگر لڑکی اور اس کے والدین توبہ کرلیں؛ تو انہیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور مسجد میں چٹائی وغیرہ دینے کی ترغیب دلائی جائے؛ کیوں کہ نیک کام برائی کو ختم کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ (ھود:۱۱، آیت:۱۱۴)
لیکن اگر توبہ نہ کریں؛ تو گاؤں والوں پر لازم ہے کہ ان کا یوں ہی سماجی بائیکاٹ باقی رکھیں۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

بیوی کو نہیں رکھوں گا کہنے سے طلاق ہوگی یا نہیں؟

            سوال کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین مسئلہ ذیل میں:
            زید اپنی بیوی ہندہ کو غصے کی حالت میں گھر سے نکال دیا اور نیت یہ کی کہ میں اس کو کبھی نہیں رکھوں گا اور لوگوں سے بھی یہی کہا کہ میں اس کو نہیں رکھوں گااور طلاق دے دوں گا حالاں کہ زبان سے دے دوں گا کہا اور طلاق کی تھی۔
            تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ از روئے شرع زید کی بیوی ہندہ پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
المستفتی: عبد الرحمن
مقام شیخ پورا، پوسٹ گنیش پور، ضلع بستی
۱۹؍ربیع النور شریف مطابق ۹؍دسمبر ۲۰۱۷ء۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب زید کی بیوی ہندہ پر طلاق واقع نہیں ہوئی؛ کیوں کہ ’’اس کو نہیں رکھوں گا اور طلاق دے دوں گا‘‘ ایک وعدہ ہے اور محض وعدہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۱؍ربیع الأول ۳۹ھ

طلاق دے دوں گا سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیا ن شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ میاں بیوی تنہا ایک مکان میں جھگڑ رہے تھے، شوہر شراب کے نشے میں تھا، اس نے بیوی کو مارا جس کی وجہ سے اس کی بیوی پڑوسی کے گھر چلی گئی، شوہر تنہائی میں کہ رہا تھا کہ لڑکی کے والد کو بلاؤ، میں طلاق دے دونگا، دو چار عورتیں اس کی بیوی سے جاکر کہتی ہیں کہ تمہاری طلاق ہوگئی ہے، جس کو سن کر عورت اپنے میکے واپس چلی گئی، اس صورت میں عورت پر طلاق پڑے گی یا نہیں؟

المستفتی: مولانا محمد اسلم
مقام: ترکیٹی، خیر آباد شریف، سیتاپور

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب شوہر کے اس جملہ سے کہ ’’میں طلاق دے دونگا‘ طلاق واقع نہیں ہوگی؛ کیوں کہ یہ طلاق کا وعدہ ہے اور وعدہ سے طلاق نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق نہ دیدے۔
            الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’سُئِلَ نَجْمُ الدِّينِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِامْرَأَتِهِ اذْهَبِي إلَى بَيْتِ أُمِّك فَقَالَتْ طَلَاق دَهٍ تابروم فَقَالَ تَوّ بَرْو مِنْ طَلَاقِ دُمَادِم فَرُسْتُمُ قَالَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّهُ وَعْدٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ‘‘۔۱ص۳۸۴، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ، ط: دار الفکر)
            جلالۃ العلم حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
            ’’عمرو کے اس جملہ سے کہ ’’طلاق دے دیں گے یا دیدیبے‘‘ طلاق نہیں واقع ہوئی کہ یہ جملہ طلاق الفاظ میں سے نہیں ہے بلکہ طلاق کا وعدہ ہے اور تاوقتیکہ طلاق نہ دے، صرف طلاق کے وعدہ سے طلاق نہیں پڑتی‘‘۔ (فتاوی فیض الرسول، ج۲ص۱۹۰) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۸؍ذی الحجۃ ۳۷ھ

طلاق دے دوں گا اور عورت کے دعوی طلاق کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ شوہر زید نشے کی حالت میں اپنی سسرال گیا، کسی بات پر شوہر اور بیوی ہندہ کے درمیان تکرار ہوئی، زید نے کہا اگر تم میرے ساتھ ابھی نہیں چلوگی تو میں تمھیں طلاق دے دونگا، پھر زید بیوی ہندہ کو لے کر گھر آگیا، کچھ دن ساتھ رہے پھر ہندہ کے کہنے پر زید اپنی بیوی ہندہ کو اس کے میکے کے پاس چھوڑ آیا اور وہ میکے چلی گئی، بعد  میں وہ کہنے لگی کہ زید نے کلام پاک پ ہاتھ رکھ کر مجھے طلاق دے دیا اور زید کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے، بہر حال جب زید نشے کی حالت میں یہ معاملہ دریافت کرنے کے لیے اپنے سسرال گیا تو سسرال والوں نے اسے جیل بھیج دیا۔
            صورت مسؤلہ میں زید کی بیوی ہندہ پر طلاق واقع ہوئی یا  نہیں اور زید کے شراب پینے کا حکم کیا ہے؟ بینوا توجروا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب محض زید کے کہنے سے کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دونگا‘‘ طلاق واقع نہ ہوئی؛ کیوں کہ یہ ایک وعدہ ہے اور محض وعدہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک طلاق نہ دیدے۔
            الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’سُئِلَ نَجْمُ الدِّينِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لِامْرَأَتِهِ اذْهَبِي إلَى بَيْتِ أُمِّك فَقَالَتْ طَلَاق دَهٍ تابروم فَقَالَ تَوّ بَرْو مِنْ طَلَاقِ دُمَادِم فَرُسْتُمُ قَالَ لَا تَطْلُقُ لِأَنَّهُ وَعْدٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ‘‘۔ (ج۱ص۳۸۴، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیۃ، ط: دار الفکر)
            صرف ہندہ کے کہنے سے کہ ’’زید نے کلام پاک پر ہاتھ رکھ کر مجھے طلاق دے دیا‘‘ اور زید انکار کرتا ہے تو طلاق ثابت نہ ہوگی یہاں تک کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں عادل، ثقہ گواہ دے دیں۔
            اگر طلاق دینے پر ہندہ شرعی گواہ پیش کردے تو طلاق کا حکم دیا جائے گا ورنہ شوہر سے حلف لیا جائے، بعد حلف اس کی بات مان لی جائے گی۔
            حدیث شریف میں ہے: ((الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ)) (معرفۃ السنن و الآثار، بیہقی، ج۱۴ص۲۹۶، رقم:۲۰۰۲۶، ط:دار الوفاء، القاھرۃ)
            الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’ادَّعَتْ عَلَى زَوْجِهَا تَطْلِيقَةً رَجْعِيَّةً يَحْلِفُ بِاَللَّهِ مَا هِيَ طَالِقٌ مِنْك السَّاعَةَ وَإِنْ ادَّعَتْ الْبَائِنُ فَفِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ يَحْلِفُ بِاَللَّهِ مَا هِيَ بَائِنٌ مِنْك السَّاعَةَ بِوَاحِدَةٍ أَوْ ثَلَاثٍ عَلَى حَسْبِ الدَّعْوَى أَوْ بِاَللَّهِ مَا طَلَّقْتُهَا الْبَائِنَ أَوْ الثَّلَاثَ فِي هَذَا النِّكَاحِ الْمُدَّعَى وَلَا يَحْلِفُ مَا طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا مُطْلَقًا كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ‘‘۔ (ج۴ص۱۸، الفصل الثانی فی کیفیۃ الیمین و الاستحلاف)
            اب اگر شوہر نے جھوٹی قسم کھائی؛ تو اس کا وبال اس کے سر ہوگا۔
            زید کا شراب پینا حرام و گناہ ہے، زید پر لازم ہے کہ فورا توبہ کرے اور اپنی اس عادت قبیحہ سے باز آکر آئندہ کبھی بھی شراب نہ پینے کا عہد کرے، اگر باز نہ آئے؛ تو گاؤں والوں پر لازم ہے کہ اس کا سماجی بائکاٹ کریں اور اس کے یہاں آنا،  جانا اور کھانا پینا سب بند کردیں یہاں تک کہ زید شراب پینے سے باز آجائے۔
            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطٰنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ﴾ (المائدۃ:۵، آیت: ۹۰۹۱)
ترجمہ: ((اے ایمان والو شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ، شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈالوادے اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے)) (کنز الاِیمان)
            اور اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (الأنعام: ۶۰، آیت: ۶۸)
            ترجمہ: ((اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ)) (کنز الاِیمان) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲؍محرم الحرام ۳۸ھ


کتاب الأضحیة

جدید پیمانہ سے نصاب کی مقدار، زمین کی ملکیت اور زیور پر قربانی کا حکم


            کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل میں:
            (۱)سونے اور چاندی کا نصاب مروجہ پیمانہ کلو گرام میں کیا ہے؟
            (۲) زید کے پاس حاجت اصلیہ کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں جو نصاب کو پہونچ جائے البتہ اس کے پاس کچھ زمین ہے جس کی قیمت نصاب کو پہونچ رہی ہے؛ تو اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟ بکر کہتا ہے قربانی واجب ہے جب کہ عمرو کہتا ہے واجب نہیں؟ تفصیلا جواب سے نوازیں۔
            (۳) ہمارے دیار میں عورتوں کو مہر زیور کی شکل میں دیا جاتا ہے، کچھ زیور چاندی کے اور کچھ سونے کے ہوتے ہیں۔ جن کی مجموعی قیمت چاندی کے کئی نصاب کو حاوی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی عورتوں پر زکاۃ و قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟ تحریر فرمائیں، بینوا توجرو۔
المستفتی: رضی الدین احمد قادری
موضع سرسیا، پوسٹ برگدوا کھکھری، ایس نگر
۲۲؍ذی القعدۃ ۴۱ھ ۱۵؍ جولائی ۲۰۲۰ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب (۱) مروجہ پیمانہ کے اعتبار سے سونے کا نصاب ۹۳  گرام  ۳ ملی گرام اور چاندی کا نصاب ۶۵۳  گرام ہے؛ کیوں کہ شریعت اسلامیہ میں سونے کا نصاب ۲۰ دینار اور چاندی کا نصاب ۲۰۰ درہم ہے، آج مروجہ پیمانہ کے حساب سے ایک دینار کا وزن ۴ گرام ۶۶۵ ملی گرام اور ایک درہم کا وزن ۳ گرام ۲۶۵ ملی گرام ہے؛ لہذا ایک دینار کے وزن ۴ گرام ۶۶۵ ملی گرام کو ۲۰ میں ضرب دینے سے حاصل ضرب ۹۳ گرام ۳ ملی گرام آئے گا اور ایک درہم کے وزن ۳ گرام ۲۶۵ ملی گرام کو ۲۰۰ میں ضرب دینے سے حاصل ضرب ۶۵۳ گرام آئے گا۔
            سنن أبی داود میں ہے: عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، - قَالَ زُهَيْرٌ أَحْسَبُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّه قَالَ: ((هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ، مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ)) (سنن أبی داود، کتاب الزکاۃ، باب فی زکاۃ السائمۃ، ج۲ص۹۹، رقم: ۱۵۷۲، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
            سنن الدارقطنی میں ہے: عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  «لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ خَمْسِ ذَوْدٍ شَيْءٌ، وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ أَرْبَعِينَ مِنَ الْغَنَمِ شَيْءٌ، وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ شَيْءٌ، وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ عِشْرِينَ مِثْقَالًا مِنَ الذَّهَبِ شَيْءٌ، وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ شَيْءٌ۔۔۔۔۔۔الخ‘‘۔ (سنن الدارقطنی، باب وجوب زکاۃ الذھب و الورق، ج۲ص۴۷۳، رقم:۱۹۰۲،  ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیرو)
            الدر المختار میں ہے: ’’نِصَابُ الذَّهَبِ عِشْرُونَ مِثْقَالًا وَالْفِضَّةِ مِائَتَا دِرْهَمٍ‘‘۔ (الدر المختار مع رد المحتار، امام حصکفی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج۲ص۲۹۵، ط: دار الفکر، بیروت)
            (۲) محض زمین کی قیمت نصاب تک پہونچ رہی ہے؛ تو اس کے سبب زید پر قربانی واجب نہیں ہوگی، البتہ اگر اس زمین سے اتنی پیدا وار ہو کہ سال بھر کھانے کے بعد جو بچے، وہ نصاب کو پہونچ جائے؛ تو اب زید پر قربانی واجب ہوگی۔
            فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’وَإِنْ كَانَ لَهُ عَقَارٌ وَمُسْتَغَلَّاتُ مِلْكٍ اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ الْمُتَأَخِّرُونَ - رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى - فَالزَّعْفَرَانِيُّ وَالْفَقِيهُ عَلِيٌّ الرَّازِيّ اعْتَبَرَا قِيمَتَهَا، وَأَبُو عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ وَغَيْرُهُ اعْتَبَرُوا الدَّخْلَ، وَاخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ قَالَ أَبُو عَلِيٍّ الدَّقَّاقُ إنْ كَانَ يَدْخُلُ لَهُ مِنْ ذَلِكَ قُوتُ سَنَةٍ فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: قُوتُ شَهْرٍ، وَمَتَى فَضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَدْرُ مِائَتِي دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، وَإِنْ كَانَ الْعَقَارُ وَقْفًا عَلَيْهِ يُنْظَرُ إنْ كَانَ قَدْ وَجَبَ لَهُ فِي أَيَّامِ الْأَضْحَى قَدْرُ مِائَتِي دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ وَإِلَّا فَلَا، كَذَا فِي الظَّهِيرِيِّةِ‘‘۔(فتاوی عالمگیری، کتاب الأضحیۃ، الباب الأول فی تفسیر الأضحیۃ، ج۵ص۲۹۲، ط: دار الفکر، بیروت)
            رد المحتار میں ہے: ’’سُئِلَ مُحَمَّدٌ عَمَّنْ لَهُ أَرْضٌ يَزْرَعُهَا أَوْ حَانُوتٌ يَسْتَغِلُّهَا أَوْ دَارٌ غَلَّتُهَا ثَلَاثُ آلَافٍ وَلَا تَكْفِي لِنَفَقَتِهِ وَنَفَقَةِ عِيَالِهِ سَنَةً؟ يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الزَّكَاةِ وَإِنْ كَانَتْ قِيمَتُهَا تَبْلُغُ أُلُوفًا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى وَعِنْدَهُمَا لَا يَحِل‘‘۔ (رد المحتار، ابن عابدین شامی، کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزکاۃ و العشر، ج۲ص۳۴۸، ط: دار الفکر، بیروت)
            الدر المختار میں ہے: ’’(تجب على كل مسلم ذي نصاب فاضل عن حاجته الأصلية (وإن لم ينم وبه) أي بهذا النصاب (تحرم الصدقة)  وتجب الاضحية ونفقة المحارم على الراجح‘‘۔ (الدر المختار شرح تنویر الأبصار، باب صدقۃ الفطر، ص۱۳۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
            اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ اس کے تحت فرماتے ہیں: ’’قلت: فالذی له أرض قیمتھا ألوف کما وصف لو کان تجب علیه الأضحیة لحرمت علیه الزکاۃ لکنھا لم تحرم فالأضحیة لم تجب‘‘۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الأضحیۃ، ج۱۴ص۵۵۵، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف) اور یہی فقہی سمینار بورڈ دہلی کا فیصلہ ہے۔ 
            (۳) جب کی عورت کو زیور کی شکل میں مہر دے دیا گیا اور وہ نصاب کو پہونچ جاتا ہے؛ تو اس پر زکاۃ و قربانی دونوں واجب ہے۔
            زیور کی زکاۃ سے متعلق سنن أبی داود میں ہے: عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: ((أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟))، قَالَتْ: لَا، قَالَ: ((أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟))، قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ۔ (سنن أبی داود، کتاب الزکاۃ، باب الکنز ما ھو و زکاۃ الحلي، ج۲ص۹۵، رقم: ۱۵۶۳، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
            اسی میں ہے: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَنْزٌ هُوَ؟ فَقَالَ: ((مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ، فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ)) (ایضا، رقم: ۱۵۶۴)
            وسعت والے پر قربانی سے متعلق سنن ابن ماجہ میں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: ((مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا)) (سنن ابن ماجہ، أبواب الأضاحی، باب الأضاحی واجبۃ ھی أم لا، ج۴ص۳۰۲، رقم: ۳۱۲۳، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)
            فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’وَالْمُوسِرُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ مَنْ لَهُ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ شَيْءٌ يَبْلُغُ ذَلِكَ سِوَى مَسْكَنِهِ وَمَتَاعِ مَسْكَنِهِ وَمَرْكُوبِهِ وَخَادِمِهِ فِي حَاجَتِهِ الَّتِي لَا يَسْتَغْنِي عَنْهَا‘‘۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الأضحیۃ، الباب الأول فی تفسیر الأضحیۃ، ج۵ص۲۹۲، ط: دار الفکر، بیروت) و اللہ تعالی أعلم۔ کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
     ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
   خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

            ۲۸؍ ذی القعدۃ ۱۴۴۱ھ



کیا ایک فرد کی قربانی گھر کے تمام فرد کی طرف سے کافی ہوگی


           عن عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ: كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ:
((كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى)) (سنن الترمذی، باب ماجاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزی عن، ج۴ص۹۱، رقم: ۱۵۰۵، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
            ترجمہ: عطا بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوا کرتی تھی؛ تو انہوں نے فرمایا:
            ((ایک آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کیا کرتا تھا، جس میں وہ خود کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے اور حال ویسا ہوگیا جیسا آپ دیکھ رہے ہیں))
            اس حدیث سے غیر مقلدین استدلال کرتے ہیں کہ اگر گھر کا ایک آدمی اپنی اور سب کی طرف سے قربانی کردے؛ تو سب کی طرف سے قربانی ادا ہوجائے گی، کیا یہ صحیح ہے؟
المستفتی: بندہ خدا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب احناف کے نزدیک ایک مالک نصاب اور اس مالک نصاب کے اہل خانہ کی جانب سے ایک بکرے کی قربانی کافی نہیں، بلکہ گھر کا جو بھی بالغ فرد مالک نصاب ہے، اس پر قربانی واجب ہے، جب تک ہر مالک نصاب اپنی طرف سے قربانی نہیں کرے گا، وہ اپنے واجب کی ادائیگی سے سبکدوش نہیں ہوگا۔
            سنن ابن ماجہ میں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: ((مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا)) (سنن ابن ماجہ، أبواب الأضاحی، باب الأضاحی واجبۃ ھی أم لا، ج۴ص۳۰۲، رقم: ۳۱۲۳، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)
            ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
            ((جس کے اندر قربانی کرنے کی وسعت ہے اور وہ قربانی نہ کرے؛ تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے))
            فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’(وَأَمَّا) (شَرَائِطُ الْوُجُوبِ): مِنْهَا الْيَسَارُ وَهُوَ مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ دُونَ مَا يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبُ الزَّكَاةِ‘‘۔
            اسی میں ہے: ’’وَالْمُوسِرُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ مَنْ لَهُ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ شَيْءٌ يَبْلُغُ ذَلِكَ سِوَى مَسْكَنِهِ وَمَتَاعِ مَسْكَنِهِ وَمَرْكُوبِهِ وَخَادِمِهِ فِي حَاجَتِهِ الَّتِي لَا يَسْتَغْنِي عَنْهَا‘‘۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الأضحیۃ، الباب الأول فی تفسیر الأضحیۃ، ج۵ص۲۹۲، ط: دار الفکر، بیروت)
            اور غیر مقلدین نے سنن ترمذی کی جس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک شخص ایک بکری اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے قربانی کردے؛ تو وہ سب کی طرف سے کافی ہوجائے گی، اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں کہ اگر گھر کا ایک مالک نصاب شخص اپنی اور اپنے مالک نصاب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کردے؛ تو سب کی طرف سے قربانی اد ہوجائے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی فقیر یا مالک نصاب قربانی کرے اور اس کے اجر و ثواب میں اپنے اہل خانہ کو بھی شامل کرلے؛ تو یہ درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، اس مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل صحیح حدیث سے ہوتی ہے۔
            صحیح مسلم میں ہے: عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا: ((يَا عَائِشَةُ، هَلُمِّي الْمُدْيَةَ)) ثُمَّ قَالَ: ((اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ)) فَفَعَلَتْ: ثُمَّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ: ((بِاسْمِ اللهِ، اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، ثُمَّ ضَحَّى بِهِ)) (صحیح مسلم، کتاب الأضاحی، باب استحباب الضحیۃ، ج۳ص۱۵۵۷، رقم: ۱۹۶۷، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
            ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سینگ والا مینڈھا لایا جائے جو سیاہی میں چلتا، سیاہی میں بیٹھتا اور سیاہی میں نظر کرتا ہو، وہ قربانی کے لیے حاضر کیا گیا؛ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرمایا: ((عائشہ چھری لاؤ)) پھر فرمایا: ((اسے پتھر پر تیز کرلو)) پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو لٹایا اور اسے ذبح کیا، پھر فرمایا:
            ((باسم اللہ، الہی! تواس کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے، ان کی آل اور ان کی امت کی جانب سے قبول فرما))
            اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مینڈھے کی قربانی اپنی طرف سے، اپنی آل اور اپنی پوری امت کی طرف سے فرمائی، اگر اس حدیث کا ظاہری مفہوم  لیا جائے؛ تو بہت بڑی خرابی لازم آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی غنی ہو یا فقیر، اگر تمام اہل خانہ اور پوری امت مسلمہ کی طرف سے قربانی کردے؛ تو تمام اہل خانہ اور پوری امت مسلمہ کی جانب سے قربانی ادا ہوجائے گی اور یہ ظاہر البطلان ہے، یہ مذاہب اربعہ میں سے کسی بھی مذہب بلکہ کسی بھی فقیہ کا قول نہیں؛ اس لیے اس حدیث کو  اس بات پر محمول کیا جائے گا  کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے اس فعل سے تمام اہل خانہ اور پوری امت مسلمہ کو اجر و ثواب میں شریک کرنا مقصود ہے نہ کہ تمام اہل خانہ اور پوری امت کی جانب سے قربانی کرنا ہے۔
            اور ثواب میں شریک کرنے کے احناف بھی قائل ہیں، یعنی ایک فقیر یا مالک نصاب شخص اگر قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے اہل خانہ بلکہ تمام امت مسلمہ کو شامل کرلے؛ تو شرعا کوئی حرج نہیں۔
            بہار شریعت میں ہے: ’’ایصال ثواب یعنی قرآن مجید یا درود شریف یا کلمہ طیبہ یا کسی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچانا جائز ہے۔ عبادت مالیہ یا بدنیہ، فرض و نفل، سب کا ثواب دوسروں کو پہنچایا جاسکتا ہے، زندوں کے ایصال ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے‘‘۔ (بہار شریعت، صدر الشریعۃ، ایصال ثواب، ج۳ح۱۶ص۶۴۲، ط: قادری کتاب گھر، بریلی شریف)
            البحر الرائق میں ہے: ’’وَظَاهِرُ إطْلَاقِهِمْ يَقْتَضِي أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ فَإِذَا صَلَّى فَرِيضَةً وَجَعَلَ ثَوَابَهَا لِغَيْرِهِ فَإِنَّهُ يَصِحُّ‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، امام ابن نجیم، باب الحج عن الغیر، ج۳ص۶۴، ط:دار الکتاب الإسلامی)
            اور حقیقت یہ ہے کہ اختلاف مذاہب رحمت ہے مگر غیر مقلدین اسے زحمت بنانے کے درپے رہتے ہیں؛ اسی لیے یہ عام طور سے کبھی کسی حدیث کے ظاہری مفہوم اور کبھی زیر بحث موضوع کی ایک دو حدیث لے کر عوام اہل سنت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی ایک خاص مذہب بالخصوص مذہب احناف اور کبھی پوری اہل سنت و جماعت کو حدیث کا مخالف بتانے کی سعی مذموم کرتے ہیں اور پوری بات بتانے سے کتراتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہے، امام ترمذی علیہ الرحمۃ زیر بحث حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں:
’’وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ۔۔۔۔۔۔ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: لَا تُجْزِي الشَّاةُ إِلَّا عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ المُبَارَكِ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ‘‘۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزی عن، ج۴ص۹۱، رقم: ۱۵۰۵، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
ترجمہ: ’’بعض اہل علم کے نزدیک اسی حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل ہے اور یہی امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق علیہم الرحمۃ کا قول ہے۔۔۔۔۔۔اور بعض اہل علم نے فرمایا: ایک بکری صرف ایک ہی شخص کی طرف سے کافی ہوگی اور یہی عبد اللہ بن مبارک اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم علیہم الرحمۃ کا قول ہے‘‘۔
لہذا احناف وغیرہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے مذہب اور حنبلی حضرات وغیرہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں اور ان بدمذہب غیر مقلدین کی بات پر کان نہ دھریں  نیز ان سے دور رہیں، و اللہ تعالی أعلمـــــــــــــ
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا

 ۶؍ ذی الحجۃ ۱۴۴۱ھ

کتاب الشتی

     حدیث: ابنتي فاطمة آدمیة حوارء لم تحض کی تحقیق
سوال: جانشین فقیہ ملت ماہر علوم الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد ازہار احمد امجدی ازہری حفظہ اللہ تعالی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مزاج شریف! عرض یہ ہے کہ حضرت فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ کی ثقاہت و فقاہت اور علمی جلالت کی بنیاد پر آپ کی مصنفات کے حوالہ جات فقیر اپنی تقریروں میں بیان کرتا ہے۔
امسال ماہ محرم کے ایک خطاب میں میں نے یہ روایت بیان کی:
((إن ابنتي فاطمة حورآء آدمیة لم تحض و لم تطمث))
ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ روایت موضوع ہے، تو عرض یہ ہے کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے موضوع ہے یا ضعیف ہے یا صحیح وغیرہ ہے۔
علوم الحدیث کی روشنی میں مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: (مولانا صوفی) رفاقت علی ثقلینی نعیمی، مہتمم: جامعۃ المصطفی قصبہ ککرالہ، ضلع بدایوں شریف۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، الحمد للہ میں بخیر و عافیت ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو صحت و سلامتی اور خلوص و محبت کے ساتھ مزید دینی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ کی مقبول انام کتاب ’خطبات محرم‘ میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے متعلق ذکر کردہ یہ روایت صحیح یا حسن یا موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے، اس کی قدر تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
معجم الشیوخ میں ہے:
حدثنا غانم بن حميد، ببغداد، حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي، حدثنا القاسم بن مطيب، حدثنا منصور بن صدقة، عن أبي معبد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة لأن الله عز وجل فطمها ومحبيها عن النار)) (معجم الشيوخ، أبو الحسين محمد بن أحمد بن عبد الرحمن بن يحيى بن جُمَيْع الغساني الصيداوي (المتوفى: 402ھ) تحقیق: د. عمر عبد السلام تدمري، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، دار الإيمان – بيروت، طرابلس)
          اس روایت کی سند پر بحث:
(۱) غانم بن حمید، غانم بن حمید بن یونس بن عبد اللہ ابوبکر شعیری، آپ نے محمد بن ابوالعوام وغیرہ سے روایت کی ہے، اور آپ سے ابوالقاسم ابن ثلاج اور ابوالحسین بن جمیع صیداوی نے روایت کی ہے (تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج۱۴ص۲۸۷، رقم:۶۷۲۵، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)
            (۲) ابوعمارہ احمد بن محمد، مجہول، فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔
            (۳) الحسن بن عمرو بن سیف السدوسی، مجہول، فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔
            (۴) القاسم بن مطیب، مجہول، فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔
            (۵) منصور بن صدقہ، مجہول،  فقیر کو ان کا ترجمہ نہیں ملا۔
            (۶)  ابومعبد، ان کا نام نافذ ہے، یہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مولی ہیں، آپ ثقہ ہیں، آپ کا شمار چوتھے طبقہ میں ہوتا ہے، آپ کی وفات ۱۰۴ھ میں ہوئی (تقریب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج۱ص۵۵۸، رقم: ۷۰۷۱)
            (۷) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
            حکم روایت: ضعیف۔
            امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ کے ذریعہ اسی سند کے ساتھ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس سند میں متعدد مجہول راوی ہیں اور یہ روایت ثابت نہیں ہے:
أخبرنا أبو محمد عبد الله بن علي بن عياض القاضي بصور، وأبو نصر علي بن الحسين بن أحمد الوراق بصيدا، قالا: أخبرنا محمد بن أحمد بن جميع الغساني، قال: حدثنا غانم بن حميد بن يونس بن عبد الله أبو بكر الشعيري ببغداد، قال: حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، قال: حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي، قال: حدثنا القاسم بن مطيب، قال: حدثنا منصور بن صدقة، عن أبي معبد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:((ابنتي فاطمة حوراء آدمية، لم تحض، ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة لأن الله فطمها ومحبيها عن النار)) في إسناد هذا الحديث من المجهولين غير واحد، وليس بثابت. (تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج۱۴ص۲۸۷، رقم:۶۷۲۵، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الموضوعات‘ میں اپنے شیخ سے روایت کرتے ہوئے مذکورہ بالا سند کے ساتھ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد صرف امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا، البتہ آپ کی اس سند میں ابن جمیع صیداوی کے شیخ، غانم بن حمید کے بجائے، حاتم بن حمید ہیں:
الحديث السابع في أنها كانت لا تحيض: أنبأنا عبد الرحمن بن محمد أنبأنا أحمد بن علي بن ثابت أنبأنا أبو محمد عبد الله بن علي بن عياض القاضي، وأبو نصر علي بن أحمد الوراق قالا أنبأنا محمد بن أحمد بن جميع الغساني حدثنا حاتم بن حميد بن يونس أبو بكر الشعيري حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد حدثنا الحسن بن عمرو بن سيف السدوسي حدثنا القاسم بن مطيب حدثنا منصور بن صدقة عن أبي معبد عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحيها [محبيها] من النار))  قال الخطيب: في إسناد هذا الحديث من المجهولين غير واحد وليس بثابت. (الموضوعات،ابن الجوزی، کتاب الفضائل و المثالب، ج۱ص۴۲۱، ط: المكتبۃ السلفيۃ بالمدينۃ المنورة)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’تلخیص الموضوعات‘ میں سابقہ روایت ذکر کرنے کےبعد فرمایا کہ اس کی اسناد مظلم اور یہ روایت مجہول راویوں پر مشتمل ہے:
ابن جميع، ثنا [غانم] ثنا أبو عمارة أحمد بن محمد، ثنا الحسن بن عمرو بن سيف، ثنا القاسم بن [مطيب] ، ثنا منصور بن صدقة، عن أبي [معبد] عن ابن عباس، مرفوعا: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث، وإنما سماها فاطمة؛ لأن الله فطمها محبيها من النار)). إسناده مظلم مجاهيل. (تلخیص الموضوعات، امام ذھبی، ص۱۵۰، رقم۳۲۵:، ط: مكتبۃ الرشد - الرياض)
            خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ’اللآلی المصنوعۃ‘ میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد ان کے قول کو ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا:
(الخطيب) أنبأنا أبو محمد عبد الله بن علي بن عياض وأبو نصر علي بن الحسين بن أحمد الوراق قالا أنبأنا عمر بن أحمد بن جميع الغساني حدثنا غانم بن حميد بن يونس أبو بكر القصيري حدثنا أبو عمارة أحمد بن محمد حدثنا الحسن بن عمرو بن صيف السدوسي حدثنا القاسم بن مطيب حدثنا منصور بن صدقة عن أبي معبد عن ابن عباس قال قال رسول الله: ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث وإنما سماها فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحبيها عن النار)) قال الخطيب: ليس بثابت وفيه مجاهيل (اللآلی المصنوعۃ، امام سیوطی، کتاب المناقب، ج۱ص۳۶۵، ط: دار الكتب العلميۃ - بيروت)
            امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی سابقہ روایت ذکر کرکے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول کو ذکر کیا، پھر اسی موضوع سے متعلق حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرمایا: یہ روایت بھی باطل ہے؛ کیوں کہ یہ روایت سلیمان بن داؤد کی علی بن موسی رضا سے روایت کردہ ہے:
[حديث] ((ابنتي فاطمة حوراء آدمية لم تحض ولم تطمث وإنما سماها الله تعالى فاطمة لأن الله تعالى فطمها ومحبيها عن النار)) (خط) من حديث ابن عباس وقال ليس بثابت وفيه غير واحد من المجهولين (قلت) وجاء عن أسماء: قبلت فاطمة بالحسن فلم أر لها دما فقلت يا رسول الله إني لم أر لفاطمة دما في حيض ولا نفاس فقال: ((أما علمت أن ابنتي طاهرة مطهرة فلا يرى لها دم في طمث ولا ولادۃ أورده)) (لمحب الطبري) في ذخائر العقبي وهو باطل أيضا فإنه من رواية داود بن سليمان الغازي عن علي بن موسى الرضى، والله أعلم. (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ، ابن عراق کنانی، الفصل الأول، ج۱ص۴۱۲، رقم:۱۴، ط: دار الكتب العلميۃ- بيروت)
            امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ کے حکم سے معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کے نزدیک حضرت اسما رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ روایت باطل ہے، اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کردہ روایت بھی باطل ہے، نیز امام ابن عراق رحمہ اللہ نے اس روایت کو فصل اول میں رکھا ہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ناقدین نے  اس روایت کے باطل ہونے پر امام ابن جوزی رحمہ اللہ سے اتفاق کیا ہے۔  
            امام ابن عراق کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
        ’’(الأول) فيما حكم ابن الجوزي بوضعه ولم يخالف فيه‘‘۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ، ابن عراق کنانی، مقدمۃ، ج۱ص۳، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
            لیکن امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے زیر بحث  روایت کو ذکر کرنے کے بعد صرف امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول لیس بثابت کو ذکر فرمایا مگر کوئی واضح حکم ارشاد نہیں فرمایا؛ اس لیے آپ کا امام ابن جوزی رحمہ اللہ کے ساتھ موافقت کا قول کرنا محل تامل ہے۔
ناقدین کے قول لیس بثابت کا معنی اور روایت کا حکم:
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ’الموضوعات‘ میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے قول لیس بثابت کو  نقل کیا اور آپ کے بعد آنے والے ناقدین نے بھی انہی کا قول ذکر کرنے پر اکتفا کیا مگر امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا قول لیس بثابت واضح طور پر حدیث کے موضوع ہونے پر دلالت نہیں کرتا؛ کیوں کہ ناقدین کے اس قول کو مختلف احادیث کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قول کے متعدد احتمالات ہیں: یہ روایت خاص اس سند سے  ثابت نہیں، یہ روایت سند صحیح یا حسن سے ثابت نہیں، یہ روایت ثابت نہیں یعنی موضوع ہے، لیکن زیر بحث روایت کے رایوں کی تفصیل دیکھنے کے بعد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں لیس بثابت سے مراد یہ نہیں کہ یہ حدیث موضوع ہےبلکہ یہ مراد ہے کہ یہ حدیث سند صحیح یا حسن سے ثابت و مروی نہیں؛ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابن جمیع صیداوی کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے  روایت کردہ روایت کا باطل و موضوع ہونا محل نظر ہے؛ کیوں کہ اس روایت میں نہ تو کوئی علامت وضع پائی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی سند میں کوئی راوی کذاب یا متہم بالکذب ہے، ہاں متعدد مجہول راوی ہیں مگر محض مجہول راویوں کی وجہ سے روایت موضوع نہیں بلکہ صرف ضعیف ہوتی ہے۔
            حکم روایت: ضعیف۔
            حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اس خصوصیت کے متعلق مزید دو احادیث بھی وارد ہیں، مگر یہ دونوں احادیث شدید ضعیف ہیں، اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
پہلی حدیث: حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ حدیث مجھے صرف ایک کتاب ’ذخائر العقبی لمحب الدین الطبری‘ میں بغیر سند  ملی:
وعن أسماء قالت: قبلت أي ولدت فاطمة بالحسن فلم أر لها دما فقلت يا رسول الله إنى لم أر لها دما في حيض ولا في نفاس فقال صلى الله عليه وسلم: ((أما علمت ان ابنتى طاهرة مطهرة لا يرى لها دم في طمث ولا ولادة)) خرجه الامام على بن موسى الرضا. (ذخائر العقبى في مناقب ذوى القربى، محب الدين أحمد بن عبد الله الطبري (المتوفى: ۶۹۴ھ) ط: مكتبۃ القدسي بالقاهرة)
راوی داود بن سلیمان غازی کے بارے میں ناقدین کے اقوال:
حضرت اسما رضی اللہ عنہا کی اس روایت پر جس راوی کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے وہ داود بن سلیمان غازی ہے، اس راوی کے متعلق ناقدین کے اقوال ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’داود بن سليمان الغازي عن علي بن موسى الرضا، لا شيء‘‘۔ (المغنی فی الضعفاء، امام ذہبی،ج۱ص۲۱۸، رقم: ۱۹۹۷، تحقیق: دکتور نور الدین عتر )
یعنی داود بن سلیمان کوئی چیز نہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’داود بن سليمان الجرجاني الغازى، عن علي بن موسى الرضا وغيره. كذبه يحيى بن معين، ولم يعرفه أبو حاتم، وبكل حال فهو شيخ كذاب له نسخة موضوعة على الرضا‘‘۔  (میزان الاعتدال، امام ذہبی، ج۲ص۸، رقم: ۲۶۰۸،  ط: دار المعرفۃ، بیروت)
یعنی داود بن سلیمان نے امام علی بن موسی رضا وغیرہ سے روایت کی ہے، امام یحی بن معین نے اس کی تکذیب کی ہے، امام ابوحاتم کو اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں اور بہر حال وہ ایسا شیخ ہے جو کذاب ہے، امام رضا پر اس کا ایک جھوٹ پر مشتمل نسخہ ہے۔
حکم روایت: شدید ضعیف۔
دوسری حدیث: یہ حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اسے ابن أبی الدنیا نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے:
قال ابن أبي الدنيا حدثنا إسحاق الأشقر ثنا العباس بن بكار ثنا عبد الله ابن المثنى عن عمه ثمامة عن أنس عن أم سليم قالت: ((لم ير لفاطمة دم في حيض ولا نفاس)) (لسان المیزان، امام ابن حجر عسقلانی، ج۳ص۲۳۷، رقم:۱۰۵۲، ط: مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، بيروت)
راوی عباس بن بَکَّار کے بارے میں ناقدین کے اقوال:
اس روایت کی سند میں ایک راوی عباس بن بکار ہے، ناقدین نے اس راوی کے بارے میں کافی کلام کیا ہے، بعض نے توثیق، اکثر نے سخت تجریح کی ہے اور بعض نے تضعیف پر اکفتا کیا ہے، اس راوی کے متعلق ذیل میں ناقدین کے توثیق و تضعیف والے اقوال بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں:
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عباس بن بَكَّار من أهل البصرة كنيته أبو الوليد يروي عن أبي بكر الهذلي وأهل البصرة يروي عنه محمد بن زكريا العلاني وغيره من أهل بلده مات بالبصرة وهو بن ثلاث وتسعين سنة وكان يغرب حديثه عن الثقات لا بأس به‘‘۔لثقات، امام ابن حبان، ج۸ص۵۱۲، رقم:۱۴۷۴۳، ط: دائرة المعارف العثمانیۃ بحيدر آباد، الدكن، الهند)
یعنی ابو الولید عباس بن بکار، ابوبکر ہذلی اور اہل بصرہ سے اور ان سے محمد بن زکریا علانی اور بصرہ کے لوگ روایت کرتے ہیں، یہ راوی ثقات سے غریب حدیث روایت لاتا ہے، یہ راوی لا بأس بہ ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العباس بن الوليد بن بكار شيخ من أهل البصرة يروي عن أبي بكر الهذلي وخالد الواسطي وأهل البصرة العجائب روى عنه محمد بن زكريا الغلابي وأهل العراق لا يجوز الاحتجاج به بحال ولا كتابة حديثه إلا على سبيل الاعتبار للخواص ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ (المجروحین، ابن حبان، ج۲ص۱۹۰، رقم:۸۲۸، ط:دار الوعی، حلب)
یعنی عباس بن بکار راوی ابوبکر ہذلی، خالد واسطی اور اہل بصرہ سے عجائب روایت کرتا ہے، اس راوی سے زکریا غلابی اور اہل عراق نے روایت کی ہے، اس سے کسی حال میں احتجاج جائز نہیں اور نہ ہی اس کی حدیث لکھنے کی اجازت ہے، البتہ  خواص و ناقدین کو اس کی حدیث علی سبیل الاعتبار زیر تحریر لانے کی اجازت ہے۔
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عباس بن بكار الضبى أبو الوليد بصري روى عن أبي بكر الهذلى وحماد بن سلمة وسعيد بن زربى سمع منه أبي بالبصرة أيام الانصاري، نا عبد الرحمن قال: سئل ابى عنه فقال شيخ‘‘.لجرح و التعدیل، امام ابن ابی حاتم، ج۶ص۲۱۶، رقم:۱۱۹۱، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
یعنی امام ابوحاتم سے عباس بن بکار کے بارے میں پوچھا گیا؛ تو آپ نے فرمایا: وہ شیخ ہے۔
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العباس بن بكار الضبي بصري، الغالب على حديثه الوهم والمناكير‘‘۔ (الضعفاء الکبیر، امام عقیلی، ج۳ص۳۶۳، رقم: ۱۳۹۹، ط: دار المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
یعنی عباس بن بکار کی حدیث پر وہم اور مناکیر کا غلبہ ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’منكر الحديث عَن الثقات وغيرهم‘‘۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، امام ابن عدی، ج۶ص۶، رقم: ۱۱۸۴، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
یعنی عباس بن بکار ثقات وغیرہ سے منکر حدیث روایت کرتا ہے۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے داود بن إبراهيم عقيلي کے ترجمہ میں ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’وقد رواه العباس بن بكار عن خالد بن بيان عن الشعبي وهو منكر أيضا‘‘. (لسان المیزان، امام ابن حجر عسقلانی، ج۲ص۴۱۵، رقم:۱۷۱۰، ط: مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، بيروت)
یعنی سابقہ حدیث کو عباس بن بکار نے بھی روایت کی ہے اور وہ بھی منکر ہے۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’قال الشيخ أيده الله العباس بن بكار غير ثقة‘‘۔ (تالی تلخیص المتشابہ، خطیب بغدادی، ج۲ص۵۵۶، ط: دار الصمیعی، الریاض)
یعنی شیخ فرماتے ہیں کہ عباس بن بکار ثقہ نہیں ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العباس بن بكار البصري، عن أبي بكر الهذلي، متروك‘‘۔ (المقتنی فی سرد الکنی، امام ذہبی، ج۲ص۱۳۸، رقم:۶۵۵۲، ط: المجلس العلمي بالجامعۃ الإسلاميۃ، المدينۃ المنورة)
یعنی عباس بن بکار بصری متروک ہے۔
امام ابن قیسرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’والعباس هذا شيخ يروي العجائب‘‘۔ (تذكرة الحفاظ ’أطراف أحاديث كتاب المجروحين لابن حبان‘ ابن القيسراني، ص۴۱، رقم: ۷۷، ط: دار الصميعي للنشر والتوزيع، الرياض)
یعنی عباس بن بکار یہ شیخ عجائب روایت کرتا ہے۔
نیز فرماتے ہیں:
((الغلاء والرخص جندان من جنود الله عز وجل)) رواه العباس بن الوليد بن بكار، عن عبد الله بن المثنى، عن عمه تمامة، عن أنس۔ والعباس هذا يروي العجائب عن الثقات. (ایضا، رقم:۱۱۰۹)
یعنی عباس بن بکار ثقات سے عجائب روایت کرتا ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وكناه الحاكم أبو أحمد: أبا الوليد، وقال: ذاهب الحديث، وهو ابن أخت أبي بكر الهذلي‘‘۔ (تاریخ الإسلام، امام ذہبی، ج۵ص۵۹۲، رقم:۱۹۸، ط: دار الغرب الإسلامی)
یعنی حاکم ابو احمد نے عباس بن بکار کو ذاہب الحدیث قرار دیا ہے، نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس راوی  کی طرف منسوب کرتے ہوئے کچھ باطل روایات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس راوی کو کذاب قرار دیا:
’’وفيه العباس بن بكار، قال الدارقطني: هو كذاب‘‘۔  (العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواھیۃ، امام ابن جوزی، ج۱ص۲۳۲، ط: إدارة العلوم الأثریۃ، فيصل آباد، باكستان)
یعنی عباس بن بکار کو امام دارقطنی نے کذاب قرار دیا ہے۔
امام ذہبی نے اپنی کتاب المغنی (ج۱ص۳۲۸، رقم:۳۰۶۷ ، تحقیق: دکتور نور الدین عتر) اور میزان الاعتدال میں (ج۲ص۳۸۲، رقم: ۴۱۶۰، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت) امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس کذاب والے قول کو ذکر کیا ہے، نیز ’میزان الاعتدال‘ میں اس راوی کی طرف منسوب کرتے ہوئے کچھ باطل روایات کا بھی قول کیا ہے۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العباس بن بكار الضبي بصري عن خالد بن أبي بكر الهذلي قال الدارقطني كذاب۔۔۔۔۔ وقال ابن ابن الدنيا حدثنا إسحاق الأشقر ثنا العباس بن بكار ثنا عبد الله ابن المثنى عن عمه ثمامة عن أنس عن أم سليم قالت: ((لم ير لفاطمة دم في حيض ولا نفاس)) هذا من وضع العباس‘‘. (لسان المیزان، امام ابن حجر عسقلانی، ج۳ص۲۳۷، رقم:۱۰۵۲، ط: مؤسسۃ، الأعلمي للمطبوعات، بيروت)
یعنی امام دارقطنی نے عباس بن بکار کو کذاب قرار دیا ہے اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ روایت کردہ حدیث اسی عباس بن بکار کی وضع کردہ ہے، نیز آپ نے اس راوی کے متعلق متعدد احادیث گڑھنے کی تہم کا بھی ذکر کیا ہے۔
امام محمد طاہر فتنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’((من غرس غرسا يوم الأربعاء فقال سبحان الله الباعث الوارث أتته بأكلها)) هو من أباطيل العباس بن بكار الكذاب‘‘۔ (تذکرۃ الموضوعات، امام فتنی، ص۵۸، ط: إدارة الطباعة المنيريۃ)
یعنی : ((من غرس۔۔۔الحدیث)) عباس بن بکار کذاب کے اباطیل میں سے ہے۔
امام سبط ابن العجمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث‘ میں عباس بن بکار کے متعلق میزان الاعتدال کا کلام ذکر کرکے عباس بن بکار کا تذکرہ کیا ہے۔ (الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث،سبط ابن العجمی، ص۱۴۷، رقم:۳۷۲، ط: عالم الكتب , مكتبۃ النهضۃ العربيۃ- بيروت)
حکم روایت: شدید ضعیف۔ و اللہ أعلم۔
نوٹ: حدیث کب موضوع ہوتی ہے، اس کی تفصیل ملاحظہ کرنے کے لیے فقیر کی کتاب ’تحقیقات ازہری‘ میں مضمون: حدیث ضعیف محدثین و ناقدین کی نظر میں، ملاحظہ فرمائیں۔


کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
                                                         ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱؍صفر المظفر ۱۴۴۱ھ مطابق ۱؍اکتوبر ۲۰۱۹ء

بے وضو اسکرین ٹچ موبائل میں قرآن چھونے کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں:

            اسکرین ٹچ موبائل میں موجود قرآن پاک کو بلا وضو چھونا جائز ہے یا نہیں؟


المستفتی:محمد سلیم احمد چشتی

متعلم مدرسہ حنفیہ،جون پور



بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب اسکرین ٹچ موبائل میں قرآن پاک کو بلا وضو چھونا جائز ہے، مگر تقاضاے ادب یہ ہے کہ بلا وضو نہ چھوئے۔

         الفتاوی الہندیۃ میں ہے: ’’لایجوز لھما و للجنب و المحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه کالخریطة والجلد الغیر المشرز لا بما هو متصل به، هو الصحیح، هکذا في الهدایة، و علیه الفتوی کذا في الجوهرۃ النیرۃ‘‘۔۱ ص۳۸، الفصل الرابع فی أحکام الحیض و النفاس و الاستحاضۃ) و اللہ تعالی أعلم۔

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ

فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم؍اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۶؍محرم الحرام ۳۸ھ


بغیر نگ کی انگوٹھی پہننا کیسا ہے؟


۹۲؍۷۸۶

            سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں:

بغیرنگ کی انگوٹھی مرد کے لئے جائز ہے یا نہیں اور اگر نگینہ نہ ہو مگر نگینہ رکھنے کی جگہ بنی ہو تو اس کا کیا حکم ہے،بہار شریعت میں لکھا ہیـــ:ـ ’’انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو یعنی ایک نگینے کی ہو‘‘ کیا اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر ایک نگینہ نہ ہو یا ایک سے زیادہ ہو تو وہ انگوٹھی جائز نہیں، براہ کرم جواب کو فقہ کی مطولات سے مزین کریں۔


المستفتی:محمد سلیم احمد چشتی

متعلم مدرسہ حنفیہ،جون پور



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب جس طرح مرد کے لیے نگ والی انگوٹھی جائز ہے اسی طرح اس کے لیے بغیر نگ کی وہ انگوٹھی جو عورتوں کی انگھوٹھی کی ہیئت پر نہ ہو جائز ہے؛ کیوں اصل مقصد نگ سے تزین ہے؛ اسی لیے مرد کو حکم ہے کہ نگ کو ہاتھ کے باطنی حصہ کی جانب کرے تاکہ تزین سے بچ سکے؛ اور نگ نہ ہونے کی صورت میں بدجہ اولی تزین نہ ہوگا؛ لہذا اس کے لیے بغیر نگ کی ایسی انگوٹھی بھی جو عورتوں کی ہیت پر نہ ہو جائز ہے۔

            رد المحتار میں ہے: ’’قوله: (یجعله) أي الفص لبطن کفه، بخلاف النسوان لأنه تزین في حقهن‘‘۔۹ ص ۵۱۹، کتاب الحظر و الإباحۃ)

            البتہ مرد کو متعدد نگ والی انگوٹھی پہننا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

            رد المحتار میں ہے: ’’إنما یجوز التختم بالفضة لو علی هیئة خاتم الرجال، أما لو له فصان أو أکثر حرم‘‘۔  ۹ ص ۵۲۱، کتاب الحظر و الإباحۃ)
            بہار شریعت کی پوری عبارت یہ ہے: ’’انگوٹھی وہی جائز ہے جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو، یعنی ایک نگینہ کی ہو اور اگر اس میں کئی نگینے ہوں تو اگرچہ وہ چاندی کی ہو مرد کے لیے ناجائز ہے‘‘- (ج۳ ح۱۶، انگوٹھی اور زیور کا بیان، ط: المکتبۃ المدین)
            اس عبارت کا مفہوم فقط اتنا ہے کہ مرد کی انگوٹھی عورتوں کی طرح متعدد نگ والی نہ ہوجیسا کی بہار شریعت کی پوری عبارت سے واضح ہے۔ و اللہ أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر، مصر، شعبہ حدیث، ایم؍اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۶؍محرم الحرام ۳۸ھ



بھاگ کر شادی کرنے کے بعد وطی کرنے، زانی کا ساتھ دینے اور والدین کی لاپرواہی کا حکم


سوال (۱) کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین  مسئلہ ذیل میں کہ راشد ابن ارشاد احمد ایک لڑکی کو لے کر بھاگا ۰۹؍۰۲؍۱۸ء کو، اس کے شکم میں اسی سے دو مہینے کا حمل ہے، بھاگنے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے سے شادی کرلی، قرآن و حدیث سے جواب عنایت فرمائیں؟

            (۲) کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میںکہ جو شخص ان زانی اور زانیہ کا ساتھ دے اور انہیں بڑھاوا دے، اس کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے؟

            (۳)کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین  اس مسئلہ میں کہ لڑکی کو گھر سے جانے کے بعد بھی اگر باپ نے اپنی بچی کو دوبارہ اپنے گھر لے آیا، اس کے بارے میں شریعت کا کیا فیصلہ ہے؟

المستفتی: محمد (عبد) الرؤوف

گرام نواس، پوسٹ بڑگہن، ضلع گوکھپور، ۱۸؍۰۸؍۱۸ء



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب (۱) زنا شریعت اسلامیہ میں سخت حرام ہے، لڑکا اور لڑکی زنا کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے مستحق عذاب نار ہوئے، اگر اسلامی حکومت ہوتی؛ تو لڑکا اور لڑکی کو سو سو کوڑے لگائے جاتے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ﴾ (النور:۲۴، آیت:۲)

مذکور لڑکے مذکورہ لڑکی سے نکاح اور وطی دونوں جائز ہے، مگر لڑکا اور لڑکی کا مرتکب زنا ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں کے سامنے توبہ اور ندامت کا اظہار لازم ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:’’(وَ) صَحَّ نِكَاحُ (حُبْلَى مِنْ زِنًى لَا) حُبْلَى (مِنْ غَيْرِهِ) أَيْ الزِّنَى لِثُبُوتِ نَسَبِهِ----- (وَإِنْ حَرُمَ وَطْؤُهَا) وَدَوَاعِيهِ (حَتَّى تَضَعَ)----- لَوْ نَكَحَهَا الزَّانِي حَلَّ لَهُ وَطْؤُهَا اتِّفَاقًا‘‘۔ (ج۴ص۱۴۱، کتاب النکاح، ط: زکریا بکڈپو)
(۲) زانی اور زانیہ کا ساتھ اور ان کو بڑھاوا دینے والے گنہ گار ہیں، ان پر لاز م ہے کہ یہ اپنی حرکت سے باز آئیں اور توبہ کریں۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ:۵، آیت:۲)
(۳) اگر والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے لڑکی زنا کرنے اور بھاگنے پر جری ہوئی؛ تو ان پر بھی توبہ ضروری ہے، اور لڑکی جب تک گاؤں والوں کی عورتوں کے سامنے توبہ نہ کرلے اور ندامت کا اظہار نہ کرے، لڑکی کو اپنے گھر لانے کی اجازت نہیں۔
حدیث پاک میں ہے: ((كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا-----الحدیث)) (صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری و المدن، ج۱ص۱۲۲، رقم: ۸۹۳، ط: دار طوق النجاۃ)
اگر لڑکا اور لڑکی نیز ان کو بڑھاوا دینے والے اور ان کو پناہ دینے والے والدین وغیرہ توبہ کرلیں؛ تو گاؤں والے انہیں اپنے ساتھ کھانے، پینے وغیرہ میں شامل رکھیں اور اگر توبہ نہ کریں؛ تو گاؤں والے ان سب کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں اور ان کے ساتھ کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، سب چھوڑدیں۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (الأنعام:۶، آیت: ۶۸)  و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۶؍ذو الحجۃ ۳۹ھ


تعویذ بنانے والے اور اس پر بے جا اعتراض کرنا والے کا شرعی حکم


            سوال کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں۔

            زید ایک سنی عالم دین ہے، وہ لوگوں کو مقصد میں کامیابی کے لیے تعویذات دیتا ہے، بکر جب کہ ایک جاہل ہے، اس نے مذکور تعویذات کرکے زید کے خلاف مسجد میں آکر لوگوں کو بد ظن کرواتا ہے اور مذکور حاجی کے داماد خالد نے مذکور عالم دین کو طیش میں آکر شیطان کہتا ہے، اب آپ سے طلب جواب چاہتے ہوئے ہم آپ سے مؤدبانہ عرض کرتے ہیں کہ آیا بکر اور خالد کے اوپر شرع شریف کا کیا حکم ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔

المستفتی: ہم سنی رضوی

بستی، بدیا دہ، ہرلو، بستہ، اڈیشا۔



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب اللہ تعالی کے نام، آیات مبارکہ اور ماثور دعاؤں کے ذریعہ تعویذ دینا جائز و درست ہے، حدیث شریف میں ہے:

            حدیث شریف میں ہے: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ ابْنِ أَخِي مَيْمُونَةَ: أَنَّ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ لِي: يَا ابْنَ أَخِي، أَلَا أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: ((بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، وَاللهُ يَشْفِيكَ مِنْ كُلِّ دَاءٍ فِيكَ، أَذْهِبِ الْبَأْسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ)) (السنن الکبری، نسائی، ذکر رقیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، رقم: ۱۰۷۹۳، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

            اگر زید سنی عالم دین جائز طریقہ سے دعا و تعویذ کرتا ہے، اس کے باوجود بکر، لوگوں کو سنی عالم دین سے بد ظن کرتا یا کرواتا ہے اور خالد ان کو شیطان کہتا ہے؛ تو یہ دونوں ایک مسلم بلکہ ایک عالم دین کو بلاوجہ شرعی تکلیف پہونچانے کی وجہ سے گنہ گار اور مستحق عذاب نار ہوئے۔

            حدیث شریف میں ہے: ((۔۔۔مَنْ آذَى مُسْلِمًا فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ)) (المعجم الصغیر، طبرانی، رقم: ۴۶۸، ط: المکتب الإسلامی، بیروت)

            بکر اور خالد دونوں پر لازم ہے کہ زید سنی عالم دین سے معافی مانگیں، توابہ کریں اور آئندہ کسی مسلم کو بلاوجہ شرعی تکلیف نہ دینے کا عہد کریں، و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۰؍ذی القعدۃ۳۷ھ


توبہ کے بعد تائب سے معاملات کا حکم


            سوال حضور سیدی و سندی آقائی و مولائی حضور مفتی صاحب قبلہ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہ سلام

            کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان اسلام مسئلہ ذیل میں کہ زید کا ناجائز تعلق ہوا، پکڑے جانے پر شریعت کے مطابق نکاح بھی ہوگیا، محلہ والوں نے بائیکاٹ بھی کیا تھا، زید نے اعلانیہ توبہ بھی کیا اور کہا بھائیو آپ لوگ ہم کو اب اپنے ساتھ رکھئے، آج نہیں مہینہ پندرہ دن میں قرآن خوانی و و لیمہ جب کریں گے؛ تو مسجد یا مدرسے میں جو آپ لوگ کہیں گے، ان شاء اللہ وہ بھی سزا نبھانے کے لیے تیار ہیں، محلہ والوں نے کہا کہ حالت ٹھیک نہیں ہے، تمہارے اوپر کوئی قید نہیں، جو بھی ہوسکے گا دے دینا، زید نے کہا ٹھیک ہے، اب رہا سوال یہ کہ بکر کہتا ہے کہ جب تک جو وعدہ کیے ہیں، اس کو پورا نہ کریں گے، اس وقت تک تمہیں شرکت نہیں کیا جائے گا، تو شریعت کے متعلق بکر کا کہنا ٹھیک ہے، جب کہ اور لوگ کہتے ہیں کہ جب زید نے اعلانیہ توبہ کرلیا، اپنے گناہوں کی معافی مسجد کے صحن کے آگے تمام نمازیوں کے بیچ میں تو اب کیا رہ گیا ہے۔

            تو مفتی صاحب قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب مدلل عنایت فرمائیں کہ زید کے یہاں ابھی کھایا جاسکتا ہے ہے یا نہیں۔

            لکھنے جو غلطی ہوگی اسے معاف فرمائیں، عین نوازش ہوگی، فقط السلام علیکم۔

المستفتی: محمد اشتیاق احمد

مقام سیورا لالہ، ضلع بستی، ۱۴؍۰۸؍۲۰۱۶ء۔



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
اگر واقعی زید نے لوگوں کے سامنے توبہ کرلیا ہے؛ تو لوگوں کو چاہیے کہ زید کو اپنے ساتھ کھانے، پینے اور شادی وغیرہ میں شریک کریں۔
            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (المائدۃ: ۵، آیت: ۳۹)
            حدیث پاک میں ہے: ((التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ)) (سنن ابن ماجہ، رقم: ۴۲۵۰، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ)
            اب توبہ کے بعد بکر کا یہ کہنا درست نہیں: ’’جب تک جو وعدہ کیے ہیں، اس کو پورا نہ کریں گے، اس وقت تک تمہیں شریک نہیں کیا جائے گا‘‘۔ بکر پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس قول سے باز آئے؛ کیوں کہ توبہ کے بعد اس طرح کے قول مسلم کو ایذیا دینا ہے اور بلا وجہ کسی مسلم کو ایذا دینا جائز نہیں۔
            البتہ زید جیسے ہی اپنے کیے وئے وعدہ ک پورا کرنے کے قابل ہوجائے، فورا اس پر وعدہ پورا کرنا ضروری ہے ورنہ گنہ گار ہوگا۔
            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾ (الإسراء:۱۷، آیت: ۳۴) و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۰؍ذی القعدۃ۳۷ھ

شرابی، جوا کھیلنے والے کے یہاں کھانا اور انگریزی باجا بجانا وغیرہ کیسا ہے؟

                        سوال: (۱)  کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین کہ شرابی اور جوا کھیلنے والے کے یہاں کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا جائز ہے کہ نہیں، مفصل جواب عنایت فرمائیں؟
            (۲) کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین اس مسئلہ میں کہ شادی کے موقع پر انگریزی باجہ بجانا یا ڈی جے بجانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں؟
المستفتی: ثقلین رضا عزیزی
سنت کبیر نگر، ۱۸؍۰۸؍۱۸ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب (۱) شراب و جوا، دونوں حرام قطعی ہیں، ان کا مرتکب سخت گنہ گار مستحق عذاب نار ہے۔
            اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (المائدۃ:۵، آیت:۹۰)
            حدیث پاک میں ہے: ((أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَهَى عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَالْكُوبَةِ وَالْغُبَيْرَاءِ، وَقَالَ: كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ)) (سنن أبی داؤد، باب النہی عن المسکر، ج۳ص۳۲۸، رقم: ۳۶۸۵، ط:المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
ایسے لوگوں پر ان چیزوں کا فورا ترک کرنا اور اعلانیہ توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، اگر یہ لوگ ایسا نہ کریں؛ تو مسلمان، ان کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾(ھود:۱۱، آیت:۱۱۳)
(۲) انگریزی باجہ یا ڈی جے کے ساتھ گانا بجانا، اس کا قصدا سننا اور ایسی مجلس میں شرکت کرنا حرام و گناہ ہے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے: ’’ وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَضَرْبِ قَصَبٍ وَنَحْوِهِ حَرَامٌ لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – ((اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ وَالتَّلَذُّذُ بِهَا كُفْرٌ)) أَيْ بِالنِّعْمَةِ فَصَرْفُ الْجَوَارِحِ إلَى غَيْرِ مَا خُلِقَ لِأَجْلِهِ كُفْرٌ بِالنِّعْمَةِ لَا شُكْرٌ فَالْوَاجِبُ كُلُّ الْوَاجِبِ أَنْ يَجْتَنِبَ كَيْ لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ ((أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنِهِ عِنْدَ سَمَاعِهِ))‘‘۔ (کتاب الحظر و الإباحۃ، ج۹ص۵۰۴، ط: زکریا بکڈپو)  واللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۶؍ذو الحجۃ ۳۹ھ


عورت کا مجلس میں بے پردہ شرکت کرنا کیسا ہے؟


            سوال بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کے ہمارے گاؤں میں تاریخ ۰۸؍۰۶؍۱۹ء عورتوں اور مردوں کے پروگرام میں اقر نے یہ بیان دیا جو نیچے درج ہے، اس پر حکم شرع کیا ہے؟

            ’’رہا یہ عورتوں کا انتظام کیا ہے، اب رہا یہ کہ یہاں عورتوں کا انتظام کیا گیا ہے یا تو مزارات میں ورتیں حاضری کے سلسلے میں آئی ہے یا علم دین حاصل کرنے کے لیے آئی ہے، رہا یہ کہ مزارات پر عورتوں کا آنا جائز نہیں۔ سیکنڈ نمبر، علم دین سیکھنے کے لیے آئی ہے تو یہ اس وقت جائز ہے جب کہ عوتوں اور مردوں کا اختلاط نہ ہو تو جائز ہے۔ سیکنڈ نمبر، عورت مزین نہ ہوکے آئی ہو تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں، اب رہا یہ کے یہاں اگر عورت آئی ہے تو علم دین سیکھنے کے لیے آئی ہے تو کیا یہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہورہا ہےیا نہیں ہورہا ہے۔ دوسرے نمبر، عورت مزین ہوکے آئی ہے یا نہیں۔ تیسرے نمبر، اگر عورت کو پیشاب لگ گئی کہاں کرے گی؟ ابھی عورت کا اکشڈنٹ ہوا، سلمہ خالہ serious ہے، اب ان کی حفاظت کی ذمہ داری منتظمین حضرات لے رہے ہیں؟ آج موجودہ زمانہ میں اگر زمانہ مستقبل میں اگر عورت کو کچھ ہوگیا تو خدا نہ خواستہ اس کی ذمہ داری منتظمین حضرات لے رہے ہیں؟ لہذا تمام حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر عورتوں کا یہاں آنا جائز ہے تو میرے کمرے میں آجائے اور اگر جائز ہے تو جائز ہونا ثابت کریں، میں بالکل عالی الاعلان ناجائز کا حکم دے رہاہوں، اگر ناجائز ہے تو میرے پاس دلیل بھی ہے، تمام حضرات سے گزارش ہے کہ جو یہاں آنے کے جائز کے قائل ہے، میرے کمرے میں آجائے، میں بیٹھا ہوںو اللہ آج بھی کہ رہا ہوں اور علی الاعلان کہ رہا ہوں، عورتوں کا یہاں آنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہورہا ہے۔ دوسرے نمبر پر عورتوں کا یہاں آنا کہ مزین ہوکے آئی ہے، کیا جائز ہے؟ بتائیے کون منتظمین حضرات ہے؟ ابھی ایک بچے کا انتقال ہوگیا، کون ذمہ داری لے رہا ہے؟ آج آپ نے درگاہ پہ بلایا اور کوئی دریا میں عورتوں کے آنے کا اعلان کرے گا، کیا دریا میں لے جائیں گے‘‘؟

            یہ پروگرام عرس کی تقریب کے سلسلے میں رات کو گاؤں سے تین کلومیٹر کھلے میدان میں درگاہ کے پاس تھا، نیز کسی استنجا خانہ انتظام بھی نہیں تھا۔

المستفتی: احقر محمد



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجوابعورتوں کا مزین یا غیر مزین ہوکر بے پردہ گھر سے باہر نکلنا ناجائز و حرام ہےاور ایسی جگہ بے پردہ یا پردہ کے ساتھ جانا، جہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو، حرمت اور زیادہ سخت ہے۔

            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى﴾ (الأحزاب:۳۳، آیت:۳۳)

            ترجمہ: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔ (کنز الإیمان)
            حدیث شریف میں ہے: ((لَأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لَا تَحِلُّ لَه)) (المعجم الکبیر،ج۲۰ص۲۱۱، رقم:۴۸۶، ط:مکتبۃ ابن تیمیہ، القاھرۃ)
            ترجمہ: تم میں سے کسی کا کسی ایسی عورت کو جو تمہارے لیے حلال نہیں، چھونے سے بہتر ہے کہ تمہارے سر میں لوہے کی سوئی چبھادی جائے۔
            خطیب کا بیان بالکل حق اور شریعت کے مطابق ہے، البتہ خطیب کا یہ کہنا کہ: عورت مزین نہ ہوکے آئی؛ تو جائز ہے، صحیح نہیں؛ کیوں کہ عورت مزین ہو یا غیر مزین، اس کا بے پردہ نکلنا ناجائز و حرام ہے۔ واللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۹؍ذو الحجۃ ۴۰ھ


مسلم لڑکی کا غیر مسلم کے ساتھ بھاگنے اور والدین کے بائکاٹ کا حکم


سوال کیا فرماتے ہیں علماے دین و شرع متین ذیل کے مسئلہ کے بارے میں زید کے مسلم ہے اور اس کی لڑکی ہندہ ہے، بکر ایک غیر مسلم ہے، ہندہ ایک رات بکر کے ساتھ بھاگ گئی، قانونی کاروائی کرنے کے بعد ہندہ اور بکر کو پولیس پکڑی، تھانے میں ہندہ اور بکر لائے گئے دونوں فریق حاضر ہوئے، ہندہ کو بہت سمجھانے کے باوجود ہندہ بکر کے ساتھ چلی گئی، ہندہ کے والد و والدہ کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو کچھ نہیں معلوم تھا، اگر وہ چلی گئی تو ہم لوگ مرتے دم تک اس لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے اور نہ اس کو اپنے دروازے پر آنے دیں گے، زید اور اس کی بیوی گاؤں والوں سے مل کر رہنا چاہتے ہیں، نیز زید قربانی کرانا چاہتا ہے تو گاؤں والے ان کے یہاں کھانا کھاسکتے ہیں یا نہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں، عین نوازش و کرم ہوگا۔

فقط و السلام

المستفتی: محمد کمال احمد

مقام ملولی گوسائیں، پوسٹ شنکر پور، ضلع بستی، یوپی۔



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجوابزید مسلم کی لڑکی ہندہ، بکر غیر مسلم کے ساتھ بھاگنے کی وجہ سے سخت گنہ گار مستحق عذاب نار ہوئی، اگر اسلامی حکومت ہوتی؛ اسے سو کوڑے لگائے جاتے۔

            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (النور:۲۴، آیت:۲)

            ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد، تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں، اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر، اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو (کنز الإیمان)

            ہندہ پر لازم ہے کہ وہ فورا بکر کو چھوڑکر اپنے گھر آئے، اللہ تعالی کے حضور گریہ و زاری کرے، اپنے اس گناہ عظیم پر نادم ہو اور معافی مانگے، اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے، امید قوی ہے کہ اللہ تعالی اس کی سچی توبہ کی وجہ سے اسے معاف فرماکر اپنی نیک بندیوں میں شامل فرمائے۔
            اگر ہندہ بکر کو چھوڑکر اپنے گھر آجائے اور توبہ کرلے؛ تو ٹھیک ورنہ گھر اور گاؤں والوں کی ذمہ داری بنتی ہے، جہاں تک ممکن ہو قانونی چارہ جوئی کرکے ہندہ کو بکر کے چنگل سے چھڑائیں اور ہندہ کو اپنے مسلم معاشرہ میں زندگی گزارنے پر مجبور کریں۔
            حدیث پاک میں ہے: ((انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا)) (صحیح البخاری، باب أعن أخاک  ظالما أو مظلوما، ج۳ص۱۲۸، رقم:۲۴۴۴ ، ط:دار طوق النجاۃ)
            ترجمہ: اپنے ظالم بھائی کو ظلم سے روک کر اور مظلوم بھائی کو اس کا حق دلاکر، اس کی مدد کرو۔
            زید اور اس کی بیوی کا یہ کہنا کہ ہمیں اپنی بیٹی ہندہ کے کرتوت کا علم نہیں تھا، یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے، اگر واقعی انہیں کچھ نہیں معلوم تھا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال میں کوئی لاپرواہی نہیں برتی؛ تو ہندہ کے گناہ کرنے کی وجہ سے اس کے والدین پر کوئی گناہ لازم نہیں آتا۔
            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (الأنعام:۶، آیت:۱۶۴)
            ترجمہ: اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان، دوسری کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔
            اور اگر والدین کی اپنی بیٹی ہندہ کے کرتوت کا علم تھا مگر اس کے باوجود کوئی سخت کاروائی نہیں کی یا اس کی دیکھ بھال میں لاپرواہی کی یا اپنی بیٹی کو اس کو اس غلط معاملہ میں کوئی تعاون پیش کیا؛ تو یہ بھی سخت گنہ گار ہیں۔
          اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ:۵، آیت:۲)
            ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
            حدیث شریف میں ہے: ((كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (صحیح البخاری، باب الجمعۃ فی القری و المدن، ج۲ص۵، رقم:۸۹۳، ط:دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور آخرت میں تم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ماں اور باپ پر لاز ہے کہ ماں گاؤں کی عورتوں اور باپ گاؤں کے مردوں کے درمیان اعلانیہ توبہ کریں اور آئندہ اپنے بچوں کے تئیں لاپرواہی برتنے سے بچنے کا وعدہ کریں، اگر والدین ایسا کرلیں؛ تو انہیں سماج میں شامل کرلیا جائے ورنہ سخت سماجی بائیکاٹ کیا جائے، واللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳؍ذو الحجۃ ۴۰ھ


مسلم لڑکی غیر مسلم کے ساتھ بھاگ گئی، اب اس کی بہن کی شادی میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟

سوال کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان کرام:

            اس مسئلہ میں کہ ایک مسلم کی لڑکی، غیرمسلم کے ساتھ بھاگ گئی، اس کو واپس لانے کے لیے تھانے والوں کے ذریعہ تلاش کیا گیا، تو تھانے والوں نے تقریبا چھ مہینہ کے بعد اطلاع دیا کہ لڑکی مل گئی ہے، مگر وہ حاملہ ہے، تو لڑکی کے والد نے اس واپس لانے سے انکار کردیا، گھر والے اس لڑکی سے نہ ملتے ہیں اور نہ ہی بات کرتے ہیں، اب اس کی دوسری بہن کی شادی ہے، برادری کے لوگ اس کی بہن کی شادی میں شریک ہوسکتے ہیں یا نہیں، حکم شرع آگاہ فرمائیں، بینوا توجروا۔

المستفتی: مختار علی

ساکن دھسوا چورکھری، بستی



بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب کسی مسلم لڑکی کا کسی مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگنا اور اس سے حمل ٹھہر نا، جرم عظیم ہے اور غیر مسلم کے ساتھ بھاگنا اور اس سے حاملہ ہونا تو بہت بڑا گناہ ہے، عذاب الہی کا سبب اور باعث ننگ و عار ہے، والدین اپنی لڑکی کے طرف سے لاپرواہی کرنے کی وجہ سے گنہ گار ہوئے، اگر وہ توبہ کرلیں؛ تو برادری کے لوگ ان کی دوسری لڑکی کی شادی میں شریک ہوسکتے ہیں۔

            لڑکی کے والد کا اپنی حاملہ لڑکی کو لانے سے انکار کرنا اور اس کو غیر مسلم کے پاس چھوڑے رکھنا، جائز نہیں، اس پر لازم ہے کہ اپنی لڑکی کو فورا اپنے پاس بلائے، برادری کی عورتوں کو اور لڑکیوں کو جمع کرے، پھر یہ لڑکی ان کے سامنے توبہ کرے، شرمندگی کا اظہار کرے، آئندہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے کا عہد کرے اور کم از کم ایک گھنٹہ قرآن شریف اپنے سر پر رکھکر برادری کی عورتوں اور لڑکیوں کے سامنے کھڑی رہے، جب یہ لڑکی ایسا کرلے؛ تو برادری کے لوگ اسے بھی اپنی شادی وغیرہ میں شامل کریں اور اسے نماز پڑھنے، غریب بچوں کی مدد کرنے اور مدرسے کا تعاون کرنے کی ترغیب دی جائے۔

            حدیث شریف میں ہے: ((التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ)) (سنن ابن ماجہ، رقم: ۴۲۵۰، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ)
            اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾ (ھود: ۱۱، آیت:۱۱۴) ۔ و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۸؍جمادی الأخری ۳۹ھ


مدرس لاک ڈاؤن کے ایام کی تنخواہ کا مستحق ہے یا نہیں؟!


            حضرت مفتی ازہار صاحب قبلہ پہلے تو آپ کی قابل تحسین ہمت پر مبارکباد، دوسرے یہ کہ اس حوالے سے ایک فتوی جاری ہونا چاہیے، سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
            (۱)جو مدارس مسلمانوں کے چندے سے چلتے ہیں کیا وہ لاک ڈاؤن میں اپنے مدرسین کو تنخواہ دیں، یہاں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ چوں کہ تعاون بالکل بھی نہیں ہوا ہے یا پھر بہت کم اور آئندہ امسال امید بھی کم ہے اور مدرسین بھی ذمہ داری نہیں لے رہے ہیں کہ وہ چندہ کرنے میں ادارے کا تعاون کریں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چندہ تو نہیں ہوپایا یا بہت کم ہوا ہے تاہم مدرسین کا کہنا ہے کہ ہم سارے مدرسین ادارے کے حلقہ اثر یا جہاں سے بھی ممکن ہوسکے گا چندہ کریں گے اور کم از کم اپنی تنخواہ کا انتظام بہر حال کرلیں گے، اب اس صورت کا اور پہلی صورت کا حکم شرعی بیان کیا جائے؟
            (۲) کچھ مکاتب و اسکول جو در اصل طلبہ کی فیس پر ڈپینڈ ہیں یعنی ان کا کوئی باہری تعاون نہیں ہے، اب چوں طلبہ پڑھنے ہی نہیں آرہے ہیں تو ان کی فیس بھی ندارد ہے، ایسی صورت حال میں ٹیچر و مدرسین کی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟
المستفتی: توصیف رضا مصباحی، سنبھل، یوپی۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
            الجواب موجودہ حالات میں دو طرح کی تنخواہ کا مسئلہ در پیش ہے، ایک تعطیل کلاں اور دوسری تعطیل کلاں کے علاوہ ایام میں لاک ڈاؤن کی تنخواہ۔
            پہلی صورت میں اگر مدرس نے اپنی تقرری اس شرط پر قبول کی تھی کہ وہ تعطیل کلاں  کی تنخواہ لے گا؛ تو اس صورت میں مدرس کو تعطیل کلاں کی تنخواہ دینی ہوگی اور اگر یہ شرط تھی کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ نہیں ملے گی؛ تو اب مدرس تعطیل کلاں کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا۔
            لیکن اگر تعطیل کلاں کی تنخواہ لینے یا نہ لینے کی شرط نہیں لگائی گئی تھی مگر جس ملک یا علاقے میں یہ مدرسہ ہے وہاں کا عرف ہے کہ ذمہ داران تعطیل کلاں کی تنخواہ دیتے ہیں؛ تو بھی اظہر یہی ہے کہ تعطیل کلاں کی تنخواہ ملے گی اور اگر عرف نہ دینے کا ہے؛ تو تنخواہ نہیں ملے گی۔
            اور تعطیل کلاں کے علاوہ لاک ڈاؤن کے ایام کی تنخواہ بھی مدرس کو ملے گی؛ کیوں کہ اگرچہ چھٹی ہوگئی ہے مگر ابھی مدرس مدرسہ میں ملازم ہے اور ملازمت کی حالت میں تنخواہ ملتی ہے؛ اس لیے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدرس چھٹی کے ایام کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔
            اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ایام تعطیل کی تنخواہ بحالت ملازمت ملتی ہے، شرعا عرفا یہی قاعدہ ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، مجدد دین ملت، کتاب الإجارۃ، ج۱۴، ص۲۴۷، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
            الأشباہ و النظائر میں ہے: ’’الْبَطَالَةُ فِي الْمَدَارِسِ، كَأَيَّامِ الْأَعْيَادِ وَيَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَشَهْرِ رَمَضَانَ فِي دَرْسِ الْفِقْهِ لَمْ أَرَهَا صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِمْ.
وَالْمَسْأَلَةُ عَلَى وَجْهَيْنِ: فَإِنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً لَمْ يَسْقُطْ مِنْ الْمَعْلُومِ شَيْءٌ، وَإِلَّا فَيَنْبَغِي أَنْ يَلْحَقَ بِبَطَالَةِ الْقَاضِي، وَقَدْ اخْتَلَفُوا فِي أَخْذِ الْقَاضِي مَا رُتِّبَ لَهُ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ بَطَالَتِهِ، فَقَالَ فِي الْمُحِيطِ: إنَّهُ يَأْخُذُ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ؛ لِأَنَّهُ يَسْتَرِيحُ لِلْيَوْمِ الثَّانِي وَقِيلَ: لَا يَأْخُذُ (انْتَهَى) وَفِي الْمُنْيَةِ: الْقَاضِي يَسْتَحِقُّ الْكِفَايَةَ مِنْ بَيْتِ الْمَالِ فِي يَوْمِ الْبَطَالَةِ فِي الْأَصَحِّ، وَاخْتَارَهُ فِي مَنْظُومَةِ ابْنِ وَهْبَانَ، وَقَالَ: إنَّهُ الْأَظْهَرُ‘‘۔ (الأشباہ و النظائر، امام ابن نجیم، الفن الأول، القائدۃ السادسۃ، ص۸۱، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
            نیز اس جہت بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں مدرس کا عمل سے رکنا خود مدرس کی جانب سے نہیں بلکہ دوسرے کی طرف سے ہے؛ اس لیے بھی مدرس ان ایام کی تنخواہ کا مستحق ہوگا۔
            رد المحتار میں ہے: ’’وَفِي فَتَاوَى الْحَانُوتِيِّ يَسْتَحِقُّ الْمَعْلُومَ عِنْدَ قِيَامِ الْمَانِعِ مِنْ الْعَمَلِ وَلَمْ يَكُنْ بِتَقْصِيرِهِ سَوَاءٌ كَانَ نَاظِرًا أَوْ غَيْرَهُ كَالْجَابِي‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار، امام ابن عابدین شامی، مطلب فی قطع الجھات لأجل العمارۃ، ج۴ص۳۷۲، ط: دار الفکر، بیروت)
            مگر چوں کہ عموما مدارس وغیرہ کا معاملہ چندہ یا پھر فیس پر موقوف ہوتا ہے اور چندہ ہوا نہیں یا بہت کم ہوا، نیز لڑکے بھی مدرسہ آ نہیں سکتے؛ تو فیس بھی نہیں ملے گی؛ اس لیے اس صورت حال میں ذمہ داران کے لیے تنخواہ کا انتظام کرنا مشکل ہوجائے گا؛ اس لیے واقعی جن مدارس کی یہ حالت ہے کہ اگر  وہ تنخواہ ابھی یا بعد میں نہیں دے پائیں گے؛ تو ان کے ذمہ داران مدرس کی رضا سے تدریسی معاملہ کو فسخ کرسکتے ہیں اور فسخ کے بعد اب ان کے ذمہ مدرس کی تنخواہ دینا نہیں رہے گا۔
            الدر المختار میں ہے: ’’تُفْسَخُ بِالْقَضَاءِ أَوْ الرِّضَا‘‘۔ (رد المحتار مع الدر المختار امام ابن عابدین شامی، باب فسخ الإجارۃ، ج۶ص۸۰، ط: دار الفکر، بیروت)
حاصل کلام یہ ہے کہ  ہر مدرس و ملازم لاک ڈاؤن کے ایام کی چھٹی کی تنخواہ کا ضرور مستحق ہے، ہاں اگر مدرس کی رضا سے تدریسی معاملہ کو فسخ کر لیا جائے؛ تو اب مدرس  فسخ کے بعد آنے والے ایام کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا، البتہ فسخ کی صورت میں اس بات کا لحاظ کیا جائے کہ جب پڑھائی باضابطہ طور سے شروع ہوجائے؛ تو جس سے معاملہ فسخ کیا گیا ہے اس کی دوبارہ تقرری کرلی جائے، و اللہ تعالی أعلم۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــه
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳؍ ذی القعدۃ ۱۴۴۱ھ

7 comments:

  1. ماشاء اللہ
    اللہ آپ کی کاوش کو قبول فرمائے

    ReplyDelete
  2. ماشاءاللہ
    بارک اللہ تعالیٰ فیک

    ReplyDelete
  3. آمین ثم آمین
    جزاکم اللّہ خیرا کثیرا

    ReplyDelete
  4. ماشاء اللہ عزوجل
    طریقئہ سلف کے عین مطابق اور دلائل شرعیہ سے مزین ہے

    ReplyDelete
  5. ماشاءاللہ عمدہ تحقیق اللھم زد فزد

    ReplyDelete
  6. ماشاءاللہ بہت خوب... اس طرح کے علمی اور تحقیقی مسائل وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔
    جزاکم اللہ خیرا وکفاکم شرا. آمین

    ReplyDelete
  7. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    محترم قزن پر نظر ثانی فرمالیں سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ.نے دوسو درہم کو ۵۶ روپیہ لکھا ہے اور ایک روپیہ گیارہ گرام چھ سو چونسٹھ ملی گرام کا ہوتا ہے تو چھپن روپیہ ہوا چھ سو ترپن گرام ایک سو چورا سی ملی گرام


    یونہی بیس دینا کا وزن ہے ترانوے گرام تین سو بارہ ملی گرام کیونکہ ایک دینا کا وزن ہے چار گرام چھ سو پینسٹھ ملی گرام چھ سو میکرو ملی گرام

    ReplyDelete

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts