Tuesday, December 17, 2019

قبروں کے ڈھانے کا شرعی حکم


تقدیم

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
احادیث مبارکہ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ احادیث طیبہ کا ایک بڑا ذخیرہ دو ایسے مختلف الجہات معانی پر مشتمل ہے کہ ایک عام آدمی، مبتدی طالب علم بلکہ بسا اوقات منتہی طالب علم اور علما یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان احادیث کے درمیان تعارض ہے یعنی ایک حدیث ایک معنی بتاتی؛ تو دوسری حدیث بالکل اس ایک معنی کے مخالف معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے، اہل سنت و جماعت کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ یہ  لوگ حتی الامکان ان احادیث کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاکہ کسی حدیث کو رد کرنا لازم نہ آئے اور ان احادیث کو ایسے معانی پر محمول کرتے ہیں جن سے تعارض ختم ہوتا ہوا نظر آتا ہے مگر وہیں پر کچھ گروہ جیسے وہابیہ اور دیوبندیہ وغیرہ کے اکثر افراد ایسے بھی ہیں جو اپنی تنگ نظری، تشدد اور اپنے خاص موقف کے پیش نظر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان احادیث کے درمیان تطبیق کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے اور پھر اپنے موقف کی حدیث لیے پھرتے ہیں اور اس کے ظاہری مفہوم کی بنیاد پر قوم مسلم کو گمراہ یا غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہیں احادیث میں سے قبر کو اونچی بنانے اور اس کو ڈھانے کے متعلق وارد شدہ احادیث بھی ہیں، ان ناعاقبت اندیشوں نے اس موضوع سے متعلق ساری روایات کو نظر انداز کرکے صرف ایک ڈھانے والی روایت کو لیا اور کہنے لگے کہ ہر اونچی قبر کو زمین کے برابر کردیا جائے اور اس کے ذریعہ مسلم عوام کو بہکانے کی ناپاک کوشش کرنے لگے، لیکن اہل سنت و جماعت نے اپنے طرہ امتیاز کے پیش نظر ایسا نہیں کیا بلکہ احادیث و اقوال علما کی روشنی میں ایسی صورتیں پیش کیں جن   سے اس موضوع کی تمام احادیث پر عمل ہوگیا اور کسی کو رد کرنا لازم نہیں آیا؛ اس لیے اہل سنت و جماعت پر لازم ہے کہ اس طرح کا کوئی مسئلہ در پیش ہو؛ تو وہ خود فیصلہ کرنے کے بجائے علماے اہل سنت کی طرف رجوع کریں؛ تاکہ مسئلہ کی صحیح نوعیت معلوم کرکے اپنے آپ کو غلط روی سے محفوظ رکھ سکیں، میں یہاں زیر بحث موضوع پر  اختصار کے ساتھ روشنی ڈال دیتا ہوں؛ تاکہ کتاب کو پڑھنے اور اس کو سمجھنے میں مزید آسانی و سہولت پیدا ہوجائے، و ما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ أنیب۔
 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف احادیث میں امت مسلمہ کو حکم دیا کہ قبروں کی زیارت کرو اور ان کی اہانت سے بچو، ظاہر سی بات ہے ایک انسان قبر کی زیارت اسی وقت کرسکے ہوگا جب اس کا کوئی ظاہری وجود ہو، اسی طرح قبر کی اہانت سے اسی وقت بچ سکتا ہے جب وہ قبر ظاہر میں نظر آئے، لیکن اگر ان کو زمین کے برابر کردیا جائے؛ تو ایک انسان ان کی زیارت نہیں کرسکے گا اور نہ ہی ان کی اہانت سے بچ سکے گا، کہیں ان کو پاؤں سے روندتا نظر آئے گا؛ تو کہیں ان پر بیٹھ کر ان کی اہانت کرتا ہوا دکھائی دے گا؛ کیوں کہ جو چیز نظر نہ آئے اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوبالکل واضح امر ہے، اسی طرح سے حدیث میں وارد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابی رضی اللہ عنہ کی قبر پر بہت بڑے پتھر سے نشان لگایا، اگر مقصود برابر کرکے قبر کے نشان کو مٹانا ہی ہوتا؛ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبر پر بہت بڑے پتھر سے نشان نہیں لگاتے، نیز خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی موجود گی میں ایک بالشت اونچی بنائی گئی، اگر بلا تفریق ہر اونچی قبر کو ڈھانے اور زمین کے برابر کرنے کا حکم ہوتا؛ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کو ایک بالشت اونچی ہرگز نہیں بناتے؛ اس لیے پتہ چلا کہ جس حدیث میں قبر زمین کے برابر کرنے کا حکم ہے وہ اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں۔
قبر کو برابر کرنے یا ڈھانے سے متعلق دو طرح کی احادیث ملتی ہیں، ایک وہ احادیث جن میں مسلم کی قبر برابر کرنے کا حکم مذکور ہے، اس کی توجیہ علماے کرام نے یہ پیش کی ہے:
جن احادیث میں قبر مسلم کے برابر کرنے کا ذکر ہے، اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ قبر کو بالکل زمیں بوس کرکے نام و نشان ختم کردیا جائے بلکہ  اس سے مراد، اس قبر کو اس کے اردگرد والی قبروں کے برابر کرنا  یا اسے دوسری شرعی حدود کے مطابق بنی قبروں کے مطابق برابر کرنا ہے۔
            اور دوسری وہ احادیث جن میں مطلقا قبر کے برابر کرنے حکم ذکر کیا گیا ہے، ان احادیث کی علماے کرام نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں، اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) ان احادیث میں قبر کے برابر کرنے کا جو حکم مذکور ہے، اس سے مسلم کی قبر مراد نہیں بلکہ کفار و مشرکین کی قبر مراد ہے، جن کی قبر کو اکھیڑنا جائز ہے۔
(۲) ان احادیث سے وہ قبر مراد ہے، جس پر تصویر و مجسمہ ہوا کرتے تھے، اور یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مسلم کی قبر پر تصویر و مجسمہ نہیں رکھا جاتا تھا، البتہ عیسائی اس کا اہتمام کرتے تھے اور اپنی قبروں پر تصویر و مجسمہ رکھتے تھے؛ تو حدیث میں جو حکم مذکور ہے وہ انہیں جیسی قبروں سے متعلق ہے۔
(۳) ان احادیث میں مذکور حکم مسلم کی قبر سے متعلق نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ ان کی قبر سے متعلق سنت تو یہ ہے کہ انہیں ایک بالشت یا ایک ہاتھ بلند بنایا کیا جائے؛ اس لیے ان احادیث میں مذکور حکم قبر مسلم سے متعلق نہیں ہوسکتا۔
(۴)  ان احادیث میں جو حکم وارد ہے، اس سے خاص قبر پر بنی ہوئی عمارت والی قبر مراد ہے، نہ کہ وہ قبر جسے کنکری یا مٹی وغیرہ سے بلند کیا گیا ہو۔
مندرجہ بالا تمام باتیں قارئین کرام کو ان شاء اللہ اس کتاب میں دلائل و براہین سے مزین ملیں گی، اسی طرح قبر پر عمارت بنانے کی وضاحت، خلاف سنت قبر کا حکم اور قبر کوہان نما ہوگی یا چوکور وغیرہ، ان ساری باتوں کا بیان اس کتاب میں دلائل اور توضیح و توجیہ کے ساتھ تفصیل سے ملے گا۔
مرکز تربیت افتا کے ایک ہونہار طالب علم مولانا غلام احمد رضوی مصباحی زید علمہ نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے، الحمد للہ مولانا سلمہ محنتی ہونے کے ساتھ صوم و صلاۃ وغیرہ کے بھی پابند ہیں، مولانا سلمہ کی یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد ہے اور انداز بیان عمدہ ہونے  کے ساتھ ساتھ، کتاب دلائل و براہین سے بھی مزین ہے۔
مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے اور دیگر ذمہ داران ادارہ بلکہ ادارہ سے ہر محبت کرنے والے کو بھی خوش ہونا چاہیے کہ مرکز تربیت افتا کے بعض طلبہ ایک دو سال سے فتوی نویسی جیسی اہم ذمہ داری کے ساتھ تصنیف و تالیف جیسے اہم امر کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں جو یقینا امت مسلمہ کے حق میں ایک خوش آئند اقدام کی صورت میں سامنے آرہا ہے، اگر مولانا سلمہ صوم و صلاۃ وغیرہ کی پابندی کے ساتھ یوں ہی اہل زمانہ کی ریشہ دوانیوں کو پس پشت ڈال کر کد و کاوش کرتے رہے؛ تو ان شاء اللہ ایک اچھے مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے و عمدہ مصنف بھی ہوں گے، اللہ تعالی مولانا سلمہ کی یہ اہم کاوش قبول فرمائے، اس تالیف کو مقبول عام خاص کرے اور اسے مولانا سلمہ، ہمارے اور دیگر احباب کے لیے ذریعہ نجات بنائے اور مرکز تربیت افتا کے دیگر طلبہ کو بھی خلوص کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
دعا گو و دعا جو:
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138

ماں چالیس احادیث کے آئینہ میں


تقدیم

أحمد اللہ علی نعمہ بجمیع محامدہ، و أثني علیہ بآلائہ فی بادیٔ الأمر و عائدہ، و أشکرہ علی منحہ نعمۃ الأم و الأب و توصیتہ بہما قائلا:{وَ وَصَّیْنَا الِانْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ} و أشہد أن لا الہ إلا اللہ و أن محمدا عبد ہ و رسولہ القائل : ((من أحبّ أن یُمَدَّ لہ فی عُمْرہ و أن یُزاد لہ فی رزقہ فلْیَبَرَّ والدیہِ و لْیَصِل رَحِمَہ)) و أصلي و أسلم علی رسولہ سید الخلق، وہادي سبیل الحق و ماہدہ و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔
أما بعد:
اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر و احسان کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ} کا تاج پہنایا، مزید وجہ تخلیق کائنات امام الانبیا خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا امتی بناکر احسان عظیم فرمایا، اور اپنے پیارے محبوب کی اتباع کو اپنی رضاکا سبب بتاکر ارشاد فرمایا:{لَقَدْ کان لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ اُسْــوَۃ حَسَنَۃ} لہٰذا زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عبادات کا ہو یا معاملات کانبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہمارے لئے نمونہ حیات و ضابطہ حیات ہے، قرآن کریم نے {اِنَّکَ لَعَلی خُلْق عَظِیم} فرماکر آپ کی ذات مقدسہ کے کامل و اکمل ہونے پر مہر ثبت فرمادی، صاحب خلق عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ نہ چھوڑا، انہیں گوشوں میںایک گوشہ عام صلہ رحمی کا بھی ہے،مگر افسوس کہ آج کے دور میں صلہ رحمی کیا چیزہے مسلمان اپنی کوتاہی کی وجہ سے بھول چکا ہے ،رشتہ داروں کے کیا حقوق ہیں وہ اس سے چشم پوشی کرنے لگا ہے، حالانکہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کافر مان عالی شان ہے،اگر تم سے کوئی رشتہ توڑے تو تم اس سے رشتہ جوڑو،کیونکہ کمال اسی میں ہے، ورنہ جوڑنے والے کو توکوئی بھی جوڑتا نظر آتا ہے، کوئی تو ہو جو توڑنے والے کو جوڑے ،یہ چیز ہمارے درمیان معدوم ہو چکی ہے، افسوس اس وقت اور زیادہ ہوتا ہے جب علما اور طلبہ اس بلا میں گرفتار نظر آتے ہیں اور بغیر کسی شرعی وجہ کے اپنے لوگوں سے ناتاتوڑلیا کرتے ہیں۔
 اسی طرح صلہ رحمی کا ایک خاص گوشہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بھی ہے،وہ ماں جس کے شکم مبارک سے پوری کائنات عالم وجود میں آئی ،وہ ماں جس کی دریادلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے ایک کھجوردی جاتی ہے،توآدھا آدھا تقسیم کرکے اپنی بیٹوںکو دیدیا کرتی ہے ،وہ ماںجو اپنے سپوتوں کو اپنے شکم میں مہینوں محفوظ رکھتی ہے، جس کے لئے اسے پل پل دردوالم کا احساس ہوتا ہے،مگر جب وہ سپوت عالم وجودمیں آتا ہے، تو وہ ماں اسے زدوکوب کرنے کے بجائے بوسہ لیتی ہوئی نظرآتی ہے، بچپن سے لے کر ہوش وہو اس آنے تک اس کے تمام نازو نخرے برداشت کرتی ہے، بلکہ اپنی پوری حیات اپنے سپوتوںپرنچھاور کر نے کے لئے تیار رہتی ہے، یہ ماں کی ممتا ہے جس کے ممتاکی کوئی مثال نہیں، اور یہی وہ ماں ہے جس کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
 ((جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے))(سنن النسائی)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی رضائی ماں دائی حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں عجز و انکساری اور ادب و تواضع کا پیکر عظیم بن کر ماں کی عزت و عظمت دنیا کو دکھائی، اور امت کو صلہ رحمی کا بے مثال عملی نمونہ پیش کیا۔
مگر زمانہ کی ستم ظریفی کہیے کہ بعض سپوت بلکہ دور حاضر کے اکثر سپوت اس کا صلہ عجیب و غریب دیتے ہیں ،جو ان ہوتے ہی ماں کی ممتابھولتے نظر آتے ہیں ، اور سپوت کی زوجہ محترمہ کا جب ورود مسعود ہوتا ہے تو سپوت کو بیوی ہی کے سارے حقوق نظر آتے ہیں ،اور ماں کے سارے حقوق پس پشت ڈالتا ہو ادکھائی دیتا ہے ، حالا نکہ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ سارے لوگوں کے حقوق پر ماں کے حقوق مقدم ہیں ،حدیث شریف میں ہے:
حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں:میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو آپ کو فرماتے ہوئے سنا:(( ماں، باپ، بہن اور بھائی کے ساتھ بھلائی کرو، پھر جو سب سے قریب ہو اس کے ساتھ بھلائی کرو)) (المستدرک)
آج کی اولاد اپنی ماں کی برائی کرکے ان کو تکلیف یہو نچانے کا باعث بنتا ہے، بلکہ کبھی کھبی ایسا ہو تا ہے کہ ایذارسانی کے ہر حربے استعمال کر تا ہوا نظرآتا ہے ، حالانکہ اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے : {وقَضَی رَبُّک أَ لَّا تَعْبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ و بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَا اَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا اُفٍّ وَلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَھُمَا قَوْلًا کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ ارَّبِّ رْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً} (سورئہ بنی اسرائیل:۱۷؍۲۳-۲۴)
ترجمہ:((اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا، اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے، اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا)) (کنزالایمان)
اگر ماں کی کوئی بات اولاد کے مزاج کے خلاف آجائے، اگر چہ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو، اولاد بھڑک اٹھتی ہے،اور پھر اس کے مداوا کی بھی زحمت نہیں کرتی ، حالانکہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک صحابی کو جو ماں کورلاکرجہاد میں شریک ہونے آئے تھے ، انہیں واپسی کا حکم دیتے ہیں، تاکہ ان کی ماں خند یدہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((تم فورا اپنے والدین کے پاس جائو، جیسے تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ))(شعب الایمان)
سپوت اپنی بیوی کو مہینہ میں ہزار وں روپئے دینے میں تامل نہیں کرتا، لیکن اگر اپنی ماں کو مہینہ میں چند سودینے کی بات آجائے تواس کا حساب لگانے لگتا ہے، سوچتا ہے ماں روپئے لے کرکیا کریں گی ، پتہ نہیں کہاں خرچ کر دیں گی ، حالانکہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( تمہاری اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے ہبہ ہیں، اللہ تعالیٰ جسے چاہے لڑکی اور لڑکا عطا کرے، وہ اور ان کا مال جب تمہیں اس کی ضرورت ہو تمہارے لئے ہے))(المستدرک)
اولاد کو سوچنا چاہئے اگر ماں یہ سوچنے لگے کہ کل میرا بیٹا میرے ساتھ پتہ نہیں کیا سلوک کرے گا،اور اس سوچ کا اثر بھی دکھائے تو شاید بلکہ یقینا کبھی اولادکا اس دنیا میں وجود نہ ہوسکے گا۔
ماں کے ساتھ اس طرح سے پیش آنا، ان کی نافرمانی کرنا ہے، اس میں ان کی دل آزاری ہے جو ناجائز وحرام ہے، ایسے شخص کے بارے میں آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
            ((وہ شخص ملعون ہے جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی )) (المعجم الاوسط)
سپوتو! آنکھیں کھولو دنیا داری سے باہر آجاؤ، بیوی کے پلو سے چپک کر چلنا چھوڑدو،صرف غیروں کے دماغ سے ایسے برتاؤ ماں کے ساتھ پیش مت کرو ،بلکہ اپنے ذہن وفکر کو جھنجھوڑو اور سوچنے کی کوشش کرو، تمہاری ماؤں کے تم پر کیا حقوق ہیں، ماں کے تم پر بہت قربانیاں ہیں، اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو تمہیں حکم کرتا: تم ان کی قربانیوں کے بدلے ان کے حقوق ادا کرو، اور اس کے بدلے میں تمہیں کچھ نہیں ملتا، مگر خدائے تعالیٰ بندوں پر بہت مہربان کرم والا ہے، بندو آؤ آؤ ماں کے قدموں سے لپٹ جاؤ تمہیں ہمیشہ ہمیش کیلئے جنت ملے گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیں ، حدیث شریف میں ہے:
حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہما سے مروی، آپ کے والد جاہمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوئے اور عرض کیا:میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑائی کرنا چاہتا ہوں، اس سلسلہ میں مشورہ کی غرض سے آپ کی بارگا میں حاضر ہوا،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کیا تمہاری ماں زندہ ہیں؟)) اس شخص نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:((خلوص کے ساتھ انہیں کی خدمت کرتے رہو، ان کے قدموں کے نیچے ہی تمہاری جنت ہے)) (سنن النسائی)
یقیناماں کی کتنی بھی خدمت کی جائے کم ہے، ان کا حق کسی بھی صورت میں ادا نہیں کیا جاسکتا، ماں کا رتبہ بہت ہی بلند وبالا اور بیان سے برترہے،اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ جل شانہ آپ کے محترم ہونے کا فیصلہ سناتا ہے، ایسا کیوں نہ ہو جب کہ حضونبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماں کی خدمت کے ثمرات اور فوائد بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر ماں جیسی عظمی شخصیت کو بھی چاہئے کہ اپنے بچوں پر رحم وکرم کے پھول برسائے، اور انہیں ان چیز کا حکم دے جسے وہ آسانی سے بجا لائیں،اور اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح سے اولاد ان کی نافرمانی کے شکار نہ ہوں،جس کی وجہ سے ان کی عافیت خطرے میں پڑجائے، بلکہ ماں کو اپنے بچوں کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے،کیونکہ کوئی ماں اپنے اولاد کی عاقبت خراب ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی،اس لئے اولاد کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ ماں ان کی وسعت کے مطابق ہی ان کی خدمت کی طلبگار رہے۔
یاد رہے ماں کے حقوق وہیں تک ہیں جہاں تک شریعت کی خلاف ورزی لازم نہ آئے، کیوں کہ شریعت کی خلاف ورزی کی صورت میں ماں کا حکم قابل قبول نہ ہوگا،اگر کوئی ماں شریعت کے خلاف کرنے کا حکم دیتی ہے، تو ان کی اولاد پر واجب ہے کہ انہیں جھٹرکنے بجائے نرمی سے سمجھائیں،اور انہیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنائیں ، آپ فرماتے ہیں :
(( اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)) (مسند احمد بن حنبل) اور شرعی حکم اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے اس لئے اس کی مخالفت میں ماں کا حکم بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
حالات زمانہ نے مجھے کچھ بتایا اور کچھ سکھایاجس کی وجہ سے ماں کے تعلق سے یہ چالیس احادیث کامجموعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ میری اس پہلی ادنی سی کاوش کو قبول فرمائے، آمین۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ اس مجموعہ احادیث کو پڑھتے وقت اللہ جل شانہ کو سمیع و بصیر مان کرصدق دل سے سوچیں، کیا وہ اپنی ماں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ملتا ہے تو یقینا آپ کا چہرہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارتوں سے کھل اٹھے گا،اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ ان بشارتوں کے حصول میں مزید کوشاں ہوجائیں گے، اور اگر جواب نہیں میں ملتا ہے تو آپ سے امید ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان عالی شان سے عبرت حاصل کریں گے، اور تائب ہوکر اپنی ماں کے حقوق ادا کرنے میں مشغول ہوکر دنیا وآخرت سنوارنے میں لگ جائیں گے۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے پاس ماں ہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مجھے اور تمام مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ طفیل میں ماں کے حقوق کو صحیح طریقہ سے ادا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
شکر و تقدیر
سب سے پہلے میں اپنے برادر بزرگوارکرم فرماں حضرت مولانا انوار احمد امجدی قادری دام ظلہ سربراہ اعلی مدرسہ امجدیہ اہل سنت ارشد العلوم اوجھا گنج بستی کا بے حد شاکر و ممنون ہوں جنہوں نے میرے تعلیمی سفر کی تکمیل میں ایک اہم رہبر کی حیثیت سے مکمل سرپرستی فرمائی،اور میں اپنے برادر محترم حضرت مولانا ابرار احمد امجدی مدظلہ مفتی وناظم مدرسہ امجدیہ اہل سنت ارشدالعلوم کا بھی شگرگزار ہوں کہ جن کی کرم نوازی میرے تعلیمی سفر میں ہر جگہ ساتھ رہی، اللہ ان سب کو اجر جزیل عطا فرمائے، آمین۔
نیز میں اپنے مشفق، کرم نواز، استاذ محترم، محقق مسائل جدیدہ، سراج الفقہا، مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی مد ظلہ العالی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارکپور کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری اس کوشش کو سراہا، اور اپنی مبارک تقریظ لکھ کر اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو دوبالا کردیا، اور بڑی تنگ نظری ہوگی اگرمیں نبیرئہ فقیہ ملت مفتی رضاء المصطفی برکاتی مصباحی سلمہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہ کروں، جنہوں نے اس پورے کتابچہ کو محقق مسائل جدیدہ دام ظلہ العالی کو پڑھ کرسنایا، محقق مسائل جدیدہ مد ظلہ العالی نے سماعت کے درمیان بعض اصلاحات فرمائی جس کی وجہ سے احادیث کے ترجمہ میں مزید نکھار پیدا ہوگیا، نیز مکرمی ومحبی مولانا زبیر حسین نظامی مصباحی ازہری کے والد ماجد محمد حسین نظامی حفظہما اللہ تعالیٰ قابل صدر ستائش ہیں جنہوں نے مالی تعاون پیش کرکے اس کتابچہ کو منظر عام پر لانے کی اہم ذمہ داری نبھائی ، رب قدیر اس پر خلوص عمل کے بدلے ان کو دارین میں سرخ روئی عطا فرمائے ، نیز اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ مزید انہیں اور دیگر اہل ثروت حضرات کو اسی طرح دینی کتابوں کی نشرواشاعت ، جو دور حاضر کا اہم ترین تقاضا ہے۔ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
            اخیراً اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے تمام مخلصین و محبین کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر، اور دین متین کی اخلاص کے ساتھ زیادہ سے خدمت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، اور آپسی ذاتی اختلافات سے محفوظ رکھے، نیز اس کتابچہ کو عامۃ المسلین کے درمیان درجہ قبولیت عطا فرماکر اتباع حق کی توفیق دے، نیز میرے اور میرے والدین کریمین، اساتذہ ، بھائی ان کی زوجہ، بہن ان کے شوہر،اور دیگر اعزا و اقرباکے لئے آخرت میںذریعہ نجات بنائے، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138

تارک نماز و جماعت سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عدالت میں



الحمد اللّٰہ رب العالمین الذی دعا عبادہ المسلمین بعد الایمان بہ الی اقامۃ الصلوۃ أفضل العبادات، بقولہ:{وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ}و أشہد أن لا الہ إلا اللّٰہ، و أشھد  أن سیدنا محمدا عبد ہ و رسولہ، القائل :((لا سھم فی الإسلام لمن لا صلوۃ لہ، و لا صلوۃ لمن لا وضوء لہ)) و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، و علی آلہ و صحبہ و من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
أما بعد:
اللہ تبارک و تعالی نے دنیائے انسانیت کو پیدا فرمایا، پھر اسے اس بات کی تلقین فرمائی کہ وہ اس کی ذات والا صفات ہی کی عبادت کرے، کیونکہ اللہ جل شانہ نے انسان و جن کو صرف اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا فرمایا ہے، ارشاد فرماتا ہے: ((وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الِانْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ)) (الذاریات:۵۱، آیت:۵۶) ترجمہ: ((اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں))(کنز الایمان) ایمان کی تلقین کرنے کے بعد اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر مسلمانوں کو متعدد عبادات کا مکلف بنایا، ان عبادات میں سب سے اہم اور عظیم عبادت نماز ہے، پانچ وقت کی نماز ہر عاقل و بالغ انسان پر فرض ہے، اللہ جل شانہ اسی فرضیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:{وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ وَ اٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ} (البقرۃ:۲؍آیت:۴۳) ترجمہ: ((اور نماز قائم رکھو، اور زکاۃ دو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو)) (کنز الایمان) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: {وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھارِ وَ زُلُفًا مِنَ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذّٰکِرِیْنَ} (ھود: ۱۱؍آیت:۱۱۴) ترجمہ: ((اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں، اور کچھ رات کے  حصوں میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو)) (کنز الایمان)
اسی عظیم فرضیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(( من تطھر فی بیتہ ثم مشی الی بیت من بیوت اللہ لیقضی فریضۃ من فرائض اللہ کانت خطواتہ احداھا تحط خطیئۃ و الأخری ترفع درجۃ))ترجمہ: ((جو شخص اپنے گھر میں طہارت حاصل کرکے فرض ادا کرنے کے لئے مسجد میں جاتا ہے، تو ایک قدم پر ایک گناہ محو ہوتا ہے، دوسرے پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے))(صحیح مسلم؍ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ)
نماز اور ہماری زبوں حالی
اس امر میں کسی صاحب ایمان کا اختلاف نہیں کہ پانچ وقت کی نماز ہر عاقل و بالغ مسلمان مردو عورت پر فرض، اور ان کی ادائیگی ان کے اوقات میں ضروری ہے، مگر ہمارے بہت سے علما و مقتدایان اسلام،طالبان علوم نبویہ اور عام مسلمان اس فرضیت سے بے اعتنائی برتتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
 علما و طلبہ: بہت سارے علما، مقتدایان اسلام، اور طلبہ ایسے ہیں کہ انہیں دیکھ کر دل جھوم اٹھتا ہے، بغیر کسی کو حقارت کی نظر سے دیکھے فرائض و واجبات نماز کاسختی سے التزام کرتے ہیں، حقیقت میں یہی مقتدیٰ ہیں،یہی پیروی کئے جانے کے قابل ہیں، اور یہی اہل سنت و جماعت کے صحیح نمائندہ ہیں؛ مگربہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ بعض خواص و طلبہ ایسے ہیں جو نماز جمعہ تک نہیں پڑھتے، اور بعض جمعہ تو پڑھ لیتے ہیں مگر انہیں پانچ وقت نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی،اور اکثر ان میں سے نماز تو پڑھتے ہیں؛ مگر ان میں التزام نہیں پایا جاتا، کبھی پڑھی، اور کبھی بلاعذر شرعی چھوڑدیا،بلکہ بعض کی حالت نا گفتہ بہ ہے، نہ انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ نماز کا وقت کب شروع ہورہا ہے، کب ختم ہورہا ہے، نماز کے لئے اذان ہوتی ہے تو کان پر جوں تک نہیں رینگتی،اکثر عوام کی طرح صرف کھانے، پینے، روپئے حاصل کرنے میں مگن ہیں، ایسے لوگ مقتدیٰ کہلانے کے لائق نہیں، چہ جائے کہ وہ پیری مریدی کریں، اور اپنے آپ کو شریعت کا ٹھیکے دار سمجھیں!
عوام: الحمد للہ عوام میں سے بھی بعض لوگ بہت ہی پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، اور یقینا ایسے لوگ قابل مبارکباد ہیں کہ ان کی دنیاوی مصروفیات انہیں اس عمل خیر اور اہم فریضہ کے ادا کرنے سے مانع نہیں ہوتی؛ مگر افسوس کہ بہت ساری عوام جمعہ کی بھی نماز نہیں پڑھتی !اوراکثر عوام صرف جمعہ کی نماز پڑھنے پر اکتفا کرتی ہے، اور پانچوں وقت کی نماز کا ان کے ذہن میں خیال تک نہیں آتا! عوام میں بعض لوگ نماز تو پڑھتے ہیں؛ مگر ان کے اندر انتہائی درجہ کی تساہلی پائی جاتی ہے، ایک دو وقت کی نماز پڑھی، اور بقیہ نہیں پڑھی! یہ تو حال ہے ہماری عوام کا!آج کہا جاتا ہے کہ ہم دینی، ملی، اقتصادی، اخلاقی بلکہ ہر جہت سے پریشان ہیں، اکثر عوام، اور بہت سارے خواص اور مقتدایان اہل سنت وجماعت کو اس طرح کا شکوہ و شکایت کرنے کا بالکل حق نہیں، کیونکہ اللہ کی طرف سے فرض کی گئی نعمت عظمی نماز سے پہلو تہی ہمارا کردار،روزہ سے بے اعتنائی ہماری عادت، حج کے فرض کی عدم ادائیگی ہمارا شیوہ، زکاۃ ادا نہ کرنا ہماری سرشت، جھوٹ فساد، اور الٹی سیدھی تاویل ہمارا طرئہ امتیاز، قول و عمل میں تضاد ہماری فطرت ثانیہ، غیبت اور چغلی ہماری روش، جن کی حالت اوامر و نواہی خداوندی کے متعلق یہ ہو، ان کا یہ کہنا: امت محمدیہ ہر چہار جانب سے زبوں حالی کا شکار ہے، مگر مچھ کے آنسوں کے سوا کچھ بھی نہیں!
فرض نماز چھوڑنے والے کا حکم
            حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، آپ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
            ((جس نے عمدا نماز چھوڑی، اللہ اس کے عمل برباد کردے گا، اور اللہ اس شخص سے بری الذمہ ہوگا یہاں تک کہ اللہ عز وجل کی طرف رجوع کرکے توبہ کرے)) (الترغیب والترھیب، بحوالہ اصبہانی)
نماز کو فرائض اعتقادیہ سے شمار کیا جاتا ہے، یہ ہر عاقل ، بالغ پر فرض عین ہے، قدرت کے باوجود بلا عذر شرعی نماز ایک بار بھی ترک کرنا جائز نہیں، جس نے ایک مرتبہ بھی قصدا فرض نماز چھوڑا وہ فاسق ،گنہ گار اور مستحق عذاب نار ہے، جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو اسے قید کرنے کا حکم ہے، یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز پڑھنے لگے!
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
(نماز فرائض اعتقادیہ میں سے ہے، اس کو بلا عذر صحیح شرعی ایک بار بھی قصدا چھوڑنے والا مرتکب کبیرہ مستحق عذاب نار ہے) (بہار شریعت)
حضور صدر الشریعہ، بدر الطریقہ رحمہ نور اللہ مرقدہ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
ہر مکلف یعنی عاقل بالغ پر نماز فرض عین ہے، اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے، اور جو قصدا چھوڑے اگرچہ ایک ہی وقت کی، وہ فاسق ہے، اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے، یہاں تک کہ توبہ کرے، اور نماز پڑھنے لگے، بلکہ ائمہ ثلاثہ مالک، و شافعی و احمد رضی اللہ عنہم کے نزدیک سلطان اسلام کو اس کے قتل کا حکم ہے(بہار شریعت؍در مختار)
اللہ اکبر کبیرہ! یہ حکم صرف ایک بار قصدا نماز چھوڑنے والے کا ہے، جو لوگ نماز یںچھوڑتے ہیں ؛بلکہ پڑھتے ہی نہیں، ان کا کیا حال ہوگا؟!نماز نہ پڑھنے والے ذرا غور کریں۔
نیز حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
            (بلاعذر شرعی نماز قضا کردینا بہت سخت گناہ ہے، اس پر فرض ہے کہ اس کی قضا پڑھے اور سچے دل سے توبہ کرے، توبہ یا حج مقبول سے گناہ تاخیر معاف ہوجائے گا) (بہار شریعت؍در مختار)
اور توبہ اسی وقت صحیح ہے جبکہ قضا پڑھ لے، بغیر قضا پڑھے توبہ قبول نہیں، حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
(توبہ جب ہی صحیح ہے کہ قضا پڑھ لے، اس کو توادا نہ کرے، توبہ کہے جائے، یہ توبہ نہیں کہ وہ نماز جو اس کے ذمہ تھی اس کا نہ پڑھنا تو اب بھی باقی ہے، اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ کہاں ہوئی) (بہار شریعت؍رد المحتار)
نماز کب معاف ہے؟!
ہر مسلم عاقل و بالغ پر جس طرح بھی ممکن ہو، کھڑے ہوکر، اگر کھڑے ہونے پر قدرت نہیں تو بیٹھ کر، اور بیٹھنے پر قدرت نہیں تو لیٹ کرسر کے اشارہ سے پڑھنا ضروری ہے، اگر سرکے اشارہ سے بھی نہیں پڑھ سکتا تو اس حالت میں اس سے  نماز ساقط ہے، حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:
(اگر سر سے اشارہ بھی نہ کرسکے تو نماز ساقط ہے، اس کی ضرورت نہیں کہ آنکھ یا بھوں یا دل کے اشارہ سے پڑھے، پھر اگر ۶ وقت اسی حالت میں گزر گئے تو ان کی قضا بھی ساقط، فدیہ کی بھی حاجت نہیں، ورنہ بعد صحت ان نمازوں کی قضا لازم ہے، اگرچہ اتنی ہی صحت ہو کہ سرکے اشارہ سے پڑھ سکے (بہار شریعت؍در مختار)
آج امت محمدیہ کی زبوں حالی پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، عوام تو عوام بعض علمائے کرام کو تھوڑا بخار ہوگیا، ذرا سی سردی ہوگئی تو جماعت تو جماعت نماز ہی چھوڑبیٹھتے ہیں! کوئی مسلم جب بیمار ہوتا ہے تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں، ایسے لوگوں کا جتنا گناہ جھڑتا نہیں ، اس سے کہیں زیادہ نماز چھوڑکر اپنی جان کے لئے وبال کا سامان مہیا کرلیتے ہیں، اللہ تعالی ہمیں اور تمام اہل سنت و جماعت کے لوگوں کو ہدایت دے، آمین۔
جماعت ترک کرنے والے کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((اگر گھر میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو عشا کی نماز قائم کرتا، اور جوانوں کو حکم دیتا کہ جو کچھ گھروں میں ہے آگ سے جلادیں))
(نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے، اس کا ایک بار بھی قصدا چھوڑنا گناہ صغیرہ، اور چند بار ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے(بہارشریعت) اور گناہ کبیرہ کا مرتکب مستحق عذاب نار ہے، جماعت کو چند بار چھوڑنے والے اپنا جائزہ لیں، اور اصلاح کریں۔
ترک جماعت کے اعذار
(۱) مریض جسے مسجد تک جانے میں مشقت ہو (۲) اپاہج (۳) جس کا پاؤں کٹ گیا ہو(۴) جس پر فالج گرا ہو (۵) اتنا بوڑھا ہو کہ مسجد تک جانے سے عاجز ہو (۶) اندھا اگرچہ اندھے کے لئے کوئی ایسا ہو جو ہاتھ پکڑکر مسجد تک پہونچادے (۷) سخت بارش اور شدید کیچڑ حائل ہونا (۸) سخت سردی (۹) سخت تاریکی (۱۰) آندھی (۱۱) مال یا کھانے کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو (۱۲) قرض خواہ کا خوف ہو اور یہ تنگ دست ہے (۱۳) ظالم کا خوف (۱۴) پاخانہ، پیشاب، ریاح کی حاجت شدید ہے (۱۵) کھانا حاضر ہے اور نفس کو اس کی خواہش ہے (۱۶) قافلہ چلے جانے کا اندیشہ ہے (۱۷) مریض کی تیمارداری کہ جماعت کے لیے جانے سے اس کو تکلیف ہوگی اور گھبرائے گا، یہ سب ترک جماعت کے لئے عذر ہیں (بہار شریعت؍در مختار)
یہ وہ حضرات ہیں جنہیں جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے، مگر دور حاضر میں ہماری عوام بلکہ بعض علما جو نماز پڑھتے تو ہیں؛ مگر ان کا بہت برا حال ہے، بلا وجہ سستی، کاہلی، اور محض لاپرواہی کی وجہ سے جماعت چھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، انہیں اپنے اس عمل سے جلد از جلد باز آنا چاہئے اور جماعت کا التزام کرنا چاہئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی ملے اور عذاب الہی سے محفوظ رہیں۔
نماز سنت مؤکدہ کے تارک کا حکم
نماز سنت مؤکدہ کو بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا مستحق ملامت، اور ترک کی عادت بنالے تو فاسق مردود الشہادہ، اور مستحق نار ہے، بعض ائمہ نے فرمایا: وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا، اور وہ گنہگار ہے، اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے، تلویح میںہے: اس کا ترک قریب حرام کے ہے، اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہوجائے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((جو میری سنت کو ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی)) (بہار شریعت)
سوکر نماز یا جماعت چھوڑنے کی عادت ڈالنا
بعض حضرات نمازیں پڑھنے ، اور جماعت میں شرکت کرنے کی کچھ حد تک کوشش کرتے ہیں، مگر سونے کی وجہ سے نماز و جماعت چھوڑنے کی عادت ڈال لیتے ہیں، اور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
تین لوگ احکام باری تعالی کے مکلف نہیں: (۱) سونے والا یہاں تک کہ بیدار ہوجائے(۲) بچہ، یہاں تک کہ بالغ ہوجائے (۳) اور پاگل یہاں تک کہ ہوش میں آجائے(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۴۴۰۳)
خدا نخواستہ اگر کبھی سونے کی وجہ سے نماز یا جماعت چھوٹ جائے تو یہ عذر ہوسکتا ہے، مگرعادتا ایسا کرنے والے کا اس حدیث کو حجت بنانا باطل اور غلط ہے، بلکہ حکم ہے کہ اگر تاخیر سے سونے میں نماز کے وقت نیند نہ کھلنے کا ظن غالب ہو تو سوئے ہی نہیں، اور نماز پڑھنے کے بعد بستر استراحت پر جائے، اللہ ہمیں اور سبھی حضرات کو وقت پر نماز با جماعت پڑھنے کا خوگر بنائے، آمین۔
جرم بالائے جرم
آج ہماری عوام نماز جیسے اہم فریضہ سے اس قدر غافل، اور اس کے چھوڑنے کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ نماز کس صورت میں معاف ہے، اور کس صورت میں نہیں، یہی وجہ کہ جب ان سے نماز پڑھنے کے لئے کہا جائے؛ تو بے جا عذر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں؛ جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں، ایک تو نماز نہ پڑھنے کا جرم، اوپر سے بے جا عذر پیش کرکے جرم عظیم کا ارتکاب ! ایسے ہی شخص کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
(عذرہ أشد من جرمہ) ترجمہ: اس کا عذر اس کے جرم سے زیادہ شدید ہے، اور شاعر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہتا ہے:
و کم من مذنب لما أتی باعتذارہ
جنی عذرہ ذنبا من الذنب  أعظما
ترجمہ:
اور کتنے ایسے گنہگار ہیں، جب وہ اپنے گناہ کا عذر پیش کرتے ہیں، تو ان کا یہ عذر اس گناہ سے بڑھکر گناہ کو وجود بخشتا ہے!
ایک مسلم بھائی سے میںنے نماز پڑھنے کے لئے کہا، انہوں نے کہا کہ میرے پیر میں تکلیف ہے، بیٹھنے میں پریشانی ہوتی ہے، میں نے کہا، جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس حالت میں آپ کے لئے نماز معاف نہیں، مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے! پھر آئندہ جمعہ میں وہ نظر آئے، بہت خوشی ہوئی، البتہ یہ سوچ کر بے حد افسوس ہوتا رہا کہ یہ ہمارے سنی مسلم بھائی جمعہ کی نماز اور دیگر پانچ وقت کی نمازوں میں کیوں تفریق کر تے ہیں، ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر وہ تکلیف کے باوجود نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں؛ تو دیگر پانچ وقت کی نمازیں کیوں نہیں پڑھ سکتے؟! اور بعض حضرات ایسے ہیں جو یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم کام میں مشغول رہتے ہیں، اور بعض مائیں کہتی ہیں کہ ہم بچوں کی پرورش میں مصروف ہونے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ پاتے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:{یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَا اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْخَاسِرُوْن} (سورئہ منافقون:۶۳؍آیت:۹) ترجمہ:(( اے ایمان والو تمہارا مال، نہ تمہاری اولاد، کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے، اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں)) (کنز الایمان) وہ مال کیسا اور وہ پرورش کس کام کی جو اپنے رب کے سامنے پانچ وقت نماز پڑھنے سے روکے؟! اللہ تعالی ہمیں، ہمارے علما، اور ہماری عوام کو سمجھ عطا فرمائے، اور بغیر عذر شرعی نماز چھوڑنے سے بچائے، آمین۔
قضا نماز پڑھنے کا طریقہ
جن مسلمان بھائیوں کے ذمہ نمازیں باقی ہیں، ان پر فرض ہے کہ دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ ذمہ میں باقی نمازوں کے لئے اوقات نکالیں، اور جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں، نیچے ذمہ میں باقی نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ بیان کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں:
جتنے دنوں کی نمازیں ذمہ میں باقی ہیں، اس کا حساب لگائے، اور اس بات کا خیال رہے کہ حساب لگانے میں نمازیں کم نہ ہوں اگرچہ زیادہ ہوجائیں، کیونکہ زیادتی مضر نہیں، ہاں اگر کم ہے تو ضرور باعث ضرر ہے، مثلا اگر پچاس دن کی نمازیں قضا ہیں؛ تو اس کا حساب لگالے، پچاس دن کی کل نمازیں ۲۵۰ ہونگی، اب ان کی قضا پڑھنے کے وقت یوں نیت کرے: مثلا نیت کی میں نے پہلی تین رکعت نماز مغرب فرض قضا کی، واسطے اللہ تعالی کے، منھ میرا کعبہ شریف کی طرف، اللہ اکبر، اسی طرح عشا، وتر، اورفجر وغیرہ میں نیت کرے، یا یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ پہلے نماز مغرب کی پچاس نمازیں پڑھے، پھر عشا اور وتر وغیرہ پڑھ لے، اور ہر نماز میں ’پہلی‘ کی نیت یا زبان سے ضرور کہے، کیونکہ ایک قضا نمازپڑھنے کے بعد دوسری نماز، پڑھنے والے کے حق میں پہلی ہی ہے، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو نماز جیسے اہم فریضہ سے جلد از جلد سبکدوش ہونے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔
مسلک اعلی حضرت
آج ہم اور آپ مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت و جماعت کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر ہمارے اور آپ کے قول و عمل میں بہت تضاد ہے،مسلک اعلی حضرت یہ نہیں ہے کہ آپ فرض و واجب نماز چھوڑنے کے خوگر ہوجاؤ، مسلک اعلی حضرت یہ نہیں ہے کہ آپ جماعت چھوڑنے کے عادی ہوجاؤ، مسلک اعلی حضرت یہ نہیں ہے کہ آپ سنت مؤکدہ چھوڑنے کے درپے رہو ، بلکہ قدرت کے باوجود کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑنا یہ مسلک اعلی حضرت ہے، بیماری کی حالت میں کرسی پر بیٹھ کر مسجد میں با جماعت نماز پڑھنے کے لئے حاضر ہونا یہ مسلک اعلی حضرت ہے۔ اے مسلک اعلی حضرت کا نعرہ لگانے والے سنی مسلمانو! اپنے قول و عمل میں یکسانیت پیدا کرو، اور عملی طور سے بھی مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت و جماعت سے لپٹ جاؤ، عمل ہی مسلک اعلی حضرت کی صحیح نمائندگی ہے، بغیر اس کے قول کاکوئی اعتبار نہیں!
اللہ تعالی ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
{یَا اَیَّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ، کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ}  سورئہ صف:۶۱؍آیت:۳) ترجمہ: ((اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ،کیسی سخت نا پسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہوجو نہ کرو)) (کنز الایمان)
اے بے نمازیو! ابھی بھی وقت ہے، ہوش کے ناخن لو، اللہ کی طرف توبہ کرکے رجوع لائو، جو قضا نمازیں ہیں انہیں جلد از جلد ادا کرو، اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کا التزام کرو، اور سنن و نوافل، اور دیگر حقوق اللہ و حقوق العباد کی حفاظت کرو، آپس میں صلح و مصالحت سے کام لو، کل تم برسر اقتدار رہوگے، تمہارے دینی، ملی، اقتصادی، اخلاقی بلکہ سارے مسائل حل ہوتے ہوئے نظر آئیں گے! کیا احکام خداوندی کو فروگزاشت کرکے کوئی شخص کامیابی حاصل کرسکتا ہے؟ ہر گز ہرگز نہیں! یاد رہے اصل کامیابی اخروی کامیابی ہی ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {وَ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (سورئہ نور:۲۴؍آیت:۳۱) ترجمہ: ((اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب، اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ)) (کنز الایمان)
حدیث شریف میں ہے: ((التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ)) (سنن ابن ماجہ) ترجمہ: ((گناہ سے توبہ کرنے والا اس کی طرح ہے جس کا کوئی گناہ ہی نہیں))
ہر کس و ناکس آج اہل سنت و جماعت کی نماز و جماعت کے متعلق انتہائی درجہ کی تساہلی سے پہلو تہی نہیں کرسکتا، اسی کے پیش نظر میں نے خاص کر فرض نماز ادا نہ کرنے ، اور جماعت میں شریک نہ ہونے والوں کے بارے میں یہ چالیس احادیث جمع کی ہے،امید قوی ہے کہ قارئین نصیحت پذیر ہونگے، اور بلاتاخیر با جماعت نماز پڑھنا شروع کردیں گے، اللہ جل شانہ کی بارگاہ عالی میں اس عاجز فقیر کی دعا ہے کہ وہ اس مختصر مگر بہت اہم کار خیر کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمائے، اور ہمیں اور اہل سنت و جماعت کے علما اور عام مسلمانوں کو شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ، اور وقت پر نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ و سلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138

ایں چہ بو العجبی است

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
تقلید ایک ایسی حقیقت ہے جس سے غیر مجتہد کے لیے سر مو انحراف کرنے کی گنجائش نہیں، اس کا اعتراف اہل سنت و جماعت قولا و عملا، دونوں کرتے ہیں اور وہابیہ اہل سنت کو الزام دیتے ہوئے قولا تو اس کا انکار کرتے ہیں مگر خود عملا تقلید کے سختی سے پابند نظر آتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ اہل سنت  جماعت علماے خیر القرون کی تقلید کرتے ہیں اور یہ اپنے زمانہ کے بدمذہب علماے سوء کی تقلید کرتے ہیں، اور عجیب بات ہے کہ وہابی غیر مقلدین عوام اپنے علما کی اتباع اندھ بھکتوں کی طرح کرتے ہے، مگر اس وقت ان کے علما کے قلم میں روشنائی خشک ہوجاتی ہے، ان کے منھ میں دہی جم جاتا ہے اور سارے حرام و شرک کا فتوی سرد خانہ میں چلا جاتا ہے مگر جب اہل سنت و جماعت کے تقلید کی بات آتی ہے؛ تو انہیں حرام و شرک کے فتوی سے مجروح کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہابی عوام تو عوام ان کے علما بھی اگلوں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اگر بخاری و مسلم وغیرہ نے اپنی اپنی صحیح کتاب میں حدیث ذکر  کردی؛ تو وہ صحیح ہی ہے، فلاں امام نے راوی کو ثقہ یا ضعیف کہ دیا تو وہ ثقہ یا ضعیف ہی ہے؛ اس لیے ان کی اتباع و تقلید، لازم و ضروری ہےلیکن اگر  ائمہ مجتہدین امام اعظم ابوحنیفہ یا امام شافعی رحمہما اللہ وغیرہ نے قرآن پاک یا  احادیث مبارکہ سے مسائل استنباط کیے؛ تو ان کی تقلید و اتباع ناجائز و حرام بلکہ شرک ہے:
ایں چہ بو العجبی است
            اسی جہالت، ذو الوجہین کی کیفیت، اندھی تقلید اور اندھ بھکتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجدد دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            ’’ائمہ مجتہدین کا اجتہاد نہ ماننا اور بخاری و مسلم کی تصحیح یا نسائی و دارقطنی کی تعدیل و تخریج پر اعتماد کرنا ظلم شدید و جہل بعید ہے، کون سی آیت یا حدیث میں آیا ہے کہ بخاری جس حدیث کو صحیح کہ دیں اسے مانو اور جسے ضعیف کہ دیں اسے نہ مانو یا یحی و شعبہ جسے ثقہ کہ دیں اسے معتمد جانو اور ضعیف کہ دیں تو ضعیف مانو‘‘۔ (فتاوی رضویہ، اعلی حضرت، ج۶ص۳۳۰، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
یہ تقابل وہابیہ کی جہالت کو عیاں کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر فن میں اس کے ماہرین کی اتباع و تقلید کی جاتی ہے؛ اس لیے فن حدیث اور رجال حدیث وغیرہ کے متعلق جس طرح امام بخاری، امام مسلم اور امام شعبہ رحمہم اللہ  وغیرہ کی اتباع کرنا جائز ہے، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ غیر مجتہد کے لیے مسائل فقہ میں امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی وغیرہ کی تقلید کرنا صحیح و درست ہے، اس کو حرام و  شرک کہنے والا وہابی غیر مقلد جاہل یا حقیقت سے آنکھ پھیرنے کی لایعنی کوشش کرنے والا ہے بلکہ خود وہ اور اس کے عوام اسی کے فتوی کی رو سے حرام و شرک کے مرتکب نظر آرہے ہیں، اپنے ہاتھوں اپنے گریبان چاک کرنا، اسی کو کہتے ہیں:
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو  آپ   اپنے  دام  میں  صیاد  آگیا
            اگر تقلید کے متعلق وہابیہ کے حرام و شرک کا یہ دعوی تسلیم کر لیا جائے؛ تو لازم آے گا کہ ائمہ مجتہدین کے سوا کوئی بھی مسلمان نہیں بلکہ سب مشرک ہیں؛ کیوں کہ سب نے کسی نہ کسی امام کی تقلید کی ہے اور تقلید کرنا شرک؛ لہذا تمام مسلمان شرک کے ارتکاب کرنے والے ہیں! اس طرح کا باطل نظریہ رکھنا خود کو کفر کے دلدل میں اوندھے منھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
            بہر حال وہابی غیر مقلدین آج بھی بھولی بھالی سنی عوام کو مسئلہ تقلید  چھیڑکر اپنے مکر و فریب کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، محب گرامی وقار مولانا مفتی محمد طاہر فیضی زید علمہ نے سنی عوام کو ان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک اہم کتاب بنام: ’مسئلہ تقلید اور غیر مقلدین کی ضلالت‘ ترتیب دی ہے، آپ نے اس کتاب میں قرآن و حدیث، اقوال صحابہ اور ائمہ کرام کی آرا کی روشنی میں تقلید شرعی ثابت کرکے تقلید شرعی اور غیر شرعی کے درمیان خط امتیاز کھینچنے کی بہترین کوشش کی ہے، نیز تقلید کی ضرورت وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر بھی اچھی روشنی ڈالی ہے اور اخیر میں وہابی غیرمقلدین سے کچھ مبہوت کرنے والے سوالات قائم کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مجتہد کے لیے تقلید ایسی ضرورت ہے کہ خود وہابی غیر مقلدین اگر اپنے آپ کو مسلم کے دائرہ میں رکھیں گے؛ تو تا قیام قیامت تقلید کے سرکل سے نکلنے کی گنجائش نہیں پائیں گے۔
            دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی موصوف محترم کی اس اہم کاوش کو قبول فرماکر دارین کی سعادتیں عطا کرے، مزید خلوص کا پیکر بن کر دین و سنیت کی خدمت میں مجھے، موصوف محترم اور دیگر حضرات کو زبان و قلم کے ساتھ عملی و اقدامی پیش رفت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۹؍محرم الحرام ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍ستمبر ۲۰۱۹ء
موبائل: 00918318177138

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts