الحمد اللّٰہ
رب العالمین الذی دعا عبادہ المسلمین بعد الایمان بہ الی اقامۃ الصلوۃ أفضل
العبادات، بقولہ:{وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ}و أشہد أن لا الہ إلا اللّٰہ، و
أشھد أن سیدنا محمدا عبد ہ و رسولہ،
القائل :((لا سھم فی الإسلام لمن لا صلوۃ لہ، و لا صلوۃ لمن لا وضوء لہ)) و صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم، و علی آلہ و صحبہ و من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
أما بعد:
اللہ تبارک و تعالی
نے دنیائے انسانیت کو پیدا فرمایا، پھر اسے اس بات کی تلقین فرمائی کہ وہ اس کی ذات
والا صفات ہی کی عبادت کرے، کیونکہ اللہ جل شانہ نے انسان و جن کو صرف اپنی عبادت ہی
کے لیے پیدا فرمایا ہے، ارشاد فرماتا ہے: ((وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ
الِانْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ)) (الذاریات:۵۱، آیت:۵۶) ترجمہ: ((اور میں
نے جن اور آدمی اتنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں))(کنز الایمان) ایمان کی تلقین
کرنے کے بعد اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر مسلمانوں کو متعدد عبادات
کا مکلف بنایا، ان عبادات میں سب سے اہم اور عظیم عبادت نماز ہے، پانچ وقت کی نماز
ہر عاقل و بالغ انسان پر فرض ہے، اللہ جل شانہ اسی فرضیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا
ہے:{وَ
اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ وَ اٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ} (البقرۃ:۲؍آیت:۴۳) ترجمہ:
((اور نماز قائم رکھو، اور زکاۃ دو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو)) (کنز الایمان)
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: {وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھارِ وَ
زُلُفًا مِنَ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ
لِلذّٰکِرِیْنَ}
(ھود: ۱۱؍آیت:۱۱۴) ترجمہ: ((اور نماز
قائم رکھو دن کے دونوں کناروں، اور کچھ رات کے
حصوں میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں
کو)) (کنز الایمان)
اسی عظیم فرضیت کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
(( من تطھر
فی بیتہ ثم مشی الی بیت من بیوت اللہ لیقضی فریضۃ من فرائض اللہ کانت خطواتہ
احداھا تحط خطیئۃ و الأخری ترفع درجۃ))ترجمہ: ((جو شخص اپنے گھر میں طہارت حاصل کرکے
فرض ادا کرنے کے لئے مسجد میں جاتا ہے، تو ایک قدم پر ایک گناہ محو ہوتا ہے، دوسرے
پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے))(صحیح مسلم؍ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ)
نماز اور ہماری زبوں حالی
اس امر میں کسی صاحب
ایمان کا اختلاف نہیں کہ پانچ وقت کی نماز ہر عاقل و بالغ مسلمان مردو عورت پر فرض،
اور ان کی ادائیگی ان کے اوقات میں ضروری ہے، مگر ہمارے بہت سے علما و مقتدایان اسلام،طالبان
علوم نبویہ اور عام مسلمان اس فرضیت سے بے اعتنائی برتتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
علما و طلبہ: بہت سارے علما، مقتدایان اسلام، اور
طلبہ ایسے ہیں کہ انہیں دیکھ کر دل جھوم اٹھتا ہے، بغیر کسی کو حقارت کی نظر سے دیکھے
فرائض و واجبات نماز کاسختی سے التزام کرتے ہیں، حقیقت میں یہی مقتدیٰ ہیں،یہی پیروی
کئے جانے کے قابل ہیں، اور یہی اہل سنت و جماعت کے صحیح نمائندہ ہیں؛ مگربہت ہی افسوس
کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ بعض خواص و طلبہ ایسے ہیں جو نماز جمعہ تک نہیں پڑھتے، اور
بعض جمعہ تو پڑھ لیتے ہیں مگر انہیں پانچ وقت نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی،اور اکثر
ان میں سے نماز تو پڑھتے ہیں؛ مگر ان میں التزام نہیں پایا جاتا، کبھی پڑھی، اور کبھی
بلاعذر شرعی چھوڑدیا،بلکہ بعض کی حالت نا گفتہ بہ ہے، نہ انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ نماز
کا وقت کب شروع ہورہا ہے، کب ختم ہورہا ہے، نماز کے لئے اذان ہوتی ہے تو کان پر جوں
تک نہیں رینگتی،اکثر عوام کی طرح صرف کھانے، پینے، روپئے حاصل کرنے میں مگن ہیں، ایسے
لوگ مقتدیٰ کہلانے کے لائق نہیں، چہ جائے کہ وہ پیری مریدی کریں، اور اپنے آپ کو شریعت
کا ٹھیکے دار سمجھیں!
عوام: الحمد للہ
عوام میں سے بھی بعض لوگ بہت ہی پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، اور یقینا ایسے لوگ قابل
مبارکباد ہیں کہ ان کی دنیاوی مصروفیات انہیں اس عمل خیر اور اہم فریضہ کے ادا کرنے
سے مانع نہیں ہوتی؛ مگر افسوس کہ بہت ساری عوام جمعہ کی بھی نماز نہیں پڑھتی !اوراکثر
عوام صرف جمعہ کی نماز پڑھنے پر اکتفا کرتی ہے، اور پانچوں وقت کی نماز کا ان کے ذہن
میں خیال تک نہیں آتا! عوام میں بعض لوگ نماز تو پڑھتے ہیں؛ مگر ان کے اندر انتہائی
درجہ کی تساہلی پائی جاتی ہے، ایک دو وقت کی نماز پڑھی، اور بقیہ نہیں پڑھی! یہ تو
حال ہے ہماری عوام کا!آج کہا جاتا ہے کہ ہم دینی، ملی، اقتصادی، اخلاقی بلکہ ہر جہت
سے پریشان ہیں، اکثر عوام، اور بہت سارے خواص اور مقتدایان اہل سنت وجماعت کو اس طرح
کا شکوہ و شکایت کرنے کا بالکل حق نہیں، کیونکہ اللہ کی طرف سے فرض کی گئی نعمت عظمی
نماز سے پہلو تہی ہمارا کردار،روزہ سے بے اعتنائی ہماری عادت، حج کے فرض کی عدم ادائیگی
ہمارا شیوہ، زکاۃ ادا نہ کرنا ہماری سرشت، جھوٹ فساد، اور الٹی سیدھی تاویل ہمارا طرئہ
امتیاز، قول و عمل میں تضاد ہماری فطرت ثانیہ، غیبت اور چغلی ہماری روش، جن کی حالت
اوامر و نواہی خداوندی کے متعلق یہ ہو، ان کا یہ کہنا: امت محمدیہ ہر چہار جانب سے
زبوں حالی کا شکار ہے، مگر مچھ کے آنسوں کے سوا کچھ بھی نہیں!
فرض نماز چھوڑنے والے کا حکم
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، آپ روایت کرتے
ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((جس نے عمدا نماز چھوڑی، اللہ اس کے عمل برباد کردے گا، اور
اللہ اس شخص سے بری الذمہ ہوگا یہاں تک کہ اللہ عز وجل کی طرف رجوع کرکے توبہ کرے))
(الترغیب والترھیب، بحوالہ اصبہانی)
نماز کو فرائض اعتقادیہ
سے شمار کیا جاتا ہے، یہ ہر عاقل ، بالغ پر فرض عین ہے، قدرت کے باوجود بلا عذر شرعی
نماز ایک بار بھی ترک کرنا جائز نہیں، جس نے ایک مرتبہ بھی قصدا فرض نماز چھوڑا وہ
فاسق ،گنہ گار اور مستحق عذاب نار ہے، جو شخص نماز نہ پڑھتا ہو اسے قید کرنے کا حکم
ہے، یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز پڑھنے لگے!
حضور صدر الشریعہ
بدر الطریقہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
(نماز فرائض اعتقادیہ میں
سے ہے، اس کو بلا عذر صحیح شرعی ایک بار بھی قصدا چھوڑنے والا مرتکب کبیرہ مستحق عذاب
نار ہے) (بہار شریعت)
حضور صدر الشریعہ،
بدر الطریقہ رحمہ نور اللہ مرقدہ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
ہر مکلف یعنی عاقل
بالغ پر نماز فرض عین ہے، اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے، اور جو قصدا چھوڑے اگرچہ ایک
ہی وقت کی، وہ فاسق ہے، اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے، یہاں تک کہ توبہ کرے،
اور نماز پڑھنے لگے، بلکہ ائمہ ثلاثہ مالک، و شافعی و احمد رضی اللہ عنہم کے نزدیک
سلطان اسلام کو اس کے قتل کا حکم ہے(بہار شریعت؍در مختار)
اللہ اکبر کبیرہ!
یہ حکم صرف ایک بار قصدا نماز چھوڑنے والے کا ہے، جو لوگ نماز یںچھوڑتے ہیں ؛بلکہ پڑھتے
ہی نہیں، ان کا کیا حال ہوگا؟!نماز نہ پڑھنے والے ذرا غور کریں۔
نیز حضور صدر الشریعہ
بدر الطریقہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
(بلاعذر
شرعی نماز قضا کردینا بہت سخت گناہ ہے، اس پر فرض ہے کہ اس کی قضا پڑھے اور سچے دل
سے توبہ کرے، توبہ یا حج مقبول سے گناہ تاخیر معاف ہوجائے گا) (بہار شریعت؍در مختار)
اور توبہ اسی وقت
صحیح ہے جبکہ قضا پڑھ لے، بغیر قضا پڑھے توبہ قبول نہیں، حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
(توبہ جب ہی صحیح
ہے کہ قضا پڑھ لے، اس کو توادا نہ کرے، توبہ کہے جائے، یہ توبہ نہیں کہ وہ نماز جو
اس کے ذمہ تھی اس کا نہ پڑھنا تو اب بھی باقی ہے، اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ
کہاں ہوئی) (بہار شریعت؍رد المحتار)
نماز کب معاف ہے؟!
ہر مسلم عاقل و بالغ
پر جس طرح بھی ممکن ہو، کھڑے ہوکر، اگر کھڑے ہونے پر قدرت نہیں تو بیٹھ کر، اور بیٹھنے
پر قدرت نہیں تو لیٹ کرسر کے اشارہ سے پڑھنا ضروری ہے، اگر سرکے اشارہ سے بھی نہیں
پڑھ سکتا تو اس حالت میں اس سے نماز ساقط ہے،
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:
(اگر سر سے اشارہ
بھی نہ کرسکے تو نماز ساقط ہے، اس کی ضرورت نہیں کہ آنکھ یا بھوں یا دل کے اشارہ سے
پڑھے، پھر اگر ۶ وقت اسی حالت میں گزر گئے تو ان کی قضا بھی ساقط، فدیہ کی بھی
حاجت نہیں، ورنہ بعد صحت ان نمازوں کی قضا لازم ہے، اگرچہ اتنی ہی صحت ہو کہ سرکے اشارہ
سے پڑھ سکے (بہار شریعت؍در مختار)
آج امت محمدیہ کی
زبوں حالی پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، عوام تو عوام بعض علمائے کرام کو تھوڑا بخار
ہوگیا، ذرا سی سردی ہوگئی تو جماعت تو جماعت نماز ہی چھوڑبیٹھتے ہیں! کوئی مسلم جب
بیمار ہوتا ہے تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں، ایسے لوگوں کا جتنا گناہ جھڑتا نہیں ، اس سے
کہیں زیادہ نماز چھوڑکر اپنی جان کے لئے وبال کا سامان مہیا کرلیتے ہیں، اللہ تعالی
ہمیں اور تمام اہل سنت و جماعت کے لوگوں کو ہدایت دے، آمین۔
جماعت ترک کرنے والے کا حکم
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((اگر گھر میں عورتیں
اور بچے نہ ہوتے تو عشا کی نماز قائم کرتا، اور جوانوں کو حکم دیتا کہ جو کچھ گھروں
میں ہے آگ سے جلادیں))
(نماز باجماعت پڑھنا
واجب ہے، اس کا ایک بار بھی قصدا چھوڑنا گناہ صغیرہ، اور چند بار ترک کرنا گناہ کبیرہ
ہے(بہارشریعت) اور گناہ کبیرہ کا مرتکب مستحق عذاب نار ہے، جماعت کو چند بار چھوڑنے
والے اپنا جائزہ لیں، اور اصلاح کریں۔
ترک جماعت کے اعذار
(۱) مریض
جسے مسجد تک جانے میں مشقت ہو (۲) اپاہج (۳) جس
کا پاؤں کٹ گیا ہو(۴) جس پر فالج گرا ہو (۵) اتنا
بوڑھا ہو کہ مسجد تک جانے سے عاجز ہو (۶) اندھا اگرچہ اندھے
کے لئے کوئی ایسا ہو جو ہاتھ پکڑکر مسجد تک پہونچادے (۷)
سخت
بارش اور شدید کیچڑ حائل ہونا (۸) سخت سردی (۹) سخت
تاریکی (۱۰) آندھی (۱۱) مال یا کھانے کے
تلف ہونے کا اندیشہ ہو (۱۲) قرض خواہ کا خوف ہو اور یہ
تنگ دست ہے (۱۳) ظالم کا خوف (۱۴)
پاخانہ،
پیشاب، ریاح کی حاجت شدید ہے (۱۵) کھانا حاضر ہے اور نفس کو
اس کی خواہش ہے (۱۶) قافلہ چلے جانے کا اندیشہ ہے (۱۷) مریض
کی تیمارداری کہ جماعت کے لیے جانے سے اس کو تکلیف ہوگی اور گھبرائے گا، یہ سب ترک
جماعت کے لئے عذر ہیں (بہار شریعت؍در مختار)
یہ وہ حضرات ہیں
جنہیں جماعت ترک کرنے کی اجازت ہے، مگر دور حاضر میں ہماری عوام بلکہ بعض علما جو نماز
پڑھتے تو ہیں؛ مگر ان کا بہت برا حال ہے، بلا وجہ سستی، کاہلی، اور محض لاپرواہی کی
وجہ سے جماعت چھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، انہیں اپنے اس عمل سے جلد از جلد باز آنا
چاہئے اور جماعت کا التزام کرنا چاہئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی ملے اور عذاب
الہی سے محفوظ رہیں۔
نماز سنت مؤکدہ کے تارک کا حکم
نماز سنت مؤکدہ
کو بلا عذر ایک بار بھی چھوڑنے والا مستحق ملامت، اور ترک کی عادت بنالے تو فاسق مردود
الشہادہ، اور مستحق نار ہے، بعض ائمہ نے فرمایا: وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا، اور وہ
گنہگار ہے، اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے، تلویح میںہے: اس کا ترک قریب حرام
کے ہے، اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ شفاعت سے محروم ہوجائے، حضور اقدس صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((جو میری سنت کو ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی))
(بہار شریعت)
سوکر نماز یا جماعت چھوڑنے کی عادت ڈالنا
بعض حضرات نمازیں
پڑھنے ، اور جماعت میں شرکت کرنے کی کچھ حد تک کوشش کرتے ہیں، مگر سونے کی وجہ سے نماز
و جماعت چھوڑنے کی عادت ڈال لیتے ہیں، اور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
امیر المؤمنین حضرت
علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
تین لوگ احکام باری
تعالی کے مکلف نہیں: (۱) سونے والا یہاں تک کہ بیدار
ہوجائے(۲) بچہ، یہاں تک کہ بالغ ہوجائے (۳) اور
پاگل یہاں تک کہ ہوش میں آجائے(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۴۴۰۳)
خدا نخواستہ اگر
کبھی سونے کی وجہ سے نماز یا جماعت چھوٹ جائے تو یہ عذر ہوسکتا ہے، مگرعادتا ایسا کرنے
والے کا اس حدیث کو حجت بنانا باطل اور غلط ہے، بلکہ حکم ہے کہ اگر تاخیر سے سونے میں
نماز کے وقت نیند نہ کھلنے کا ظن غالب ہو تو سوئے ہی نہیں، اور نماز پڑھنے کے بعد بستر
استراحت پر جائے، اللہ ہمیں اور سبھی حضرات کو وقت پر نماز با جماعت پڑھنے کا خوگر
بنائے، آمین۔
جرم بالائے جرم
آج ہماری عوام نماز
جیسے اہم فریضہ سے اس قدر غافل، اور اس کے چھوڑنے کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اسے یہ
بھی نہیں پتہ کہ نماز کس صورت میں معاف ہے، اور کس صورت میں نہیں، یہی وجہ کہ جب ان
سے نماز پڑھنے کے لئے کہا جائے؛ تو بے جا عذر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں؛ جن کا شریعت
میں کوئی اعتبار نہیں، ایک تو نماز نہ پڑھنے کا جرم، اوپر سے بے جا عذر پیش کرکے جرم
عظیم کا ارتکاب ! ایسے ہی شخص کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
(عذرہ أشد من جرمہ)
ترجمہ: اس کا عذر اس کے جرم سے زیادہ شدید ہے، اور شاعر ایسے ہی لوگوں کے بارے میں
کہتا ہے:
و کم من مذنب لما أتی باعتذارہ
جنی عذرہ ذنبا من الذنب أعظما
ترجمہ:
اور کتنے ایسے گنہگار
ہیں، جب وہ اپنے گناہ کا عذر پیش کرتے ہیں، تو ان کا یہ عذر اس گناہ سے بڑھکر گناہ
کو وجود بخشتا ہے!
ایک مسلم بھائی سے
میںنے نماز پڑھنے کے لئے کہا، انہوں نے کہا کہ میرے پیر میں تکلیف ہے، بیٹھنے میں پریشانی
ہوتی ہے، میں نے کہا، جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لیا کریں، کیونکہ اس حالت میں آپ کے
لئے نماز معاف نہیں، مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے! پھر آئندہ جمعہ میں وہ نظر
آئے، بہت خوشی ہوئی، البتہ یہ سوچ کر بے حد افسوس ہوتا رہا کہ یہ ہمارے سنی مسلم بھائی
جمعہ کی نماز اور دیگر پانچ وقت کی نمازوں میں کیوں تفریق کر تے ہیں، ان کی سمجھ میں
یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر وہ تکلیف کے باوجود نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں؛ تو دیگر
پانچ وقت کی نمازیں کیوں نہیں پڑھ سکتے؟! اور بعض حضرات ایسے ہیں جو یہ عذر پیش کرتے
ہیں کہ ہم کام میں مشغول رہتے ہیں، اور بعض مائیں کہتی ہیں کہ ہم بچوں کی پرورش میں
مصروف ہونے کی وجہ سے نماز نہیں پڑھ پاتے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے
ارشاد فرماتا ہے:{یٰا
اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَا اَوْلَادُکُمْ
عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْخَاسِرُوْن} (سورئہ منافقون:۶۳؍آیت:۹) ترجمہ:((
اے ایمان والو تمہارا مال، نہ تمہاری اولاد، کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ
کرے، اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں)) (کنز الایمان) وہ مال کیسا اور وہ
پرورش کس کام کی جو اپنے رب کے سامنے پانچ وقت نماز پڑھنے سے روکے؟! اللہ تعالی ہمیں،
ہمارے علما، اور ہماری عوام کو سمجھ عطا فرمائے، اور بغیر عذر شرعی نماز چھوڑنے سے
بچائے، آمین۔
قضا نماز پڑھنے کا طریقہ
جن مسلمان بھائیوں کے ذمہ
نمازیں باقی ہیں، ان پر فرض ہے کہ دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ ذمہ میں باقی نمازوں
کے لئے اوقات نکالیں، اور جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں، نیچے ذمہ میں باقی نمازوں
کو ادا کرنے کا طریقہ بیان کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں:
جتنے دنوں کی نمازیں
ذمہ میں باقی ہیں، اس کا حساب لگائے، اور اس بات کا خیال رہے کہ حساب لگانے میں نمازیں
کم نہ ہوں اگرچہ زیادہ ہوجائیں، کیونکہ زیادتی مضر نہیں، ہاں اگر کم ہے تو ضرور باعث
ضرر ہے، مثلا اگر پچاس دن کی نمازیں قضا ہیں؛ تو اس کا حساب لگالے، پچاس دن کی کل نمازیں
۲۵۰ ہونگی، اب ان کی قضا پڑھنے کے وقت یوں نیت کرے: مثلا
نیت کی میں نے پہلی تین رکعت نماز مغرب فرض قضا کی، واسطے اللہ تعالی کے، منھ میرا
کعبہ شریف کی طرف، اللہ اکبر، اسی طرح عشا، وتر، اورفجر وغیرہ میں نیت کرے، یا یوں
بھی کیا جاسکتا ہے کہ پہلے نماز مغرب کی پچاس نمازیں پڑھے، پھر عشا اور وتر وغیرہ پڑھ
لے، اور ہر نماز میں ’پہلی‘ کی نیت یا زبان سے ضرور کہے، کیونکہ ایک قضا نمازپڑھنے
کے بعد دوسری نماز، پڑھنے والے کے حق میں پہلی ہی ہے، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو
نماز جیسے اہم فریضہ سے جلد از جلد سبکدوش ہونے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔
مسلک اعلی حضرت
آج ہم اور آپ مسلک
اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت و جماعت کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر ہمارے اور آپ کے قول
و عمل میں بہت تضاد ہے،مسلک اعلی حضرت یہ نہیں ہے کہ آپ فرض و واجب نماز چھوڑنے کے
خوگر ہوجاؤ، مسلک اعلی حضرت یہ نہیں ہے کہ آپ جماعت چھوڑنے کے عادی ہوجاؤ، مسلک
اعلی حضرت یہ نہیں ہے کہ آپ سنت مؤکدہ چھوڑنے کے درپے رہو ، بلکہ قدرت کے باوجود
کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑنا یہ مسلک اعلی حضرت ہے، بیماری کی حالت میں کرسی پر
بیٹھ کر مسجد میں با جماعت نماز پڑھنے کے لئے حاضر ہونا یہ مسلک اعلی حضرت ہے۔ اے مسلک
اعلی حضرت کا نعرہ لگانے والے سنی مسلمانو! اپنے قول و عمل میں یکسانیت پیدا کرو، اور
عملی طور سے بھی مسلک اعلی حضرت یعنی مسلک اہل سنت و جماعت سے لپٹ جاؤ، عمل ہی مسلک
اعلی حضرت کی صحیح نمائندگی ہے، بغیر اس کے قول کاکوئی اعتبار نہیں!
اللہ تعالی ایسے
لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
{یَا
اَیَّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ، کَبُرَ
مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ} سورئہ صف:۶۱؍آیت:۳) ترجمہ:
((اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ،کیسی سخت نا پسند ہے اللہ کو وہ بات
کہ وہ کہوجو نہ کرو)) (کنز الایمان)
اے بے نمازیو! ابھی
بھی وقت ہے، ہوش کے ناخن لو، اللہ کی طرف توبہ کرکے رجوع لائو، جو قضا نمازیں ہیں انہیں
جلد از جلد ادا کرو، اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کا التزام کرو، اور سنن و نوافل،
اور دیگر حقوق اللہ و حقوق العباد کی حفاظت کرو، آپس میں صلح و مصالحت سے کام لو،
کل تم برسر اقتدار رہوگے، تمہارے دینی، ملی، اقتصادی، اخلاقی بلکہ سارے مسائل حل ہوتے
ہوئے نظر آئیں گے! کیا احکام خداوندی کو فروگزاشت کرکے کوئی شخص کامیابی حاصل کرسکتا
ہے؟ ہر گز ہرگز نہیں! یاد رہے اصل کامیابی اخروی کامیابی ہی ہے۔
اللہ تعالی ارشاد
فرماتا ہے: {وَ
تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ
تُفْلِحُوْنَ}
(سورئہ نور:۲۴؍آیت:۳۱) ترجمہ: ((اور اللہ
کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب، اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ)) (کنز الایمان)
حدیث شریف میں ہے:
((التائب
من الذنب کمن لا ذنب لہ)) (سنن ابن ماجہ) ترجمہ: ((گناہ سے توبہ کرنے والا
اس کی طرح ہے جس کا کوئی گناہ ہی نہیں))
ہر کس و ناکس آج
اہل سنت و جماعت کی نماز و جماعت کے متعلق انتہائی درجہ کی تساہلی سے پہلو تہی نہیں
کرسکتا، اسی کے پیش نظر میں نے خاص کر فرض نماز ادا نہ کرنے ، اور جماعت میں شریک نہ
ہونے والوں کے بارے میں یہ چالیس احادیث جمع کی ہے،امید قوی ہے کہ قارئین نصیحت پذیر
ہونگے، اور بلاتاخیر با جماعت نماز پڑھنا شروع کردیں گے، اللہ جل شانہ کی بارگاہ عالی
میں اس عاجز فقیر کی دعا ہے کہ وہ اس مختصر مگر بہت اہم کار خیر کو شرف قبولیت سے سرفراز
فرمائے، اور ہمیں اور اہل سنت و جماعت کے علما اور عام مسلمانوں کو شریعت کے بتائے
ہوئے طریقہ، اور وقت پر نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، بجاہ سید المرسلین
صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ و سلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138