روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہے
کہ والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے اپنی آخری عمر میں مرکز تربیت افتا قائم
کرکے ایک منفرد اور عظیم کارنامہ انجام دیا، الحمد للہ تھوڑے ہی دنوں میں اس مرکز
نے ملک و بیرون ملک میں اپنی ایک خاص پہچان بنالی، حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ علماے
عاملین بالخصوص فقہاے عظام کی کافی قدر کرتے تھے؛ انہیں فقہا میں سے حضور سراج
الفقہا دام ظلہ کی بھی ذات برکات ہے، آپ کی طرف خصوصی توجہ ہی کی وجہ سے حضور
فقیہ ملت رحمہ اللہ جب اس دنیا سے رخصت ہوگئے؛ تو ارباب حل و عقد نے مرکز کی
نگرانی کے لیے آپ کا انتخاب کیا، حضور سراج الفقہا دام کرمہ نے اس وقت سے لے کر
2016ء تک کی طویل مدت اس مرکز کی بخوبی
نگرانی فرمائی، پھر آپ اپنی مصروفیات کی بنا پر اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے،
حضور سراج الفقہا دام ظلہ نے ایک طویل مدت تک مرکز کے لیے اپنی خدمات پیش فرمائی،
یہ ان کا ہم پر عظیم احسان ہے، جس کے پیش نظر میں آج کی اس بزم میں ’’حضور فقیہ
ملت اور سراج الفقہا‘‘ عنوان کے تحت آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کی
کوشش کرونگا، و ما توفیقی الا باللہ علیہ
توکلت و الیہ أنیب۔
ایک دور تھا کہ حضور نبی دو
جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت مسلمہ کے درمیان اپنی ظاہری زندگی کے ساتھ
موجود تھے، امت مسلمہ کو کوئی مسئلہ در پیش ہوتا؛ تو وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مسئلہ کا حل حاصل کرکے شریعت کی چھاؤں میں زندگی
گزارکر فرحت و انبساط محسوس کرتے تھے، مگر جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس
دنیاے فانی سے رخصت ہوگئے؛ تو صحابہ کرام اور ان کے بعد منتخب علماو فقہاے عظام
رضی االلہ عنہم نے رات و دن اپنا سکون و اطمینان قربان کرکے امت مسلمہ کے مسائل حل
کرنے کی عظیم ذمہ داری ادا کرنے لگے، وہ خود مشقتیں اٹھاتے ہیں مگر امت مسلمہ کی
شرعی رہنمائی کرکے انہیں فرحت و انبساط دیتے ہیں اور ان شاء اللہ تا قیات دیتے
رہیں گے۔
انہیں منتخب فقہا میں سے ہمارے
ممدوح استاذ گرامی وقار محقق مسائل جدیدہ حضور سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین
رضوی دام ظلہ و کرمہ کی ذات بابرکات ہے، آپ کی پیدائش اتر پردیش کے ایک ضلع
دیوریا (حال کشی نگر) کے ایک گاؤں ’بھوجولی پوکھرا ٹولہ‘ 1957ء میں 2؍مارچ کو
ہوئی، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریب واقع ایک گاؤں ’غلامی چھپرا‘ میں
حاصل کی، پھر وہاں سے ضلع ’بستی‘ شہر کے قدیم مدرسہ ’انجمن معین الاسلام‘میں آئے،
اس مدرسہ میں کسی وجہ سے اطمینان حاصل نہ ہوسکا؛ تو آپ نے اپنی علمی پیاس بجھانے
کے لیے ضلع بہرائچ کے مدرسہ ’عزیز العلوم، نانپارہ‘ میں داخلہ لیا، یہاں پر آپ نے
سادسہ تک تعلیم مکمل کی، پھر مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے 1396ھ مطابق
1976ء میں ’ازہر ہند، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ‘ کا رخ کیا، آپ کا ارادہ
تھا کہ عام رواج کے مطابق ہی فضیلت کرنے کے بعد کسی مدرسہ میں پڑھانے چلے جائیں
گے، مگر اللہ تعالی کا فضل و کرم ہواکہ نائب مفتی اعظم ہند حضور شارح بخاری رحمہ
اللہ کی نظر عنایت آپ پر پڑی، حضور شارح بخاری رحمہ اللہ نے اپنی نگاہ بصیرت سے
آپ کی صلاحیت کو بھانپ لیا اور آپ کو تخصص کرنے کی دعوت دی، آپ نے تخصص فی
الفقہ کو اختیار کیا اور جماعت سابعہ ہی سے حضور شارح بخاری رحمہ اللہ کی بارگاہ
میں رہ کر تحقیقات و تدقیقات کی منازل طے کرنے لگے، ابھی آپ تخصص فی الفقہ ہی کر
رہے تھے کہ ذمہ داران ’جامعہ اشرفیہ‘ نے آپ کی پختہ صلاحیت کو دیکھ کر ’جامعہ
اشرفیہ‘ میں بطور مساعد 1398ھ میں مدرس مقرر کردیا اور فضیلت و تخصص مکمل کرنے کے
بعد آپ کو اسی ’جامعہ اشرفیہ‘ کے لیے 1400ھ میں مستقل مدرس کی منظوری دے دی گئی،
اس وقت سے لے کر آج تک آپ اسی ’جامعہ اشرفیہ‘ میں بتدریج مدرس، مفتی، صدر شعبہ
افتا، صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کی عظیم خدمات خلوص و محبت کے ساتھ بخوبی انجام
دیتے آرہے ہیں، امت مسلمہ کو ایسے عظیم محقق و مدقق بڑے مشکل سے ملا کرتے ہیں،
اگر صرف آپ کی تحقیقی دینی و ملی خدمات پر لکھنے کا حق ادا کیا جائے؛ تو اس کے
لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں اور یہ مختصر رسالہ اس تفصیل کی اجازت نہیں دیتا؛ اس
لیے راقم الحروف آج کی اس بزم میں اختصار کے ساتھ صرف مندرجہ ذیل عناوین کے تحت
لکھنے کی کوشش کرے گا۔
محقق مسائل جدیدہ اور تفقہ فی
الدین:
ایک منصف مزاج شخص کسے باشد،اگر
حضور سراج الفقہا دام ظلہ العالی کے ابتدائی فقہی مقالات بلاتعصب پڑھے؛ تو ان کے
تفقہ فی الدین کی مہارت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا؛ تو پھر وہ ذات جو
ابتدائی درس و تدریس کے زمانہ 1398ھ سے لے کر آج 1440ھ تک فقہی و تحقیقی نگارشات
پیش کرتی آرہی ہے، ان کے تفقہ فی الدین کا ایک غیر متعصب بڑے سے بڑا عالم و مفتی
اعتراف کیے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟! ہمارے ممدوح وہ ہیں جنہیں فتاوی رضویہ اور بہار
شریعت میں مسئلہ دیکھنے کے لیے عموما ان کی فہرست دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی؛ کیوں
کہ سن 2016 یا 2017ء میں ہی آپ کے قول کے مطابق، آپ نے اس وقت موجود اکثر رسائل
رضویہ کا مطالعہ کرلیا تھا اور آپ بہار شریعت کو دسیوں بار سر سری نظر سے پڑھ چکے
تھے ، آپ نے اپنی تحقیق و تدقیق میں فتاوی رضویہ ہی کو بطور فیصل تسلیم کیا، آپ
کے تفقہ فی الدین کا یہ عالم ہے کہ اپنے اور غیر سبھی آپ کے اس امتیازی وصف کو
ماننے پر مجبور ہیں، حضور سراج الفقہا دام ظلہ فقیہ، محدث اور مفسر ہونے کے ساتھ
ساتھ مجاہد زمانہ بھی ہیں؛ کیوں کہ بعض فروعی مسائل کے متعلق آپ کی تحقیق و تدقیق
کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی طرف سے آپ کو کئی بارجان سے مارنے کی دھمکی دی گئی اور
آپ پر ایسے ایسے جملے چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک مسلم تو مسلم ایک کافر کے
حق میں بھی جائز و روا نہیں، چہ جائے کہ ایک فقیہ اسلام کے بارے میں ایسی ناروا
باتیں کی جائیں، مگر قربان جائیے آپ کے بلند اخلاق و کردار پر کہ آپ جبل شامخ کی
طرح ان حالات کے سامنے کھڑے رہے اور بڑے صبر و تحمل کے ساتھ اپنے بڑوں کے نقش قدم
پر چلتے ہوئے صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز نہیں ہونے دیا اور ہر مخالفت کا جواب
تحقیقی کام کرکے دیا اور جواب دینے میں بھی کبھی بازارو زبان استعمال نہیں کی اور
نہ ہی اپنے باوقار قلم کو بہکنے دیا اور نہ ہی کسی کا مزاق بنایا، یہ آپ کا وہ
امتیازی وصف ہے جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے، ہمارے ممدوح سراج الفقہا دام
ظلہ العالی تفقہ فی الدین اور بلند اخلاق و کردار میں بے مثال تھے، بے مثال ہیں
اور ان شاء اللہ بے مثال ہی رہیں گے۔
حضور سراج الفقہادام فضلہ تفقہ فی الدین میں بلند شان والے
ہیں، اس پر پختہ دلائل موجود ہیں، اگر ہر دلیل پر تفصیلی کلام کیا جائے؛ تو دفتر
نہیں بلکہ دفاتر کی ضرورت پڑے گی، آپ نے کل چوالیس (۴۴) کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور
ایک سو تیس (۱۳۰) مقالات
لکھے ہیں، بطور ثبوت یہاں پر ان میں سے اختصار کے پیش نظر صرف آپ کی بعض فقہی
تحقیقات کی فہرست پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
تصنیفات: (۱) عصمت انبیا (۲) الحواشی الجلیۃ فی تائید مذہب
الحنفیۃ(۳) جدید
بینک کاری اور اسلام (۴) شیر
بازار کے مسائل (۵) فقہ
اسلامی کے سات بنیادی اصول (۶) لاؤڈسپیکر
کا شرعی حکم (۷) مشینی
ذبیحہ مذاہب اربعہ کی روشنی میں (۸) تحصیل
صدقات پر کمیشن کا حکم (۹) دو
ملکوں کی کرنسیوں کا تبادلہ و حوالہ (۱۰) دکانوں،
مکانوں کے پٹہ اور پگڑی کے مسائل (۱۱)انسانی
خون سے علاج کا حکم (۱۲) امام
احمد رضا پر اعتراضات کا ایک تحقیقی جائزہ (۱۳) فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی
رعایت (۱۴) مسلک
اعلی حضرت عصر حاضر میں مسلک اہل سنت و جماعت کی مترادف اصطلاح (۱۵) چلتی ٹرین میں نماز کا حکم
فتاوی رضویہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں (۱۶)
جدید
ذرائع ابلاغ اور مسائل ہلال (۱۷) خاندانی
منصوبہ بندی اور اسلام وغیرہ۔
مقالات: (۱) قیاس حجت شرعی ہے (۲) امام احمد رضا اور جدید فقہی
مسائل (۳) تقلید
عرفی کی شرعی حیثیت (۴) پرنٹنگ
ایجنسی کے احکام (۵) حضور مفتی
اعظم بحر فقاہت کے در شاہوار (۶) بہار
شریعت کا مختصر تعارف (۷) مساجد
میں مدارس کا قیام (۸) میچول
فنڈ کی شرعی حیثیت (۹) در
آمد برآمد ہونے والے گوشت کا حکم (۱۰) زینت
کے لیے قرآنی آیات کا استعمال (۱۱) مذہبی
چینل کا شرعی حکم فتاوی رضویہ کی روشنی میں (۱۲) لغزش زبان سے صادر ہونے والے
کلمات کب کفر ہیں کب نہیں (۱۳) انٹر
نیٹ کے مواد و مشمولات کا شرعی حکم (۱۴) غیر
رسم عثمانی میں قرآن حکیم کی کتابت (۱۵) ڈی
این اے ٹیسٹ شرعی نقطہ نظر سے (۱۶) قومی
و ملی مسائل میں اہل سنت کا کردار ضرورت اور طریقہ کار (۱۷) جینیٹک ٹیسٹ اور اس کی شرعی
حیثیت (۱۸) جدید
ذرائع ابلاغ سے نکاح کب جائز کب ناجائز (۱۹)
بلیک
برن وغیرہ بلاد برطانیہ میں عشا، وتر اور صوم کے وجوب کی تحقیق (۲۰) اختلافی مسائل رحمت یا زحمت (۲۱) سنی دار الافتا کا کردار اور
مفتیان اسلام (۲۲) میوزک
نما ذکر کے ساتھ نعت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پڑھنا اور سننا (۲۳) ایڈز زدہ حاملہ عورت کو حمل
ساقط کرانے کی اجازت نہیں (۲۴) چیک
اور پرچی کی کٹوتی کا شرعی حکم (۲۵) باغات
و تالاب کارائج اجارہ (۲۶) تقلید
غیر کب جائز (۲۷) چھت سے
سعی و طواف کا مسئلہ (۲۸) معاملہ
کرایہ فروخت شرعی نقطہ نظر سے (۲۹) بیت
المال و مسلم کالج اور اسکولوں کے نام پر تحصیل زکوۃ (۳۰) یورو کائنیز انجیکشن سے علاج کا
شرعی حکم (۳۱) صاحب
زمین پر قربانی و صدقہ فطر کا وجوب (۳۲) واشنگ
مشین میں دھلے گئے کپڑے پاک ہیں یا ناپاک (۳۳)
حالت
احرام میں خوشبودار مشروبات پینے کا حکم (۳۴)
عصر
حاضر میں دار القضا کی ضرورت (۳۵) اسلامی
تصور توحید اور ائمہ کرام (۳۶) مدارس
میں طریقت اور خانقاہوں میں شریعت کا نفاذ اہم ضرورت (۳۷) اصول تدریس فقہ اور اصول فقہ (۳۸) الامام الترمذی و ماثرہ العلمیۃ
(عربی) (۳۹) المحدث
احمد علی السہارنپوری (عربی) (۴۰) ترجمۃ
صاحب الصحیح: الامام مسلم ابو الحسن مسلم بن الحجاج علیہ الرحمۃ (۴۱) ترجمۃ الشارح: الامام ابوزکریا
یحیی بن شرف النووی شارح صحیح مسلم رحمہ اللہ (عربی) (۴۲) پوسٹ مارٹم کا تعارف اور شرعی
جائزہ (۴۳) علم
تشریح الاعضا کے لیے لاشوں کی چیر پھاڑ شرعی نقطہ نظر سے وغیرہ۔
ان میں سب کتابیں و مقالات
تحقیقی و تدقیقی اور اکثر جدید فقہی مسائل پر مشتمل ہیں، یہ وہ جدید مسائل ہیں کہ
ان پر قلم اٹھانے کے لیے عموما بڑے سے بڑے علماو فقہا کو سو بار سوچنا پڑے گا؛
کیوں کہ جدید مسائل پر کلام کرنے کے لیے بالغ نظر ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث،
فقہ و اصول فقہ اور جزئیات پر مکمل دسترس ہونی چاہیے، یہ چیزیں بہت کم لوگوں میں
پائی جاتی ہیںاور الحمد للہ راقم الحروف یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے کہ انہیں
کم یاب لوگوں میں سے استاذنا المکرم حضور سراج الفقہا دام ظلہ العالی کی ذات بابرکات
ہے۔
راقم الحروف محقق مسائل جدیدہ
دام ظلہ کو تحقیقی نگارشات میں معصوم نہیں سمجھتا، ہر انسان کی طرح آپ سے بھی خطا
ہوسکتی ہے، مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ کی ساری خدمات کو پس پشت ڈال دیا
جائے، نازیبا کلمات استعمال کیے جائیں، استہزا کیا جائے اور مزاق اڑانے کی کوشش کی
جائے، اگر کسی کا مزاق اڑایا گیا یا پروپیگنڈہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی؛ تو بطور
نصیحت یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی ایسے فرد کا محافظ ہے اور اللہ
تعالی جس کا محافظ ہوتا ہے اس کی دنیا و آخرت دونوں یا کم ازکم آخرت ضرور سنور
جاتی ہے اور مزاق اڑانے والے یا پروپیگنڈہ کرنے والے ’’چاہ کن چاہ درپیش‘‘ کا شکار
ہوجاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہوتی ہے اور اگر دنیا بظاہر
سنور گئی؛ تو آخرت پر ضرور سوالیہ نشان قائم رہتا ہے، دونوں پہلوں پر شواہد موجود
ہیں، بس عبرت کی نظر سے دیکھنے والی نگاہ چاہیے، اللہم احفظنا و علماء الأمۃ من
کل بلاء الدنیا و عذاب الآخرۃ، آمین۔
محقق مسائل جدیدہ اور فقیہ ملت
قدس سرہ:
ہمارے ممدوح سراج الفقہاء دام
کرمہ اور والد ماجد حضور فقیہ ملت نور اللہ مرقدہ کے درمیان تعلقات بہت بہتر اور
خوش گوار تھے، سراج الفقہا دام ظلہ والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے علم کی
قدر کرتے، ان کی عزت کرتے اور ان کی فقہی مہارت کے اعتراف میں ان کی تحقیق کا
حوالہ بھی دیتے اور حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ بھی سراج الفقہا دام فضلہ کی تحقیق کو
سراہتے اور اس پر اعتماد بھی کرتے اور آپ کے علم کے شایان شان آپ کی حوصلہ
افزائی فرماتے اور آپ کی عمدہ تحقیقات کے پیش نظر آپ کو مناسب القابات سے بھی
نوازتے، یہ محض دعوی نہیں بلکہ ان باتوں پر خود والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ
کے خطوط جو آپ نے ہمارے ممدوح سراج الفقہا دام ظلہ کو لکھا اور آپ کی کتابوں پر
جو تصدیقات سپرد قرطاس فرمائے، وہ واضح دلائل کی روشنی میں موجود ہیں، آپ بھی ان
دلائل سے اپنی نگاہوں کو جلا بخشئے اور استاذنا المکرم محقق مسائل جدیدہ دام فضلہ
کی فضیلت کے اعتراف میں حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کی طرح کوئی شک و شبہ کی گنجائش
نہ رکھیے، ملاحظہ فرمائیں:
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ حضرت
مولانا مفتی محمد نسیم دام ظلہ کے نام ایک خط میں ’جدید بینک کاری اور اسلام‘ کے
متعلق لکھتے ہیں:
’’رسالہ
مذکور اگر اردو کے علاوہ ہندی، گجراتی اور انگریزی میں بھی چھپ جائے؛ تو بہتر ہے،
اردو، ہندی خود مفتی صاحب نہ چھپواسکیں؛ تو امید کہ المجمع الاسلامی چھاپ دے گا،
اور گجراتی کا کام ہمارے یہاں کے ایک فارغ ملک عارف ۔۔۔ کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے
اور انگریزی کے لیے مولانا محمد قمر الزماں یا مولانا شاہد رضا سے رابطہ قائم کیا
جائے‘‘۔
پھر دو تین سطور کے بعد لکھتے ہیں:
’’فقیہ
الہند، حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب، محدث کبیر، حضرت علامہ مصباحی، مولانا
شمس الہدی اور مولانا مسعود احمد صاحب نیز دیگر حضرات کو سلام کہیںاور مولوی ابرار
احمد کو دعا‘‘۔ فقط و السلام۔
الامجدی
۲۴؍رجب
المرجب ۱۳ھ
سراج الفقہاءدام ظلہ کی تحقیقی کتاب:
’جدید بینک کاری اور اسلام‘ کے متعلق والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کا مختلف
زبان میں طباعت کی خواہش سے جہاں ان کے دینی و مذہبی کتابوں کی مختلف زبانوں میں
اشاعت سے قلبی لگاؤ کا پتہ چلتا ہے، وہیں اس کتاب کی اہمیت و افادیت بھی کھل کر
سامنے آجاتی ہے؛ کیوں کہ اسی کتاب کے لیے مختلف زبان میں طباعت کی خواہش کی جاے
گی جو ایشیا و یورپ ہر جگہ کے عوام و خواص کے لیے مفیداور کار آمد ہو۔
نیز کسی تیسرے شخص کے نزدیک
مختلف شخصیات کو ذکر کرنے میں کسی شخصیت کی تقدیم و تاخیر اس کی پرہیزگاری کے ساتھ
اس کے تفقہ فی الدین کی بنیاد پر ہوتا ہے، استاذ و شاگرد کی حیات و عدم حیات کے
اعتبار سے نہیں ہوتا، چوں کہ حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ حدیث کے مطابق تفقہ فی الدین
والے کو زیادہ اہمیت دیتے تھے؛ اسی لیے آپ نے اپنے اس خط میں ترتیب وار سب سے
پہلے فقیہ الہند نائب مفتی اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق رحمہ اللہ پھر سراج
الفقہا دام ظلہ اور اس کے بعد دیگر حضرات کا ذکر کیا؛ حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے
اس ترتیب وار نام ذکر کرنے سے کم از کم اتنا ضرور پتہ چلا کہ آپ کے نزدیک ان تمام
حضرات کے درمیان نائب مفتی اعظم ہند رحمہ اللہ کے بعد تفقہ فی الدین سب سے زیادہ
حضور سراج الفقہا دام کرمہ کے اندر تھا، یہ ۱۴۱۳ھ کی بات ہے، اس کے بعد سے اب
تک حضور سراج الفقہا دام ظلہ کے اندر کس قدر تفقہ فی الدین کی مہارت میںاضافہ ہوا
ہوگا، اس کا تفقہ فی الدین میں دلچسپی رکھنے اور اس کے لیے دن رات ایک کرنے والا
ہی اندازہ لگاسکتا ہے۔
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ اپنے
ایک خط میں مزید لکھتے ہیں:
’’فقیہ
الاسلام المفتی العلام حضرت مولانا محمد نظام الدین صاحب رضوی زیدت محاسنکم و
علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
پھر ہندوستان کے مسلموں سے
متعلق ایک پیدا ہونے والے اعتراض کا جواب دینے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اب اگر
اس پر کوئی اعتراض پڑتا ہے؛ تو غور و فکر کے بعد آپ خود اس کا حل تلاش کریںیا اس
کے لیے فقیہ الہند قبلہ کی طرف رجوع فرمائیں‘‘۔
پھر حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ
حضور سراج الفقہاء دام کرمہ کو مشورہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لہذا آپ
کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اگر ممکن ہو؛ تو رسالہ جدید بینک کاری اور اسلام کو فتوی
کے طرز میں کردیں اور آئندہ جو کچھ بھی تحریر فرمائیں سب اسی طریقہ پر ہو؛ تاکہ
اشرفیہ کے مجموعہ فتاوی یا الگ سے آپ کے مجموعہ فتاوی میں شامل ہوکر عرصہ دراز تک
باقی رہیں۔۔۔۔۔‘‘۔ فقط و السلام۔
جلال الدین احمد الامجدی
۲۰؍رمضان
المبارک ۱۴۱۳ھ
ہمارے پاس جو حضور فقیہ ملت
رحمہ اللہ کے خطوط موجود ہیں، ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ والد ماجد رحمہ اللہ نے
سراج الفقہا دام فضلہ کو آج سے تقریبا پچیس سال پہلے سب سے پہلے ۲۰؍رمضان المبارک کے مبارک مہینے ۱۴۱۳ھ میں فقیہ اسلام سے یاد فرمایا
اور آپ کو جدید اعتراض کے حل کرنے کی دعوت دی، نیز آپ کو ایسا مشورہ دیا جس کی
وجہ سے آپ کی کتابیں عرصہ دراز تک باقی رہیں، یہ ایسی باتیں ہیں جن سے واضح طور
پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ چھوٹے بڑے کی تفریق کیے بغیر
حضور سراج الفقہا دام ظلہ کو پچیس سال پہلے ہی سے فقیہ اسلام سمجھتے تھے، ان کی
تحقیق پر اعتماد کامل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے قلبی لگاؤ بھی رکھتے تھے۔
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ اپنے
ایک دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
’’فقیہ اسلام المفتی العلام حضرت
مولانا محمد نظام الدین صاحب زیدت محاسنکم۔
و علیکم السلام و رحمتہ و
برکاتہ، ثم السلام علیکم، خیریت طرفین، بارگاہ رب العزت نیک مطلوب، براؤں شریف
حاضر ہوا؛ تو آپ کا مکتوب گرامی دستیاب ہوا، مگر افسوس کہ دار العلوم فیض الرسول میں
۵؍شعبان المعظم ہی کو طلبہ کے لیے تعطیل کلاں
کا اعلان کردیا گیا؛ تو وہ سب چلے گئے یہاں تک کہ اکثر علما کے خدام بھی نہیں رہ
گئے۔
۔۔۔۔۔اس لیے آپ کے والد گرامی مرحوم کے لیے
قرآن خوانی ہم نہیں کراسکے، یاد داشت کے لیے آپ کا خط ڈسک پر رکھ لیا ہے، ان شاء
اللہ الرحمن طلبہ کے آنے پر شوال میں کرائیں گے۔
البتہ آج ۱۱؍شعبان کی صبح تک ہماری تلاوت
ستائیسویں پارہ تک ہوئی؛ تو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ آپ کے والد گرامی کو اس کا
ایصال ثواب کردیا ہے، خداے تعالی قبول فرمائے، جنت الفردوس میں انہیں اعلی مقام
عطا فرمائے اور آپ کی دینی خدمات کی برکت سے قیامت تک روز بروز ان کے درجات کو
بلند سے بلندتر فرماتا رہے، آمین بحرمۃ النبی الکریم علیہ و علی آلہ افضل الصلاۃ
و التسلیم۔
میری خواہش تھی کہ میں تیسویں
پارہ تک تلاوت مکمل کرنے کے بعد ایصال ثواب کروں مگر سال آخر کی مصروفیات کے سبب
ایسا نہ ہوسکا۔۔۔اپنے جیب خاص سے خرید کر ہم نے ایک زمین وقف کی ہے، اس پر مدرسہ
بنوانے کے لیے ماہ رمضان میں بمبئی کا سفر کریں گے پھر زندگی رہی؛ تو ان شاء اللہ
المولی تعالی ۸؍شوال
کو براؤں شریف حاضر ہوں گے۔احباب اور گھر کے لوگوں کو سلام کہیں، بچوں کو دعائیں۔فقط
و السلام ۔
جلال الدین احمد الامجدی
۱۱؍شعبان
المعظم ۱۴ھ
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کو ۵؍شعبان المعظم کے دن چھٹی ہونے کے بعد حضور
سراج الفقہا دام کرمہ کے والد محترم مرحوم کے انتقال کی خبر ملی؛ تو حضور فقیہ ملت
رحمہ اللہ کو افسوس ہوا کہ اس وقت طلبہ سے قرآن خوانی کراکے ایصال ثواب نہ کراسکے
اور بطور یاد داشت خط ڈسک پر رکھ لیا تاکہ شوال المکرم میں جب طلبہ آئیں؛ تو اس
وقت قرآن پاک کی تلاوت کراکے ممدوح مکرم کے والد ماجد مرحوم کو ایصال ثواب کردیا
جائے، اگرچہ طلبہ چلے گئے تھے مگر آپ نے اسی وقت اپنا ستائیس پارہ قرآن پاک پڑھا
ہوا، انہیں نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ ایصال ثواب کردیا اور یہی نہیں بلکہ حضور
سراج الفقہا دام ظلہ کی دینی خدمات کی وجہ سے آپ کے والد ماجد مرحوم کے لیے قیامت
تک درجات بلند کرنے کی دعا فرمائی، حضر فقیہ ملت رحمہ اللہ کا سراج الفقہا دام
کرمہ سے یہ وہ گہرا قلبی لگاؤ تھا جسے صالح قلب والے ہی سمجھ کر اسے قبول کرسکتے
ہیں۔
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ ایک
دوسرے خط میں لکھتے ہیں:
محترم فقیہ اسلام حضرت علامہ
مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی زیدت محاسنکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علامہ بدر الدین علیہ
الرحمۃ اور والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ نے ایک ہی مسئلہ یعنی مرتد سے
قلبی لگاؤ کے متعلق فتوی لکھا تھا،مگر دونوں حضرات کے فتاوی میں کچھ اختلاف تھا،
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے دونوں فتاوی حضور سراج الفقہا دام ظلہ کے پاس بطور
استفتا ارسال فرمایا اور دونوں فتاوی میں جو بھی خامیاں ہوں، انہیں اجاگر کرکے
استفتا کا جواب طلب کیا، قارئین کرام اسے حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ تعالی کی زبانی
ملاحظہ فرمائیں:
’’دونوں
فتوے آپ کے سامنے ہیں، ان میں جو خامیاں ہوں، انہیں ظاہر کرتے ہوئے، آپ استفتا
کا جواب تحریر فرمائیں‘‘۔ (خط ص۲)
جلا الدین احمد الامجدی
۴؍صفر
المظفر ۱۴۱۵ھ
اپنے ایک خط میں حضور فقیہ ملت
رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
باسمہ تعالی و الصلاۃ و السلام علی رسولہ الاعلی
فقیہ اسلام حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین صاحب
رضوی زیدت محاسنکم۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، خیریت طرفین،
بارگاہ رب العزت نیک مطلوب۔
مندرجہ ذیل مسئلہ میں اپنی تحقیق انیق سے مطلع
فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلال الدین احمد الامجدی
۲۲؍محرم
الحرام ۲۰ھ
قربان جائیے حضور فقیہ ملت رحمہ
اللہ کی اصاغر نوازی، حوصلہ افزائی اور عدم انا و تکبر پر کہ آپ نے اپنے سے کم
عمر حضور سراج الفقہا دام فضلہ سے دونوں فتاوی کی خامیاں بیان کرکے استفتا کے جواب
کا مطالبہ کیا اور ایک دوسرے جدید مسئلہ میںآپ کی تحقیق طلب فرمائی، اس عمل سے
جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ پوری دنیاے سنیت کے فقیہ ملت ہونے
کے باوجود ’میں میں‘ سے پاک و صاف تھے اور اپنے سے چھوٹی عمر والوں سے بھی فقہی
جواب لینے اور اصلاح قبول کرنے سے عار محسوس نہیں کرتے تھے، وہیں یہ بھی واضح ہوا
کہ حضور محقق مسائل جدیدہ دام کرمہ آپ کی نظر میں حقیقی معنوں میں فقیہ تھے بلکہ
فقہ کے اعلی درجہ پر فائز تھے، میں میں کرنے والے ہر عالم، فقیہ اورہر عام و خاص
میں سے عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے فقیہ ملت رحمہ اللہ کے اس اعلی کردار میں عظیم
عبرت ہے۔
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ حضور
سراج الفقہا دام کرمہ کی کتاب: ’جدید بینک کاری اور اسلام‘ کی تصدیق جمیل میں
فرماتے ہیں:
’’فقیہ
اسلام حضرت مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی زید مجدہم کا رسالہ ’جدید بینک
کاری اور اسلام‘ کا ہم نے بالاستیعاب مطالعہ کیا جس میں فاضل جلیل نے امریکہ،
فرانس، برطانیہ، جرمن، پرتگال، نیپال، اور ہندوستان جیسی حکومتوں کے بینک و ڈاک
خانے میں اور ان ممالک کے غیر مسلم باشندے جو ذمی و مستامن نہیں ہیں، ان کے پاس
روپیہ رکھنے میں اصل سے زائد رقم لینے کے جواز پر اور دیگر مسائل سے متعلق جو
تحقیق پیش کی ہے، میں اس سے پورے طور پر متفق ہوں‘‘۔ (ص۲۵)
حضور
سراج الفقہا دام ظلہ کی کتاب: ’شیر بازار کے مسائل‘ پر حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کی
پوری تصدیق جمیل من و عن بنظر عبرت ملاحظہ فرمائیں:
’’عالم
نبیل، فقیہ جلیل، حضرت علامہ الحاج مفتی نظام الدین صاحب رضوی زید مجدہم نے اپنی
گراں مایہ تصنیف میں ازالہ شبہات کے ساتھ ساتھ واضح دلائل پر اپنی تحقیقات کی
بنیاد رکھی ہے، دنیاے اسلام کی عبقری شخصیت، فقیہ بے بدل، مجدد اعظم سیدنا امام
احمد رضا رضی اللہ عنہ کے فتوی پر سیر حاصل بحث کرنے اور اس کے مضمرات کی بھرپور
وضاحت پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں، یقینا عزیز موصوف اہل سنت و جماعت کے
لیے سرمایہ افتخار ہیں، ان کی دقیق نظر اور باریک بینی دوسروں کے لیے فکر ساز اور
رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔
میں ان کی اس تحقیق سے پورے طور
پر متفق ہوں، اور دعا کرتا ہوں کہ خداے عز وجل ان کی عمر میں خیر و برکت عطا
فرمائے، ہمیشہ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے، اس طرح کے مشکل مسائل حل کرنے کی
انہیں مزید توفیق رفیق بخشے اور ان کی ساری دینی خدمات کو قبول فرماکر اجر جزیل و
جزاے جلیل سے سرفراز فرمائے، آمین بحرمۃ سید المرسلین صلوات اللہ تعالی و سلامہ
علیہ و علیہم اجمعین۔
جلال الدین احمد امجدی
۲۴؍شعبان
المعظم ۱۴۱۷ھ
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے
اپنی ان دونوں تقریظ جمیل میں حضور سراج الفقہا دام ظلہ کی تحقیق سے اتفاق کیا،
آپ کو فقیہ جلیل سے یاد کیا، آپ کی کتاب: ’شیربازار کے مسائل‘کو گراں مایہ تصنیف
قرار دیا، حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت رحمہ اللہ کے فتوی پر آپ کی سیرحاصل بحث
اور مضمرات کی بھرپور وضاحت پر مبارکباد پیش کی، آپ کو عزیز موصوف سے یاد فرمایا،
آپ کو اہل سنت و جماعت کے لیے سرمایہ افتخار قرار دیا، آپ کی دقیق نظر اور باریک
بینی کو دوسروں کے لیے فکر ساز اور رہنما اصول بتایا اور آپ کی عمر میں خیر و برکت،
ہمیشہ صحت و سلامتی، مزید مشکل مسائل حل کرنے کی توفیق اور ساری دینی خدمات قبول
کرنے کی دعا کے ساتھ اجر جزیل و جزاے جلیل عطا کرنے کی دعا فرمائی، مگر اللہ تعالی
ان لوگوں کو ہدایت دے جنہوں نے اپنوں کو اپنوں سے دور کرنے کی سازش رچی اور غیر
دور رس نگاہ والے اس سازش کے شکار ہوگئے، اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطا
فرماکر اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ
اللہ اپنے ایک خط میں مزید تحریر فرماتے ہیں:
باسمہ تبارک و تعالی
محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین
صاحب رضوی زیدت محاسنکم۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، عوافی طرفین
مطلوب۔
افتا کے مراسلاتی کورس کرنے والوں کا امتحان آپ
ہی کو لینا ہے، جس کا ذکر میں آپ سے پہلے بھی کرچکا ہوں۔
دستار مفتیان اسلام کا اجلاس ۵؍صفرالمظفر ۲۲ھ مطابق ۲۹؍اپریل ۲۰۰۱ء بروز یک شنبہ ہونا طے پایا
ہے؛ لہذا آپ ۴؍صفر
المظفر ۲۲ھ بروز
شنبہ ۲۸؍اپریل
کی شام کو یہاں ضرور تشریف لے آئیں کہ اتوار کی صبح امتحان ہوگا اور رات میں
دستار بندی ہوگی۔
دعوت اور زاد راہ پیش کرنے کے لیے عزیزم مولانا
محمد ابرار احمد امجدی کو بھیج رہا ہوں۔
حضرت سربراہ اعلی صاحب، حضرت علامہ مصباحی صاحب
اور جامعہ اشرفیہ کے دیگر اساتذہ کو السلام علیکم، فقط و السلام۔
جلال الدین احمد الامجدی
۲؍ذو
الحجہ ۲۱ھ
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے اس
دار فانی سے کوچ کرنے سے چھ مہینے قبل ۲؍ذوالحجۃ
۲۱ھ حضور سراج الفقہا دام ظلہ کو
خط لکھا، اس میں ۵؍صفر
المظفر ۲۲ھ کو
دستار مفتیان کا اجلاس ہونے سے ایک دن پہلے مراسلاتی کورس کرنے والوں کا امتحان
لینے کی دعوت دی، امتحان آپ ہی کو لینا ہے اور آپ یہاں ضرور تشریف لائیں جیسے
جملے سے تاکید بھی فرمائی، یقینا یہ حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کی طرف سے حضور سراج
الفقہا دام ظلہ پر شفقت و محبت تھی اور اس کا برملا اظہار بھی تھا۔
آداب اختلاف فقہا :
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ آداب
اختلاف فقہا سے بخوبی واقف ہونے کے ساتھ اس پر عامل بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کا
فتوی لاؤڈسپیکر پر نماز کے عدم جواز اور سراج الفقہا دام ظلہ کا فتوی اس پر جواز
کا تھا، اس اختلاف کے باوجود بھی والد ماجد فقیہ ملت رحمہ اللہ آپ کا احترام کرتے
اور آپ کی عزت اور حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اورآپ کو مرکز تربیت
افتا میں بحیثیت فقیہ و محقق دعوت دیتے بلکہ حد تو یہ ہے کہ حضور فقیہ ملت رحمہ
اللہ کے اس دار فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ذمہ داران کے سامنے آپ ہی کو مرکز
تربیت افتا کی ذمہ داری سونپنے کے علاوہ کوئی چار کار نہیں رہا، خیر اس اختلاف کے
باوجود آپ نے سراج الفقہا دام کرمہ کی لاؤڈسپیکر پر کی گئی تحقیق کو سراہا اور
اس کی تعریف کی، آپ بھی حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کی اس وسعت قلبی کو ملاحظہ
فرمائیں، آپ اپنی بڑی ہمشیرہ کی لڑکی کے صاحبزادے عالی جناب محمد احمد عرف ببلو
ٹانڈوی سے ان کے گھر پر بات کرتے ہوئے کھلے دل سے یوں اظہار خیال فرماتے ہیں:
’’ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ جامعہ
اشرفیہ، مبارکپور کی جانب سے مخالفین کے سیمینار میں شرکت کرتے ہیں، وہاں پر بھی
جدید مسائل میں ان کی فقہی مہارت کا لوہا مانا جاتا ہے، ان شاء اللہ مستقبل میں
یہی فقہ و فتاوی میں مرجع خلائق اور سب سے آگے ہوں گے، انہوں نے لاؤڈسپیکر پر
نماز کے جواز سے متعلق اپنی بہترین تحقیق انیق صفحہ قرطاس کردی ہے، مگر اس تحقیق
کو ہم لوگوں کے لحاظ میں منظر عام پر نہیں لارہے ہیں‘‘۔
آج بعض لوگوں کو حضور سراج
الفقہا دام ظلہ کے متعلق حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کی طرف سے کی گئی یہ عزت افزائی،
تفقہ فی الدین میں ملکہ حاصل ہونے کا اعتراف اور اعلی درجہ کا قلبی لگاؤ ایک
آنکھ نہیں بھاتا بلکہ بعض لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: جس وقت حضور فقیہ ملت
رحمہ اللہ نے یہ بات کہی تھی اس وقت حضور سراج الفقہا دام ظلہ کی وہ حرکتیں نہیں
تھیں جو وہ آج کل کر رہے ہیں!
جان عزیز عرض ہے کہ اگر حرکتوں
سے فروعی مسائل میں تحقیق کی بنا پر اختلاف مراد ہے؛تو میں کہتا ہوں ایسی نیک
حرکتیں باعث برکت ہیںاور یہ وہ چیز ہے جو حضور سراج الفقہا دام ظلہ کے اندر حضور
فقیہ ملت رحمہ اللہ کی حیات ہی میں تھی جس پر لاؤڈسپیکر کا مسئلہ شاہد عدل ہے
بلکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں بلاواسطہ خود حضور سراج الفقہا دام ظلہ کا حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ سے اختلاف تھا مگر
فقہی فروعی مسائل میں اختلاف پر ان کی اعتدال پسندی اور اعلی ظرفی پر قربان جائیے
کہ کبھی اس اختلاف کی وجہ سے آپس میں کوئی دراڑ نہیں پڑی بلکہ اعتراف تحقیق و
تدقیق کا مزید جذبہ بڑھتا گیا اور حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے اس کا کھل کر اظہار
بھی کیا۔
اور اگر عقیدہ و عمل کی بات ہے؛
تو الحمد للہ حضور سراج الفقہا دام ظلہ کا عقیدہ و عمل دونوں سلامت ہے بلکہ آپ
اعلی درجہ کے متقی و پرہیزگار ہیں، اعلی اخلاق و کردار آپ کا بہترین زیور ہے اور
تکبر و انانیت آپ کو چھو کر بھی نہیں گزری اور ان شاء اللہ تا حیات انہیں اوصاف
حمیدہ پر برقرار رہیں گے؛ اس لیے حق یہ ہے کہ اگر آج حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ با
حیات ہوتے؛ تو ڈنکے کی چوٹ پر حضور سراج الفقہا کی حوصلہ شکنی کے بجائے مزید حوصلہ
افزائی فرماتے اور ان کے آگے بڑھنے کے لیے راہیں ہموار فرماتے۔
ہمیں بھی حضور فقیہ ملت رحمہ
اللہ کے اس اعلی کردار اور وسعت قلبی سے عبرت حاصل کرکے ان کے نقش قدم پر چلنے کی
کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالی حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کی مسائل کے متعلق اس وسعت
قلبی کا ہمیں بھی کچھ چھینٹا عطا فرمائے، آمین۔
فقیہ اسلام سے مفتی اعظم ہند تک:
حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید اور حدیث
شریف پڑھنے کے ساتھ فقہ کا زیادہ مطالعہ کرو کہ اللہ و رسول کے نزدیک سب سے بڑا
عالم وہی ہوتا ہے جو فقہ میں زیادہ ہوتا ہے اگرچہ دوسرا حدیث و تفسیر سے زیادہ
اشتغال رکھتا ہو‘‘۔
حضور
فقیہ ملت رحمہ اللہ کے اعتبار سے اللہ و رسول کے نزدیک سب سے بڑا عالم وہی ہوتا ہے
جو فقہ میں زیادہ ہوتا ہے اور اس میں دو رائے نہیں کہ حضور سراج الفقہا دام ظلہ
فقہی بصیرت اور تفقہ فی الدین میں امتیازی شان رکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ حضور فقیہ
ملت رحمہ اللہ جیسے محتاط عالم و فقیہ نے آپ کی علمی شخصیت کو تسلیم کیا، صرف
تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ بتدریج آج سے پچیس سال پہلے ۱۴۱۳ھ میں آپ کو فقیہ اسلام سے یاد
کیا اور آج سے اٹھارہ سال قبل آپ کو محقق مسائل جدیدہ سے یاد فرمایا، نیز آپ کے
بارے میں دو مرتبہ ’مفتی اعظم‘ ہونے کی پیشین گوئی فرمائی:
(الف) غالبا جامعہ اشرفیہ میں منعقد ۱۹۹۳ء کے پہلے سیمینار کے موقع پر
حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے ’شیر بازار‘ کے متعلق حضور سراج الفقہا
دام ظلہ کی تحقیق اورآپ کی تحقیق پر اعتراضات کے جوابات سننے کے بعد آپ سے
فرمایا: ’’آپ مستقبل کے فقیہ اعظم ہونگے‘‘۔
(ب) والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے
انتقال سے تقریبا دو سال پہلے ایک بار ’فتاوی رضویہ‘ کے کسی مسئلہ کے متعلق آپ کی
نظر میں تعارض پیش آیا، مگر کوشش کے باوجود، وہ تعارض ختم نہیں ہوا، جب حضور سراج
الفقہا دام ظلہ بحیثیت ممتحن ’مرکز تربیت افتا‘ تشریف لائے؛ تو حضور فقیہ ملت رحمہ
اللہ نے بلاتامل سراج الفقہا دام ظلہ کے سامنے وہ مسئلہ رکھا، آپ نے کچھ وقت غور
و فکر کرنے کے بعد دفع تعارض پیش کردیا؛ تو اس وقت بھی حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ نے
حدیث شریف کے مطابق کہ لوگوں کو ان کا مقام دو، آپ نے یہ برجستہ کہنے پر کوئی
جھجھک محسوس نہیں کی: ’’آپ مستقبل کے مفتی اعظم ہونگے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دور
حاضر کے علما و فقہا کے درمیان حضور سراج الفقہا دام ظلہ کے اندر جو فقہی تحقیق و
تدقیق اور تنقید و تصنیف کی صلاحیت پائی جاتی ہے، کسی کے اندر ملنا مشکل ہی نہیں
بلکہ بہت مشکل ہے، بلکہ بعض وہ مسائل جن کی وجہ سے آپ کو طعن و تشنیع کا نشانہ
بنایا گیا، آج تقریبا پوری یا اکثر امت مسلمہ انہیں مسائل پر عمل کر رہی ہے یا
عمل کرنے پر مجبور ہے، اگر دور حاضر میں آپ جیسا فقیہ، محقق و مدقق چراغ لے کر
ڈھونڈا جائے؛ تو ملنا بہت بعید ہے؛ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حضور سراج
الفقہا دام کرمہ اپنے وقت کے ’مفتی اعظم‘ ہیں؛ لہذا آپ کا یہ حق ہے کہ آپ کو
دوسرے القاب کے ساتھ ساتھ، اس عظیم لقب خاص ’مفتی اعظم ہند‘ سے بھی یاد کرکے آپ
کی حوصلہ افزائی کی جائے اور آپ کی عظیم خدمات اور قربانیوں کو سراہا جائے۔
محقق مسائل جدیدہ اور مرکز
تربیت افتا:
والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ
اللہ جب اس دار فانی سے 1422ھ مطابق 2001ء
میں کوچ کرگئے؛ تو تربیت افتا کے موجودہ طلبہ پر اس کا بڑاگہرا اثر پڑا، انہوں نے
اس ’مرکز تربیت افتا‘ کو چھوڑکر دوسرے ادارہ میں منتقل ہونے کا ارادہ کیا، یقینا
ان کا یہ اقدام حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے خون پسینے سے سینچے ہوئے اس چمن کے لیے
بہت بڑا خسارہ ہوتا، اس عظیم خسارہ سے ادارہ کو بچانے کے لیے منتظمین مدرسہ نے آپ
کے عرس چہلم کے موقع پر اکابرین علما کی ایک میٹنگ منعقد کی، علما و مفتیان کرام
کی بھیڑ میں ان علما ے ذوی الاحترام کی نظر انتخاب سراج الفقہا حضرت مفتی محمد
نظام الدین رضوی دام ظلہ پڑی، انہیں کی شخصیت پر سب کا اتفاق ہوگیا، مگر سراج
الفقہا دام ظلہ نے اپنی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے معذرت چاہی، پھر جب علماے
کرام نے اصرار کیا؛ تو آپ نے خاموش زبان میں ہاں بھرلی، لیکن کوشش کے باجود بھی
اس اہم امر کے لیے اپنا زیادہ وقت نہ دے سکے، پھر کچھ دنوں بعد جب رمضان کے مبارک
مہینہ میں شہزادہ فقیہ ملت مفتی محمد ابرار احمد امجدی، ناظم اعلی مرکز تربیت افتا
اور مفتی اختر حسین علیمی، دار العلوم علیمیہ، جمدا شاہی، جامعہ اشرفیہ گئے اور
سراج الفقہا دام فضلہ کے سامنے ساری باتیں رکھیں؛ تو آپ وقفے وقفے سے اوجھاگنج
تشریف لانے لگے اور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے لگائے ہوئے چمن مرکز تربیت افتا سرسبز و
شاداب رکھنے کے لیے طلبہ کے ساتھ شہزادہ فقیہ ملت مفتی ابرار احمد امجدی صاحب قبلہ
کی بہترین و عمدہ تربیت شروع کردی۔
تربیت کا طریقہ کار: حضور سراج
الفقہاء دام کرمہ کی تربیت کا طریقہ کار یہ تھا کہ فتاوی کی تصدیق پہلے مفتی ابرار
احمد امجدی، ناظم اعلی مرکز تربیت افتا کرتے، پھر جب آپ اوجھاگنج تشریف لے جاتے؛
تو آپ ان پر نظر ثانی فرماتے، اگر کہیں اصلاح کی ضرورت پڑتی؛ تو اس کی اصلاح کرتے
اور طلبہ کو بھی اپنے مفید مشوروں سے نوازتے اور فقہی معاملات میں ان کی بہترین
رہنمائی کرنے کی کوشش کرتے، اسی درمیان آپ نے ایک عمدہ کام یہ بھی کیا کہ بہار
شریعت کے ہر حصہ سے باب در باب سوالات مرتب کرکے دے دیا اور یہ رہنمائی فرمادی کہ
کونسا مسئلہ کہاں ملے گا اور اس کی اصلاح کیسے کی جاے گی، نیز مشق افتا متعلق اصول
و آداب بھی مرتب فرمادئیے تاکہ اس کی روشنی میں طلبہ جہد مسلسل کرکے فتوی نویسی
میں مہارت حاصل کرسکیںاور قوم و ملت کے لیے سرمایہ افتخار بنیں۔
مرکز تربیت افتا کی مدت خدمت:
حضور سراج الفقہا دام ظلہ العالی نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اسی طرح
تقریبا بارہ سال تک مرکز تربیت افتا کی عظیم خدمت انجام دیتے رہے، پھر اپنے بعض
کرم فرماؤں کی کرم فرمائی اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے صدر شعبہ افتا، شیخ
الحدیث اور صدارت کے عظیم منصب کے سنبھالنے اور مزید دیگر مصروفیات کی وجہ سے مرکز
تربیت افتا کو خاطر خواہ وقت دینے سے قاصر ہوگئے؛ اس لیے آپ سن 2016ء میں یہ کہتے
ہوئے اپنی ذمہ داری سے دست بردار ہوگئے: ’’میں نے مولانا ازہار احمد امجدی کو
جامعہ ازہر، مصر جانے سے پہلے ہی خوب توجہ سے دو سال فتوی نویسی کی تربیت دی ہے
اور مفتی ابرار احمد امجدی صاحب بھی اس لائق ہوگئے ہیں کہ طلبہ کی نگرانی باآسانی
کرسکیں، اس پر مفتی ابرار امجدی صاحب قبلہ نے عرض کیا: ’’حضور ہم دونوں بھائی مل
کر اس کو صحیح طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کریں گے اور اگر کسی مسئلہ میںتامل
ہوا؛ تو آپ کی بارگاہ میں رجوع کرکے تبادلہ خیال کرلیں گے‘‘۔
الحمد للہ راقم الحروف محدث
کبیر، سراج الفقہا دام ظلہما نیز برادر اکبر حضرت مولانا انوار احمد قادری زید
مجدہ، سجادہ نشیں خانقاہ امجدیہ و سربراہ اعلی مرکز تربیت افتا کی سرپرستی اور
برادر کبیر حضرت مولانا مفتی محمد ابرار احمد امجدی زید مجدہ، ناظم اعلی مرکز
تربیت افتاکی نگرانی وصدارت میں حتی الامکان شعبہ فتوی نویسی کو سنبھالنے کی کوشش
کر رہا ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنی توفیقات سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار
احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہرشریف،
مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت
فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳۰؍ذوالقعدۃ
۱۴۳۹ھ مطابق ۱۲؍اگست ۲۰۱۸ء
ای میل:amjadiazhari@gmail.com
موبائل نمبر:8318177138
(تقدیم سالنامہ مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی)
(تقدیم سالنامہ مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی)
No comments:
Post a Comment