Friday, September 6, 2019

مفتی مالوا مفتی حبیب یار خاں قدس سرہ

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
اس دار فانی سے کوچ کرکے دار بقا کی طرف ہر آدمی کو ایک دن جانا ہے، مگر ان میں سے کچھ لوگوں کا اس طرح جانا ہوتا ہےکہ وہ اپنی نسل اور قوم پر اپنے جانے کا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں، اور ایک طویل زمانہ تک اپنے بہترین علمی،  دینی و ملی خدمات کی بنیاد پر جانے پہچانے جاتے ہیں، انہیں خوش قسمت افراد میں سے پیر طریقت حافظ و قاری الحاج مفتی محمد حبیب یار خاں قدس سرہ مفتی مالوا کی ذات بابرکت ہے، آپ  فراغت کے بعد سے لے کر اپنی آخری عمر تک پورے ہندوستان بالخصوص مالوا، مدھ پردیش میں دین و سنیت کی عمدہ خدمات دینے کے بعد  بروز دوشنبہ ۲۷؍شوال المکرم۱۴۴۰ھ مطابق۱؍جولائی ۲۰۱۹ء میں اہل سنت و جماعت کو داغ مفارقت دے گئے۔
آپ کی مستعار زندگی کا مختصر خاکہ یہ ہے کہ آپ ۲۷ دسمبر ۱۹۴۷ء میں مدھ پردیش کے مشہور شہر اندور کے ایک چھوٹے سے محلہ جونہ رِسالہ میں پیدا ہوئے، دار العلوم امجدیہ ناگپور سے ۱۹۷۳ میں آپ کی فراغت ہوئی، آپ نے ۱۹۷۳ء میں فراغت کے بعد سے لے کر آخری عمر تک دار العلوم نوری، اندور میں ایک اہم مدرس کی حیثیت سے خدمت انجام دی، اور تقریبا ۳۳ سال تک بحسن و خوبی فتوی نویسی جیسا عظیم منصب سنبھالے رہے، آپ نے اس مدرسہ کی بحیثیت صدر و مہتمم بھی ذمہ داری بخوبی نبھائی، آپ ۱۹۷۸ ء میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان کی  خلافت سے نوازے گئے، آپ نے تبلیغی دوروں اور دیگر مصروفیات کے باوجود تین کتابیں بھی تصنیف فرمائیں، وہ یہ ہیں: حی علی الصلاۃ، نورانی لمحات، تھانوی کا فقہی مقام، نیز آپ کے فتاوی کو بنام ’فتاوی مفتی مالوا‘ منظر عام پر لانے کی تیاری چل رہی ہے(الحجاز انٹرویو، گوالیار، اپریل ۲۰۰۸ء)
یوں تو آپ کے اوصاف حمیدہ جو پڑھنے میں آئے وہ سبھی قابل ستائش اور قابل رشک ہیں، مگر یہ وہ اوصاف ہیں جن میں بہت سارے علما و مفتیان کرام شریک ہوتے ہیں، لیکن آپ کی ذات ان بہت سارے علما ے کرام کی عام صفات سے ہٹ کر  کچھ مزید اوصاف و افکار کی متحمل تھی، ذیل میں انہیں اوصاف پر میں کچھ تفصیلی روشنی ڈالنے کوشش کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
(الف) شہر کے بچوں کو عام طور سے دینی تعلیم سے شغف کم ہوتا ہے اور اگر کسی طرح اس کی طرف توجہ ہوتی بھی ہے؛ تو وہ فراغت کے بعد عموما دینی و ملی خدمات اور ان چیزوں کے لیے قربانیاں دینے سے گریز کرتے ہیں یا پھر گریز کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر مفتی مالوا اندور جیسے بڑے شہر میں پرورش پانے کے باوجود بچپن ہی سے دینی تعلیم سے لگاؤ رکھتے تھے اور فارغ ہونے کے بعد بھی بڑی ہمت و جاں فشانی کے ساتھ آپ نے اسی تعلیم سے لگاؤ رکھا اور بحیثیت مبلغ،  عالم، مفتی، صدر اور مہتمم آخری عمر تک دینی و ملی خدمات انجام دیتے رہے، ہر شہر کے ایک معتد بہ علماے کرام اور طالبان علوم نبویہ  کو  مفتی مالوا قدس سرہ جیسی عملی زندگی پیش کرنے اور دین و سنیت کے لیے قربانی دینے کی سخت ضرورت ہے۔
(ب) مفتی مالوا قدس سرہ طالبان علوم نبویہ کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ ماڈرن ایجوکیشن کے خواہاں اور اس کے لیے پیش قدمی کرنے والوں میں سے تھے؛ تاکہ یہ طالبان علوم نبویہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے مزین ہوکر میدان عمل میں آئیں، آپ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’ہمیں دار العلوم نوری کو بہت آگے لے جانا ہے، فی الحال شعبہ کمپیوٹر، شعبہ افتا جاری ہے، اور اس میں ٹیکنیکل کورسیز شروع کرنا ہے؛ تاکہ علما کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم سے بھی آراستہ کیا جاسکے‘‘۔(الحجاز انٹرویو، گوالیار، اپریل ۲۰۰۸ء)
یہ وقت کی آواز ہے کہ علما کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی مزین کیا جائے؛ تاکہ ان کی دوڑ صرف مدرسہ سے مسجد تک محدود نہ رہے بلکہ دینی و عصری تعلیم و صلاحیت کی بنیاد پر مسجد و مدرسہ سے لے کر دنیا کے ہر گوشہ میں ان کا عمل دخل نظر آئے اور وہ اپنے تشخص کے ساتھ کہیں بھی کسی سے بیش نہیں تو کم بھی نہ رہیں، عام طور سے علماے کرام  اولا طالبان علوم نبویہ کے لیے عصری علوم کے متعلق  بات پر کان ہی نہیں دھرتے اور اگر متوجہ بھی ہوتے ہیں؛ تو عموما صرف سوچنے اور کہنے تک محدود ہوتا ہےمگر مفتی مالوا قدس سرہ نے طالبان علوم نبویہ کے لیےعصری تعلیم کے بارے میں صرف سوچا اور بولا ہی نہیں بلکہ اس کو ایک حد تک عملی جامہ بھی پہنایا اور مزید اس میں اعلی درجہ کی ترقی کے خواہش مند رہے، دور حاضر کے علما و ذمہ داران کو منظم طریقہ سے مفتی مالوا قدس سرہ کے اس فکر کی ایک عملی آواز بن کر سامنے آنے کی ضرورت ہے۔
 (ج) مفتی مالوا قدس سرہ کے اندر قوم مسلم کے لیے درد تھا؛ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ قوم مسلم کے درمیان کوئی ایسا سسٹم ہو جس میں ان کے دینی و ملی مسائل باآسانی  حل کرکے انہیں آئے دن کوٹ کچہری کے چکر کاٹنے سے بچایا جاسکے، اسی عظیم مقصد کے تحت آپ نے اندور میں ’تحفظ شریعت بورڈ‘ کا قیام عمل میں لایا، آپ نے اس بورڈ کی باگ و ڈوربحیثیت صدر سنبھالی اور اس کے ذریعہ قوم مسلم کے دینی و ملی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے رہے، آپ انٹرویو کے ایک سوال کے جواب میں بورڈ کے متعلق کچھ اس طرح اظہار خیال فرماتے ہیں:
’’تحفظ شریعت بورڈ کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا جس سے مسلمانوں کے نکاح، طلاق اور آپسی معاملات کو سلجھایا جاسکے، جس سے مسلمانوں کو کورٹ کچہری کے چکر نہ لگانے پڑیں، شاہ بانو کیس اور بہت سے کیس حل کیے جارہےہیں، جس مقصد کے تحت وہ قائم ہوا وہ کام ہورہا ہے‘‘۔(الحجاز انٹرویو، گوالیار، اپریل ۲۰۰۸ء)
ہندوستان کا کورٹ سسٹم کتنا مجروح ہوچکا ہے، یہ ہر کس و ناکس پر تقریبا واضح و بین ہے، مگر اس کے باوجود آج قوم مسلم شریعت کا مضبوط دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے، جہاں منٹوں، گھنٹوں، دن، دو دن، ہفتہ اور دو ہفتہ میں مسائل باآسانی اور اطمینان بخش حل ہوجاتے ہیں، ایسے کورٹ کی دہلیز پر اپنا سر نیاز خم کرتی ہے، جہاں مہینوں، سالوں بلکہ عموما زندگیاں بیت جاتی ہیں، مگر مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے، اور اگر کچھ حل بھی ہوتے ہیں تو اکثر ان میں انہیں لوگوں کی فتح یابی ہوتی ہے جو روپیے والے ہوتے ہیں، اس طرح عموما ایک مظلوم اپنی مظلومیت کی بھیک مانگتے مانگتے ہار مان جاتا ہے اور ظالم اپنے روپئے کے بل بوتے اپنے سفید لبادہ میں ظلم کا ننگا ناچ ناچتا دکھائی دیتا ہے، مفتی مالوا قدس سرہ نے جس ضرورت کے پیش نظر بورڈ کا قیام کیا تھا، اسی کے پیش نظر دور حاضر میں ہمارے ہر عالم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم مسلم کے لیے اس طرح کا انتظام و انصرام کریں اور ان کو اس طرف بھر پور توجہ بھی دلائیں؛ تاکہ قوم مسلم بے مقصد پانی کی طرح روپئے بہانے سے بچے، اپنی اور اپنے بھائی کی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لے جانے سے روک سکے اور شریعت کے دائرہ میں رہ کر چین و سکون حاصل کرے۔
(د) مفتی مالوا قدس سرہ کی باتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندر یہ بے مثال وصف بھی موجود تھا کہ آپ قوم مسلم کے درمیان  کام کرنے والے دوسرے افراد کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے،آپ انٹرویو کے ایک سوال کے جواب میں لب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الحجاز کے کچھ شمارے میری نظروں سے گزرے، ماشاء اللہ بہت خوب ہے، اگر اسی طرح محنت سے پابندی کے ساتھ آپ (حضرت مولانا ظفر احمد نوری ازہری زید علمہ) نکالتے رہے؛ تو الحجاز کی ہندوستان میں اپنی ایک پہچان ہوگی اور دین کا کام بھی ہوگا، مدرسہ الحجاز کی کار کردگی سے بھی کافی حد تک مطمئن ہوں؛ کیوں کہ آج سے دس بارہ سال پہلے جب میں گوالیار گیا تھا، اس وقت میں اور اس وقت میں، کافی تبدیلیاں میں نے محسوس کیں، دعا ہے اللہ تعالی خوب برکتیں عطا فرمائے‘‘۔  (الحجاز انٹرویو، گوالیار، اپریل ۲۰۰۸ء)
سرخیل حضرات کے ذریعہ دور حاضر بلکہ ہر دور میں کام کرنے والے بالخصوص نوجوانوں  کی اپنی استطاعت کے مطابق قابل قدر حوصلہ افزائی ہونی چاہیے؛ تاکہ کام کرنے والا مزید اپنے کام میں تیزی پیدا کردے اور اس کے کام میں مزید نکھار پیدا ہوجائے؛ کیوں کہ ہر ایک کے اندر سرد مہری سے ٹکرانے کی ہمت نہیں ہوتی، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں؛ اس لیے اس  طرف بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر کسی لائق و فائق کے وسیلہ سے دام، درم، سخن یا جیسے بھی ممکن ہو، کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہوجائے اور دین و سنیت کے کام میں مزید تیزی آجائے؛ تو یقینا یہ کام جہاں قوم مسلم کے لیے خوش آئند ہوگا، وہیں حوصلہ افزائی کرنے کے لیے دنیا و آخرت میں ان شاء اللہ سرخ روئی کا سبب بھی بنے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے مفتی مالوا قدس سرہ کے نیک اعمال قبول کرکے ان کی مرقد انور پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے، قبر کو تا حد نگاہ کشادہ کرے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قرب عطا فرمائے، اہل خانہ، رشتہ دار، محبین، مریدین بالخصوص محب گرامی وقار مولانا احمد یار خاں ازہری زید علمہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور ہم سب کو ان کے عملی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، خاص کر حالات حاضرہ کے پیش نظر آپ کے جو عمدہ نظریات و افکار تھے، ان کی بھر پور ترویج و اشاعت کی توفیق سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
دعا جو
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج،بستی، یوپی، انڈیا
۱۳؍ذو القعدۃ ۱۴۴۰ھ مطابق ۱۷؍جولائی ۲۰۱۹ء، موبائل: 8318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts