Tuesday, April 21, 2020

قطب الاولیاء علامہ نووی حیات و خدمات

نام و نسب: آپ کا نام و نسب یحیی بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن محمد بن جمعہ بن حزام ہے، کنیت: ابو زکریاتھی، لقب: محی الدین تھا۔ آپ کی نسبت دو طرف کی جاتی ہے ، ایک تو آپ کے جد امجد ’حزام‘ کی طرف، اور دوسرے ’نوی‘ کی طرف جو ایک گاؤں کا نام ہے،اسی وجہ سے آپ کے نام کے ساتھ ’حزامی‘ اور ’نووی‘ دونوں لکھا جاتا ہے، مگر آپ عرب و عجم میں نووی کی نسبت سے ہی مشہور و معروف ہیں۔
 آپ کی ولادت و پرورش: آپ محرم الحرام کے دوسرے عشرہ   ۶۳۱؁ ہجری میں پیدا ہوئے، آپ سات سال کی عمر میں ایک مرتبہ رمضان کی ستائیسویں رات کو اپنے والد ماجد کے پہلو میں نیند کے مزے لے رہے تھے،آپ کے والد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آپ آدھی رات کو اچانک اٹھ گئے، اور مجھے بیدار کرکے کہا: والد محترم یہ کیسی روشنی ہے جس نے پورے گھر کو تابناک کر رکھا ہے؟! اتنے میں گھر کے سارے لوگ بیدار ہو گئے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے، مگر ہم میں سے کسی شخص کو کوئی چیز نظر نہ آئی، آپ کے والد گرامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اپنے بیٹے کے اس استفسار سے میں سمجھ گیا کہ یہی رات شب قدر ہے۔
ولی اللہ شیخ یاسین بن یوسف مراکشی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے ’نوی‘ گائوں میں بعض لڑکوں کو دیکھا جو’ شیخ یحیی بن شرف نووی علیہ الرحمہ‘ کو اپنے ساتھ کھیلنے پر مجبور کر ہے تھے، جس کی وجہ سے آپ رونے لگے ، مگر آپ رونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت بھی کئے جارہے تھے ۔ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: علامہ نووی علیہ الرحمہ کی قرآن سے اس قدر دلچسپی دیکھ کر میرے دل میں ان کے لیے محبت گھر کر گئی۔ آپ کی یہ قرآن دوستی آنے والے واقعہ سے اور واضح ہوجاتی ہے، ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:آپ کے والد گرامی علیہ الرحمہ نے آپ کو دوکان پر بیٹھا دیا تھا، مگر آپ خرید و فروخت کے ساتھ قرآن کریم بھی پڑھا کرتے تھے، دوکان کی ذمہ داری کے باوجود کبھی آپ کلام اقدس کی تلاوت سے غافل نہ ہوئے، بلکہ اسے ہر حالت میںحرز جاں بنائے رکھا۔ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ ساری چیزیں آپ کی شخصیت میں دیکھنے کے بعد میں ان کے استاذ مکرم کے پاس گیا، اور انہیں وصیت کی: آپ ان کا خوب خیال رکھیں، امید ہے کہ یہ لڑکا کل اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم اور عابد و زاہد ہوگا، ایک عالَم اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس پر آپ کے استاذ نے برجستہ کہا: کیا آپ مستقبل کی خبر دینے والے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اللہ جل شانہ نے میری زبان پر یہ کلمات جاری کردیا۔ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آپ کے محترم استاذ نے میری عجیب و غریب بات کو آپ کے والد محترم علیہ الرحمہ سے بتانے کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی ، جس کی وجہ سے آپ جب حد بلوغ کو پہونچے تو حافظ قرآن ہوچکے تھے ۔
دمشق کی طرف رحلت: علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں انیس سال کا ہوا تو میرے والد گرامی مجھے   ۶۴۹؁ ہجری میں دمشق لے کر چلے گئے، میں نے وہاں پہونچ کر ’مدرسہ رواحیہ‘ میں سکونت اختیار کرلی۔ علامہ سخاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’دار الحدیث الاشرفیہ‘ کی سرپرستی کی ذمہ داری لینے کے بعد بھی آپ نے ’مدرسہ رواحیہ‘ کو الوداع نہ کہا ، آخری عمر تک وہیں قیام پذیر رہے۔
علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے وہاںساڑھے چار مہینے میں’التنبیہ‘ نامی کتاب یاد کرلی تھی، میں نے اس کتاب کو ۵ ربیع الاول  ۶۵۰؁ ہجری میں پوری ایک ہی بیٹھک میں زبانی سنا دی تھی۔نیز آپ فرماتے ہیں: پھر میں نے سال کے باقی دنوں میں ’المھذب‘سے عبادت کے بیا ن کا چوتھائی حصہ یاد کرلیا تھا۔ آپ نے اس کے علاوہ علم نحو میں ’مقدمۃ الجرجانی‘ اور اصول میں’المنتخب‘ بھی یاد کرلی تھی ۔
یہاں سے یہ واضح ہوگیا کہ آپ کا حافظہ کافی قوی اور مضبوط تھا، آپ کتابوں کے یاد کرنے کا اچھا اہتمام کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کا علم کافی ٹھوس اور مضبوط تھا۔ہندوستان کے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو طالبان علوم نبویہ کے لیے نحو و صرف کے علاوہ حدیث اور اصول حدیث، فقہ اور اصول فقہ وغیرہ کے متون یاد کرانے کا التزام کرنا چاہیے تاکہ ان کا علم ٹھوس سے ٹھوس تر اور مضبوط سے مضبوط ترہو۔(اااازہری)
حج کاسفر: علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:   ۶۵۱؁ ہجری رجب المرجب کے شروع میں والد گرامی علیہ الرحمہ کے ساتھ میں نے حج کے لئے رخت سفر باندھا، تقریبا ڈیڑھ ماہ مدینہ منورہ میں قیام رہا۔آپ کے والد محترم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ہم ’نوی‘ گاؤں سے جب حج کے لئے روانہ ہونے لگے، اسی دن سے میرے صاحبزادے کو بخار کی شکایت ہوئی اور یوم عرفہ تک آپ کو لاحق رہا، مگر آپ نے صبر و تحمل سے کام لیا اور کبھی آہ تک نہ بھری۔
حصول علم: آپ علم کے حصول میں دل و جان سے لگے رہے، نماز و روزہ، اور زہد و تقوی وغیرہ میں آپ اپنی پوری زندگی اپنے شیخ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ کے رنگ و ڈھنگ میں ڈ ھلنے کی کوشش کرتے رہے، خاص طور سے جب آپ کے شیخ علیہ الرحمہ کا انتقال ہوگیا تو آپ اور شدت کے ساتھ علم و عمل میں مشغول ہوگئے، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے : آپ اس دور میںبھی ہر دن بارہ سبق جو مندرجہ ذیل کتب اور موضوعات پر مشتمل ہیں لیا کرتے تھے:(۱) الوسیط (۲) المہذب(۳) الجمع بین الصحیحین (۴) صحیح مسلم (۵) ابن جنی کی کتاب: اللمع(۶) ابن السکیت کی کتاب: إصلاح المنطق (۷) التصریف (۸) أصول الفقہ (۹) ابو اسحاق کی کتاب: اللمع(۱۰) فخر الدین رازی کی کتاب: المنتخب (۱۱) أسماء الرجال (۱۲) أصول الدین۔
آپ صرف ان کتابوں کے پڑھنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے ،بلکہ پڑھنے کے ساتھ ان کتابوں کو اپنی گراں قدر تعلیقات سے مزین بھی کیا کرتے تھے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: مجھے اپنی پڑھائی کے دوران جن کتابوں پر جہاں تعلیق لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی لگادیا کرتا تھا، مشکل عبارات کی شرح بھی کردیا کرتا تھا، ضبط کلمات کا بھی اہتمام کیا کرتا تھا، اللہ جل شانہ نے میرے وقت میں خوب برکت دی تھی ، جس کی وجہ سے میں یہ سارے امور بڑی خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہونچا دیا کرتا تھا۔آپ کی شخصیت علم حاصل کرنے ، جلدی نیند کی آغوش میں نہ جانے، اوقات کی حفاظت کرنے، لکھنے یا مطالعہ کرنے، یا شیوخ سے فیض حاصل کرنے میں علماے کرام کے درمیان ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اگر آج بھی مدارس اسلامیہ کے طلبہ خلوص اور محبت ،محنت اور لگن ، تقوی اور پرہیزگاری کا دامن مضبوطی سے پکڑ کر کتب کا مطالعہ کریں، کھیل کود اور بے جا تنقید میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کو پڑھنے لکھنے میں لگائیں تو ان شاء اللہ وہ بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے علامہ نووی علیہ الرحمہ کی طرح کتابوں پر تعلیقات اور حواشی لگا سکتے ہیں۔ (اااازہری)
آپ کے شیوخ: (۱) علم فقہ میں آپ کے سب سے پہلے شیخ امام زاہد و عابد علامہ ابو ابراہیم اسحاق بن احمد بن عثمان مغربی مقدسی علیہ الرحمہ ہیں،اس فن میں زیادہ تر فیض آپ نے انہیں سے حاصل کیا ہے، ان کے علاوہ بھی فقہ میں آپ کے قابل قدر اساتذہ ہیں۔
(۲) طریقت میں آپ کے استاذ ولی اللہ شیخ یاسین مراکشی علیہ الرحمہ تھے، علامہ نووی علیہ الرحمہ آپ کی بارگا ہ میں حاضر ہونے کے وقت ادب ملحوظ رکھتے تھے،آپ کی برکتیں پانے کے لیے پر امید نظر آتے تھے، اور معاملات وغیرہ میں آپ ان سے مشورہ بھی لیا کرتے تھے۔
(۳) قراء ت میں آپ کے شیوخ کے اسما ذکر نہیں کیے گئے ہیں، البتہ لخمی نے یہ بتایا ہے : آپ قراء ت سبعہ کے عالم تھے،جس سے ایک امکانی صورت نظر آتی ہے کہ شاید آپ نے قراء ت سبعہ کی تعلیم ابوشامہ سے حاصل کی تھی۔
(۴) آپ نے فقہ حدیث محقق ابو اسحاق ابراہیم بن عیسی اندلسی شافعی علیہ الرحمہ سے حاصل کی، پھر حدیث کی سماعت فرمانے اور اس کے متعلقات کی معرفت حاصل کرنے کے لیے آپ نے امام محدث کبیر علامہ ضیا بن تمام حنفی علیہ الرحمہ کی درسگاہ کو لازم پکڑ لیا تھا، آپ اس فن میں انہیں کی بارگاہ کے پروردہ ہیں۔اس فن میں ان کے علاوہ اور بھی آپ کے دوسرے اساتذہ ہیں۔
(۵) لغت، نحو اور صرف وغیرہ میں بھی آپ نے مہارت حاصل کی، چنانچہ آپ نے ابن جنی کی کتاب ’اللمع‘ فخر مالکی علیہ الرحمہ سے پڑھی ، اور ابن السکیت کی کتاب کا درس’إصلاح المنطق‘ شیخ ابو العباس احمد بن سالم نحوی مصری علیہ الرحمہ سے لیا،آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ مذکورہ کتابوں کے علاوہ ان فنون کی دیگر کتابوں کے علوم سے بھی آپ سیراب ہوئے۔
(۶) اصول فقہ میں فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی کتاب’ المنتخب‘ علامہ قاضی ابو الفتح عمر بن بندار بن عمر بن علی تفلیسی شافعی علیہ الرحمہ سے پڑھی، اس کے علاوہ اس فن کی دیگر کتابیں بھی آپ کو بڑے بڑے شیوخ سے پڑھنے کا موقع ملا۔
آپ کی مسموعات: آپ نے احادیث وغیرہ کی بہت ساری کتابیں سماعت فرمائیں، یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے:(۱) کتب ستہ (۲) موطأ الإمام مالک (۳) مسند الإمام الشافعی (۴) مسند الإمام أحمد بن حنبل (۵) مسند الدارمی (۶) مسند أبی یعلی (۷) صحیح أبی عوانۃ (۸) سنن الدار قطنی (۹) سنن البیہقی ، اور اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں سماعت کی ہیں،جن کا شمار یہاں ممکن نہیں۔
آپ کی تصانیف: آپ نے بہت ساری قیمتی کتابیں تصنیف فرمائیں، جو آج بھی مقبول و متداول ہیں، ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے: (۱) المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج(۲) بخاری شریف کی شرح ’التلخیص‘کے نام سے تصنیف فرمائی، مگر نامکمل رہ گئی(۳) المبہمات (۴) ریاض الصالحین (۵) الأذکار (۶) الروضۃ (۷) الأربعین (۸) التبیان فی آداب حملۃ القر آن (۹) الترخیص فی الإکرام و القیام (۱۰) الإرشاد فی علوم الحدیث وغیرہ۔
آپ کی اکثر کتابیں مقبول عام و خاص ہوئیں،مگر ان میں سے بعض کتابوں پر طلبہ اور علما کی خاص عنایتیں رہیں،مثلا ’المنہاج‘ کو آپ کی وفات کے بعد طالبان علوم نبویہ کے درمیان زبانی یاد کرنے کی اک لہر سی دو ڑ گئی ، آپ کی ’المنہاج‘ بہت اہم کتاب ہے ، اس کی تعریف و توصیف میں علماے اجلہ نے اشعار کہے ، بیسیوں علماے کرام نے اس کتاب کی شروحات لکھیں،گراں قدر آرا سے مزین کرکے اس کی اہمیت کو اور اجاگر کردیا،جگہ کی قلت کی وجہ سے یہاں پر دو چار کے نام شمار کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے:(۱)امام ابو العباس محمد بن ابی بکر عرام سکندری علیہ الرحمہ نے ’المنہاج‘ پر اپنی گراں قدر تعلیقات لگائیں(۲) امام کمال بن معالی محمدبن علی بن عبد الواحد بن زملکانی دمشقی علیہ الرحمہ نے ’المنہاج‘ کی شرح لکھی، اور اس شرع کا نام ’السراج الوہاج فی إیضاح المنہاج‘  رکھا (۳) شیخ شہاب الدین احمد بن حمدان اذرعی علیہ الرحمہ نے اس کتاب کی دو شرحیں لکھیں، ایک کا نام ’غنیۃ المحتاج‘ اور دوسری کا نام ’قوت المحتاج‘ رکھا۔
آپ کی تصانیف کے بارے میں ائمہ کی آرا: امام یافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’امام نووی علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد آپ کو حق سبحانہ تعالی کی نظرات سے نظر جمالی حاصل ہوئی،جس کی برکتیں آپ کی کتابوں پر ظاہر ہوئیں،اورعام بندوں کے درمیان آپ کی تصنیفات مقبول ہوئیں،دنیا کے مسلمانوں نے آپ کی گراں قدر کتابوں سے فائدہ حاصل کیا‘‘۔
عثمانی قاضی صفد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے جامع اموی کے خطیب شیخ جمال الدین محمود بن جملہ علیہ الرحمہ کو معاصرین کی ایک جماعت کے سامنے کہتے ہوئے سنا: ’’میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے مخاطب تھا، غنودگی کے عالم میں کہہ رہا تھا: اللہ تعالی نے علامہ نووی علیہ الرحمہ پر ان کی قبر میں خوب فیوض و برکات نازل فرمایا، پھر ان فیوض کو ان کی کتابوں کی طرف لوٹادیا،جس کی وجہ سے آپ کی تصانیف کو علماے عرب و عجم، عوام وخواص سب کے درمیان خوب مقبولیت حاصل ہوئی‘‘۔
آپ کے مناصب عظمی: علامہ نووی علیہ الرحمہ کم عمری کے باوجود اپنے مشایخ کی موجودگی میں امام ابوشامہ عبد الرحمن بن اسماعیل بن ابراہیم بن عثمان علیہ الرحمہ کے بعد  ۶۶۵ ؁ ہجری میں ’دار الحدیث الأشرفیۃ‘ کے مشایخ کی سرپرستی کے منصب پر فائز ہوئے،آپ کو اپنے زمانہ کے بڑے بڑے فقہاے عظام پر فوقیت حاصل ہوئی، اس وجہ سے نہیں کہ آپ فقیہ و محدث تھے، بلکہ اگر حاصل ہوئی تو صرف اس وجہ سے کہ فقہ و حدیث کی معرفت کے ساتھ ساتھ آپ کا قول و عمل یکساں تھا، دنیاداری سے بالکل دور تھے، دیانتداری اور پرہیزگاری میں اوج ثریا کو پہونچے ہوئے تھے،یقینا ان کی یہ تابناک زندگی علما اور طلبہ کے لے قابل رشک اور لائق اقتدا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نووی علیہ الرحمہ نے قاضی القضاۃ شمس احمد بن خلکان علیہ الرحمہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے شافعی حضرات کی کتابیں ’الإقبالیۃ‘ و’الفلکیۃ ‘ اور’الرکنیۃ ‘بڑی شرح و بسط کے ساتھ پڑھائی، اس کے علاوہ صحیحین وغیرہ جیسی اہم کتابو کی سماعت اور بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہا۔
آپ کی شعر گوئی: آپ کی شخصیت ہر فن میں مہارت رکھتی تھی، آپ کی شاعری اسی مہارت کا ایک حصہ ہے، آپ کی کتاب ’الروضۃ‘ کے حاشیہ پر یہ شعرلکھا ہواملا:
و  أنت  الذی  أدعوہ   سرا  و  جھرۃ
أجرنی  بلطف  من  جمیع  المصائب
ترجمہ :اور اے اللہ تو ہی ہے جسے میں ظاہر و باطن میں پکارتا ہوں،اے خدا تو مجھے تمام مصیبتوں سے نجات دے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اشعار آپ سے منقول ہیں ۔
آپ کے قابل فخر تلامذہ: آپ سے عظیم علماے کرام، حفاظ حدیث اور فقہا کی جماعت نے شرف تلمذ حاصل کیا، آپ سے مختلف میدان میں متعدد علوم و فنون میں کتابیں سماعت فرمائیں،آپ کی بارگاہ سے قابل فخر تلامذہ فارغ ہوئے، جنہوں نے آپ کے افکار اور فتاوی کو دنیا بھر میں پہونچایا، آپ کے علمی وقار اور تصلب کی وجہ سے آپ کے اقوال کو وہ ائمہ کرام جن کی وفات آپ سے پہلے ہوئی ہے اپنی مصنفات میں ذکر کرتے ہوئے نظر آئے،چنانچہ علامہ محب طبری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’القری‘ میں آپ کے بہت سارے اقوال نقل کیے ہیں۔آپ کے تلامذہ تو بہت ہیں، مگر اس جگہ اختصار کے پیش نظر بعـض کا ذکر کیا جاتا ہے:(۱) صدر ابو العباس احمد بن ابراہیم بن مصعب علیہ الرحمہ(۲) محدث ابو العباس احمد بن فرح اشبیلی علیہ الرحمہ(۳) علامہ رشید اسماعیل بن عبد الکریم بن المعلم حنفی علیہ الرحمہ ،ان کے علاوہ بہت سارے علماے کرام محدثین عظام اور فقہا و ناقدین ہیں جو آپ کی بارگاہ کے خریج اور فیض یافتہ ہیںجنہوں نے  دنیا بھر میں علوم مختلفہ کی ترویج واشاعت کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
آپ کی صفات اور مناقب حسنہ: آپ کی صفات حمیدہ بہت ہیں، ان کا استیعاب باآسانی ممکن نہیں، یہاں پر بطور تبرک آپ کے چند صفات و مناقب ذکر کیے جاتے ہیں:شیخ ابو العباس احمد بن محمد بن سالم بن حسن شافعی علیہ ارحمہ فرماتے ہیں: معمر ابو القاسم بن عمیر مزی علیہ الرحمہ نے جو صالح صدوق ہیں،مجھ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے خواب میں بہت سارے جھنڈے دیکھے، پھر میرے کانوں سے شادیانے بجنے کی آواز ٹکرائی، مجھے اس آواز نے تعجب میں ڈال دیا، جس کی وجہ سے میں بے ساختہ کہہ اٹھا یہ کیسی آواز ہے؟جواب میں مجھ سے کہا گیا: آج کی رات ’یحی بن شرف نووی علیہ الرحمہ‘ کو قطبیت عطا کی گئی ہے، اتنا سننا تھا کہ میری نیند کھل گئی، نہ تو میں شیخ کو جانتا تھا اور نہ ہی اس سے پہلے ان کے بارے میں کچھ سنا تھا، ایک دن اتفاق سے شہر میں کسی ضرورت کے تحت داخل ہوا، اور کچھ لوگوں کے درمیان ان کا تذکرہ کیا ، تو مجھے بتایا گیا:وہ ’دار الحدیث الأشرفیۃ‘ کے شیخ ہیں،ابھی اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں،میں نے یہ موقع غنیمت جانا اور مجلس میں داخل ہوگیا، آپ کے ارد گرد ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،جیسے ہی علامہ نووی علیہ الرحمہ کی نظر مجھ پر پڑی، آپ جماعت چھوڑکر فوراً میرے پاس آگئے، مجھے بولنے کی مہلت تک نہ دی اورپکڑکر دروازہ کی طرف لیکر نکل گئے، فرمایا:جو چیز تمہارے دل میں محفوظ ہے اسے وہیں چھپائے رکھو، کسی سے بیان مت کرنا، اس کے علاوہ مزید کچھ نہ کہا اور اپنی جگہ لوٹ گئے، میں نے آپ کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اورنہ ہی اس کے بعدآپ سے کبھی ملاقات ہوسکی‘‘۔
عارف باللہ محقق ابو عبد الرحیم محمد اخمینی قدس سرہ فرماتے ہیں:’’علامہ نووی علیہ الرحمہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اخلاق و کردار کے آئینہ دار تھے، میں نے ان کے زمانہ میں آپ سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ کار کا علم بردار کسی شخص کو نہیںدیکھا‘‘۔
محدث ابو العباس بن فروخ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’آپ کے اندر تین مراتب ایک ساتھ موجود تھے، پہلا مرتبہ:علم، دوسرا مرتبہ: زہد، تیسرا مرتبہ: امربالمعروف و نہی عن المنکر، ان میں سے کوئی بھی مرتبہ اگر کسی ایک شخص کے اندر پایا جائے، تو اس کے علوم و معرفت کا فیض حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف ضرور سفر کرنا چاہئے، اور اگر یہ تینوں چیزیں کسی ایک شخص کے اندر جمع ہوجائیں تو اس کی طرف بدرجہ اولی رخت سفرباندھنا چاہئے‘‘۔
آپ کی کرامات: آپ سے بہت ساری کرامات کا بھی صدور ہوا، ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں تاکہ موافقین کے لیے شرح صدر کا باعث بنے، اور مخالفین عبرت حاصل کرکے شرک و بدعت جیسی عظیم بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) ایک رات اچانک دیوار پھٹی اور اس کے اندر سے ایک وجیہ شخص نکلا، آپ نے اس شخص سے دنیا اور آخرت کی مصلحتوں کے بارے میں گفتگو فرمائی (۲) آپ نے اپنی وفات سے پہلے دمشق میں اپنی موت کے بارے میں خبر دیدی تھی (۳) آپ نے غیب سے آوازیں بھی سماعت فرمائیں(۴) آپ کے کشف و کرامات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ  ایک دن ابن النقیب علیہ الرحمہ علامہ نووی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا: ’’قاضی القضاۃ کا خیر مقدم ہے‘‘۔ ابن النقیب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر وہاں پر اپنے سوا کسی کو نہ پایا‘‘۔ پھر علامہ نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا: ’’اے شام کے استاذ بیٹھ جاؤ‘‘۔ چنانچہ علامہ نووی علیہ الرحمہ کے فرمانے کے مطابق ہوا، ابن النقیب علیہ الرحمہ ان دونوں منصبوں پر فائض ہوئے جن مناصب سے علامہ نووی علیہ الرحمہ نے آپ کو مخاطب کیا تھا۔
علمی مقام اور عبادت کی کثرت: شیخ الادب علامہ ابو عبد اللہ بن محمد ظہیر اربلی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’علامہ نووی علیہ الرحمہ کو علم، فقہ ، حدیث، لغت، اور تعبیرات و عبارات کے استعمال کرنے میں جو مقام و مہارت حاصل تھی وہ مقام علامہ ابن الصلاح علیہ الرحمہ کو بھی حاصل نہ ہوسکا تھا‘‘۔
ایک مرتبہ’ الوسیط‘ سے کسی عبارت کے نقل کرنے میں آپ سے کسی شخص نے بحث کرلی، آپ نے فرمایا: تم مجھ سے ’الوسیط‘ کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے ہو؟!میں اس کتاب کو چار سو مرتبہ مطالعہ کر چکا ہوں!آپ کے مطالعہ میں اتنی وسعت ہونے کے باوجود آپ جدل و جدال ، بحث و مباحثہ میں مبالغہ آرائی قطعا پسند نہیں فرماتے تھے، اگر کوئی جدال کرتا تو آپ کو اس سے اذیت پہونچتی تھی جس کی وجہ سے آپ ایسے شخص سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔
ایک عالم باعمل، دین و سنیت کا درد رکھنے والے کو لازمی طور سے ایسے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہئے تاکہ وقت کسی اچھے کام میں استعمال ہوسکے۔ (اااازہری)
آپ کی سادگی: آپ کی زندگی بہت سادہ تھی، دراہم و دنانیر کی طرف کبھی توجہ نہ فرمائی، کبھی شہرت اور چرچہ میں آنے کی خواہش نہ کی ، مگر آج کل کے علما إلا ماشاء اللہ جدھر دیکھو ادھر پیسے کی ہوس، اور شہرت کے طلب گار نظر آتے ہیں، یقینا رزق حاصل کرنا بھی ضروری ہے ،مگرطلب رزق اور شہرت کے چکر میںآکر، قصداً نماز قضا کردینا، دوسرں کا حق مارلینا، فحش کلامی کرنا، جھوٹ بولنا اور یہ کہنا تجارت میں اتنا چلتا ہے، کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے، علامہ نووی علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ ایسے علما،طلبہ اور عوام کے لیے عبرت ہے، اگر ان کی طرح صبر و تحمل نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایک عالم اور طالب علم کے اندر اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ واجبات و فرائض کو نہ چھوڑے، اور حرام کا ارتکاب نہ کرے۔ اازہری۔
            قارئین کرام آئیں، علامہ نووی علیہ الرحمہ کی سادگی ملاحظہ کرتے ہیں،قاـضی صفد عثمانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
آپ نے ’دارالحدیث‘ کے مشایخ کی سرپرستی قبول تو کرلی،ؤ مگر کبھی اس کی جانب سے تنخواہ نہ لی، اسی طرح آپ کسی شخص سے کوئی چیز نہیں لیتے جب تک کہ اس کی دینداری کے بارے میں معلوم نہ ہوجاتا، اور یہ یقین نہ ہوجاتا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں جو آپ سے علم دین حاصل کرتا ہے،اس خوف سے کہ کہیں’ إھداء القوس‘ والی حدیث کے زمرے میں نہ آجائیں، یہ حدیث عطیہ بن قیس کلابی سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو قرآن شریف پڑھایا، آپ یمن آئے تو اس شخص نے آپ کو ایک کمان ہدیہ کے طور پر پیش کی، آپ نے اس کا ذکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((اگر تم نے اس کو قبول کرلیا تو گویا کہ اس کے بدلے میں آگ ایک کمان قبول کی))اللہ اللہ یہ تقوی اور پرہیز گاری ، اللہ تعالی ہم سب کو اپنے بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین۔
علم و عمل سے انتہائی درجہ کا شغف اور علم دوستی کے جنون کی وجہ سے آپ نے شادی نہ کی؛کیوں کہ شادی بہت ساری ذمہ داریاں لے کر آتی ہے،جس کی وجہ سے ایک علم دوست شخص اپنی اس دوستی کا کماحقہ لطف نہیں اٹھا سکتا۔
حکام وقت کو نصیحت: آپ اپنے زمانہ میں علم و عمل اور دین میں تصلب کی بنیاد پر حق گو، اور بے باک شخص تھے، حق بولنے میں کسی لومت  لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے،اگر بادشاہوں سے رو برو ہونے کا موقع میسر نہ آتا، تو آپ انہیں خطوط لکھ کر نصیحت کیا کرتے تھے،چنانچہ آپ نے مولی حسن ملک الامرا بدر الدین کو خط لکھ کر نصیحت فرمائی، خط کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں،اس لیے ذکر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، آپ نے کل ۴۵ یا۴۶ سال کی عمر پائی ، آپ کی وفات  ۶۷۶؁ ہجری میں ہوئی، اللہ تعالی آپ کے مرقد پر رحمت ونور کی بارش فرمائے۔آمین ۔
آپ کی حیات طیبہ کی معرفت کے لیے مراجع: علامہ علاء الدین ابو الحسن علی بن ابرہیم بن داؤد دمشقی علیہ الرحمہ نے ’مختصر النووی‘ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی،امام المالکیہ امام ربانی کمال الدین علیہ الرحمہ کے ذریعہ بھی’ بغیۃ الراوی فی ترجمۃ النووی‘ کے نام سے کتاب معرض وجود میں آئی،اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی آپ کی حیات طیبہ پر مختلب گوشوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
آپ کی حیات مبارکہ کے یہ چند گوشے میں نے علامہ محدث شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی علیہ الرحمہ کی کتاب ’المنھل العذب الروی فی ترجمۃ قطب الأولیاء النووی‘ سے اختصار اور تھوڑے سے تصرف کے ساتھ بیان کی ہے۔

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
 فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
(یہ مضمون دلیل القارئین شرح ریاض الصالحین کے مقدمہ میں بھی موجود ہے)

کیا بارہ مئی کو کرونا وائرس ختم ہوجائے گا؟!


مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
آج کل ایک دو تحریر اور ایک دو  بیان بہت زیادہ گردش کر رہے ہیں، جن میں اس کا بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ بارہ مئی کو ثریا ستارہ طلوع ہوگا؛ تو اس کی وجہ سے کرونا جیسی مہلک بیماری ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی، بعض تحریر تو کسی حد تک اعتدال کا دامن تھامے ہوئے ہے مگر بعض تحریر و تقریر حد اعتدال سے خارج ہوتی نظر آئی جس کی وجہ سے ایک مسلم اس بات پر یقین کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ بارہ مئی کو کرونا وائرس ضرور ختم ہوجائے گا یا کم ہوجائے گا بلکہ بعض لوگ اسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ثابت کرتے ہوئے نظر آرہے ہے؛ اس لیے آج میں اس کے متعلق تفصیلی گفتگو کرنا مناسب سمجھتا ہوں، پہلے میں ثریا ستارہ سے متعلق احادیث ذکر کروں گا، اس کے بعد اس کے معنی و مفہوم کی وضاحت کروں گا، و ما توفیقی إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔
ثریا ستارہ سے متعلق جو احادیث وارد ہیں ان میں سے بعض مطلق ہیں، یعنی اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کوئی بھی بیماری ہو،ثریا ستارہ کے طلوع ہونے سے ختم ہوجائے گی یا کم ہوجائے گی اور بعض احادیث مقید ہیں یعنی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ  ثریا ستارہ طلوع ہونے سے پھلوں کی بیماری ختم ہوجائے گی، سب سے پہلے ہم مطلق احادیث  ذکر کرتے ہیں:

ثریا سے متعلق مطلق احادیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: جب نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو ہر ملک سے بیماری ختم ہوجائے گی۔
            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’مسند احمد‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ، رُفِعَتِ الْعَاهَةُ)) (مسند أحمد، ج۱۴ص۱۹۲، رقم: ۸۴۹۵، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: جب صبح نجم یعنی ثریا ستارہ نکلے تو وبا دور ہوجائے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں ’التمہید‘ کے الفاظ یہ ہیں:
((مَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا قَطُّ وَبِقَوْمٍ عَاهَةٌ إِلَّا رُفِعَتْ عَنْهُمْ أَوْ خَفَتْ)) (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية - المغرب)
ترجمہ: جب کبھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہو اور کسی قوم میں وبا ہو؛ تو وہ وبا ختم ہوجائے گی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا طَلَعَ النَّجْمُ ذَا صَبَاحٍ إِلا رُفْعِتْ كُلُّ آَفَةٍ وَعَاهَةٍ فِي الأَرْضِ أَوْ مِنَ الأَرْضِ)) (تاریخ جرجان، لحمزۃ بن یوسف الجرجانی، ص۲۹۲، ط:عالم الکتب، بیروت)
ترجمہ: جب بھی نجم یعنی ثریا ستارہ طلوع ہوگا تو اس وقت زمین کی ہر آفت کو ختم کردے گا۔
            مندرجہ بالا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیماری یا وبا خواہ وہ پھل سے متعلق ہو یا اس کا تعلق انسان سے ہو، اگر وبا پائی جاتی ہے؛ تو ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ختم یا کم ہوجائے گی، مگر اس کے بر خلاف بعض احادیث مقید ہیں، یعنی وہ اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، وہ وبا ہے جس کا تعلق پھل سے ہے۔
ثریا سے متعلق مقید احادیث
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سُرَاقَةَ قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ وَمَعَنَا ابْنُ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: ((رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا))
قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ، فَقَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ)) قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا تَذْهَبُ الْعَاهَةُ، مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: ((طُلُوعُ الثُّرَيَّا)) (مسند أحمد، ج۹ص۵۶، رقم: ۵۰۱۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وبا کے جانے سے پہلے پھل بیچنے  سے منع فرمایا، راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمن! وبا کا جانا کیا ہے، وبا کیا ہے؟ ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ثریا ستارہ کا طلوع ہونا۔
حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن رضی اللہ عنہا کی روایت:
عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَنْجُوَ مِنَ الْعَاهَةِ)) (موطا امام مالک، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۲ص۶۱۸، رقم: ۱۲، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ پھل کو وبا سے نجات حاصل ہوجائے۔
حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کی روایت:
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ كَانَ ((لَا يَبِيعُ ثِمَارَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا)) (ایضا، ص۶۱۹، رقم:۱۳)
ترجمہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہما پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا ستارہ طلوع ہوجائے۔
اسی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’صحیح‘ میں تعلیقا ذکر کیا ہے: عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ الأَنْصَارِيِّ، مِنْ بَنِي حَارِثَةَ: أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَبَايَعُونَ الثِّمَارَ، فَإِذَا جَدَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ، قَالَ المُبْتَاعُ: إِنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدُّمَانُ، أَصَابَهُ مُرَاضٌ، أَصَابَهُ قُشَامٌ، عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ: ((فَإِمَّا لاَ، فَلاَ تَتَبَايَعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُ الثَّمَرِ)) كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَتِهِمْ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ: ((لَمْ يَكُنْ يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا، فَيَتَبَيَّنَ الأَصْفَرُ مِنَ الأَحْمَرِ)) (صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۳ص۷۶، رقم:۲۱۹۳، ط: دار طوق النجاۃ)
اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث امام طبرانی کی ’المعجم الصغیر‘ میں اسی مقید معنی کے ساتھ موجود ہے، ملاحظہ فرمائیں:
الجامع الصغیر میں ہے: ((إِذَا طَلعت الثُريِّا أمِنَ الزَّرْعُ مِنَ العاهَةِ))  طص عن أبي هريرة - رضي الله عنه . (الجامع الصغيرللإمام السیوطی، رقم:۱۵۵۸۷)
ترجمہ: جب ثریا ستارہ طلوع ہوجائے تو کھیتی وبا سے محفوظ ہوجاتی ہے۔
ان مقید روایات اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ثریا طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی ہے، اس کا تعلق پھلوں کی بیماری سے ہے، بہر حال یہ دو طرح کی احادیث ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احادیث میں مذکور وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے یا انسانی وبا وغیرہ ہر طرح کی بیماری ان کے مفہوم میں شامل ہے، اس کی تعیین کے لیے احادیث اور اقوال علما کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم احادیث کی طرف چلتے ہیں، یہ بات طے شدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے یہاں مطلق احادیث جو مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہیں ان کو پھلوں سے مقید  احادیث جو اپنے معنی میں متعین ہیں ان پر محمول کر دیا جائے یعنی پھلوں کی وبا سے متعین  احادیث اس کی بات کی وضاحت کر رہی ہیں کہ محتمل احادیث کی مراد یہی ہے کہ یہاں وبا سے پھلوں کی وبا مراد ہے جو انسانی وبا کو شامل نہیں۔
احادیث کے بعد اب ہم علماے عظام کی طرف رخ کرتے ہیں، احادیث کی شروحات مطالعہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس معاملہ میں اکثر علما بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوتی ہے، اس سے مراد پھلوں کی وبا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فَعَقَلْنَا بِذَلِكَ أَنَّهُ الثُّرَيَّا، وَعَقَلْنَا بِهِ أَيْضًا أَنَّ الْمَقْصُودَ بِرَفْعِ الْعَاهَةِ عَنْهُ هُوَ ثِمَارُ النَّخْلِ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی، ج۶ص۵۳، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معنى ذلك والله أعلم على ما تقدم أن طلوع الثريا مع الفجر إنما يكون في النصف الآخر من شهر مايه وهو شهر إيار وفي ذلك يبدو صلاح الثمار بالحجاز ويظهر الإزهاء فيها وتنجو من العاهة في الأغلب ففي ذلك الوقت يجوز بيعها فيه دون ما قبله وتختلف العبارات فيما يبدو به ما يمنع من البيع ويميز ما يباع فتارة يميز ويفسدها بالإزهاء وتارة بأن تنجو الثمرة من العاهة وتارة تطلع الثريا غير أن تحديد ذلك بالإزهاء وبأن تنجو من العاهة يتعقبه الجواز على كل حال، وأما طلوع الثريا فليس بحد يتميز به وقت جواز البيع من وقت منعه.
وقد روى القعنبي عن مالك في المبسوط أنه قال ليس العمل على هذا ومعنى ذلك عندي أنه لا يباح بيع الثمرة بنفس طلوع الثريا حتى يبدو صلاحها وإنما معنى ذلك في الحديث أنه كان لا يبيع إلا بعد طلوعها وليس فيه أنه لم يكن بيع ذلك بعد طلوع الثريا إلا الإزهاء والله أعلم‘‘۔ (المنتقی شرح الموطا للامام القرطبی، النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۴ص۲۲۲، ط:مطبعۃ السعادۃ، مصر)
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل الصيف وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار فالمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له وقد بينه في الحديث بقوله ويتبين الأصفر من الأحمر وروى أحمد من طريق عثمان بن عبد الله بن سراقة سألت بن عمر عن بيع الثمار فقال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة قلت ومتى ذلك قال حتى تطلع الثريا ووقع في رواية بن أبي الزناد عن أبيه عن خارجة عن أبيه قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ونحن نتبايع الثمار قبل أن يبدو صلاحها فسمع خصومة فقال ما هذا فذكر الحديث فأفاد مع ذكر السبب وقت صدور النهي المذكور‘‘۔ (فتح الباری للإمام ابن حجر العسقلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحہ، ج۴ص۳۹۵، ط:دار المعرفۃ، بیروت)
امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وطلوعها صباحا يقع في أول فصل الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بينه في الحديث بقوله: ويتبين الأصفر من الأحمر‘‘۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للإمام بدر الدین العینی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۲ص۴، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
ارشاد الساری میں ہے: ’’قال أبو الزناد: (وأخبرني) بالإفراد (خارجة بن زيد بن ثابت) أحد الفقهاء السبعة والواو للعطف على سابقه (أن) أباه (زيد بن ثابت لم يكن يبيع ثمار أرضه حتى تطلع الثريا) النجم المعروف وهي تطلع مع الفجر أوّل فصل الصيف عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، والمعتبر في الحقيقة النضج وطلوع النجم علامة له، وقد بيّنه بقوله: (فيتبين الأصفر من الأحمر) وفي حديث أبي هريرة عند أبي داود مرفوعًا: إذا طلع النجم صباحًا رفعت العاهة عن كل بلد. وقوله: كالمشورة يشير بها قال الداودي الشارح تأويل بعض نقلة الحديث وعلى تقدير أن يكون من قول زيد بن ثابت فلعل ذلك كان في أوّل الأمر، ثم ورد الجزم بالنهي كما بينه حديث ابن عمر وغيره. وقال ابن المنير: أورد حديث زيد معلمًا وفيه إيماء إلى أن النهي لم يكن عزيمة وإنما كان مشورة، وذلك حي الجواز إلا أنه أعقبه بأن زيدًا راوي الحديث كان لا يبيعها حتى يبدوَ صلاحها.
وأحاديث النهي بعد هذا مبتوتة فكأنه قطع على الكوفيين احتجاجهم بحديث زيد بأن فعله يعارض روايته ولا يرد عليهم ذلك أن فعل أحد الجائزين لا يدل على منع الآخر، وحاصله أن زيدًا امتنع من بيع ثماره قبل بدوّ صلاحها ولم يفسر امتناعه هل كان لأنه حرام أو كان لأنه غير مصلحة في حقه انتهى‘‘۔ (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری للإمام القسطلانی، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۴ص۸۸، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
امام علی القاری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں: (وبه عن عطاء، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا طلع النجم اللام للعهد (رفعت العاهة) أي الآفة عن كل بلد من زرعها وثمارها۔۔۔۔۔۔۔۔قال الخرقي: إنما أراد بهذا الحديث أرض الحجاز لأن في أبان يقع الحصاد بها وتدرك الثمار فيها وقال القبتي: أحسبه أراد عاهة الثمار خاصة. (شرح مسند أبی حنیفۃ للإمام علی القاری، ص۱۴۱، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام زرقانی لکھتے ہیں: ’’وَطُلُوعُهَا صَبَاحًا يَقَعُ فِي أَوَّلِ فَصْلِ الصَّيْفِ، وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحَرِّ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ الثِّمَارِ، وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ فِي الْحَقِيقَةِ، وَطُلُوعُ النَّجْمِ عَلَامَةٌ لَهُ، وَقَدْ بَيَّنَهُ بِقَوْلِهِ فِي رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ مِنْ طَرِيقِ اللَّيْثِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ خَارِجَةَ عَنْ أَبِيهِ، فَزَادَ عَلَى مَا هُنَا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرُ مِنَ الْأَحْمَرِ‘‘۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا، ج۳ص۳۹۵، ط:مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاھرۃ)
امام صغانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَدْ بَيَّنَ ذَلِكَ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ «كَانَ النَّاسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَبْتَاعُونَ الثِّمَارَ فَإِذَا جَذَّ النَّاسُ وَحَضَرَ تَقَاضِيهِمْ قَالَ الْمُبْتَاعُ إنَّهُ أَصَابَ الثَّمَرَ الدَّمَانِ وَهُوَ فَسَادُ الطَّلْعِ وَسَوَادُهُ مُرَاضٌ قُشَامٌ عَاهَاتٌ يَحْتَجُّونَ بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَمَّا كَثُرَتْ عِنْدَهُ الْخُصُومَةُ فِي ذَلِكَ فَأَمَّا لَا فَلَا تَبْتَاعُوا حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُ الثَّمَرَةِ كَالْمَشُورَةِ يُشِيرُ بِهَا لِكَثْرَةِ خُصُومَاتِهِمْ» انْتَهَى، وَأَفْهَمَ قَوْلُهُ كَالْمَشُورَةِ أَنَّ النَّهْيَ لِلتَّنْزِيهِ لَا لِلتَّحْرِيمِ كَأَنَّهُ فَهِمَهُ مِنْ السِّيَاقِ وَإِلَّا فَأَصْلُهُ التَّحْرِيمُ، وَكَانَ زَيْدٌ لَا يَبِيعُ ثِمَارَ أَرْضِهِ حَتَّى تَطْلُعَ الثُّرَيَّا فَيَتَبَيَّنُ الْأَصْفَرَ مِنْ الْأَحْمَرِ. وَأَخْرَجَ أَبُو دَاوُد مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا «إذَا طَلَعَ النَّجْمُ صَبَاحًا رُفِعَتْ الْعَاهَةُ مِنْ كُلِّ بَلَدٍ» وَالنَّجْمُ الثُّرَيَّا وَالْمُرَادُ طُلُوعُهَا صَبَاحًا وَهُوَ فِي أَوَّلِ فَصْلِ الصَّيْفِ وَذَلِكَ عِنْدَ اشْتِدَادِ الْحُرِّ بِبِلَادِ الْحِجَازِ وَابْتِدَاءِ نُضْجِ الثِّمَارِ وَهُوَ الْمُعْتَبَرُ حَقِيقَةً وَطُلُوعُ الثُّرَيَّا عَلَامَةٌ‘‘۔ (سبل السلام للإمام محمد إسماعیل الصنعانی، بیع الثمر قبل بدو صلاحہ، ج۲ص۶۵، ط: دار الحدیث)
البدر التمام میں ہے: ’’والنجم هو الثريا، والمراد طلوعها صباحًا، وهو في أول فصل الصيف، وذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز وابتداء نضج الثمار، وهو المعتبر حقيقة، وطلوع الثريا علامة له‘‘۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام، للحسین بن محمد المغربی، ج۶ص۲۱۳، ط:دار ھجر)
ان مندرجہ بالا شروحات کے علاوہ بھی اکثر شروحات میں اس مفہوم کی حدیث کو ’باب بیع الثمر قبل بدو صلاحہ یا باب النھی عن بیع الثمار حتی یبد و صلاحھا‘ کے تحت رکھا ہے، جس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سب لوگ اس بات کے قائل ہیں کی احادیث میں ثریا کے طلوع ہونے سے جو وبا دور ہوتی وہ پھلوں والی وبا ہے۔
بعض علما اس بات کے قائل ہیں کہ ثریا سے جو وبا ختم ہوجاتی ہے وہ انسانی اور پھلوں والی، دونوں وبا کو شامل ہے، امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’(أَبُو نعيم فِي الطِّبّ) النَّبَوِيّ (عَن عَائِشَة مَا طلع النَّجْم) يَعْنِي الثريا فانه اسْمهَا بالغلبة لعدم خفائها لكثرتها (صباحا قطّ) أَي عِنْد الصُّبْح (وبقوم) فِي رِوَايَة وبالناس (عاهة) فِي أنفسهم من نَحْو مرض ووباء أَو فِي مَالهم من نَحْو ثَمَر وَزرع (الا رفعت عَنْهُم) بِالْكُلِّيَّةِ (أَو خفت) أَي أخذت فِي النَّقْص والانحطاط وَمُدَّة مغيبها نَيف وَخَمْسُونَ لَيْلَة (حم عَن أبي هُرَيْرَة) باسناد حسن‘‘۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر، للإمام المناوی، ج۲ص۳۵۲، ط: مکتبۃ الإمام الشافعی، الریاض)
لیکن آپ ہی کی کتاب ’فیض القدیر‘ میں یہ بھی ہے: ’’قيل: أراد بهذا الخبر أرض الحجاز لأن الحصاد يقع بها في أيار وتدرك الثمار وتأمن من العاهة فالمراد عاهة الثمار خاصة‘‘۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج۵ص۴۵۴، ط: المکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر)
امام سمعانی رحمہ اللہ زیر بحث حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’وَذَلِكَ مثل الوباء والطواعين والأسقام وَمَا يشبهها‘‘۔ (تفسیر السمعانی، ج۶ص۳۰۶، ط: دار الوطن، الریاض)
دیگر ایک دو مفسرین کرام نے بھی یہی عام معنی لیا ہے، مگر اکثر محدثین کرام نے خاص معنی مراد لیا اور وہ یہی کہ ثریا کی وجہ سے جو وبا دور ہوگی وہ پھلوں کی وبا ہے۔
ثریا کی وجہ سے وبا تمام ملک یا پھر بعض ملک سے ختم ہوگی
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ((إِذَا طَلَعَ النَّجْمُ رُفِعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ)) (الآثار للإمام أبی یوسف، باب الغزو و الجیش، ج۱ص۲۰۵، رقم:۹۱۷، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ثریا ستارہ طلوع ہونے سے ہر ملک کی وبا دور ہوجائے گی، مگر بعض محدثین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اس سے مراد حجاز کی وبا کا دور ہونا ہے۔
امام ابن بطال رحمہ اللہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’يعنى: الحجاز، والله أعلم‘‘۔ (شرح صحیح البخاری، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۱۶، ط:مکتبۃ الرشد، الریاض)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَقَوْلُهُ لِلْبَلَدِ يَجُوزُ أَنَّهُ يُرِيدُ الْبِلَادَ الَّتِي فِيهَا النَّخْلُ وَيَجُوزُ أَنْ يُرِيدَ الْحِجَازَ خَاصَّةً‘‘۔ (الاستذکار، باب النھی عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۶ص۳۰۶، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’يعني: الحجاز‘‘۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح للإمام ابن الملقن، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحھا، ج۱۴ص۴۸۸،  ط: دار النوادر، دمشق)
امام عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’كَمَا قَالَ بَعْضُهُمْ فِي الْحِجَازِ خَاصَّةً لِشِدَّةِ حَرِّهِ‘‘۔ (طرح التثریب فی شرح التقریب للإمام زین الدین العراقی، حدیث نھی بیع الثمار حتی یبدو صلاحھا، ج۶ص۱۲۶، ط: الطبعۃ المصریۃ القدیمۃ)
اور ان کے علاوہ بعض دیگر علما نے بھی حجاز ہی کے ساتھ اس وبا کو خاص قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور شدہ بعض عبارتوں سے بخوبی واضح ہے۔
مہینہ اور تاریخ کی تعیین
            گزشتہ مباحث میں ذکر کردہ بعض احادیث سے معلوم ہوگیا کہ نجم سے مراد ثریا ستارہ جو صبح کو طلوع ہوہوتا ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ مزید وضاحت کر رہے ہیں کہ ثریا ستارہ مئی کے مہینہ کی بارہ تاریخ کو طلوع ہوگا، ملاحظہ فرمائیں:
’’وَطَلَبْنَا فِي أَيِّ شَهْرٍ يَكُونُ فِيهِ ذَلِكَ مِنْ شُهُورِ السَّنَةِ عَلَى حِسَابِ الْمِصْرِيِّينَ؟ فَوَجَدْنَاهُ بَشَنْسَ، وَطَلَبْنَا الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ فِيهِ ذَلِكَ فِي طُلُوعِ فَجْرِهِ مِنْ أَيَّامِهِ فَوَجَدْنَاهُ الْيَوْمَ التَّاسِعَ عَشَرَ مِنْ أَيَّامِهِ، وَطَلَبْنَا مَا يُقَابِلُ ذَلِكَ مِنَ الشُّهُورِ السُّرْيَانِيَّةِ الَّتِي يَعْتَبِرُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِهَا ذَلِكَ فَوَجَدْنَاهُ أَيَارَ , وَطَلَبْنَا الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونُ ذَلِكَ فِي فَجْرِهِ فَإِذَا هُوَ الْيَوْمُ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ أَيَّامِهِ , وَهَذَانِ الشَّهْرَانِ اللَّذَانِ يَكُونُ فِيهِمَا حَمْلُ النَّخْلِ - أَعْنِي بِحَمْلِهَا إِيَّاهُ ظُهُورَهُ فِيهَا لَا غَيْرَ ذَلِكَ - وَتُؤْمَنُ بِالْوَقْتِ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ مِنْهُمَا عَلَيْهَا الْعَاهَةُ الْمَخُوفَةُ عَلَيْهَا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ , وَاللهَ عَزَّ وَجَلَّ نَسْأَلُهُ التَّوْفِيقَ‘‘۔ (شرح مشکل الآثار للإمام الطحاوی،  ج۶ص۵۷، رقم: ۲۲۸۶، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
ثریا کی وجہ سے بیماری دور ہونا اغلبی یا دوامی
امام ابن عبد البر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’هَذَا كُلُّهُ عَلَى الْأَغْلَبِ وَمَا وَقَعَ نَادِرًا فَلَيْسَ بِأَصْلٍ يُبْنَى عَلَيْهِ فِي شَيْءٍ‘‘۔ (التمہید لما فی الموطا من المعانی و الأسانید للإمام ابن عبد البر، ج۲ص۱۹۲، ط: وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية،  المغرب)
            اس تفصیلی بیان سے مندرجہ ذیل باتیں واضح ہوگئیں:
            (۱)ایک دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے؛ اس لیے یہاں ثریا کی وجہ سے دور ہونے والی وبا عام نہیں بلکہ پھلوں والی وبا ہے۔
            (۲) اکثر علماے کرام ثریا کے ذریعہ پھلوں کی وبا دور ہونے کے قائل ہیں؛ اس لیے ہمیں ان احادیث کو انسانی وبا یا عام وبا پر محمول نہیں کرنا چاہیے۔
            (۳) جن حضرات نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اکثر علما حدیث میں مذکور وبا سے انسانی وبا یا عام وبا مراد لیتے ہیں، وہ درست نہیں۔
            (۴) ثریا کے طلوع ہونے سے وبا کا دور ہونا اغلبی ہے لازمی نہیں۔
            تنبیہ: ثریا ستارہ میں بذات خود کوئی تاثیر نہیں کہ وہ وبا دور کرے بلکہ اللہ تعالی نے اس کو صرف وبا دور ہونے کی علامت بنا یاہے، یعنی ہمار یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے گا تبھی ثریا کے طلوع ہونے سے وبا دور ہوگی ورنہ نہیں جیسے کہ ہم کسی بیماری کی وجہ سے دوا کھاتے ہیں تو ہمارا یہی عقیدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے تو ہی شفا حاصل ہوگی ورنہ نہیں۔
             اہم پیغام: بہر کیف ہم ثریا سے متعلق احادیث کو عام مانیں یا خاص، اتنے بیان سے تو یہ معلوم ہوگیا کہ جب علماے کرام کے درمیان زیر بحث موضوع احادیث کے تعیین معنی میں اختلاف ہے؛ تو یہ احادیث قطعی الدلالۃ نہ رہیں جن کی بنا پر یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ انسانی وبا یا عام وبا مراد ہے اور پھر اس کی بنیاد پر حتمی طور سے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ بارہ مئی کو ثریا طوع ہوتے ہی کرونا وائرس ختم ہوجائے گایا کم ہوجائے گا، البتہ بعض احادیث کے ظاہری معنی کو لے کر اور علما کے بعض اقوال کے پیش نظر اللہ جل شانہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ثریا کے طلوع سے یہ انسانی وبا کم  یا ختم کردے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تعیین معنی میں اختلاف کے باوجود ہم یہ کہتے بیٹھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمادیا؛ تو بارہ مئی کو یہ ہوکر رہے گا اور نجات مل کر رہے گی، نہیں زیر بحث احادیث کے پیش نظر آپ ایسا نہیں کہ سکتے، اگر آپ ایسا کہیں گے ؛ تو آپ اسلام اور مسلمان کی جگ ہنسائی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسا کہ اس بات سے جگ ہنسائی ہوئی کہ مسلمان کو کرونا وائرس ہوگا ہیں نہیں، خاص کر  اس وقت جب کہ زیر بحث احادیث کے تعیین معنی میں اختلاف کے ساتھ وبا دور ہونا اغلبی ہے یعنی کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ثریا طلو ع ہو اور وبا دور نہ ہو؛ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ حد اعتدال قائم و دائم رکھیں اور کسی طرح بھی اسلام و مسلمان کے لیے جگ ہنسائی کا سبب نہ بنیں، مگر أنا عند ظن عبدی کے پیش نظر اللہ تعالی سے شفا یابی کی امید قوی رکھیں، اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ ہم سب کو ہر وبا سے محفوظ رکھے، آمین۔
            اللہ تعالی کے فضل و کرم سے  یہ مضمون پانچ گھنٹے کے اندر مکمل ہوا، و الحمد للہ الذي بنعمته تتم الصالحات و صلی اللہ علی خیر خلقه محمد و آله و أصحابه أجمعین۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۶؍شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۲۱؍اپریل ۲۰۲۰ء

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts