حامدا و مصلیا و مسلما
فقہ کا ماخذ
قرآن پاک، احادیث مبارکہ، اجماع اور قیاس ہیں، فقہ کو بطور فقہ قرآن پاک اور
احادیث نبویہ کے بغیر حاصل کرنا پھر اسے لوگوں تک پہونچانا بعید ہی نہیں بلکہ
ناممکن ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی اتباع کرنے والے علماے احناف
نے قرآن پاک اور احادیث طیبہ کی روشنی میں فقہ حاصل کیا اور پوری دنیا میں اسے عام
بھی کیا، اس کے باجود علماے احناف پر کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ قرآن پاک
اور صحیح احادیث طیبہ پر اپنی رائے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی رائے کی بنا پر قرآن پاک اور احادیث طیبہ کو رد کرتے
ہوئے نظر آتے ہیں، یہ سرا سر بہتان ہے، جب فقہ کو حاصل کرنا اور اس کا بیان کرنا
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے بغیر ناممکن ہےاور فقہاے احناف نے اس کو حاصل بھی
کیا اور پوری دنیا میں بیان کرکے عام بھی کیا؛ تو یہ کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ
علماے احناف اپنی رائے کو قرآن پاک اور احادیث مبارکہ پر ترجیح دیتے ہیں، سبحانك هذا بهتان عظيم، صحیح بات تو یہ ہے کہ علماے
احناف نے احادیث پر عمل کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا ہے؛ کیوں کہ فقہ حنفی میں احادیث کا مقام و مرتبہ بہت ہی بلند
و بالا ہے؛ اسی لیے علماے احناف حتی الامکان مختلف مفہوم کی احادیث کو اس طرح
تطبیق دیتے ہیں کہ سب پر مختلف جہات سے عمل ہوجاتا ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کا
کوئی تضاد باقی نہیں رہ جاتا، اسی طرح فقہ حنفی میں بہت ساری ایسی مثالیں بھی ملیں
گی جہاں پر علماے احناف سند کے اعتبار جو حدیث صحیح ہے اسی کو دوسری کمزور حدیث پر
ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے، میں یہاں پر اختصار کے پیش نظر دو تین مسائل کی احادیث بطور
مثال پیش کردیتا ہوں جس سے خود بخود واضح ہوجائے گا کہ احناف کے نزدیک احادیث پر
ہی عمل کرنا محبوب و مرغوب ہے، و ما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
فقہ حنفی میں احادیث
کے مقام کا اس جہت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی مسئلہ میں اگر مختلف معانی
کی متحمل احادیث موجود ہیں؛ تو علماے فقہ حنفی عموما احادیث کی روشنی میں اس
مسئلہ کی احادیث کی ایسی توجیہات بیان
کرتے ہیں کہ مختلف جہات سے مسئلہ کی تمام احادیث پر عمل ہوجاتا ہے اور ان کے
درمیان کوئی تضاد باقی نہیں رہتا، علماے احناف کا یہ طریقہ ان کے نزدیک احادیث کی
اہمیت کو بخوبی اجاگر کرتا ہوا نظر آتا ہے، اس کے متعلق بہت مثالیں ہیں مگر اختصار
کے پیش نظر یہاں صرف دو مثال ملاحظہ فرمائیں:
پہلی مثال: بعض فقہاے کرام کی رائے یہ ہے کہ جس نے نماز کا
وضو کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھا ؛ تو اس کا یہ وضو اس کی نماز کے لیے کافی نہیں،
ان کی دلیل مندرجہ ذیل ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((جس کا وضو نہیں اس کی نماز نہیں اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے وقت بسم اللہ نہیں پڑھا))
(شرح معانی الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۶، رقم: ۱۰۷)
اور بعض دوسرے فقہاے کرام نے ان کی مخالفت کی اور فرمایا کہ
جس وضو کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھا اس نے برا تو کیا مگر اسے اپنے اس وضو سے پاکی
بھی حاصل ہوگئی، ان دلیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اس
وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سلام کیا جب کہ آپ وضو فرما رہے تھے؛ تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں دیا، پھر آپ نے وضو سے
فارغ ہونے کے بعد فرمایا:
((مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی
مگر یہ کہ مجھے ناپسند ہوا کہ طہارت کے بغیر اللہ کا ذکر کروں)) (شرح معانی
الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۶، رقم: ۱۱۰)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
طہارت کے بغیر اللہ تعالی کا ذکر کرنا ناپسند فرمایا اور وضو کے ذریعہ طہارت کے
بعد سلام کا جواب دیا، اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم نے اللہ تعالی کا ذکر کیے بغیر وضو کیا، اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
کا یہ فرمان: ((لا
وضوء لمن لم یسم))
پہلی رائے والوں کی رائے کا احتمال رکھتا ہے اور اس کا بات بھی احتمال رکھتا ہے کہ
اس کا وضو ثواب کے اعتبار سے کامل نہیں، اس کی مثال فرمان نبی صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم ہے: ((لیس
المسکین الذی تردہ التمرۃ و التمرتان و اللقمۃ و اللقمتان)) حضور صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کی مراد اپنے فرمان سے یہ نہیں ہے کہ من کل الوجوہ مسکینیت کی حد سے خارج
ہے یہاں تک کہ اس کو صدقہ لینا حرام ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ایسا کامل مسکین
نہیں کہ اب اس کے بعد مسکینیت کا کوئی درجہ ہی نہیں، حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں:
((لَيْسَ الْمِسْكِينُ
بِالطَّوَّافِ الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَاللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ))
قَالُوا: فَمَنِ الْمِسْكِينُ؟ قَالَ: ((الَّذِي يَسْتَحِي أَنْ يَسْأَلَ , وَلَا
يَجِدُ مَا يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُعْطَى)) (شرح
معانی الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۷، رقم: ۱۱۱)
دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((لَيْسَ
الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَبِيتُ شَبْعَانَ وَجَارُهُ جَائِعٌ)) (شرح معانی
الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۲۷، رقم: ۱۱۵)
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر گز اس سے ایسے ایمان
کی نفی مراد نہیں لی ہے کہ جس کے چھوڑنے کی وجہ سے وہ کفر کی دہلیز پر پہونچ جاے
گا بلکہ مراد یہ ہے کہ ایسا شخص ایمان کے اعلی مراتب کا متحمل نہیں، اسی طرح حضور
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اس فرمان: ((لا وضوء لمن لم یسم)) میں وضو کی
نفی سے یہ مراد نہیں کہ وہ ایسا باوضو ہی نہیں کہ حدث سے نکل جائےبلکہ مراد یہ ہے
کہ اسباب وضو میں وہ کامل وضو کرنے والا نہیں جو ثواب کو جواب کرتا ہے؛ لہذا جب اس
حدیث میں مختلف معانی کا احتمال ہے اور اس
باب میں کوئی ایسی دلیل بھی موجود نہیں کہ جس کے ذریعہ قطعی طور پر ایک توجیہ کو
دوسری توجیہ پر ترجیح دے دی جائے؛ اس لیے واجب ہوا کہ اس حدیث کا ایسا معنی لیا
جائے جو حدیث المہاجر کے معانی کے موافق ہو تاکہ کوئی تضاد باقی نہ رہ جائے؛ اس
لیے ثابت ہوا کہ بسم اللہ کے بغیر وضو کرنے والا حدث سے نکل کر طہارت میں داخل
ہوجاے گا یعنی اس کا وضو ہوجاے گا۔ (شرح معانی الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ،
ج۱ص۲۶۔۲۸، باب التسمیۃ علی الوضوء)
دوسری مثال: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((جس نے ام القرآن نہیں پڑھا اس کی نماز کامل نہیں)) (صحیح مسلم، رقم:۳۹۴)بعض
لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ سورہ فاتحہ منفرد و مقتدی ہر ایک پر پڑھنا
فرض ہے۔
اولا: منفرد پر
سورہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {فَاقْرَأُوا
مَا تَيَسَّرَمِنَ الْقُرْآنِ} [المزمل:73، الآیۃ: 20]
اس
آیت میں اللہ تعالی نے مطلقا قرآن پاک پڑھنے کا حکم دیا؛ لہذا مطلقا قرآن پڑھنا
فرض ہے مگر خاص الحمد شریف کا پڑھنا فرض نہیں؛ کیوں کہ یہ خبر آحاد سے ثابت ہے اور
خبر آحاد سے قرآن پاک پر زیادتی جائز نہیں(أحکام القرآن، جصاص رحمہ اللہ) البتہ
چونکہ خبر آحاد پر عمل کرنا واجب ہے؛ اس لیے الحمد شریف کے متعلق جو احادیث وارد
ہیں ان کو وجوب پر محمول کیا جائے گا اور اس کا پڑھنا واحب ہوگا، اس طرح قرآن و
حدیث دونوں پر عمل ہوجائے گا، نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک
اعرابی صحابی کو تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ((جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو؛ تو
تکبیر کہو، پھر قرآن پاک میں سے جو تمہیں میسر ہو، اسے پڑھو...الحدیث))(صحیح
البخاری، رقم:۷۵۷) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اعرابی کو قرآن میں سے
جو چاہے پڑھنے کا اختیار دیا، اگر سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہوتا؛ تو حضور صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم اعرابی کو اس کے پڑھنے کی تعلیم ضرور دیتے ؛ کیوں کہ حضور صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معلوم تھا کہ اعرابی احکام صلاۃ سے واقف نہیں؛ اس لیے کہ
جاہل کی تعلیم میں بعض فرائض پر اکتفا کرنا اور بعض کو چھوڑدینا جائز نہیں؛ لہذا
معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں۔
ثانیا: مقتدی کو
سورہ فاتحہ پڑھنا جائز نہیں؛ کیوں کہ امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہے، حضرت
جابر بن عبد اللہ برضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے نماز پڑھائی اس حال میں کہ ان کے پیچھے ایک شخص قراءت کر رہا ہے؛ تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی نے اس شخص کو منع کیا، پھر جب حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگیے؛ تو دونوں جھگڑنے لگے؛ تو جس کو منع کیا
تھا اس نے کہا: کیا تم ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراءت کرنے سے منع
کرتے ہو، پھر دونوں جھگڑنے لگے یہاں تک یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک
پہونچ گئی؛ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ((جس نے امام کے پیچھے نماز پڑھی ؛ تو امام کی قراءت اس کے
لیے قراءت ہے)) (سنن الدارقطنی، رقم:۱۲۳۴) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((جس شخص کا امام ہو؛ تو اس امام
کی قراءت اس کے لیے قراءت ہے)) (سنن الدارقطنی، رقم:۱۲۶۴) یہ اور اس طرح کی دیگر
احادیث کے راویوں پر اگرچہ بعض محدثین کرام نے کلام کیا ہے، مگر یہ احادیث متعدد
طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے بعض ، بعض کو تقویت بخشتی ہیں؛ اس لیے یہ قابل عمل
ہیں، نیز امام کے پیچھے قراءت کے چھوڑنے
پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے
(ہدایۃ اولین) حضرت نافع رحمہ اللہ سے مروی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب
پوچھا جاتا: کیا کوئی شخص امام کے ساتھ قراءت کرسکتا ہے؟ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما فرماتے: ((جب تم میں سے کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھے؛ تو اس کے لیے امام کی
قراءت کافی ہے)) اور حضرت ابن عمر رضی
اللہ عنہما امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے (موطأ امام محمد، رقم:۱۱۲) نیز قرآن
کا بغور سننا فرض ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {وَإِذَا قُرِئَ
الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا} [الأعراف:7، الآیۃ: 204] ترجمہ: ((اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان
لگاکر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو)) (کنز الإیمان) یہ آیت نماز میں امام کے پیچھے قراءت کے
متعلق ناز ل ہوئی : حضرت امام مجاہد رحمہ
اللہ فرماتے ہیں: ((رسول اللہ صلی اللہ علیہ
آلہ وسلم نماز میں قراءت کررہے تھے کہ انصار میں سے ایک نوجوان کو قراءت کرتے ہوئے
سنا؛ تو یہ آیت نازل ہوئی)): {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا
لَهُ وَأَنْصِتُوا} (السنن الکبری للبیھقی، رقم:۲۸۸۶) امام احمد بن حنبل رحمہ
اللہ فرماتے ہیں: ‘‘لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل
ہوئی ’’ (نصب الرایۃ للزیلعی، فصل فی القرآن، ج۲ص۱۴) نیز حدیث شریف میں ہے: ((جب
امام قراءت کرے؛ تو غور سے سنو)) امام مسلم رحمہ اللہ فراماتے ہیں: یہ روایت میرے
نزدیک صحیح ہے (صحیح مسلم، رقم:۴۰۴) قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ مقتدی کے لیے
سورہ فاتحہ پڑھنا جائزنہیں، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل سنت و جماعت اس بات کے
قائل ہیں کہ اس باب میں صرف آیت یا حدیث پر عمل ہوسکتا ہے، دونوں پر عمل نہیں
سکتا، یہ ان کا کھلا ہوا دھوکا ہے؛ کیوں کہ جب اہل سنت و جماعت نے حدیث کو منفرد
پر پڑھنا واجب قرار دیا اور آیت و حدیث پر عمل کرتے ہوئے امام کے پیچھے پڑھنے سے
منع فرمایا؛ تو دونوں پر عمل ہوگیا اور یہ اہل سنت و جماعت کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ
عموما تطبیق دے کر ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نیز علماے احناف کے نزدیک احادیث کی اہمیت کا اس ناحیہ سے
بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علماے احناف کے درمیان اختلاف کی صورت میں اسی حکم کو
ترجیح حاصل ہوتی ہے جس کی حدیث زیادہ قوی ہوتی ہے، علماے احناف کے اس انداز ترجیح
سے بھی ان کے نزدیک احادیث کے مقام کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، بطور مثال ملاحظہ
فرمائیں:
تیسری مثال: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ
جس کے پاس پا نی نہ ہو بلکہ صرف کھجور کی نبیذ ہو، اس کے لیے نبیذ سے وضو کرنا
جائز ہے، آپ کی دلیل یہ حدیث ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود
رضی اللہ عنہ لیلۃ الجن میں رسول اللہ صی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ساتھ نکلے؛ تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا: ((اے ابن مسعود کیا تمہارے پاس پانی
ہے؟)) آپ نے عرض کیا: میرے پاس میرے برتن میں نبیذ ہے؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم نے فرمایا: ((مجھ پر اسے بہاؤ)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
اس سے وضو کیا اور فرمایا: ((شراب ہے اور پاک کرنے والا بھی ہے)) (شرح معانی
الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۹۴، رقم:۶۰۶)
اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ کھجور کی
نبیذ سے وضو جائز نہیں؛ لہذا جسے نبیذ کے علاوہ کچھ نہ ملے وہ تیمم کرے، اسے نبیذ
سے وضو کرنے کی اجازت نہیں، ان کی دلیل مندرجہ ذیل ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نبیذ سے جواز وضو
کے متعلق جو حدیث وارد ہوئی ہے وہ ایسے طرق سے مروی ہے جو خبر واحد قبول کرنے والوں
کے نزدیک حجت نہیں۔
ابو عبید اللہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت مروی ہے
جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ آلہ وسلم کے ساتھ لیلۃ الجن میں موجود نہیں تھے، ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عمر بن مرۃ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبیدہ رضی
اللہ عنہ سے پوچھا:
’’کیا عبد اللہ بن مسعود لیلۃ الجن میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے؛ تو آپ نے فرمایا: نہیں‘‘۔(شرح معانی الآثار، ابوجعفر
طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۹۴، رقم:۶۰۸)
اور یہ ایسا امر ہے کہ اس طرح کی بات ابو عبیدہ رضی اللہ
عنہ سے مخفی رہنا بعید ہے؛ لہذا اس روایت سے استدلال کرنا جس میں یہ ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لیلۃ الجن میں نبیذ سے وضو کیا اور اس وقت حضرت
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ساتھ میں تھے باطل ہے۔
اعتراض: اگر یہ کہا جائے کہ پہلی رائے کی دلیل اس دلیل سے
بہتر ہے؛ اس لیے کہ وہ متصل ہے اور یہ منقطع ؛ کیوں کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے
اپنے والد سے کچھ سنا ہی نہیں۔
جواب: ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے کلام کے ذریعہ ہم نے اس
جہت سے استدلال ہی نہیں کیا بلکہ اس ناحیہ سے استدلال کیا ہے کہ ابو عبیدہ رضی
اللہ عنہ کے علم میں تقدم، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے یہاں آپ کی اہمیت اور ان
کی وفات کے بعد ان کے خاص لوگوں سے ملاقات کی وجہ سے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ
پر اس طرح معاملہ مخفی نہیں رہے گا؛ اس لیے اس معاملہ میں ہم نے ان کے قول کو حجت
مانا اور قبول کیا، نیز خود حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے متصل سند کے
ساتھ مروی ہے جو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے قول کی موافقت کرتا ہے، ملاحظہ
فرمائیں:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ فرماتے
ہیں:
’’میں لیلۃ الجن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ نہیں تھا اور مجھے ضرور پسند تھا کہ میں ان کے ساتھ ہوتا‘‘۔ (شرح معانی
الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۹۴، رقم:۶۱۰)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خود لیلۃ الجن میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ موجود ہونے کا انکار کر رہے ہیں، اگر
اس مسئلہ کو صحت اسناد کے اعتبار سے اخذ کیا جائے؛ تو انکار والی حدیث ہی اولی و
بہتر ہے؛ کیوں کہ اس کے طریق و متن مستقیم ہیں اور اس کے رواۃ ثبت ہیں۔ (شرح معانی
الآثار، ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ، ج۱ص۹۴۔۹۶، باب الرجل لا یجد إلا نبیذ التمر، ھل
یتوضأ بہ أو یتییمم)
فقہ حنفی میں احادیث کے مقام کی یہ ایک جھلک تھی، فقہ حنفی کی
اس اہمیت کو کما حقہ سمجھنے کے لیے شرح معانی الآثار، امام ابوجعفر طحاوی رحمہ
اللہ (ت۳۲۱ھ) نخب الأفکار فی تنقیح مبانی
الأخبار، امام بدر الدین عینی رحمہ اللہ (ت ۸۵۵ھ) فتح القدیر، امام کمال الدین ابن
ہمام رحمہ اللہ (ت ۸۶۱ھ) کی طرف رجوع کرنا مفید تر ہوگا، سر دست اس کی مزید
جھلکیاں دیکھنے کے لیےاپنے ہاتھ میں موجود رسالہ پڑھئے، ان شاء اللہ اطمینان ہوجاے
گا کہ یقینا فقہ حنفی میں احادیث کا مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے، موصوف مولانا
شمشاد عالم رضوی زید علمہ مرکز تربیت میں تخصص فی الفقہ کرنے والے محنتی علما میں
سے ایک ہیں، طبیعت میں صوم و صلاۃ کی پابندی اور تواضع غالب ہے، موصوف نے اپنے اس
رسالہ میں پہلے تقلید شخصی کی اہمیت پر مختصر مگر جامع گفتگو کی ہے پھر مختلف
مثالوں کے ذریعہ فقہ حنفی میں احادیث کے مقام و مرتبہ کو عمدہ پیرائے میں بیان
کرنے کی سعی مسعود کی ہے اور اخیر میں اختصار کے ساتھ احادیث ضعیفہ پر عمل کرنے کی
جہات کو بھی واضح کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے، ان شاء اللہ یہ رسالہ علما اور طلبہ ہر
ایک کے لیے مفید ثابت ہوگی، اگر موصوف صبر و تحمل، تواضع اور محنت و لگن کے ساتھ
کام کرتے رہے؛ تو ان شاء اللہ دین و سنیت
کا اچھا کام کریں گے اور دارین کی سعادتیں حاصل ہونگی، اللہ تبارک و تعالی ان کی
اس پہلی خدمت کو قبول فرمائے، مقبولیت عطا کرکے لوگوں کے لیے نفع بخش بنائےاور
آخرت میں ذریعہ نجات بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ،
اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 831817713
۲۷؍رمضان المبارک ۱۴۳۹ھ مطابق ۱۳؍جون ۲۰۱۸ء
(تقدیم)
(تقدیم)
No comments:
Post a Comment