Friday, September 6, 2019

شیعہ امامیہ اور اصول روایت عرض و نقد

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
            مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے ایک بہت بڑا فرقہ شیعہ کا ہے، شیعہ کے بھی بہت فرقے ہیں، ان میں سے ایک اہم فرقہ شیعہ امامیہ ہے جسے اثنی عشریہ بھی کہا جاتا ہے، اس فرقہ نے کسی حد تک اصول روایت کے متعلق تصنیف و تالیف میں حصہ لیا ہے، احادیث کی تعریفات وغیرہ میں اہل سنت و جماعت سے کسی قدر ہم آہنگی ہے، مگر عموما اہل سنت و جماعت سے ہٹ کر ان کے اصول و ضوابط کا ایک خاص رنگ و ڈھنگ ہے، اسی کے مطابق وہ حدیث کو قبول اور رد کرتے ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اس فن کا موجد سمجھتے ہوئے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس فن میں وہ لوگ سابقین اولین میں سے ہیں، اس پر دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ امام ابو عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ حاکم نیسا پوری رحمہ اللہ نے ’معرفۃ علوم الحدیث‘ تصنیف فرمائی اور یہ شیعہ تھے، ان کی وفات چار سو پانچ ہجری (۴۰۵ھ) میں ہوئی، اگر امام حاکم نیساپوری رحمہ اللہ کے بارے ان کا یہ دعوی قبول کربھی لیا جائے؛ تو بھی ان کی یہ بات زمینی حقیقت کے بالکل خلاف ہے؛ کیوں کہ اہل سنت و جماعت کے علما و فقہا اس فن کے متعلق ۳۶۰ھ سے پہلے ہی علم فقہ، علم اصول وغیرہ میں مختلف طریقے سے گفتگو کرچکے ہیںاور اہل سنت و جماعت کی جانب سے مستقل طور پر اس فن میں پہلی کتاب بنام ’المحدث الفاصل بین الراوی و الواعی‘ تصنیف کی جاچکی ہے، اس کتاب کے مصنف کا اسم گرامی ابومحمد حسن بن عبد الرحمن رامہرمزی رحمہ اللہ ہے، آپ کی وفات تین سو ساٹھ ہجری (۳۶۰ھ) میں ہوئی، حالاں کہ شیعہ امامیہ کا اس فن میں سبقت پر امام حاکم نیساپوری رحمہ اللہ سے استدلال کرنا چند وجوہ سے درست نہیں: (۱) جس امام حاکم رحمہ اللہ کو شیعہ اپنے فرقہ کا سمجھتے ہیں، یہ صاحب ’معرفۃ علوم الحدیث‘ نہیں ہیں، بلکہ وہ صاحب ’مناقب الرضا علیہ السلام‘ ہیں، جن کا نام ابو عبد اللہ عبد الرحمن بن احمد خزاعی نیساپوری ہے (۲) شیعہ امامیہ کے شیخ عبد اللہ مامقانی نے اپنی کتاب ’مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ‘ میں صراحت کی ہے کہ امام حاکم نیساپوری رحمہ اللہ علماے عامہ یعنی علماے اہل سنت و جماعت سے ہیں (۳) امام حاکم رحمہ اللہ صاحب ’معرفۃ علوم الحدیث‘ کا شیعیت کی طرف میلان تھا مگر وہ رافضی نہیں تھے، ہاں ان کا خصوم امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انحراف ضرور تھا مگر وہ ہر حال میں شیخین امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی تعظیم کرتے تھے۔ بہر کیف اس فن کے موجد اور اس کی کماحقہ نشرو اشاعت کرنے والے، غیر مستقل یا بطور استقلال ہر صورت میں اہل سنت و جماعت ہی ہیں۔ نیز شیعہ امامیہ کے علما نے رجال حدیث اور متون احادیث پر بھی کتابیں لکھی ہیں اور ان کے کچھ اصول و ضوابط بھی ہیں، ان شاء اللہ میں اپنے اس مضمون میں پہلے نقد و جرح کے ساتھ حدیث و سنت کی تعریف، پھر عددِ راوی اور قبول و رد کے اعتبار سے احادیث کی تقسیم وغیرہ پیش کروں گا، اس کے بعد رجال حدیث اور متون پر تصنیف کی ہوئی کتابوں کے متعلق گفتگو ہوگی، وماتوفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب، ملاحظہ فرمائیں:
            شیعہ امامیہ کے شیخ عبد اللہ مامقانی لکھتے ہیں:
            حدیث کی لغوی تعریف: حدیث کلام کا مرادف ہے، حدیث کی اصطلاحی تعریف: عرف شرع میں حدیث اس کو کہتے ہیں جس کی اضافت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف کی گئی ہو۔ شیعہ امامیہ کے بعض علما نے حدیث کی اصطلاحی تعریف یوں کی ہے: حدیث معصوم کے قول، یا ان کے قول، فعل یا تقریر کی حکایت کو کہتے ہیں۔
            تنبیہ: شیعہ امامیہ کے نزدیک معصوم علیہ السلام سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے بارہ اماموں میں سے کوئی ایک ہے (أصول الروایۃ عند الشیعۃ الامامیۃ؍عبد المنعم فرماوی، ص۱۴۵)
            خبر کی لغوی تعریف: خبر وہ ہے جو غیر کے بارے میں کچھ نقل کرے اور اپنے بارے میں کچھ بتائے اور یہ بذات خود صدق و کذب کا احتمال رکھتا ہے۔ شیعہ امامیہ کے شیخ مامقانی نے خبر کی اصطلاحی تعریف نہیں کی ہے، مگر آپ لکھتے ہیں: کبھی خبر کا اطلاق ہوتا ہے اور اس سے مراد وہ ہوتا ہے جو معصوم علیہ السلام کے علاوہ کسی صحابی یا تابعی یا تمام علما سے وارد ہو(مقباس الھدایۃ فی علم الدرایۃ؍مامقانی، ج۱ص۵۵)
            حدیث اور خبر کے درمیان فرق کے متعلق مختلف اقوال ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
            (۱) حدیث و خبر مترادف ہیں (۲) حدیث، خبر سے اخص ہے، خبر ہر انسان کے قول کو عام ہے اور حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ کے ساتھ خاص ہے (۳) دونوں کے درمیان تباین ہے، حدیث، معصوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور معصوم امام علیہ السلام کی مرویات کے ساتھ خاص ہے اور خبر ان کے علاوہ کی مرویات کے ساتھ خاص ہے(مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۵۸)
            اثر، حدیث اور خبر کے درمیان فرق کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
            (۱) اثر، خبر و حدیث، دونوں سے عام ہے، ان میں سے ہر ایک کو اثر کہا جاتا ہے (۲) بعض لوگوں نے کہا: اثر خبر کے مساوی ہے (۳) بعض لوگوں نے کہا: اثر اسے کہتے ہیں جو صحابی سے مروی ہو، حدیث اسے کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو اور خبر دونوں کو عام ہے، یعنی دونوں کے لیے بولا جاتا ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۶۴)
            تنبیہ: شیعہ امامیہ کے نزدیک حدیث، خبر اور اثر کی تعریفات اور ان کے درمیان مقارنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں اہل سنت و جماعت کے نزدیک ان مصطلحات کی تعریفات سے بہت قریب ہیں، البتہ ان لوگوں نے اپنے مذہب کے اعتبار سے جو ’معصوم علیہ السلام‘ کا اضافہ کیا ہے، وہ اہل سنت و جماعت کی فکر سے بالکل الگ ہے۔
            سنت کی لغوی تعریف:سنت لغت میں طریقہ کو کہتے ہیں۔ سنت کی اصطلاحی تعریف: جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا مطلق معصوم کے قول یا فعل یا تقریر سے صادر ہو(مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۶۸)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک سنت کی تعریف کے اعتبار سے سنت کی تین قسمیں ہیں:(۱) سنت قولیہ (۲) فعلیہ (۳) تقریریہ۔ شیعہ امامیہ کے شیخ مامقانی نے سنت قولیہ اور تقریریہ کی طرف اشارہ نہیں کیااور صرف سنت فعلیہ کی تعریف اور اس کی اقسام کے بیان پر اکتفا کیا، لکھتے ہیں:
            سنت فعلیہ: جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امام علیہ السلام نے کیا ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں: (۱) سنت فعلیہ نبویہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طبعی عادی یا اس مجہول فعل کو کہتے ہیں، جس کی وجہ ظاہر نہ ہوسکی، ہمیں اس کی تعلیل کی اجازت نہیں اور نہ ہی ہم سے اس کی اقتدا کرنے کا مطالبہ ہے۔ سنت فعلیہ امامیہ:
            امامیہ کی دو قسمیں ہیں: (۱) ایک وہ جس میں تقیہ جائز ہے، پھر مکلف خاص کر اس مسئلہ میں تقیہ کے وقت ماذون ہوگا، جیسے وضو میں دونوں پاؤں کا دھلنا وغیرہ، ضرورت کے وقت مکلف کو اس کا کرنا صحیح ہوگااور کسی بھی وقت اس کے اعادہ کی حاجت نہیں ہوگی، یا ماذون نہیں ہوگا، جیسے غیر قبہ کی طرف رخ کرکے نماز وغیرہ پڑھنا، ضرورت کے وقت اس طرح کے حکم کو بجانا لانا قطعی طور پر صحیح ہوگا، مگر وقت ملنے پر اس کا اعادہ لازم ہوگا (۲) دوسرے وہ جس میں تقیہ جائز نہیں، اگر حکم صرف معصوم علیہ السلام کی جہت ہی سے معلوم ہو؛ تو اس کے متعلق تقیہ جائز نہ ہونے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۷۷)
            تنبیہ: شیعہ امامیہ صرف اسی سنت کو مانتے ہیں جو اہل بیت کے طریق سے یعنی: الصادق، عن أبیہ الباقر، عن أبیہ زین العابدین، عن الحسن السبط، عن أبیہ أمیر المؤمنین، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروی ہو؛ اس لیے ہر وہ حدیث جو ان کے غیر سے مروی ہے یا اسناد میں کوئی ایسا راوی ہے جو ان کے طریقہ پر نہیں اور امامی نہیں ہے؛ تو وہ ساقط الاعتبار ہے، خواہ وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو؛ اسی وجہ سے ان کے نزدیک حضرت ابوہریرہ، سمرہ بن جندب، مروان بن الحکم، عمر بن الخطاب اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں(أصل الشیعۃ و أصولھا، ۷۹)
            قابل توجہ امور:
            اول: شیعہ امامیہ نے سنت فعلیہ کی دو قسم: نبویہ اور امامیہ کی؛ ان کے اپنے مذہب کی بنیاد پر کہ ائمہ کے افعال سنت سے ہیں؛ اس لیے وہ ان کی سنت فعلیہ سے احتجاج کرتے ہیں۔
            دوم: شیعہ امامیہ نے سنت اور حدیث وغیرہ کی تعریف کی مگر ان میں صفت خَلقیہ اور خُلقیہ کو داخل نہیں کیا، حالاں کہ ان تعریفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کا اضافہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ کتنے بڑے عیب کی بات ہے کہ جس عظیم شخصیت کے ہاتھوں اللہ تعالی نے ہمیں کفر کے اندھیروں سے اسلام کے اجالوں کی طرف لایا، ہم اسی کی صفات سے لاعلم رہیں۔
            سوم: ان کے ائمہ کے کلام، فعل اور تقریر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام، فعل اور تقریر کے برابر ہے، جو اس بات کی واضح طور سے نشان دہی کرتا ہے کہ ان کے ائمہ کو حق تشریع حاصل ہے اور ان کے اقوال و تقریرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی طرح ان کے متبعین کے لیے برابر برابر حجت ہیں!
            یہاں پر ان کی کتاب ’الکافی؍ کلینی‘ سے جو ان کے نزدیک اہل سنت وجماعت کی کتاب’صحیح البخاری‘ کے قائم مقام ہے، اس پر بعض شواہد پیش کردیتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            (الف)حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کی طرح ہے، ابو عبد اللہ علیہ السلام سے مروی، کہتے ہیں: ’’جس پر حضرت علی نے عمل کرنے کا حکم دیا ہے، اس پر عمل کروں گا اور جس سے روکا، اس سے باز رہوں گا؛ کیوں کہ ان کی فضیلت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کی طرح ہے‘‘ (الکافی؍کلینی، کتاب الحجۃ، باب أن الأئمۃ أرکان الأرض، ج۱ص۱۹۶)
            (ب) جبریل و میکائیل علیہما السلام سے بھی بڑی کوئی مخلوق ہے، جو شیعہ امامیہ کے ائمہ کے ساتھ رہتی ہے، ابوبصیر کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے اللہ تعالی کے قول:{وکذلک أوحینا إلیک روحا من أمرنا ماکنت تدری ما الکتاب و لا الإیمان} (الشوری:۴۲ ، آیت: ۵۲) کے بارے میں پوچھا؛ تو آپ نے فرمایا: ’’اس سے مراد جبریل و میکائیل سے بڑی، اللہ تعالی کی ایک مخلوق ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر انہیں خبر دیتی اور ان کی رہنمائی کرتی اور اب وہ مخلوق ان کے بعد ائمہ کے ساتھ ہے‘‘ (الکافی؍ کلینی، کتاب الحجۃ، باب الفرق بین الرسول و النبی و المحدث،ج۱ص۶۷۱)
            (ج) نیز شیعہ امامیہ کے نزدیک ان کے ائمہ کے پاس ایسے پوشیدہ علوم ہیں، جو کسی کے پاس نہیں، اور وہ علوم یہ ہیں: (۱) علم کے ہزار دروازے، ہر دروازے سے علم کے ہزار دروازے کھلتے ہیں (۲) الجامعۃ، ایک صحیفہ ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے املا کرایا اور اپنے مبارک ہاتھ سے لکھا ہے، نیز اس میں ہر حلال و حرام کا بیان موجود ہے (۳) الجفر، یہ آدم (علیہ السلام) کا ایک برتن ہے، جس میں انبیا، اوصیا اور بنواسرائیل کے علما کا علم ہے (۴) مصحف فاطمہ، یہ موجودہ قرآن کے مثل ہے اور اس میں موجودہ قرآن میں سے ایک حرف بھی نہیں پایا جاتا (۵) جو ہوچکا ہے اور جو قیامات تک ہونے والا ہے اس کا علم (الکافی؍کلینی، کتاب الحجۃ، باب فیہ ذکر الصحیفۃ والجفر والجامعۃ و مصحف فاطمۃ علیہا السلام، ج۱ص۲۴)
            ان کے ائمہ کے یہ علوم وہم و خیال کے سوا کچھ نہیں، جس کا دنیا میں کوئی وجود نہیں؛ کیوں کہ اس طرح کے علوم کا اگر وجود ہوتا؛ تو آج تاریخ کی صورت کچھ اور ہی ہوتی، نیز اس فاسد رائے اور خطرناک عقیدہ کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی کتاب اور سنت نبوی بیان احکام کے لیے کافی نہیں اور نہ ہی ان دونوں چیزوں کے ذریعہ شریعت مکمل ہوئی! یہ عقیدہ و فکر قرآنی آیات کے بالکل خلاف ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {الیوم أکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الإسلام دینا} (المائدۃ:۵، آیت:۳) ترجمہ: ((آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا)) (کنز الایمان) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: {و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء} (النحل:۱۶، آیت:۸۹) ترجمہ: ((اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے)) (کنز الایمان) اس طرح کی رائے و عقیدہ رکھنا یقینا حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو بدلنے کی ناپاک کوشش کرنا ہے، جو کسی بھی صورت میں قابل قبول و عمل نہیں۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک عدد رواۃ کے اعتبار سے حدیث کی دو قسمیں ہیں: حدیث متواتر، حدیث آحاد، ذیل میں دونوں اقسام کے متعلق تصیلات ملاحظہ فرمائیں:
            اولا: حدیث متواتر کی لغوی تعریف: ایک کا ایک کے بعد آنا اس طور سے کہ دونوں کے درمیان تھوڑا فصل ہو، اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: {ثم أرسلنا رسلنا تتری} (المؤمنون:۲۳، آیت: ۴۴)
            حدیث متواتر کی اصطلاحی تعریف: ایک جماعت کی خبر جو کثرت میں اتنے ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃ محال ہو اور ان کی خبر علم کا فائدہ دے، اگرچہ اس کثرت کے علم کا فائدہ دینے میں لوازم خبر کا بھی دخل ہو (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۸۸)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک حدیث متواتر کے تحقق کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
            (۱) حدیث کے راوی اتنے زیادہ ہوں کہ عادۃ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو (۲) جس چیز کے بارے میں خبر دیں اس کی بنیاد محض گمان پر نہ ہو بلکہ اس کے بارے میں ان کو علم بھی حاصل ہو (۳) حدیث کی خبر دینے میں ان کا مستند احساس ہو (۴) حدیث کے بیان کرنے میں طرفین اور واسطہ سب برابر ہوں، یعنی سب کو جس چیز کی خبر دی جارہی ہے، اس کا علم ہو، البتہ پہلے طبقے کا علم بطور مشاہدہ ہوگا اور دوسرے و تیسرے طبقے کا علم تواتر کے ذریعہ ہوگا  (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۱۰۹)
            شیعہ امامیہ کے بعض دیگر علما نے حدیث متواتر کے تحقق کے لیے کچھ مزید شرطیں رکھی ہیں، وہ یہ ہیں:
            (۱) ان میں سے بعض نے اسلام اور عدالت کی شرط رکھی ہے (۲) بعض نے کہا: ایک ہی ملک کے نہ ہوں اور نہ ہی ان کی عدد متعین ہو، مگر یہ شرط فاسد ہے؛ کیوں کہ اگر ایک ملک کے لوگ اپنے بادشاہ کے قتل کی خبر دیں؛ تو یقینا ان کی یہ خبر علم کا فائدہ دے گی (۳) بعض نے اختلاف نسب کی شرط لگائی ہے، اس شرط کا باطل ہونا واضح ہے (۴) بعض نے خبر دینے والوں میں معصوم علیہ السلام کے وجود کی شرط لگائی ہے، مگر یہ شرط بھی باطل ہے؛ کیوں کہ ان کے بغیر بھی علم کا تحقق ہوجاتا ہے  (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۱۱۰)
            عدد کی تعیین جو تواتر کا فائدہ دیتا ہے: اکثر شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خبر متواتر کے متعلق علم کا فائدہ دینے میں مخصوص عدد کی شرط نہیں، اس باب میں معیار یہ ہے کہ جس کثرت سے علم کا تحقق ہوجائے وہی حدیث متواتر ہے  (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۱۱۰)
            امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مذہب اصح یہ ہے کہ حدیث متواتر کے تحقق کے لیے عدد معین کا اعتبار نہیں‘‘ (تدریب الراوی، ج۲ ص۱۷۶)
            حدیث متواتر اور علم ضروری کا افادہ:
            حدیث متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے یا نہیں، اس بارے میں شیعہ امامیہ کے علما کا اختلاف ہے، شیخ بہائی اور شیعہ کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ حدیث متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے اور شیخ علم الہدی و شیخ مامقانی نے حدیث متواتر کا علم ضروری یا نظری کے فائدہ دینے میں توقف اختیار کیا ہے، چنانچہ انہوں نے کہا کہ متواتر کی دو قسمیں ہیں:
            ایک قسم وہ ہے جو مبادی متواتر کے حصول کے بعد اضطراری طور پر کسی کسب کے بغیر حاصل ہوجاتی ہے، جیسے مشاہدات، ضروریات اور مکہ وغیرہ کا وجود۔
            دوسری قسم وہ ہے جو کسب کے بعد حاصل ہوتی ہے، جیسے مسائل علمیہ، جن میں کتابوں کو پڑھنے، علما سے ملاقات کرنے اور ان سے سماعت وغیرہ کے ذریعہ تتبع و جستجو کا حصول ضروری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تتبع اور خبر کی سماعت، نظر میں حصول رجحان کے لیے تدریجا ہوتا ہے، یہاں تک کہ تتبع کرنے والا حصول علم کے قریب تر ہوجاتا ہے، پہلے مقدمات کو دیکھتا ہے کہ یہ خبریں کس کے ذریعہ حاصل ہوئی ہیں اور کیا راویوں کی جماعت اتنی زیادہ ہے جن کا جھوٹ پر اتفاق نہیں ہوسکتا، اس کے بعد کہیں جاکر اس کو یقین حاصل ہوتا ہے اور یہ متواتر نظری ہے  (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۱۱۰)
            البتہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث متواتر صرف علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے، جس میں کسی طرح شک و انکار کی گنجائش نہیں ہوتی؛ اسی لیے ان کے نزدیک حدیث کے تواتر کا ثبوت ہوجاتا ہے؛ تو وہ اپنے سننے والے کو علم ضروری ہی کا فائدہ دیتی ہے۔
            اقسام متواتر:شیعہ امامیہ کے نزدیک حدیث متواتر کی دو قسمیں ہیں: (۱) متواتر لفظی (۲) متواتر معنوی۔
            متواتر لفظی کی تعریف: وہ حدیث ہے جس میں خبر دینے والوں کے الفاظ متحد ہوں۔ متواتر معنوی کی تعریف: خبر دینے والوں کے الفاظ متعدد ہونے کے باوجو الفاظ ایسے معانی پر مشتمل ہیں جو بطور تضمن یا التزام آپس میں مشترک ہوں اور ساتھ ہی کثرت اخبار کی وجہ سے اس قدرِ مشترک کے ذریعہ علم بھی حاصل ہوگیا ہو (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۱۱۵)
            متواتر لفظی کی مثال: حدیث: ((من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار)) دلالت التزامی کے اعتبار سے متواتر معنوی کی مثال: مروی ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے غزوئہ بدر میں کمال دکھایا، غزوئہ احد میں یہ بہادری دکھائی اور غزوئہ خیبر میں ایسا کارنامہ انجام دیا، ان میں سے ہر ایک حکایت امیر المؤمنین علیہ السلام کی شجاعت کو مستلزم ہے، اس کے متعلق کثرت حکایت کے پیش نظر ہم کہتے ہیں:
            علی علیہ السلام بہادر ہیں اور یہ قضیہ ہے جو معنوی ہے، خبر دینے والوں نے کثرت سے اس کے بارے میں خبر دی ہے؛ اس لیے اس کے متعلق خبر متواتر ہوگی (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ، ج۱ص۱۱۵)
            حدیث متواتر کا وجود: لفظی متواتر احادیث کا وجود شیعہ امامیہ کے نزدیک کم ہے، جیسا کہ ان کے عالم شہید ثانی نے ’بدایۃ الدرایۃ‘ میں اور ان کے بعض دیگر علما نے وضاحت کی ہے، مگر اس کے برعکس معنوی متواتر احادیث کا وجود بکثرت پایا جاتا ہے (مقباس الھدایۃ؍ مامقانی، ج۱ص۱۲)
            ثانیا: حدیث آحاد، اسے کہتے ہیں جو حد تواتر تک نہ پہونچی ہو، اس کی چند اقسام ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
            حدیث مستفیض:
            حدیث مستفیض کی لغوی تعریف: یہ فاض الماء یفیض فیضا و فیوضا سے ماخوذ ہے، معنی اتنا زیادہ پانی ہوا کہ بہ گیا۔ حدیث مستفیض کی اصطلاحی تعریف: وہ حدیث ہے جس کے راوی ہر مرتبہ و طبقہ میں زیادہ ہوں۔شیعہ امامیہ کے نزدیک راجح مذہب کے مطابق حدیث مستفیض حدیث آحاد ہی کی ایک قسم ہے (مقباس الھدایۃ؍ مامقانی، ج۱ ص۱۲۸)
            حدیث مشہور: وہ حدیث ہے جس کے راوی ہر طبقہ یا بعض طبقہ میں تین سے زیادہ ہوں، جیسے حدیث: ((إنما الأعمال بالنیات)) (مقباس الھدایۃ؍ مامقانی، ج۱ص۱۳۰)
            حدیث عزیز: وہ حدیث ہے، جس کے راوی ہر طبقہ میں دو سے کم نہ ہوں (مقباس الھدایۃ؍ مامقانی، ج۱ص۱۳۴)
            حدیث غریب: شیعہ امامیہ کے نزدیک حدیث غریب کی دو قسمیں ہیں: (۱) غریب مطلق (۲) غریب لفظی۔
            (۱) غریب مطلق: وہ حدیث ہے، جس کے روایت کرنے میں ایک راوی تمام طبقات یا بعض طبقات میں منفرد ہو، اور یہ تفرد ابتداے سند یا سند کے اخیر میں ہو، اگرچہ سند کے تمام طبقات میں راوی متعدد ہوں۔
            غریب مطلق کی دوسری تعریف: وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے میں راوی سند کی کسی جگہ میں متفرد ہو، اگرچہ اس راوی تک یا اس راوی سے متعدد طرق ہوں، پھر اگر یہ تفرد اصل سند میں ہو تو فرد مطلق ورنہ فرد نسبی ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۳۴)
            پھر شیعہ امامیہ کے نزدیک غریب مطلق کی تین قسمیں ہیں:
            پہلی قسم: وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے میں ایک راوی اپنے مثل سے روایت کرنے میں متفرد ہو اور یہ تفرد آخری سند تک ہو مگر متن، صحابہ یا ان کے علاوہ کی ایک جماعت سے مشہور و معروف ہو (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۲۲۷)
            دوسری قسم: وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے میں راوی متفرد ہو، پھر اس راوی سے کوئی ایک راوی روایت کرے اور اس کے بعد اس راوی سے کثیر جماعت روایت کرے، پھر اسی متفرد سے حدیث کا اخذ کرنا مشہور ہوجائے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۲۲۹)
            تیسری قسم: وہ حدیث ہے جس کا متن ایک جماعت سے مشہور ہونے کے باوجود اس کا راوی تمام مراتب میں ایک ہو (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۲۳۱)
            (۲) غریب لفظی: وہ حدیث جو مشکل لفظ پر مشتمل ہو اور لغت میں قلت استعمال کی وجہ سے اسے سمجھنا بعید ہو (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۲۳۱)
            شیعہ امامیہ جس حدیث کو غریب لفظی کہتے ہیں، اہل سنت و جماعت کے نزدیک اسے غریب الحدیث کہا جاتا ہے، جس میں سند سے نہیں بلکہ متن سے بحث ہوتی ہے، اور شیعہ امامیہ کے نزدیک جسے غریب مطلق کہتے ہیں، وہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک خبر آحاد کی تیسری قسم ہے۔
            قبول و رد کے اعتبار سے تقسیم:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک قبول و رد کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں ہیں: صحیح، حسن، موثق اور ضعیف، شیعہ امامیہ کے یہاں یہ تقسیم ساتویں صدی ہجری کے نصف میں وجود پذیر ہوئی، ورنہ اس سے پہلے ان کے نزدیک قبول و رد کے اعتبار سے حدیث کی صرف دو قسم صحیح اور ضعیف تھی، شیعہ امامیہ کے ایک عالم محی الدین موسوی لکھتے ہیں:حدیث کی چار قسمیں: صحیح، حسن، موثق اور ضعیف فقہا او رمحدثین امامیہ کے نزدیک معروف نہیں تھیں؛ کیوں کہ ان کے نزدیک حدیث یا تو صحیح تھی جو قرائن سے متصف ہو اور قطع یا معصوم علیہ السلام سے صدور کے وثوق کا فائدہ دے، یا ضعیف تھی جو قرائن سے متصف نہ ہو (قواعد الحدیث؍موسوی، ص۱۵)
            شیعہ امامیہ کے شیخ جمال الدین احمد بن موسی حسنی جو ابن طاووس سے معروف ہیں، انہوں نے سب سے پہلے اس تقسیم کی ایجاد کی، جن کا انتقال سن ۶۷۳ھ میں ہوا ۔
            سید محسن امین لکھتے ہیں: علماے شیعہ میں سے شیخ جمال الدین احمد بن موسی بن جعفر حسنی ہیں، یہی اصطلاح جدید یعنی حدیث کی چار قسموں: صحیح، حسن، موثق اور ضعیف کے موجد ہیں، ان کی وفات ۶۷۳ھ میں ہوئی (أعیان الشیعۃ؍محسن امین، ج۱ص۱۴۹)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک حدیث کے تقسیم کی علت:
            شیعہ امامیہ کے شیخ محی الدین موسوی لکھتے ہیں: جن علماے شیعہ نے حدیث کی صرف دو قسم: صحیح اور ضعیف کی ہے، ان کی علت یہ ہے: (الف) تمام احادیث قرائن سے متصف ہونا، جن کے ذریعہ شریعت میں استدلال کیا جاتا ہے، وہ معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے کی وجہ سے وثوق و قطع کا فائدہ دیتی ہیں؛ لہذا تمام احادیث حجت ہیں؛ اس لیے حدیث کی تقسیم باطل ہے؛ کیوں کہ تقیسم کا مطلب یہ ہے کہ سند کے ضعف کی وجہ سے بعض حدیث حجت نہیں۔
            (ب) ہمارے قدیم فقہا کے نزدیک وہی احادیث حجت ہیں جو انہیں قرائن سے متصف ہوں؛ لہذا رجال سند کے لحاظ سے تقسیم کرنا بدعت ہے، جس پر عمل کرنا حرام ہے۔
            علماے شیعہ امامیہ میں سے جن لوگوں نے حدیث کی چار قسمیں کی ہیں، ان لوگوں نے اس راے کو پسند نہیںکیا جس کی وجہ سے یہ لوگ مندرجہ بالا راے کا رد بھی کرتے ہوئے نظر آئے:
            پہلے دعوی کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں: جن لوگوں کو معصوم علیہ السلام سے ان اخبار کے صدور کا قطعی علم حاصل ہوا، وہ ان کے حق میں حجت تھیں؛ اس لیے انہیں اسناد میں نظر کرنے کی ضرورت نہ پڑی اور حدیث کی تنویع و تقسیم ان کے نزدیک باطل قرار پائی، لیکن وہ لوگ جن کے نزدیک وہ قرائن متحقق نہیں ہوئے، ان کو احادیث کی سند میں غور و فکر کرنے اور ان انواع کی تلاش سے کرنے سے چھٹکارا نہیں۔
            دوسرے دعوی کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں: قدیم علما کا ائمہ اطہار علیہم السلام کے زمانہ سے قریب ہونے کی وجہ سے ان سے احادیث کے صدور ہونے کا قطعی ثبوت حاصل کرنا آسان تھا؛ کیوں کہ اس پر کثرت سے قرائن موجود تھے؛ اس لیے انہیں رجال سند کے متعلق تفتیش کی حاجت نہ پڑی کہ خواہی نہ خواہی انہیں احادیث کی تقسیم کرنی پڑے، لیکن متاخرین علما کا ائمہ کے زمانہ سے دور ہونے کی وجہ سے ان پر وہ قرائن پوشیدہ رہ گئے؛ جس کی وجہ سے انہیں سند اور راویوں کی صفات کے لحاظ سے تقسیم کرکے، ان قسموں میں سے کونسی قسم دلیل کے قابل ہے، اس میں نظر کرنی پڑی (قواعد الحدیث؍ موسوی، ص۱۸)
            اور اہل سنت و جماعت کے نزدیک قبول و رد کے اعتبار حدیث کی تین قسمیں ہیں: صحیح، حسن اور ضعیف، لیکن متقدمین صرف دو ہی قسم: صحیح اور ضعیف کرتے تھے اور حسن کو صحیح میں ہی داخل مانتے تھے، اور جنہوں نے حدیث کی تین قسمیں: صحیح، حسن اور ضعیف کی ہیں، ان میں سے امام ابو عیسی ترمذی رحمہ اللہ ہیں، جن کی وفات ۲۷۹ھ میں ہوئی، ان سے اور دیگر علما سے امام خطابی رحمہ اللہ نے نقل کیا، جن کی وفات ۳۸۸ھ میں ہوئی۔
            یہ ان کی اصطلاحات ہیں اور اصطلاحات پر کوئی اعتراض نہیں؛ اس لیے ان اصطلاحات سے اہم ان کے معانی ہیں، جن کے تعلق سے ان شاء اللہ ہم آئندہ سطور میں گفتگو کریں گے۔
            حدیث صحیح کی تعریف: جس کی سند معصوم علیہ السلام تک عدل امامی، اسی کے مثل کے ذریعہ تمام طبقات میں متصل ہو (قواعد الحدیث؍موسوی، ص۴۲)
            تعریف کی تشریح : اتصال کی قید سے حدیث مقطوع، معضل اور مرسل خارج ہوگئیں، معصوم سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امام علیہ السلام ہیں، عدل کی قید سے حدیث حسن خارج اور امامی کی قید سے حدیث موثق نکل گئی (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۴۶)
            ضبط: بعض لوگوں نے عدل کے ساتھ ضابط ہونے کی بھی قید لگائی ہے، مگر اس قید کو یہ کہ کر رد کردیا گیا کہ عدل کی قید ضبط کی قید سے بے نیاز و مستغنی کردیتی ہے، شذوذ: شیعہ امامیہ کے نزدیک عدم شذوذ کی قید معتبر نہیں، عدم علت: یہ قید بھی ان کے نزدیک قابل قبول نہیں؛ کیوں کہ اتصال کی قید اس سے بے نیاز کردیتی ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۵۳)
            لیکن اہل سنت و جماعت کے نزدیک یہ ساری قیود یعنی ضبط، عدم شذوذ اور عدم علت کی قیود معتبر ہیں۔
            یہاں ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ شیعہ امامیہ نے صحیح حدیث کی تعریف میں جو شروط لگائی ہیں، کیا واقعی یہ سب شرطیں ان کی اصح کتاب ’الکافی؍کلینی‘ میں پائی جاتی ہیں، اس سوال کا جواب عنقریب آنے والی سطور میں واضح ہوجائے گا، ملاحظہ فرمائیں:
            پہلی شرط اتصال سند: شیعہ امامیہ نے حدیث صحیح کی تعریف کرتے ہوئے اتصال سند کی قید لگائی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے نزدیک حدیث مرسل و منقطع، حدیث صحیح نہیں، مگر اس کے باوجود یہ لوگ حدیث مرسل پر صحیح کا اطلاق کرتے ہیں، ان کے شیخ مامقانی کہتے ہیں:
            ’’ابن ابی عمیر نے ’الصحیح‘ میں اس طرح روایت کی، حالاں کہ ان کی منقولہ روایت مرسل ہے، اسی طرح بکثرت حدیث مقطوع کے تعلق سے بھی واقع ہے‘‘ (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۵۷)
            ہم یہاں پر قارئین کے سامنے ابن ابی عمیر کا مختصر ترجمہ پیش کردیتے ہیں تاکہ وہ خود فیصلہ کرسکیں کہ کیا حقیقت میں ان کی مراسیل پر صحت کا اطلاق ہوسکتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
            شیعہ امامیہ کے عالم طرطوسی لکھتے ہیں: نام: محمد بن ابی عمیر، کنیت: ابو احمد، خاصہ (شیعہ امامیہ) و عامہ (اہل سنت و جماعت) دونوں کے نزدیک اوثق الناس اور بہت زیادہ متقی و پرہیز گار تھے، ائمہ علیہم السلام میں سے تین لوگوں کا زمانہ پایا ہے، وہ یہ ہیں: ابو ابراہیم موسی علیہ السلام، مگر ان سے روایت نہیں کی ہے، رضا علیہ السلام، ان سے روایت کی ہے، جواد علیہ السلام، ان کی کثیر تعداد میں مصنفات موجود ہیں (الفھرست؍طرطوسی، ص۱۴۲)
            اہل سنت و جماعت کے علما میں سے ابن حبان نے ان کو ’الثقات‘ میں ذکر کیا ہے (الثقات؍ابن حبان، ج۵ص ۳۶۱) اور ابن حجر نے لکھا: یہ اشراف کوفہ میں سے تھے (لسان المیزان؍ابن حجر، ج۵ص۳۷۳)
            لیکن یہ بات مشہور و معروف ہے کہ ابن حبان توثیق کے معاملہ میں متساہل ہیں اور حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں جرح و تعدیل، کچھ بھی نہیں ذکر کیا۔
            شیعہ امامیہ کے ایک اور عالم نجاشی ان کی تھوڑی تعریف و توصیف کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ان کی کچھ کتابیں تھیں، کہا جاتا ہے: جب وہ روپوش تھے؛ تو ان کی بہن نے ان کی کتابوں کو دفن کردیا، بعض لوگوں نے کہا: کتابیں کمرے میں رکھی ہوئی تھیں، بارش کی وجہ سے سب ضائع ہوگئیں، جس کے سبب وہ اپنے حافظہ پر اعتماد کرکے اور جو لوگوں کو بیان کرچکے تھے، اسے بیان کیا؛ اسی وجہ سے ہمارے اصحاب ان کی مراسیل پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی وفات ۲۱۷ھ میں ہوئی (رجال النجاشی، ج۲ص۲۰۴)
            اس بیان سے اتنی بات تو واضح ہوگئی کہ تیسری صدی ہجری میں ان کا انتقال ہوا، ان کی کتابیں ضائع ہوگئی تھیں، اور ایسی روایات بیان کرتے تھے جو لوگوں کے پاس پہلے کی بیان کی ہوئی روایات تھیں، اس کے باوجود یہ لوگ ان کی مراسیل پر اعتماد کرنے کے ساتھ اسے صحیح بھی قرار دیتے ہیں، مزید برآں یہ کہ وہ ضعفا و کذاب سے روایت کرتے ہیں اور یہ روایتیں شیعہ کی معتمد علیہ کتابوں: الکافی، التھذیب اور الاستبصار میں موجود ہیں، بطور مثال ایک روایت پیش خدمت ہے:
            کلینی نے سند صحیح کے ذریعہ عن ابن أبی عمیر عن علی بن حمزۃروایت کیا ہے (الکافی؍کلینی، کتاب الجنائز، باب النوادر، ج۳ص۲۲۵)اس روایت میں موجود علی کے بارے میں علی بن حسن بن فصال کہتے ہیں: کذاب، ملعون ہے (معجم رجال الحدیث؍موسوی، ج۱ص۶۶) اور شیعہ امامیہ کے عالم طرطوسی نے بھی اس راوی پر لعنت کی (ھامش الفھرست، ص۹۶)
            اور رہی بات منقطع احادیث کی جو اتصال سند کے منافی ہے، تو شیعہ حضرات نے اس کی تخریج کتاب اللہ کے بعد اپنی اصح کتاب ’الکافی‘ میں بہت زیادہ کی ہے، بطور مثال صرف ایک روایت یہاں ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            شیعہ کے امام کلینی لکھتے ہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔ عن عبد الرحمن بن أبی نجران، عمن ذکرہ، عن أبی عبد اللہ علیہ السلام، قال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(الکافی؍کلینی، کتاب فضل العلم، باب النوادر، ج۱ص۴۹)
            اس روایت میں انقطاع عمن ذکرہ پر واقع ہے؛ کیوں کہ عبد الرحمن نے اس روایت میں، اس راوی کا ذکر ہی نہیں کیا جس نے ابوعبد اللہ سے سنا ہے اور عبد الرحمن نے ابوعبد اللہ کا زمانہ بھی نہیں پایا ہے (رجال النجاشی، ج۲ص۴۵) اور اس کے علاوہ شیعہ امامیہ کی اصح کتاب ’الکافی‘ میں لاتعداد انقطاع موجود ہے، جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔
            دوسری شرط عدالت: شیعہ امامیہ نے حدیث صحیح ہونے کے لیے اتصال سند کی شرط لگائی اور اس پر کھرے نہیں اتر سکے، اب ان کی ایک شرط عدالت کی طرف چلتے ہیں، عدالت کی شرط تصحیح حدیث کے باب میں بہت اہمیت کی حامل ہے؛ اس وجہ سے غیر عادل کی روایت قبول نہیں کی جاتی، شیعہ کے عالم شہید ثانی کہتے ہیں: اسی پر جمہور ائمہ حدیث اور اصول فقہ کا اتفاق ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۳۴) اور معروف ہے کہ کسی کی عدالت دو عادل عالموں کی تنصیص یا استفاضہ و شہرت سے ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ خود شیعہ کے امام مامقانی نے اس کی صراحت کی ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۶۳)
            اس کے باوجود شیعہ کے عالموں نے بعض ایسے راوی جن کے بارے میں جرح و تعدیل کچھ بھی مذکور نہیں، ان کی روایات کو صحیح مانا، اور ان کی روایات کو اصح کتب ’الکافی‘ میں ذکر کیا گیا، شیعہ کے عالم شیخ بہائی لکھتے ہیں: کبھی بعض احادیث کی اسانید میں ایسے راوی بھی داخل ہوتے ہیں جن کے بارے میں کتب جرح و تعدیل میں مدح و ذم کچھ بھی ذکر نہیں کیا گیا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارے سابقین بڑے علما نے ان کی روایات کا کافی اہتمام کیا اور ہمارے متاخرین علما نے ان کی روایات پر صحت کا حکم لگایا (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۱۳۰)
            جن راویو ں کے متعلق جرح و تعدیل کچھ بھی مذکور نہیں، اس کے باوجود شیعہ حضرات نے ان کی احادیث کو صحیح قرار دیا، ان میں سے بعض یہ ہیں: احمد بن محمد بن حسن بن ولید، احمد بن یحی عطار، علی بن ابی جید اور معاویہ بن میسرہ وغیرہ اور یہ طریقہ کار، مذکور صحیح حدیث کی تعریف سے خارج ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۱۳۱، اصول الروایۃ عند الشیعۃ الامامیۃ؍ص۱۸۴)
            اس کے علاوہ مزید ایسے راوی بھی ہیں جن کے متعلق تعدیل و تجریح میں اختلاف ہے، اس کے باوجود ان پر کلی اعتماد کیا گیا، یہاں تک کہ شیعہ امامیہ کے اخبار و احادیث کا دار و مدار انہیں راویوں پر ہے، کچھ مختلف فیہ راویوں پر کسی حدتک اعتماد کرنا، نامناسب بات تو نہیں مگر بالکلیہ انہیں پر توکل کرنا اور مرویات کا دار و مدار انہیں پر ہونا یہ ضرور نامناسب بات ہے، ان میں سے بعض راوی یہ ہیں:
            زرار بن اعین، ابوبصیر لیث مرادی، محمد بن مسلم اور یزید بن معاویہ، یہی وہ افراد ہیں جو شیعہ امامیہ کی احادیث کے باب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ابوعبد اللہ علیہ السلام کہتے ہیں: ’’میں زرار بن اعین، ابوبصیر لیث مرادی، محمد بن مسلم اور یزید بن معاویہ عجلی کے سوا کسی کو نہیں پاتا ہوں جس نے ہمارے ذکر کو زندہ رکھا ہو اور میرے باپ کی احادیث کو رواج دیا ہو، اگر یہ لوگ نہ ہوتے؛ تو یہ مسائل استنباط نہ کئے گئے ہوتے، یہ لوگ دین کے محافظ، اللہ کے حلال و حرام پر میرے والد علیہ السلام کے امین ہیں اور یہی لوگ دنیا و آخرت میں ہماری طرف سبقت کرنے والے ہیں‘‘ (رجال الکشی؍ج۱ص۳۴۸)
            ہم یہاں پر اختصار کے پیش نظر ان کے بنیادی راویوں میں صرف ایک کے بارے میں انہیں کے علما کے اقوال نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
            زرارہ بن اعین: یہ زرارہ بن اعین بن سنسن ہیں، کنیت ابوالحسن، نجاشی کہتے ہیں: ’’یہ اپنے زمانہ میں ہمارے اصحاب کے شیخ اور ان میں مقدم، قاری، فقیہ، متکلم، شاعر اور ادیب تھے، فصل و دین کی خصلت ان میں جمع تھی اور روایت کرنے میں صادق تھے، ان کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی‘‘ (رجال النجاشی؍ج۱ص۳۹۷)
            لیکن جہاں شیعہ امامیہ کے بعض علما نے اس بنیادی راوی کی تعریف و تعدیل کی ہے وہیں پر ان میں سے بعض نے ان پر سخت ترین جرح بھی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
            عبد الرحیم قصیر کہتے ہیں: ’’ابوعبد اللہ نے مجھ سے کہا: زرارہ اور برید کو بلاکر ان سے کہو: یہ کیسی بدعت ہے جو تم دونوں نے ایجاد کر رکھی ہے، کیا تم دونوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ (رجال الکشی؍ج۱ص۳۴۵) نیز ابوعبد اللہ علیہ السلام کہتے ہیں: ’’اللہ برید پر لعنت کرے، اللہ زرارہ پر لعنت کرے‘‘ (رجال الکشی؍ج۱ص۳۶۴) نیز ابوعبد اللہ علیہ السلام سے جب ایک شخص نے پوچھا کہ زرارہ سے آپ کی ملاقات کا کیا حال ہے؛ تو انہوں نے ان کے بارے میں اس طرح اظہار خیال فرمایا: ’’میں نے اس کو ایک زمانہ سے نہیں دیکھا، اس کی طرف توجہ نہ دو، اگر بیمار ہوجائے؛ تو اس کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائے؛ تو اس کے جنازہ میں شریک نہ ہو، راوی کہتے ہیں: میں نے تعجب سے کہا: آپ زرارہ کے بارے میں ایسا کہ رہے ہیں؟! انہوں نے کہا: ہاں زرارہ، زرارہ یہود و نصاری بلکہ جس نے اللہ تعالی کے متعلق ثالث ثلاثہ کا قول کیا، اس سے بھی بد تر ہے‘‘ (رجال الکشی؍ج۱ص۳۸۱)
            شیعہ امامیہ کے بنیادی راوی کی خود ان کے نزدیک یہ حالت ہے اور جن کتابوں سے یہ حالت بیان کی گئی ہے، ان کے نزدیک رجال کے متعلق یہ کتابیں، ام الکتب کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ کتب یہ ہیں: (۱) رجال الکشی (۲) رجال النجاشی (۳) رجال الطوسی (۴) الفھرست للطوسی، شیعہ امامیہ کے نزدیک ان اصول اربعہ میں سے قدیم تر کتاب رجال الکشی ہی ہے (مقدمۃ رجال النجاشی، ص: ب، ج، د)
            ان کی اصح کتب ’الکافی‘ میں اس راوی کی کثیر تعداد میں مرویات موجود ہیں، استاد محمد مال اللہ نے اپنی کتاب ’نقد ولایۃ الفقیہ‘ میں زرارہ بن اعین کی مرویات کا شمار کیا ، جن کی تعداد تقریبا سات سو (۷۰۰) تک پہونچتی ہے!! (نقد ولایۃ الفقیہ؍محمد، ص۲۸)
            تیسری شرط امامی ہونا: حدیث کے صحیح ہونے کے لیے شیعہ امامیہ نے ایک شرط راوی کا امامی اثنی عشری ہونا رکھی ہے، مگر شیعہ امامیہ صحت حدیث کی اس شرط پر بھی قائم و دائم نہ رہ سکے اور امامی راوی کے علاوہ کی احادیث کو صحیح قرار دیا، جیسے عبد اللہ بن بکیر بن اعین جو امامی نہیں بلکہ فطحی اور سماعہ بن مہران حضرمی، علی بن حمزہ اور عثمان بن عیسی امامی نہیں بلکہ واقفی ہیں (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۷۲)
            بہر حال شعیہ امامیہ نے صحت حدیث کے لیے جن شروط کو رکھا تھا، ان میں سے کسی ایک شرط پر بھی قائم نہ رہے اور نہ ہی ان کے التزام اور رعایت کرنے میں کھرے اتر سکے!!
            حدیث حسن: وہ حدیث ہے جس کی سند ممدوح امامی کے ذریعہ اس کی عدالت کی صراحت کیے بغیر معصوم علیہ السلام تک ملی ہوئی ہو، اور یہ تمام مراتب یا بعض میں باقی کے رجالِ صحیح ہونے کے ساتھ ہو (قواعد الحدیث؍موسوی، ص۴۲)
            تعریف کی وضاحت: حدیث کی تعریف میں ممدوح سے مطلقا مد ح کیا ہوا مراد نہیں بلکہ ممدوح کی ایسی مدح کی گئی ہو جو معتدبہ و مقبول ہو، شیعہ امامیہ کے نزدیک مدح تین طرح کی ہے: ایک ایسی مدح جس کا قوت سند میں دخل ہو، جیسے صالح و خیر وغیرہ، دوسری مدح جس کا سند کی قوت میں نہیں بلکہ قوت متن میں دخل ہو، جیسے فہیم و حافظ وغیرہ، اور تیسری مدح جس کا دونوں میں دخل نہ ہو، جیسے شاعر و قاری وغیرہ، اور جو سند کے حسن یا قوی ہونے کا فائدہ دیتی ہے، اس سے مراد پہلی مدح ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۶۴)
            حدیث موثق: وہ حدیث ہے جس کی سند معصوم علیہ السلام تک اس راوی کے ذریعہ ملی ہو جس کے عقیدہ کے فساد کے باوجود اس کی توثیق کی گئی ہو، جو امامیہ کے مخالف فرقوں میں سے ایک ہو، اگرچہ وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو، اور یہ تمام راویوں میں ہو یا بعض میں، باقی کے رجال، رجالِ صحیح ہونے کے ساتھ ہو، ورنہ اگر طریق حدیث میں کوئی ضعیف ہو؛ تو ادنی کے تابع ہوکر حدیث ضعیف ہوگی۔
            تعریف کی وضاحت: اصحاب کی توثیق کا مقصد یہ ہے کہ اگر مخالفین ان راویوں کی توثیق کریں گے؛ تو نامقبول ہوگی؛ کیوں کہ شیعہ امامیہ کے اصحاب ہی کی توثیق کا اعتبار ہے، غیر کی توثیق کا کوئی اعتبار نہیں؛ اسی وجہ سے مخالفین نے جن رایوں کو اپنی صحاح میں توثیق کے بعد ذکر کیا ہے، ان کی مرویات شیعہ امامیہ کے نزدیک ضعیف ہیں (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۶۸) اور شیعہ امامیہ کے نزدیک حدیث حسن کی حیثیت، حدیث موثق سے اعلی و ارفع ہے؛ کیوں کہ حدیث حسن کے راوی میں اقل درجہ ممدوح امامی کا ہے اور حدیث موثق میں اقل درجہ غالبا غیر امامی موثق کا ہوتا ہے اور اس میں دو راے نہیں کہ امامی، غیر امامی سے افضل و اعلی ہے؛ لہذا اس کی روایت کا مرتبہ بھی اعلی ہوگا (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۷۰)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک راوی کی وثاقت یا اس کا حسن ہونا مندرجہ ذیل امور میں سے کسی ایک سے ثابت ہوتا ہے، وہ یہ ہیں:
            (۱) معصومین میں سے کسی نے صراحت کی ہو؛ تو اس سے وثاقت اور حسن ہونا ثابت ہوجاتا ہے (۲) شیعہ امامیہ کے متقدمین علما جیسے کشی و نجاشی وغیرہ میں سے کسی نے تنصیص کی ہو؛ تو اس سے بھی وثاقت یا حسن ہونا ثابت ہوجاتا ہے (۳) متاخرین علما میں سے کسی نے تصریح کی ہو؛ تو اس سے بھی وثاقت یا حسن ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے، مگر اس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کے وثاقت کی خبر دی جائے وہ خبر دینے والے کا معاصر ہو، جیسے شیخ بن شہر آشوب وغیرہ کی توثیقات، اور اگر معاصر نہ ہو؛ تو اس کی توثیقات کا اعتبار نہیں، جیسے ابن طاووس وغیرہ کی توثیقات (معجم رجال الحدیث؍خوئی، ج۱ص۳۹) (۴) متقدمین کی طرف سے اجماع کا دعوی، اس سے بھی وثاقت یا حسن ہونا ثابت ہوتا ہے، یعنی متقدمین میں سے کسی نے اگر کسی راوی کی وثاقت پر اجماع کا دعوی کیا؛ تو اس کا یہ دعوی قابل قبول ہوگا (معجم رجال الحدیث؍خوئی، ج۱ص۴۶)
            کیا شیعہ امامیہ کے نزدیک بھی اہل سنت کی طرح احادیث کا مرتبہ تعدد طرق سے بڑھتا ہے:
            شیعہ کے عالم مامقانی لکھتے ہیں: ’’حدیث کبھی دو حسن یا دو موثق یا دو ضعیف یا دو سے زائد طرق سے مروی ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ا س قسم کی حدیث اسی قسم کی اس حدیث سے قوی تر ہے جو ایک ہی طریق سے مروی ہے، لیکن کیا تعارض کے وقت اس قسم کی حدیث اپنے سے بڑھ کر مرتبہ والی حدیث کے برابر ہوگی، اس باب میں تحقیق یہ ہے کہ یہ چیز موارد کے اختلاف جیسے مراتب جرح میں راویوں کا تفاوت، طرق کی کثرت و قلت اور متن کا عموم کتاب یا سنت یا علما کے عمل سے موافقت وغیرہ کے اختلاف سے مختلف ہوتی ہے، اور کبھی حسن جب اس کے طرق کثیر ہوں؛ تو صحیح کے برابر بلکہ اگر دوسرے مرجحات بھی ہوں؛ تو صحیح سے بڑھ بھی جاتی ہے (مقباس الھدایۃ؍ج۱ص۱۸۱)
            حدیث حسن اور موثق کے متعلق شیعہ امامیہ کا موقف: شیعہ امامیہ کے عالم مامقانی لکھتے ہیں: ’’اکثر لوگوں کے نزدیک حدیث حسن و موثق پر عمل کرنے کی اجازت نہیں؛ کیوں کہ خبر کے قبول کرنے میں ایمان و عدالت کی شرط ہے، پھر کہتے ہیں: عجیب بات ہے کہ شیخ طوسی نے بھی اپنی کتب اصول میں اس کی شرط لگائی ہے، اس کے باوجود ان سے حدیث اور کتب الفروع میں غرائب واقع ہوئے، کبھی کبھی حدیث ضعیف پر مطلقا عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ذریعہ وہ احادیث صحیحہ کی تخصیص بھی کرتے ہیں، کبھی حدیث کو اس کے ضعیف ہونے کی وجہ سے رد بھی کرتے ہیں اور کبھی حدیث صحیح کو اس وجہ سے رد کردیتے ہیں کہ وہ خبر واحد ہے جو علم و عمل کو واجب نہیں کرتا‘‘(مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۹۸)
            یہ شیعہ امامیہ کے شیخ اور منفرد المثال قائد طوسی کا حال ہے کہ وہ اپنے مقرر کیے ہوئے قواعد حدیث پر عمل کرنے سے عاجز نظر آتے ہیں اور اپنے متبعین کو حرج میں پڑنے سے بچانے کے لیے حدیث صحیح کو رد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں!
            پھر مامقانی مزید لکھتے ہیں: ’’بعض دوسرے حضرات نے تھوڑی تفصیل کرکے حدیث حسن و موثق کو قبول کیا ہے بلکہ کبھی حدیث ضعیف پر بھی عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جب کہ اس حدیث کے مضمون پر عمل کرنا اصحاب کے درمیان مشہور ہو، یہاں تک کہ اسے حدیث صحیح پر مقدم رکھتے ہیں اگر حدیث صحیح کے مضمون پر عمل کرنا مشہور و معروف نہ ہو ۔۔۔۔۔۔الخ‘‘ (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۹۸)
            حاصل یہ کہ اگرچہ شیعہ امامیہ کے اکثر علما کا یہ مذہب ہے کہ حدیث حسن و موثق پر عمل نہیں کیا جائے گا اور جب ان پر عمل نہیں کیا جائے گا؛ تو حدیث ضعیف پر بدرجہ اولی عمل نہیں کیا جائے گا، مگر اس کے باوجود کچھ اسباب کی وجہ سے بعض دوسرے شیعہ امامیہ کے علما نے اکثر کی مخالفت کرتے ہوئے حدیث حسن بلکہ حدیث موثق بلکہ حدیث ضعیف پر بھی عمل کیا!۔
            حدیث ضعیف: وہ حدیث ہے جس میں اقسام سابقہ میں سے کسی ایک کی بھی شروط موجود نہ ہوں، اس طرح کہ اس کی سند فسق وغیرہ سے مجروح شخص یا مجہول الحال یا اس کے مشابہ جیسے وضاع وغیرہ پر مشتمل ہو (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ص۱ج۱۷۷)
            درجات ضعیف: شروط صحت کی کمی کے اعتبار سے حدیث ضعیف کے درجات مختلف ہوتے ہیں، جیسے صحیح، حسن اور موثق کے درجات اوصاف کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، جس قدر اس کے رجال میں شروط صحت کی کمی ہوگی اسی قدر اس میں ضعف زیادہ ہوگا (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ص۱ج۱۷۷)
            شیعہ امامیہ کے اکثر علما نے حدیث ضعیف پر قصص، مواعظ اور فضائل اعمال کے باب میں عمل کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ اللہ تعالی کی صفات اور حلال و حرام کے احکام میں قابل قبول نہیں، مگر یہ اسی صورت میں ہے جب کہ حدیث ضعیف وضع اور گڑھنے کی حد تک نہ پہونچی ہوئی ہو (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۱۹۲)
            جیسا کہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ اہل سنت و جماعت کو علوم حدیث کی اولیت و سبقت حاصل ہے، اسی سبب شیعہ امامیہ کی تعریفات  حدیث: مدرج، متصل، مرفوع، موقوف، مقطوع، مضمر، مرسل، معضل، معلق، معل، مدلس، معنعن، مزید، مفرد، شاذ، محفوظ، منکر، معروف، مدرج، مصحف، مسلسل، مضطرب، مقلوب اور موضوع، اہل سنت و جماعت کی تعریفات سے جا بجا عموما متاثر نظر آتی ہیں، اس وجہ سے میں یہاں پر ان احادیث میں سے بعض ہی کے متعلق گفتگو کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            حدیث مضمر: وہ حدیث ہے جس میں معصوم علیہ السلام تک سند پہونچنے کے بعد ان کے ذکر کو ضمیر غائب کا استعمال کرکے تقیہ، یا پہلے لفظ یا کتابت میں ذکر ہونے کی جہ سے کسی سبب کے پیش نظر پوشیدہ رکھا گیا ہو، جیسے کہا جائے: سألتہ یا سمعتہ یقول یا عنہ وغیرہ کا استعمال کرے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۹۲۳)
            احادیث مضمرہ کی حجیت: ان احادیث کے حجیت اور عدم حجیت کے بارے میں فقہاے کرام کے تین اقوال ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
            (۱) حدیث مضمر مطلقا حجت نہیں، یعنی خواہ حدیث مضمر کو روایت کرنے والا فقہا میں سے جیسے زرارہ وغیرہ یا ثقات میں سے ہو؛ کیوں کہ اس میں ضمیر کا معصوم علیہ السلام کے علاوہ کی طرف لوٹنے کا احتمال ہے اور یہی عدم حجیت کے لیے کافی ہے۔
            (۲) حدیث مضمر مطلقا حجت ہے؛ کیوں کہ اصحاب ائمہ علیہم السلام سے یہی ظاہر ہے کہ وہ لوگ صرف ائمہ سے ہی پوچھتے ہیں اور کوئی حکم شرعی صرف انہیں سے نقل کرتے ہیں۔
            (۳) اگر حدیث مضمر کا روایت کرنے والا اجلہ رواۃ و فقہا میں سے ہو؛ تو اس کی روایت کردہ حدیث مضمر قبول کی جائے گی اور اگر ان میں سے نہ ہو؛ تو قبول نہیں کی جاے گی (قواعد الحدیث؍موسوی ، ص۲۱۷، ۲۱۹)
            شیعہ عالم غریفی لکھتے ہیں: احادیث مضمرہ کے حجت ہونے پر مطلقا کوئی دلیل موجود نہیں، اور مشایخ کا ان احادیث کو اپنی ’مجامع‘ میں ذکر کرنا صرف معصوم علیہ السلام سے ان کے احکام کے صدور میں اجتہاد ہے، اور یہ معصوم علیہ السلام سے صدور کے اثبات کے لیے حجت نہیں (قواعد الحدیث؍ موسوی، ص۲۲۵) یعنی شیعہ امامیہ کے نزدیک احادیث مضمرہ حجت نہیں۔
            حدیث موضوع: وہ حدیث ہے جو جھوٹ اور گڑھی ہوئی ہوتی ہے، یعنی اس کے وضع کرنے والے نے اس کو اپنی طرف سے گڑھا اور بنایا ہے، یہ ضعیف کے اقسام میں سب سے بری قسم ہے، اس کو احکام، مواعظ اور قصص وغیرہ کہیں بھی روایت کرنے کی اجازت نہیں، ہاں اگر اس کے موضوع ہونے کی صراحت کردی جاے؛ تو بیان کی جاسکتی ہے۔
            علامات وضع:
            (۱) واضع حدیث، گڑھنے کا اقرار کرلے (۲) عقل کے خلاف ہو اور تاویل قبول کرنے کے قابل نہ ہو (۳) راوی سنی اور حدیث، خلافت خلفاے ثلاثہ اور ان کے فضائل میں ہو، اور اس کے علاوہ بہت سارے قرائن ہیں جو وضع پر دلالت کرتے ہیں، لیکن لازم و ضروری ہے کہ جب تک حدیث کے موضوع ہونے کا یقین نہ ہوجائے محض احتمال کی وجہ سے کوئی اس حدیث کو موضوع قرار نہ دے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۳۹۹)
            اصناف وضاعین:
            (۱) بادشاہوں کا تقرب حاصل کرنے لیے حدیث گڑھنا (۲) روزی روٹی حاصل کرنے کے لیے احادیث گڑھنا (۳) اللہ تعالی کا قرب اور اس سے ثواب حاصل کرنے کے لیے ایسی احادیث گڑھنا جو لوگوں کی ترغیب و ترہیب میں معاون ہو (۴) زنادقہ کا مذہب اسلام میں فساد پھیلانے اور مذاہب فاسدہ کی تائید میں احادیث گڑھنا۔
            علامات وضع، اصناف وضاعین اور ان کی مثالیں سب اس فن کے سابقین اہل سنت و جماعت سے متاثر نظر آتی ہیں، یہاں تک عموما مثالیں بھی علماے اہل سنت کی ذکرکردہ ہی مثالیں ہیں، یہ خود اپنی طرف سے جدید مثالیں پیش کرنے سے عاجز رہے؛ اسی لیے یہاں پر مثالیں پیش کرنے سے پہلو تہی کرلیا گیا۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک راوی کی روایت قبول کیے جانے کی شرطیں:
            (۱) اسلام (۲) عقل (۳) بلوغ، یعنی جو ممیز نہ ہو، ممیز کے بارے میں اختلاف ہے، لیکن مشہور اور مذاہب اصحاب سے معروف یہی ہے کہ ممیز کی بھی حدیث قبول نہیں کی جاے گی (۴) ایمان، ان کے نزدیک ایمان سے مراد امامی اؤثنا عشری ہونا، بہت سارے لوگوں نے اس شرط کا اعتبار کیا ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک مخالفین اور دوسرے تمام شیعہ فرق کی روایت پر عمل کرنا جائز نہیں۔
            اس راے کی شیعہ امامیہ کے امام شیخ طوسی نے مخالفین کی روایت پر عمل کرنے کی اجازت دے کر مخالفت کی ہے، یہ جواز ان کے نزدیک اس صورت میں ہے جب کہ مخالفین ان کے ائمہ علیہم السلام سے روایت کریں، اصحاب کی روایت میں اس کے مخالف کوئی روایت موجود نہ ہو اور نہ ہی ان کا کوئی قول اس بارے میں مشہور ہو (۵) عدالت (۶) ضبط۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک عدالت کیسے ثابت ہو:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک عدالت آنے والے متعدد امور سے ثابت ہوتی ہے:(۱) راوی کی طویل صحبت اختیار کرناجس کی وجہ سے اس کے ظاہر و باطن پر مطلع ہوجائے اس طور سے کہ اس کی عدالت کا اطمینان عادی حاصل ہوجائے، لیکن یہ صرف راوی معاصر کے ساتھ خاص ہے (۲) اہل علم یعنی اہل حدیث کے درمیان راوی کی عدالت کا مشہور و مستفیض ہونا، اس کے بعد اس کی عدالت کے ثبوت کے لیے کسی معدل کی حاجت نہیں (۳) زیادہ سے زیادہ قرائن ہوؤں جو راوی کی عدالت کے متعلق اطمینان بخش ہوں، جیسے مرجع علما و فقہا ہونا (۴) دو عادل کا راوی کی عدالت کی وضاحت کرنا۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک جرح و تعدیل:
            اس کے متعلق مختلف مسائل ہیں، یکے بعد دیگرے ملاحظہ فرمائیں: (۱) سبب ذکر کیے بغیر مثلا فلاں عادل یا فلاں ضعیف ہے، اگر کسی راوی کی جرح یا تعدیل کی گئی؛ تو اس کے قبول کرنے اور نہ کرنے کے متعلق شیعہ امامیہ کے نزدیک مختلف اقوال ہیں:
            (الف) جرح و تعدیل سبب ذکر کرنے کے بعد ہی قبول کی جائے گی ، مثلا کہے کہ فلاں عدل ہے؛ کیوں کہ میں اس کے ساتھ سفر و حضر میں رہا ہوں اور میں نے اسے کسی قسم کا گناہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اسی طرح جرح کا بھی حال ہے، مثلا یوں کہے کہ فلاں فاسق ہے؛ کیوں کہ میں نے انہیں فلاں گناہ کبیرہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (ب) سبب ذکر کئے بغیر جرح و تعدیل مطلقا قبول کی جائے گی، مثلا کہا کہ فلاں عدل ہے یا فلاں فاسق ہے اور عدالت و فسق کا سبب ذکر نہیں کیا؛ تو بھی یہ جرح و تعدیل مطلقا مقبول ہوگی (ت) تعدیل مطلقا مقبول ہے البتہ جرح کے مقبول ہونے کے لیے سبب کا بیان کرنا ضروری ہے (ث) جرح تو مطلقا مقبول ہوگی البتہ تعدیل کے قبول ہونے کے لیے سبب کا ذکر کرنا ضروری ہے (ج) اگر جرح و تعدیل کرنے والے جرح و تعدیل کا علم رکھتے ہیں تو اسباب ذکر کئے بغیر بھی ان کی یہ جرح و تعدیل مقبول ہوگی۔
            اس مسئلہ کے متعلق مزید دو اقوال ہیں، ان سب میں سب سے زیادہ قریب پانچواں قول ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۹۴)
            (۲) اگر ایک راوی کے بارے میں جرح و تعدیل دونوں جمع ہوجائیں؛ تو کس کو مقدم رکھا جائے گا، اس کے متعلق بھی شیعہ امامیہ کے علما کی پانچ آرا ہیں، ان میں سے زیادہ ظاہر چوتھی رائے ہے؛ کیوں کہ تعدیل کا اعتبار اطمینان کے باب سے ہے؛ اسی لیے تعدد کو ساقط الاعتبار ٹھہرایا گیا، چوتھی رائے ملاحظہ فرمائیں:
            اگر دونوں اقوال پر بغیر ایک دوسرے کی تکذیب کئے جمع کرکے عمل کرنا ممکن ہو؛ تو جمع کیا جائے گا اور اگر اس طور سے جمع کرنا ممکن نہ ہو؛ تو تعارض کی بنا پر توقف کیا جائے گا (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۱۱۲)
            (۳) اگر کسی ثقہ نے کہا: حدثنی الثقۃ بکذا اور اس کا نام نہیں ذکر کیا؛ تو کیا اس طرح کی خبر جواز عمل کے لیے کافی ہے یا نہیں، اس میں بھی ان کے علما کے دو اقوال ہیں: (الف) جائز نہیں (ب) جائز ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۱۲۱)  ان دونوں اقوال میں سے کسی قول کو مامقانی نے راجح قرار نہیں دیا ۔
            (۴) جب ایسا عادل جس کے تزکیہ پر اعتماد کیا جاتا ہے، وہ ایسے راوی سے روایت کرے جس کی عدالت معلوم نہیں، مگر اس عادل نے اس کا نام ذکر کیا ہے، البتہ اس عادل کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتا ہے؛ تو اس عادل کا محض اس راوی سے روایت کرنا کیااس تعدیل کی طرح سمجھا جائے گا جب اس کے تعدیل کی صراحت کردی جاتی ہے یا نہیں؟ اس میں بھی دو اقوال ہیں: (الف) محض عادل کا کسی راوی سے روایت کرنا تعدیل نہیں (ب) تعدیل کے لیے محض روایت کرنا کافی ہے، مگر حق دوسرا قول ہے۔
            (۵) حدیث کا اجماع کے موافق ہونا، اس کی صحت سند پر دلالت نہیں کرتا۔
            (۶) جب ثقہ کسی ثقہ سے کوئی حدیث روایت کرے، پھر مروی عنہ نے اس حدیث سے رجوع کرکے اس حدیث کی روایت کی نفی بطور جزم کیا، مثلا کہا: میں نے اسے روایت نہیں کیا؛ تو ایک جماعت نے کہا کہ یہ دو جزم کا تعارض ہے اور یہاں منکر ہی اصل ہے؛ لہذا وہ حدیث مقبول نہیں ہوگی، لیکن فرع یعنی اس منکر سے روایت کرنے والے شخص پر اس کی وجہ سے کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی اس کے سبب اس کی اس اصل یا دوسرے سے دیگر مرویات کو غیر مقبول ٹھہرایا جائے گا، لیکن اگر حتمی انکار نہیں کیا بلکہ کہا: میں اس حدیث کو نہیں جانتا یا اس کے مثل کوئی دوسرا جملہ استعمال کیا جس سے اس کے بھولنے کا اثر ظاہر ہوتا ہو؛ تو اصح مذہب کے مطابق فرع کی اس روایت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؛ کیوں کہ اصل کا یہ کلام سہو یا نسیان کا احتمال رکھنے کی وجہ سے فرع کی تکذیب پر دلالت نہیں کرتا اور چوں کہ فرع ثقہ کو روایت کرنے میں جزم حاصل ہے؛ اس لیے احتمال کی وجہ سے اس کی یہ روایت بھی رد نہیں کی جاے گی (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۱۳۳)
            اسانید کی تصحیح کا ایک اور قائدہ:
            کبھی حدیث کی اسانید میں ایسے راوی ہوتے ہیں جن کے متعلق کتب رجال میں عادل و ثقہ یا ضعیف و مجروح کی کوئی صراحت نہیں ملتی، قائدہ کے لحاظ سے انہیں مجاہیل میں داخل کرنا چاہئے، مگر تاملِ صادق اس کے خلاف کا متقاضی ہے، وہ یہ کہ اگر بعض بڑے محدثین اس طرح کے راوی سے زیادہ روایت کرتے ہیں یا ان پر اللہ تعالی کی رحمت کی دعا کرتے ہیں اور وہ راوی اس جہت کے علاوہ کسی اور جہت سے معروف نہیں یا کسی ایسی حدیث کی سند میں  اس راوی کی جہت سے جرح و قدح نہیں کیا گیا جس کے طریق میں وہ راوی موجود ہے؛ تو یہ اس کے حق میں قابل اعتماد مدح شمار کی جائے گی بلکہ یہ چیز کبھی حد توثیق تک بھی پہونچ جائے گی (مقباس الھدایۃ؍ج۲ص۱۳۰)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک الفاظ تعدیل:
            شیعہ امامیہ کے علما نے تعدیل کے مختلف الفاظ استعمال کئے ہیں، ان میں سے یہاں پر بعض ہی کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            (۱) فلاں عادل، امامی اور ضابط ہے (۲) ثقۃ (۳) صحیح الحدیث (۴) أجمعت العصابۃ علی تصحیح ما یصح عنھم (۵) من أصحابنا (۶) عین و وجہ (۷) من اولیاے امیر المؤمنین علیہ السلام (۸) صاحب امیر المؤمنین علیہ السلام (۹) صاحب الامام الفلانی علیہ السلام وغیرہ (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ ص۱۴۳)
            اسباب مدح اور اس کی علامات:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک اسباب مدح متعدد ہیں، ان میں سے بعض کا ذکر قارئین کرام کے نظر نواز کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            (۱) راوی کا ائمہ علیہم السلام میں سے کسی کا وکیل ہونا (۲) دینی اصولی و فروعی امور کا ائمہ علیہم السلام سے زیادہ روایت کرنا (۳) راوی سے یا اس کی کتاب کو اصحاب کی ایک جماعت کاروایت کرنا (۴) راوی کا اصحاب کی ایک جماعت سے روایت کرنا (۵) صفوان بن یحی اور ابن ابی عمیر کا کسی راوی سے روایت کرنا (۶) راوی کا ثقات سے روایت کرنا (۷) ایک شیخ کا دوسرے شیخ پر اعتماد کرنا (۸) راوی کا ایسی سند میں موجود ہونا جس میں کلام اس کی جہت کے علاوہ سے کیا گیا ہو (۹) راوی کا آل ابی جہم میں سے ہوناوغیرہ (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۲۵۷)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک الفاظ جرح:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک الفاظ جرح بھی مختلف ہیں، ان میں سے بعض یہاں پر بطور مثال ذکر کردینا مناسب ہے، ملاحظہ فرمائیں:
            (۱) فاسق، شارب خمر، کذاب اور اپنی طرف سے حدیث گڑھنے والا وغیرہ (۲) لیس بعادل، لیس بصادق اور لیس بمرضی وغیرہ (۳) غالی اور فاسد العقیدہ وغیرہ (۴) ملعون اور خبیث وغیرہ (۵) متہم، متعصب اور ساقط وغیرہ (۶) ضعیف (۷) ضعیف الحدیث اور مضطرب الحدیث وغیرہ (۸) لیس بذلک الثقۃوغیرہ (۹) مرتفع القول وغیرہ (وجیزۃ فی علم الرجال،ص۸۰، مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۲ص۲۹۴)
            شیعہ امامیہ کے علما میں سے مامقانی وغیرہ کسی نے بھی اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ ان الفاظ جرح میں سے کون سے الفاظ اعلی درجے اور کون سے ادنی درجے کے ضعف پر دلالت کرتے ہیں۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک اسباب جرح:
            اسباب جرح شیعہ امامیہ کے نزدیک مختلف ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
            (۱) ضعفا و مجاہیل سے زیادہ روایت کرنا (۲) خلیفہ یا والی کا کاتب ہونا (۳) راوی کا بنو امیہ سے ہونا (۴) عقیدہ کا فاسد ہونا، یعنی راوی کا امامیہ کے مخالف فرقہ یا اہل سنت و جماعت وغیرہ سے ہونا (مقباس الھدایۃ؍ مامقانی، ج۲ص۳۰۷)
            بعض دیگر الفاظ:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک بعض ایسے الفاظ بھی ہیں جو مدح یا ذم کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتے، ان میں سے بعض یہ ہیں:
            (۱) مولی (۲) غلام (۳) شاعر (۴) کوفی (۵) قطعی، قطعی وہ ہے جو کاظم علیہ السلام کی موت کا یقینی طور پر قائل ہو (۶) صحابی، تابعی اور مخضرمی (۷) راوی، مسند، محدث، حافظ وغیرہ (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۳ص۱۴) جاری۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک علوم حدیث کے اصول و قواعد پر عرض اور کسی قدر نقد کے بعد اب ہم قارئین کرام کواصل مقصد یعنی ان کی کتب رجال اور کتب حدیث کی طرف لے چلتے ہیں، ان کی یہ کتابیں ان کے عقائد فاسدہ کی بنا پر اہل سنت و جماعت کے نزدیک غیر معتبر تو ہیں ہی، مگر ان کی یہ کتابیں خود ان کے نزدیک بھی معتبر کے بجائے غیر معتبر اور غیر قابل قبول ہونی چاہیے؛کیوں کہ شیعہ امامیہ نے اگرچہ حدیث کے قبول و عدم قبول کے لیے اصول و ضوابط طے کئے اور کتابیں لکھی ہیں،مگر انہوں نے اپنی کتب حدیث وغیرہ میں ان اصول کا پاس و لحاظ نہیں کیا! ان شاء اللہ آئندہ سطور میں یہ دعوی بیان شافی و وافی سے واضح ہوجائے گا، پہلے ہم ان کی کتب رجال پر گفتگو کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
             شیعہ امامیہ کے عالم غریفی لکھتے ہیں: ہمارے یہاں رجال کے متعلق کتب ہیں جو اصول کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کے ذریعہ ہم بعض راویوں کے حالات بحیثیت توثیق و تضعیف جان لیتے ہیں، وہ یہ ہیں: (۱) رجال الکشی (۲) رجال النجاشی (۳) الرجال للطوسی (۴) الفھرست للطوسی (۵) کتاب ابی الحسن غضائری (۶) کتاب احمد بن محمد برقی‘‘۔
            اخیر کی دونوں کتابوں کے بارے میں غریفی لکھتے ہیں: ’’ان دونوں کتابوں کی نسبت ان کے مصنفین کی طرف مشکوک ہے‘‘(قواعد الحدیث؍غریفی ص۱۶۲) لہذا ہم یہاں صرف باقی چار کتابوں پر ہی گفتگو کرتے ہیں:
            (۱) رجال الکشی، یہ کتاب ۳۶۶ راویوں کے تراجم پر مشتمل ہے، اس کتاب اور اس کے مؤلف کے بارے میں شیعہ امامیہ کے عالم نجاشی لکھتے ہیں: ’’ثقہ تھے، ضعفا سے روایت کرنے میں کثرت کی ہے، ان کی تصنیف کردہ کتاب الرجال ہے، علم میں بہت ماہر ہیں، ان کی اس کتاب میں غلطیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں‘‘ (الرجال؍نجاشی، ج۱ص۵۰)
            شیعہ امامیہ کے عالم غریفی لکھتے ہیں: ’’شیعہ امامیہ کے علما کی اصول رجال میں کوئی ایسی کتاب ہی نہیں ہے جو احادیث روایت کرنے والے تمام راویوں کو شامل ہو کہ توثیق و تضعیف اور مدح و قدح کے اعتبار سے انہیں جانا جاسکے، یہی کشی صاحب نے اپنی کتاب میں صرف انہیں راویوں کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے جن کے بارے میں بطور مدح و ذم احادیث وارد ہیں اور باقی تمام راویوں کو چھوڑ دیا، مگر نجاشی نے اس کتاب کو کثرت اغلاط سے متصف کیا ہے‘‘  (قواعد الحدیث؍غریفی، ص۱۵۹)
            رجال کے سلسلے میں شیعہ امامیہ کے نزدیک یہ کتاب اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور مراجع رجال میں کافی اہمیت کی حامل ہے، مگر شیعہ امامیہ کے علما نے خود اس کتاب کو اغلاط کا مجموعہ بتاکر ساقط الاعتبار قرار دے دیا!
            (۲) رجال النجاشی، یہ کتاب ۱۲۷۰ راویوں کے تراجم پر مشتمل ہے، نجاشی صاحب راوی کا نام ذکر کرنے کے بعد اس کی توثیق یا تضعیف بیان کرتے ہیں، پھر ان راویوں کی تالیفات کا ذکر کرتے ہیں، عموما راوی تک اپنی اسناد کو بھی بیان کرتے ہیں اور کبھی راوی کا ذکر کرتے ہیں مگر اس کے بارے میں جرح و تعدیل کچھ نہیں بیان کرتے (أصول الروایۃ عند الشیعۃ الامامیۃ؍عمر محمد الفرماوی، ص۲۸۱)
            غریفی لکھتے ہیں: ’’نجاشی نے اس کتاب کو اصل میں شیعہ امامیہ کی مصنفات کو ذکر کرنے کے لیے لکھی ہے، اور رہی بات مؤلفین کی تو ان کا ذکر محض ضمنا کیا گیا ہے؛ اس وجہ سے انہوں نے ان راویوں کا ذکر ہی نہیں کیا، جن کی کوئی تصنیف نہیں تھی‘‘ (قواعد الحدیث؍غریفی، ص۱۵۹)
            (۳) الرجال للطوسی، یہ کتاب ۸۹۰۰ راویوں پر مشتمل ہے، اس کتاب کو طوسی نے ان تمام راویوں کو جمع کرنے کے لیے تصنیف کیا جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ اثنا عشر سے روایت کیا ہے، نجاشی لکھتے ہیں:
            ’’یہ کتاب الرجال ان راویوں کے بارے میں ہے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام سے روایت کی ہے‘‘ (رجال النجاشی، ج۲ ص۲۲۳)
            غریفی لکھتے ہیں: ’’اگرچہ شیخ طوسی نے بطور احاطہ راویوں کو توثیق و تضعیف کے ساتھ ذکر کرنے کا ارادہ کیا یہاں تک کہ اپنی اس کتاب میں انہوں نے ان لوگوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے معصومین علیہم السلام کا زمانہ نہیں پایا، لیکن انہوں نے ہر راوی کے بارے توثیق و تصریح کا التزام نہیں کیا، انہوں نے اگرچہ کثرت سے توثیق کی صراحت کی ہے مگر ان کا مقصد صرف راویوں کا احاطہ کرنا تھا، نہ کہ توثیق؛ اسی وجہ سے بہت سارے ثقہ راویوں کے بارے میں انہوں نے توثیق کی صراحت نہیں کی؛ لہذا اگر یہ کسی کی توثیق نہ کریںتو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ثقہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بھی کسی کی توثیق نہیں کی‘‘ (قواعد الحدیث؍غریفی، ص۱۶۳)
            (۴) الفھرست للطوسی، یہ کتاب ۸۸۸ راویوں کے تراجم پر مشتمل ہے، یہ کتاب بھی نجاشی کے طریقہ پر ہی تصنیف کی گئی ہے، یعنی اصل مقصد شیعہ امامیہ کی تصانیف کا بیان کرنا تھا اور ضمنی طور پر ان کے مؤلفین کا بھی ذکر کردیا گیا، اس کتاب کے مصنف لکھتے ہیں: ’’یہ میرے لیے ضروری ہے کہ راوی و مؤلف کے بارے جو تعدیل و تجریح موجود ہے اسے ذکر کروں اور یہ بیان کروں کہ ان کی روایت پر اعتماد کیا جائے گا یا نہیں، نیز اس بات کی بھی وضاحت کردوں کہ راوی حق کا موافق ہے یا مخالف؛ کیوں کہ ہمارے بہت سارے مصنفین اصحاب اور اصحاب اصول اگرچہ ان کی کتابیں قابل اعتماد ہیں مگر وہ عقائد فاسدہ رکھتے ہیں‘‘ (الفھرست؍طوسی، ج۱ص۲)
            مگر شیخ طوسی اپنے کئے ہوئے وعدے پر کھرے نہیں اتر سکے، چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سارے راویوں کو جگہ دی لیکن ان کے متعلق جرح و تعدیل کچھ بھی ذکر نہیں کیا، شیعہ امامیہ کے عالم غریفی لکھتے ہیں: ’’شیخ طوسی نے اپنے اس کتاب کے مقدمہ میں اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا نہیں کیا، یعنی جو انہوں نے ہر راوی کے متعلق جرح و تعدیل ذکر کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کا التزام نہیں کیا‘‘ (قواعد التحدیث؍غریفی، ص۱۶۱)
            نیز شیعہ امامیہ کے عالم طوسی کے نزدیک ان کے بہت سارے علما عقائد فاسدہ رکھتے ہیں، اس کے باوجود ان کے نزدیک ان لوگوں کی کتابیں و تصنیفات قابل اعتماد اور قابل قبول ہیں!
            مزید الفھرست کی تکمیل کے لیے شیعہ امامیہ کے ایک عالم محمد بن علی بن شھر آشوب مازبدرانی (م۵۸۸ھ) نے ایک کتاب بنام معالم العلماء تصنیف کی، یہ کتاب ۱۰۲۱ راویوں پر مشتمل ہے، اس کتاب کے بیان و وضاحت کا طریقہ بالکل الفھرست ہی کی طرح ہے۔
            علم رجال میں شیعہ امامیہ کی یہی متعمد کتب ہیں، جو خود انہیں کی تنقید کا شکار ہیں، کشی سے قدیم تر کوئی شخص موجود نہیں جس نے ان سے پہلے کوئی کتاب علم رجال میں لکھی ہو، جو واضح طور پر ان کے اس میدان میں قلت علم پر دلالت کرتا ہے، اور کشی جو فن رجال کے سب سے قدیم مؤلف ہیں، خود شیعہ امامیہ کو ان کی تاریخ وفات معلوم نہیں، ہاں اتنا ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ محمد بن یعقوب کلینی صاحب الکافی (م۲۳۹ھ) کے طبقہ میں تھے۔
            اور ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں راویوں کی پیدائش و وفات کو ذکر کرنے اور طبقہ کی تعیین کرنے میں بے توجہی برتی، اور ظاہر سی بات ہے کہ جب یہ کتب اصول کی حیثیت رکھتی ہیں تو بعد میں آنے والے مؤلفین انہیں کتابوں کی طرف رجوع کریں گے اور جب اصل کا یہ حال ہے تو فرع کا حال کیا ہوگا قارئین خود اندازہ لگاسکتے ہیں!
            مراتب صحابہ: شیعہ امامیہ کے نزدیک صحابی ہونا مدح و ذم پر دلالت نہیں کرتا جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا، نیز ان کے نزدیک صحابی کی توثیق کی حاجت ہوتی ہے! جیسا کہ ابھی ابھی اس کا بیان گزرا، نیز شیعہ امامیہ کے عالم مامقانی لکھتے ہیں: ’’عدالت کے متعلق صحابہ اور دیگر لوگوں کا حکم یکساں ہے، آدمی کا صرف صحابی ہونا اس کے عدالت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ ان کے اندر عدالت کا پایا جانا ضروری ہے، ہاں اگر صحابی ہونا ثابت ہے تو اب ان کے اسلام کی تفتیش کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوگیا ہو تو تفتیش ضروری ہے؛ لہذا عامہ (اہل سنت و جماعت) جو یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے امیر المؤمنین علیہ السلام سے قتال کیا سب عادل ہیں، محض عناد ہے‘‘ (مقباس الھدایۃ فی علم الروایۃ؍مامقانی، ج۳ص۳۰۵)
            اپنی اسی راے کی بنا پر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف مراتب بیان کئے ہیں، آپ بھی بغور ملاحظہ فرمائیں:
            (۱) وہ صحابہ جن کی عدالت معلوم ہے، جیسے سلمان فارسی، ابو ذر غفاری، عمار بن یاسر، جابر بن عبد اللہ، بلال بن رباح اور وہ لوگ جنہوں نے آل بیت کی مدد اور ان کی اتباع کی (۲) وہ صحابہ جن کا فسق و جھوٹ معلوم ہے، ہر وہ صحابی جو آل بیت سے منحرف ہوااور ان کے لیے عداوت و بغض کا اظہار کیا، جیسے ابوہریرہ، انس بن مالک اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ(۳) وہ صحابہ جن کی حالت معلوم نہیں، اس باب میں شیعہ امامیہ کے علما نے کوئی مثال پیش نہیں کی۔
            مراتب کے احکام : شیعہ امامیہ کے نزدیک صحابہ میں سے جن کی عدالت معلوم ہے ان کی روایت ان کے نزدیک مقبول ہے اور ان کے اعتبار سے جو فسق و فجور سے متصف ہیں ان کی روایت مقبول نہیں اور جن کی حالت مجہول ہے ان کی روایت میں توقف ہے (الخصال للصدوق؍ص۹۰، أعیان الشیعۃ؍ج۱ص۱۱۳)
            شیعہ امامیہ کی یہ جہالت ہے جو بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آل بیت کا دشمن سمجھتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم آل بیت سے محبت کرنے والے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں، شک وہی کرے گا جو منافق ہے۔
            نیز تمام صحابہ کرام عادل ہیں یہی صحیح و حق ہے، جب ان کی توثیق و تعدیل اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادی؛ تو اب ان کے بارے میں کسی کی توثیق کی حاجت نہیں، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توثیق و تعدیل کی بنیاد پر ہی اہل سنت و جماعت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابی ہونا ہی اس کے عادل و ثقہ ہونے کے لیے کافی ہے اور تمام صحابہ عادل ہیں، اس باب میں اہل سنت و جماعت کی ایک دو دلیل ملاحظہ کرتے چلئے:
            اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس} (آل عمران:۳، آیت:۱۱۰) ترجمہ: ((تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں)) (کنز الایمان)
            حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ((خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم، ثم یجیء قوم تسبق شھادۃ أحدھم یمینہ، و یمینہ شھادتہ)) (صحیح البخاری، کتاب فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب فضل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ج ۵ص۳، رقم:۳۶۵۱)
             ترجمہ: ((سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر سب سے بہتر وہ جو ان کے بعد ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، پھر ایک قوم آئے گی جو گواہی دینے اور قسم کھانے میں جلد بازی کرے گی)) جن کو مزید اس باب میں دلائل و تفصیل درکار ہو وہ فتح المغیث؍سخاوی وغیرہ کی طرف رجوع کریں۔
            مگر شیعہ امامیہ ان چیزوں کے باوجود بھی صحابہ کے بعض واقعات کو سند بناکر اور فاسد تاویلات کرکے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام صحابہ عادل نہیں،اس کا سبب اس باب میں ان کے کچھ شبہات ہیں، ان میں سے یہاں پر میں صرف ایک شبہ اور اس کا جواب ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں:
            شیعہ امامیہ کہتے ہیں: اکثر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑکر شام سے آنے والے قافلہ کی طرف متوجہ ہوگئے، انہیں خطبہ جمعہ میں تنہا چھوڑ دیااور لہو و لعب کی طرف متوجہ ہوکر تجارت میں مشغول ہوگئے، ان کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ سب اللہ تعالی کے فرماں بردار اور دیندار نہیں!
            جواب یہ واقعہ زمانہ ہجرت کے شروع میں واقع ہوا، اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کما حقہ آداب شریعت سے واقف نہیں تھے، نیز ایسا بھی نہیں کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑکر چلے گئے تھے بلکہ بڑے بڑے صحابہ کرام جیسے حضرت ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھے، اور یہ حدیث صحیح سے ثابت ہے، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی، آپ فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑکے ہوکر خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں مدینہ شریف کا قافلہ آگیا؛ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف تیزی سے چلے گئے، یہاں تک کہ صحابہ میں سے صرف بارہ لوگ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے، انہیں میں سے حضرت ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما بھی تھے، اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَ اِذَا رَأَوا تِجَارَۃ أَوْ لَھْوا انفَضُّوْا اِلَیْھَا وَ تَرَکُوْکَ قَائِما} (الجمعۃ:۶۲، آیت:۱۱) ترجمہ: ((اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دئے اور تمہیں خطبہ میں کھڑا چھوڑ گئے)) (کنز الایمان) (صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب تفسیر: اذا رأوا تجارۃأو لھوا من سورۃ الجمعۃ، ج ص، رقم:)
            اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کوئی طعن و تشنیع نہیں کی اور نہ ہی عذاب کی وعید فرمائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کوئی عتاب نہیں فرمایا، اور جب اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے اس فعل پر کوئی طعن و تشنیع نہیں کی تو پھر کسی کا حق نہیں بنتا کہ اس واقعہ کی وجہ سے ان کی ذات پر انگشت نمائی کرے اور انہیں اللہ تعالی کا نافرمان قرار دے۔
            شیعہ امامیہ کی کتب رجال پر گفتگو کرنے کے بعد اب ہم ان کی احادیث پر مشتمل کتابوں کی طرف چلتے ہیں، ان کے نزدیک احادیث پر مشتمل چار اہم کتابیں ہیں:
            (۱) کتاب الکافی لمحمد بن یعقوب الکلینی (ت۳۲۹ھ) (۲) کتاب من لایحضرہ الفقیہ لمحمد بن علی القِمّی (ت۳۸۱ھ) (۳) کتاب تھذیب الأحکام لمحمد بن حسن الطوسی (ت۳۶۰ھ) (۴) کتاب الاستبصار فیما اختلف من الأخبار لمحمد بن حسن الطوسی۔
            ان کے نزدیک ان کتابوں میں سب سے زیادہ اہم کتاب ’الکافی‘ ہے، اس کی قدر و منزلت ان کے نزدیک، اہل سنت جماعت کی صحیح البخاری کی طرح ہے، اس کے بارے میں ان کے عالم عبد الحسین موسی لکھتے ہیں: ’’الکافی سب سے قدیم، سب سے عظیم، سب سے اچھی اور سب میں عمدہ ہے‘‘ (المراجعات، ص۳۴۲) باقی تین کتابوں کی بھی اہمیت ان کے نزدیک ’الکافی‘ سے کم نہیں، ان کتابوں کے مصنفین شیعہ امامیہ کے نزدیک عالم جلیل، ثقہ اور ائمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
            الکافی؍کلینی:
             سب سے پہلے ہم شیعہ امامیہ امام کلینی لکھی ہوئی کتاب’الکافی‘ کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں، اس کے طریقہ کار پر عرض و نقد مندرجہ ذیل سطور میں پیش خدمت ہے:
            (۱) کلینی نے اپنی کتاب ’الکافی‘ میں کتاب کا نام مثلا کتاب فضل العلم، باب کا ترجمہ مثلا باب فرض العلم و وجوب طلبہ و الحث علیہ ذکر کرکے اس کے تحت وہ احادیث رکھی ہے جو ائمہ سے مروی ہیں، یہ اس کتاب میں بہت وافر مقدار پائی جاتی ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی شدہ احادیث ذکر کیا ہے اور یہ ’الکافی‘ میں ائمہ کی احادیث کی بنسبت بہت کم ہیں!
            (۲) صاحب کتاب کلینی نے اپنی اس کتاب میں صیغہ ادا مثلا أخبرنا، حدثنا، أنبأنا وغیرہ سے تقریبا بالکلیہ اعراض کیا اور نادرا ہی کہیں کہیں اس کا ذکر کیا ہے، اور عموما اسناد کے رجال کے درمیان صیغہ ’عن‘ کا استعمال کیا ہے جو اتصال پر دلالت نہیں کرتے، نیز اپنے اور اپنے شیوخ کے درمیان صرف دو صیغے: ’عن‘ اور حدثنا کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے اور ان دونوں صیغوں کی تکرار بہت نادر ہے، ان کی یہ کتاب سولہ ہزار ایک سو ننانوے (۱۶۱۹۹) احادیث پر مشتمل ہے، ان احادیث کے درمیان ان دونوں صیغوں کا ذکر فقط دس بیس مرتبہ آیا ہوگا! اگرچہ حدیث عنعنہ بعض شروط مثلا راوی کا اپنے شیخ کے ہم عصر ہونے کی شرط کے ساتھ قابل قبول ہے، مگر جب شیعہ امامیہ کے مصنفینِ کتبِ رجال نے عموما راویوں کی پیدائش و وفات ذکر کرنے کا التزام ہی نہیں کیا؛ تو کیسے معلوم ہوسکے گا کہ ہر تلمیذ اپنے شیخ کا زمانہ پایا ہے یا کیسے علم ہوسکے گا کہ ہر راوی اپنے سے پہلے راوی کا معاصر رہا ہے؟! یہ ایسی بات ہے جو ایک منصف مزاج انسان کو شیعہ امامیہ کی سب سے عظیم کتاب کی احادیث کے متعلق شک کرنے پر مجبور کردیتی ہے! پھر یہ کتاب کیوں کر شیعہ امامیہ کے نزدیک اصح کتب یا اہل سنت کی صحیح البخاری کے مثل ہوسکتی ہے؟!
            (۳) مصنف کلینی نے کبھی کبھی سند کو ’عدۃ من أصحابنا‘ کے ذریعہ، نام ذکر کیے بغیر شروع کرنے کے بعد باقی سند کو ذکر کیا ہے، اگر چہ شیعہ امامیہ کے بعض محققین نے تنبیہ کرکے یہ بیان کردیا ہے کہ اگر ’عدۃ من أصحابنا‘ کا استعمال فلاں راوی مثلا أحمد بن محمد بن عیسی سے ہو؛ تو فلاں، فلاں اور فلاں راوی مراد ہیں، مگر پیچیدگی یہ ہے کہ یہ فلاں، فلاں اور فلاں تمام راوی ثقہ نہیں بلکہ بعض ضعیف بھی ہیں بلکہ ان میں سے بعض کا ترجمہ بھی شیعہ امامیہ کی کتبِ رجال میں نہیں ملتا! پھر کیسے کہنا ممکن ہوگا کہ أحمد بن محمد بن عیسی سے روایت کرنے والے فلاں ثقہ ہی مراد ہیں، ضعیف مراد نہیں ہیں اور جب یہ کہنا ممکن ہی نہیں؛ تو ان کی مرویات پر صحت کا حکم لگانا بھی درست نہیں ہوگا، اب ایک منصف مزاج شخص کیسے کہے کہ ’الکافی‘ صحیح البخاری کے ہم پلہ ہے؟!
            (۴) کلینی صاحب نے حدیث کے راوی کو محدد نہیں کیا ہے بلکہ فلاں، غیرہ، عن بعض أصحابنا، بعض من العراقیین اور اس کے مثل دوسرے الفاظ استعال کرکے گزر گئے ہیں، اور یہ چیز بھی ’الکافی‘ میں کثرت سے پائی جاتی ہے، جو یقینا خود شیعہ امامیہ کی شروط صحت کے خلاف ہے اور یہ نقص بھی اس کتاب کی اہمیت اور اس کے اعتماد کو مشکوک کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
            (۵) کلینی صاحب کبھی حدیث کو سند کے بغیر، لفظ ’رُوِی‘ کے ذریعہ بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ شیعہ امامیہ کے بڑے عالم مامقانی کہتے ہیں کہ لفظ ’روِی‘ حدیث ضعیف کی علامات میں سے ہے! !
            (۶) کبھی حدیث کے راوی یعنی امام کی تحدید نہیں کرتے، اس قسم کی حدیث شیعہ امامیہ کے نزدیک ’حدیث مضمر‘ کہلاتی ہے، چوں کہ ’مضمر‘ سے معصوم علیہ السلام کے علاوہ بھی مراد ہوسکتے ہیں؛ اس لیے اس کو ضعیف کی اقسام سے شمار کیا جاتا ہے، اس قسم کے ضعیف ہونے پر خود مامقانی وغیرہ کی صراحت موجود ہے (مقباس الھدایۃ؍مامقانی، ج۱ص۳۳۳)
             (۷) کبھی کبھی حدیث کو مرفوعا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف منسوب کرکے روایت کرتے ہیں۔
            (۸) اور بسا اوقات امیر المؤمنین حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے علاوہ بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال بھی ذکر کرتے ہیں، یہ کتاب پینتیس (۳۵) کتب و ابواب فقہیہ پر مشتمل ہے۔
            من لایحضرہ الفقیہ؍قمی:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک ابن بابویہ قمی کی لکھی ہوئی ’من لایحضرہ الفقیہ‘دوسری اہم کتاب ہے، اس پر عرض و نقد مندرجہ ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں:
            (۱) ابن بابویہ قمی نے اپنی اس کتاب میں احادیث کی اسانید کو احادیث کے ساتھ ذکر کرنے کے بجاے کتاب کے اخیر میں ذکر کیا ہے، اس کا سبب آپ خود مصنف کی زبانی سماعت کریں، لکھتے ہیں:
            ’’میں نے اپنی اس کتاب میں اسانید کو حذف کردیا ہے، اگرچہ اسانید کے فوائد کثیر ہیں، مگر اسانید کے طرق کی کثرت سے بچنے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا‘‘ (من لایحضرہ الفقیہ؍قمی، ج۱ص۳)
            (۲) مصنف نے کئی مواقع پر باب کا ترجمہ ذکر کیا مگر اس کے تحت احادیث ذکر کرنے کے بجائے صرف اپنی آرا اور اپنے والد کے اقوال ذکر کرنے پر اکتفا کیا۔
            (۳) اس راوی کی تحدید نہیں کیا جس نے اپنے شیخ سے روایت کیا، مثلا کہتے ہیں: عن فلاں أو غیرہ۔
            (۴) مجہول صیغہ ’روِی‘ کے ذریعہ دو ہزار پچاس (۲۰۵۰) احادیث روایت کی، اور شیعہ امامیہ اس طرح کی احادیث کو مراسیل سے شمار کرتے ہیں۔
            (۵) امام جس نے حدیث روایت کی ہے، اس کا نام ذکر نہیں کیا یا ان کا نام تو ذکر کیا مگر جس نے ان سے روایت کیا، ان کا نام نہیں ذکر کیا۔
            (۶) مصنف نے ایسے راویوں سے بھی احادیث تخریج کی ہے، جو ضعیف، وضاع اور کذاب ہیں، ان میں بعض کا ذکر ملاحظہ فرمائیں:
            (الف) عبد الرحمن بن کثیر ہاشمی، نجاشی اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ ضعیف تھے، ہمارے اصحاب کہتے ہیں: یہ راوی حدیث گڑھتے تھے (الرجال؍نجاشی، ج۲ص۴۴)
            (ب) عمرو بن جمیح ازدی ابوعثمان بصری، نجاشی ان کے بارے کہتے ہیں: یہ راوی ضعیف ہیں (الرجال؍نجاشی، ج۲ص۱۳۴) اسی طرح اہل سنت و جماعت کے نزدیک یہ راوی کذب اور وضع حدیث وغیرہ سے متصف ہیں، تفصیل کے لیے ’میزان الاعتدال؍ذہبی‘ اور ’الکامل؍ابن عدی‘ وغیرہ دیکھئے۔
            (ج) وہب بن وہب ابوبختری قاضی، شیعہ امامیہ اور اہل سنت جماعت کا اس راوی کے ضعیف و کذاب ہونے پر اتفاق ہے (الفھرست؍طوسی، ص۱۷۳، الرجال؍نجاشی، ج۲ص۳۹۱، الجرح و التعدیل؍ابن ابی حاتم، ج۹ص۲۶) اور اس کے علاوہ بہت سارے مجہول راویوں کو اس کتاب کے مصنف نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے!
             شیعہ امامیہ کی احادیث پر مشتمل اس دوسری اہم اور مرجع کی حیثیت رکھنے والی کتاب کا یہ حال ہے کہ اس میں کثرت سے ایسے راویوں سے حدیث لی گئی ہے جو ضعیف، وضاع، کذاب اور مجہول ہیں!
            تہذیب الاحکام فی شرح المقنعۃ للشیخ المفید؍طوسی:
            شیعہ امامیہ کے نزدیک تیسری اہم اور مرجع حیثیت رکھنے والی ’طوسی‘ کی لکھی ہوئی کتاب ’تہذیب الاحکام فی شرح المقنعۃ للشیخ المفید‘ اس کے متعلق عرض نقد مندرجہ ذیل سطورمیں نظر قارئین ہے:
            (۱) یہ کتاب کتب و ابواب فقہیہ کے اعتبار سے مرتب کی گئی ہے، ان کے یہاں نصوص میں کثرت سے تعارض ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان مصنف نے توفیق دینے کی کوشش کی ہے۔
            (۲) صاحب کتاب طوسی نے اس کتاب میں جن باتوں کے التزام کا دعوی کیا تھا، ان کو پورا نہیں کیا۔
            (۳) مصنف طوسی نے اپنی اس کتاب میں بہت سارے مجہول راویوں کو جگہ دے کر ان سے احادیث روایت کی ہے۔
            (۴) مصنف طوسی نے اپنی اس کتاب میں بہت سارے ضعیف اور متہم بالکذب رایوں سے احادیث روایت کی ہے، بعض کے اسما ملاحظہ فرمائیں:
            (الف) سہل بن زیاد آدمی ابوسعید رازی، طوسی نے خود ان کو ضعیف قرار دیا ہے، نیز احمد بن عیسی اس راوی کے بارے میں غلو اور کذب کی شہادت دیتے تھے (الرجال؍نجاشی،ج۱ص۴۱۷)
            (ب) ابراہیم بن اسحاق احمری، خود مصنف طوسی نے اس راوی کو ضعیف قرار دینے کے باوجود بھی انہیں اپنی کتاب میں جگہ دی (الفھرست؍طوسی، ص۷)
            (ج) محمد بن عبد اللہ ابو الفضل شیبانی، نجاشی اس راوی کے بارے میں لکھا: ابتداء روایت کرنے میں ثابت قدم تھے پھر اختلاط ہوگیا، اور ہمارے اکثر اصحاب انہیں ضعیف قرار دیتے تھے (الرجال؍نجاشی، ج۲ص۳۲۱)
            شیعہ امامیہ کے نزدیک تیسری مرجع کی حیثیت رکھنے والی یہ کتاب بھی ضعیف، متہم بالکذب اور کثیر تعداد کے مجہول راویوں سے محفوظ نہیں رہ سکی!
            (۵) بہت سارے مقامات پر طوسی نے امام کے نام کی تحدید کیے بغیر روایت کیا ہے۔
            (۶) صیغہ تمریض (روِی) کے ذریعہ بھی طوسی نے اپنی اس کتاب میں احادیث روایت کی ہے۔
            الاستبصار فیما اختلف من الاخبار؍طوسی:
            شیعہ امامیہ کی یہ چوتھی کتاب ہے، جو ان کے نزدیک اصل مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، بعض لوگوں کے مطالبہ کی وجہ سے طوسی نے اس کتاب میں تھوڑا حذف و اضافہ کے ساتھ سابق کتاب ’تہذیب الاحکام‘ کی تلخیص پیش کی ہے۔
            شیعہ امامیہ کے نزدیک علم حدیث، علم رجال اور کتب احادیث پر اس تفصیلی گفتگو سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے:
            (۱) شیعہ امامیہ نے ہمارے سامنے علوم حدیث میں کوئی نئی چیز نہیں پیش کی، ہاں ان کے معتقدات کے اعتبار سے کچھ چیزیں ہیں جو جدید ہیں (۲) شیعہ امامیہ کا فقہ بہت زیادہ چھان بین کا محتاج ہے؛ کیوں کہ اس کی بنیاد بہت ساری ایسی احادیث پر ہے جن کی اسانید کذاب، وضاع اور مجاہیل پر مشتمل ہے (۳) ان کے نزدیک تشریع کا مصدر ثانی نظر ثانی کا محتاج ہے؛ کیوں کہ وہ مصدر ثانی بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا؛ اس لیے کہ اس میں کذاب، وضاع اور مجاہیل راویوں پر اعتماد کیا گیا ہے (۴) ان کے عقائد اور دین اسلام کے درمیان بہت تعارض و تضاد ہے، جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا نازل ہونا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنا وغیرہ (۵) اہل سنت اور شیعہ امامیہ کے درمیان اتفاق اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ شیعہ امامیہ اپنے عقائد سے دست بردار ہوکر توبہ کرلیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا چھوڑ دیں (۶) علم جرح و تعدیل، فن رجال میں گفتگو کرنے کے لیے ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی میں یہ لوگ حد درجہ کمزور ہیں (۷) ان کی جرح و تعدیل میں بنیادی کتابیں: الرجال؍کشی، الرجال؍نجاشی اور الرجال و الفھرست؍طوسی علمی بنیادوں پر قائم نہیں؛ کیوں کہ ان کی یہ کتابیں رجال کی پیدائش و وفات کے ذکرکرنے کا اہتمام نہیں کرتی نیز متن پر مشتمل چاروں کتابوں کے راویوں کا احاطہ بھی نہیں کیا!!
            راقم الحروف نے جامعہ ازہر شریف، مصر میں دراسات علیا (ایم اے) کی تعلیم کے دوران : ’أصول الروایۃ عند الشیعۃ؍ڈاکٹر عمر عبد المنعم فرماوی‘ پڑھی تھی، اگرچہ راقم الحروف کو مصنف کی ہر بات سے اتفاق نہیں، مگر چوں کہ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے جدا اور مجموعی اعتبار سے عمدہ کتاب ہے؛ اس لیے میں نے اس کی تلخیص غیر مخل علما و طلبہ اور وہ عوام جو پڑھنے لکھنے سے دل چسپی رکھتے ہیں، ان کے درمیان پیش کرنا مناسب سمجھا؛ تاکہ انہیں ان کے اصول روایت کے متعلق اصول و ضوابط معلوم ہوجائیں اور وہ رجال و متون پر ان کی تالیف کی ہوئی کتب کی حیثیت سے آگاہ ہوجائیں اور کبھی ایسے لوگوں کا سامنا ہو تو ان سے دلائل و براہین سے مزین ہوکر گفتگو کریں، نیز ان کی کتابوں سے احادیث بیان کرنے یا ان سے استدلال کرنے سے احتراز کریں، اللہم وفقنا جمیعا، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
موبائل: 831817713

1 comment:

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts