Thursday, August 29, 2019

ابدال کے وجود کی تحقیق احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں

مبسملًا و حامد اً و مصلیاً  و مسلماً
ابدال وہ عظیم شخصیات ہیں جن کے وجود مسعود سے کبھی دنیا خالی نہیں رہتی، حدیث صحیح اور حسن وغیرہ سے ان با برکت حضرات کا موجود ہونا ثابت ہے، اسی وجہ سے کثیر تعداد میں لفظ ابدال کا استعمال ائمہ کرام و محدثین عظام کے اقوال میں پایا جاتا ہے، بعض ائمہ کرام کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
امام الائمہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی بعض ائمہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ہم انہیں ابدال میں سے شمار کرتے تھےاور امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بعض دوسرے ائمہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’علما انہیں ابدال سے شمار کرنے میں شک نہیں کرتے تھے۔‘‘ (المقاصد الحسنۃ؍ سخاوی، رقم:۸ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’اگر اصحاب حدیث ابدال نہیں ہونگے تو پھر کون ہوگا؟‘‘ (شرف اصحاب الحدیث؍خطیب بغدادی )
امام سخاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’اسی طرح ان دونوں حضرات کے علاوہ نقاد، حفاظ اور ائمہ کرام نے بہت سے دوسرے ائمہ کرام کو ابدال سے موصوف کیا ہے۔‘‘ ( المقاصد الحسنۃ ؍سخاوی، رقم: ۸   )
مسئلہ مذکورہ میں حدیث صحیح ،حسن اور معتمد اقوال ائمہ کے ورود کے باوجود بعض متشددین و متعنتین حضرات جیسے شیخ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد شیخ ابن قیم جوزیہ نے ابدال کے وجود کا انکار کیا ہے، اور ان کے متبعین آج بھی اس مسئلہ میں ان کی اتباع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہاں پر میں شیخ ابن قیم جوزیہ کا قول ذکرکرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
شیخ ابن قیم جوزیہ اپنے امام ابن تیمیہ کی اتباع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ابدال، اقطاب، اغواث، نقباء، نجبا ءاور اوتاد والی ساری حدیثیں باطل ہیں، اور ان میں سے حدیث:’’ لاتسبوا أہل الشام، فإن فیہم البدلاء، کلما مات رجل منہم أبدل ا للہ  مکانہ رجلا آخر‘ ‘سب سے قریب تر ہے، امام احمد بن حنبل نے اسے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے، مگر یہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے۔ (المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف؍ابن قیم جوزیہ) 
اولاً:عمومی جوابات ملاحظہ فرمائیں:
پہلا جواب:
شیخ ابن قیم جوزیہ کا یہ قول قابل قبول نہیں،اس قول کے مردود ہونے کے لئے یہ ایک حدیث ہی کافی ہے،چہ جائے کہ اس کے علاوہ حدیث حسن اور حسن لغیرہ موجود ہیں، حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:’’اہل شام کو گالی مت دو، بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو برا بھلا کہو،کیونکہ ان کے درمیان ابدال رہتے ہیں۔‘‘
امام حاکم ر حمہ اللہ تعالی  فرماتے ہیں:’’ یہ روایت صحیح الاسناد ہے۔‘‘ امام ذہبی ر حمہ اللہ تعالی ان کی موافقت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صحیح ہے۔‘‘ ( حلیۃ الأولیاء؛ابو نعیم أحمد بن عبد ا للہ  الأصبہانی؛ج:۶،ص:۲۰)
دوسرا جواب:
ان متشددین کے بالمقابل متوسطین اور علوم حدیث کے ماہر بعض دیگر محدثین عظام کے اقوال و آراء موجودہیں جو اس بات کی صراحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اس باب میں احادیث صحیحہ اور حسنہ موجود ہیں، بعض اقوال کا ذکر کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
امام حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی     فرماتے ہیں: ’’ابدال کا ذکر متعدد خبروں میں وارد ہے، ان میں سے بعض صحیح ہیں، اور بعض صحیح نہیں، قطب کا ذکر بھی بعض آثار میں آیا ہے، اور رہی بات غوث کی تو جس وصف کے ساتھ صوفیا کے درمیان مشہورہے، اس طرح ثابت نہیں۔‘‘
امام حافظ مرتضی زبید ی رحمہ اللہ تعالی    فرماتے ہیں:
’’امام ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کے اس قول سے ابن تیمیہ کا زعم - لفظ ابدال ایک خبر منقطع کے علاوہ کسی بھی حدیث صحیح اور ضعیف میں وارد نہیں- باطل ہوگیا، کاش وہ اپنے علم کے حدود میں رہ کر نفی کرتے ! مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس سے دس قدم آگے بڑھے، اور وجود ہی کی نفی کر ڈالی، نیز جنہوں نے لفظ ابدال کے ورود کا دعوی کیا ان کو جھٹلادیا، اور اگر اس باب میں وار د شدہ تمام روایات کا ضعیف ہونا تسلیم کر بھی لیا جائے تو کم از کم کثرت طرق و تعدد مخرج کی وجہ سے اس باب کی حدیث کے قوی ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (اتحاف السادۃ المتقین؍ زبیدی )
خاتم الحفاظ امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی     فرماتے ہیں:
’’ابدال والی خبر صحیح ہے، میں نے اس کے متعلق ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے، میں نے اس میں اس کے متعلق وارد شدہ احادیث کے طرق کو بالاستیعاب ذکر کیا ہے۔پھر طرق حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:اتنے طریقے سے وارد شدہ حدیث لامحالہ تواتر معنوی تک پہونچ جاتی ہے، جس کی وجہ سے ابدال کے وجود کی قطعی صحت بدیہی طورپر ثابت ہوجاتی ہے۔‘‘ ( النکت البدیعات؍سیوطی)
ثانیاً: خاص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث کے متعلق جواب ملاحظہ فرمائیں:
پہلا جواب:
امام نور الدین ہیثمیرحمہ اللہ تعالی   صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’ اس حدیث کی تخریج امام طبرانی رحمہ اللہ تعالی  نے اپنی ’الأوسط‘ میں کی ہے، اس حدیث کی سند حسن ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد؍ہیثمی، رقم: ۱۶۶۷۴)
شیخ ابن قیم جوزیہ کے قول کے مطابق مان لیتے ہیں کہ حـضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں انقطاع ہونے کی وجہ سے ضعف ہے، مگر میں کہتا ہوں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ روایت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث کے لئے قوی شاہد ہے، جس کی وجہ سے انقطاع کا ضعف جاتا رہا، اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث حسن لغیرہ ہوکر مقبولیت کے درجہ میں پہونچ گئی، اس لئے اگرچہ صحیح نہیں مگر قابل قبول اور قابل عمل ضرور ہے۔
دوسرا جواب:
اس حدیث کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کردہ حدیث کی دیگر قابل قبول متابعات اور شواہد ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی روایت کردہ حدیث حسن لغیرہ اور مقبول ہوگی،یہی رائے علم حدیث کے قواعد کے موافق ہے، ان شاء ا للہ ان متابعات اور شواہد کو قارئین رسالہ ہذا میں تفصیلا ًملاحظہ کریں گے۔
بہر حال ابدال والی حدیث کا اگر علم حدیث کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور محققین و محدثین کے مذکورہ بالا اور دیگر ناقدین و حفاظ مثلاً امام سخاوی رحمہ اللہ تعالی  ، اور امام عجلونی رحمہ اللہ تعالی  وغیرہ کے اقوال و آراء کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ابدال والی حدیث کے بطلان کا دعوی محض دعوی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں، جس کی وجہ سے میں یہ کہنے میںقطعاً جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ شیخ ابن تیمیہ وغیرہ کی طرف سے بطلان کا دعوی قابل قبول نہیں، بلکہ مردود ہے۔
بعض حضرات ابدال والی حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں، اور اس پر دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ حدیث کتب ستہ میں نہیں ہے!
منکر حدیث ابدال کی یہ دلیل یا تو کتب ستہ کے علاوہ دوسری کتب احادیث مثلاً مسند احمد، صحیح ابن خزیمہ اورصحیح ابن حبان وغیرہ سے جہالت یا پھر ہٹ دھرمی اور کٹ حجتی اور لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی غرض پر مبنی ہے، اور یہ ساری چیزیں باب تحقیق میں مذموم اورغیر مقبول ہیں ، دور حاضر میں اس موضوع پر کچھ لکھنا ضروری ہے، ان شاء ا للہ عنقریب اس موضوع پر مضمون لکھوں گا، ا للہ توفیق عطا فرمائے، آمین۔
اور بعض متشدد حضرات ابدال والی حدیث کے ضعیف یا موضوع ہونے پر یہ حجت بناتے ہیں کہ اس کے متعلق احادیث کو امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ’’الموضوعات‘ ‘میں ذکر کیا ہے!
یہ عجیب و غریب دلیل بھی ’الموضوعات‘ کے متعلق محدثین کرام کی آراء سے ناواقفیت کی وجہ سے وجود میں آئی ہے، یہاں پر امام حافظ ابن حجر اور خاتم الحفاظ رحمہما ا للہ کے قول کو ’الموضوعات‘ کے متعلق ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی    فرماتے ہیں:’’قدیم و جدید دور کے حفاظ نے اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی سے ’الموضوعات‘ میں بہت زیادہ تساہلی واقع ہوگئی ہے، انہوں نے بہت ساری ضعیف اور بعض حسن و صحیح حدیثوں کو اپنی اس کتاب میں ذکر کردیا ہے۔ اسی لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالینے ’’الموضوعات‘‘ میں اور حاکم نیساپوری نے ’’المستدرک‘‘ میں تساہلی کرکے ان دونوں کتابوں کے نفع کو معدوم کردیا ہے، کیونکہ ان میں کی ہر ایک حدیث میں تساہلی واقع ہونے کا احتمال ہے۔ لہذا ناقد حدیث پر واجب ہے کہ ان دونوں محدثین کی نقل کردہ حدیثوںکا بغیر ان کی تقلید کئے از سرے نو تحقیق و دراسہ کرے پھر اس کی روشنی میں فیصلہ کرے کہ وہ حدیث کس درجہ کی ہے۔‘‘ ( مقدمۃ النکت البدیعات علی الموضوعات؍سیوطی)
خاتم الحفاظ امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی  کے زیر نظر رسالہ پر ابدال کی احادیث کے متعلق شیخ ناصر الدین البانی کے نقد اور اس کے جوابات ملاحظہ فرمائیں،شیخ ناصرالدین البانی لکھتے ہیں:
فائدہ:’’ امام سیوطی نے اپنے اس رسالہ کو احادیث ضعیفہ اور آثار واہیہ سے بھردیا ہے، ان میں سے بعض حدیث بعض دوسری حدیث سے ضعف میں زیادہ شدید ہیں۔‘‘( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، البانی )
جوابات ملاحظہ فرمائیں:
اولاً: یہ قول امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی  پر بہتان کے سوا کچھ نہیں، ان شاء ا للہ یہ بہتان طرازی قارئین پر زیر نظر رسالہ پڑھنے کے بعد خود بخود واضح ہوجائے گی ، کیونکہ آپ نے اپنے اس رسالہ میں صحیح اور حسن حدیث کے ساتھ ضعیف قابل انجبار حدیثیں بطور متابعت اور شواہد ذکر کی ہیں، اور اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ تو ائمہ کرام اور محدثین عظام کاطریقہ کار رہا ہے، اور رہی یہ بات کہ ان میں سے بعض شدید ضعیف اس طور سے ہیں کہ ان سے استدلال نہیں کیا جاسکتا تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ ہماری دلیل صحیح، حسن اور قابل انجبار ضعیف حدیثیں ہیں۔
ثانیاً: برسبیل تنزل اگر مان بھی لیا جائے کہ ابدال والی حدیث کے سارے راوی ضعیف ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی  کے نزدیک ابدال والی حدیث معنی کے اعتبار سے متواتر ہے، اورحدیث ابدال کے لئے تواتر کے ثبوت کے بعد اس کے راویوں کے ضعیف ہونے اور نہ ہونے کی وجہ سے حدیث کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا خاتم الحفاظ رحمہ اللہ تعالی پر ضعیف راویوں کی حدیثیں ذکر کرنے کی وجہ سے نقد کرنا بجا نہیں، موقع کی مناسبت سے حدیث متواتر کی تعریف اور اس کا حکم بیان کردینا مناسب سمجھتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
      حدیث متواتر کی تعریف:
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی    فرماتے ہیں:
’’متواتر:  وہ حدیث ہے جس کو اتنی مقدار میں راوی نقل کریںکہ ان سب کا جھوٹ پر متفق ہونا ناممکن ہو اور علم یقینی حاصل ہو جائے ،نیز یہ مقدار ہر طبقہ میں ہونا ضروری ہے۔‘‘ ( تدریب الراوی: النوع الثلاثون: المشہور من الحدیث،ص۴۵۰)
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی  حدیث متواتر کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اسی وجہ سے حدیث متواتر کے روایوں کے متعلق بحث وتمحیص کیے بغیر اس پر عمل کرنا واجب ہے۔‘‘ ( تدریب الراوی؍ سیوطی، النوع الثلاثون)
اگر شیخ البانی خاتم الحفاظ رحمہ اللہ تعالی  کی اس رائے کوذہن میں رکھتے تو یقینا آپ کے رسالہ کے متعلق اس طرح کی رائے زنی کرنے سے ضرور پر ہیز کرتے۔
ثالثاً: اگر تسلیم کرلیا جائے کہ ابدال والی حدیث کی ساری راویتیں ضعیف ہیں تو بھی یہ حدیث مقبول ہوگی، کیونکہ اس حدیث کی ساری رواتیں شدید ضعیف نہیں، بلکہ بہت ساری رواتیں ایسی ہیں جن میں ضعف اس قدر ہے کہ وہ ایک دوسرے کو تقویت پہونچاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں، امام عجلونی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’حدیث ابدال طرق کثیرہ کی وجہ سے قوی ہوجائے گی۔‘‘ ( کشف الخفاء؍عجلونی، رقم: ۳۵)  
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی  حدیث حسن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حدیث حسن: وہ ہے جو شذوذ سے محفوظ ہو، اوراس کا کوئی بھی راوی متہم بالکذب نہ ہو نیز یہ حدیث فرد بھی نہ ہو۔’’بلکہ دوسرے طریق سے -جو پہلے طریق سے اقوی یا اس کے مثل ہو- بھی مروی ہو۔‘‘ (فتح المغیث؍ امام سخاوی)
اس تعریف کے پیش نظر حدیث ابدال کم از کم حسن یا حسن لغیرہ ضرور ہوگی، جو ائمہ کرام اور محدثین عظام کے نزیک مقبول ہوتی ہے۔
بہر صورت اس قدر تفصیلی بیان سے واضح ہوگیا کہ اس باب میں مخالفین کے اقوال و دلائل قابل التفات نہیں، اور حق وہی ہے جسے خاتم الحفاظ امام سیوطی اور دیگر ائمہ کرام رحمہم ا للہ نے فرمایا، کیونکہ انہیں کے اقوال قواعد و اصول حدیث کے موافق ہیں، ا للہ تعالی امت مسلہ کو حق مضبوطی سے تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی ا للہ تعالی علیہ وآلہ وسلم۔
میرے عزیز دوست فاضل جامعہ ازہرحضرت مولانا محمد عارف منظری مداری نے اس رسالہ کا اردو ترجمہ اور تخریج کرکے اردو داں طبقہ کے لئے بڑا مفید کارنامہ انجام دیا ہے، مولی تعالی انہیں نظر بد سے بچائے، خلوص و للہیت اور جہد مسلسل کے ساتھ دین متین کی بیش بہا خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ اسی طرح ہمارے محترم خلیفہ شیخ الاسلام مدنی میاںجناب بشارت صدیقی صاحب قابل صد ستائش ہیں، جنہوں نے محترم مولانا محمد عارف منظری صاحب سے اس کتاب کے ترجمہ کی تکمیل کرائی، آپ علمائے کرام سے عربی کتابوں کااردو میں ترجمہ کر نے کی خواہش اور اردو داں طبقہ کے لئے عظیم کام انجام دینے کے متعلق بڑے حساس نظر آتے ہیں، مولی تعالی ان کے احساس کو قوی تر بنائے، اور ان کے اس عزم کی تکمیل کے لئے خزانہ غیب سے اچھے اسباب اور عمدہ علما ءمہیا فرمائے! 
آمین بجاہ سید المرسلین صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم

فقیر
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یو، پی، انڈیا۔

(یہ تقدیم جامعہ ازہر شریف میں تعلیم کے دوران ۲۰۱۴ء میں لکھا گیا) 

2 comments:

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts