Thursday, August 29, 2019

افضلیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

مبسلما و حامدا و مصلیا و مسلما
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا زیر نظر رسالہ علمائے اہل سنت کے ایک مجمع علیہ مسئلہ(افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے متعلق ہے لہذا میں بہتر سمجھتا ہوں کہ مشتملات رسالہ پر لکھنے سے پہلے موضوع رسالہ کی رعایت کرتے ہوئے امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کچھ فضائل کا تذکرہ ہوجائے۔
             ہر کس و ناکس پر یہ بات واضح ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی ذات نے ہی اس دنیا کو وجود بخشا، اور اسی نے اسے اپنی حکمت کے ذریعہ مختلف انواع و اقسام کی نعمتوں سے مزین فرمایا، نیز اپنی حکمت کے مطابق ہر قسم کی نعمتوں میں بعض کو بعض پر مقدم رکھا، بعض میں ایسی خوبیاں رکھیں جو دوسرے میں نہیں، بلکہ خود اخروی دنیا کو فنا ہونے والی دنیا سے افضل و اعلی قرار دیا، اسی طرح اللہ تعالی نے جب دنیائے انسانیت کو سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے نوازا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام کائنات بلکہ جملہ انبیا و رسل علیہم الصلاۃ والسلام سے افضل تر بنایا،اسی طرح اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شکل میں امت مسلمہ کو ایک اورعظیم نعمت عطا فرمائی، یہ وہ معظم و مکرم حضرات ہیں جن کے ذریعہ دنیا کے باشندوں کو کلام الہی اور احادیث نبویہ اپنی صحیح ہیئت کے ساتھ پہونچی، جن کی کد و کاوش کی وجہ سے اسلام کا پوری دنیا میں بول بالا ہوا، جنہوں نے اسلام کی نشرو اشاعت میں اپنا گھر بار سب کچھ لٹادیا، اللہ تعالی کی حکمت عظمی کے پیش نظر ان حضرات کے درمیان بھی بعض کو بعض پر فضیلت حاصل رہی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ((ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال نے جتنا مجھے فائدہ پہونچایا ہے اتنا کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہونچایا)) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رو پڑے، اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میری جان ومال آپ ہی کے لئے نہیں !؟(فضائل صحابہ؍امام احمد بن حنبل)
            اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام صحابہ کرام فضل و کرم والے ہیں، ان کے فضائل اور قربانیوں کے بارے میں کثرت سے احادیث وارد ہیں، مگر ان کے درمیان جو فضیلت امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے، وہ کسی کو حاصل نہیں، آپ ہی کی وہ ذات ہے جو ہجرت مدینہ منورہ کے پر خطر موقع پر غار ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی، آپ ہی کی وہ ذات ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیل بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کے بعد سورج نے جس افضل ذات پر اپنی کرنیں ڈالیں وہ آپ ہی ہیں ، مَردوں میں آپ ہی کی وہ محترم شخصیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، آپ ہی کی وہ ذات ہے جو اللہ جل شانہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مؤمنوں کے نزدیک سب سے اولی و افضل ہے، آپ ہی کی جد و جہد سے حضرت عثمان، طلحہ، زبیر اور ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہم و غیرہ ایمان لائے،آپ ہی کی وہ قابل رشک شخصیت ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام امت میں سب سے بہتر ہیں، بہر حال آپ رضی اللہ عنہ کے محاسن و مناقب بہت ہی زیادہ ہیں، یہاں اس کا احاطہ ممکن نہیں، اس لئے یہاں بعض احادیث ہی ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، تاکہ کم از کم دعوی بعض دلائل سے مزین ہوجائے، ملاحاظہ فرمائیں:
            (۱) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہان مبارک سے نکلی ہوئی آواز میرے کانوں سے -اس وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے آگے آگے چل رہا ہوں- ٹکرائی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  فرمایا:
((اے ابو درداء! کیا تم ان کے آگے آگے چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہیں)) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما، انبیا اور مرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بہتر کسی شخص پر سورج نہ تو طلوع ہوا اور نہ ہی غروب ہوا)) (التفسیر من سعید بن منصور، ت ۷۲۲ھ)
            (۲) ابو عثمان رحمہ اللہ سے مروی، آپ فرماتے ہیںکہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوئہ ذات السلاسل کے لشکر کا امیر بناکر بھیجا، آپ کہتے ہیں : میں غزوئہ ذات السلاسل سے لوٹنے کے بعد  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا:کون لوگ آپ کو زیادہ محبوب ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((عائشہ رضی اللہ عنہا)) میں نے عرض کیا :مردوں میں کون لوگ سب سے زیادہ محبوب ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد)) میں نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ)) اور بعض دوسرے لوگوں کا ذکر کیا۔(صحیح البخاری، رقم: ۳۶۶۲، صحیح مسلم، رقم: ۲۳۸۴)
            (۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی، آپ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے اپنے حالت مرض میں فرمایا:
            ((اپنے والد اور اپنے بھائی کو بلاؤ، تاکہ میں کتاب لکھ دوں، کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے، اور کوئی کہنے والا کہے: میں اولی ہوں، حالانکہ اللہ تعالی اور مؤمنین کے نزدیک ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی اولی و افضل نہیں))(صحیح مسلم، رقم: ۲۳۸۷)
            (۴) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ کہتے ہیں:
            رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک دن لوگوں سے خطاب کیا، اور فرمایا: ((بیشک اللہ تعالی نے اپنے بندہ کو دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق عطا فرمایا، تو اس بندہ نے آخرت کو اختیار کیا)) اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ رو پڑے، تو ہمیں ان کے اس رونے پر تعجب ہوا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک بندہ کے بارے میں خبر دی تھی جسے اختیار دیا گیا تھا! پھر معلوم ہوا کہ جس بندہ کو اختیار دیا گیا ہے ،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ علم والے تھے، ان کے اس طرح رو پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((سب سے زیادہ میرا ساتھ دینے والے، اور مال خرچ کرنے والے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، لیکن اسلام کی بھائی چارگی اور مئودت افضل ہے، ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے علاوہ مسجد کی طرف کھلنے والے سارے دروازے بند کردئے جائیں)) (صحیح البخاری، رقم: ۳۶۵۴)
            (۵) حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ کہتے ہیں: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
            ((کیا میں تمھیں اس امت کے نبی کے بعد سب سے بہتر شخص کے بارے  میں خبر نہ دے دوں؟ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں)) پھر آپ نے فرمایا: ((کیا میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت کے سب سے بہتر شخص کے بارے میں خبر نہ دے دوں؟ وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں)) (فضائل الصحابۃ لأحمد بن حنبل، رقم: ۴۰)
            اس مسئلہ کے متعلق بعض اقوال بھی نقل کردیتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            امام سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
            (ہم نے اپنے اسلاف کو اسی ترتیب- یعنی سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق، پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم ہیں-پایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنہوں نے تفضیل شیخین(حضرت صدیق اکبر وعمر رضی اللہ عنہما) اور محبت ختنین(حضرت عثمان وعلی رضی اللہ عنہما) کو اہل سنت و جماعت کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا ہے )(شرح العقائد النسفیۃ؍تفتازانی)
            علمائے اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کی ذات سب سے اعلی و افضل ہے(تدریب الراوی؍جلال الدین سیوطی)
             حضر ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں، یہی قول صحیح اور درست ہے، جس نے اس رائے کی مخالفت کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ سے افضل مانا وہ مبتدع ہے (رد المحتار؍ابن عابدین شامی، باب المرتد)میں گفتگو طویل نہ کرکے اس مسئلہ افضلیت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں جتنا بیان ہوا اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
            زیر نظر رسالہ خاتم الحفاظ، محقق و مدقق، امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (ت ۹۱۱) کی تحقیقات و تصنیفات کے بحر زخار کا ایک قطرہ ہے، جس میں آپ نے امیر المؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت کو آیت کریمہ سے ثابت کیا ، اور اس کو قوی دلائل و براہین سے مزین کیا ، نیز بعض منکرین کا علمی محاسبہ کرکے ان کا رد بلیغ بھی کیا، آپ نے اس رسالہ کو آیت کریمہ ((سیجنبہا الاتقی)) سے متعلق سوال کے جواب میں تصنیف فرمایا، آپ نے اپنے رسالہ کو ترتیب کچھ اس طرح دیاہے:
            آپ نے آیت کریمہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے دو فصلیں باندھیں:
            پہلی فصل: آپ نے اس فصل میں متعدد احادیث اور روایات سے ثابت کیا کہ آیت کریمہ ((سیجنبہا الاتقی)) سے مراد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
             دوسری فصل: آپ نے اس فصل میں فتوی جوجری کا -جس میں انہوں نے آیت کریمہ((سیجنبہا الاتقی)) سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مراد ہونے کو انکار کیا ہے -چار وجوہات سے علمی جائزہ لیا ہے، پہلے تین وجوہات جدلیہ ہیں جو اس بات کی طرف دعوت دیتی ہیں کہ ہر عالم دین کواسی فن میں کلام کرنا چاہئے جس میں وہ ماہر ہو، اور اگر ماہر نہ ہو تو کم ازکم موضوع مسئلہ کی رعایت کرتے ہوئے کتابوں کی چھان بین اور تحقیق و تدقیق کرنے کے بعد ہی مسئلہ کا فیصلہ سنائے، کیونکہ بغیر اس بحث و تمحیص کے کسی مسئلہ پر حکم لگانا نقص سے خالی نہ ہوگا، یہ تینوں جدلی وجوہات ایسے ہیں جسے ہر طالب علم اور عالم دین کو لازم پکڑ لینا چاہئے، دور حاضر میں اکثر لوگ حکم لگانے میں بہت جلد بازی کرتے ہیں،ان کے لئے یہ وجوہات نمونئہ عبرت ہیں، اور چوتھی تحقیقی وجہ  میں آپ نے اقوال ائمہ تفسیرو نحات کی روشنی میں ’’جوجری ‘‘کے فتوی کا بہت ہی محققانہ اور مدققانہ جائزہ لیا ہے جو یقینا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جوجری کا آیت کریمہ ((سیجنبہا الاتقی)) کو عموم پر محمول کرنا، اور اس سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مراد ہونے کو غلط قرار دینا خود غلط ہے، اور آثار مبارکہ، ائمہ تفاسیر، لغوی اور نحوی قوانین کے خلاف ہے، قارئین کرام ان شاء اللہ رسالہ کے دلچسپ اور تحقیقی مباحث سے محظوظ و مستفید ہونگے، مسئلہ مذکورہ سے متعلق مزید ائمہ تفاسیر کی آراء جاننے کے لئے رسالہ میں ذکر کردہ تفاسیر کے علاوہ’’ الکشف و البیان؍ ثعلبی ‘‘(ت ۴۲۷ھ)  ، ’’زاد المسیر؍ابن جوزی‘‘(ت ۵۹۷ھ) اور’’روح المعانی؍ آلوسی‘‘(ت ۱۲۷۰ھ) کی طرف بھی رجوع کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالی ہمیں اور تمام امت مسلہ کو خاتم الحفاظ، جامع منقول و معقول علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے علوم سے بہرہ ور فرمائے، اور ان کے ضوابط پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
            قابل مبارک باد ہیں ہمارے محترم عزیز مولانا محمد عارف منظری مداری فاضل جامعہ ازہر جنہوں نے اس رسالہ کا سلیس اور آسان ترجمہ مع تخریج کرکے امت مسلمہ کو ایک عظیم تحفہ دیا، بعض حضرات ترجمہ نگاری کو بہت آسان سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ یہ مستقل کتاب لکھنے سے سخت تر ہے، کیونکہ ترجمہ نگاری میں ضروری ہے کہ جس زبان سے اور جس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے ترجمہ نگار دونوںزبانوں کا ماہر ہو، اور یہ خوبی بحمد اللہ ہمارے مکرم فاضل جامعہ ازہر کے اندر کافی حد تک موجود ہے، آپ کو علم دین سے محبت اور اس کی نشرو اشاعت کے ذریعہ خدمت کرنے کابڑا شوق ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے آپ کے اس شوق کو تا حیات بر قرار رکھے، اور اس کی تکمیل کے لئے خزانہ غیب سے اسباب مہیا فرمائے، اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو مقبول خاص و عام فرمائے، اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے، آمین، نیز ہمارے رفیق محترم خلیفہ شیخ الاسلام جناب بشارت صدیقی صاحب قبلہ قابل صد ستائش ہیں جنہوں نے اس رسالہ کے ترجمہ کی تکمیل مولانا محمد عارف منظری مداری صاحب سے کرائی، آپ کے ارادے بھی دینی کتب کے ترجمہ کے متعلق کافی نیک ہیں، اللہ تعالی سے فقیر کی دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں اس نیک کام پر مداومت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اسے شرف قبولیت سے نوازے، نیز آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

فقیر
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر،شبعہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳؍۹؍۲۰۱۴ء
ای میل: amjadiazhari@gmai.com

(یہ تقدیم جامعہ ازہر شریف میں تعلیم کے دوران لکھی گئی) 

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts