Thursday, August 29, 2019

ایں سعادت بزور بازو نیست

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
            قرآن و حدیث اور اسلاف کی حیات و خدمات ہی امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ ہیں، ان کی زیادہ سے زیادہ نشرو اشاعت وقت کی اہم ضرورت ہے؛ تاکہ قوم مسلم قرآن و حدیث پر عمل کرکے اور باعمل پیران عظام و علماے کرام کے نقش قدم پر چل کر اپنی دنیا و آخرت سنوارسکے، اسی اہمیت کے پیش نظر خانقاہ صمدیہ پھپھوند شریف کی ایک ممتاز شخصیت، ایک عظیم کڑی حضور اکبر المشایخ سید محمد اکبر چشتی بن سید اعزاز حسین رحمہما اللہ کی سوانح حیات بنام ’’سوانح اکبر المشایخ‘‘ شائع کی جارہی ہے، ان شاء اللہ یہ سوانح حیات عوام و خواص بالخصوص پیران کرام اور علماے عظام کے لیے مفید ثابت ہوگی بلکہ جو عبرت حاصل کرنا چاہیں گے ان کے لیے باعث اعتبار بھی ہوگی۔
            محترمی مکرمی حضرت مولانا غلام سبحانی ازہری زید علمہ، فاضل جامعہ ازہر، مصر کے توسط سے ’’سوانح اکبر المشایخ‘‘ کا ’’باب چہارم: اوصاف و کمالات‘‘ مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا، جوں جوں پڑھتا گیا یہ تمنا دل میں انگڑائی لیتی رہی کاش مجھے بھی ایسے باعمل عالم و پیرو مرشد سے اکتساب فیض کا شرف حاصل ہوجاتا، کاش میں اور دیگر حضرات ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر سکتے! اور یہ تمنا بے جا نہیں بلکہ بجا و برحق ہے؛ کیوں کہ حضور اکبر المشایخ علیہ الرحمہ کے اندر عالم باعمل،تا حیات طلب علم کا شوق و ذوق، زہد و تقوی، توکل و بے نیازی، دینی حمیت، تواضع و انکساری، علما نوازی، اخلاص، تصلب فی الدین، نیک پیرو مرشد، عفو در گزر، تحریری نگارشات اور کشف و کرامات جیسے عمدہ اوصاف پائے جاتے تھے جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندر صرف پیر ہونے کے شرائط ہی نہیں پائے جاتے تھے بلکہ آپ کی شخصیت اس سے کئی گنا بالاتر تھی، آپ کی شخصیت اعلی و افضل علما و مفتیان کرام کی صف میں آتی ہے، آپ کی تابندہ زندگی دور حاضر کی اکثر خانقاہوں کی روش سے جدا تھی! اللہ تعالی آپ کی مرقد انور پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے، آمین۔
            میں یہاں پر حضور اکبر المشایخ رحمہ اللہ کی طریقہ زندگی کے بعض اوصاف حمیدہ اور دور حاضر کے بعض بدتر حالات کے درمیان تقابل کی ایک جھلک پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
            باعمل عالم و پیر و مرشد:
            علم حاصل کرنا یہ بڑی توفیق کی بات ہے لیکن اس کے مطابق عمل کرنا اس سے بڑے شرف کی بات ہے، یہی علم کا مقصود اصلی ہے، اس کے بعد اخلاص کا نمبر آتا ہے جو مقصود اصلی کی غرض و غایت ہے؛ کیوں کہ یہی وہ وصف ہے جس کے ذریعہ ابدی اخروی زندگی تابندہ و درخشندہ بنائی جاسکتی ہے، حضور اکبر المشایخ علیہ الرحمہ اگرچہ ایک عظیم خانقاہ کے فرد تھے مگر آپ کے اندر علم دین کے ساتھ عمل اور عمل کے ساتھ اخلاص بھی اتم درجہ کا پایا جاتا تھا۔
            زمانہ حال میں اگر ہم غائرانہ نظر ڈالیں؛ تو نظر آتا ہے کہ اکثر لوگ علم دین سے عاری ہیں، اور اگر ایک گروہ علم دین سے مزین بھی ہے؛ تو ان میں سے اکثر لوگ عمل سے منحرف دکھائی دیتے ہیں، اپنی یا اپنوں کی بات آگئی؛ تو اکڑ کر کھڑے ہوجائیں گے، انانیت شریعت کی اتباع کرنے سے مانع ہوجائے گی، جب ان کی عملی زندگی کا یہ حال ہے؛ تو پھر اخلاص کا پاجانا بہت بعید و نادر تر ہے، آج ہم زبانی خرچ کے عادی ہوچکے ہیںاور عملی کردار و زندگی سے عموما روگردانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ایک طرح سے نفاق کی علامت ہے، ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اگر اپنا وجود بچانا ہے؛ تو عقیدہ کی حفاظت کے ساتھ عملی کردار کو مقدم کرکے زبانی خرچ کو پس پشت ڈالنا ہوگا اور اکبر المشایخ اور دیگر بزرگان دین رحمہم اللہ کی عملی زندگی سے عبرت حاصل کرکے ان کی طرز زندگی اپنانی ہوگی۔
            توکل و بے نیازی:
            اللہ تعالی کی ذات پر توکل و بھروسہ ایسا وصف جمیل ہے جو اپنے موصوف کو ریاکاری سے محفوظ، کاسہ لیسی جیسی غلط عادت سے دور رکھتا ہے، یہی وہ ایک وصف ہے جو انسان کو اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوکر انسانوں سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارنے کا خوگر بناتا ہے اور کوئی کام کرتا ہے؛ تو یہ وصف اسے کمزور انسان و کمزور بازو پر اعتماد کرنے کے بجائے اللہ عز وجل پر اعتماد کرنے کی دعوت دیتا ہے، یہ وصف محمود بھی حضور اکبر المشایخ علیہ الرحمہ کے اندر پورے طور سے موجزن تھا، آپ نیک کاموں میں سعی مسعود کرتے اور اسے اللہ تعالی کی ذات کے حوالے کردیتے تھے، اپنے ناتواں بازو اور مٹی سے بنے ہوئے انسانوں پر اعتماد کرنے کے بجائے اللہ تعالی جو سب کا خالق و مالک ہے اسی کی ذات پر بھروسہ کرتے تھے؛ جس کی وجہ سے کام نتیجہ خیز اور عمدہ ترین ہوتا تھا اور عموما ہر کام پختگی کے ساتھ اپنے منزل مقصود تک پہونچ جاتا تھا۔
            دور حاضر میں اکثر لوگوں کے اندر سے توکل علی اللہ کا وصف تقریبا ختم ہوتا جارہا ہے؛ جس کی وجہ سے وہ چاپلوسی و کاسہ لیسی کے خوگر ہوتے جارہے ہیں، سامنے ہونگے؛ تو جی حضور، پیٹھ پیچھے ہونگے؛ تو گالی گلوج! اسی وصف جمیل کے مفقود ہونے کی وجہ سے آج حق گوئی و بے باکی ختم ہونے کے کگار پر ہے، احقاق حق و ابطال باطل کا جنازہ نکلتا جارہا ہے، ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر حضور اکبر المشایخ اور دوسرے علماے کرام اور اولیاے عظام رحمہم اللہ کے نقش قدم پر چل کر توکل علی اللہ جیسے عظیم وصف کے خوگر بنیں؛ تاکہ اس کے نہ ہونے کی وجہ سے جو دوسری خرابیاں در آتی ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔
            دینی حمیت و تصلب فی الدین:
            حقیقی دینی تصلب و حمیت ایک بہت اہم ترین وصف ہے، یہ وصف انسان کو دین متین پر بہت مضبوطی کے ساتھ قائم رکھتا ہے، اس کی وجہ سے ایک مسلم کے اندر ایمانی حرارت بیدار رہتی ہے، اپنے گھر کا فرد ہو یا پرایا، ہر ایک کے لیے یکساں حکم بیان کرنے کی شدت سے رغبت دلاتا ہے، حضور اکبر المشایخ رحمہ اللہ کے اندر یہ وصف بھی بڑی عمدگی کے ساتھ پایا جاتا تھا، آپ نے جہاں غیروں کے ساتھ دینی حمیت و تصلب کا جلوہ دکھایا وہیں اپنے گھر کے افراد کو بھی دینی تصلب پر قائم رہنے کا حکم دیا اور انہیں اس چیز کی رغبت دلائی۔
            زمانہ حاضر میں عجیب و غریب حالت ہوچکی ہے، اکثر لوگوں کا حال دیگر گوں ہے،غیر ہے؛ تو ہر طرح کی دینی حمیت و تصلب کچوکے لگاتی ہے، اور اس کا خوب رد و ابطال کیا جاتا ہے، لیکن غلطی سے اگر اپنے گھر کا شخص نکلا یا کوئی اپنا قریبی سامنے آیا؛ تو مداہنت کا دروازہ کھل جاتا ہے، نفاق کی علامت نکل کرسامنے آتی ہے اور الٹی سیدھی تاویل کا دروازہ کھل جاتا ہے اور سارا کا سارا دینی تصلب و حمیت وہیں کی وہیں درگور کردی جاتی ہے، حمایت دین کا نشہ کافور ہوجاتا ہے!! ضرورت ہے کہ حضور اکبر المشایخ اور دیگر مشایخ حقہ علیہم الرحمۃ و الرضوان کی راہ اختیار کرکے اپنے اندر صحیح معنوں میں دینی حمیت و تصلب کو پروان چڑھائیں؛ تاکہ صحیح طریقہ اختیار کرکے غلط افکار کے حاملین اپنے ہوں یا غیر سب سے دین متین اور مسلمانوں کی حفاظت کی جاسکے۔
            اس کے علاوہ حضور اکبر المشایخ رحمہ اللہ کے اندر بہت سارے نیک اوصاف پائے جاتے تھے جن سے متصف ہونا عام مسلمان بالخصوص پیران عظام، علماے کرام اور طالبان علوم نبویہ کا اولیں فریضہ ہے، اللہ تعالی سے دعا گو ہوں وہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل میں عقیدہ اہل سنت و جماعت کی حفاظت کے ساتھ عملی زندگی سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے، قول کے بجائے عملی اقدام کا شوق بے دار کرے اور ہر اوصاف حمیدہ میں حضور اکبر المشایخ و دیگر علما و مشایخ رحمہم اللہ کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
            عوام تو عوام بعض خواص لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم یہ سب اوصاف حمیدہ پدرم سلطان بود، حسب و نسب، چاپلوس و کاسہ لیس کی ٹولی، گندی سیاست، ڈھونگ، ریاکاری، بے راوہ روی اور بزور زبان و بازو حاصل کرلیں گے، حالانکہ ایسا ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا  نہ  بخشد  خداے  بخشندہ

عبرت والوں کے لیے عبرت ہے!!

طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲؍ شوال المکرم ۱۴۳۷ھ مطابق ۸؍ جولائی ۲۰۱۶ ء



2 comments:

  1. Masha Allah

    Allah Hame buzurgo ke faiz se hissa ata farmaye Aur apne elm par amal karne ki taufeeq ata farmaye Aameen

    ReplyDelete
  2. آمین ثم آمین
    جزاکم اللہ خیرا کثیرا

    ReplyDelete

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts