تحقیق و تدقیق کے کچھ اصول و ضوابط ہیں،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ محقق زیر بحث مسئلہ کے متعلق پہلے ہی سے کوئی نظریہ قائم کرکے
تحقیق نہ کرے بلکہ خالی الذہن ہوکر بلاتعصب بحث و تمحیص کا حق ادا کرے، اس کے بعد جو
نتیجہ سامنے آئے اسے بیان کرے، اس کے کئی فائدے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
ایک محقق تعصب و تعنت سے محفوظ رہے گا، اپنے
موقف کو زبردستی صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، جو دلیل، موقف کی دلیل بننے کے
لائق نہیں اسے دلیل بتانے کی لایعنی کوشش نہیں کرے گا۔
لیکن اگر تحقیق و تدقیق سے پہلے ہی کوئی
نظریہ قائم کرلیا گیا اور اسی کو صحیح قرار دے کر بحث و تمحیص شروع کی گئی؛ تو تعصب
سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، زبردستی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرے گا، جو
دلیل، موقف کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اسے دلیل بنانے کی بے سود کوشش کرے
گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اس تعصبی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں جو نتیجہ سامنے آئے گا
وہ نتیجہ خیز بحث کہلانے کے قابل نہیں رہے گا۔
مولانا ارشد جمال اشرفی صاحب کی کتاب ’عمامہ
اور ٹوپی کی شرعی حیثیت‘کے بعض مباحث و استدلال سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے پہلے ہی
سے یہ نظریہ قائم کرلیا تھا کہ اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے
عمامہ کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی ہیں، وہ موضوع یا شدید ضعیف ہیں، پھر اسی نظریہ
کے تناظر میں بحث کی اور ان احادیث پر موضوع ہونے کا حکم لگایا، ان کے اس رویہ پر ان
کے بے جا استدلال شاہد ہیں، یہاں موصوف کے دو چند اقتباسات نقل کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں،
موصوف لکھتے ہیں:
’’عین ممکن ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کو
اس حدیث کے بعض راویوں کے وضاع و کذاب ہونے کا اشارہ مل گیا ہو‘‘۔
موصوف مزید لکھتے ہیں:
’’ابن حجر عسقلانی نے محض جہالت راوی کی
بنیاد پر اس حدیث کو باطل یا موضوع قرار نہیں دیا ہے بلکہ حدیث میں بعض ایسے راویوں
کی جانب سے کچھ ایسی فحش غلطی سرزد ہوگئی کہ حافظ نے پہلے اس حدیث کو منکر قرار دیا،
پھر اپنی گہری معلومات کے بعد اس کے موضوع ہونے کا اعلان کردیا‘‘۔
موصوف مزید خامہ فرسائی فرماتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’امام سے یہ امید کی بھی کیسے جاسکتی ہے
کہ انہوں نے صرف جہالت کی بنیاد پر حدیث کو موضوع کہا ہے؛ کیوں کہ وہ امام فن تھے،
مصطلحات حدیث سے بخوبی واقف تھے‘‘۔
اس طرح بطور دلیل اندھیرے میں تیر وہی چلائے
گاجو تحقیق سے پہلے کسی موقف کو صحیح قرار دے چکا ہو، وہی یہ طرز استدلال اختیار کرے
گا جس کا دل و دماغ تعصب کی وجہ سے صحیح و غیر صحیح کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت
کھوچکا ہو؛ جس کی بنا پر اسے صحیح صرف وہی دکھائی دیتا ہے جسے وہ بحث کی تکمیل سے پہلے
ہی صحیح قرار دے چکا ہے۔
اگر علمی مباحث میں اس طرح کے استدلال کا
سہارا لیا جانے لگا؛ تو علمی میدان سے امان اٹھ جائے گا؛ کیوں کہ سیکڑوں احادیث ایسی
ہیں جنہیں محدثین کرام نے موضوع، شدید ضیف یا ضعیف قرار دیا، پھر لاحقین نے ٹھوس دلائل
کی بنیاد پر انہیں صحیح، حسن یا ضعیف قرار دیا بلکہ صحیح البخاری کی ایک سو دس احادیث
پر امام دارقطنی وغیرہ جیسے جلیل القدر علما و محدثین کرام نے کلام کیا اور حافظ الشان
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کا ’مقدمہ فتح الباری‘ میں علمی جواب دیا، اب بلا
دلیل و برہان کوئی کہنے والا آکر کہے: ہوسکتا ہے کہ موضوع، شدید ضعیف اور صحیح البخاری
کی احادیث ضعیف قرار دینے والے کے پاس کوئی ٹھوس دلیل رہی ہوگی؛ اس لیے انہوں نے موضوع،
شدید ضعیف یا ضعیف قرار دیا ہے؛ اس لیے وہ احادیث موضوع، شدید ضعیف یا ضعیف ہی قرار
پائیں گی، اس طرز استدلال کا حاصل یہ ہے کہ بحث و تمحیص کا دروازہ بند کردیا جائے اور
حدیث کے موضوع، شدید ضعیف، ضعیف یا صحیح، حسن ہونے کے متعلق صرف یہی کہ کر فرصت لے
لی جائے کہ یہی حکم صحیح ہے؛ کیوں کہ اس موقف پر فلاں شخص نے حکم لگایا ہے اور ان کے
پاس کوئی دلیل ضرور رہی ہوگی!!! اگر تحقیق کے نام پر اس طرح کے استدلال کو راہ دی گئی؛
تو علمی حلقہ میں اسے دیوالیہ پن سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
موصوف مولانا ارشد جمال صاحب نے اعلی حضرت
علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ذکر کردہ جن احادیث پر کلام کرکے انہیں موضوع یا شدید ضعیف
قرار دینے کی کوشش کی ہے، محترمی حضرت مولانا مفتی ذو الفقار احمد نعیمی زید علمہ نے
اپنی کتاب: ’احادیث عمامہ پر شبہات کا ازالہ‘ میں ان کے محل بے محل استدلال کا محاسبہ
کرکے بہترین علمی جواب دیا ہے، اس علمی و تحقیقی جواب نے مفتی صاحب قبلہ کے علمی حسن
میں مزید نکھار پیدا کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ آپ فن افتا، وہابیوں اور دیوبندیوں
کو علمی جواب دینے میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ علم حدیث میں بھی عمدہ سوجھ بوجھ اور
تحقیقی کلام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان شاء اللہ تعالی یہ کتاب بشکل جواب علماے
کرام اور طالبان علوم نبویہ، سب کے لیے یکساں مفید ثابت ہوگی۔
بہر حال کتاب میں عمامہ سے متعلق زیر بحث
احادیث حسن یا ضعیف یا برسبیل تنزل شدید ـضعیف ہیں، مگر موضوع
نہیں، اور تحقیق یہ ہے کہ شدید ضعیف بھی فضائل کے باب میں قابل قبول ہیں؛ اس لیے چیں
بجبیں ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، تفصیل کے لیے اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ
و الرضوان کی کتاب: ’الھاد الکاف‘ اور میری کتاب ’تحقیقات ازہری‘ میں بنام: ’حدیث ضعیف
محدثین و ناقدین کی نظر میں‘ موجود تحقیق کا مطالعہ کریں، اللہ تعالی ہم سب کو حق قبول
کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
اللہ عز وجل مفتی صاحب زید علمہ کی اس گراں
قدر علمی خدمات کو قبول کرکے مقبول انام فرمائے اور مزید خلوص کے ساتھ عظیم دینی و
ملی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ
امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۳؍رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۹؍مئی
۲۰۱۹ء مقیم حال جام نگر، گجرات، انڈیا
مبسملا و
حامدا و مصلیا و مسلما
تحقیق و تدقیق کے کچھ اصول و ضوابط ہیں،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ محقق زیر بحث مسئلہ کے متعلق پہلے ہی سے کوئی نظریہ قائم کرکے
تحقیق نہ کرے بلکہ خالی الذہن ہوکر بلاتعصب بحث و تمحیص کا حق ادا کرے، اس کے بعد جو
نتیجہ سامنے آئے اسے بیان کرے، اس کے کئی فائدے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
ایک محقق تعصب و تعنت سے محفوظ رہے گا، اپنے
موقف کو زبردستی صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، جو دلیل، موقف کی دلیل بننے کے
لائق نہیں اسے دلیل بتانے کی لایعنی کوشش نہیں کرے گا۔
لیکن اگر تحقیق و تدقیق سے پہلے ہی کوئی
نظریہ قائم کرلیا گیا اور اسی کو صحیح قرار دے کر بحث و تمحیص شروع کی گئی؛ تو تعصب
سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، زبردستی اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرے گا، جو
دلیل، موقف کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اسے دلیل بنانے کی بے سود کوشش کرے
گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اس تعصبی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں جو نتیجہ سامنے آئے گا
وہ نتیجہ خیز بحث کہلانے کے قابل نہیں رہے گا۔
مولانا ارشد جمال اشرفی صاحب کی کتاب ’عمامہ
اور ٹوپی کی شرعی حیثیت‘کے بعض مباحث و استدلال سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے پہلے ہی
سے یہ نظریہ قائم کرلیا تھا کہ اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے
عمامہ کی فضیلت میں جو احادیث ذکر کی ہیں، وہ موضوع یا شدید ضعیف ہیں، پھر اسی نظریہ
کے تناظر میں بحث کی اور ان احادیث پر موضوع ہونے کا حکم لگایا، ان کے اس رویہ پر ان
کے بے جا استدلال شاہد ہیں، یہاں موصوف کے دو چند اقتباسات نقل کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں،
موصوف لکھتے ہیں:
’’عین ممکن ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کو
اس حدیث کے بعض راویوں کے وضاع و کذاب ہونے کا اشارہ مل گیا ہو‘‘۔
موصوف مزید لکھتے ہیں:
’’ابن حجر عسقلانی نے محض جہالت راوی کی
بنیاد پر اس حدیث کو باطل یا موضوع قرار نہیں دیا ہے بلکہ حدیث میں بعض ایسے راویوں
کی جانب سے کچھ ایسی فحش غلطی سرزد ہوگئی کہ حافظ نے پہلے اس حدیث کو منکر قرار دیا،
پھر اپنی گہری معلومات کے بعد اس کے موضوع ہونے کا اعلان کردیا‘‘۔
موصوف مزید خامہ فرسائی فرماتے ہوئے لکھتے
ہیں:
’’امام سے یہ امید کی بھی کیسے جاسکتی ہے
کہ انہوں نے صرف جہالت کی بنیاد پر حدیث کو موضوع کہا ہے؛ کیوں کہ وہ امام فن تھے،
مصطلحات حدیث سے بخوبی واقف تھے‘‘۔
اس طرح بطور دلیل اندھیرے میں تیر وہی چلائے
گاجو تحقیق سے پہلے کسی موقف کو صحیح قرار دے چکا ہو، وہی یہ طرز استدلال اختیار کرے
گا جس کا دل و دماغ تعصب کی وجہ سے صحیح و غیر صحیح کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت
کھوچکا ہو؛ جس کی بنا پر اسے صحیح صرف وہی دکھائی دیتا ہے جسے وہ بحث کی تکمیل سے پہلے
ہی صحیح قرار دے چکا ہے۔
اگر علمی مباحث میں اس طرح کے استدلال کا
سہارا لیا جانے لگا؛ تو علمی میدان سے امان اٹھ جائے گا؛ کیوں کہ سیکڑوں احادیث ایسی
ہیں جنہیں محدثین کرام نے موضوع، شدید ضیف یا ضعیف قرار دیا، پھر لاحقین نے ٹھوس دلائل
کی بنیاد پر انہیں صحیح، حسن یا ضعیف قرار دیا بلکہ صحیح البخاری کی ایک سو دس احادیث
پر امام دارقطنی وغیرہ جیسے جلیل القدر علما و محدثین کرام نے کلام کیا اور حافظ الشان
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کا ’مقدمہ فتح الباری‘ میں علمی جواب دیا، اب بلا
دلیل و برہان کوئی کہنے والا آکر کہے: ہوسکتا ہے کہ موضوع، شدید ضعیف اور صحیح البخاری
کی احادیث ضعیف قرار دینے والے کے پاس کوئی ٹھوس دلیل رہی ہوگی؛ اس لیے انہوں نے موضوع،
شدید ضعیف یا ضعیف قرار دیا ہے؛ اس لیے وہ احادیث موضوع، شدید ضعیف یا ضعیف ہی قرار
پائیں گی، اس طرز استدلال کا حاصل یہ ہے کہ بحث و تمحیص کا دروازہ بند کردیا جائے اور
حدیث کے موضوع، شدید ضعیف، ضعیف یا صحیح، حسن ہونے کے متعلق صرف یہی کہ کر فرصت لے
لی جائے کہ یہی حکم صحیح ہے؛ کیوں کہ اس موقف پر فلاں شخص نے حکم لگایا ہے اور ان کے
پاس کوئی دلیل ضرور رہی ہوگی!!! اگر تحقیق کے نام پر اس طرح کے استدلال کو راہ دی گئی؛
تو علمی حلقہ میں اسے دیوالیہ پن سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔
موصوف مولانا ارشد جمال صاحب نے اعلی حضرت
علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ذکر کردہ جن احادیث پر کلام کرکے انہیں موضوع یا شدید ضعیف
قرار دینے کی کوشش کی ہے، محترمی حضرت مولانا مفتی ذو الفقار احمد نعیمی زید علمہ نے
اپنی کتاب: ’احادیث عمامہ پر شبہات کا ازالہ‘ میں ان کے محل بے محل استدلال کا محاسبہ
کرکے بہترین علمی جواب دیا ہے، اس علمی و تحقیقی جواب نے مفتی صاحب قبلہ کے علمی حسن
میں مزید نکھار پیدا کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ آپ فن افتا، وہابیوں اور دیوبندیوں
کو علمی جواب دینے میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ علم حدیث میں بھی عمدہ سوجھ بوجھ اور
تحقیقی کلام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان شاء اللہ تعالی یہ کتاب بشکل جواب علماے
کرام اور طالبان علوم نبویہ، سب کے لیے یکساں مفید ثابت ہوگی۔
بہر حال کتاب میں عمامہ سے متعلق زیر بحث
احادیث حسن یا ضعیف یا برسبیل تنزل شدید ـضعیف ہیں، مگر موضوع
نہیں، اور تحقیق یہ ہے کہ شدید ضعیف بھی فضائل کے باب میں قابل قبول ہیں؛ اس لیے چیں
بجبیں ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، تفصیل کے لیے اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ
و الرضوان کی کتاب: ’الھاد الکاف‘ اور میری کتاب ’تحقیقات ازہری‘ میں بنام: ’حدیث ضعیف
محدثین و ناقدین کی نظر میں‘ موجود تحقیق کا مطالعہ کریں، اللہ تعالی ہم سب کو حق قبول
کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
اللہ عز وجل مفتی صاحب زید علمہ کی اس گراں
قدر علمی خدمات کو قبول کرکے مقبول انام فرمائے اور مزید خلوص کے ساتھ عظیم دینی و
ملی خدمات کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم۔
طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ
امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۳؍رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ مطابق ۲۹؍مئی
۲۰۱۹ء مقیم حال جام نگر، گجرات، انڈیا
ای میل: amjadiazhari@gmail.com
(تقریظ)
No comments:
Post a Comment