مبسلما و حامدا ومصلیا و مسلما
دو اور دو چار کی طرح یہ واضح حقیقت ہے کہ جہاں سماج کی بے
راہ روی کے دیگر بہت سارے اسباب ہیں، وہیں پر
اس سماج کی بے راوہ روی کا بہت بڑا سبب مسلم سماج میں اصلاح خودی، اپنی تربیت اور اپنے
گریبان میں جھانک کر دیکھنے کے جذبہ کا فقدان ہے، آج عموما حساس، سمجھدار ، عقلمند
اور عالم سمجھے جانے والے طبقہ بلکہ بہت سارے انپڑھ لوگوں کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ
سماج میں سدھار آئے، اچھائیاں پیدا ہوں، برائیاں دفن ہوجائیں، اختلافات کا نام و نشان
نہ رہ جائے اور لوگ الفت و محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزاریں، مگر معاملہ
یہ ہے کہ یہ دنیا عملی اقدام کی زندگی ہے، جو کم بولتا ہے یا بولنے کے ساتھ عمل پیہم
کرتا ہے وہی ترقی کے راستے ہموار کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہونچ جاتا ہے، جب زندگی
حقیقت میں عملی زندگی ہی کام نام ہے؛ تو محض خواہشات سے صالح معاشرہ اور پاک و صاف
سماج کا پایا جانا بہت مشکل بلکہ تقریبا سراب ہے، اگر صالح سماج کی خواہش ہے جو کامیابی
کا پہلا زینہ ہے؛ تو دوسرے زینہ یعنی عملی اقدام کی طرف بھر پور توجہ دینی ہوگی، پھر
آخری زینہ خلوص کو اپنے دل و دماغ میں جگہ دے کر اس اہم امر کی تکمیل ہوسکے گی، عملی
اقدام اور خلوص کے بغیر اس اہم امر کا حصول بہت بعید ہے، اس سماج کی اصلاح کی شروعات
حقیقت میں فرمان رب تعالی کے مطابق اصلاح خودی کی عملی کوشش سے ہوتی ہے، اگر آج بھی
ہر انسان عام ہو یا خاص، عالم ہو یا غیر عالم، صرف اپنی اصلاح کرلے، معاشرہ صالح ہوکر
پاک اور صاف ستھرا ہوجاے گا، مگر آج عموما خواص و عوام کا عجیب حال ہے، ستھرا سماج
چاہیے مگر خود ہی سماج گندہ کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں، پاک و صاف معاشرہ چاہیے مگر
خود ہی معاشرہ کو پراگندہ کیے ہوئے ہیں، اختلاف نہیں چاہیے مگر بلاوجہ خود ہی اختلاف
کو بڑھاوا دے رہے ہیں؛ جب خود کی عملی اصلاح کا فقدان ہے؛ تو محض خواہش و تمنا سے صالح
معاشرہ کیوں کر پرورش پاسکتا ہے؟! عموما اس خودی کی اصلاح میں عوام ہے؛ تو عام طور
سے جہالت اور نادانی کار فرما ہوتی ہے اور اس اصلاح میں خواص ہے؛ تو انانیت، تکبر،
گھمنڈ، غرور ، تعصب بے جا، حصول دنیا، سستی شہرت، طلب جاہ، قولی شریعت کا مالا جپنا
اور عملی شریعت کا معدوم ہونا وغیرہ آڑے آتے ہیں، حالاں کہ ہر ایک مسلم خواہ عوام
ہو یا خواص، اس کا ہر معاملہ میں نصب العین عملی طور پر شریعت اسلامیہ ہی ہونی چاہیے،
خودی کی اصلاح ہو یا غیر کی، مطمح نظر قانون شریعت ہی ہونا چاہیے تاکہ حقیقی معنوں
میں قوانین اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا حق ادا ہوسکے، لیکن ایسا نہیں ہوتا
اور اگر ایسا نہیں ہوتاہے ؛ تو مسلمان یاد رکھیں کہ انہیں کبھی بھی صالح معاشرہ نہیں
مل سکتا، ان کے لیے صاف ستھرا سماج کی بازیابی نہیں ہوسکتی اور جب سماج پاک نہیں ہوگا؛
تو یوں ہی اتھل پتھل مچی رہے گی، قرار نہیں ملے گا، سکون غارت ہوجاے گا اور پریشانیاں
بڑھتی جائیں گی؛ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ پہلے خودی کی اصلاح کریں پھر دوسرے کی طرف
حکمت کے ساتھ توجہ دیں، ان شاء اللہ صالح معاشرہ ملنے کے ساتھ قلبی سکون میسر آئے
گا، جہان اولیا کے آج کی اس بزم میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس
اہم موضوع ’اصلاح خودی کا عملی فقدان‘ پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، لکھتا ہوں
درد دل کی بات، شاید کی رفتہ رفتہ لگے۔۔۔۔۔۔۔و ماتوفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
خودی کی
اصلاح دوسرے کی اصلاح پر مقدم ہے؛ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے بندہ کو جگہ جگہ اپنے لیے
دعا کرنے کی تعلیم دی، اے اللہ ہمیں ہدایت دے، ہمیں سیدھا راستہ چلا اور ہمیں آنکھوں
کی ٹھنڈک عطا فرما اور حکم دیا کہ تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ؛ کیوں کہ جب
ہر فرد خود کی اصلاح کرلے گا؛ تو پھر مزید اصلاح کی ضرورت نہیں رہ جاے گی مگر ایسا
بظاہر ممکن نہیں کہ ہر شخص بذات خود اپنی اصلاح کرلے؛ اس لیے ان کی اصلاح کے لیے علما
ے کرام ہیں، انہیں چاہیے کہ پہلے اپنی اصلاح کرلیں پھر دوسرے کی اصلاح کرنے کی کوشش
کریں تاکہ قرآن پاک پر عمل ہونے کے ساتھ ساتھ بات بااثر اور نتیجہ خیز ہو، اللہ تعالی
ارشاد فرماتا ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ
وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ} (التحریم:۶۶، آیت:۶) ترجمہ:
((اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی
اور پتھر ہیں)) (کنز الایمان)
اس
آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے پہلے خود انسان کی اپنی ذات کو مقدم کرکے اپنے آپ کو
آگ سے بچانے کی طرف توجہ دلائی، اس کے بعد گھر والوں کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے
کا ذکر کرکے بحیثیت ذمہ دار اس کو اس امر عظیم کی طرف مبذول کیا، اس سے پتہ چلتا
ہے کہ انسان کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ اپنی خودی کا علاج کرے، اس کو سنوارے اور اس کو شرعیت
اسلامیہ کا عملی طور پر پابند بنائے، پھر اس کے بعد دوسروں کی طرف حکمت و موعظت کے
ذریعہ متوجہ ہو تاکہ اس کی توجہ رائگاں ہونے کے بجائے ثمر بار اور مفید تر ہو۔
دوسری جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ عَلَیْکُمْ
أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُم مَّن ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ إِلَی اللّہِ
مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ} (المائدۃ:۵، آیت:۱۰۵) ترجمہ: ((اے ایمان والو تم اپنی فکر رکھو تمہارا کچھ نہ بگاڑے
گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم راہ پر ہوتم سب کی رجوع اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ تمہیں بتادے
گا جو تم کرتے تھے)) (کنز الایمان)
اللہ
تعالی نے یہاں پر بھی خود انسان کی ذات کو مقدم رکھ کر یہ بتادیا کہ جب دیکھو کہ
لالچی کی اطاعت اور خواہشات کی اتباع کی جارہی ہے، دنیا کی تقدیم عوام و خواص کا
مقدر بن چکا ہے اور ہر ایک کو صرف اپنی راے ہی بھاتی ہے؛ تو تم اس وقت صرف اپنے
نفس کی حفاظت کرو، اسے گمراہ ہونے سے بچاؤ، اسے ظلم کرنے سے روکو، اسے باتونی کے
بجائے عملی پیکر بنائے رہو، اسے میں میں کرنے کے بجائے عاجزی و انکساری کا خو گر
کرو، اگر تم نے ایسا کیا؛ تو دوسرے لوگوں کا گمراہ ہونا یا راستہ سے بھٹک جانا،
تمہیں کوئی ضرر نہیں دےگا؛ اس لیے ایک انسان کو سب سے پہلے اپنے نفس کو شریعت کا
پابند بنانا چاہیے، یہی طریقہ مفید اور زیادہ کار آمد ہے۔
انسان صرف اپنے نفس کا مسؤل
نیز خود ہر انسان سے اسی کے بارے میں سوال کیا جاے گا کہ
اس نے کیا اچھا کیا اور کیا برا کیا،
اسی کو ہی اپنے کیے کا فائدہ اور نقصان ملے گا، نیکی اور نیکوں کا راستہ اختیار
کیا ہے؛ تو اسی کی دنیا بنے گی اور آخرت بھی اسی کی بلند ہوگی اور اگر برائی اور
بروں کا راستہ چنا ہے؛ تو اسی کی دنیا خراب ہوگی اور اسی کی آخرت کا انجام اچھا نہ
ہوگا؛ اس لیے بھی ایک انسان کو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے،
پھر حتی المقدور دوسروں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے تاکہ یہ کوشش فائدہ مند
ہو اور اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور تی نظر آئے، اس کے متعلق آیات مبارکہ بہت ہیں
مگر یہاں پر دو چند ہی ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے:
{قُلْ أَتُحَآجُّونَنَا فِیْ اللّہِ وَہُوَ رَبُّنَا
وَرَبُّکُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَہُ
مُخْلِصُونَ} (البقرۃ:۲، آیت:۱۳۹) ترجمہ:
((تم فرماؤ کیا اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو حالاں کہ وہ ہمارا بھی مالک ہے اور
تمہارا بھی اور ہماری کرنی ہمارے ساتھ اور تمہاری کرنی تمہارے ساتھ اور ہم نرے اسی
کے ہیں)) (کنز الایمان)
اس
آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے بندوں کو یہ بتادیا کہ ہر ایک کا عمل خود اس کے ساتھ
ہوگا، اگر بندہ اپنے عمل میں مخلص ہے؛ تو اسی کو دنیا و آخرت میں عزت و شوکت ملے گی اور اگر مخلص نہیں؛ تو خود اسی
کو دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا؛ اس لیے ہر انسان کو پہلے
اپنے کردار و عمل کی طرف توجہ دے کر اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔
دوسری
جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:{وَمَن
یَعْمَلْ سُوء اً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّہَ یَجِدِ
اللّہَ غَفُوراً رَّحِیْماً} (النساء:۴، آیت:۱۱۰) ترجمہ:
((اور جو کوئی برائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے
والا مہربان پاے گا)) (کنز الایمان)
ہر وہ
شخص جو برائی کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے؛ تو اس برائی اور ظلم کا نقصان اسی کو
پہونچے گا، پھر اگر اللہ تعالی کی طرف سے اسے توفیق ملی اور اس نے توبہ و استغفار
کرلیا؛ تو اللہ تعالی اسی پر مغفرت و رحمت کی بارش فرماے گا؛ اس لیے جس کسی انسان سے
غلطی ہوجائے؛ تو پہلے اپنے نفس کی طرف توجہ دے اور توبہ کرکے اسے صلاح و فلاح کا
خوگر بنائے اور اسی کے لیے کامیابی و کامرانی کے راستے ہموار کرے۔
اور ایک
جگہ ارشاد فرماتا ہے: {قُلْ
أَطِیْعُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا
عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِیْعُوہُ تَہْتَدُوا
وَمَا عَلَی الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ} (النور:۲۴، آیت:۵۴) ترجمہ: ((تم فرماؤ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا
پھر اگر تم منھ پھیرو تو رسول کے ذمہ وہی ہے جو اس پر لازم کیا گیا اور تم پر وہ ہے
جس کا بوجھ تم پر رکھا گیااور اگر رسول کی فرماں برداری کروگے راہ پاؤگے اور رسول
کے ذمہ نہیں مگر صاف پہونچادینا)) (کنز الایمان)
سب سے
پہلے خود انسان ہی اس آیت کریمہ کا مخاطب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
جو اس پر احکام کی اتباع کرنے کی ذمہ داری
ڈالی ہے، وہ خود ان کو صحیح طریقہ سے بجالائے، اس میں کوتاہی نہ کرے، اس میں کسی
طرح کا خلل نہ آنے دے؛ کیوں کہ اگر ان
احکام کی پیروی کرنے میں کسی طرح کا خلل واقع ہوا؛ تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہوگا
اور اسے ہی اس خلل کا جواب دہ ہونا پڑے گا؛ اس لیے بھی انسان کو سب سے پہلے اپنی
ذات کو ہی سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اپنے نفس کے متعلق حساب و کتاب اسے
ہی دینا ہے۔
نیز
اللہ عز و جل ارشاد فرماتا ہے: {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ
فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ} (فصلت:۴۱، آیت:۴۶) ترجمہ:
((جو نیکی کرے وہ اپنے بھلے کو اور جو
برائی کرے تو اپنے برے کو اور تمہارا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا)) (کنز الایمان)
کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو نیکی ہی کرتے ہیں اور کچھ
ایسے ہیں جو برائی ہی کرتے ہیں، کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی اچھائی ان کی برائی پر
غالب ہوا کرتی ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی برائی اچھائی پر غالب ہوا کرتی ہے، بہر
کیف جو جتنا اچھا اور نیک کام کرتا ہے؛ تو وہ اپنے ہی کو فائدہ پہونچاتا ہے اور جو
جتنا برا کرتا ہے وہ صرف اپنے ہی کو نقصان پہونچاتا ہے، اس میں کسی طرح کی کمی یا
زیادتی کرکے اللہ تعالی کسی پر ظلم و زیادتی نہیں فرماتا، اس اعتبار سے بھی ایک
انسان کو سب سے پہلے اپنی طرف نظر اصلاح کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اپنے متعلق اسے ہی جواب
دہ ہونا ہے۔
انسان خود دوسرے کے عمل کا مسؤل نہیں
کوئی بھی انسان کسی دوسرے کی ناکردنی
کا ذمہ دار نہیں ہوگا، اس سے کسی دوسرے بندہ کے بارے میں سوال نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اگر
ایسا ہوا؛ تو یہ ایک نفس کا بوجھ دوسرے کے نفس پر ڈالنا ہوگا اور اللہ تعالی کو یہ
منظور نہیں؛ اس لیے جو بھی سوال ہوگا وہ خود انسان کے اپنے بارے میں سوال ہوگا،
دوسرے کے بارے میں نہیں، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{قُلْ
أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ
نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى
رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ}
(الأنعام:۶، آیت:۱۶۴) ترجمہ: ((تم فرماؤ
کیا اللہ کے سوا اور رب چاہوں حالاں کہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی کچھ کمائے
وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھاے گی پھر
تمہیں اپنے رب کی طرف پھر نا ہے وہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے ہو)) (کنز الایمان)
انسان
جو بھی گناہ کرے گا، وہ خود اس کا مسؤل ہوگا، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ اس سے
دوسرے کے عمل کے بارے میں پوچھا جائے کہ فلاں نے ایسا گناہ کیوں کیا، اس نے فلاں
بے حیائی کیوں کی، اس نے ظلم کیوں کیا اور فلاں فلاں غلط طریقہ کیوں اختیار کیا؛
کیوں کہ کوئی بھی نفس کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاے گی اور نہ ہی اسے اس کا مکلف
بنایا جاے گا؛ اس لیے بھی انسان کو سب سے پہلے اپنے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہیے،
اسے بیدار کرنا چاہیے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے؛ کیوں کہ کل قیامت کے دن
اس سے کسی دوسرے کے بارے میں نہیں بلکہ اسی کے بارے میں پوچھا جاے گا کہ اس نے کیا
غلط کیا اور کونسے صحیح کام انجام دئے۔
نیز
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ
عَمَّا تَعْمَلُونَ} (سبأ:۳۴، آیت:۲۵)ترجمہ: ((تم فرماؤ ہم نے تمہارے گمان میں اگر کوئی جرم
کیا تو اس کی تم سے پوچھ نہیں نہ تمہارے کوتکوں کا ہم سے سوال)) (کنز الایمان)
کسی نفس سے دوسرے نفس کے اعمال کے بارے میں کوئی پوچھ
تاچھ نہیں ہوگی بلکہ ہر شخص سے صرف اسی کے عمل کے بارے میں پوچھا جاے گا؛ اس لیے
بھی انسان کو سب سے پہلے اس معاملہ میں اپنی فکر ہونی چاہیے، اپنے نفس کا محاسبہ
کرنا چاہیے؛ کیوں کہ عقلمند وہ نہیں جو دوسروں کا محاسبہ کرے بلکہ عقلمند وہ ہے جو
ہمیشہ اپنا محاسبہ کرے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز
من أتبع نفسه هواها وتمنى على الله))
(سنن الترمذی، باب ماجاء فی صفۃ أوانی الحوض، ج۴ص۶۳۸، رقم:۲۴۵۹) ترجمہ: ((عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، موت
کے بعد کے لیے نیک عمل کرے، عقل کے استعمال کرنے سے عاجز وہ ہے جس نے اپنے نفس کو
اس کی خواہش کا تابع بنانے کے ساتھ رب تعالی سے امیدیں باندھے رکھا))
عقلمند
شخص وہ ہے جو اپنے نفس کے اقوال، احوال اور افعال کا محاسبہ کرے، اگر اچھے ہیں؛ تو
اسی پر قائم و دائم رہے بلکہ مزید ان اچھائیوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے، اور
اگر برے ہیں؛ تو فورا رب تعالی کی طرف رجوع لائے، توبہ کرے اور جو کمی ہوئی، اس کی
تلافی کرنے کی پوری کوشش کرے اور عہد کرے کہ آئندہ غلطی نہیں کرے گا؛ کیوں کہ اپنے ہر آن کا جواب خو اسے ہی دینا ہے، حدیث شریف
میں ہے:
عن أبي برزة الأسلمي رحمہ اللہ، قال: قال رسول الله صلى
الله عليه وسلم: ((لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسأل عن عمره فيما أفناه، وعن
علمه فيم فعل، وعن ماله من أين اكتسبه وفيم أنفقه، وعن جسمه فيم أبلاه)) (سنن
الترمذی، باب فی القیامۃ، ج۴ص۶۱۲، رقم:۲۴۱۷)
ترجمہ: حضرت ابو
برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((قیامت کے دن بندہ کے دونوں قدم اپنی جگہ سے ہٹیں گے
نہیں یہاں تک کہ اس سے اس کی عمر کے بارے میں پوچھ لیا جائے کہ اس نے اسے کہاں فنا
کیا، اس کے علم کے بارے میں کہ اس کے مطابق کیا عمل کیا، اس کے مال کے بارے میں کہ
اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں ختم
کیا))
خود بندہ سے ہی پوچھا جاے گا کہ اللہ تعالی نے جو اسے
حیات مستعار دی تھی، اسے کس طور سے استعمال کیا، اللہ تعالی نے اسے جو علم جیسی
عظیم نعمت سے نوازا تھا، اس کے مطابق کتنا عمل کیا، مال جو کمایا وہ حلال تھا یا
حرام، پھر اسے خرچ کرنے میں شریعت اسلامیہ کا پاس و لحاظ کیا یا نہیں، نیز اللہ
تعالی نے جو اسے جسم و صحت عطا کی، اسے کہاں فنا کیا، اپنے جسم و صحت کا ناجائز
استعمال تو نہیں کیا، بہر کیف انسان سے اس کے ہر آن اور وقت کا حساب و کتاب ہوگا؛ اس
لیے انسان کو چاہیے کہ پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرکے خلاف شرع کام کرنے سے بچے۔
نیز امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: ‘‘حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا وزنوا أنفسكم قبل أن
توزنوا، فإن أهون عليكم في الحساب غدا أن تحاسبوا أنفسكم تزنوا للعرض الأكبر يوم
تعرضون لا تخفى منكم خافية’’۔ (الزہد لأحمد بن حنبل رحمہ اللہ، ص۹۹، رقم:۲۳۶۸)
ترجمہ: ((اے لوگو! حساب ہونے سے پہلے اپنے نفوس کا محاسبہ
کرو، پیمائش سے پہلے اپنے نفوس کی پیمائش کرو؛ کیوں کہ آج تمہارے اپنے نفوس کا
محاسبہ کرنا کل کے حساب کے لیے آسانی کا باعث ہے، قیامت کےدن کی پیشی کے لیے اپنے
نفوس کی پیمائش کرو جس دن تم سب پیش ہوگے اور کوئی چھپنے والی جان چھپ نہ سکے گی))
ہر ایک کو کل بروز قیامت حساب و کتاب تو دینا ہی ہے؛
لہذا امت مسلمہ اگر یہ چاہتی ہے کہ کل بروز قیامت اس کا حساب و کتاب آسان ہو، اس
کی نیکیاں ہی نیکیاں ہوں؛ تو آج ہی اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اسے اس ڈگر پر ڈالے
جس ڈگر پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا حاصل ہو؛
کیوں کہ جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرکے صحیح راستہ پر چلتا ہے وہی متقی و
پرہیزگار ہوتا ہے:
حضرت میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘‘لا
يكون الرجل تقيا حتى يحاسب نفسه محاسبة شريكه، وحتى يعلم من أين ملبسه ومطعمه
ومشربه’’ (الزہد لوکیع رحمہ اللہ، باب محاسبۃ الرجل نفسہ، ص۵۰۱، رقم:۵۳۹، مکتبۃ
الدار، المدینۃ المنورۃ)
ترجمہ: ((انسان پرہیز گار نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ
اپنے شریک کے محاسبہ کی طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور یہ معلوم ہو کہ اس کا
کپڑا، اس کھانا اور پینا کہاں سے ہورہا ہے))
اور جو اپنے نفس کا محاسبہ کرکے متقی و پرہیزگار ہوتا
ہے، وہی مؤمن کامل ہوتا ہے، اگر اس سے گناہ سرزد ہوجائے؛ تو انہیں پہاڑ جیسا سمجھ کر اس کے
نیچے دب کر نیست و نابود ہونے سے ڈر تا ہے اور جو مؤمن کامل نہیں ہوتا اسے نہ تو
گناہوں سے ڈر لگتا ہے اور نہ ہی اس کے انجام سے خوف کھاتا ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ‘‘المؤمن يرى ذنوبه كأنه في أصل جبل يخاف أن يقع عليه،
وإن الفاجر يرى ذنوبه كذباب وقع على أنفه، فقال به هكذا فطار’’ (الزہد لھناد بن
السری رحمہ اللہ، باب التوبۃ و الاستغفار، ج۲ص۴۴۸، ط: دار الخلفاء، الکویت)
ترجمہ: ((مؤمن اپنے گناہ کو اس طرح دیکھتا ہے گویا کہ وہ
پہاڑ کے نیچے ہے، اسے ڈر ہے کہ کہیں وہ پہاڑ اس پر گر نہ پڑے اور فاجر شخص اپنے
گناہوں کو ایک مکھی کی طرح دیکھتا ہے، جو اس کے ناک پر بیٹھی، پھر اس نے کہا ایسے
ہی ہے؛ تو وہ مکھی اڑ گئی))
اور جو فاجر و فاسق ہوتا ہے، اسے صرف دوسرے کے گناہوں کی
فکر ہوتی ہے، اپنے عیوب کو بھول جاتا ہے، دوسرے کے متعلق بدگمانی کا شکار رہتا ہے
اور اپنے آپ کو یقین کی حد تک سب سے پاک صاف اور اچھا سمجھتا ہے اور تزکیہ نفس کا
خوگر ہوکر اس کی غفلت اس قدر بڑھتی ہے کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرنا بھول جاتا ہے؛
جس کے سبب اس کے ہاتھ گھاٹے اور خسارے کے سوا کچھ نہیں آتا، بعض علما فرماتے ہیں:
‘‘من علامة المقت أن يكون العبد ذاكراً لعيوب غيره
ناسياً لعيوب نفسه ماقتاً للناس على الظن محباً لنفسه على اليقين وترك محاسبة
النفس ومراقبة الرقيب من طول الغفلة عن اللَّه عزّ وجلّ والغافلون في الدنيا هم
الخاسرون في العقبي لأن العاقبة للمتقين، قال اللَّه عزّ وجلّ: {وَأُولَئِكَ هُمُ
الْغَافِلُون، لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي
الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ} (النحل:۱۶، آیت:۱۰۷ ۱۰۸)
(قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب، أبوطالب مکی رحمہ اللہ، الفصل الخامس و العشرون
ذکر تعریف النفس، ص۱۵۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ترجمہ: ‘‘بغض کی علامت سے ہے کہ بندہ اپنے عیوب کو بھول
کر دوسرے کے عیوب کو یاد رکھنے والا ہو، گمان پر اعتماد کرکے لوگوں سے بغض رکھتا
ہواور یقین کی حد تک اپنے نفس کو محبوب رکھتا ہو، اللہ تعالی کی طرف سے طویل غفلت
کے باوجود رقیب کے مرابقہ اور نفس کے محاسبہ کو بھولا ہوا ہو، اور دنیا میں غفلت
برتنے والے ہی آخرت میں گھاٹے سے دو چار ہونے والے ہیں؛ کیوں کہ بہترین انجام
پرہیز گاروں کے لیے ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہے: ((اور وہی غفلت میں پڑے ہیں، آپ ہی ہوا کہ آخرت میں وہی خراب ہیں))’’۔
دور حاضر میں اکثر عوام اور بہت سارے پیشوا کا یہی حال
ہے، پھر انجام کیا ہوگا، قارئین خود سمجھ سکتے ہیں، اپنا محاسبہ چھوڑ کر صرف دوسرے
کا محاسبہ کرنا، بہت بری بات ہے، اپنی حرکات قبیحہ چھوڑکر صرف دوسرے کی حرکات
قبیحہ پر نظر رکھنا سخت ناپسندیدہ امر ہے اور اپنے برے اخلاق و کردار کو نظر انداز
کرکے صرف دوسرے کے برے اخلاق و کردار پر نظر جماے رکھنا اللہ تعالی کے غضب کا باعث
ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{أَتَأْمُرُونَ
النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ
أَفَلَا تَعْقِلُونَ} (البقرۃ:۲، آیت:۴۴) ترجمہ: ((کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی
جانوں کو بھولتے ہو حالاں کہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں)) (کنز
الایمان)
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:{يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا
عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ}
(الصف:۶۱، آیت:۳) ترجمہ: ((اے ایمان
والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو
جو نہ کرو)) (کنز الایمان)
اب
آدمی خود ظلم کرے اور دوسرے کو ظلم سے روکے، خود اس کی طرف سے دوسرے کی جان، مال،
عزت و آبرو محفوظ نہیں اور دوسرے کی طرف سے انہیں محفوظ رکھنے کی کوشش کرے، خود اس
سے اس کے پڑوسی حیران و پریشان رہیں اور وہ دوسرے کو اس کے پڑوسی سے سیکورٹی دینے
کی کوشش کرے، خود آدمی لباس پارسائی میں ننگ و عار کا چہرا چھپانے کی کوشش کرے اور
دوسرے کو اس طرح کی حرکت سے منع کرے، خود اپنے ماں باپ اور اسلاف کے ساتھ بدزبانی
سے پیش آئے اور دوسرے کو بدزبانی سے روکنے کی کوشش کرے، خود گھر، گاؤں، ملک اور
معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لے جائے اور دوسرے کو اس طرح کی تباہی مچانے سے روکنے
کی کوشش کرے، خود قول کا غازی اور عمل سےدور رہے اور دوسرے کو عمل کا غازی بنانے
کی کوشش کرے، خود نیک ماں، باپ کی روش سے الگ جا پڑے اور دوسرے پر والدین کی روش
سے منحرف ہونے کا الزام لگائے اور خود ایک نفس کا بوجھ دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کرے
بلکہ ڈال دے اور دوسرے کو اس طرح کی خلاف قرآن عادت سے روکنے کوشش کرے! اس طرح کا
پیمانہ اور اس نوع کا محاسبہ رب تعالی کو سخت ناپسند ہے؛ کیوں کہ اس طرح کی زندگی
سے اصلاح سے کہیں زیادہ فساد پیدا ہوتا ہے، تباہی جنم لیتی ہے اور لوگوں کو ہنسنے
کا موقع ملتا ہے؛ اس لیے ایک انسان پر لازم ہے کہ اپنے نفس کی ضرور اصلاح کرے اور
ساتھ ہی دوسرے کی بھی اصلاح کرنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ اس کے بغیر اصلاحی کاوش کا
فائدہ ہوگا ہی نہیں یا خاطر خواہ نہیں ہوگا، بہر حال پہلے اپنی اصلاح مقصود و
محمود ہے۔
لیکن ان آیات، احادیث اور اقوال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ
اگر کوئی اپنی اصلاح لاپرواہی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے نہ کرسکے؛ اور وہ
دوسروں کی اصلاح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؛ تووہ دوسروں کی بھی اصلاح نہ کرے جیسا
کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، نہیں اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں؛ کیوں کہ ایک انسان پر دو
چیزیں واجب ہیں: ایک اپنے آپ کو شریعت کے دائرے میں رکھنا اور دوسرا لوگوں کو بھی
اسی کے دائرہ میں رکھنے کی کوشش کرنا، ایک واجب چھوڑنے کی وجہ سے دوسرے واجب کے
چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر اپنی اصلاح نہیں کرسکتا؛ تو یہ نہیں کہا
جاسکتا کہ دوسرے کی بھی اصلاح نہ کرے۔
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری علیہ
الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں:
‘‘امر بالمعروف کے واجب ہونے میں خود آمر کا بھی عامل ہونا
شرط نہیں بلکہ بغیر عمل بھی امر بالمعروف جائز ہے؛ اس لیے کہ اپنے آپ کو امر بالمعروف
کرنا واجب ہے اور دوسرے کو امر بالمعروف کرنا دوسرا واجب ہے، اگر ایک واجب چھوٹ جائے؛
تو دوسرے واجب کا چھوڑناہر گز جائز نہ ہوگا اور وہ جو قرآن مجید (الصف:۶۱،آیت:۲،پ:۲۹) میں {لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ} آیاہے، اگر اسے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے بارے
میں تسلیم بھی کرلیا جائے؛ تو عمل نہ کرنے پر زجرو توبیخ مراد ہے نہ کہنے پر’’۔ (أشعۃ
اللمعات ؍محدث دہلوی، کتاب الآداب، باب الامر بالمعروف، ج۴ ، ص۱۷۳)
لیکن یہ طریقہ کار مجرمانہ اور عذاب جہنم کو دعوت دینے والا
ضرور ہے، محقق علی الاطلاق حضرت شیخ
عبدالحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں:
‘‘دوسروں کو امرو نہی کرنا اور خود اس پر عمل نہ کرنا موجب
عذاب ہے، لیکن یہ عذاب عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے، امرو نہی کی وجہ سے نہیں ہے؛ اس لیے
کہ اگر امرونہی بھی نہیں کرے گا؛ تو دو وا جب ترک کرنے کے سبب اور زیادہ عذاب کا مستحق
ہوگا’’۔ (أشعۃ اللمعات ؍محدث دہلوی، کتاب الآداب، باب الامر بالمعروف، ج۴ ، ص۱۷۵)
یہیں سے ایسے لوگوں کی غلطی صاف واضح ہوجاتی ہےکہ جب ان
سے کہا جائے: آپ کا یہ کام غلط ہے، آپ ایسا نہ کریں؛ تو وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے
ہیں کہ پہلے اپنی غلطی سدھارو پھر دوسرے کی غلطی سدھارنے کی کوشش کرنا؛ کیوں کہ ہر
انسان کو یہی دیکھنا چاہیے کہ جو کہا گیا، وہ صحیح ہے یا نہیں، یہ نہیں دیکھنا
چاہیے کہ جس نے کہا ہے، وہ باعمل ہے یا نہیں؛ اس لیے کہ اگرچہ اصلاح کی کوشش کرنے
والا بے عمل خسارے میں ہے، مگر عمل کرنے میں فائدہ عمل کرنے والے کا ہی ہے، حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((يجاء
بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار، فتندلق أقتابه في النار، فيدور كما يدور
الحمار برحاه، فيجتمع أهل النار عليه فيقولون: أي فلان ما شأنك؟ أليس كنت تأمرنا
بالمعروف وتنهانا عن المنكر؟ قال: كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه، وأنهاكم عن المنكر
وآتيه)) (صحیح البخاری، کتاب
بدء الخلق، باب صفۃ النہار، ج۴ص۱۲۱، رقم:۳۲۶۷، ط: دار طوق النجاۃ)
ترجمہ: ((قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جاے گا جسے جہنم میں
ڈال دیا جاے گا؛ جس کے سبب اس کی آنتیں تیزی سے باہر نکل پڑیں گی؛ تو وہ انہیں
آنتوں میں ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی کے ارد گرد گھومتا ہے، یہ دیکھ کر جہنمی اس
کے ارد گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے: اے فلاں! یہ تمہارا کیا معاملہ ہے؟ کیا تم
ہمیں بھلائی کا حکم نہیں دیتے تھے اور ہمیں برائی سے نہیں روکتے تھے؟ وہ شخص جواب
دے گا: میں تمہیں بھلائی کا حکم دیتا تھا مگر میں خود اسے نہیں کرتا تھا اور میں
تمہیں برائی سے روکتا تھا مگر میں خود اسے کرتا تھا))
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا} (الکھف:۱۸، آیت:۱۰۷)ترجمہ: ((بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے
باغ ان کی مہمانی ہے)) (کنز الایمان)
حاصل
کلام یہ ہے کہ دور حاضر میں خود کی اصلاح نہ کرنا سماجی بے راہ روی کا بہت بڑا سبب
ہے؛ اس لیےسب پر واجب و لازم ہے،کم از کم ایک راہنما ب پیشوا پر تو ضرور لازم ہے
کہ وہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کرے، خود کو زبانی پارسا بنانے کے بجائے عملی پارسا
بنائے، اپنے افعال و اقوال میں اختلاف کی بو نہ آنے دے، درون خانہ اور بیرون خانہ
میں اتفاق پیدا کرے اور انکساری و عاجزی کے ساتھ ہر طرح سے اپنے آپ کو شریعت
اسلامیہ کا پابند بنانے کی کوشش کرتا رہے، پھر حکمت و موعظت کو بروے کار لاتے ہوئے
دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی سعی مسعود کرےتاکہ اس کی کاوش ثمر بار ہو، لوگ اسے
برائی کے بجائے اچھائی کے معاملہ میں اپنا مقتدی بنائیں، اس کی وجہ سے سماج و
معاشرہ میں بے راہ روی پیدا نہ ہو، اس کی وجہ سے فتنہ و فساد برپا نہ ہو یا اس کی
وجہ سے فتنہ و فساد میں مزید مضبوطی نہ آئے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی
وجہ سے اپنی اصلاح نہ کرسکے؛ تو دوسرے کی اصلاح کرنا بھی چھوڑدے؛ کیوں کہ یہ
عقلمندی نہیں کہ جس چیز کا کُل نہ حاصل ہوسکے بلکہ بعض ہی مل سکے؛ تو اس کا کُل
چھوڑ دیا جائے، بلکہ حتی المقدور بعض پر
عمل کرتے ہوئے دوسرے کی اصلاح کرے اور جلد ازجلد اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو
صالحین کی فہرست میں شامل کرلے، اللہ تعالی قوم مسلم، خاص کر راہنما کو دوسروں کی اصلاح
کے ساتھ، اصلاح خودی کی بھی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی
ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت
افتاو خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
ای میل: amjadiazhari@gmail.com
۲۹؍رجب المرجب ۳۹ھ
مطابق ۱۷؍اپریل ۲۰۱۸ء
No comments:
Post a Comment