فقہائے کرام اور مفتیان عظام کو آداب فتویٰ و مفتی کا پاس و لحاظ از حد ضروری
ہے۔ بغیر ان کا پاس و لحاظ کیے فتوی دینے والے سے خطا کا امکان ،بلکہ خطا کا واقع ہونا
یقینی ہے۔مفتی کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب نہ دے ۔اس ممانعت کی
اہمیت حضرت عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قول سے
واضح ہوجاتی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’جس نے ہر سوال پر فتویٰ جاری کیا، وہ مجنون ہے‘‘ ۔ مفتی
ہی کے آداب میں سے ہے کہ وہ متقی و پرہیز گار ہو وغیرہ۔ ان آداب کی تفصیل کے لیے
ابوالقاسم صیمری اور خطیب بغدادی رحمہما اللہ کی کتا بیں ،خصوصاً حافظ ا بن صلاح رحمہ
اللہ کی کتاب ’’ادب المفتی و المستفتی‘‘ کامطالعہ کیا جائے۔
دور حاضر میں ہم لوگ آداب اختلاف کو چھوڑ
کرکسی حد تک دیگرتمام آداب کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں، مگر آدب اختلاف کا لحاظ تو
دور کی بات ہے اس کے قریب بھی جانے سے کتراتے ہیں۔حالانکہ آداب اختلاف کا لحاظ بھی
اتنا ہی اہم و ضروری ہے کہ جتنا دیگر آداب کا اہتمام لازم و ضروری ہے، لیکن پھر بھی
ہم آداب اختلاف کو یکسر نظراندازکیے ہوئے ہیں، جس کے برے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ عیاں
را چہ بیاں! میں اپنی اس تحریر میں آداب اختلاف فقہا کے کچھ عبرت آموز واقعات ذکر
کروں گا، جو ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ ان
واقعات کو التفات کامل کے ساتھ ،بنظر غائر و بنگاہ عبرت مطالعہ کریںاور اپنے لیے انہیں
کے ذہن و فکر، انہیں کی وسعت ظرفی اور انہیں کی دریا دلی کو مقتدیٰ بنائیں۔
(۱)امام ابو موسیٰ یونس بن عبد الاعلیٰ صدفی مصری رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ
کے اصحاب میں سے ہیں، آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے زیادہ
عقلمند شخص نہیں دیکھا۔ایک دن میں نے ان سے ایک مسئلہ میں مناظرہ کیا، پھر جدا ہونے
کے بعد ہماری ملاقات ہوئی، امام شافعی رحمہ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے
ابوموسیٰ! کیا یہ صحیح نہیں کہ ہم بھائی بھائی ہی رہیں، اگرچہ ہمارا کسی مسئلہ میں
اتفاق نہ ہو؟‘‘
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام
شافعی رحمہ اللہ کی یہ بات ان کے کمال عقل اور فقہ نفس پر دلالت کرتی ہے، رہی بات مسائل
میں اختلاف کی تو ایسا زمانے سے ہوتا آرہا ہے‘‘۔(سیر اعلام النبلا؍ امام ذہبی)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے:
(الف) فقہائے کرام کے درمیان مسائل میں
اختلاف ہوسکتا ہے (ب) مسائل میں اختلاف معتبر ہے (ت) مسائل میں اختلاف کی وجہ سے اخوت
و بھائی چارگی ختم نہیں ہوتی ،بلکہ جیسے اختلاف سے پہلے تھی، ویسے ہی اختلاف کے بعد
بھی باقی رہتی ہے۔
(۲)
احمد بن حفص سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے امام احمد بن
حنبل رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’إسحاق جیسی ذات پل عبور کرکے خراسان
نہیں آئی، اگرچہ وہ بہت سارے مسائل میں ہمارے مخالف تھے، اس میں کوئی تعجب کی بات
نہیں، کیوں کہ بعض علما بعض کی مخالفت کرتے آرہے ہیں‘‘۔(سیر اعلام النبلا؍امام ذہبی)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل چیزیں ظاہرہوئیں:
(الف) ایک فقیہ کا دوسرے فقیہ سے ایک دو
مسئلہ میں نہیں، بلکہ کئی کئی مسائل میں اختلاف ہوسکتا ہے (ب) ان مسائل میں اختلاف
کے باوجو مخالف کی عزت و احترام اور تعریف و توصیف کو بالائے طاق نہیں رکھا جائے گا
(ت) مسائل میں اختلاف کوئی تعجب کی بات نہیں، ایسا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور
سے ہوتا آرہا ہے۔
(۳)عباس بن عبد العظیم عنبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے
پاس تھا، اس وقت امام علی بن مدینی رحمہ اللہ ایک جانور پر سوار ہوکر آئے، پھر دونوں
حضرات شہادت کے بارے میں مناظرہ کرنے لگے۔مناظرہ کے دوران دونوں کی آوازیں اس قدر
بلند ہوگئیں کہ مجھے ڈر لگنے لگا کہ کہیں اس بحث کے نتیجہ میں دونوں کے درمیان بدسلوکی
نہ پیدا ہوجائے، امام احمد رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ جو جنگ بدر اور صلح حدیبیہ
میں شریک ہوئے ،وہ بالیقیں جنت میں جائیں گے،اور اسی طرح سے وہ لوگ جن کے تعلق سے حدیث
مرفوع وارد ہے، وہ بھی جنت میں داخل ہوںگے، اور امام علی رحمہ اللہ اس کے منکر تھے۔
بہرحال مناظرہ کے بعد جب امام علی رحمہ اللہ نے لوٹنے کا ارداہ کیا تو امام احمد رحمہ
اللہ نے ان کے جانور کی زین کو تھام لیا۔(جامع بیان العلم؍امام ابن عبد البر)
اس واقعہ سے یہ عبرت آموز باتیں ثابت
ہوئیں:
(الف)
کبھی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے مخالف کے سامنے آواز بلند ہوسکتی ہے (ب) مسائل میں
اختلاف اور آواز بلند ہونے کی وجہ سے مدمقابل کے ساتھ تواضع و انکساری کا دامن نہیں
چھوٹتا،خواہ متواضع کتنا بھی بڑا متقی و پرہیز گار، مدقق و محقق اور مفتی و امام ہی
کیوں نہ ہو۔
(۴)
عبد العزیز دراوردی یا ابن ابی سلمہ رحمہما اللہ سے مروی،
آپ فرماتے ہیں:
’’میں نے امام ابوحنیفہ اور مالک بن انس
رحمہما اللہ کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں عشا کی نماز کے
بعد اس حال میں دیکھا کہ دونوں باہم پڑھنے میں مشغول تھے، یہاں تک کہ اگر ان دونوں
میں سے کوئی ایک دوسرے کے قول پر توقف کرتا؛ تو دوسرا کسی سختی و عتاب، چہرہ کوغصہ
سے متغیر اور(قائل کو) خطاکار قرار دئیے بغیر ٹھہر جاتا، پھر دونوں حضرات اسی مجلس
میں ایک ساتھ نماز فجر پڑھتے‘‘۔ (فضائل ابی حنیفہ و اصحابہ؍ امام ابو القاسم بن ابی
العوام)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل چیزیں اخذ کی جاسکتی
ہیں:
(الف) اگر باہم مسائل میں گفتگو ہورہی
ہے تو کسی کا کسی کے قول پر اعتراض کرنے یا اس کے قبول کرنے میں توقف کرنے کی وجہ سے
مد مقابل کے چہرے پر غم و غصہ کا اظہاراور پیشانی پر شکن نہیں آنی چاہیے (ب) مسائل
میںاختلاف، مخالفین کا آپس میں ایک جگہ اور ایک اسٹیج پر جمع ہونے سے مانع نہیں۔
(۵)
ابوشیخ حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حکایت بیان کی جاتی ہے کہ امام اسحاق
بن راھویہ رحمہ اللہ نے دباغت کے بعد مردار کی کھال کے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ
سے مناظرہ کیا اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وہاں حاضر تھے تو امام شافعی رحمہ اللہ
نے فرمایا: مردار کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے، اس پر امام اسحاق رحمہ اللہ نے ان
سے پوچھا: آپ کے اس قول پر کیا دلیل ہے؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: حدیث الزہری،
عن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عبد اللہ، عن ابن عباس، عن میمونۃ:أن النبی صلی اللّٰہ
علیہ وسلم، قال:((ہلا انتفعتم بإہابہا))
ترجمہ:
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی: رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا: ((کیوں نہیں تم
اس مردار کے چمڑے سے فائدہ اٹھاتے؟))
اس کے بعد امام اسحاق رحمہ اللہ ان سے
مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
حدیث ابن عکیم: حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے انتقال سے ایک ماہ پہلے ہماری جانب خط لکھ کر بھیجا:
((تم دباغت شدہ مردار کی کھال اور پٹھے
سے فائدہ نہ اٹھاؤ)) ممکن ہے کہ یہ حدیث حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے لیے
ناسخ ہو؛ کیوں کہ یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ایک مہینہ سے پہلے
کی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ
کتاب ہے اور وہ سماع؛ تو امام اسحاق رحمہ اللہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے کسریٰ و قیصر کی جانب خط لکھا، اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے درمیان حجت
تھا، اس پر امام شافعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے‘‘۔
جب امام احمد رحمہ اللہ نے یہ گفتگو سنی؛
تو آپ ابن عکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف رجوع کیے اور اسی کے مطابق فتویٰ دیااور
امام اسحاق رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کی حدیث کی طرف رجوع کرلیے‘‘۔
ابوالحسن تبریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام خلال رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں
بطور حکایت بیان کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے حدیث ابن عکیم رضی اللہ عنہ میں تزلزل
کو دیکھ کر توقف فرمایا لیا تھا، اور بعض نے فرمایا: اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا‘‘۔(کتاب
الناسخ والمنسوخ؍ امام بدل بن ابی المعمر)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل چیزیں ثابت ہوئیں:
(الف) مفتی و عالم بڑا ہو یا چھوٹا ،ضرورت
پڑنے پر طلب حق کے لیے اس سے دلیل کا طلب کرنا معیوب نہیں (ب) اگر دلیل نہ ہو تو حق
کوقبول کرلینا ائمہ کرام کی شان ہے، ہمیں انہیں کی اقتدا کرنی چاہیے۔
(۶)
’’ایک مرتبہ عمرو بن عبید معتزلی (۸۰ھ-۱۴۴ھ-۶۹۹ء-۷۶۱ء)نے کسی مسئلہ میں اپنی رائے پیش کی ،جس میں اس سے خطا واقع ہوگئی تو واصل
بن عطا معتزلی (۸۰ھ-۱۳۱ھ-۷۰۰ء-۷۴۸ء)نے اس سے اس مسئلہ میں
اس طور سے مناقشہ کیا کہ عمرو بن عبید کو مسئلہ مذکورہ کے متعلق اپنی رائے میں خاطی
ہونا واضح ہوگیاتو یہ حق کی طرف یہ کہتے ہوئے پلٹا: میرے درمیان اور حق کے درمیان کوئی
عداوت نہیں‘‘۔(المنیۃ و العمل؍ ابن المرتضی)
اس عبرت آموز واقعہ سے مندرجہ ذیل چیزیں
ثابت ہوتی ہیں:
(الف)
اگر کسی مخالف کا خاطی ہونا واضح ہوتو اس کی ہتک عزت کی بجائے اس سے اس طور سے گفتگو
کرے کہ اس پر حق واضح ہوجائے (ب) حق واضح ہوجائے تو بلا لومۃ لائم حق کو قبول کرلے
اور خواہش نفسانی کو جگہ دیتے ہوئے حق سے روگردانی کرکے حق سے عداوت نہ کر ے ۔
(۷)
عبید اللہ بن حسن عنبری بصری معتزلی (۱۰۵ھ-۱۶۸ھ)کے شاگرد عبد الرحمن بن مہدی نے کہا:
’’ایک مرتبہ ہم لوگ ایک جنازہ میں تھے
،اس وقت میں نے اس سے ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھا ،جس میں اس سے غلطی ہوگئی، میں نے
اس سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کی اصلاح فرمائے، اس مسئلہ کا حکم اس طرح ہے، وہ کچھ دیر
تک سر جھکائے رہا ،پھر سر اٹھایا اورکہا: جب تو میں اپنے قول سے رجوع کرتا ہوں۔ اس
حال میںکہ میں بے قدر و چھوٹا ہوں، مجھے حق کے ساتھ کمتر رہنا باطل کے ساتھ بلند رہنے
سے بدرجہا پسندیدہ ہے‘‘۔ (تھذیب التھذیب ؍ امام ابن حجر عسقلانی،ج ۲۲ص۴۸۳)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل چیزیں ثابت ہوئیں:
(الف) شاگرد اپنے استاذ کو اس کی خطا پرآگاہ
کرسکتا ہے۔ شاگرد عموماً چھوٹا ہی ہوتا ہے، اس سے پتہ چلا کہ بڑا اگر شریعت سے منحرف
ہو؛ تو چھوٹا بھی بڑے کو شریعت کے صحیح حکم کی جانب اس کی توجہ دلاسکتا ہے،بلکہ یہ
اس کی ذمہ داری ہے (ب) شاگرد اگر استاذ یا کوئی چھوٹا کسی بڑے کو کسی شرعی حکم کی اطلاع
دے یااس کی خطا کی جانب توجہ دلائے تو واضح ہونے پر استاذ یا بڑے کو بلا چوں و چرا
قبو ل کرنا لازم ہے، کیونکہ باطل میں پڑے رہنا عقلمندی نہیں۔
میں نے ائمہ کرام وسابقین کے ان واقعات
کو ذکر کرنے میںکتاب ’’نماذج من رسائل الأئمۃ السلف و ادبھم العلمی‘‘ازرئیس القلم
عبد الفتاح ابوغدہ سے استفادہ کیاہے۔
یہ ہے فروعی مسائل میں ہمارے فقہائے سابقین
کے آداب اختلاف کی ایک جھلک! لیکن آج فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے ہم میں سے
بہت سے لوگوں کا کیا حال ہے؟ مخالف پرطعن وتشنیع کرنا، اس کا مجمع عام میں استہزا کرنا،
اس کا مذہب اہل سنت سے ہونے کو مشکوک بتانا،اس کے اسلام و ایمان پر سوالیہ نشان قائم
کرنا،بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہونے کاقول کرنا! آج وہابی، دیوبندی ،نیچری وغیرہ
کو چھوڑ کر سارازورقلم وقوت گویائی اپنی سنی جماعت کے خلاف صرف کرنا، دیوبندیت و وہابیت
گاؤں در گاؤں بڑھتی جارہی ہے اس کے علاج کے لیے خاطر خواہ اقدام نہ کرنا،قائل کے
موجود ہوتے ہوئے قائل کی طرف رجوع کیے بغیر فتویٰ صادر کرنا! ہماری حالت عجیب و غریب
ہوچکی ہے، اگر یہی حالت رہی تو اہل سنت و جماعت کا اللہ تعالیٰ ہی محافظ ہے۔
کیا ہم فروعی مسائل میں اختلاف کے باوجود
نقطہ اسلام و اہل سنت وجماعت پر متحد نہیں ہوسکتے؟ کیا نفس کی بجائے ہم شریعت مطہرہ
کو اپنا مقتدیٰ نہیں بناسکتے؟کیا کسی کی طرف اپنا ہو یا غیر، یکساں منسوب شدہ بات کے
لیے ثبوت شرعی کو دلیل نہیں بناسکتے؟ کیا ہم اہل سنت و جماعت آپس میں اپنے و غیر کی
تفریق کا دامن نہیں چھوڑسکتے؟ کیا ہم واٹس ایپ، فیس بک، اخبار، آڈیو، ویڈیو وغیرہ
پر بھروسہ کرکے فیصلہ کرنا نہیں چھوڑسکتے؟کیا ہم کچھ ایسے افراد تیار نہیں کرسکتے جو
معاملہ کی تحقیق کریں، اس کے بعد معاملہ کے متعلق حکم جاری کریں؟ کیا ہم حقوق العباد
میں محتاط نہیں ہوسکتے؟ کیا ہم عیب جوئی و تجسس جیسے مہلک مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں
کرسکتے؟ کیا ہم مسائل فرعیہ میں اختلاف کی وجہ سے کسی کو ذلیل کرناترک نہیںکرسکتے؟کیا
ہمارا شریعت پر عمل کرنے کا دعویٰ ظاہر و باطن میں یکساں نہیں ہوسکتا؟ کیا ہم عوام
کو اختلاف و انتشار کی تاریکی دینے کی بجائے اتحاد و اتفاق کی روشنی نہیں دے سکتے؟اگر
ہم آنے والے صرف اسی ایک فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم پر عمل کرلیں تو یقینا
ہم یہ سب باآسانی یا تھوڑی سی جد وجہد کے ساتھ کرسکتے ہیں۔
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:((من
حسن إسلام المرء ترکہ مالایعنیہ))ترجمہ:((اسلام کی عمدگی سے ہے کہ انسان فضول باتوں
کو چھوڑدے)) (حدیث حسن ؍سنن الترمذی وغیرہ)
میں نے مانا میری آواز
نہیں جائے گی دور دیوار سے ٹکراکے
پلٹ آئے گی
اب
بھی موقع ہے اندھیروں کا کرو کوئی علا ج ورنہ یہ
نسل اجالوں کو ترس جائے
گی
طالب عا
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی
مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر،
شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۰۱۶ء
(تقدیم سالنامہ مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی)
۲۰۱۶ء
(تقدیم سالنامہ مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج، بستی)
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteماشا ء اللہ بہت خوب
ReplyDeleteشکرا
ReplyDeleteجزاکم اللہ خیرا
کچھ دنوں سے لگ رہا تھا کہ دھیرے دھیرے لوگ اپنے اصل مد مقابل یعنی مشرکین اور مبتدعین کی طرف متوجہ ہوں گے،کافی دنوں سے خاموشی تھی،لیکن یہ خاموشی بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔۔جِس کی زد میں صرف اھل سنت ہی ہوں گے
ReplyDelete