Wednesday, August 28, 2019

دعا و آداب دعا کے ساتھ اسباب کا استعمال ضروری

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

دور حاضر میں عموما بندہ مؤمن تین طرح کے ہیں: ایک وہ جو صرف اسباب پر اعتماد کرتے ہیں او رانہیں عموما دعا وغیرہ سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا، عموما بندہ اللہ تعالی کی ذات سے خالی ذہن ہوکر اپنے کمزور بازؤں پر امید قوی رکھتا ہے، دوست و احباب، بھائی و بہن پر اعتماد کلی رکھتا ہے اور اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اسباب کو بروے کار لانا جرم نہیں، مگر اللہ تعالی کو یکسر بھول جانا ضرور جرم ہے؛ کیوں کہ اگر وہ چاہ لے گا؛ تو اسباب و علل بھی کام کرنا بند کردیں گے؛ اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ ہر حال و ہر صورت میں اسباب کو بروے کار لانے کے ساتھ، اپنے رب کو یاد کرے اور کام کے پورا ہونے یا نہ ہونے میں اسی کی طرف متوجہ ہوکر دعا کرے اور بازؤں پر اعتماد کرنے کے ساتھ قادر مطلق سے التجا کرنا نہ بھولے؛ کیوں کہ وہی بندہ کی دعا قبول کرنے والا ہے، وہی بندہ کی بگڑی بنانے والا ہے اور وہی بندہ کی دنیا و آخرت کو تابناک کرنے والا ہے؛ اس لیے ہر بندہ مؤمن کو چاہیے کہ وہ اسباب کو بروے کار لانے کے ساتھ اپنے رب تعالی سے بھی ضرور دعا کرے۔
دوسرے وہ جو صرف دعا پر اعتماد کرتے ہیں اور اسباب و اعمال کی طرف ان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی، یہ بھی بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں فلاں عالم یا پیر صاحب نے دعا کردیا، بس کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا، فلاں بزرگ کے مزار پر حاضری ہوگئی، بس یہی سب کچھ ہے، نہ تو اسباب کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اپنی بے عملی اور بے راہ روی کو درست کرنے کی ضرورت ہے، کسی عالم باعمل یا پیر صاحب سے دعا کرانا اچھی بات ہے، کسی بزرگ کے مزار پر حاضری باعث برکت ہے، مگر کس عالم، پیر یا صاحب مزار نے یہ تربیت تو نہیں دی ہے کہ دعا و حاضری کے بعد اسباب استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، نیک اعمال، فرائض و واجبات کی طرف توجہ دینے کی چنداں حاجت نہیں! نہیں کسی باعمل عالم، پیر یا صاحب مزار نے ایسی تربیت نہیں کی، پھر ایسی بے عملی اور اسباب سے روگردانی کیوں؟! مسلمانو! اگر کامیابی چاہتے ہو؛ تو اب بھی وقت ہے، خود نماز وغیرہ کے پابند بنو اور ظاہری اسباب کو بروے کار لاؤ، پھر کسی باعمل عالم یا باعمل پیر صاحب سے دعا کراؤ اور مزارات پر حاضری دو، خود دعا کرو اور دوسرے نیک اعمال بجالاؤ، یہی طریقہ آپ کی دنیا و آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے، محض دعا کرنا اور حاضری دینا آپ کی کامل کامیابی کی ضمانت نہیں۔
 تیسرے وہ جو کسی میدان میں کامیابی کے لیے اسباب کو بروے کار لاتے ہیں، فرائض واجبات وغیرہ ادا کرکے نیک اعمال کرتے ہیں، ساتھ ہی رب تعالی پر اعتماد کرکے اس کی بارگاہ میں کامیاب و کامرانی لیے دعا کرتے ہیں، باعمل علما یا باعمل پیران عظام وغیرہ سے دعا بھی کراتے ہیںاور بزرگان دین کے مزارات پر جائز طریقہ سے حاضری دیتے ہیں، یہی دارین میں فلاح پانے والے ہیں، آج امت مسلمہ اگر دنیا و آخرت میں مکمل کامیابی چاہتی ہے ؛ تو اسے اسی گروہ کے نقش قدم پر چلنا پڑے گا اور اسی کا طریقہ کار اپنا نا ہوگا، اس طریقہ کے بغیر امت مسلمہ اپنی منزل کبھی نہیں پاسکتی؛ لہذا ہمیں اور آپ کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے اور صحیح ڈھنگ سے زندگی گزارنے کی شدید حاجت ہے۔
پہلے دو طرح کے لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں، ان کا طریقہ غلط ہے اور یہی سب سے زیادہ ہیں، تیسرا گروہ، وہی اعتدال و توسط کا حامل ہے، انہیں کا طریقہ درست و صحیح ہے، مگر اس طرح کے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں، آخری گروہ کا طریقہ اختیار کیے بغیر بھی کسی عالم باعمل یا باعمل پیر سے دعا کرانا اور مزارات پر جائز طریقہ سے حاضری دینا فائدہ مند تو ہے، مگر جو فائدہ امت مسلمہ کو درکار ہے وہ مثل سراب کے سوا کچھ نہیں، اللہ تعالی رحم و کرم فرمائے، آمین۔
نیز عموما ایسا ہوتا ہے کہ بندہ غم و پریشانی میں اپنے رب تعالی کو تو یاد کرتا ہے مگر خوشحالی میں عموما اسے بھولا رہتا ہے، مگر ایک بندئہ مؤمن کی یہ شان نہیں، بلکہ اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ اپنے رب تعالی کو صرف غم ہی میں نہیں بلکہ خوشی و غم ہر حال میں یاد کرے؛ کیوں کہ بندہ صرف پریشانی ہی میں اس کا محتاج نہیں بلکہ ہر حال میں اسی کا محتاج ہے؛ اس لیے ہر حال میں اس سے مدد طلب کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اس سے مدد طلب کرنا، ایک عاجز و ضعیف کا قادر مطلق سے مدد طلب کرنا ہے، ایک پریشان حال کا سب سے زیادہ مہربان اور کرم والے سے مدد طلب کرنا ہے، ایسی ذات سے حل طلب کرنا ہے جو دنیا و آخرت اور اس کے ہر ہر جز کا پیدا کرنے والا ہے، وہی ہر چیز کا مالک و مختار ہے؛ لہذا حقیقی معنوں میں اسی کی ذات ہے جو بندہ کی پریشانی، مصیبت اور غموں کو دور کرسکتی ہے، اسی کی ذات ہے جو بندہ کی امیدیں، آرزوئیں اور جائز مرادیں پوری کرسکتی ہے؛ اس لیے اے مسلمانو! زندگی کے کسی گوشے، خوشی و غم، ہر حال میں اسے پکارنا اور یاد کرنا نہ بھولو؛ کیوں کہ مالک حقیقی کو پکار نا اور اس سے دعا کرنے کی قرآن پاک اور احادیث میں بہت زیادہ فضیلتیں آئی ہیں، یہاں پر ان میں سے بعض ملاحظہ فرمائیں:
 اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی أَسْتَجِبْ لَکُم} (غافر:۴۰، آیت:۶۰) ترجمہ: ((اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا)) (کنز الایمان) اور دعا کی اہمیت کے پیش نظر ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:((الدعائ ھو العبادۃ)) ترجمہ: ((حقیقت میں دعا ہی عبادت سے موسوم ہونے کی حقدار ہے)) (سنن الترمذی، باب ماجاء فی فضل الدعاء، رقم: ۳۳۷۲، ط:مصطفی البابی الحلبی، مصر)
اسی وجہ سے بندہ اگر خلوص کے ساتھ دعا کرتا ہے؛ اللہ تعالی اسے، اس دعا و عبادت کا اجر دنیا و آخرت یا صرف آخرت میں ضرور عطا فرماتا ہے، حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((إن ربَّکُم تبارک و تعالی حَیِی کریم یَستحی من عبدہ إذا رَفَع یدیہ إلیہ أن یَرُدّہما صِفْرا)) ترجمہ: ((بے شک تمہارارب تبارک و تعالی اپنی شان کے مطابق بہت زیادہ حیا اور کرم فرمانے والا ہے، وہ اپنے بندہ مؤمن سے اپنی شان کے مطابق حیا فرماتا ہے کہ جب بندہ اس کی طرف دونوں ہاتھ اٹھائے؛ تو وہ دونوں ہاتھوں کو رحمت سے خالی واپس کردے)) (سنن أبی داود، باب الدعاء، رقم:۱۴۸۸، ط:المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
نیز بندہ کو جو پریشانی لاحق ہوئی، اس کو ختم کرنے کے لیے اور جو بلا آنے والی ہے، اس سے بچنے کے لیے بھی دعا نفع بخش ہے؛ بندہ دو حال سے خالی نہیں یا تو کسی بلا میں مبتلا ہوگا اور مزید مبتلا بھی ہو سکتا ہے یا کسی بلا میں مبتلا تو نہیں ہوگا مگر مبتلا ہونے کا خطرہ بہر حال ہے؛اس لیے ہر بندہ، جس کو کوئی پریشانی لاحق ہے یا جس کو پریشانی لاحق نہیں ہے، دونوںکو چاہیے کہ ہمیشہ دعا کرتے رہیں تاکہ موجودہ بلا سے نجات پائیں اور ناگہانی آنے والی بلا سے بھی محفوظ رہیں، حضور آقاے دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((إن الدعائَ یَنفعُ مما نَزَل و مما لم یَنْزل؛ فعلیکم عِبادَ اللہ بالدعائ)) ترجمہ:((بے شک دعا اتری بلا کے دور کرنے اور جو بلا آنے والی ہے، اس سے محفوظ رکھنے میں نفع بخش ہے؛ لہذا اے اللہ کے بندو! تم دعا کو لازم پکڑ لو)) (سنن الترمذی، باب فی فضل التوبۃ و الاستغفار، رقم:۳۵۴۸،ط:مصطفی البابی الحلبی، مصر)
جب ہر بندہ کے لیے دعا کرنا بہتر ہے؛ تو ہر بندہ کو آداب دعا کا بھی علم رکھنا ضروری ہے، آداب دعا کا علم نہ ہونے کی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے حق میں مفید دعا کرنے کے بجاے، ایسی دعا کربیٹھے جو اس کے حق میں مضر اور نقصان دہ ہو، آداب دعا کی چند جھلکیاں نظر قارئین ہے:
(۱) آداب دعا میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ مؤمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون سی دعا اس کے لیے مفید اور کون سی مضر ہے، اس کے متعلق حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:
عن أنس رضی اللہ عنہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاد رجلا من المسلمین قد خَفَتَ فصار مثل الفرخ؟ فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:((ھل کنت تدعو بشی ئ أو تسألہ إیاہ؟)) قال نعم، کنت أقول: اللہم ماکنت معاقبی بہ فی الآخرۃ؛ فعَجَّلَہ لی فی الدنیا؛ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((سبحان اللہ، لاتطیقہ و لاتستطیعہ، أفلا قلت: اللہم آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار)) قال: ((فدعا اللہ لہ فشفاہ)) ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلم کی عیادت فرمائی، جو پرندہ کے بچہ کی طرح کمزور ہوچکا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
((کیا تم کسی چیز کے ذریعہ دعا کررہے تھے یا اس سے کچھ مانگ رہے تھے)) اس نے عرض کیا: ہاں، میں کہ رہا تھا: مجھے آخرت میں سزاد نہ دے؛ تو اللہ تعالی نے مجھے دنیا ہی میں سزا دے دی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((سبحان اللہ! تم اس کی دنیا میں طاقت نہیں رکھتے اور نہ تم آخرت میں اس کو برداشت کرسکتے ہو، تم نے یہ دعا کیوں نہیں پڑھی: اللہم آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار)) ترجمہ: ((اے اللہ! تو مجھے دنیا و آخرت میں عافیت عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے بچا)) راوی کہتے ہیں: ((پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے رب تعالی کی بارگاہ میں دعا کی؛ تو اللہ تعالی نے اسے شفا عطا فرمادیا)) (صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء ، باب کراھیۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ فی الدنیا، رقم: ۲۶۸۸، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
آداب دعا کا علم نہ ہو نے کی وجہ سے صحابی رسول نے اپنے حق میں ایسی دعا کرلی جس کو وہ دنیا میں برداشت کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے اور نتیجے میں کمزور و ناتواں ہوتے جارہے تھے، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وقت پر پہونچ کر انہیں آداب دعا سے آگاہ کیا اور ان کے لیے دعا بھی کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے صدقہ میں وہ شفا یاب ہوگئے، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وقت پر پہونچ کر ان کی تربیت نہ کرتے اور وضاحت نہ فرماتے کہ آداب دعا میں سے ہے کہ مؤمن اللہ تعالی سے صرف آخرت ہی کی بھلائی نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرے؛ تو ان کے غلط طریقہ سے دعا کرنے کا نتیجہ ان کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوتا؛ اس لیے ہر مؤمن بندہ کو آداب دعا کا علم رکھنا چاہیے۔
(۲) آداب دعا میں سے یہ بھی ہے کہ معاملہ خواہ کتنا بڑا اور کتنا مشکل ہی کیوں نہ ہو، ہر بندہ مؤمن کو چاہیے کہ اللہ عز وجل سے کامل اعتماد و یقین کے ساتھ دعا کرے اور اس ادب کی تعلیم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((إذا دعا أحدکم فلیعزم المسئلۃ، و لایقولن: اللہم إن شئت فأعطنی؛ فإنہ لامستَکرِہ لہ)) ترجمہ: ((جب تم میں سے کوئی دعا کرے؛ تو عزم و استقلال کے ساتھ مانگے اور ہر گز یہ نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے؛ تو مجھے عطا کردے؛ کیوں کہ اللہ تعالی کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں)) (صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب لیعزم المسئلۃ  فانہ لامکرہ لہ، رقم:۶۳۳۸، ط:دار طوق النجاۃ)
نیز حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ((اد عوا اللہَ و أنتم مؤقنون بالإجابۃ، و اعلموا أن اللہ لایستجیب دعائَ من قلب غافل، لاہ)) ترجمہ: ((تم اللہ تعالی سے اس حال میں دعا کرو کہ تمہیں دعا قبول ہونے کا یقین کامل ہو اور اس بات کو ذہن میں رکھو کہ اللہ تعالی مانگنے والی چیز سے غفلت کرنے والے اور اللہ تعالی کے علاوہ سے اشتغال رکھنے والے کی دعا قبول نہیں فرماتا)) (سنن الترمذی، باب جامع الدعوات، رقم: ۳۴۷۹، ط:مصطفی البابی الحلبی، مصر)
اس حدیث کے دو مطلب ہوسکتے ہیں:  (۱) دعا قبول ہونے کے لیے یقین کامل کی صورت اسی وقت پیدا ہوگی جب بندہ مؤمن بھلائی کرے، برائی سے پرہیز کرے، دعا کے شروط جیسے دل حاضر رکھے اور اچھے اوقات و احوال کو غنیمت جانے (۲) اس یقین و اعتقاد کے ساتھ دعا کرے کہ اللہ تعالی اپنی کرم کی وسعت اور کمال قدرت کے پیش نظر محروم نہیں کرے گا تاکہ سچی امید اور خلوص کے ساتھ دعا کا تحقق ہوسکے؛ کیوں کہ دعا کرنے والے کی امید جب تک پختہ اعتماد کے ساتھ نہیں ہوگی، اس کی دعا سچی نہیں ہوگی اور سچی نہیں ہوگی؛ تو دعا قبول ہونے کا امکان بھی بہت کم ہوگا (مرقاۃ المفاتیح؍ علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری، ج۴ص۱۵۳۱، دار الفکر، بیروت)
آج ہم امت مسلمہ کا جائزہ لیں؛ تو عموما یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ گناہ میں لت پت ہونے کی حالت میں دعا کرتے ہیں، انہیں شک و شبہات چاروں طرف سے گھیرے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں دعا قبول ہوگی یا نہی اور یوں ہی لوگ عموما اپنی دعا میں غفلت سے کام لیتے ہیں، دل رب تعالی کے بجاے کسی دنیوی مسئلہ میں لگا ہوتا ہے، پھر دعا کہاں سے قبول ہو، مسلمانو! دعا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلو، ان شائ اللہ دعا مقبول و مبرور ہوگی۔
(۳) آداب دعا میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ مؤمن دعا میں استقلال و استمرار پیدا کرے اور دعا کی قبولیت میں جلد بازی کی وجہ سے اسے ترک نہ کرے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((لایزالُ یُستجابُ للعبد مالم یدْع بإثم أو قطیعۃ رحم، مالم یستعجل)) قیل: یا رسول اللہ! ما الاستعجال؟ قال: ((یقول: قد دعوتُ فلم أر یستجیب لی، فیستحسر عند ذلک، و یَدَع الدعائ)) ترجمہ: ((اگر بندہ مؤمن گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور دعا میں جلد بازی نہ کرے؛ تو اس کی دعا قبول کی جاتی رہے گی)) عرض کیا گیا: یارسول اللہ! یہ جلد بازی کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((بندہ کہتا ہے: میں نے دعا کی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی؛ جس کی وجہ سے وہ ناامید ہوکر دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے)) (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا و الاستغفار، باب أنہ یستجاب للداعی مالم یعجل، رقم: ۲۷۳۵، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ شرعا جو چیز غلط ہو اس کے لیے دعا نہیں کرنا چاہیے، یوں ہی دعا میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے ناامیدی ہوگی اور حسرت و یاس کا دروازہ کھلے گا اور نتیجہ میں بندہ دعا ہی کرنا ترک کردے گا اور جب دعا کرنا ترک کردیا؛ تو دعا قبول ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا؛ لہذا معاملہ خواہ کتنا بڑا اور عظیم ہی کیوں نہ ہو، ایک بندہ مؤمن کو دعا میں ہمیشگی و دوام برتنا چاہیے اور اُکتاکر دعا کرنا نہیں چھوڑنا چاہیے، یہی طریقہ ایک مؤمن کے لیے کار آمد اور مفید ہے۔
(۴) آداب دعا میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کے اسماے حسنی اور اعلی صفات کے ذریعہ دعا کی جائے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{وَ لِلہِ الْأَسْمَائُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِھَا}(الأعراف:۷، آیت: ۱۸۰) ترجمہ: ((اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو)) (کنز الایمان)
حدیث شریف میں ہے کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا:
’’اللہم إنی أسألک بأنک أنت اللّٰہ  الذی لا إلہ إلا أنت، الأحد، الصمد،  لم یلد ولم یولد، ولم یکن لہ کفوا أحد‘‘  فقال النبی ﷺ : ((لقد سألت اللّٰہ باسمہ الأعظم الذی إذا سئل بہ أعطی، وإذا دعی بہ أجاب))
ترجمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا : ’’اَللّٰہُمَّ إنِّیْ أسْألُکَ بِأنَّکَ أنْتَ اللّٰہُ  الَّذِیْ لَا إِلہَ إِلَّا أَنتَ، الأَحَدُ، الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ، وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوًا أحَد‘‘۔ ترجمہ:’’یا اللہ! میں تجھ سے اس وسیلہ سے مانگتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے،تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ایک ہے، کسی کا محتاج نہیں، جس کا نہ کوئی باپ ہے نہ کوئی اولاد ، اور نہ کوئی اس کے جوڑ کا ہے‘‘ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ((تم نے اللہ سے اس کے اسم اعظم کے ذریعہ مانگا ہے، جس کے ذریعہ جب اس سے مانگا جائے؛ تو عطا کرے اور جب اسے اس کے ذریعہ پکارا جائے؛تو دعا قبول ہو)) (المستدرک؍حاکم،ج۱ص۵۰۴، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
(۵) آداب دعا میں سے یہ بھی ہے کہ حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاے کرام رضی اللہ عنہم کے وسیلہ سے دعا کرے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
{یٰا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَ ابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (المائدۃ:۵، آیت:۳۵) ترجمہ: ((اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ)) (کنز الایمان)
عن عثمان بن حنیف رضی اللّٰہ عنہ أن رجلاً أعمی أتی النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، فقال: إنی أصبت فی بصري فادع اللّٰہ لي، قال:
 ((اذہب فتوضأ وصل رکعتین، ثم قل: اللّٰہُمَّ إنی أسألک وأتوجہ إلیک بنبیِّی محمد نبيِّ الرحمۃ یا محمد إني أستشفع بک علی ربي في رد بصری، اللّٰہُمَّ فشفعِّنی فی نفسی وشفِّع نبیِّی فی رد بصری، وإن کانت حاجۃ فافعل مثل ذلک))
ترجمہ: عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں: ایک نابینا شخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں نابینا ہوگیا ہوں، آپ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ مجھے بینا کردے، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((جاؤ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھو، پھرکہو: ((اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْألُکَ وَأَتَوَجَّہ إِلَیْکَ بِنَبِیِّی مُحَمَّد نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ، یا مُحَمَّد إِنِّي أَتَوَجَّہ بِکَ عَلیٰ رَبِّي فِی رَدِّ بَصَرِی، اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْنِی فِی نَفْسِی وَ شَفِّعْ نَبِیِّی فِی رَدِّ بَصرِی)) ترجمہ:((اے اللہ تعالیٰ میں تجھ سے طلب کرتاہوں، اس کے لیے میں اپنے نبی، رحمت والے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بناتا ہوں، اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی بینائی لوٹانے کے لیے اپنے رب تعالیٰ کے حضور شفیع بناتا ہوں، اے رب تعالی! تو میرے حق میں میری دعا قبول فرما، اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت میرے آنکھ کی بینائی لوٹانے میں قبول فرما)) (قاعدۃ فی التوسل؍ابن تیمیہ، ص۱۰۶، بحوالہ تاریخ ابن ابی خیثمہ)
(۶) آداب دعا میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والے کا کھانا، پانی اور کپڑا سب حلال ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((أیھا الناس! إن اللہَ طیب لایقبل إلا طیبا، و إن اللہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المرسلین، فقال: {یٰا أَیَّھُا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحا إِنِّی بَمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم}(المؤمنون:۲۳، آیت:۵۱) وقال: {یٰا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ  طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُم} (البقرۃ:۲، آیت:۱۷۲) ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر، یمد یدیہ إلی السمائ، یا رب، یارب! و مطعمہ حرام، ومشربہ حرام، و ملبسہ حرام، و غذی بالحرام، فأَنی یُستجاب لہ؟)) ترجمہ: ((اے لوگو! بے شک اللہ تعالی تمام نقائص سے پاک ہے، وہ صرف پاک چیز قبول کرتا ہے، بے شک اللہ تعالی نے جس کا رسولان عظام علیہم الصلاۃ و السلام کو حکم دیا اسی کا مؤمنین کو بھی حکم دیا، اللہ تعالی فرماتاہے:{یٰا أَیُّھَا الرُسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعمَلُوا صَالِحا إِنِّی بِمَا تَعمَلُونَ عَلِیم} ترجمہ:((اے پیغمبرو پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں)) (کنز الایمان) اور رب تعالی فرماتا ہے:{یٰا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ  طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُم} ترجمہ:((اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں)) پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کی وجہ سے گرد آلود ہونے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر کہتا ہے: یارب، یارب! اور حال یہ ہے کہ بڑا ہوا تو اس کا کھانا حرام، اس کا پانی حرام، اس کا کپڑا حرام اور بچپن میں اسے حرام کی غذا دی گئی؛ تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی؟!)) (صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب، ج۲ص۷۰۳، رقم: ۱۰۱۵،ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
آج ہم اگر قوم مسلم کا جائزہ لیں؛ عام طور سے عوام تو عوام بہت سارے خواص بھی حرام کھانے، پینے اور پہننے سے نہیں بچتے اور بچوں کو بھی اس حرام چیزوں سے نہیں بچاتے، اب ایسے لوگ اگر دعا کریں گے؛ تو دعا کیوں کر قبول ہوگی؟! اللہ تعالی کیوں کر ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا؟! لہذا اے مسلمانو! حرام کھانے، پینے اور پہننے سے بچو اور اپنی اولاد کو بھی حرام چیزوں سے بچاؤ تاکہ تمہاری کی گئی دعا تمہارے اور دوسرے مؤمن بھائیوں کے کام آئے، تم کامیابی و کامرانی کی منز ل کی طرف رواں دواوں رہو اور ایک دن منزل مقصود پر پہونچ کر کامیابی کا جھنڈا نصب کرسکو۔
(۷) آداب دعا میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ جو دعا کرے اس کے اول و آخر درود شریف بھی پڑھے؛ کیوں کہ اللہ جل شانہ درود پاک ضرور قبول فرماتا ہے اور جب رب کریم درود شریف قبول فرمائے گا؛ تو اس سے یہ امید ہے کہ درود شریف کے صدقہ میں دعا بھی قبول فرما لے گا، عابد و زاہد حضرت ابوسلیمان عبد الرحمن بن احمد عنسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب تم اللہ تعالی سے کوئی حاجت مانگو؛ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود شریف کے ذریعہ شروع کرو، پھر اپنی حاجت مانگو اور نبی اکرم صلی اللہ پر درود پڑھ کر اپنی دعا ختم کرو؛ کیوں کہ یہ دونو دعا یعنی درود شریف رد نہیں کیا جاتا اور اللہ تعالی سے یہ امید نہیں کہ دونوں طرف کی دعا قبول کرلے اور ان کے درمیان کی دعا کو چھوڑ دے‘‘ (حلیۃ الاولیاء؍ ابونعیم اصبھانی، ج۹ص۲۵۴، دار الکتاب العربی، بیروت)
ان کے علاوہ بھی دعا کے دوسرے آداب ہیں، جن کا تذکرہ تقریبا اختصار کے ساتھ ’شعب الایمان‘ میں موجود ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’دعا کے ارکان میں سے ہے کہ جو چیز مانگ رہا ہے، اس کے مانگنے میں کوئی حرج نہ ہو، مانگنے کا مقصد صحیح ہو، دعا کے وقت اللہ تعالی کے بارے میں اچھا گمان ہو؛ کیوں کہ اس صورت میں اس کے دل میں دعا قبول ہونے کا غالب گمان ہوگا، اللہ تعالی کے اسماے حسنی اور صفات علیا کے ذریعہ دعا کرے، جو چیز مانگے، محنت و لگن سے مانگے، دعا اللہ تعالی کی فرض کی ہوئی چیز کو چھوڑنے کاباعث نہ بنے، دعا کے ذریعہ مانگنا اللہ تعالی کا امتحان لینے کے لیے نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہو، سوے ادب سے اپنی زبان کو محفوظ رکھے، یعنی ایسے الفاظ نہ استعمال کرے کہ اگر وہ اسے اپنے دوست وغیرہ کے لیے استعمال کرے؛ تو اس کے دوست وغیرہ اسے برا جانیں، دعا کے قبول ہونے میں جلد بازی نہ کرے اور دعا قبول ہونے میں جتنی تاخیر ہو اتنی ہی زیادہ برابر دعا کرتا رہے، جب حاجت بڑی ہو؛ تو اسے اللہ تعالی کے نزدیک بڑا سمجھ کر نہ مانگے بلکہ چھوٹی و بڑی ہر حاجت کو ایک ہی درجہ میں رکھ کر مانگے، دعا سے پہلے توبہ کرے، خوب زیادہ دعا کرے، خوشی و پریشانی ہر حال میں دعا کرنے کا التزام کرے، عزم مصمم کے ساتھ مانگے، تین مرتبہ دعا مانگے، ان کلمات کے ذریعہ دعا کرے جوجو دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے جامع ہیں، البتہ اگر کوئی خاص حاجت ہو؛ تو اس کا ذکر کردے، پاکی کی حالت میں دعا کرے، نماز کے بعد دعا کرے، دعا قبلہ کی طرف چہرا کرکے ہو، دعا کے وقت دونوں ہاتھ کندھے تک اٹھاے ہوئے ہو، پست آواز میں دعا ہو، جب دعا قبول ہوجائے؛ تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا بجا لائے اور کوئی دن و رات دعا سے خالی نہ ہو‘‘ (شعب الایمان؍ بیہقی، ج۲ص۳۷۳، ط:مکتبۃ الرشد، ریاض)
نیز اوقات مثلا بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان ، احوال مثلا روزہ کی افطار کے وقت اور جگہوں مثلا کعبہ شریف کے پاس دعا کرنے کا خوب خیال رکھے؛ کیوں کہ ان حالات میں دعا قبول ہونے کے امکانات عام حالات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں، ان شائ اللہ ان کی تفصیل قارئین کرام زیر نظر کتاب میں ملاحظہ کریں گے۔
            کتاب کی اہمیت:
خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی یہ کتاب:’سہام الإصابۃ فی الدعوات المستجابۃ‘ موجودہ دور میں بہت ہی اہمیت کی حامل ہے؛ کیوں ایک طویل زمانہ سے اب تک فتنے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، عوام و خواص سب کے اندر خواہشات نفس کی اتباع بڑھتی جارہی ہے اور نت نئے شک و شبہات جنم لے رہے ہیں، ایسی حالت میں ہر وقت اللہ تعالی کی طرف لو لگانا، اسی سے مدد طلب کرنا اور اس کا ذکر کرنا، بہت ضروری ہوگیا ہے اور اس امر کے لیے مؤمن بندہ کو آداب دعا سے آگاہ ہونا ضروری تھا، اسی کے پیش نظر راقم الحروف نے اس کتاب کا ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر توفیق خداوندی نہ ملنے کی وجہ سے یہ کام مجھ سے نہ ہوسکا، پھر مرکز تربیت افتا، اوجھا گنج بستی، بانی فقیہ ملت علیہ الرحمہ کے تعلیمی دوران ۲۰۱۶- ۲۰۱۷م جماعت رابعہ میں پڑھنے والے ایک ممتاز طالب علم مولوی حافظ سید رضاء المصطفی امجدی زید علمہ کی ترجمہ نگاری، فہم و فراست سے بہت متاثر ہوا، میں نے ان سے اس کتاب کو ترجمہ کرنے کے لیے کہا اور کچھ باتیں انہیں ترجمہ نگاری کے متعلق سمجھایا، انہوں نے بامحاورہ ترجمہ کیا اور خوب تر کیا، امید سے کہیں زیادہ اچھا ترجمہ پیش کیا، تصحیح کے وقت کہیں کہیں عربی عبارت پڑھنے کے بعد میں سوچ میں پڑجاتا کہ اس کا بہتر ترجمہ کیا ہوگا، وہاں موصوف کا بڑی خوش اسلوبی سے ترجمہ دیکھ کر دل خوشی سے جھوم جاتا، دل سے دعائیں نکلتیں، البتہ کہیں کہیں ترجمہ کرنے میں بعض غلطیاں بھی ہوئی ہیں، مگر اس کم عمر میں اور اس خوش اسلوبی کے ساتھ ترجمہ کرنے کے بعد یہ بعض غلطیاں بالکل دھندلی سی نظر آتی ہیں، مجھے امید قوی ہے کہ اگر موصوف نے آئندہ بھی باعمل ہو نے کے ساتھ ساتھ وقت کی حفاظت کی، ذہن و دماغ کا صحیح استعمال کیا اور لکھنے پڑھنے میں لگے رہے؛ تو ان شائ اللہ مستقبل میں ان کی حیثیت علما کے جھرمٹ میں ایک روشن و تابناک ستارے کے مانند ہوگی، اللہ رب العزت موصوف کو حفظ و امان میں رکھنے کے ساتھ، موصوف کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے، مزید خلوص کے ساتھ پوری زندگی دین متین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور ان کی طرح دوسرے طلبہ کو بھی باصلاحیت بن کر خدمات دین پیش کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔
میں نے ابتدا میں سوچا تھا کہ اس کتاب میں موجود احادیث کی تحقیق و تخریج نہیں کروں گا اور عربی کتاب کے محقق کی جو تخریج ہے، اسی کے ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا، مگر دوران تصحیح کچھ احادیث کی تخریج پر نظر پڑی جن کی تخریج کے لیے اصل مرجع کی طرف رجوع نہیں کیا گیا تھا یا محقق کو نہیں ملی تھی؛ اس لیے میں نے اللہ تعالی کا نام لے کر اس کتاب کی احادیث کا ازسر نو تخریج کرنے کا ارادہ کیا اور بفضلہ تعالی تھوڑی بہت مشقت کے بعد یہ کام بھی پایہ تکمیل کو پہونچا، بہر حال ترجمہ و تصحیح کے بعد بھی اگر قارئین کرام کو کوئی غلطی نظر آئے؛ تو ضرور آگاہ کریں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کو درست کیا جاسکے۔
            ہدیہ تشکر:
نیز میں اپنے مشفق، کرم نواز، حضرت مولانا مفتی شہاب الدین نوری دام ظلہ، استاذ و مفتی: فیض الرسول، براؤں شریف، سدھارتھ نگر کا دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس کوشش کو سراہا، اور اپنی مبارک تقریظ لکھ کر اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو دوبالا کردیا، اللہ تعالی حضرت کی طرف سے کی گئی دعا ہم سب کے حق میں قبول فرمائے، آمین، نیز مکرم و محترم عالی جناب قاضی قمر الدین برکاتی، دھار، ایم پی اور حاجی محمد مقبول احمد، مظفر پور، بہار  قابل صد ستائش ہیں، جنہوں نے مالی تعاون پیش کرکے اس اہم کتاب کو منظر عام پر لانے کی اہم ذمہ داری نبھائی، رب قدیر اس پر خلوص عمل کے بدلے ان کو دارین میں سرخ روئی عطا فرمائے ، نیز اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ مزید انہیں اور دیگر اہل ثروت حضرات کو اسی طرح دینی کتابوں کی نشرواشاعت میں، جو دور حاضر کا اہم ترین تقاضا ہے، بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی موصوف مترجم کی اس پہلی خدمت کو عام و خاص کے درمیان مقبولیت عطا فرمائے، موصوف مترجم کی اس اہم کاوش، میری ادنی معاونت اور اس کتاب کی طباعت میں تعاون کرنےوالوں، سب کے والدین اور سب کے اہل خانہ کے لیے آخرت میں ذریعہ نجات بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

أفقر إلی اللّٰہ
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر  شریف،قاہرہ،مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی ایف ایم فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۹؍جمادی الاولی ۳۷ھ ۱۹؍ فروری ۲۰۱۶ء

(تقدیم) 

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts