مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
ابھی حال ہی میں حکومت ہند
نے بعض نا اہل لوگوں کی باتوں میں آکر تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کا مسئلہ اٹھایا
اور اسے نافذ کرنے کی ناپاک کوشش کی؛ جس کی وجہ سے ہندوستان کے اکثر مسلمان تڑپ اٹھے؛
کیوں کہ یہ ایسی کوشش ہے جو قرآن پاک، صحیح احادیث اور مذہب جمہور بلکہ اجماع صحابہ
رضی اللہ عنہم کے خلاف ہے،حکومت کی اس کوشش کی تائید میں غیر مقلد تو غیر مقلد اپنے
کچھ پڑھے لکھے سنی لوگ بھی حکومت یا قول مہجور و مردود کی ہاں میں ہاںملانے لگے، علمی
گفتگو کے بجائے بے ڈھنگا انداز اختیار کیا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بعض حدیث کے ظاہری
مفہوم کے سبب غلط فہمی ہوئی؛ کیوں کہ انہوں نے ان بعض احادیث کے متعلق جمہور علما و
محدثین اور فقہا کے مضبوط و مدلل اقوال کو نظر انداز کردیا، حالانکہ ایک مقلد کو اس
طرح کا رخ اختیار کرنے کی قطعا اجازت نہیں! اس کے علاوہ اس کے متعلق مزید کچھ بے سر
و پا گفتگو پڑھنے اور دیکھنے کو ملی؛ جس کی وجہ سے میں نے ایک عالم جلیل فقیہ و محدث،
صوفی شیخ سلامہ قضاعی عزامی شافعی رحمہ اللہ (ت ۱۳۷۶ھ) کی کتاب ’البراھین الساطعۃ فی رد بعض البدع الشائعۃ و براھین الکتاب و السنۃ
الناطقۃ علی وقوع الطلقات المجموعۃ منجزۃ أو معلقۃ‘ سے مخالفین کی دلائل کے جائزہ
لینے والی بحث، جس کو میں جامعہ ازہر مصر میں دوران تعلیم ہی پڑھ چکا تھا، اس کا ترجمہ
و تلخیص اور وضاحت و تخریج کرکے پیش کرنے کا ارادہ کیا؛ تاکہ منحرف فکر والے صحیح اور
سیدھے راستے پر آسکیں اور مخالفین کی دلیل قابل قبول ہے یا نہیں، وہ بھی سامنے آجائے
اور اکثر یت بلکہ مذہب اجماع پر جن چار ضعیف اور منسوخ دلائل سے نکتہ چینی کی جاتی
ہے ان کے صحیح، پختہ اور مدلل جواب سے اکثر لوگ واقف ہوجائیں، میں نے اختصار کے پیش
نظر حدیث کی عربی عبارت حذف کردی ہے، کسی قاری کو ضرورت محسوس ہو؛ تو وہ راقم الحروف
سے حاصل کرسکتے ہیں، تحریر حاضر خدمت ہے، و ماتوفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ أنیب۔
قارئین کرام آپ مخالفین
کی طرف سے اپنے موقف پر پیش کی گئی چاروں دلائل کا یکے بعد دیگرے علمی جائزہ ملاحظہ
فرمائیں:
پہلی حدیث:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما
کی حدیث کی بعض روایت میں وارد ہے کہ آپ نے حیض کی حالت میں اپنی عورت کو تین طلاق
دے دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی عورت سے رجوع کا حکم دیا یا یہ
کہ تین طلاق کو تین طلاق نہیں سمجھا یا یہ کہ ان تین طلاق کو رد کرکے ایک قرار دیا،
یہ روایت صریح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تین طلاق ایک ہے، پوری حدیث ملاحظہ
فرمائیں:
ابو الزبیر سے مروی، آپ
کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی
عورت کو حیض کی حالت میں تین طلاق دے دی تھی؛ تو راوی عمار دہنی نے کہا: کیا آپ ابن
عمر کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
((رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانہ میں اپنی عورت کو میں نے حیض کی حالت میں تین طلاق دے دی؛ تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت یعنی ایک طلاق کی طرف پھیر دیا)) اس روایت کے ذکر کرنے
کے بعد امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس روایت کے سب راوی شیعہ ہیں، اور محفوظ
وہ روایت ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی عورت کو حیض کی حالت
میں صرف ایک طلاق دی‘‘ (سنن الدارقطنی، کتاب الطلاق و الخلع و الایلاء و غیرہ، ج۵ ص۱۳، رقم: ۳۹۰۳)
علامہ سلامہ قضاعی شافعی
رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یقینا اگر یہ روایت ثابت ہوتی؛ تو تین طلاق ایک ہی ہوتی، لیکن
یہ روایت راوی کی غلطی کا نتیجہ اور باطل قول ہے؛ کیوں کہ جو روایت محفوظ ہے اس سے
یہی ثابت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی عورت کو تین نہیں بلکہ صرف ایک ہی طلاق
دی تھی؛ اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی عورت سے رجوع کا حکم دیا
تھا، اس کے متعلق ’صحیح مسلم‘ کی روایت ملاحظہ فرمائیں، بات واضح ہوجائے گی:
ابن سیریں رحمہ اللہ سے مروی، کہتے ہیں: مجھ سے بیس
سال تک کچھ لوگ بیان کرتے رہے جنہیں میں متہم نہیں سمجھتا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی عورت کو تین طلاق دیدی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے انہیں اپنی عورت سے رجوع کا حکم دیا، انہیں میں متہم نہیں سمجھتا تھا اور حدیث کی
وجہ بھی نہیں جانتا تھا یہاں تک کہ میں ابوغلاب یونس بن جبیر باہلی جو حدیث میں ثَبْت
ہیں، ان سے ملا؛ تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہماسے
پوچھا؛ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا:
((انہوں نے اپنی عورت کو
حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی عورت سے
رجوع کرنے کا حکم دیا)) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض بغیر رضاھا،
رقم: ۱۴۷۱)
علامہ سلامہ قضاعی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں: یونس بن جبیر رحمہ اللہ ثقہ، حافظ اور مامون تھے، انہوں نے ابن سیریں رحمہ
اللہ سے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ہی طلاق دی تھی، اور اسی
طرح ثقات و اثبات نے روایت کیا ہے۔
نیز محدثین نے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی جانب سے اپنی عورت کو حیض کی حالت
میں بھی دی گئی ایک طلاق کو لغو قرار دینے کے بجائے ایک طلاق شمار کیا (صحیح البخاری،
کتاب الطلاق، باب اذا طلقت الحائض تعتد بذلک الطلاق، ج۷ص۴۱، رقم: ۵۲۵۳)
مزید ’صحیح مسلم‘ کی دوسری
روایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں: ((انہوں نے
اپنی عورت کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
انہیں حکم دیا کہ اپنی عورت سے رجوع کریں، پھر اسے روکے رہیں یہاں تک کہ پاک ہوجائے،
پھر انہیں کے پاس دوبارہ حائضہ ہو، پھر اسے چھوڑے رہیں یہاں تک کہ حیض سے پاک ہوجائے،
اب اگر اسے طلاق دینا چاہیں؛ تو اس سے جماع کرنے سے پہلے جب پاک ہوجائے، طلاق دے دیں،
یہ طہر کی ہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالی نے عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا ))
اور ابن رمح رحمہ اللہ نے
اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: ((اور جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
اس کے بارے میں پوچھا جاتا؛ تو آپ فرماتے: اگر آپ نے اپنی عورت کو ایک یا دو طلاق
دی؛ تو اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا اور اگر تم نے اپنی عورت
کو تین طلاق دے دی؛ تو وہ تم پر حرام ہوگئی یہاں تک کہ وہ تمہارے علاوہ کسی دوسرے شوہر
سے شادی کرلے اور تم نے اپنی عورت کے طلاق کے معاملہ میں اپنے رب تعالی کی نافرمانی
کی)) امام مسلم رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: راوی لیث نے ایک طلاق کے ذکر کرنے
میں بڑی عمدگی دکھائی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض بغیر رضاھا،
رقم: ۱۴۷۱)اسی کے مثل (صحیح البخاری،
کتاب الطلاق، باب: {و بعولتہن احق بردہن}ج۷ص۵۸، رقم: ۵۳۳۲) میں بھی ہے۔
لہذا حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہما کے بارے میں تین طلاق کی روایت ساقط الاعتبار ہے، اس سے جاہل و معاند ہی استدلال
کرے گا، اور کیسے اس روایت سے استدلال کرنا ممکن ہے حالانکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
عن نافع: ان ابن عمر أخبرہ
أنہ طلق امرأتہ و ہی حائض تطلیقۃ۔۔۔۔۔الحدیث۔ترجمہ:
حضرت نافع رحمہ اللہ سے مروی: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ انہوں
نے اپنی عورت حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی۔۔۔۔۔۔حدیث۔
پھر فرماتے ہیں:
اسی طرح
صالح بن کیسان، موسی بن عقبہ، اسماعیل بن أمیہ، لیث بن سعد، ابن أبی ذئب، ابن جریج،
جابر اور اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے عن نافع عن ابن عمرروایت کرتے ہوئے کہا کہ
انہوں نے فرمایا:
((أنہ طلق امرأتہ تطلیقۃ
واحدۃ)) ترجمہ:((حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی عورت
کو ایک طلاق دی)) اور اسی طرح امام زہری، یونس بن جبیر، شعبی اور حسن نے عن سالم، عن
أبیہ روایت کیا ہے! (سنن الدارقطنی، کتاب الطلاق و الخلع و الایلاء وغیرہ، رقم: ۳۹۰۴)
مندرجہ
بالا صحیح البخاری، صحیح مسلم اور امام دارقطنی کی مرویات سے واضح ہوگیا کہ عبد اللہ
بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی عورت کو حیض کی حالت میں تین نہیں بلکہ ایک ہی طلاق
دی تھی؛ اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی عورت سے رجوع کا حکم
دیا تھا اور یہی روایت محفوظ اور قابل قبول ہے۔
دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما سے مروی، آپ فرماتے ہیں: ابورکانہ عبد یزید نے ام رکانہ کو طلاق دیدی اور
مزنیہ کی ایک عورت سے نکاح کرلیا، یہ عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور
اپنے ایک بال کو ہاتھ میں لے کر عرض کیا: ابورکانہ مجھے کافی نہیں مگر اسی طرح جس طرح
کی یہ بال میرے لیے کافی ہے، یعنی وہ عنین ہیں؛ تو اس عورت اور ابو رکانہ کے درمیان
تفریق کردی گئی؛ ان پرعنین کے اتہام کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
غیرت آئی، آپ ناراض ہوگئے، پھر رکانہ اور ان کے بھائیوں کو بلوایا اور اپنے پاس بیٹھے
ہوئے لوگوں سے کہا:
((کیا ان میں سے فلاں اس
اس طرح عبد یزید رضی اللہ عنہ سے مشابہ نہیں اور ان میں سے فلاں اس اس طرح مشابہ نہیں؟!))
سب نے عرض کیا: جی ہاں مشابہ ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد یزید رضی اللہ عنہ
سے کہا: ((مزنیہ کی عورت کو طلاق دے دو)) تو آپ نے اسے طلاق دے دی، پھر حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: ((اپنی عورت رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجوع کرلو)) ابو
رکانہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اسے تین طلاق دے چکا ہوں، حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کرلو)) اور یہ آیت تلاوت
فرمائی: ترجمہ: {یا أیہا النبی اذا طلقتم النساء
فطلقوہن لعدتہن} (الطلاق: ۶۵، آیت:۱) ترجمہ: ((اے نبی جب تم لوگ
عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو)) (کنز الایمان) (سنن أبی
داؤد، باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، ج۲ ص۲۵۹، رقم: ۲۱۹۶)
یہ روایت مجہول اور منکر
راوی پر مشتمل ہے؛ اس وجہ سے صحیح حدیث سے ثابت شدہ کہ تین طلاق تین طلاق ہی ہے کے
مقابل میں یہ روایت قابل اعتماد نہیں اور اگر صحت تسلیم بھی کرلی جائے؛ تو یہ ماننا
پڑے گا کہ یہ روایت منسوخ ہے، قارئین مندرجہ ذیل گفتگو ملاحظہ فرمائیں، دعوی خود ثابت
ہوجائے گا:
صحابی رسول عبد یزید یہ ابن
ہاشم بن مطلب بن عبد مناف ہیں جو امام شافعی رحمہ اللہ کے جد امجد ہیں، اس حدیث کی
سند میں ایک راوی بنو أبی رافع مجہول ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: ’’میں نہیں جانتا وہ کون ہیں‘‘ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ؍ حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ) بعض دوسرے لوگوں نے کہا: وہ محمد بن عبید اللہ بن أبی رافع ہیں، ابن حبان رحمہ
اللہ نے ان کی توثیق کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’منکر
الحدیث‘‘ ہیں۔ مزید حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اگر یہ حدیث محفوظ
ہے تو یہ قصہ جو حضرت ابورکانہ رضی اللہ عنہ کو پیش آیا ان کے لڑکے حضرت رکانہ رضی
اللہ عنہ کے واقعہ کے علاوہ ہے، جو دونوں قصوں کے سیاق سے بالکل ظاہر ہے۔
محدث، فقیہ، صوفی، علامہ
سلامہ قضاعی عزامی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں: مناسب یہ ہے کہ اس حدیث
کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ یہ قصہ تین طلاق کے بعد رجوع کے منسوخ ہونے سے پہلے
کا ہے، پھر تین طلاق کے بعد رجوع کرنا منسوخ ہوگیا، جیسا کہ ابوداؤد رحمہ اللہ نے
اپنی سند صحیح کے ساتھ خود عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، آپ فرماتے
ہیں:
((ان الرجل کان اذا طلق
امرأتہ؛ فہو أحق برجعتہا، و ان طلقہا ثلاثا فنسخ ذلک)) وقال: ((الطلاق مرتان)) ترجمہ: ((مرد جب اپنی عورت کو طلاق دیدے؛ تو و ہ اس سے رجعت کرنے کا زیادہ
حقدار ہے اور اگر اس نے اسے تین طلاق دے دی؛ تو جو رجعت کی اجازت تھی وہ منسوخ ہوگئی))
اور فرمایا: ((طلاق دو مرتبہ ہے)) (سنن أبی داؤد، باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات
الثلاث، ج۲ ص۲۵۹، رقم: ۲۱۹۵) اسی وجہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تین طلاق کے بارے میں طلاق مغلظہ کا
حکم دیتے تھے، جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مخالفین کی یہ روایت منسوخ ہے؛ تو اب یہ بات
کسی عالم پر مخفی نہیں کہ منسوخ سے حجت پکڑنا کسی کے لیے روا نہیں؛ لہذا مخالفین کا
اس روایت سے اپنے موقف پر استدلال کرنا درست نہیں۔
اس کے علاوہ کتاب ’الصحابۃ‘
میں امام بغوی رحمہ اللہ نے راوی زعفرانی کے طریق سے عن الشافعی عن عمہ گزری ہوئی سند
کے ساتھ ایک روایت تخریج کی ہے، اس میں ہے: ((أن عبد یزید طلقہا البتۃ)) یعنی عبد بن یزید
رحمہ اللہ اپنے لڑکے حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی طرح اپنی عورت کو طلاق بائن دی ہے،
اور اس صورت میں بھی مخالفین کے لیے یہ حدیث حجت نہیں ہوسکتی؛ کیوں لفظ (( البتۃ)) ایک طلاق بائن اور
تین طلاق دونوں کا احتمال رکھتا ہے، لیکن بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ راوی زعفرانی
یا ان کے پہلے جو راوی ہیں ان سے اس حدیث کی روایت میں غلطی ہوئی ہے؛ کیوں کہ ثقات
و اثبات راویوں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے ان کی اس سند کے ساتھ رکانہ رضی اللہ عنہ
کی حدیث کو روایت کیا ہے، ان کے والد ابورکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو روایت نہیں
کیا ہے، جیسا کہ اس کا بیان گزرا جسے امام ابوداؤد اور امام دارقطنی نے روایت کی ہے۔
تیسری
حدیث:
امام احمد
بن حنبل رحمہ اللہ اس حدیث کی تخریج کی ہے، ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہما سے مروی، آپ فرماتے ہیں: رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہما نے
اپنی عورت کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی؛ جس کی وجہ سے آپ کو حزن شدید لاحق ہوگیا؛
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
((تم نے
اپنی عورت کو کس طرح طلاق دی؟)) انہوں نے عرض کیا: ایک ہی مجلس میںتین طلاق دے دی،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یہ تو ایک ہی طلاق ہے؛ لہذا اگر تم چاہو؛
تو اس سے رجوع کرلو)) تو انہوں نے اپنی عورت سے رجوع کرلیا(مسند أحمد، ج۴ ص۲۱۵، رقم: ۲۳۸۷)
علامہ
سلامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’تین طلاق کے بعد رجوع کا منسوخ ہونا علماے کرام
کے نزدیک پختہ دلائل سے اس طرح ثابت ہے جس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں؛ اسی وجہ
سے علماے عظام نے اس حدیث کے متعدد جوابات دئے ہیںجو حاضر خدمت ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
اس کا
غیر مشکوک جواب یہ ہے کہ اس حدیث کی روایت کرنے میں اس کے بعض راویوں سے غلطی واقع
ہوئی ہے، ممکن ہے کہ یہ غلطی اس حدیث میں راوی ابن اسحاق سے ہوئی ہو، چنانچہ امام شافعی
رحمہ اللہ نے اس حدیث کی روایت کرنے میں عمدگی دکھائی اور اس کو صحیح طور پر روایت
کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ((البتۃ)) طلاق دی ۔۔۔۔۔حدیث
(الأم؍ امام شافعی رحمہ اللہ، الخلاف فی الطلاق ثلاثا، ج۵ ص۱۴۷)
اس حدیث
کے راوی امام شافعی اور اس حدیث کی سند کے دوسرے رجال حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے گھر
والے ہیں اور گھر والے دوسروں کی بنسبت گھر کی بات زیادہ جانتے ہیں، امام قرطبی رحمہ
اللہ ’أحکام القرآن‘ میں لکھتے ہیں:
حافظ،
امام، ابوعمر ابن عبد البر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رکانۃ عن عمہ والی حدیث جو امام
شافعی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے وہ اتم ہے، امام شافعی رحمہ اللہ نے الفاظ حدیث میں
کچھ اضافہ کیا ہے مگر وہ اصول کے خلاف نہیں؛ کیوں کہ اس زیادتی کے ناقلین ثقہ ہیں؛اس
لیے اس کا قبول کرنا واجب ہے، امام شافعی، ان کے چچا اور ان کے دادا رضی اللہ عنہم
حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے بنی عبد المطلب بن عبد مناف سے ہیں، گھر والوں
کو جو قصہ پیش آیا وہ اس کے زیادہ جانکار ہیں‘‘ ۔
اور رہی
بات امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کی تو ان کے ثقہ ہونے کے باوجود ان سے غلطی واقع
ہونا مستغرب نہیں؛ کیوں کہ خود ان سے اور ان کے علاوہ دوسرے علما سے اس طرح کی غلطی
واقع ہوئی ہے، اس طرح کی غلطی کی پہچان ان راویوں سے ہوتی ہے جنہوں نے حدیث کو عمدگی
کے ساتھ بغیر کسی غلطی کے روایت کی ہے جیسا کہ قارئین کرام نے ابھی حضرت ابن عمر رضی
اللہ عنہما کا حیض کی حالت میں اپنی عورت کو طلاق دینے والا واقعہ ملاحظہ کیا، اسی
طرح امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے معاملہ میں بھی پیش آیا؛ لہذا علما و محدثین سے اس
طرح کی غلطی واقع ہوجانا تعجب خیز بات نہیں ، اس کے علاوہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے
خود ابن اسحاق کے متعلق ’باب العلل‘ میں فرمایا:
’’بعض
اہل حدیث نے سہیل بن ابی صالح، محمد بن اسحاق، حماد بن سلمہ، محمد بن عجلان اور ان
کے مثل دوسرے ائمہ کرام کے بارے میں کلام کیا ہے، انہوں نے ان ائمہ کے بارے میںان سے
بعض احادیث کی روایت کرنے میں حافظہ کی کمی وجہ سے کلام کیا ہے‘‘۔ مگر اس کی وجہ سے
ابن اسحاق کا باب المغازی میں ثقہ ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا؛ لہذا خبر رکانہ رضی
اللہ عنہ میں صحیح وہی ہے جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے،اس لیے اب ابن اسحاق
کی روایت سے احتجاج ساقط ہوگیا۔
ایسا بھی
ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کی روایت کرنے میں غلطی داؤد بن حصین سے ہوئی ہو، خاص طور سے
اس صورت میں جب کہ یہاں پر ان کی روایت حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے ہے، چنانچہ حافظ
کبیر، امام بخاری کے شیخ، علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس حدیث
کو داؤد بن حصین نے عکرمہ سے روایت کی ہے وہ حدیث منکر ہے، بلکہ شعبی اور سعید بن
المصیب کی روایت کردہ مرسل حدیث داؤد عن عکرمۃ عن ابن عباس سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔ اور
امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’داؤد بن حصین کی عکرمہ سے روایت مناکیر اور
ان کی اپنے شیوخ سے روایت کردہ احادیث مستقیم ہیں‘‘۔
اور امام
احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا اس حدیث کو حسن قرار دینا صحیح نہیں چہ جائے کہ صحیح قرار
دینا درست ہو، کیوںکہ آپ خود عنقریب آنے والی طاؤس کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث شاذو مردود ہے‘‘ نیز آپ نے زیر بحث حدیث کے مقتضیٰ پر عمل بھی نہیں کیا؛
کیوں کہ آپ کا مذہب بھی تمام ائمہ کرام رحمہم اللہ ہی کی طرح ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق
تین ہی طلاق ہے، اس حدیث کی سند میں اس قدر کلام اور اس کے مرجوح ہونے کے باوجود امام
ابویعلی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا قابل قبول نہیں۔
ائمہ کرام
رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرا جواب بھی دیا ہے جس سے زیر بحث ضعیف روایت اور امام شافعی
رحمہ اللہ کی روایت کردہ صحیح حدیث کے درمیان تضاد و تنافی ختم ہوجائے گا، امام ابوبکر
بن العربی رحمہ اللہ (م۵۴۳ھ)
’العارضۃ‘ میں فرماتے ہیں:
’’اصح
یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی عورت کو ((البتۃ)) طلاق دی ہے، اور جس نے تین طلاق کا ذکر
کیا ہے، انہوں نے اسے معنی روایت کیا ہے‘‘ یہی جواب حافظ اجل، ذکی منذری رحمہ اللہ
(ت۶۵۶ھ)نے دیا ہے، آپ فرماتے
ہیں: ’’اصح یہی ہے کہ انہوں نے ((البتۃ)) طلاق دی ہے، اور تین طلاق کا ذکر کرنے والے باعتبار معنی تین کا ذکر کردیا
ہے‘‘۔ اس کی وضاحت امام نووی رحمہ اللہ کا یہ قول کرتا ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’شاید
اس روایت ضعیفہ کے روایت کرنے والے نے لفظ ((البتۃ)) سے یہ سمجھ لیا کہ یہ لفظ تین کا متقاضی
ہے؛ جس کی وجہ سے اس نے حدیث کو اپنی سمجھ کے اعتبار سے معنی روایت کیا اور اس میں
غلطی کی‘‘ (شرح النووی علی مسلم، باب طلاق الثلاث، ج۱۰ ص۷۱)
علامہ
سلامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں: چونکہ ((البتۃ)) کے لفظ سے تین طلاق واقع کرنا شائع و
ضائع تھا، یہی راوی کے غلط روایت کرنے کا سبب بنا، اس وجہ سے بجاے اس کے کہ حدیث صحیح
لفظ کے ساتھ روایت کریں کہ انہوں نے طلاق ((البتۃ)) دی تھی، غلطی کی اور لفظ ((البتۃ)) کی جگہ پر ’ثلاثا‘
یعنی تین کا ذکر کردیا، اور شیخ امام نووی رحمہ اللہ نے جو اس روایت ضعیفہ کے روایت
کرنے والے کو غلط قرار دیا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ تین طلاق کسی طرح سے تین کے علاوہ کا
احتمال نہیں رکھتی، اور ((البتۃ)) سے دی گئی طلاق، تین اور ایک طلاق دونوں کا احتمال رکھتی ہے؛ اسی وجہ سے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کو قسم کھلائی کہ انہوں نے لفظ
((البتۃ)) سے ایک ہی طلاق مراد
لی ہے، جب آپ نے قسم کھالی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم
دیا، اور اس حدیث کا یہی جواب امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی ’فتح الباری شرح
صحیح البخاری‘ میں دیا، جو آپ کا ان مخالفین کے استدلال کا تیسرا جواب ہے، اور فرمایا:’’اس
روایت کا آل بیت رکانہ کی روایت سے معلول و ضعیف قرار دینا قوی تعلیل ہے؛ لہذا اس
نکتہ کے پیش نظر زیر بحث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال موقوف ہوجائے
گا‘‘(فتح الباری؍ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، باب من جوز الطلاق الثلاث، ج۹ ص۳۶۳)
علامہ سلامہ شافعی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں: ان دونوں جوابوں میں سے ایک جواب ہی کے ذریعہ ((البتۃ)) طلاق کی حدیث کا
اضطراب ختم ہوجاتا ہے؛ تو دونوں جوابوں سے بدرجہ اولی اعتراض مندفع ہوجائے گا۔
قارئین
کرام آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اضطراب اسی وقت متحقق ہوتا ہے جب دونوں رواتیں ایک درجہ
کی ہوں اور دونوں کے درمیان جمع کرنا متعذر ہو، اور یہاں ایسا نہیں، جیسا کہ اب تک
کی بحث سے الحمد للہ آپ پر واضح ہوچکا کہ نہ تو دونوں رواتیں برابر ہیں اور نہ ہی
ان دونوں کے درمیان جمع کرنا متعذر، بلکہ دونوں روایتوں کے درمیان جمع کرنا ممکن ہے
جیسا کہ اس کی وضاحت حفاظ کرام ابوبکر بن عربی، زکی الدین منذری، ابوزکریا محی الدین
نووی اور شہاب الدین ابوالفضل بن حجر رحمہم اللہ نے فرمائی ہے، نیز روایت ابن اسحاق
ضعیف ہے؛ کیوں کہ یہ روایت داؤد بن حصین عن عکرمۃ عن ابن عباس پر مشتمل ہے، اس روایت
کے بارے میں امام ابوداؤد اور علی بن مدینی محدثین کے امام رحمہما اللہ نے جو فرمایا
وہ قارئین کو معلوم ہوچکا، انہیں کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’گویا
کہ اللہ تعالی نے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کو اسی مقصد کے لیے پیدا فرمایا‘‘ اور
وہ روایت جس میں ہے: ((حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی عورت کا ((البتۃ)) طلاق دی ہے۔۔۔الحدیث))
اس حدیث کی روایت ابوعبد اللہ شافعی رحمہ اللہ نے کی اور اس کی تصحیح بھی فرمائی؛ کیوں
کہ آپ نے اپنی کتاب ’الأم‘ میں دو جگہ اس حدیث کو بطور حجت ذکر کیا ہے، امام شافعی،
اس سند کے تمام رجال اور حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ جن کا قصہ ہے، سب ایک ہی گھر کے ہیں؛
اس لیے کہ یہ سب عبد یزید بن ہاشم بن المطلب بن عبد مناف کی اولاد ہیں اور اس میں کوئی
شک نہیں کہ گھر والوں کو جو قصہ پیش آیا وہ اسے زیادہ بہتر جانتے ہیں، جیسا کہ میں
امام ابن عبد الربر رحمہ اللہ سے اس کی وضاحت نقل کرچکا ہوں، نیز تصحیح کے معاملہ میں
کون ہے امام شافعی رحمہ اللہ کی طرح؟! یہی وہ امام ہیں جن کے بارے میں امام محمد بن
حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر اصحاب شافعی نے کسی دن کلام کیا ہے؛ تو امام
شافعی رحمہ اللہ کی زبان سے ہی کلام کیا ہے‘‘ اور حسن بن محمد زعفرانی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: ’’اصحاب حدیث سوئے ہوئے تھے، امام شافعی رحمہ اللہ نے انہیں بیدار کیا تو وہ بیدار
ہوگئے‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کسی شخص نے اپنے ہاتھ سے دوات اور
قلم کو مس نہیں کیا مگر یہ کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا اس پر احسان ہے‘‘ بہر کیف یہ
قول اصحاب حدیث کے امام اور ان کا قول ہے جس کے ورع اور فضل کے بارے میں کسی کا اختلاف
نہیں۔
امام ابوداؤد
رحمہ اللہ نے بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے طریق سے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے، جیسا
کہ آپ کے اس حدیث کے بارے سکوت اختیار کرنے سے اخذ کیا جائے گا؛ کیوں کہ آپ کا قاعدہ
ہے کہ جس حدیث کی تضعیف سے آپ سکوت فرمائیں تو وہ آپ کے نزدیک صحیح ہے؛ اسی وجہ سے
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے پورے جزم و یقین کے ساتھ فرمایا: ’’امام ابوداؤد رحمہ اللہ
نے فرمایا: اور یہ حدیث صحیح ہے‘‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا یہ جزم بالکل بجا ہے۔
اور جب اس حدیث کو زبیر بن سعید کے طریق سے روایت کی؛ تو اسے ابن جریج کی حدیث پر ترجیح
دی؛ لہذا ابن قیم کا یہ قول: ’’ابوداؤد نے اس حدیث کی تصحیح نہیں فرمائی ہے‘‘ ان کی
شخصیت کو عیب دار بنانے والی غفلت ہے، اس طرح کا قول کرنے پر ان کے شیخ ابن تیمیہ کی
رائے نے انہیں ابھارا ہے؛ کیوں کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا قول: ’’اور یہ أصح ہے‘‘
ان کی اس سے مراد راوی زبیر کے طریق سے مروی حدیث ہے، اور جب امام ترمذی رحمہ اللہ
نے اس حدیث کو صرف راوی زبیر کے طریق ہی سے روایت کی؛ تو آپ نے اس کی تصحیح میں توقف
فرمایا اور اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا، اگر آپ اس حدیث کو ان ثقات
سے روایت کرتے جن سے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے ذریعہ اپنی
سند سے روایت کی ہے؛ تو آپ ان شاء اللہ ضرور اس حدیث کی صحت میں توقف نہ فرماتے۔
اس حدیث
کی تصحیح ابن حبان اور امام حاکم رحمہما اللہ نے بھی فرمائی ہے؛ لہذا اب اس روایت جس
کی شان واضح ہوچکی اور اس روایت کے درمیان جس کی روایت میں داؤد عن عکرمۃ ہیں، برابری
کیسے ہوسکتی ہے؟! اس طرح سے اہل سنت و جماعت کی مستدل حدیث سے طعن ختم ہوگیا و للہ
الحمد۔
مذکورہ
بالا بیان سے واضح ہوگیا کہ مخالفین کی اپنے موقف پر پیش کی گئی یہ تیسری دلیل بھی
ضعیف اور قابل حجت نہیں؛ لہذا مخالفین کا اپنے موقف پر اس سے استدلال کرنا اور مذہب
جمہور پر طعن و تشنیع کرنا درست نہیں۔
ان منفردین
کی مستدل ایک حدیث اور ہے، جس کے ذریعہ اپنی رائے کی صفائی دیتے اور اسی پر اعتماد
کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث بھی حقیقت میں ان کے موافق نہیں بلکہ ان کے مخالف ہے، قارئین
کرام آنے والی سطور میں اس کے متعلق بھی علمی گفتگو ملاحظہ فرمائیں:
چوتھی
حدیث:
مخالفین نے اُس حدیث سے بھی
استدلال کیا ہے جس کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں دو طریق سے عبد اللہ بن طاؤس عن أبیہ عن ابن عباس اور تیسرے طریق سے إبراہیم بن میسرۃ عن طاؤس
عن ابن عباس روایت کی ہے، پہلے طریق میں امام مسلم کی حدیث کے الفاظ
یہ ہیں:
عن ابن عباس رضی اللہ
عنہما، قال: ((کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و أبی بکر وسنتین
من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا فی أمر
قد کانت لہم فیہ أناۃ، فلو أمضیناہ علیہم؟ فأمضاہ علیہم))
حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہما سے مروی، آپ فرماتے ہیں: ((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت
ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال میں تین
طلاق ایک ہی طلاق تھی)) پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک لوگوں
نے طلاق کے معاملہ جس میں انہیں مہلت دی گئی تھی، جلدی کی؛ تو اگر ہم ان کی جلد بازی
کو ان پر نافذکر دیتے؟ پھر ان پر نافذ کردیا(صحیح مسلم، کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث،
رقم: ۱۴۷۲)
اور دوسرے
طریق میں ہے کہ حضرت طاؤس رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا:((أ تعلم أنما کانت الثلاث تجعل واحدۃ علی عہد النبی صلی
اللہ علیہ وسلم و أبی بکر وثلاثا من إمارۃ عمر، فقال ابن عباس: نعم))
کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت
کے ابتدائی تین سال میں تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا جاتا تھا؟ حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہما نے فرمایا: ((ہاں)) (صحیح مسلم، کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث، رقم: ۱۴۷۲)
اور تیسرے
طریق میں طاؤس سے مروی ہے کہ ابوصہبا نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:((ہات من ہناتک، ألم یکن الطلاق الثلاث علی عہد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم و أبی بکر واحدۃ؟ فقال قد کان ذلک، فلما کان فی عہد عمر تتابع
الناس فی الطلاق؛ فأجازہ علیہم))
اپنی مستغرب بات حاضر کریئے،
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاق ایک طلاق نہ
تھی؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایسا ہی تھا، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے زمانہ میں اس معاملہ کی کثرت ہوئی؛ تو آپ نے ان پر تین طلاق کو نافذ کردیا(صحیح
مسلم، کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث، رقم: ۱۴۷۲)
اور سنن
أبی داؤد میں طاؤس سے مروی ہے: ’’أن رجلا یقال لہ أبوصہباء
کان کثیرالسوال لابن عباس، قال: أما علمت أن الرجل کان إذا طلق امرأتہ ثلاثا قبل
أن یدخل بہا جعلوہا واحدۃ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وصدرا من
إمارۃ عمر؟ قال ابن عباس:
((بلی
کان الرجل إذا طلق امرأتہ ثلاثا قبل أن یدخل بہا جعلوہا واحدۃ علی عہد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر و صدرا من إمارۃ عمر فلما رأی الناس تتابعوا فیہا، قال:
أجیزوہن علیہم))
حضرت ابوصہبا رحمہ اللہ حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے، آپ نے ان سے عرض کیا: کیا آپ
نہیں جانتے کہ مرد اگر اپنی عورت کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دیتا؛ تو لوگ اسے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی
خلافت کے ابتدائی زمانہ میں ایک ہی طلاق قرار دیتے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
((کیوں
نہیں، جب مرد اپنی عورت کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دیتا؛ تو لوگ اسے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے
ابتدائی زمانہ میں ایک ہی طلاق قرار دیتے، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے
اندر تین طلاق کی کثرت دیکھی؛ تو آپ نے حاضرین سے فرمایا: تینوں طلاقوں کولوگوں پر
نافذ کردیں)) (سنن أبی داؤد، کتاب الطلاق، باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاثۃ،
رقم: ۲۱۹۹)
مخالفین
نے اس حدیث کا یہ معنی سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں ہوتے ہوئے، آپ
کے حکم سے آپ کے زمانہ میں تین طلاق کو ایک ہی طلاق قرار دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا اور یہ حکم منسوخ بھی نہیں ہوا، اسی طرح حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ابتدائی حکومت میں تھا، اور
یہی حکم صحابہ کے درمیان مشہور بھی تھا، ان میں سے کچھ لوگ اسی کے مطابق فتوی دیتے
، کچھ لوگ اسی فتوی کا اعتبار کرتے اور کچھ لوگوں نے سکوت اختیار کیا، یہاں تک کہ اسی
پر اجماع قائم ہوگیا، ایسا ہی ابن قیم اور ان کے شیخ نے بیان کیا ہے، پھر دو یا تین
سال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مشہورہ اور
اجماع کی مخالفت کی اور اللہ تعالی کے دین کو اپنی رائے کے ذریعہ بے کار کیا اور خرق
اجماع کرکے جرم کیا، اس معاملہ میں ان کے ساتھ جو صحابہ تھے، انہوں نے ان کی موافقت
کی، ان میں سے حضرت عثمان، علی، ابن عباس، ابن مسعود، زبیر، ابن عوف رضی اللہ عنہم
وغیرہ بہت سارے صحابہ تھے، انہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں کی اور اس کا
اقرار کیا بلکہ ان لوگوں نے اس مخالف سنت و اجماع کے قول کے مطابق فتوی بھی دیا، کبرت کلمۃ تخرج من أفواہہم إن یقولون إلا کذبا۔
یہاں تک
کہ شوکانی اور اس کے ماننے والوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہنے کی
جرأت کرلی: ’’اس مسکین کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں کیا مقام ہوسکتا
ہے‘‘ نیز اس نے اور اس کے علاوہ دوسرے لوگوں نے کہا: ’’بے شک ہمیں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی متابعت کا حکم دیا گیاہے، ہم عمر کی اقتدا کے مامور نہیں‘‘ یہ ایسے کلمات
ہیں جو حق تو ہیں مگر ان کا باطل ہی معنی مراد لیا گیا ہے!
آپ ذرا
سوچئے کہ جب سب کچھ حضرت عمر اور اصحاب رسول کے ہاتھو ں برباد کردیا جائے گا اور یہ
سب اس بربادی پر متفق ہوجائیں گے؛ تو پھر کون دین و سنت کا نگہبان اور اجماع کا محافظ
ہوگا ؟! حالانکہ حضرت عمر وہ ہیں جن کا اسلام لانا دین کے لیے عزت کا باعث تھا، اور
آپ کی خلافت راشدہ، اسلام کے لیے فتح و نصرت بن کر آئی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی اس دعا کا کیا ہوگا: ((اللہم أید الدین بعمر))
((اے اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دین متین کی تائید
فرما)) (المستدرک؍حاکم، و من مناقب أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،رقم:
۴۴۸۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے اس جملے کو تین مرتبہ فرمایا، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے بارے میں یہ فرمان کس خانے میں جائے گا: ((ما سلکت فجا إلا سلک الشیطان فجا غیرفجک)) ((اے
عمر! تم جو راستہ چلوگے شیطان تمہارے راستہ کے علاوہ چلے گا)) (صحیح البخاری، کتاب
بدء الخلق،باب صفۃ إبلیس و جنودہ، رقم:۳۲۹۴) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے بارے میں کیا کہا جائے گا: ((اقتدوا باللذین من بعدی: أبی بکر، و عمر)) ((میرے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کرو)) (سنن الترمذی،
باب مناقب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، رقم:۳۸۰۵)
اور حضور علیہ افضل الصلاۃ و السلام کے اس قول کے بارے میں
کیا رائے قائم کی جائے گی: ((إن کان فی أمتی محدَّثون
فإن منہم عمر)) ((میری امت میں اگر ایسے لوگ ہوں جن کو اللہ تعالی حق بات
القا کرے؛ تو ان میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں)) (الشریعۃ؍آجری، باب ذکر قول النبی
صلی اللہ علیہ وسلم:قد یکون فی الأمم۔۔۔، رقم:۱۳۶۵)
یہاں شرط پر تعلیق جواب کی تاکید کے لیے ہے، قائل کے اس قول
کی طرح : ’’إن کان شیء فإن الأمر کذا‘‘
کیوں کہ یہ محقَق پر تعلیق ہے، جو معلق کے حصول کے لیے مزید مؤکد ہوتا ہے، اورحضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کس درجہ میں رکھا جائے گا: ((إن اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ))
((بے شک اللہ تعالی نے حق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور قلب کے مطابق بنایا))
(سنن الترمذی، باب فی مناقب أبی حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، باب، رقم: ۳۶۸۲ )
اس کے
علاوہ بہت ساری احادیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مناقب میں صحیح و حسن احادیث وارد
ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا! اور اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اس نے اپنے رسول کی دعا
قبول فرمائی اور ان کی امید کو پورا کیا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں
جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور جیسی ان سے امید فرمائی ویسے ہی پائے
گئے،جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ صحیح سے پڑھی ہے، اس نے ان کو بہت محنت و
لگن سے سنت نبوی کی جستجو کرنے والا، اس کی اتباع کرنے میں سب سے زیادہ حریص، سنت نبویہ
کے بارے میں علم کے بعد رائے زنی سے سب سے زیادہ دور رہنے والا اور اس سے لوگوں دور
کرنے والا پایا، چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے:
’’إن أصحاب الرأی أعداء
السنن أعیتہم السنن أن یعوہا؛ فقالوا: برأیہم فإیاکم وإیاہم‘‘ ترجمہ: ’’بے شک اصحاب رائے یعنی اہل بدعت سنن کے دشمن ہیں، وہ سنن یاد کرنے
سے عاجز ہوگئے؛ تو انہوں نے اپنی رائے کو استعمال کیا؛ تو تم ان سے بچ کررہو‘‘ (جامع
بیان العلم و فضلہ؍ ابن عبد البر، باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ، رقم:۲۰۰۳)
اور بہت
ایسا ہوتا تھا کہ آپ اپنے اجتہاد کے ذریعہ کوئی رائے قائم کرتے تھے، پھر اس مسئلہ
کے متعلق کوئی سنت نبوی مل جاتی؛ تو آپ اپنے قول سے سنت نبویہ کی طرف رجوع فرمالیتے،
اور اگر کوئی حادثہ درپیش آجائے جس کے متعلق سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ نہ
ہوتی؛ تو آپ اس کی تلاش میں کافی محنت کرتے اور اس کے لیے لوگوں کو جمع کرلیتے اور
فرماتے:
’’أذکر اللہ امرأ حفظ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
فی ہذا شیئا إلا قالہ‘‘ ترجمہ: ’’میں اس شخص کو
اللہ تعالی کی یاد دلاتا ہوں، جس نے اس مسئلہ کے بارے میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے کچھ محفوظ کیا، و ہ اس کے بارے میں بتادے‘‘ (المعجم الکبیر، ج۴ص۸،
رقم: ۳۴۸۲)
اس پر احادیث محفوظ رکھنے
والے، اس کے متعلق حدیث بیان کرتے اور آپ اس کے مطابق فتوی دینے سے عدول نہیںکرتے،
کتب السنن، الجوامع اور المسانید کو پڑھنے والا اس کی بہت ساری مثالیں پائے گا جس کو
بیان کرنا یہاں اطالت سے خالی نہیں۔
بہر حال
اگر معاملہ اس طرح ہوتا جیسا کہ مخالفین نے سمجھا- اور بہت بعید ہے کہ ایسا ہو- تو
واضح طور پر لازم آئے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے پہلے صحیح و
درست بات پر اجماع کیا، پھر دوبارہ اس اجماع سے عدول کرکے دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے دور میں خطا پر اجماع کیا! یہ وہی شخص کہے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اور ان کے اصحاب پر اللہ تعالی کی عنایت سے بے خبر ہو، خدا کی قسم یہ رائے بالکل رافضیوں
اور زندیقوں کی ہے، خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ لوگ جن کے اندر تھوڑا سا بھی دین
کی سمجھ ہے کیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے بارے میں یہ تصور کرتے ہیں کہ انہوں نے سنت ثابتہ کے ترک پر اجماع کرلیا، اس کے
خلاف فتوی دینے لگے، جمہور سلف و خلف ان کی اتباع کرتے رہے اور اس سنت کو زندہ کرنے
والے اور اس کی حفاظت کرنے والے صرف چند مبتدع لوگ ہی ہیں جنہیں باآسانی انگلیوں پر
گنا جاسکتا ہے، جوزیر بحث حدیث کے مطابق فتوی دے کر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں! سبحانک
ہذا بہتان عظیم۔
اور جب
ان مبتدعین کے بعض حاذق لوگ اس تنگی میں پڑنے اور اس میں پھنسنے پر متنبہ ہوئے؛ تو
امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے لیے عذر گڑھنے لگے اور کہنے لگے: حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کا یہ فیصلہ بطور اجتہاد تھا، جو ان کے لیے جائز تھا اور تعزیر کے طور پر تھا،
جو امام کا حق ہے، یہ کلام صرف کہنے والے کی سفاہت یا یہ قائل جس سے بیان کر رہا ہے،
اس سے استہزا کرنے پر دلالت کرتا ہے، آپ ہی سوچئے، کیا اجتہاد و سیاست کے طور پر نص
و اجماع کی مخالفت جائز ہے؟!بہر کیف ہم ان کی سفاہت و سخافت کو یہیں چھوڑتے ہیں، اللہ
تعالی مسلمانوں کے لیے کافی ہے اور بے جا جھگڑا کرنے والوں کا حساب لینے والا ہے۔
اب ہم اس زیر بحث حدیث کو صحیح طور پر سمجھنے کے
لیے ان علما کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہوں نے کتاب و سنت کی روشنی میں اس حدیث کی صحیح
توضیح فرمائی، ان علما کا اس حدیث کے متعلق متعدد جوابات ہیں جو مطولات میں تفصیل سے
مذکور ہیں، ان میں سے امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’فتح الباری‘ میں آٹھ
جوابات ذکر کئے ہیں، اور ان کو علامہ خضر جکنی شنقیطی اور ان کے علاوہ بہت سارے لوگوں
نے اس بدعت کا رد کرتے ہوئے، ان جوابات کا ذکر کیا ہے، میں ان سب کا ذکرکرکے طول نہیں
دینا چاہتا، میرا مقصد یہاں پر صرف ان میں سے اس جواب کا ذکر کرنا ہے جو قاری کے لیے
قبول حق میں زیادہ دخیل ہو، ظہور کے قریب تر ہو اور غموض سے دورہو، یہ وہی جواب ہے
جس کی طرف مولاناامام ابوعبد اللہ شافعی رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا ہے، اس کی توضیح
ملاحظہ فرمائیں:
امام طاؤس
اور ابو صہبا کا زمانہ، علم جمع کرنے، اس کے متعلق سوال کرنے اور اس کے طلب کرنے کا
زمانہ تھا، خاص طور سے اس حال میں کہ یہ دونوں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اصحاب میں
سے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جسم و جان سے لگ کر علم دین
کے حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے، آپ نے تھوڑے دنوں میں کتاب و سنت کے وہ علوم حاصل
کرلیے جسے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ بہت زیادہ دنوں میں بھی حاصل نہیں
کرسکے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں ان کی کم عمری کے باوجود مقدم رکھتے
اور انہیں اپنے مہاجر و انصار کے شیوخ کی خاص مجلس میں بیٹھاتے، ان کے متعلق علم کے
بارے میں بہت سارے قصے مشہور ہیں، جو ان کے علم و فضل پر شاہد عدل ہیں، اس اعتبار سے
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علم سے سیراب ہونے والے جیسے حضرت طاؤس اور ابوصہبا وغیرہ
کے پاس ایسا علم ہوگا جس کا وہ اپنے علاوہ پر مخفی ہونا مستغرب سمجھ سکتے ہیں، بہر
حال اس زمانہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے معلوم و مشہور تھا کہ صدر
اسلام میں طلاق و رجعت کی کوئی مدت معینہ نہیں تھی اور یہ بھی معلوم تھا کہ اللہ تعالی
اپنے فضل و کرم سے صدر اسلام کے اس حکم کو سورہ بقرہ کی دو آیتوں سے منسوخ کردیا،
وہ آیتیں یہ ہیں:
{الطلاق مرتان فامساک بمعروف أوتسریح باحسان} (البقرۃ:۲، آیت:۲۲۹) ترجمہ:((یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا
ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے)) (کنز الایمان) {فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ}
(البقرۃ:۲، آیت:۲۳۰) ترجمہ: ((پھر اگر اسے تیسری طلاق دی تو اب وہ عورت اسے حلال
نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے)) (کنز الایمان) اور سنت رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے جو کتاب کا مقتضی ہے، اس کو بیان کردیا کہ تین طلاق ایک ساتھ یا الگ الگ دینے
میں کوئی تفریق نہیں، دونوں کا حکم ایک ہی ہے کہ تین طلاق شدہ عورت شوہر اول کے لیے
حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ کسی دوسری عورت سے نکاح کرلے اور یہی روایت حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما وغیرہ سے مشہور ہے۔
اسی زمانہ میں حضرت طاؤس اور ابوصہبا کو یہ معلوم
ہوا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں ناسخ کا علم نہیں ہوسکا؛ جس کی وجہ سے وہ منسوخ پر عمل
کرکے مجموعی تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے رہے - پورے طور سے ناسخ کی شہرت حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کے زمانہ ہی میں ہوئی، آپ ہی نے اس ناسخ کے اظہار میں کافی مبالغہ سے
کام لیا اور لوگوں کو سنت پر عمل کرنے کی رغبت دلائی، یعنی تین طلاق خواہ ایک ساتھ
ہو یا الگ الگ ان کا تین طلاق ہونا یہی سنت ہے، آپ کی اس کوشش کی وجہ سے جاہل کو علم
ہوگیا اور غافل کو ہوش آگیا- تو ان دونوں حضرات نے- اس مسئلہ یعنی ناسخ کا ان کے نزدیک
مشہور ہونے کی وجہ سے مستبعد جانا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جن پر حضور صلی اللہ علیہ
وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانہ میں
ناسخ کا حکم مخفی رہ گیا ہو- اپنے استاذ محترم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اس
بات کا خلاصہ کرنے کے لیے دریافت کیا؛ اسی وجہ سے روایت کے طریق ثانیہ میں واقعہ کا
سیاق یہ تھا کہ حضرت طاؤس رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا:
کیا آپ جانتے ہیں۔۔۔۔۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ((ہاں)) اور تیسرے
طریق میں ہے کہ ابوصہبا نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ’’ہمیں اپنی خبر مستغرب
کو بیان کیجئے‘‘۔
اور جب
معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا؛ تو اب زیر بحث خبر زیادہ کلام کی محتاج
نہیں؛ کیوں کہ جواب، سوال اور سائلین کے اعتبار سے ہوتا ہے، سوال کرنے والے مسئلہ ناسخ
و منسوخ کو جانتے تھے، جس کے بارے میں انہوں نے سوال کیا، وہ یہی تھا کہ کیا کچھ لوگ
ایسے بھی ہیں جو ناسخ سے جاہل رہ گئے اور منسوخ پر عمل کرتے رہے؟! اور حال یہ ہے کہ
ناسخ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، نسخ کرنے والی احادیث کثیرہ پڑھی جاتی ہیں! اور شاید
وہ اپنے شیخ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نسخ کرنے والی احادیث میں سے بہت ساری
سن چکے تھے؛ اس وجہ سے حضرت طاؤس رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:
کیا آپ
جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کی خلافت کے ابتدائی تین سال میں تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا جاتا تھا؟۔تو حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے صرف اتنا کہا: ((ہاں)) کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ سائل ایسی
چیز کے بارے میں پوچھ رہا ہے جس کو وہ بعید سمجھتا ہے اور وہ ایسے لوگوں کا موجود ہونے
کے بارے میں ہے جو اس مدت میں منسوخ کے علم سے غافل رہے؛ اسی وجہ سے حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما نے انہیں ناسخ کے بارے میں بتانے کی حاجت محسوس نہیں کی؛ اس لیے کہ
وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے ناسخ کے بارے میں جانتے تھے، اس کی نظیر ایک
مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص پوچھے کہ کیا لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانے میں بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی ہے؛ تو تم صرف ہاں کہوگے اور پھر منسوخ
ہوگیا یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کروگے؛ کیوں کہ تم جانتے ہو کہ تمہارا مخاطب منسوخ
و ناسخ کو جانتا ہے، جو امر، محلِ شک تھا وہ یہ ہے کہ منسوخ معمول بہ تھا یا نہیں؛
لہذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول : ((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت
ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال میں تین
طلاق ایک ہی طلاق تھی)) حضرت طاؤس رحمہ اللہ کے سوال کا جواب تھا، جیسا کہ اس کی وضاحت
حدیث کا دوسرا طریق پورے طور سے کررہا ہے۔
اور تیسرے
طریق میں یہ بات مذکور ہے کہ ایک سائل حضرت ابوصہبا رحمہ اللہ کو بھی حضرت طاؤس رحمہ
اللہ کی طرح وضاحت کی حاجت تھی، اور امام مسلم رحمہ اللہ کی اپنی ’صحیح‘ میں عادت ہے
کہ وہ ایک ہی جگہ ایک حدیث کے تمام طرق کو جمع کردیتے ہیں؛ تاکہ سب روایتیں پڑھنے والے
کے لیے واقعہ کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کے لیے معاون ثابت ہوسکیں، ایک وجہ مذکور یہ
بھی ہے جس کے سبب آپ کی کتاب کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، رحمہ اللہ و أجزل عطائہ۔
بہر حال
اس حدیث سے جو مستفاد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے شب و روز
علم حاصل کرنے والے دو بڑے عالموں نے ناسخ کے بعض لوگوں کو مخفی رہ جانے کو بعید جانایہاں
تک کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم ناسخ کو پھیلایا اور بڑے بڑے صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی موافقت کی؛ کیوں کہ ان حضرات کو بھی حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کی طرح ناسخ کا علم تھا، اور کیسے اس کا علم نہ ہو جبکہ قرآن کریم میں حکم مذکور
کی تلاوت کی جارہی ہے اور اسی سے متعلق مختلف واقعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے احکام کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے؟!کیا انہیں واقعات میں سے حضرت ابن عمر
رضی اللہ عنہما کا واقعہ نہیں ہے، جس میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض
کیا: اگر میں اپنی عورت کو تین طلاق دے دیتا؛ تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس
سے رجعت کرلوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نہیں)) تین طلاق کی وجہ
سے تمہاری بیوی تمہارے نکاح سے نکل جاتی اور تمہارا یہ فعل گناہ ہوتا(سنن الدارقطنی،
کتاب الطلاق والخلع و الإیلاء وغیرہ، رقم:۳۹۷۴) کیا انہیں میں سے حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کا اپنی عورت کو ’البتۃ‘ طلاق دینے
کا واقعہ نہیں ہے؟ جس کے متعلق صحابہ کرام نے مشاہدہ کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان کو ان کی عورت سے رجعت کا حکم نہیں دیا مگر ان سے قسم لینے کے بعد کہ انہوں
نے ’البتۃ‘ سے ایک طلاق مراد لی ہے (سنن أبی داؤد، کتاب الطلاق، باب نسخ المراجعۃ
بعد التطلیقات الثلاث، رقم:۲۱۹۶) اس میں واضح بیان ہے کہ اگر وہ ’البتۃ‘ سے تین طلاق مراد لیے ہوتے؛ تو حضور
صلی اللہ علیہ وسلم اسے نافذ فرمادیتے اور ان کے لیے رجعت حلال نہ ہوتی۔ کیا انہیں
واقعات میں سے یہ واقعہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص پر سخت برہم
ہوئے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے بلکہ غصہ سے
کھڑے ہوگئے (سنن النسائی، الثلاث المجموعۃ و مافیہ من التغلیظ، رقم:۳۴۰۱) اور انہیں رجعت کا حکم نہیں دیا جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی
اللہ عنہما کو رجعت کا حکم دیا جب انہوں نے اپنی عورت کو حیض کی حالت میں ایک طلاق
دے دی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس فعل ناراض بھی ہوئے تھے، اس کے علاوہ
دوسری دلائل بھی ہیں، ان شاء اللہ راقم الحروف عنقریب ان کے متعلق مستقل مقالہ ہدیہ
قارئین کرے گا۔
ان واقعات
کے پیش نظر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنے دونوں اصحاب سے کی ہوئی گفتگو
کا مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگ نسخ پر مطلع نہیں ہوئے، نہ ہی مسئلہ کی جانکاری کے لیے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا اور نہ ہی ان صحابہ کرام سے معلوم کیا جو لوگ ناسخ
کا علم رکھتے تھے، وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نسخ کے بعد بھی تین
طلاق کو ایک ہی قرار دیتے تھے، اسی طرح سے وہ لوگ جنہوں نے منسوخ پر عمل کیا یا حضرت
ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ابتدائی زمانہ میں منسوخ کے مطابق فتوی دیا
انہوں نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی جانب رجوع نہیں کیا، پھر جب
لوگ برابر دو، تین سال بعد تک اسی منسوخ پر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ یہ بات مشہور ہوکر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہونچی؛ تو آپ نے اپنی عادت حسنہ کے مطابق علماے کرام کو
جمع کیا، فقہ کا اظہار کیا اور کتاب اللہ کے مقتضیٰ کو اپنی عادت قدیمہ کے مطابق پوری
احتیاط کے ساتھ بیان کیا، آپ کا احتیاطی بیان یہ ہے ، ملاحظہ فرمائیں، آپ فرماتے
ہیں:
’’بے شک
لوگوں نے اس امر میں جلدی کی جس میں انہیں رخصت تھی، اگر ہم ان کے جلدی کرنے کو نافذکردیں‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کلام پاک میں طلاق مغلظہ کا
حکم جس کے ساتھ معلق کیا ہے،وہ تین طلاق دینا ہے، خواہ الگ الگ دے یا سب ایک ساتھ،
ان دونوں کے درمیان حکم میں کوئی تفریق نہیں، البتہ جس نے تین طلاق تفریق کرکے دی وہ
اللہ تعالی کے حکم کے ساتھ ادب سے پیش آیا اور اللہ تعالی کی دی گئی رخصت کے مطابق
عمل کیا اور جس نے ایک ساتھ ایک ہی کلمہ میں طلاق دے دی، اس نے اللہ تعالی کی رخصت
پر عمل نہ کرکے خلاف ادب کام کیا اور ایسا راستہ اختیار کیا جو اللہ تعالی کو پسند
نہیں اور وہ طلاق دینے میں تفریق کے بجائے سب کو ایک ساتھ جمع کرنا ہے ، اس صورت میں
تین طلاق کے وقوع کا لازم ہونا اولی اور عورت سے رجوع کا حرام ہونا احری ہے؛ کیوں کہ
تین طلاق کو ایک ساتھ جمع کرکے دینے پر مناسب نہیں کہ ان کے عدم لزوم کا قول کیا جائے،
پھر کونسا معنی ہے جس کی وجہ سے وہ مجموعی تین طلاق کو ایک طلاق قرار دے رہے ہیں؟ حالانکہ
طلاق مغلظہ کے حکم کی بنیاد تین طلاق دینا ہے، خواہ ایک ساتھ دے یا الگ دے، جس نے طلاق
کو الگ الگ کرکے دے کر اللہ تعالی کے حکم کے ساتھ ادب کا مظاہرہ کیا اور تین طلاق کی
عدد پوری کردی؛ تو اسے طلاق مغلظہ لازم ہوجائے گی؛ تو وہ شخص جو اللہ تعالی کے حکم
کے ساتھ ادب سے پیش نہ آیا اور جلدی کی، بدجہ اولی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی ایک
ساتھ دی ہوئی تین طلاق، طلاق مغلظہ کی صورت میں واقع ہوجائے۔
یہ تھا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فقہ تھا جو انہیں کی شخصیت کے لائق ہے، اور آپ کا یہ قول:
’’فلو أمضیناہ علیہم‘‘ تو یہ موجود علماے صحابہ سے اس بات کے مطالبہ کے لیے ہے کہ
شاید ان کے پاس کوئی سنت نبوی موجود ہو جو کتاب کے عموم کو خاص کردے یا اس کے اِطلاق
کو مقید کردے؛ تو آپ اپنی عادت حسنہ کے مطابق عموم و اِطلاق کے بجائے اسی تخصیص یا
تقیید کی سنت کی طرف رجوع کرکے، اسی پر عمل کریں، مگر آپ کے پاس موجود صحابہ کرام
نے اس طرح کی کسی حدیث کا اظہار نہیں کیا؛ اسی وجہ سے سب نے مجموعی تین طلاق کے نافذ
کرنے ہی پر آپ کی موافقت کی اور کیوں نہ کریں؟! اور حال یہ ہے کہ انہیں میں حضرت امام
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ موجود ہے،
ان میں سے ایک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((جس مرد نے بھی
اپنی عورت کو مختلف قروء میں تین طلاق دی یا تینوں ایک ساتھ دی، اس کے لیے وہ عورت
حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ عورت پہلے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد سے شادی کرے)) (سنن
الدارقطنی، کتاب الطلاق و الخلع و الإیلاء وغیرہ، رقم:۳۹۷۲)
اور انہیں میں حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں، جنہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر قسم دلائی کہ انہوں نے لفظ ’البتۃ‘ سے ایک ہی
طلاق مراد لی ہے، جب آپ نے یہی مراد لینے پر قسم کھالی؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے انہیں رجعت کا حکم دیا، انہیں میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ پر مجموعی تین طلاق کے نفاذ
کی روایت کی، جب انہوں نے لعان کے بعد اپنی عورت کو تین طلاق دی(صحیح البخاری، کتاب
الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث، رقم:۵۲۵۹) انہیں میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ
بھی ہیں، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلہ میں سنت نبوی روایت کی
ہے، بہر حا ل ان روایتوں کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول: ’’فلو أمضیناہ
علیہم‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ کیا آپ لوگوں کے پاس تین طلاق دے کر رجعت کا حکم منسوخ
ہونے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی چیز موجود ہے جو اس حکم کے نافذ
کرنے سے مانع ہے؟! مگر جب ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس بھی کوئی مانع نہیں تھا
اور سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاق کے نافذ کرنے والی حکمت سے پُر رائے کی
موافقت کی؛ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حکم کو نافذ فرما دیا، یعنی حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے قرآن کریم، حدیث پاک اوراپنے زمانہ کے مجتہدین اجماع صحابہ کی دلائل کے
تقاضہ کے مطابق مجموعی تین طلاق کو نافذ فرمادیا، اس نفاذ سے آپ نے ناسخ سے لاعلم
رہ جانے والوں کو منسوخ پر عمل کرنے سے روک دیا اور ناسخ کی خوب اشاعت فرمائی، اور
یہ ایک ہی مثال نہیں، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں، مندرجہ ذیل سطور
میں بعض مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
نکاح متعہ
ہی کا مسئلہ لے لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جائز تھا، پھر حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک اسے منسوخ و حرام قرار دے دیا، جیسا کہ امام بخاری
و مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور بعض صحیح روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے کسی شخص کو حکم دیا جو لوگوں میںیہ اعلان کردے: ((ألا إن نکاح المتعۃ حرام، حرمہ اللہ و رسولہ إلی یوم القیامۃ)) ترجمہ: ((بے شک نکاح متعہ حرام ہے، اللہ تعالی اور اس کے رسول نے اسے قیامت
تک کے لیے حرام قرار دے دیا)) (صحیح مسلم، کتاب النکاح،باب ندب من رأی امرأۃ فوقعت
فی نفسہ، رقم:۱۴۰۶) اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے
پائے گئے جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک ناسخ کا علم نہیں ہوسکا؛ تو امیر
المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے درمیان اس ناسخ حکم کا اعلان کرایا اور
خوب اشاعت کرنے کی کوشش فرمائی، نکاح متعہ کا یہ قصہ اسی طرح مروی ہے جس طرح حضرت ابن
عباس رضی اللہ عنہما سے مجموعی تین طلاق کے متعلق روایت کی گئی ہے،بلکہ اس سے بھی پیچیدہ
طور پر مروی ہے، امام مسلم وغیرہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتے
ہیں: ((کنا نستمتع بالقبضۃ من الدقیق و التمر الأیام علی عہد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و أبی بکر و صدرا من خلافۃ عمر، حتی نہانا عمر فانتہینا)) ترجمہ: ((ہم ایک مٹھی آٹا اور کھجور کے بدلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں
کچھ دن تک استمتاع کرتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع کردیا؛ تو ہم باز
آگئے)) (صحیح مسلم، باب ندب من رأی امرأۃ فوقعت فی نفسہ، رقم: ۱۴۰۵) اس روایت کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ نکاح متعہ سے ممانعت و
نہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے تھا، آپ نے اپنی رائے کے ذریعہ خلاف سنت حکم
جاری فرمایاحالانکہ یہ خاص طور سے آپ جیسی شخصیت سے بہت بعید ہے، نکاح متعہ کی اس
عبارت میں مجموعی تین طلاق کی عبارت سے زیادہ ابہام و غموض ہے، اور یہیں پر آپ کو
یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس طرح کی روایت میں اصولیوں کا قول: ’’یہ مرفوع ہے؛ کیوں
کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات میں ہوتاہے، ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے علم میں ہو‘‘ مطلقا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرفوع حکم میں
ہے، جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو، جب اتنا دہن نشیں ہوگیا؛ تو اب حضرت جابر
رضی اللہ عنہ کے قول:’’کنا نستمتع۔۔۔إلخ‘‘ کا معنی یہ ہوگا: کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں اس مسئلہ کے متعلق ناسخ کا علم نہیں
ہوا؛ جس کی وجہ سے انہوں نے ان مبارک زمانوں میں بھی نکاح متعہ کیا اور اس کی خبر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو نہیں ہوئی، جب
امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی؛ تو آپ نے ناسخ کا اعلان اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کرتے ہوئے نکاح متعہ سے عام ممانعت فرمادی
اور معاذ اللہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم خلاف خروج نہیں!
بالکل
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کی زیر بحث روایت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن
حضرات نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میںتین طلاق کو ایک شمار کیا
وہ کچھ ہی لوگ تھے، جنہیں تین طلاق کے بعد رجعت کے نسخ کا علم نہیں ہوسکا یا انہوں
نے یہ نہیں سمجھا کہ الگ الگ تین طلاق کی طرح مجموعی طلاق کا بھی حکم ہے؛ اسی وجہ سے
انہوں نے ایسا کیا، جس کا علم - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر
رضی اللہ عنہم اور جن کو ناسخ کا علم تھا - نہ ہوسکا، یہاں تک کہ جب اس کی کچھ کثرت
کی وجہ سے شہرت ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی؛ تو آپ نے ناسخ کا اعلان
کیا اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نافذ فرمایا، جس کی موافقت
آپ کے زمانہ کے مجتہدین صحابہ، تابعین اور ان کے بعد اتباع کئے جانے والے ائمہ کرام
رضی اللہ عنہم اجمعین سب نے کی۔
ایک مجلس
میں تین طلاق کو ایک ماننے والے مبتدعین نے نکاح متعہ کے متعلق اس جواب قبول کیا، مگر
زیر بحث حدیث کے تعلق سے اس طرح کے جواب کو قبول نہ کرکے شذوذ و تفرد اختیار کیااور
اباطیل کا سہارا لینے میں عار محسوس نہیں کیا، نعوذ باللہ من الہوی۔
علامہ
خضر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے تمام جواب ذکر کرنے کے بعد کتنی اچھی بات کہی ہے، آپ
ملاحظہ کرلیں، فرماتے ہیں:
’’اور میں کہتا ہوں: بے شک ’صحیح مسلم‘ میں موجود
حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما، خود ہی جواب دے کر اپنا مفہوم واضح کررہی ہے، اس کا
بیان یہ ہے: حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب یہ خبر دی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ میں جماع سے پہلے مجموعی تین طلاق تحریم کا موجب تھی؛تو آپ نے ان کے ناسخ
پر مطلع ہونے کا ذکر کرنے کے بجائے صرف اتنی ہی بات کی خبر دینے پر اکتفا کیا، شاید
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مؤمن جانتا تھا کہ حضرت عمر بن الخطاب اور ان کے ساتھ جتنے
صحابہ رضی اللہ عنہم، جن میں امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ عشرہ
مبشرہ بالجنۃ بھی تھے، یہ سب کسی ایسے حکم پر جمع نہیں ہونگے، جس پر کوئی مستند ہی
نہ ہو اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہ لوگ ایسی بات کہنے سے معصوم ہیں جیسا کہ صادق و مصدوق
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے، اور شاید اس لیے بھی کہ ہر مؤمن
یہ جاتنا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت ہے؛
کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اقتدوا باللذین من بعدی أبی بکر و عمر))
(مسند أحمد، سنن الترمذی و ابن ماجہ) نیز حضور نبی اکرم علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا:
((علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، عضوا علیہا
بالنواجذ، و إیاکم و الأمور المحدثات ۔۔۔۔۔إلخ))
((تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کو لازم پکڑلو، اس کو مضبوطی سے تھام لو اور
خلاف شریعت بدعتوں سے بچو۔۔۔حدیث)) (مسند أحمد، حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ،
ج۸۲ص۳۷۳، رقم: ۴۴۱۷۱، سنن أبی داؤد، الترمذی
و ابن ماجہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اقتدا اور ان کے
سنت کی اتباع کا حکم دینے کے بعد بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت سے اعراض کرنے والا
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرنے والا ہوگا اور حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر اعتراض کرنے والا اللہ تعالی اور رسول کائنات صلی اللہ
علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والا ہوگا؛ کیوں کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {و ما آتاکم الرسول فخذوہ و مانہاکم عنہ فانتہوا} (الحشر:۵۹، آت:۷) ترجمہ: ((اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں وہ لو اور جس
سے منع فرمائیں باز رہو)) (کنز الایمان) مزید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی اقتدا اور ان کی سنت کی اتباع کا حکم دیا؛ اسی وجہ سے حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے صرف اسی بات کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا کہ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ میں تین طلاق کو طلاق مغلظہ قرار دیا ہے اور یہ ذکر نہیں
کیا کہ وہ چیز حدیث کے ناسخ پر علم ہونے کی وجہ سے حاصل تھی، جس کے متعلق حکم حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا؛ کیوں کہ جو بات ہم نے ذکر کی ہے، وہ اس چیز کے
بیان کرنے اور حدیث کے نسخ کی وضاحت کرنے سے - جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذکرنہیں
کیا - مستغنی کردیتی ہے؛ بہر حال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی ایسے شخص
کی اقتدا و اتباع کا حکم نہیں دیں گے جو مستقیم نہ ہو، ورنہ لازم آئے گا کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے خطا کی اتباع کا حکم دیا اور اللہ جل جلالہ ایسی ذات کی اتباع کا
حکم دینے والا ہوگا جو خطا کی اتباع کا حکم دے رہا ہے! اس کا انجام یہ ہوگا کہ ان چیزوں
میں سے کسی چیز کا بھی قائل کافر و مرتد ہوجائے گا، أعاذنا اللہ تعالی من ذلک۔
ان دونوں حدیثوں کی مثال وہ حدیث جو ام المؤمنین حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں: ((کان فیما أنزل اللہ عزوجل من القرآن عشر رضعات یحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات
یحرمن، فتوفی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ہن فیما یقرأ القرآن)) (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات، رقم:۱۴۵۲)اس روایت کا ظاہر مفہوم یہی ہے کہ اس کی تلاوت حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منسوخ نہیں ہوئی، حالانکہ اس کے باطل ہونے پر اجماع
ہے؛ کیوں کہ اس کی تلاوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں منسوخ ہوچکی تھی؛ لہذا
اس روایت کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے وہ پڑھتا تھا جسے اس کی تلاوت کے نسخ کا علم نہیں
ہوا، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاق کے ایک ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ حکم اس
شخص کے اعتبار سے ہے جس کو ناسخ کا علم نہیں ہوا اور یہ وہ مسئلہ ہے جو ان کے مبارک
زمانہ میں معروف و مشہور نہیں ہوا، یہاں تک کہ جب مشہور ہوگیا اور یہ خبر امیر المؤمنین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہونچی؛ تو آپ نے ویسا ہی کیا جیسا کہ آپ نے حکم متعہ
میں کیا، جس کو ہم پہلے ہی بیان کر آئے۔
ان تین
حدیثوں کی نظیر ایک حدیث وہ بھی ہے جو حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی
ہے اور حدیث کے الفاظ سنن أبی داؤد کے الفاظ ہیں، آپ فرماتے ہیں: ((بعنا أمہات الأولاد علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم و أبی بکر، فلما کان عمر نہانا فانتہینا))
ترجمہ: ((ہم نے ام ولد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ میں بیچا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع کردیا؛ تو ہم باز آگئے))
(سنن أبی داؤد، کتاب العتق، باب فی عتق أمھات الأولاد، ج۴ص۷۲، رقم: ۴۵۹۳، سنن ابن ماجہ، سنن الدارقطنی)
اس حدیث
کا ظاہر یہی ہے کہ ام ولد کا بیچنا ایسی سنت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت
ہے اور پھر منسوخ بھی نہیں ہوئی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی اسی
پر عمل رہا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنت کی مخالفت کی اور اس بیع سے منع فرمادیا!
حالانکہ سنت کی مخالفت کرنا آپ سے بہت بعید ہے، بہرحال سنت نبویہ کی بحث و تمحیص اور
قرآن و سنت کی فہم مستقیم جس بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اولاد
کی امہات کی بیع شروع میں جائز تھی پھر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور جس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیع کی
اسے اس ناسخ علم نہیں تھا، پھر جب اس کا علم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہوا؛ تو آپ
نے اس بیع سے منع فرماکر ناسخ کی اشاعت کی اور وہ حکم جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی وفات ہوئی تھی، لوگوں کوبتایا؛ لہذا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ قول: ’’ہم نے
اولاد کی ماؤں کو بیچا۔۔۔إالخ‘‘۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایسا کیا، انہیں
نسخ کا علم نہیں ہوا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو منع فرمایا وہ نسخ بیع کو نافذ
کرنے کے لیے منع فرمایا تھا، جس کا علم آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا، چنانچہ
صحیحین کی حدیث میں ہے، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں، ہم نے
عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم قیدی باندیوں سے جماع کرتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ہم ان کی
قیمت پسند کرتے ہیں؛ تو آپ ہمیں فعل کے ذریعہ عزل کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ما علیکم ألاتفعلوا، ما من نسمۃ کائنۃ إلی یوم القیامۃ
إلا وہی کائنۃ)) ((عزل نہ کرنے سے تم پر کوئی ضرر نہیں،
قیامت تک جو بھی جان پیدا ہونے والی ہے پیدا ہوکر رہے گی)) (صحیح البخاری، کتاب العتق،
باب من ملک من العرب رقیقا فوھب و باع و جامع، رقم: ۲۵۴۲، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب حکم العزل، رقم:۱۴۳۸)
اور امام نسائی کی روایت
میں ہے: فکان منا من یرید أن یتخذ أہلا و منا من یرید البیع، فتراجعنا
فی العزل۔۔۔۔الحدیث۔ ’’ہم میں سے بعض چاہتے تھے کہ باندی
کو اپنا اہل بنالیں اور ہم میں سے بعض اس کو بیچنا چاہتے تھے؛ اس وجہ سے ہم نے عزل
کے بارے میں پوچھا۔۔۔حدیث‘‘ (مجھے سنن النسائی میں یہ روایت نہیں ملی) امام مسلم رحمہ
اللہ کی روایت میں ہے: ’’فطالت علینا العزبۃ ورغبنا فی الفداء و أردنا أن نستمتع
و نعزل‘‘ ’’پھر ہمیں باندی سے جماع کرنے کی حاجت محسوس ہوئی اس حال میں کہ ہم اسی کی
قیمت کے بھی خواہش مند تھے، اور ہم نے ارادہ کیا کہ جماع کے ساتھ عزل سے کام لیں‘‘
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب حکم العزل، رقم: ۱۴۳۸)
اس میں
واضح دلالت ہے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ جب باندی اپنے مالک سے بچہ جن دے؛ تو انہیں بیع
کے ذریعہ اس میں تصرف حلال نہیں ہوگا؛ اس وجہ سے اس باندی کی قیمت فو ت ہوجائے گی؛
کیوں کہ مالک سے بچہ کی ولادت کے بعد اگر اس کے ماں کی بیع جائز ہوتی؛ تو انہیں عزل
کی حاجت نہیں ہوتی اور پھر انہیں عزل کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے
کی ضرورت بھی نہ پڑتی؛ کیوں کہ لڑکا پیدا ہونے کے بعد بھی ماں کی بیع کی اجازت کے سبب
ان کا کچھ فوت ہی نہیں ہوتا، اسی کے مثل امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا۔
اور ابن
عباس رضی اللہ عنہما سے مروی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((أیما أمۃ ولدت من سیدہا فہی حرۃ عن دبرہ)) ترجمہ: ((جو بھی باندی اپنی مالک سے ولد جنی؛ تو وہ مالک ک مرنے کے بعد آزاد
ہے)) ( المستدرک،حاکم، ج۲ص۳۲، رقم:۱۹۱۲، ابن ماجہ و سنن البیہقی)امام حاکم نے اس روایت کی تصحیح فرمائی ہے، اگرچہ
اس حدیث کی سند میں راوی حسین بن عبد اللہ بن عبید اللہ بن عباس ہیں جو متکلم فیہ ہیں،
مگر ان کے بارے ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جیسا کہ التہذیب میں ہے: ’’ان کی حدیث
لکھی جائے گی؛ کیوں کہ میں نے ان کی حدیث میں کوئی منکر حدیث نہیں دیکھی‘‘ اس کی تائید
اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے دو طریق سے عبد اللہ بن عمر
رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں: ((إن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن بیع أمہات الأولاد، وقال: لایبعن، و
لایوہبن و لایورثن، یستمتع بہا سیدہا مادام حیا، فإذا مات فہی حرۃ)) ترجمہ: ((بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی ماؤں کو بیچنے سے منع
کیا، اور فرمایا: نہ بیچی جائیں گی، نہ ہبہ کی جائیں گی اور نہ ہی کوئی ان کا وارث
ہوگا، جب تک وہ زندہ رہے گی، ان کا مالک ان سے فائدہ حاصل کرے گا، جب وہ مرجائے؛ تو
وہ آزاد ہے)) (سنن الدارقطنی، کتاب المکاتب، رقم:۴۲۴۷)
یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا بھی مروی ہے، امام
ابن قطان رحمہ اللہ نے اس کے مرفوع ہونے کو صیح قرار دیا اور فرمایا: اس کے سب راوی
ثقات ہیں، اس سے معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے فیصلہ کو نافذکرنا تھا اور جس نے اس فیصلہ کے پہلے، اس کے خلاف کیا،اسے
ناسخ کا علم نہیں ہواتھا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی اشاعت فرمائی۔
نیز امام دارقطنی رحمہ اللہ نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے ر وایت کی ہے کہ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے اولاد کی امہات کو آزاد کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا، اور سعید نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کو دیکھا اور سنا ہے، اس سند میں راوی عبد الرحمن افریقی کا ضعف کا مداوا ماسبق کی
صحیح حدیثوں سے ہوجاتا ہے، مزید یہ کہ یحی بن سعید قطان رحمہ اللہ نے ان کی توثیق فرمائی
ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں مقارب الحدیث فرمایا ہے؛ لہذا ان کا
ضعف مجمع علیہ نہیں ہے جیسا کہ بیان سے واضح ہوگیا۔
اور امام
حاکم رحمہ اللہ نے ایک روایت کی اور اس کی تصحیح بھی فرمائی، وہ یہ ہے کہ ام ابرہیم
کو جب لڑکا پیدا ہوا؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أعتقہا ولدہا))
((باندی کے لڑکے نے اسے آزاد کردیا)) ((سنن ابن ماجہ، کتاب العتق، باب أمھات الأولاد،
رقم:۲۵۱۶)) امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: ابن قطان رحمہ اللہ نے اس حدیث کی ایک دوسری سند ذکر کی ہے اور فرمایا: یہ سند
جید ہے۔
اور ابن
حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، آپ فرماتی ہیں: ((ماترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دینارا ولادرہما ولاعبدا ولاأمۃ)) ترجمہ: ((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دینار و درہم اور نہ ہی غلام
و باندی چھوڑا)) (صحیح ابن حبان، ذکر البیان بأن المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لم یوص
بشیء، رقم:۶۶۰۶) امام رملی رحمہ اللہ المنہاج
کی شرح میں فرماتے ہیں: حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدبچنے
والی چیزوں میں سے تھیں اور یہ ثابت نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی
حیات میں آزاد کردیا تھا اور نہ ہی یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان کی آزادی کو اپنی وفات پر معلق فرمایا تھا، امام کمال رحمہ اللہ ’الفتح‘ میں فرماتے
ہیں: امام خطابی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی حدیث: ((أعتقہا ولدہا)) کی صحت پر دلالت کرتا ہے،
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إنا معاشر الأنبیاء لانورث، ماترکنا صدقۃ)) ((ہم انبیا لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے)) (صحیح
البخاری، کتاب الوصایا،باب نفقۃ القیم للوقف، رقم:۲۷۷۶)
اگر ماریہ رضی اللہ عنہا مال ہوتیں؛ تو انہیں بیچ دیا جاتا
اور ان کی قیمت کو صدقہ قرار دیا جاتا۔
امیر المؤمنین حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے اولاد کی بیع امہات کی حرمت پر قرآن کریم سے بھی استدلال کیا، جیسا
کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کیا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام
عمال کے پاس لکھ بھیجا: بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے: {فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم} (محمد:۴۷،آیت:۲۲) ترجمہ:((تو کیا تمہارے یہ لچھن (انداز) نظر آتے ہیں اگر
تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو)) (کنز الایمان) اور
اس سے بڑھ کر قطع رحم کیا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کسی کی ماں بیچی جائے؛ لہذا تم میں
سے کسی کی ماں نہیں بیچی جائے گی؛ کیوں کہ یہ قطع رحم ہے اور یہ حلال نہیں‘‘ (السنن
الکبری، بیہقی، باب الرجل یطأ أمتہ بالملک فتلد لہ، رقم: ۲۱۷۷۳)
اور امام
حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں روایت کی اور اس کی تصحیح فرمائی، اور ابن منذر رحمہ
اللہ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، آپ فرماتے ہیں: میں حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں آپ نے ایک آواز لگانے والے کو سنا، آپ نے اس
کے بارے میں پوچھا؛ تو بتایا گیا: قریش کے ایک لڑکی کی ماں بیچی جارہی ہے، چنانچہ آپ
نے مہاجرین و انصار کو بلانے کے لیے بھیجا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ لوگوں سے
گھر و کمرہ بھر گیا، آپ نے اللہ تعالی کی حمد و تعریف کی، پھر فرمایا: اما بعد! کیا
تم جانتے ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو لے کر آئے تھے، اس میں سے ایک قطع رحم
بھی ہے، لوگوں نے عرض کیا: نہیں، فرمایا: قطع رحم تم میں بہت زیادہ شائع ہوچکا ہے،
پھر آپ نے آیت پڑھی: {فہل عسیتم۔۔۔الآیۃ} پھر فرمایا: اس سے بڑا قطع رحم کیا ہوسکتا ہے کہ تم میں کسی کی ماں بیچی جائے؟!
لوگوں نے عرض کیا: جو آپ کو صحیح لگے وہ کیجئے؛ تو آپ نے ہر طرف لکھ کر بھیجا کہ
آزاد کی ماں نہیں بیچی جائے گی؛ کیوں کہ یہ قطع رحم ہے، اور یہ حلال نہیں‘‘ (المستدرک؍
حاکم، تفسیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم، رقم: ۳۷۰۸)
اس اثر میں ام ولد کو نہ بیچنے پر اجماع کا ذکر ہے،
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلیل قرآن عظیم ہے اور سنت نبوی بھی اس کی تائید کرتی
ہے، جیسا کی اس کا بیان گزر چکا، و للہ الحمد۔
خلاصہ کلام: اس تفصیلی بیان
سے واضح ہوگیا کہ ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے والوں کی دلیل ضعیف
یا منسوخ ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں بلکہ مردود ہے۔
أفقر إلی اللّٰہ
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف،قاہرہ،مصر،
شعبہ حدیث، ایم اے
بانی ایف ایم فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ اوجھاگنج،
بستی، یوپی، انڈیا
No comments:
Post a Comment