مبسملا و
حامدا و مصلیا و مسلما
دور حاضر کے بالمقابل سلف صالحین کے زمانہ میں
سفر کرنا بہت مشکل اور دشوار ترین امر تھا، اس کے باوجود علم کا شوق رکھنے والے آج
سے کہیں زیادہ دور دراز کا سفر کرکے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، السفر قطعۃ
من النار ہونے کے باوجود انہیں سلف صالحین کے مبارک ادوار میں صرف ایک حدیث سننے
کے لیے ملک شام اور مصر کا سفر کیا گیا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ہر سفر یہاں
تک کہ حرمین طیبین کی زیارت کو بھی علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بنایا، ان حضرات
نے سفر کی مشقتیں، بھوک، پیاس اور طرح طرح کی پریشانیاں صرف علم حاصل کرنے کے لیے
برداشت کیں مگر علم جیسی عظیم دولت کے حصول میں حتی الامکان کوئی کمی پیدا نہ ہونے
دی، ان کی انہیں کاوشوں، محنتوں اور بے مثال جد و جہد کی وجہ سے ہی قرآن و حدیث
اور ان سے مستنبط مسائل کتابوں کی شکل میں مدون ہوئے اور پھر وہی مدون کتب پوری
امانت و صیانت کے ساتھ نسل در نسل پندرہویں صدی کی قوم مسلم تک منتقل ہوتی رہیں
اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت منتقل ہوتی رہیں گی، انہیں سلف صالحین میں ایک بہت
بڑی شخصیت جو آنکھوں کے سامنے گردش کرتی ہے، وہ امام فقہ و فن امام محمد بن ادریس
قرشی شافعی رحمہ اللہ کی شخصیت ہے، آپ چار متبوع مذاہب کے اماموں میں سے ایک ہیں،
پوری دنیا کے مختلف ممالک میں قوم مسلم کی ایک بڑی تعداد فقہ و فتاوی میں آپ کی
اتباع کرتی ہے، آپ نے علم حاصل کرنے کے لیے متعدد شہروں و ملکوں کا سفر کیا،
تکلیفیں جھیلیں، رات دن ایک کیا، پھر رب تعالی کا یوں کرم ہوا کہ اپنے وقت کے بڑے
بڑے علما و فقہا آپ کے تفقہ فی الدین کے اعتراف میں رطب اللسان دکھائی دئے، یہاں
تک کہ آپ کے اساتذہ بھی آپ کی تعظیم و تکریم کرکے فرحت و انبساط محسوس کرتے نظر
آئے، یقینا حصول علم کے لیے آپ کے اسفار علماے کرام اور طالبان علوم نبویہ کے لیے
شوق علم، جہد مسلسل، صبر و تحمل اور ایثار و قربانی وغیرہ مختلف جہات سے ان کی تربیت
کا سبب بننے کے قابل ہیں؛ اس لیے آج کی اس بزم میں اپنے موضوع کے مطابق میں امام
شافعی رحمہ اللہ کے مختلف اسفار پر دروس و عبر کاپاس و لحاظ رکھتے ہوئے روشنی
ڈالنے کی کوشش کروں گا؛ تاکہ قوم مسلم بالخصوص علما ے کرام اور طالبان علوم نبویہ
ان اہم اسفار کے دروس سے کچھ درس حاصل کرکے بیدار ہوں اور تا حیات زمینی کام کے
لیے تگ و دو کرکے اپنے حقیقی عالم و طالب ہونے کا ثبوت پیش کریں اور انبیاے کرام
علیہم الصلاۃ و السلام کی صحیح نیابت کا حق ادا کریں، و ما توفیقی إلا باللہ علیہ
توکلت و إلیہ أنیب۔
امام شافعی رحمہ اللہ بچپن
سے ہی علم دین حاصل کرنے کے شائق تھے؛ یہی وجہ تھی کہ آپ تیرہ سال کی عمر ہی میں
اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے مکہ شریف سے رخصت ہوکر مدینہ شریف پہونچ گیے اور اس
عمر ہی میں آپ نے امام مالک رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ’الموطأ‘ امام مالک رحمہ
اللہ کے پاس ہی پڑھی اور یہ طلب شوق و ذوق آپ کے فقہ و حدیث میں ماہر ہونے کے بعد
بھی پایا جاتا تھا جو آپ کی تواضع و انکساری اور آپ کے علم و عمل کے پیکر ہونے کا واضح
ثبوت فراہم کرتا ہے، آپ کا یہ بے مثال شوق و ذوق اپنی ماتھوں کی آنکھوں سے ملاحظہ
فرمائیں:
امام عبد اللہ کہتے ہیں کہ
میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل کو بیان کرتے ہوئے سنا: ’’ہم سے امام شافعی نے
فرمایا: آپ حضرات حدیث اور رجال کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانکار ہیں، اگر حدیث
صحیح ہو؛ تو مجھے بتائیں، چاہے وہ کوفی ہو یا بصری یا شامی، اگر حدیث صحیح ہے؛ تو
میں اسے حاصل کرنے، اس کے پاس جاؤں گا‘‘۔(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ
الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۲۷، ط: دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت)
آپ کے اس شوق طلب سے واضح
ہوجاتا ہے کہ ایک عالم مختلف علوم و فنون میں کتنا بھی ماہر ہوجائے، اسے تواضع و
انکساری کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے، دوسرے علما کی مہارت کا اعتراف کرنا چاہیے،
صرف میں ہی عالم ہوں اور باقی سب جاہل ہیں یا میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں اور باقی
سب مجھ سے کمتر ہیں، عالمانہ وقار کو تہس نہس کرنے والے یہ یا اس طرح کے دوسرے
اوصاف ایک عالم میں قطعا نہیں ہونا چاہیے، نیز اگر علم حاصل کرنے کے لیے مختلف
ممالک کا سفر بھی کرنا پڑے اور اسباب ہوں؛ تو اس کے لیے کمر بستہ رہنا چاہیے اور
اگر اسباب نہ ہوں؛ تو اسباب مہیا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ دولت و ثروت
اور اسباب اگرچہ بظاہر نہ ہوں مگر جب بندہ خدا، نیک دلی سے ان کو مہیا کرنے کی کد
و کاوش کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اپنے نیک بندہ کے لیے آسانیاں فرمادیتا ہے، اسی کی ایک
جھلک خود امام شافعی رحمہ اللہ کے طریقہ کار میں ملاحظہ فرمائیں:
محمد بن عبد اللہ بن عبد
الحکم کہتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا: ’’میرے پاس دولت نہیں تھی، پھر بھی میں
ابتداے جوانی سے ہی علم حاصل کر رہا تھا، دولت نہ ہونے کی وجہ سے میں دیوان کی طرف
جاکر ایک طرف لکھے ہوئے اوراق کو بطور ہبہ لے لیتا اور پھر ان اوراق کے دوسری جانب
لکھتا‘‘۔(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۲۰)
اس واقعہ سے علما اور طلبہ
کو ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ جب ایک طالب علم یا عالم دین علم حاصل کرنے کے لیے
نکلتا ہے؛ تو اسے دولت یا کسی دوسری قسم کی پریشانی لاحق ہوسکتی ہے، مگر اس
پریشانی کا حل تعلیم چھوڑنا یا تعلیم کے وقار کو مجروح کرنا نہیں بلکہ اس کا حل تمام
تر مراحل و مصائب کے ساتھ تعلیمی تسلسل برقرار رکھنا ہے اور یہی تعلیمی کامیابی کا
پختہ راز ہے۔
سفر مدینہ شریف:
امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے تعلیمی سفر کا
آغاز اپنی تیرہ سال کی کم عمری میں اس دنیا کے سب سے متبرک شہر مدینہ منورہ سے
شروع کیا، جس وقت آپ نے مدینہ منورہ کا رخت سفر باندھا، اس وقت وہاں کے سب سے بڑے
عالم امام دار الھجرۃ امام مالک بن انس رحمہ اللہ تھے، آپ سفر کی تمام مشقتیں
برداشت کرکے امام مالک رحمہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے سفر کے پہلے مبارک
شہر سےتعلیم کا آغاز کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
امام مزَنی اور امام محمد بن عبد اللہ بن عبد
الحکم فرماتے ہیں: ’’امام شافعی، امام مالک بن انس کے پاس آئے اور ان سے عرض کیا:
میں آپ سے ’الموطأ‘ سننے کی آرزو رکھتا ہوں، امام مالک نے فرمایا: میرے کاتب حبیب کے
پاس جاؤ؛ کیوں کہ وہی ’الموطأ‘ پڑھنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں، امام شافعی نے عرض
کیا: اللہ آپ سے راضی ہو، براے کرم آپ مجھ سے ایک صفحہ سن لیں، اگر آپ کو میرا
پڑھنا پسند آیا؛ تو میں ’الموطأ‘ کی قراءت آپ کے پاس کروں گا ورنہ ترک کردوں گا،
امام مالک نے فرمایا: پڑھو؛ تو امام شافعی ایک صفحہ پڑھ کر ٹھہر گیے، امام مالک نے
ان سے فرمایا: مزید پڑھو، پھر آپ ایک صفحہ پڑھ کر خاموش ہوگیے، امام مالک نے
فرمایا: مزید پڑھو، امام شافعی نے مزید پڑھا، امام مالک نے آپ کے پڑھنے کو پسند
فرمایا، اس کے بعد آپ نے امام مالک کو پوری ’الموطأ‘ پڑھ کر سنائی‘‘۔ (الانتقاء فی
فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۸)
استاذ و شاگرد کے اس طریقہ کار سے علماے کرام
اور طالبان علوم نبویہ کو یہ درس ملتا ہے کہ ایک طالب علم کو ہمیشہ باادب رہنا
چاہیے اور اگر استاذ کسی وجہ سے پڑھانے یا سننے سے منع کردے؛ تو اس کی وجہ سے ایک
طالب علم کو کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے بلکہ مزید بہتر انداز میں ایک عالم دین سے
گفت و شنید کرکے انہیں پڑھانے کے لیے آمادہ کرلینا چاہیے، نیز اگر استاذ اس بات سے
بخوبی آگاہ ہوجائے کہ فلاں طالب علم باصلاحیت ہے اور اس کے اندر کچھ کرگزرنے کا دم
خم ہے؛ تو اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اس کے پڑھنے اور آگے بڑھنے کے لیے زیادہ
سے زیادہ مواقع فراہم کرنا چاہیے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے مدینہ شریف میں امام
مالک رحمہ اللہ کے پاس پڑھنے کا التزام کیا، مگر آپ کی علمی پیاس یہاں بجھی نہیں؛
تو آپ اپنے علم میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے ملک یمن تشریف لے گیے اور وہاں
اپنے طلب شوق کو ۱۸۴ھ تک پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے:
محقق و مدقق عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: ’’امام شافعی نے ’الموطأ‘ کی قراءت ‒ سترہ (۱۷) سال کی عمر میں ۱۶۳ھ
میں یمن جانے سے پہلے ‒ تیرہ (۱۳) سال کی عمر میں کی تھی، آپ عراق لائے جانے تک یمن ہی میں رہے، آپ
یمن میں قیام کے دوران وقتا فوقتا حج کے لیے مکہ شریف آتے رہتے تھے، آپ اپنے ابتدائی
دور میں امام مالک کے پاس ہی رہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی خارج ’الموطأ‘ تین
وسائط سے روایت کرتے ہیں، جیسے امیر المؤمنین عمر بن خطاب اور امیر المؤمنین عثمان
بن عفان رضی اللہ عنہما کا نصف دیت کے اعتبار سے فیصلہ کرنا‘‘۔(الانتقاء فی فضائل
الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۸ حاشیہ: ۱)
سفر بغداد :
آپ ملک یمن ہی کے سفر پر تھے کہ بعض علویوں پر
بادشاہ رشید کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام لگا؛ جس کی وجہ سے انہیں قید کرکے یمن سے
عراق لایا گیا، بدقسمتی سے انہیں ملزموں میں امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی نام آگیا اور آپ کو بھی انہیں علویوں کے ساتھ
قید کرکے عراق پہونچادیا گیا، اگرچہ عراق کا قید و بند والا یہ سفر بظاہر بدقسمتی
کی واضح نشانی دکھائی دیتی ہے، مگر حقیقت میں امام شافعی رحمہ اللہ کے لیے یہ سفر
آپ کی قسمت کو عوج ثریا پر پہونچانے والا ثابت ہوا؛ کیوں کہ آپ نے اسی سفر میں
امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ سے شرف تلمذ حاصل کیا، آپ سے مختلف علوم و فنون
کی کتابیں پڑھیں اور ہیرے سے زیادہ قیمتی ان کتابوں کو اپنے ساتھ بھی لے کر آئے۔
محقق و مدقق حضرت العلام عبد الفتاح ابوغدہ
رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’آپ ان دونوں (ان کا ذکر آتا ہے) سفر سے پہلے عہد طالب
علمی میں عراق اس وقت بھی آئے جب ۱۸۴ھ میں آپ کو بعض علویوں کے ساتھ قید کرکے لایا
گیا تھا، اسی وقت امام محمد سے آپ نے علم حاصل کیا اور ان سے دو کوہان والے اونٹ
بھرکر مختلف علوم و فنون کی کتابیں لے کر آئے، جنہیں تاریخ کی صحیح معرفت نہیں
کبھی ان پر یہ تینوں سفر خلط ملط ہوجاتے ہیں؛ جس کی وجہ سے ان کے سامنے تلفیق شدہ
خبریں واضح نہیں ہوپاتیں جن کو صحیح خبریں جھٹلاتی نظر آتی ہیں۔
اور ’الانتقاء‘ کے (أک و) کے نسخہ میں امام
شافعی کے دونوں سفر بغداد کے متعلق جو ۱۷۵ھ مذکور ہے، یہ تحریف شدہ ہے‘‘۔
(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۷، حاشیہ:۲)
علویوں کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کے قید
ہوکر بغداد شریف لائے جانے اور پھر موت کے منھ سے چھٹکارا پانے کا واقعہ کچھ اس
طرح بیان کیا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
ابو القاسم عبید اللہ بن
عمر بن احمد شافعی بغدادی کہتے ہیں کہ میرے شیوخ کی ایک جماعت نے مندرجہ ذیل واقعہ
بیان فرمایا: ’’امام شافعی کو قوم علوی کے نو (۹) لوگوں کے ساتھ بغداد اٹھاکر لے
گیے، مگر ملِک رشید رَقّہ میں تھے؛ اس لیے انہیں بغداد سے رَقّہ لے جاکر ملِک رشید
کے پاس پہونچادیا گیا، وہاں پر ان کے ساتھ قاضی محمد بن حسن شیبانی بھی تھے، آپ
امام شافعی کے دوست تھے، امام شافعی ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے امام محمد
بن حسن شیبانی کے ساتھ علمی مجالست کے ساتھ ان سے علمی سیرابی حاصل کی تھی، جب
امام محمد کو معلوم ہوا کہ آپ بھی قریش کے ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں حجاز سے
اٹھاکر قید کرلیا گیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن پر ملِک رشید کے خلاف طعن اور بغاوت
کرنے کی تہمت لگائی گئی ہے، یہ بات معلوم ہوئی تو آپ بہت غمگین ہوگیے اور ملِک
رشید کے پاس ان کے جانے کا انتظار کرنے لگے۔
امام شافعی فرماتے ہیں: جب
ملِک رشید کے پاس ملزمین کو لایا گیا؛ تو ان سے کچھ پوچھ تاچھ کی اور ان کی گردن
مارنے کا حکم دے دیا اور پھر ان کی گردن ماردی گئی، یہاں تک کہ اہل مدینہ میں سے
ایک کم عمر نوجوان علوی اور میں باقی بچا، ملِک رشید نے علوی سے کہا: تم میرے خلاف
بغاوت کرنے والے ہو اور سمجھتے ہو کہ میں خلافت کے لائق نہیں؟! علوی نے جواب
میں کہا: میں اس طرح کا دعوی کرنے یا اس
طرح کی بات کہنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں، امام شافعی فرماتے ہیں: پھر
بادشاہ نے علوی کی گردن زدنی کا حکم دے دیا، اس پر علوی نے کہا: اگر میرا قتل کرنا
ناگزیر ہے؛ تو مجھے اتنی مہلت دیدیجیے کہ میں مدینہ شریف میں اپنی ماں کے پاس کچھ
لکھ کر بھیج دوں، میری ماں بوڑھی ہوچکی ہیں اور انہیں میرے اس معاملہ کی کوئی خبر
نہیں، لیکن پھر بادشاہ رشید نے اس علوی کے قتل کا حکم دیا اور اسے اسی وقت قتل
کردیا گیا۔
پھر مجھے پیش کیا گیااس حال
میں کہ محمد بن حسن شیبانی بادشاہ کے ساتھ تھے، بادشاہ نے مجھ سے وہی کہا جو علوی
نوجوان سے کہا تھا، میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین میں نہ تو طالبی ہوں اور نہ
ہی علوی، مجھے ان ملزمین میں میرے خلاف سازش کرکے داخل کردیا گیا، میں تو بنو مطلب
بن عبد مناف بن قُصَیْ کا ایک فرد ہوں، اس کے ساتھ ہی میں علم و فقہ سے شغف بھی
رکھتا ہوں جس کا قاضی صاحب کو بخوبی علم ہے، میں محمد بن إدریس بن عباس بن عثمان
بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف ہوں۔
مجھ سے بادشاہ نے پوچھا: تم
محمد بن إدریس ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں اے امیر المؤمنین، بادشاہ نے فرمایا: محمد
بن حسن شیبانی نے آپ کے بارے میں کچھ ذکر نہیں کیا، پھر محمد بن حسن شیبانی کی طرف
متوجہ ہوکر کہا: اے محمد! کیا یہ ویسے ہی ہیں جیسا یہ کہ رہے ہیں؟ امام محمد نے
عرض کیا: بالکل آپ کا علم میں بڑا مقام ہے، اور جو تہمت آپ پر لگائی گئی ہے وہ آپ
کی شان کے خلاف ہے، بادشاہ نے فرمایا: ان کے معاملہ میں غور کرنے تک آپ انہیں اپنے
ساتھ رکھیے، امام محمد نے مجھے اپنے ساتھ لے لیا اور جب اللہ تعالی نے چاہا تو وہ
میری اس مشکل سے نجات کے سبب بن گئے‘‘۔ (الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ
الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۵۴)
اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ قید کرکے بغداد شریف لائے گیے او رآپ کے
موت کے منھ سے نکلنے کا سبب امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ بنے مگر یہی قید و
بند امام محمد رحمہ اللہ جیسی مختلف الجہات شخصیت سے آپ کے لیے ان کے بے کراں علم
و معرفت سے فیضیاب ہونے کا بہت بڑا سبب بنا، معلوم ہوا کہ ایک مرد مؤمن خاص کر
عالم دین اور طالب علم کو قید و بند کی صعوبت سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر و
تحمل اور حکمت عملی سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے، اللہ تعالی اپنے بندوں کو آزمانے
کے بعد ان شاء اللہ ان کے لیے ایسی آسانیاں اور سہولتیں ہی پیدا فرمائے گا جو ان
کی دنیا و آخرت دونوں کو سنوارتی ہوئی نظر آئے گی۔
اللہ تعالی نے امام شافعی رحمہ اللہ کو اس قید
و بند اور مشکل و پریشانی برداشت کرنے کے بدلہ میں ایک مرد صالح عالم و مجتہد کے
ذریعہ علم کا وہ گراں قدر سرمایہ عطا فرمایا جس کی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ کی
شخصیت مزید نکھرکر سامنے آئی، آپ اسے خود
امام شافعی رحمہ اللہ کی زبانی سماعت فرمائیں:
’’ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میں
امامحمد بن حسن شیبانی سے دو کوہان والے خراسانی اونٹ سے بھر کر اور ایک مرتبہ کہا: ایک اونٹ پر بھاری بوجھ کی شکل میں کتب لایا، یہ
ساری کتابیں میری ان سے سماعت کی ہوئی ہیں، نیز فرمایا: کسی سے قابل غور مسئلہ
پوچھا گیا؛ تو میں نے اس کے چہرے پر کراہت کے آثار ضرور دیکھے البتہ اگر امام محمد
بن حسن شیبانی سے اس طرح کا مسئلہ پوچھا جاتا؛ تو آپ کے چہرے سے کراہت کے آثار نظر
نہیں آتے تھے‘‘۔(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۹)
امام شافعی رحمہ اللہ نے مزید تعلیم و تعلم کے
لیے بغداد شریف کا دوسرا سفر ۱۹۵ھ اور تیسرا سفر ۱۹۸ ھ میں کیا، دوسرے سفر میں آپ دو سال اور تیسرے سفر میں چند مہینے
بغداد شریف میں قیام پذیر رہ کر تعلیم و تعلم اور تصنیف و تالیف کا بہترین سلسلہ
جاری رکھا، ملاحظہ فرمائیں:
حسن بن محمد بن صباح
زعفرانی فرماتے ہیں: ’’امام شافعی ہمارے یہاں بغداد میں ۱۹۵ھ میں آئے، یہاں آپ کا
دو سال قیام رہا، پھر آپ مکہ لوٹ گیے، پھر دوبارہ ہمارے یہاں بغداد ۱۹۸ھ میں تشریف
لائے، اس سفر میں ہمارے پاس ان کا قیام چند مہینے رہا، پھر آپ مصر چلے گیے، مصر ہی
میں آپ کی وفات ہوئی، آپ مہندی کا خضاب لگاتے تھے اور آپ کی داڑھی ہلکی تھی‘‘۔
(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۷)
محقق و مدقق علامہ عبد
الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’امام شافعی رحمہ اللہ نے ۱۹۵ھ میں بغداد کے پہلے
(دوسرے) سفر میں امام ابن مہدی کے کہنے پر ’الرسالۃ‘ کتاب تصنیف فرمائی اور اسی
وقت اپنی کتاب ’الحجۃ‘ بھی لکھی، اسی سفر میں جید علما ابوثور، احمد، زعفرانی اور
ابوعبد الرحمن نے آپ سے اکتساب علم کیا‘‘۔ (الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ
الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۷، حاشیہ:۱)
محقق علامہ عبد الفتاح
ابوغدہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’امام شافعی
کے ۱۹۸ھ میں بغداد کے آخری (تیسرے) سفر میں امام
کرابیسی آپ کے پاس دو مہینے رہے، کرابیسی نے کچھ کتابیں پڑھ کر آپ کو سنانے کے لیے عرض کیا؛ تو آپ
نے انکار کردیا اور فرمایا: زعفرانی کی کتب لے کر نقل کرلو، میں نے تمھیں
ان کتابوں کی اجازت دے دی؛ اس طرح سے کرابیسی نے اجازت کے طور پر کتب پڑھنے پڑھانے
کی اجازت حاصل کی، جیسا کہ رامَہُرمُزِی نے زعفرانی اور داؤد سے روایت کیا ہے، آپ
نے بغداد کا یہ دونوں سفر اس وقت کیا جب آپ فقہ میں امامت کے عہدہ پر فائز ہوچکے تھے‘‘۔ (الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء،
امام ابن عبد البر، ص۱۱۷، حاشیہ:۲)
اس
طرح آپ نے اپنے بغداد شریف کے اسفار میں جہاں خود اپنے وقت کے بڑے بڑے فقہا و
محدثین سے علم حاصل کیا وہیں آپ نے تصنیف و تالیف جیسا اہم کام اس وقت انجام دیا
جب آپ فقہ و فتاوی میں امام کے مہتم بالشان عہدہ پر فائز ہوچکے تھے، نیز طالبان علوم نبویہ کو اپنے علم و معرفت اور
تفقہ فی الدین سے سیراب بھی فرمایا، آج کے علما کو بھی حضر تو حضر سفر میں میں بھی
تمام تکان و تکلیف کو نظر انداز کرتے ہوئے حتی الامکان علمی محفلیں قائم کرکے
طالبان علوم نبویہ کو مختلف علوم و معارف سے سیراب کرنے کی کد و کاوش کرتے رہنا
چاہیے۔
بغداد شریف ہی میں امام شافعی رحمہ اللہ نے
اپنے ایک شاگرد سے فصاحت و حکمت سے پُر یہ
قول ارشاد فرمایا: ’’ربیع کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کو فرماتے ہوئے سنا: جب میں
بغداد میں داخل ہوا؛ تو ملک شام بھی گیا، وہاں میرے پاس لوگ جوق در جوق آئے اور
اپنی جگہ پر درستگی سے بیٹھ گیے، فورا ہی ابوثور نے کوئی سوال کیا، امام شافعی
فرماتے ہیں، میں نے کہا:
اے ابو ثور الإیناس قبل
الإبساس، ابو ثور میری بات سمجھ نہ سکے؛ تو آپ نے کہا:
اے ابوعبد اللہ! اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا: الإیناس، یعنی اپنے ہاتھ سے اونٹنی کے تھن کے ارد گرد سہلانا، اور الإبساس، یعنی اپنے ہاتھ سے تھن کا دودھ نکالنا‘‘۔(الانتقاء فی
فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۵۰)
محقق علامہ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ مزید
اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یعنی مناسب یہ ہے کہ پہلے مانوس ہوجاؤ،
پھر سوال کرو، جیسے اونٹنی کا دودھ دوہنے سے پہلے، اس کے تھن کو سہلاکر اسے مانوس
کیا جاتا ہے، پھر اس کا دود ھ نکالا جاتا ہے‘‘۔ (الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ
الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۵۰، حاشیہ: ۱)
یہ حکیمانہ قول ایسا قول ہے کہ ہر جگہ لٹھ چلانے
اور انتہائی تشدد کا بازار گرم کرنے کے بجائے صرف درس و تدریس ہی میں نہیں بلکہ
تبلیغ دین وغیرہ بلکہ زندگی کے ہر میدان میں موقع و محل کی رعایت کرتے ہوئے اگر اس
کا استعمال کیا جائے؛ تو ان شاء اللہ نہ یہ کہ اہل سنت صرف چین کا سانس لیں گے
بلکہ سنیت پھلتی پھولتی اور پروان چڑھتی نظر آئے گی۔
تنبیہ: محقق و مدقق علامہ
عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ نے
امام شافعی رحمہ اللہ کی علم و معرفت اور دام، درم، سخن، ہر طرح سے مدد فرمائی،
یہاں تک کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی شخصیت امام محمد رحمہ اللہ کی وجہ سے کامل و
اکمل ہوگئی، پھر یہیں سے اپنے وطن عزیز مکہ شریف واپس جاکر علم و معرفت کے موتی
بکھیرنا شروع کیے، لیکن آپ کی امام ابویوسف رحمہ اللہ سے ملاقات کے متعلق تحقیق یہی
ہے کہ آپ کی امام ابویوسف رحمہ اللہ سے ملاقات نہیں ہوئی؛ اسی لیے آپ امام ابویوسف
رحمہ اللہ سے بواسطہ امام محمد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں‘‘ملخصا۔ (الانتقاء فی
فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۱۹، حاشیہ: ۱)
مصر محروسہ کا سفر:
۱۹۸ھ میں بغداد شریف کے
آخری سفر کے بعد آپ یہیں سے مصر روانہ ہوگئے، یہاں پر بھی آپ نے اپنے علم و تقوی
کو بروے کار لاتے ہوئے علم و عمل کی ایسی تابناک روشنی پھیلائی کہ مصر میں وقت کے
بڑے بڑے علما و محققین نے آپ کے علم و تقوی اور تفقہ فی الدین میں مہارت کا اعتراف
کیا، نظر نواز فرمائیں:
حرملہ فرماتے ہیں: ’’امام
شافعی ۱۹۹ھ میں مصر تشریف لائے، ربیع فرماتے ہیں:امام شافعی ۲۰۰ھ میں تشریف لائے
اور امام نووی دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں: شاید آپ ۱۹۹ھ
کے اخیر میں مصر تشریف لائے‘‘۔(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام
ابن عبد البر، ص۱۱۷، حاشیہ:۳)
ہارون بن سعید بن ہیثم
اَیلی فرماتے ہیں: ’’میں نے امام شافعی کی طرح کسی کو نہیں دیکھا، جب آپ ہمارے ملک
مصر آئے؛ تو لوگوں نے کہا: قریش سے ایک فقیہ شخص آئے ہیں، یہ سن کر ہم آپ کے پاس
اس حال میں آئے کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، ہم نے آپ سے خوبصورت چہرے والا اور آپ سے اچھی
نماز پڑھنے والا نہیں پایا؛ تو آپ ہمیں
پسند آئے، پھر جب آپ نے نماز پڑھنے کے بعد گفتگو کی؛ تو ہم نے آپ سے اچھی گفتگو
کرنے والا نہیں پایا‘‘۔(الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقھاء، امام ابن عبد
البر، ص۱۳۰، ط: دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت)
آپ کی پیدائش بمقام غزہ
۱۵۰ھ میں ہوئی، آپ جب دو سال کے تھے اسی وقت آپ کو مکہ شریف لایا گیا، آپ اپنی ۵۴
سالہ حیات مستعار کے اکثر اوقات دین و سنیت کی نشر و اشاعت میں گزارنے کے بعد بمقام
مصر ۲۰۴ھ میں اس دار فانی سے کوچ کرگیے، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے
اسفار کے دوران مختلف شہروں و ممالک مکہ شریف، مدینہ شریف، ملک یمن، ملک شام، ملک
عراق اور ملک مصر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے آپ کے علوم و معارف سے استفادہ
کیا اور آپ کے فقہ و فتاوی کو پوری دنیا میں پھیلانے کی بہترین کوشش کی، ان
شاگردوں کی تفصیل دیکھنے کے لیے رجوع کریں: الانتقاء فی فضائل الأئمۃ الثلاثۃ
الفقھاء، امام ابن عبد البر، ص۱۶۳، ط: دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت۔
اللہ
تعالی ہم علماے کرام کی جماعت اور طالبان علوم نبویہ کو امام شافعی رحمہ اللہ کی
طرح حضر تو حضر اسفار میں بھی تعلیم، تعلم اور عملی اقدام کے سلسلہ میں محنت و
مشقت اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور دین و سنیت کی صحیح طریقہ سے نشر و اشاعت کے
لیے جذبہ صادقہ کاملہ سے نوازے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
دعا جو
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن و خادم خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج،
بستی، یوپی، انڈیا
۵؍ذو القعدۃ ۱۴۴۰ھ مطابق ۹؍جولائی ۲۰۱۹ء
No comments:
Post a Comment