Friday, January 31, 2020

سید احمد کبیر رفاعی صاحبِ بلند اخلاق و کرداراور ہمارا اخلاقی معاشرہ

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
            ایک انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کا دل ایمان جیسی لازوال نعمت سے آباد ہو،  اب دل اور اس میں رہنے والے ایمان کو مزید پختہ و مضبوط کرنے کے لیے تقاضاے ایمان  یہ ہے کہ  فرائض و واجبات جیسے علم دین کی ٹھوس حصول یابی، پاپندی کے ساتھ نماز کی اداے گی، ہائی ماڈرن ایجوکیشن، اعلی تجارت وغیرہ کے لیے جائز طریقہ سے بہترین کوشش کی جائے، ایک مسلم انسان انہیں چیزوں کی حصول یابی کے بعد ایمانی و عملی اعتبار سے بالکل مضبوط ہوجاتا ہے، مگر اس کے لیے یہی  چیزیں بس نہیں ہے، بلکہ اب اسے چاہیے کہ ان تمام چیزوں کے ساتھ اپنی ذات میں چار چاند لگانے کے لیے، اپنے آپ کو بلند اخلاق و کردار سے مزین کرے، وہ اخلاق و کردار، جس میں خلق عظیم کی جھلک نظر آئے، وہ وسعت ظرفی، جس میں چھوٹے بڑے، سبھی سماجائیں، وہ وسیع نگاہیں، جن کی شفقت تلے ہر کس و ناکس چین کی سانس لے سکے، وہ فیاضی جس کے فیض سے ہر غریب و امیر فیض یاب ہوتا نظر آئے، حقیقی معنوں میں تواضع و انکساری کا پیکر بن جائے، کسی کو ذلیل کرنے یا کمتر دکھانے کی کوشش نہ کرے، حق سننے، حق کی اتباع اور حق گوئی و بے باکی میں لومۃ و لائم سے بے نیاز رہے، ڈرے تو صرف اللہ جل شانہ سے ڈرے، عفو و درگزر کو اپنی فطرت ثانیہ  بنائے اور اس طرح ایک انسان جتنے بھی بلند اخلاق و کردار  سے مزین ہوسکتا ہے، اپنے آپ کو مزین کرنے کی پوری کوشش کرے، مگر آج عام مسلمان تو عام مسلمان، عموما خواص کہلانے والے لوگ بھی، اس طرح کے عظیم اخلاق و کردار سے مزین ہونے کی تو بات دور، بنیادی فرائض و واجبات کے زیور سے بھی خالی و عاری نظر آتے ہیں، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، لیکن اس کے برعکس سلف صالحین عموما فرائض و واجبات تو چھوڑئے، وہ مستحبات کی بھی رعایت کرتے تھے اور  ایسے  بلند اخلاق و کردار کے مالک  ہوا کرتے تھے جن کی مثال، آج دنیا دینے سے قاصر ہے، جن کی بنیاد پر انہیں دنیا و آخرت میں  بلند مقام ملا اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ وہ مقام و مرتبہ ملے گا جس کا ہم اور آپ اندازہ نہیں لگاسکتے، انہیں سلف صالحین میں سے سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ذات والا صفات بھی ہے، آج کی اس بزم میں آپ کے پاکیزہ اخلاق و کردار کی روشنی میں اپنے معاشرہ کے اخلاقی زوال کا جائزہ لینے اور اس زوال کو چھوڑ کر عروج کی ترغیب دلانے کی کوشش کروں گا، اللہ تعالی ہمیں اور تمام مسلمانوں بالخصوص خواص کو فرائض و واجبات کی اداے گی کے ساتھ اعلی اخلاق و کردار سے مزین ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
            حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ نے سید زادے تھے مگر آپ نے سید زادے ہونے کے باوجود کبھی حسب و نسب پر فخر نہیں کیا اور نہ ہی اسی پر تکیہ کرکے زندگی گزارنے کی کبھی کوشش کی بلکہ ایک عالم و مربی کو جتنی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، آپ نے سب کو حاصل کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کما حقہ کوشش فرمائی، آپ کا یہ عمل آج کل حسب و نسب پر فخر کرنے والے لوگوں کے لیے تازیانہ عبرت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
            ’’حضرت امام سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ حسب و نسب کے اعتبار سے سید زادے بلکہ کریم الطرفین تھے، مگر آپ نے صرف اسی حسب و نسب کی بلندی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ نے اس نسب کو علوم و فنون کی مہارت کے ساتھ  ضم کیا اور اپنے آپ کو اپنے جد امجد حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے اخلاق سے مزین کیا، آپ کے سلوک کو اپنے لیے حرز جاں بنایا، یہاں تک کہ آپ اپنے زمانہ میں رشد و ہدایت کے سب سے بڑے مینار کی حیثیت سے معروف و مشہور ہوگئے‘‘۔  (قلادۃ الجواھر، امام محمد بن حسن رفاعی الخالدی، الباب الأول فی ذکر نسبہ الطاھر، ص۲۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
            لیکن اگر آج ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں؛ تو معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے، عموما لوگ حسب و نسب والے تو ہوتے ہیں مگر علوم و فنون سے خالی و عاری نظر آتے ہیں اور اخلاق و کردار میں پستی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے  ہیں اور جد و جہد و عمل پیہم کے بغیر محض پدرم سلطان بود کی بنیاد پر  علم، سرداری، قیادت اور حکومت میں دھمک وغیرہ، سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، مگر میں ایسے افکار و نظریات کے حاملین کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ اگر یہی سوچنے کا طریقہ کار رہا؛ تو یہ خواہش سراب کی طرح ہے، جو پانی تو باور کراتا ہےمگر پانی تک کبھی نہیں پہونچاتا، اگر کچھ حاصل کرنا ہے اور حکومت میں اپنا کچھ وجود دکھانا ہے؛ تو اس کے لیے سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چل کر اپنے آپ کو علوم و فنون سے مزین کرنا ہوگا اور ہر میدان میں محنت ولگن کے ساتھ کام  کرنا ہوگا، ایک دو دن، ایک دو ماہ، ایک دوسال نہیں بلکہ صدی، نصف صدی تک مسلسل مال و دولت اور خون و پسینہ کی قربانی دینی ہوگی، پھر جاکر کہیں کچھ حد تک مطلوبہ چیزیں حاصل ہوں گی، مگر ہم آرام پرست ہونے کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ بغیر تعلیم و تعلم، بغیر جد و جہد اور بغیر قربانی، ایک دو دن کے کھوکھلے نعرہ، ایک دو دن کے جلسہ، ایک دو دن کی میٹنگ وغیرہ سے سب کچھ حاصل ہوجائے، این محال است محال۔
            حضرت سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ بے نیازی، سر جھکاکر چلنے اور بہت ساری صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ سے مزین تھے، ذرا پڑھیں:
            ’’حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ و الرضوان کھانے کی خوراک کم رکھتے تھے، نفس میں بے نیازی تھی، ایک دوسرے سے ملنے جلنے میں بلند اخلاق کے پیکر نظر آتے تھے، ہمیشہ سر جھکائے رکھتے تھے، آپ کے اندر حلم و بردباری بہت زیادہ تھی، دوسرے کے راز کو چھپاتے تھے، وعدہ کی امانت کا بھر پور خیال رکھتے تھے، بدلہ کے اعتبار سے نہیں بلکہ دینے  اور منع کرنے والے، ہر ایک کے ساتھ صلہ رحمی کرتے تھے، ظلم کرنے والے کو معاف کردیا کرتے تھے، پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک پیش فرماتے تھے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے اور ننگوں کو کپڑا پہناتے تھے، نیک و صالح ہر مریض کی عیادت کرتے تھے، جنازہ کے ساتھ جانے میں کسر شان نہیں سمجھتے تھے، غریب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھتے تھے، مسکینوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، دشمن کو بھی نصیحت فرماتے تھے، مسلم سے ملاقت پر سلام میں پہل کرتے تھے اور اپنی حاجت پر دوسروں کو مقدم رکھتے تھے‘‘۔  (قلادۃ الجواھر، الباب الثالث فی ذکر أخلاقہ الذکیۃ و سیرتہ المرضیۃ، ص۵۲)
            حضور سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ کے یہ صفات و کمالات اور بلند اخلاق و کردار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلی صفات و کمالات اور اخلاق و کردار کے آئینہ دار ہیں، مگر دور حاضر میں مسلمانوں کے صفات و کمالات اور اخلاق و کردار کا آئینہ دار ہونا تو دور کی بات، ان کے اندر ان کی رمق بھی ختم ہوتی جارہی ہے، عموما نفس سے بے نیازی کافور ہوچکی ہے، ایک دوسرے سے کیسے ملا جاتا ہے، اس کے آداب ختم ہوتے جارہے ہیں، دوسرے کے چھپے ہوئے عیوب کو برسر عام بیان کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں، امانت میں خیانت کا دور دورہ ہے، پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک بھول چکے ہیں اور آپس میں سلام جیسی عظیم نعمت کا رواج عام لوگوں کے درمیان سے ختم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ ہائے اور ہیلو لیتے نظر آرہے ہیں، نیز سلام میں پہل کرنا کسر شان سمجھا جانے لگا ہے، مسلمانو! آپ اپنی ذات کو سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ذرا دیکھو، وہ اخلاق و کردار کے کس بلند مقام پر کھڑے ہیں اور آپ اخلاق و کردار کی کس پستی میں جاکر پھنسے پڑے ہو،مسلمانو! اس پستی سے نکل کر سید احمد کیر رفاعی علیہ الرحمۃ کا دامن تھام لو اور ان کے اخلاق و کردار کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرو، ان شاء اللہ ہمارا معاشرہ بھی اچھا ہوگا اور ہمیں قلبی سکون و اطمینان بھی حاصل ہوگا۔
            حضرت سدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ اپنی ہر بات کو شریعت کے ترازو میں تولنے کے بعد ہی بولتے تھے؛ کیوں کہ آپ کو معلوم تھا کوئی ایک غلط کلمہ بھی آپ کو تباہی کے دہانے پر لے جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی آپ کے اندر اللہ تعالی نے بہت ساری خوبیاں ودیعت فرمائی تھی، ملاحظہ فرمائیں:
            ’’حضور سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ جب گفتگو کرنا چاہتے؛ تو گفتگو کرنے سے پہلے میزان شریعت پر تولتے، اگر اس گفتگو میں اصلاح ہوتی تو گفتگو کرتے ورنہ ترک کردیتے، آپ کو ایک سانس بھی بے  کار گنوانا پسند نہیں تھا، آپ فرماتے تھے: جو شخص بےکار کی باتوں یا کاموں میں لگا وہ اپنی کار آمد چیزیں بھی کھودےگا، نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد آپ دنیا کی کسی چیز میں مشغول نہیں ہوتے، ایک مرتبہ آپ پانی پی رہے تھے کہ اذان ہونے لگی، آپ نے فرمایا: حق کے حق کا وقت آگیا اور نفس کے حق کا وقت ختم ہوگیا، نماز میں رب تعالی کے خوف سے آپ کا چہرا زرد پڑجاتا تھا، آپ نماز اِشراق وغیرہ کی بھی پابندی کرتے تھے، آپ پر رونے کا غلبہ زیادہ ہوتا تھا اور فرحت و انبساط کی طرف کم ہی توجہ فرماتے تھے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۳)
            یہاں پر بھی آپ کا ہر کردار اور آپ کا ہر اقدام ہمیں یہی بتاتا ہے کہ آپ ہر جگہ شریعت اسلامیہ کی حد درجہ پاسداری کرتے تھے، اور فرائض و واجبات تو دور کی بات سنن و نوافل سے بھی سرمو انحراف کرنا گوارا نہیں کرتے تھے، مگر آج صبح و شام بلکہ ہر آن شریعت اسلامیہ کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں، سنن و نوافل تو الگ رہے، فرائض و واجبات ادا کرنے سے بھاگتے ہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ علما عاملین کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، جب نماز کا وقت آتا ہے؛ تو عالم مسجد کی طرف اور بیٹھنے والا اپنے گھر یا اپنے کسی دنیوی کام کی طرف نکل جاتا ہے، کہنے سننے کے باوجود بھی پتھر دل پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور ایسے ایسے عذر پیش کرتے ہیں کہ عذر شرما جائے مگر ان کو رب تعالی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرم و حیا نہیں آتی اور نہ عالم کی بات رکھنے ہی کی خاطر ان کے قدم مسجد کی طرف بڑھتے ہیں، مسلمانوں کی یہ وہ حالت ہے جس پر خون کے آنسو بہائے جائیں تو بھی کم ہے، امت مسلمہ کی یہ حالت دیکھ کر ہر درد مند دل غمزہ ہوجاتا ہے، اس کا دل سوکھنے لگتا ہے مگر ان کا مردہ دل بے دار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا، ان کا مردہ ضمیر بے داری کا ثبوت نہیں دیتا، اس کے بعد شکایت ہوگی کہ ہمارے گھر میں لوگ بیمار ہیں، کمائی میں برکت نہیں ہے، مسلمان پریشان ہیں، شکایتوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے، مگر اپنے اندر جھانکنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ بولنے پر آئیں گے تو ہر فحش بات کانوں سے ٹکراتی نظر آئے گی، وقت ضائع کرنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے اور فرائض و واجبات چھوڑنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔
نہ سدھروگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو
تمہاری   داستاں   تک   نہ    ہوگی  داستانوں   میں
            حضور سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ صرف اسلامی اخلاق و کردار کی اتباع کرنے والے ہی نہیں بلکہ آپ اخلاق و کردار کے سراپا پیکر تھے اور آپ یہ آداب سیکھنے میں چھوٹے بڑے کے درمیان تفریق نہیں کرتے تھے، بلکہ چھوٹا بڑا جس سے بھی کچھ سیکھنے کو ملا وہ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے، واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
            ’’آپ ایک دن چھوٹے بچوں کے پاس سے گزر رہے تھے اس حال میں کہ وہ جھگڑ رہے تھے، آپ نے ان کے درمیان سے جھگڑا ختم کیا اور ان میں سے ایک لڑکے سے فرمایا: تم کس کے لڑکے ہو؟ لڑکے نے جواب میں کہا: آپ کا اس سوال سے کیا مقصود ہے؟ حضور سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اے بچے! تونے سچ کہا، ادب سکھانے کے بدلہ میں اللہ تعالی تمہیں جزائے خیر دے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۳)
            اللہ اکبر! حضور سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کا یہ وہ بلند اخلاق اور بچے سے ادب سیکھنے کا وہ انداز ہے جس کی مثال آج شاید ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی، ہمیں یہاں ذرا ٹھہر کر غور کرنا چاہیے  اور اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے اندر اس طرح اعلی معیار کے اخلاق پائے جاتے ہیں، کیا ہمارے اندر بھی اس طرح کا صبر و تحمل اور ایک بچے سے ادب سیکھنے کا معیار پایا جاتا ہے، اس طرح کا معیار تو الگ بات ہے، اس طرح کے معیار کا عشر عشیر بھی ہمارے اندر نہیں پایا جاتا، مسلمانو! کچھ سیکھنے کے لیے چھوٹا بڑا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اپنے اندر کچھ سیکھنے کا جزبہ صادقہ موجزن کرنا چاہیے؛ تاکہ جب اور جس وقت اور جس سے بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے، سیکھ لو، فائدہ ہی دے گا، حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ہر آن اور ہر لمحہ کچھ سیکھنا چاہیں؛ تو ہر آن اور ہر لمحہ ہر کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ ہم کچھ سیکھنے کی ٹھان لیں، زندگی ہر لمحہ ہمیں کچھ نہ کچھ درس دیتی اور کچھ نہ کچھ سکھاتی ہوئی دکھائی دے گی۔
            حضرت سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ  کی ذات اَنانیت و ہٹ دھرمی سے بالکل پاک و صاف تھی؛ اسی لیے آپ کسی کو بلاوجہ مصافحہ کرنے سے نہیں روکتے تھے، ملاحظہ فرمائیں:
            ’’ کوئی شخص اگر آپ سے مصافحہ کرنا چاہتا تھا؛ تو آپ اس سے اپنے ہاتھ کھینچتے نہیں تھے،البتہ اگر کوئی آپ کا ہاتھ چومنا چاہتا تھا؛ تو آپ اسے چومنے نہیں دیتے تھے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۴)
            مگر اس کے برعکس:
’’جب آپ کسی مسلم بزرگ شخص کو دیکھتے؛ تو آپ اس کے ہاتھ کو چومتے، اس کی تعظیم کرتے، اس کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے اور ان سے دعا کی گزارش کرتے، نیز جب وہ آتے؛ تو ان کے لیے آپ کھڑے ہوجاتے اور کبھی کبھی دو چار قدم ان کی طرف بڑھتے، اور کبھی کبھی فرماتے: اللہ تعالی اس بزرگی کی تکریم فرمائے، نیز جب کسی مطیع و فرماں بردار نوجوان کو دیکھتے؛ تو اس کا ہاتھ چومتے، اس کو اپنا قرب عطا کرتے اور اس سے کہتے: تم نوجوان توبہ کرنے والوں میں سے ہو، تم میرے لیے دعا کرو، اسی طرح جب کسی بچہ کو دیکھتے؛ تو اس کو بھی بوسہ دیتے اور اس کو اپنا قرب عطا کرکے، اس سے دعا کی درخواست کرتے اور فرماتے: مسلمان بچے جب تک بالغ نہ ہوجائیں، فرشتے ان کی کوئی غلطی نہیں لکھتے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۵)
لیکن آج کے دور میں دیکھیے، کتنے ایسے لوگ ملیں گے جو تھوڑی تھوڑی بات پر بلاوجہ شرعی سلام و کلام اور مصافحہ بند کردیتے ہیں بلکہ مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا جائے؛ تو ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور ایسے لوگوں کی وافر مقدار ملے گی جو ہر وقت اپنے ہاتھ پاؤں کا بوسہ دلانے کے لیے بےقرار رہتے ہیں، مگر سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کی وہ ذات بابرکت ہے کہ مصافحہ کرنے والے سے ہاتھ نہیں کھینچتے اور بڑے بزرگ تو بڑے بزرگ، نیک نوجوان لوگوں کا بھی ہاتھ چومتے تھے، اگر اتنی بڑی شخصیت اس قدر عاجز و انکساری کا پیکر بن کر سامنے آتی ہے؛ تو آج کل کے لوگ جن کی حیثیت، ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے بہت کم ہے، انہیں بدرجہ اولی آپ کے نقش قدم پر چل کر عاجزی و انکساری کا پورا مظاہرہ کرنا چاہیے؛ تاکہ اللہ تعالی انہیں خوب بلندیاں عطا فرمائے اور کبھی بھی بلاوجہ شرعی، محض اَنا کی خاطر، کسی مصافحہ کرنے والے کے ہاتھ کو واپس نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی کبھی بوسہ دلانے کے فراق میں رہنا چاہیے اور اگر کوئی ہاتھ نہ چومے تو اس کی وجہ سے دل شکستہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
ایک انسان کو ہر حال میں سچ ہی بولنا چاہیے، مہمان کے لیے بلاوجہ تکلفات میں نہیں پڑنا چاہیے، نہ ہی بلاضرورت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا چاہیے نیز ایک عورت کو جائز امور میں اپنے شوہر کی اطاعت کرنی چاہیے، ان ساری چیزوں کے متعلق سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے اوصاف حمیدہ ملاحظہ فرمائیں:
’’آپ رضا و غضب، ہر حالت میں سچ ہی بولتے تھے، آپ کسی شخص کا اپنے مہمان کے لیے تکلف کرنا، ناپسند فرماتے تھے، نیز لوگوں کا مانگنا بھی آپ کو معیوب معلوم ہوتا تھا، البتہ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو کمانے پر قادر نہیں؛ تو بقدر ضرورت اس کےمانگنے کو روا رکھتے تھے، عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت کی طرف رغبت دلاتے تھے اور آپ کسی کے جھوٹ بولنے کو بہت بعید سمجھتے تھے‘‘۔ ملخصا (قلادۃ الجواھر، ص۵۴)
مگر آج عموما لوگ غصہ میں آکر سچ کا دامن چھوڑتے نظر آتے ہیں، عموما لوگوں کے درمیان مہمانوں کے لیے بے جا تکلفات کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا جارہا ہے، عام طور سے بلاسبب لوگ ہاتھ پھیلاکر اپنے آپ کو ذلت و رسوائی سے دو چار کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ مقررین و نعت خواں حضرات، جنہیں بغیر مانگے، اللہ تعالی بندوں کی طرف سے نذرانہ وغیرہ دلاکر عزت و وقار دیتا ہے، آج وہی لوگ نذرانہ کے نام پر گناہ کی تجارت کرکے اپنے آپ کو عزت دینے کے بجائے، مانگنے کی ذلت و رسوائی کے جال میں پھنساتے چلے جارہے ہیں، عجیب حال ہے کہ اللہ تعالی انہیں عزت دینا چاہ رہا ہے اور ہم ہیں کہ مانگ مانگ کر عزت کے بدلے میں ذلت و رسوائی خرید رہے ہیں اور آج کل کی عورتوں کی حالت بھی دِگر گوں ہے، عموما یہ لوگ اپنے شوہر کی نافرمانیاں کرتی نظر آتی ہیں اور جائز امور میں بھی ان کی اطاعت کو باعث ننگ و عار سمجھتی ہیں۔ اگر آج ہم اپنے اندر کچھ سدھار چاہتے ہیں؛ تو ہم پر لازم ہے کہ حضرت سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کی تابناک زندگی کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں، ان شاء اللہ کامیابی قدم چومے گی۔
حضرت سید احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع سنت سے عبارت ہے، آپ نے اپنی پوری حیات مستعار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاری اور انہیں کے طریقہ کار کو جو حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہی طریقہ ہے، زندہ کرنے اور اسی کو ہر جگہ نافز کرنے کی سعی مسعود فرمائی، ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آثار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار کی اتباع کرنے والے تھے، آپ ان کے کتاب و سنت کے طریقہ کار سے خروج نہیں فرماتے تھے، آپ کا مقصود ان کی سنت کو زندہ کرنا، ان کے طریقہ کار کو نافذ کرنا اور ان کے سلوک کو واضح کرنا تھا، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس قول پر عمل کرتے تھے: ((اللہ تعالی میرے خلفا پر رحم فرمائے)) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے تین مرتبہ فرمایا، عرض کیا گیا: آپ کے خلفا کون ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((میرے خلفا، وہ لوگ ہیں جو میری سنت کو زندہ کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے بندوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں))‘‘۔ (قلادۃ لجواھر، ص۵۶)
لیکن دور حاضر میں اس کے برعکس عوام تو عوام، بہت سارے علما و خواص سنت تو سنت بلکہ فرائض و واجبات سے منحرف نظر آتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے نقش قدم کو چھوڑتے دکھائی دے رہے ہیں، اس طرح سنت نبوی اور سنت صحابہ کو زندہ کرنے کا سبب بننے کے بجائے، ایک طرح سے اس کو پردہ خفا میں لے جانے کا سبب بن رہے ہیں، یقینا یہ طریقہ سلف صالحین کا کبھی نہیں تھا، آج نہ جانے کتنے لوگ انہیں کے نام پر اپنی زندگی کی ناؤ پار لگارہے ہیں مگر ان کے طریقہ کار کی بات آجائے؛ تو اس سے کوسوں دور نظر آرہے ہیں، یہ بہت بڑی ناانصافی اور ہٹ دھرمی ہوگی کہ ہم انہیں کے نام پر کھائیں اور انہیں کے نقوش قدم سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کریں، ابھی بھی وقت ہے، ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے ورنہ ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے ایمانی قوانین کا گلا گھوٹتے نظر آئیں گے، جس کا نتیجہ  یقینا بہت برا ہوگا،  اللہ تعالی ہمیں سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ ہر قول و عمل میں صرف اللہ تعالی کی رضا چاہتے تھے، جس کا بہترین ثمرہ یہ ملا کہ آج انہیں پوری دنیا چاہتی ہے، آپ نے تواضع و انکساری کو کاسہ لیسی کے قعر مذلت میں نہیں جانے دیا اور غصہ کو چھپایا تو پوری وسعت قلبی کے ساتھ چھپایا، آپ کی سوچ یہ تھی کہ رب تعالی راضی ہوگیا تو ساری پریشانیاں دور ہوگئیں اور اس کی رحمت سے دور ہوگئے؛ تو ہر پریشانی کا دروازہ کھل گیا، دل کی نگاہ سے پڑھنے کی کوشش کریں:
’’آپ نے ہمیشہ حق کی اتبا ع کی اور آپ ہمیشہ سچائی کو لازم پکڑے رہے، آپ آخری دم تک اپنے سارے احوال، اقوال اور افعال میں صرف اللہ تعالی کی رضا چاہتے رہے۔۔۔۔۔آپ بغیر ضرورت و حاجت لوگوں سے تواضع و انکساری سے پیش آتے تھے، تنگ دلی کے بغیر غصہ چھپاتے تھے، آپ فرماتے تھے: جب میرا رب مجھ سے راضی ہوجائے؛ تو میری مصیبتیں ہلکی ہوگئیں اور اگر اس نے مجھے اپنی رحمت سے دور کردیا؛ تو میری مشکلیں بڑھ گئیں‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۶)
یہ ہے حضرت سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کا عملی کردار لیکن عموما آج کا بندہ، صرف بندے کی رضا چاہتا ہے، جس کا بدترین ثمرہ ہمارے سامنے ہے کہ ہمیں آج کی دنیا پہچاننے سے انکار کر رہی ہے، آج لوگ تواضع و انکساری کی آڑ میں اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، یہی وجہ کہ حق و باطل ہر جگہ ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اس طرح سے اس عظیم کردار پر چاپلوسی و کاسہ لیسی کی چادر چڑھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں، رب تعالی راضی ہے یا نہیں، اس کی کوئی پرواہ نہیں، بس باپ، ماں، بچے اور جس کے ماتحت ہیں، وہ راضی رہے، یہی بس ہے، حالاں کہ اگر ماتحتی کی بات کی جائے؛ تو حقیقت میں پوری دنیا  بلکہ سب کچھ رب تعالی کی ماتحتی میں ہے؛ اس لیے اسی کی رضا جوئی ہونی چاہیے، مگر افسوس کہ آج کا انسان اپنے مالک حقیقی سے غافل و عاطل اور دو کوڑی کے لوگوں سے واقف اور ان سے خائف نظر آتا ہے، ایسی زندگی و سوچ پر اُف اور تُف ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ابھی اور اسی وقت ہوش میں آئیں اور ہر کام و بات میں رب کی رضا تلاش کریں، تواضع و انکساری کو تواضع و انکساری ہی رہنے دیں، اسے کاسہ لیسی کے دلدل میں نہ ڈھکیلیں، ان شاء اللہ کامیابی قدم چومے گی اور دنیا و آخرت، دونوں تابناک ہوگی۔
حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ عالم دین،  فقیہ و محدث ہونے کے ساتھ باعمل اور بہت بڑے صوفی بھی تھے، آپ کی ذات ہم کلام ہو یا خاموش، بہر صورت قوم کو فائدہ پہونچاتی تھی، آپ کا بھروسہ صرف اللہ تعالی پر ہوتا تھا، آپ کے نزدیک مال و مخلوق پر بھروسے کی کوئی اہمیت نہیں تھی، آپ عبرت کی نگاہ سے مندرجہ ذیل سطور پڑھنے کی کوشش کریں:
’’حضور سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ فقیہ، پرہیزگار، عالم، بہترین قاری اور محدث بھی تھے، آپ کو عالی روایات کی اجازت حاصل تھی، جب آپ کلام کرتے؛ تو بہترین انداز میں کرتے اور جب خاموش رہتے؛ تو بھی فائدہ پہونچاتے۔۔۔۔۔تمام امور میں، تنہائی اور مجمع عام، ہرجگہ صرف اللہ تعالی کی ذات پر ہی بھروسہ کرتے تھے، آپ فرماتے تھے: جس نے مال پر بھروسہ کیا، اس کا مال کم ہوا، جس نے مخلوق پر بھروسہ کیا، وہ ذلیل ہوا اور جس نے رب تعالی پر بھروسہ کیا، وہ جلیل القدر ہوا‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۷)
لیکن اگر دور حاضر کا جائزہ لیا جائے؛ تو ہر گلی و کوچے میں عالم کہے جانے والے لوگ نظر آئیں گے مگر ان کے علمی صلاحیت کا دیوالیہ واضح طور پر نظر آئے گا، عملی اقدار و روایات کا جنازہ نکلتا دکھائی دے گا، کلام کریں گے؛ تو بے فائدہ اور خاموشی کسی عظیم فتنہ کا پیش خیمہ دکھائی دے گی، آج مال و مخلوق پر ہی بھروسہ سب کچھ ہے، حالاں کہ مال پر بھروسہ کرنے والا اپنے مال میں کمی لاتا ہے اور خالص مخلوق پر اعتماد کرنے والا ذلیل و رسوائی سے دو چار ہوتا ہے، آپ اپنے اِرد گِرد نظر ڈالیں گے؛ تو آپ کو اس کی مثالیں کثرت سے مل جائیں گی، لیکن اگر اس کے برعکس کوئی اپنے رب تعالی پر اعتمادِ کامل کرکے اسباب کو استعمال کرتا ہے؛ تو وہ دنیا و آخرت، ہر جگہ قدر و عظمت والا ہوجاتا ہے، مگر عجیب کہ لوگ اپنے عظمت و رفعت والے راستے سے غافل اور ذلت و رسوائی سے دو چار کرنے والے راستے سے چپکے ہوئے ہیں۔
            ہر مسلم بالخصوص ایک عالم اور صوفی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا قول و عمل ایک جیسا ہو ، ایسا قطعا نہیں ہونا چاہیے کہ قول و عمل میں تضاد نظر آئے، حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ اس عمل کے مکمل آئینہ دار تھے، ملاحظہ فرمائیں:
’’جب آپ کوئی بات کہتے؛ تو کام اسی کے موافق ہوتا اور آپ کا قول آپ کے فعل کی مخالف نہیں ہوتا تھا‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۷)
مگر آج عوام و خواص، سب کا عجیب و غریب حال ہے، عام طور سے لوگ قول و عمل میں تضاد کے شکار ہیں، قول تو نماز کی پابندی کا ہوگا مگر خود پابندی نہیں کریں گے، کلام تو عوج ثریا پر لے جانے والا ہوگا مگر عوج ثریا پر لے جانے والے اسباب مہیا کرنے کی کوشش تک نہیں کریں گے اور بات تو اسلام کی عظمت و رفعت کی کریں گے مگر خود اپنے ہاتھوں ہی اسلام کی بنیادوں کو پس پشت ڈالتے نظر آئیں گے اور حد تو یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان اس طرح کی باتوں کو جرم بھی نہیں سمجھا جاتا! اللہ تعالی قوم مسلم کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔
آپ ذرا مندرجہ ذیل واقعہ کی روشنی میں حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے  صبر و تحمل اور آپ کے اعلی اخلاق و کردار کا جائزہ لیں، دل مچل جائے گااور اگر کچھ کرگزرنے کا ارادہ ہوگا؛ تو آپ بھی اس طرح کا صبر و تحمل اپنے کردار میں سمونے کی پوری کوشش ضرور کریں گے، ملاحظہ کریں:
’’ایک مرتبہ ایک شخص آپ کو نماز مغرب کے بعد اپنے گھر لے گیا اور حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ کو دروازہ پر روک کر اندر چلا گیا؛ تاکہ بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ تیار کرسکے، لیکن اندر جانے کے بعد وہ شخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ مشغول ہونے کی وجہ سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کو بھول گیا، جب کھانے کے بعد نماز عشا  کے لیے نکلا؛ تو حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ کو دروازے پر کھڑا پایا، افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس شخص نے اپنا سرکھولا او ر عرض کیا: خدا کی قسم سیدی، میں آپ کو بھول گیا، آپ نے فرمایا: جو بھی ہوا بہتر ہی ہوا، ہم چل کر عشا کی نماز پڑھتے ہیں پھر کھانا کھالیں گے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۸)
سب لوگ خاص کر علما و خواص  ذرا سرجھکار اس واقعہ کے متعلق غور و فکر کریں اور آج کل کے ماحول کا جائزہ لیں، آپ کو پتہ چلے گا کہ اگر یہ صورت حال آج کل کسی کے ساتھ پیدا ہوجائے؛ تو وہ بدگمانیوں کا خوگر ہونے کی وجہ سے یہی سوچے گا کہ بلاوجہ بلالیا، ارے جب گھر میں بیٹھانا ہی نہیں تھا؛ تو بلانے کیا ضرورت تھی، کوئی صاحب خانہ کے کھانے کا بھوکا تھوڑی ہے وغیرہ، ایک لمحے کے لیے شاید ہی کسی کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ ہوسکتاہے کوئی مجبوری پیش آگئی ہو یا انسانیت و بشریت کے تقاضا کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ  بھول گیا ہو، اس طرح کی بات ذہن میں نہیں آئے گی؛ کیوں کہ ہمارا معاشرہ صرف منفی سوچ کا خوگر ہوگیا ہے اور افسوس یہ کہ صرف سوچتا ہی نہیں بلکہ اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہے، اسے اتنی فرصت کہاں کہ وہ ایک مسلمان بھائی کے لیے اتنا اعلی اخلاق و کردار اور صبر و تحمل  کا مظاہرہ کرے اور مثبت سوچ رکھے اور اگر سوچ نہیں سکتا؛ تو کم از کم اس منفی سوچ کے مطابق عملی اقدام نہ کرے،  مگر حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کی ذات پر قربان جائیے کہ آپ مغرب سے عشا تک صاحبِ خانہ کے دروازے پر کھڑے رہے لیکن آپ نے اف تک نہ کیا، نہ ہی آپ بدگمانی کے شکار ہوئے، نہ ہی آپ نے دروازہ پیٹا، نہ ہی آپ نے آواز دی اور نہ ہی بلا اجازت گھر میں داخل ہونے کو روا سمجھا، بزرگان دین کا نام لینے والو! صرف بزرگان دین کا نام لینے سے ترقی نہیں ملتی اور نہ ہی صرف صوفیت کا دعوی کرنے سے دنیا و آخرت سنورتی ہیں بلکہ یہ چیزیں اسی وقت حاصل ہوتی  ہیں جب ایک انسان ان حضرات کے عملی کردار کا پیکر بنتا ہے اور زبان کے موافق اس کا کردار بھی ہر چہار سو جگمگاتا نظر آتا ہے؛ اس لیے آج ہمیں زبان کے بجائے کردار کا غازی بننے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ حقیقت میں عملی کردار ہی کا اعتبار ہوتا ہے، صرف زبان و بیان کا کوئی اعتبار نہیں۔
آج کل علماے عظام  و پیران کرام وغیرہ کی ماشاء اللہ دعوت وغیرہ بہت ہوتی ہے اور لوگ انہیں خوش دلی سے کھلاتے پلاتے بھی ہیں، تمام حضرات خاص کر علما و پیران کرام حضرات کو یہ واقعہ ذرا عبرت کی نگاہ سے پڑھنا چاہیے:
’’ایک فقیر نے حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ کو دعوت دی، آپ اس کی دعوت قبول کرکے حاضر ہوگئے مگر ان کے گھر کچھ کھانے کو نہیں تھا، فقرا میں سے کسی نے کہا: جب تم کو ہمیں کھانا نہیں کھلانا تھا؛ تو پھر تمہارا ہمیں بلانے کا مقصد کیا تھا؟ اس نے کہا: آپ حضرات کو بلایا ہے تاکہ آپ حضرات کی برکت سے اللہ تعالی ہمیں رزق عطا فرمائے اور ہم کھائیں، حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ نے اس کو کچھ دیا پھر سب باہر نکل گئے، اللہ تعالی نے حضرت کی اِس عطا کی برکت سے اس فقیر کو ڈھیر سارا مال عطا فرمایا‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۵۹)
اللہ اکبر! حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کی یہ بلند شان کہ آپ اپنی زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں لائے بلکہ شکایت کے بجائے دعوت دینے والے کی مدد فرمائی اور آپ کی اس مدد سے وہ دعوت دینے والا مالدار ہوگیا، مگر آج بہت سارے علماے عظام اور پیران کرام کی ناگفتہ بہ حالت ہوچکی ہے، کھانا نہ ملنا؛ تو دور کی بات ہے، اگر کہیں سالن انیس بیس ہوگیا؛ تو ناراض ہوجاتے ہیں، بکرے کے بجائے مرغہ مل گیا؛ تو چہرے کا جغرافیہ بگڑنے لگتا ہے، کھانے کے اقسام میں کچھ کمی رہ گئی؛ تو بھبتیاں کسنے لگتے ہیں، گویا کہ آں جناب عالم و پیر نہیں بلکہ پیٹ کے پجاری ہیں! ایسے اخلاق و کردار سے کبھی کبھی بہت افسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ دین کے رہبر اور تصوف کی علامت تھے، وہ آج پیٹ کے پجاری اور تصوف کے نام پر کلنک ہوچکے ہیں، ہمیں اپنا یہ طریقہ کار چھوڑنا ہوگا اور اپنے پیٹ کی فکر کرنے کے بجائے اصل مقصد یعنی دعوت و تبلیغ پر نگاہ رکھنی ہوگی؛ کیوں کہ آنے والی نسل یہ نہیں دیکھے گی کہ آپ نے کیا کھایا اور آپ نے کیا چھوڑا بلکہ یہ دیکھے گی کہ آپ نے کیا کردار ادا کیا، آپ نے تبلیغ کہاں تک کی، آپ نے اپنی وسعت کے مطابق اپنی صلاحیت کا حق ادا کیا یا نہیں؟! اگر یہی صورت حال رہی؛ تو آنے والی نسلوں کے سامنے ایسے لوگوں کا چہرا دھندلا پڑجائے گا، وہ یہی کہیں گے کہ انہوں نے صرف پیٹ پالا اور رخصت ہوگئے، انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی؛ کیوں کہ اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے والے کو کبھی تاریخ معاف نہیں کرتی۔
حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ نفس کی شرارت سے ہمیشہ متنبہ رہتے تھے اور  آپ بہت  کشادہ قلب بھی تھے؛ یہی وجہ ہے کہ کسی کی تعریف سے اتراتے نہیں تھے اور نہ کسی کے نقص و عیب پر متنبہ کرنے کی وجہ سے کبیدہ خاطر ہوتے تھے بلکہ اپنے آپ کو خادم ہی سمجھتے تھے اور ظاہر سی بات ہے کہ ایک خادم ہمیشہ اپنی اصلاح کے لیے تیار رہتا ہے اور اصلاح کو کبھی بھی اَنا کا مسئلہ نہیں بناتا ہے، پڑھیں اور عمل کرنے کی کوشش کریں:
’’اگر لوگ میری تعریف کریں اور میں اپنے اندر نقص پاتا ہوں؛ تو ان کی تعریف مجھے کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گی اور اس نقص کی وجہ سے ان کی مذمت مجھے کوئی ضرر نہیں پہونچائے گی اور اللہ تعالی سے ان کے حق میں اصلاح کی خواہش کروں گا‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۱)
اسے بھی ذار غور سے پڑھیں اور دل کو آواز دیں کہ سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چل کر تعریف کرنے والے کی تعریف یا اصلاح کرنے والے کی اصلاح پر آپ کا کیا رد عمل ہوتا ہے؟! پڑھیں اور سوچیں:
’’حضرت سید احمد کبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر میری داہنی طرف میرے سب سے زیادہ محبوب پانچ سو لوگ خوشبو وغیرہ کے پنکھے سے پنکھا جھلیں اور انہیں کے مثل میری بائیں طرف میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ لوگ قینچیوں سے میرے گوشت کاٹیں؛ تو وہ لوگ اپنے اس فعل کی وجہ سے نہ تو میرے پاس کچھ اضافہ کریں گے اور نہ ہی یہ لوگ میرے پاس کچھ کمی کریں گے، پھر آپ نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
﴿لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾ (الحدید:۵۷، آیت: ۲۳) ترجمہ: ((اس لیے کہ غم نہ کھاؤ، اس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو، اس پر جو تم کو دیااور اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اترونا، بڑائی مارنے والا)) (کنز الایمان)
میں  نے خدمت اختیار کی ہے پھر خادم کے لیے خادم کیسے ہوسکتا ہے؟!۔۔۔۔۔جب آپ سے کوئی گفتگو کرتا اگرچہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو؛ تو آپ اس کی بات پوری توجہ سے سنتے اور آپ چھوٹے و بڑے سب کو سلام کرتے تھے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۲)
حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ و الرضوان کشادہ قلبی کے اعلی درجے پر فائز تھے؛ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کے درمیان اپنے عیب کے بارے میں پوچھتے تھے؛ تاکہ آپ اپنے عیب کو اپنے سے دور کرسکیں، مگر کوئی آپ کے کسی عیب پر متبنہ کرنے سے قاصر رہتا اور اگر کوئی بطور تلمیح کسی ایسے عیب کی طرف اشارہ کرتا جو حقیقت میں عیب نہیں؛ تو آپ اس پر بھی روپڑتے اور اپنے نفس کا ہی قصور سمجھتے، ذرا اس واقعہ کے دل دریچے کو کھول کر پڑھیں:
’’ایک دن حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ فقرا کے درمیان حاضر تھے، آپ نے  فرمایا: اگر تم میں سے کوئی میرے کسی عیب کو جانتا ہے؛ تو مجھے اس عیب کے بارے میں بتائے، آپ نے یہ بات کئی بار کہی مگر کسی نے زبان نہیں کھولی، پھر شیخ فاروثی طاب ثراہ نے کہا: اس جماعت میں میرے سوا آپ کے عیب کو کوئی  جاننے والا نہیں، حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی تمہیں جزائے خیر دے، وہ عیب بتاؤ تاکہ میں اس عیب سے دور ہوجاؤں، آپ نے کہا: آپ کا عیب یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ آپ کے شاگرد ہیں، اگر ہم نے آپ کے ساتھ حق قبول کرلیا؛ تو آپ میں کوئی عیب نہیں اور اگر ہم نے حق رد کردیا؛ تو یہ آپ کا عیب ہے، اس پر حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ اور تمام حاضرین رونے لگے‘‘۔(قلادۃ الجواھر، ص۶۴)
مگر آج کا انسان بلکہ بہت سارے بڑے بڑے خواص صرف تعریف سننے کے خوگر ہوچکے ہیں؛ جس کی وجہ  سے ان کی شخصیت سنورنے کے بجائے بگڑتی چلی جارہی ہے، ان کے ذریعہ جو کام ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوپارہا ہے، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ درخت کو جنتا ہی کانٹا چھاٹا جائے، وہ اتنا ہی سنورتا ہے اور اس کے اندر پھل پیدا کرنے کی صلاحیت اتنی ہی زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے، اسی طرح ایک انسان کی جتنی زیادہ اصلاح ہوتی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ سنورتا و نکھرتا چلا جاتا ہے اور اس کے اندر بہترین طریقہ سے کام کرنے کی صلاحیت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے، مگر جہاں اصلاح کا بندھن ٹوٹا، وہیں سے اس کی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ  وہ سوچنے لگے گا کہ مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوتی، میں بالکل دودھ کا دھلا ہوا ہوں، میں تو پارسائی کے اعلی درجہ پر فائز ہوں، جہاں یہ فکر سرایت کی، وہیں سے زوال کی گنتی شروع ہوگئی، اب نہ بننے کا ہے اور نہ سدھار لانے کا کوئی موقع ہے، بس ہم ہی ہم ہیں، اگر دور حاضر میں ہم کچھ کردکھانا چاہتے ہیں؛ تو ہمیں سیدی احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تعریف کرنے والے کی تعریف سے اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا اور اصلاح کرنے والے کی اصلاح قبول کرنی ہوگی، و اللہ، اگر یہ صورت حال پیدا ہوجائے؛ تو مدارس سے لے کر خانقاہوں تک اور میدان خطابت سے لے کر میدان نظامت تک ہر شعبہ اپنی مثال آپ ہوگا۔
حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ اپنے ماننے والوں کی کثرت سے کبھی دھوکا نہیں کھاتے تھے، نہ ہی کبھی اسے بہت اہمیت دے کر حد سے تجاوز کرتے تھے بلکہ اسے آزمائش یا شیطان کا دھوکا سمجھ کر اپنے نفس کو پورے طور سے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش فرماتے تھے، پڑھیں اور عبرت حاصل کریں:
’’حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ ایک دن مشہور گاؤں ’ویرجون‘ میں حاضر ہوئے؛ تو واسط سے بہت سارے لوگ آپ کی زیارت اور آپ سے تبرک حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے، سیدی یعقوب طاب ثراہ کو اس قدر کثیر مجمع کی وجہ سے تعجب ہوا، آپ نے حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ سے عرض کیا: یہ اتنی بڑی بھیڑ کیسے ہے؟ آپ نے فرمایا: اے یعقوب! یہ ابلیس کا کھیل ہے، وہ اپنے اس کھیل میں اس نفس کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور ایسے وقت میں یہی گمان کرنا چاہیے، پھر آپ نے ایک مٹھی مٹی لیا اور فرمایا: جو شخص اس مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، اسے قدرت اور زبان میں بولنے کی طاقت کہاں سے حاصل ہوگی؟!‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۴)
مگر آج کچھ لوگ اپنے ماننے والوں کی کثرت سے دھوکا کھاجاتے ہیں، نفس یا شیطان کے دام فریب کے شکار ہوجاتے ہیں اور اس کثرت کی بنیاد پر صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے افراد کو سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دام فریب سے بچ کر نکل جانا چاہیے؛ کیوں کہ دنیا میدانِ آزمائش ہے، کب کس کی آزمائش ہوجائے، کچھ معلوم نہیں؛ اس لیے ہمیشہ شریعت اسلامیہ کے ترازو کو مضبوطی سے تھام کر اپنے نفس کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے؛ تاکہ نفس کے بہک جانے کے امکانات کم سے کم ہوتے رہیں اور کسی طرح سے بھی اپنی ذات کی وجہ سے ملتِ اسلام کو نقصان نہ پہونچنے پائے؛ جس کی تلافی آپ خود اور آنے والی نسلیں کرنے سے قاصر رہیں یا پھر صدیوں خون پسینہ بہانے کے بعد ہی شاید اس کی تلافی کرنے پر قادر ہوسکیں۔
حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے پاس جب لوگ جمع ہوتے؛ تو آپ غمگین ہوجاتے کہ آپ کو نفل وغیرہ کے ذریعہ عبادت کرنے کا موقع میسر نہیں ہوپائے گا اور جب لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے؛ تو آپ خوش ہوتے کہ اب آپ کو ان عبادات سے لطف اندوز ہونے کا موقع حاصل ہوگا اور آپ دوسروں کو بھی اسی طریقہ پر چلنے کی ترغیب دلاتے تھے، ملاحظہ فرمائیں:
’’جب لوگ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے پاس سے چلے جاتے تھے؛ تو آپ کو خوشی ہوتی تھی کہ عبادت کا موقع میسر آئےگا، حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ فرماتے تھے: بندہ کے لیے مناسب ہے کہ جب لوگ اس کے پاس سے چلے جائیں؛ تو اسے خوش ہونا چاہیے کہ وہ عبادت کے لیے فارغ ہوگیا اور اسی طرح اسے غمگین ہونا چاہیے جب لوگ اس کے پاس بھیڑ لگانے لگیں؛ کیوں کہ اِرد گرد چلنے والے لوگوں کے جوتوں کی آواز نے بہت سے سر اڑادئے اور کتنوں کے دین برباد کردیا‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۹)
لیکن حضرت احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ کے اس قول و عمل کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی صرف عبادت اسی وقت کرسکتا ہے جب وہ تنہا ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ کی وجہ سے دل بٹنے کا خطرہ ہوتا ہے اور نفس کے جال میں پھنسنے کے امکانات ہوتے ہیں؛ اس لیے ان سے دور رہ کر ہی عبادت کرنا بہتر ہے، ورنہ اگر کوئی انسان لوگوں کے ساتھ رہ کر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے عبادت کرے؛ تو وہ بھی محمود و مقبول ہے، آج کل کثرت متبعین و مریدین اور چاہنے والوں پر فخر کرنے والے، خاص کر پکڑ پکڑ کر بھیڑ جمع کرنے والے لوگ ذرا سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے احتیاط کو دیکھیں اور نیک کام کو ریا کاری وغیرہ جیسے مہلک امراض سے بچانے کی پوری کوشش کریں، اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ و الرضوان حقیقی معنوں میں دین اسلام کے پاسبان تھے، آپ کا ہر قدم اسلام کے جوہری اقدار کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا دکھائی دیتا تھا، آپ کے اندر اسلام کے جوہری اقدار میں سے یہ بھی تھا کہ آپ مخلوق خدا پر بہت مہربان رہتے تھے، انسان تو انسان، جانوروں کو بھی تکلیف نہیں دیتے تھے، بوڑھے و بزرگ لوگوں کی خدمت کرتے  تھے اور اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے ان کے ساتھ عاجزی و انکساری اور نہایت ہی عمدہ اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے، ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک دن حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمۃ جمعہ کی نماز سے پہلے سوگئے، ایک بلی آکر آپ کی آستین پر سوگئی، آپ بیدار ہوئے مگر آپ کو یہ ماجرہ دیکھ کر اسے پریشان کرنا گوارا نہیں ہوا، آپ نے اپنی نیک بیوی سے قینچی طلب کرکے اپنی آستین کاٹ دی اور آستین کو بلی کے نیچے ہی چھوڑ دیا، ویسے ہی مسجد نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے، جب آپ نماز پڑھ کر واپس آئے؛ تو دیکھا کہ بلی بے دار ہوکر چلی گئی، آپ نے آستین لے کر سِل لیا، اس پر ان کی بیوی نے ملامت کیا؛ تو آپ نے فرمایا: اے شیخ صالح کی بیٹی! جو بھی ہوا بہتر ہوا، ہمارا تھوڑا بہت کام تو بڑھا مگر نیکی تو حاصل ہوگئی‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۶)
سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کی جانب سے کی گئی خدمت خلق کی مثال ملنا مشکل ہے، ذرا دیکھیں تو صحیح، ذرا پڑھ کر عمل کرنے کی کچھ تو کوشش کریں:
’’وہ شیوخ جو بیت الخلاء جانے سے عاجز ہونےکی وجہ سے کپڑے ہی میں استنجا کرلیتے تھے، آپ ان کا کپڑا نکالتے، پھر دھونے کے بعد اسے سکھاکر، انہیں پہنادیتے تھے اور ان کے پڑوسیوں کو وصیت کرتے ہوئے کہتے تھے: مخلوق پر شفقت ایسی چیز ہے جو بندہ کو اللہ تعالی سے قریب کردیتی ہے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۷)
آنے والی سطور کو بھی بنظر غائر پڑھیں او راپنے نفس کا جائزہ لیں؛ تو شاید یہی جواب ملے گا کہ حضرت سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ تو سب کے خیر خواہ ہیں اور میں خود غرض، صرف اپنا خیر خواہ ہوں، پڑھیں اور سوچیں:
’’حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں ہر طریقہ پر چلا؛ تو میں نے عاجزی و انکساری، اللہ تعالی کی تعظیم، مخلوق پر شفقت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سب سے زیادہ  قریب ، سب سے آسان اور سب سے صالح کسی چیز کو نہیں پایا۔ آپ لکڑیاں جمع کرکے بیواؤں اور مسکینوں کے گھر لے جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی ان کے لیے پانی بھی بھر دیا کرتے تھے‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۹)
آپ کا اتنا اعلی مرتبہ، آپ کے اسی انکساری اور شفقت خلق کا نتیجہ ہے:
’’حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے زمانہ میں لوگ کہتے تھے: جو بلند مقامات حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئے ہیں، وہ مخلوق پر شفقت اور ان کی عاجزی و انکساری کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۶۷)
مگر آج قوم مسلم خدمت خلق سے غافل ہے بلکہ خدمت کی تو بات دور، ایک مسلم دوسرے مسلم کے گلے کی ہڈی بننے کی فراق میں نظر آتا ہے، شفقت و محبت کی تو بات دور، صرف عداوت کے بیج بوتا دکھائی دیتا ہے اور عاجزی و انکساری تو دور کی بات، صرف تکبر و انانیت اور ہٹ دھرمی کا پاٹ پڑھتا او رپڑھاتا نظر آرہا ہے، ظاہر سی بات ہے اس گندے اخلاق کے متحمل ہونے کے باوجود اپنی اور اپنے قوم کے لیے ترقی کی راہ دیکھنا سراب سے کم نہیں؛ اس لیے اگر ترقی کرنا ہے؛ تو خود کی ترقی کے ساتھ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے دوسروں کو بھی ترقی دلانے کی کوشش کرو، پریشان حال کی پریشانی ختم کرنے کی سعی مسعود کرو اور لوگوں کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آؤ،  مگر یاد رہے رضاے الہی کا دامن کسی بھی حالت میں چھوٹنے نہ پائے ورنہ آپ کا سارا کیا دھرا بے کار ہوجائے گا۔
میں اپنا یہ مقالہ حضرت سیدی و سندی سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کے بعض اوراد پر ختم کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
’’حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ ہزار مرتبہ قل ھو اللہ کے ساتھ چار رکعت پڑھتے تھے اور ہردن ہزار مرتبہ استغفار کرتے تھے، آپ کا استغفار یہ تھا:
لا إله إلا أنت سبحانك إني کنت من الظٰلمین، عملت سوءا و ظلمت نفسي و أسرفت في أمري و لایغفر الذنوب إلا أنت فاغفرلي و تب علي إنك أنت التواب الرحیم، یا حي یا قیوم، لا إله إلا أنت‘‘۔ (قلادۃ الجواھر، ص۷۰) ترجمہ: ’’کوئی معبود نہیں سوا تیرے، پاکی ہے تجھ کو، بے شک مجھ سے بے جا ہوا، میں نے برا کیا، اپنے نفس پر ظلم کیا، اپنے معاملہ میں زیادتی کی، تیرے سوا کوئی  گناہوں کو بخشنے والا نہیں؛ لہذا تو میرے گناہ بخش دے، میری توبہ قبول فرما، بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے، اے ہمیشہ سے رہنے والے، اے بذات خود قائم رہنے والی ذات، تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔
ہم سیدی احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرتے  ہیں مگر کیا ہمیں ان کا یہ عمل نہیں دکھائی دیتا کہ آپ سنت و نوافل کا اس قدر اہتمام کرتے تھے مگر آج انہیں اسلاف کے ماننے کا دعوی کرنے والے لوگ ہر صبح و شام اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور فرائض و واجبات جیسی اہم عبادات سے قصدا غفلت برتتے ہوئے نظر آتے ہیں، مسلمانو! حضور سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، سیدی احمد کبیر رفاعی اور دیگر سلف صالحین رحمہم اللہ سے حقیقی و سچی محبت کرنے والے ہوجاؤ، نماز وغیرہ کا بھر پور اہتمام کرو اور اپنے آپ کو انہیں کے اخلاق حسنہ سے مزین کرنے کی پوری کوشش کرو، نیز شریعت کے دائرے میں رہ کر اسبابِ دنیا کا مکمل استعمال کرکے دارین کی سعادتیں حاصل کرنے کی سعی مسعود کرو، مسلمانو! ابھی بھی وقت ہے اپنے آپ کو بدلنے کی انتھک کوشش کرو، ورنہ اللہ تعالی تمہاری بگڑی حالت کبھی نہیں بدلے گا اور تم یوں ہی روتے بلکتے رہوگے اور تمہاری کوئی نہیں سنے گا، ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ، ان شاء اللہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب و کامران رہو گے، اللہ تعالی ہم سب کو فرائض و واجبات ادا کرنے کے ساتھ حضور سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق حسنہ اور آپ سے اخذ کرنے والے سلف صالحین رضی اللہ عنہم، خاص کر سیدی احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ کے عمدہ اخلاق سے مزین ہونے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
خدا    تجھے   کسی    طوفاں     سے   آشنا    کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

طالب دعا:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۲۳؍جمادی الأولی ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۸؍جنوری ۲۰۲۰ء

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts