Friday, January 31, 2020

اقوال مفتی اعظم اڈیشا اور ہماری ذمہ داریاں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے لے کر آج تک قابل قدر فقہاے کرام، محدثین عظام اور علماے ذوی الاحترام نے قرآن پاک اور احادیث نبویہ کی روشنی میں اپنے قلم و قرطاس، تحریر و تقریر، تبلیغ و ترسیل اور اقوال و ملفوظات کے ذریعہ انسان کی دنیوی و اخروی رہنمائی فرماتے رہے اور ان کی دینی و دنیوی زندگی کے ہر شعبہ کو روشن و تابناک بنانے کی سعی مسعود کرتے رہے، اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت کرتے رہیں گے، اس میں دو رائے نہیں کہ قلم، تحریر اور تبلیغ کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، یقینا اس کی افادیت و تاثیر دیر پا ہوتی ہے اور ایک طویل زمانہ تک آنے والی نسلوں کو اس کے ذریعہ اپنے دینی، ملی اور سماجی مسائل میں رہنمائی حاصل کرنے کا موقع میسر آتا ہے مگر اقوال و ملفوظات کی افادیت و تاثیر بھی کچھ کم نہیں ہوتی، خاص کر جب کہ انہیں مزین کرکےتحریری شکل میں لاکرتاریخ کے صفحات پرمحفوظ کردیا جائے؛ تو اس کی افادیت و تاثیر بھی تقریبا تحریر و تبلیغ کی طرح دیر پا اور مضبوط ہوجاتی ہے، اقوال و ملفوظات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اگرچہ اشعار ہی کی طرح مختصر ہوتے ہیں مگر وہ اپنے اس مختصر دامن میں معانی و مفاہیم کا ایک بڑا ذخیرہ سمیٹے ہوتے ہیں؛ کیوں کہ ان کے اقوال و ملفوظات کا مرجع و ماخذ کلام پاک اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہوا کرتا ہے اور یہ دونوں مراجع ایسے ہیں جن کے معانی و مفاہیم کی کوئی حد نہیں؛ کیوں کہ وہ اپنے وسیع دامن میں سمندر سمیٹے ہوئے ہیں، اب جو اقوال و ملفوظات ایسے وسیع مراجع سے مستفاد ہونگے؛ تو یقینا وہ بھی اپنے دامن میں معانی و مفاہیم کا ایک بڑا ذخیرہ سمیٹے ہوئے ہونگے؛ اس لیے ان سے افادہ و استفادہ میں بھی انہیں مراجع کا رنگ و ڈھنگ نظر آئے گا، خیر انہیں صاحب اقوال و ملفوظات میں سے ایک ماضی قریب کی عظیم شخصیت مفتی اعظم اڈیشا بھی ہے، آج کی اس بزم میں انہیں کے اقوال و ملفوظات کی روشنی میں کچھ اصلاحی گفتگو کرنے کی کوشش کرونگا، و ماتوفیقي إلا باللہ علیه توکلت و إلیه أنیب۔
            حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا، اخروی، دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے‘‘۔ (تجلیات مفتی اعظم اڈیشا، ص۱۲۷، ناشر: خانقاہ حبیبیہ قدوسیہ، قدوسی نگر، مرزاپور، بھدرک، اڈیشا)
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آیات کریمہ کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس قول سے امت مسلمہ کو یہ عظیم درس دینے کی سعی مشکور فرمائی ہے:
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے اگر کسی انسان کو اس عالم رنگ و بو میں چہل پہل کی زندگی کی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے؛ تو ایسا نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہے گا اور اسے کبھی بھی مصائب و آلام کا سامنا نہیں پڑے گا بلکہ اسے زندگی میں جہاں کبھی خوشیاں ملیں گی، وہیں اسے کبھی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، پریشانی کبھی خوف و ہراس اور بھوک و پیاس کی صورت میں آئے گی؛ تو کبھی جان و مال اور جاہ و حشمت میں کمی کا جامہ پہن کر آئے گی، اب وہ انسان اگر صبر و تحمل سے کام نہیں لیتا ہے اور شکوہ و شکایت پر اتر آتا ہے بلکہ بسا اوقات رب تعالی کو بھی کوسنے کی کوشش کرتا ہے؛ تو ایسا انسان اپنی زندگی سے خسارے کا سودہ کرتا ہے، حالاں کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اگر پریشانی آئی ہے؛ تو وہ پریشانی شکوہ و شکایت یا پھر رب تعالی کو کوسنے سے نہیں بلکہ رب تعالی کی بارگاہ میں صبر و تحمل کے ساتھ سر نیاز خم کرنے سے دور ہوگی؛ ا سی وجہ سے جس انسان نے صبر و تحمل سے کام لیااور اپنے رب تعالی کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے ساتھ سر نیاز خم کردیا؛ تو ان شاء اللہ اسے دنیا و آخرت دونوںمیں کامیابی ملے گی اور اگر دنیا میں نہیں تو ان شاء اللہ آخرت میں ضرور کامیابی ملے گی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴾ (البقرۃ:۲، آیت: ۱۵۳–۱۵۷)
ترجمہ: ((اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوش خبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھر نا یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی درودیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں)) (کنز الایمان)
اس کی جیتی جاگتی مثال حضر یوسف علیہ الصلاۃ و السلام کی ذات ہے، اللہ تعالی قرآن پاک میں آپ کا قول نقل فرماتا ہے:
﴿إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (یوسف:۱۲، آیت:۹۰)
ترجمہ: ((بے شک جو پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتا)) (کنز الایمان)
مگر کیا اس صبر و تحمل کا مطلب بزدلی، کاسہ لیسی اور چاپلوسی ہے، نہیں ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان بزدلی کا شکار ہوجائیں، کاسہ لیسی اور چاپلوسی کی وجہ سے دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونہ بن کر رہ جائیں، وہ جب چاہیں استعمال کریں اور جب چاہیں توڑکر پھینک دیں، ان کے پاس نہ تو کوئی قوت و طاقت ہو اور نہ ہی مد مقابل  کے مقابلہ میں کوئی تیاری، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم  بروقت مد مقابل کے مقابلہ میں سر اٹھانے کے قابل نہیں؛ تو اس وقت صبر و تحمل کے ساتھ کوئی شرعی پالیسی اختیار کریں اور اب ایک جُٹ ہوکر اپنے  مد مقابل کے خلاف طاقت و قوت، علمی و فکری، سماجی و سیاسی اور تجارتی بالادستی کے لیے مہم چلائیں؛ تاکہ ایک دن سر اٹھاکر جینے کے قابل ہوجائیں، ہر میدان و ڈپارٹمینٹ میں مسلم باصلاحیت افراد ہوں؛ تاکہ ایک مسلم کو کسی بھی میدان میں سبکی اور بے عزتی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یہی وہ چیز ہے جو ایک مسلم کے لیے دنیوی و اخروی کامیابی کا پیغام لے کر آتی ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾ (الأنفال:۸، آیت:۶۰)
ترجمہ: ((اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کروگے تمہیں پورا دیا جائے گااور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہوگے)) (کنز الایمان)
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’علم دین سے عزت اور خوف خدا سے عظمت ملتی ہے، علم خوب حاصل کرو، عزت والے ہوجاؤگے اور دل میں خشیت الہی پیدا کرو، کرامت والے بن جاؤگے‘‘۔
مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آیات کریمہ کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس قول سے امت مسلمہ کو ایک اہم پیغام  دینے کی کوشش فرمائی ہے:
علم دین ایسی دولت ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں، علم دین ایسا مضبوط ستون ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی مضبوط ستون نہیں، علم دین ایسا زیور ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی زیور نہیں، علم دین ہی وہ روشنی ہے جو عزت و وقار کو صاحب علم کے دامن میں سمیٹ کر رکھ دیتی ہے؛ اس لیے آج قوم مسلم پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین تربیت کے ساتھ کم از کم بقدر ضرورت دینی تعلیم ضرور دیں پھر انہیں ڈاکٹر، پروفیسر ، وکیل، جج اور تاجر وغیرہ جو بنانا چاہیں، بنائیں اور کم سے کم ہر گھر میں ایک  عالم دین بھی ضرور بنائیں، آج قوم مسلم علم دین سے بہت دور ہوچکی ہے؛ جس کی وجہ سے علمی، عملی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی ہر طرح کی پستی کا شکار ہے، یہ قوم عموما اَنا کے سوا کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہے، ان ساری خرابیوں اور پستیوں کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ قوم مسلم کو علم دین سے مزین کرکے مضوط کیا جائے اور پھر انہیں دوسرے میدان کی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے؛ کیوں کہ علم دین ہی ایک مسلم کو ایمان کی پختگی کے ساتھ ہر میدان میں صحیح رہنمائی کرکے آسمان بلندی کی طرف لے جانے والا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير﴾ (المجادلۃ:۵۸، آیت:۱۱)
ترجمہ: ((اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے)) (کنز الایمان)
مگر علم کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ قوم مسلم کو ان کا قرآن عظیم مختلف مقامات پر انہیں ایمان کے ساتھ عمل کا بھی درس دیتا ہے، انہیں بے عملی سے دور رہنے کی صلاح دیتا ہے اور انہیں یہ بتاتا ہے کہ ایمان کے ساتھ عمل ہی انہیں وقتی زندگی اور ہمیشگی کی زندگی میں بہترین کامیبای دلانے والا ہے، رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا﴾ (الکھف: ۱۸، آیت:۱۰۷)
ترجمہ: ((بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ان سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے))) (کنز الایمان)
نیز فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ  ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ  إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ﴾ (التین: ۹۵، آیت: ۴–۶)
ترجمہ: ((بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا پھر اسے ہر نیچی سے نیچی سی حالت کی طرف پھیر دیا مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ انہیں بے حد ثواب ہے)) (کنز الایمان)
ایمان کے ساتھ عمل ہی وہ چیز ہے جو کسی قوم کے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو زندہ دلی سے جیا کرتی ہے، مگر آج قوم مسلم کا اگر جائزہ لیا جائے؛ تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر و بیشتر لوگ فرائض و واجبات سے غافل ہوکر بے عملی کے شکار ہیں اور اس طرح سے وہ مردہ دلی کی زندگی گزار رہے ہیں؛ جس کی وجہ سے نہ تو انہیں دنیا میں کماحقہ کامیابی نصیب ہورہی ہے اور نہ ہی آخرت میں ان کے بہترین ٹھکانے کی امید ہے اور ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ مردہ دلی کی زندگی حقیقت میں زندگی ہی نہیں؛ کیوں کہ:
زندگی   زندہ   دلی  کا  نام  ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
اللہ تعالی کا ڈر، اس کا خوف، رب تعالی کے حکم اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق عمل، عظمت و کرامت کا سب سے بڑا سبب ہے، مگر آج قوم مسلم کے دل سے رب تعالی کا خوف کافور ہوچکا ہے، انہیں اس کی فکر نہیں کہ جو زندگی وہ گزار رہے ہیں، وہ فرمان رب تعالی کے موافق ہے یا نہیں، جو چیز کھا، کما رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، جو چیز ایک دوسرے سے تبادلہ کر رہے ہیں، وہ جائز ہے یا ناجائز، مسلمانوں کے لیے  کیا ابھی بھی رب تعالی سے ڈرنے کا وقت نہیں آیا؟! کیا مسلمان یہود و نصاری کی طرح زندگی گزارنے کی فراق میں ہیں، اگر ایسا ہے؛ تو مسلمانوں کی تباہی ان کا مقدر ہے، اس چیز سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں، اللہ جل شانہ ایمان والوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ﴾ (الحدید:۵۷، آیت:۱۶)
ترجمہ: ((کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے او ان میں بہت فاسق ہیں)) (کنز الایمان)
شاید بلکہ یقیناً حتماً حقیقتًا مسلمانوں کی حالت عام طور پر بالکل اس بے حیائی و بے شرمی کی طرح ہے جس کی عکاسی اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے اپنے اس شعر میں کی ہے:
رزق   خدا   کھایا   کیا، فرمان   حق    ٹالا     کیا
شرم نبی خوف خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
            قوم مسلم، علما ہوں یا عوام، سب کو چاہیے کہ وہ تقوی و پرہیز گاری اختیار کریں اور زندگی کے ہر لمحات کو شریعت مطہرہ کے ترازو میں تول کر گزارنے کی پوری کوشش کریں؛ تاکہ اللہ تعالی ان کی کاوش و محنت کو ثمر بار بناکر، دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار فرمائے، رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًالأحزاب:۳۳، آیت:۷۰–۷۱)
            ترجمہ: ((اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی)) (کنز الایمان)
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’مرد مومن وہ ہے جو حق کی وضاحت اور باطل کی مذمت میں کبھی حراساں نہ ہو‘‘۔
مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آیت کریمہ اور حدیث پاک کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس قیمتی قول سے امت مسلمہ کو قابل رشک پیغام  دینے کی کوشش فرمائی ہے:
حق ہی اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، حق کے سامنے باطل کی کوئی اوقات نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی اعتبار ہے، رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ﴾ (یونس:۱۰، آیت:۳۵–۳۶)
ترجمہ: ((تم فرماؤ تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے کہ حق کی راہ دکھائے تم فرماؤ کہ اللہ حق کی راہ دکھاتا ہے تو کیا جو حق کی راہ دکھائے اس کے حکم پر چلنا چاہیے یا اس کے جو خود ہی راہ نہ پائے جب تک راہ نہ دکھایا جائے تو تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو اور ان میں اکثر تو نہیں چلتے مگر گمان پر بے شک گمان حق کا کچھ کام نہیں دیتا بے شک اللہ ان کے کاموں کو جانتا ہے)) (کنز الایمان)
اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ کامل ایمان والا بنے تاکہ اسے حق کی وضاحت اور باطل کی مذمت میں کوئی باک نہ ہو اور نہ ہی چہرا مہرا دیکھ کر بات کرنے کی کوشش کرے؛ کیوں کہ گو مگو کی زندگی گزارنے والے کی وجہ سے نہیں بلکہ حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچنے والے ہی کی وجہ سے معاشرہ اعتدال پر رہتا ہے، بے راہ رو، راہ راست پر آتے ہیں، مظلوم کو اس کا حق ملتا ہے اور ظالم اپنے ظلم سے باز آتا ہے اور اگر بدلاؤ نہ بھی آیا؛ تو یہ مجرم کی بدقسمتی ہے مگر کوشش کرنے والے کو اجر و ثواب ان شاء اللہ ضرور ملے گا، نیز ایک مسلم کو چاہیے کہ جب وہ حق بولے؛ تو اپنی دشمنی نکالنے کے بجائے اس سے قوم مسلم کی اصلاح اور ان کی مدد کرنے کا قصد کرے اور ساتھ ہی اصلاح کے لیے بہترین لائحہ عمل بھی اختیار کرے؛ کیوں کہ اخلاص و بہترین طریقہ کار کے ساتھ کسی کو اس کا حق دلانا اور کسی کو برائی سے روکنا بھی حقیقت میں اس کی مدد ہی کرنا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا)) فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ: ((تَحْجُزُهُ، أَوْ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ)) (صحیح البخاری، رقم:۶۹۵۲)
ترجمہ: ((اپنے ظالم یا مظلوم بھائی کی مدد کرو)) ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ، جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن مجھے یہ بتائیں اگر وہ ظالم ہو؛ تو میں اس کی کیسے مدد کروں؟! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اس ظالم کو اس کے ظلم سے روک دو، یہی اس کی مدد ہے))
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’اپنے سے دوسروں کو بہتر جاننا، دوسروں کے کام آنا اور احسان کا بدلہ نہ چاہنا، عمدہ اخلاق کی علامت ہے‘‘۔
مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آیت کریمہ اور حدیث پاک کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس قول سے امت مسلمہ کو بہت اہم پیغام  دینے کی کوشش فرمائی ہے:
اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے تواضع، انکساری، دوسروں کی مدد کرنا اور مدد کا بدلہ نہ چاہنا یہ ایک  مسلم بالخصوص ایک عالم و پیر کا بہترین زیور ہے، جس سے آراستہ ہونے والا بلندی کے اس مقام پر پہونچتا ہے، جہاں عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی، حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((يَا جَرِيرُ، تَوَاضَعْ لِلَّهِ، فَإِنَّ مَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَة)) (مصنف ابن أبی شیبۃ، رقم:۳۴۶۶۳)
ترجمہ: ((اے جریر! اللہ تعالی کی رضا کے لیے تواضع کرو؛ کیوں کہ جس نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے تواضع کیا، اللہ تعالی نے اسے قیامت کے دن بلند فرمادیا))
دوسروں کی مدد کرکے اس کا بدلہ نہ چاہنا اور احسان نہ جتانا،  عمل کو برباد ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾ (البقرۃ:۲، آیت:۲۶۳–۲۶۴)
ترجمہ: ((اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور اللہ بے پرواہ حلم والا ہے اے ایمان والو اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا اپنی کمائی سے کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا)) (کنز الایمان)
اب اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بغیر احسان جتائے مدد کرنے والے شخص کی اللہ تعالی مدد فرماتا ہے، ایک مسلم ذرا سوچے کہ ایک مسلم کی مدد کرنے پر اس کو کتنا بڑا انعام دیا جارہا ہے، بندہ اگر بندہ کی مدد کرے؛ تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مدد میں کامیاب نہ ہو مگر رب تعالی جس فرد کی مدد فرمائے یقینا وہ اپنی مدد میں ضرور کامیاب ہوگا؛ کیوں کہ اس کی مدد، نصرت و ارادت کو کوئی ٹالنے والا نہیں؛ اس لیے ایک مسلم کو چاہیے کہ اپنے مسلم بھائی کی مدد کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرے؛ کیوں کہ اس میں جہاں ایک  مسلم بھائی کا فائدہ ہے وہیں خود مدد کرنے والے کا اس سے کہیں زیادہ فائدہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ)) (مسند أحمد، رقم: ۷۴۲۷)
ترجمہ: ((اور اللہ تعالی بندہ کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے))
لیکن آج کل عموماً عوام تو عوام خواص بھی  تواضع و انکساری کے بجائے تکبر و انانیت کو اپنا زیور بنائے ہوئے ہیں اور ہر تعاون کے پیچھے بدلے کا راز دل میں بسائے ہوتے ہیں بلکہ عموما احسان جتانے سے باز نہیں آتے؛ جس کی وجہ سے آج لوگ بلندی سے پستی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں اور ذلت و خواری ان کا مقدر بنتی جارہی ہے اور اپنے نیک اعمال کافروں کی طرح برباد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، مسلمانوں کا یہ رنگ و ڈھنگ اسلامی نہیں، اگر یہ اپنی دنیوی و اخروی سلامتی چاہتے ہیں؛ تو انہیں اپنا رنگ و ڈھنگ بدلنا ہو گا۔
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’حرص و ہوس کا دلدادہ، سکون سے محروم اور رحمت سے دور ہوتا ہے‘‘۔
مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آیت کریمہ اور حدیث پاک کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس قیمتی قول سے امت مسلمہ کو قابل تقلید پیغام  دینے کی کوشش فرمائی ہے:
حرص و حوس کی بنیاد اسلام مخالف عادات و اطوار پر ہے، یعنی دن و رات دولت و ثروت کے پیچھے بھاگنا، نماز سے مطلب نہیں، شریعت اسلامیہ کی پاسداری کا کوئی خیال نہیں، بھائی بہن کا حق مارنے میں کوئی باک نہیں، ایسا شخص وہ ہے جسے اگر پوری دنیا مل جائے؛ تو بھی اس کا پیٹ نہیں بھرے گا بلکہ بعید نہیں کہ اس کی حرص و حوس اپنی انتہا کو پہونچے گی اور خدائی کا دعوی کرنے کی کوشش کرے گا؛ کیوں کہ حرص و حوس کا دلدادہ ابن آدم کا پیٹ دولت نہیں بلکہ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے، اب ظاہر سی بات ہے کہ ایسا شخص رب کی رحمت سے دور و نفور اور سکون سے محروم ہی تو رہے گا، حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ)) (صحیح مسلم، رقم: ۱۰۴۸)
ترجمہ: ((اگر ابن آدم کے پاس مال و دولت کی دو وادی ہوتی؛ تو وہ مال و دولت کی تیسری وادی تلاش کرتا، ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے، اور جو صدق دل سے توبہ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے))
اس لیے مفتی اعظم اڈیشا رحمہ اللہ کا پیغام امت مسلمہ کے نام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلام مخالف حرص و حوس کی عادت قبیحہ سے بچائیں؛ تاکہ رحمت باری تعالی انہیں اپنے دامن میں ڈھانپ لے اور سکون و اطمینان  کی زندگی گزرانے میں کامیاب رہیں، آج قوم مسلم کے درمیان عموما جو اضطرابی کیفیت ہے وہ اسی حرص و حوس کا نتیجہ ہے؛ اس لیے قوم مسلم کو چاہیے کہ وہ جتنی چاہیں دولت کمائیں مگر اپنی اسلام مخالف رذیل عادات سے جلد از جلد باز آجائیں، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ (المنافقون:۶۳، آیت:۹)
ترجمہ: ((اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں)) (کنز الایمان)
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’حیا ایمان کا زیور اور سادگی اس کی نشانی ہے‘‘۔
مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے احادیث پاک کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس اہم قول سے امت مسلمہ کو یہ نصیحت آمیز  پیغام  دینے کی کوشش فرمائی ہے:
یقینا حیا قوم مسلم کے ایمان کا عظیم زیور ہے، اگر یہ زیور اتار کر پھینک دیا جائے؛ تو ایک انسان حیوانیت بلکہ اس سے بدتر اخلاق و کردار کی رذالت میں گھرتا ہوا چلا جاتا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ انسانیت سے تنزلی کرکے حیوانیت کے انتہائی درجہ میں پہونچ چکا ہے بلکہ اس سے کئی قدم آگے جاچکا ہے، حیا یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولا جائے اور اس کی سادگی سچائی ہے، حیا یہ ہے کہ بے پردگی سے اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بچایا جائے اور اس کی سادگی یہ ہے کہ انہیں پردہ میں رکھا جائے، حیا یہ ہے کہ مسلم لڑکوں یا لڑکیوں کو غیر مسلم سے شادی رچانے سے روکا جائے اور اس کی سادگی یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی تربیت کے ساتھ لڑکیوں کو گھر کے نشیمن میں رکھا جائے اور اگر نکلنا ناگزیر ہے؛ تو انہیں باپردہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے میں نکلنے کی اجازت دی جائے؛  کیوں کہ حیا ایمان کا جز ہے جو ایک مرد مؤمن اور مؤمنہ عورت کو بہت ساری برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے، حضو سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((إِنَّ الْحَيَاءَ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ)) (سنن ابن ماجہ، رقم: ۵۸)
ترجمہ: ((بے شک حیا ایمان کا ایک حصہ ہے))
لیکن وہی حیا محمود ہے جو برائیوں سے روکے، وہ حیا قطعا محمود نہیں جو برائیوں کی دعوت دے یا بے حیائیوں کو مزید عروج پر لے جائے یا ایک دوسرے کے حقوق کو تہس نہس کردے یا شریعت اسلامیہ کے فرائض و واجبات کی مخالفت کی دعوت دے؛ اس لیے حیا کرنے سے پہلے پرکھ لیا جائے کہ جو حیا کی جا رہی ہے، حقیقت میں اسلام اس حیا کی دعوت دے رہا ہے یا نہیں۔
مگر افسوس صد افسوس کہ آج قوم مسلم میں بے حیائی اور بے غیرتی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ ان کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے سروں پر دوپٹہ نہیں ہوتا، گردن، سینہ اور بازو کھلے ہوتے ہیں، کپڑا تو کپڑا نقاب پہن کر پارسا بننے والی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے نقاب بے حد چست ہوتے ہیں، گویا کہ کپڑا یا نقاب پہننا اور نہ پہننا، دونوں برابر ہے، اس قوم مسلم کے بعض افراد کی بے حیائی اور بے غیرتی کی حد تو اس وقت ہوگئی جب ان کی غیر مسلم سے شادی کی خبریں آنے لگیں بلکہ دار الافتاء  میں اس طرح کے مسائل آنے لگے اور یہ سارے حیا سوز معاملات ماں، باپ، بھائی اور ذمہ دار کی لاپرواہی، بے غیرتی، بے حیائی اور ان کی دیوثی کا نتیجہ ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((إِنَّ الْغَيْرَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْمِذَاءُ مِنَ النِّفَاقِ، وَالْمِذَاءُ الدَّيُّوثُ)) (شعب الإیمان، رقم:۱۰۳۰۸)
ترجمہ: ((بے شک غیرت ایمان کا حصہ ہے، مِذا نفاق سے ہے اور مِذا دیوث ہے))
((ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ أَبَدًا: الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ، وَالرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ، وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ)) فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ أَمَّا مُدْمِنُ الْخَمْرِ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ؟، قَالَ: ((الَّذِي لَا يُبَالِي مَنْ دَخَلَ عَلَى أَهْلِهِ)) قُلْنَا: فَالرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ؟، قَالَ: ((الَّتِي تَشَبَّهُ بِالرِّجَالِ)) (شعب الإیمان، رقم: ۱۰۳۱۰)
ترجمہ: ((تین لوگ طویل زمانہ تک جنت میں داخل نہیں ہوں گے: مردوں میں سے دیوث، عورتوں میں سے مردوں سے مشاہبت کرنے والی اور شراب میں ہمیشگی برتنے والا)) صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شراب میں ہمیشگی برتنے والا تو ہمیں سمجھ میں آگیا، مگر مردوں میں سے یہ دیوث کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((وہ شخص جو اپنے گھر میں داخل ہونے والوں کے متعلق لاپرواہی برتے)) راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: عورتوں میں سے الرجلة کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((وہ عورت جو مردوں سے مشابہت کرے))
اگر قوم مسلم اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت سلامت رکھنا چاہتی ہے؛ تو اسے دیوثی اور بے غیرتی کے اندھیرے گڈھے سے نکل کر حیا کے اجالے میں آنا پڑے گا اور اسے اپنی اسلامی ذمہ داری پورے طور سے نبھانی ہوگی؛ یہ قوم مسلم جس دن حیا کے اجالے میں آکر زندگی گزارنے لگے گی، اسی دن سے اس کی عزت کا فالودہ بننا کم اور اخیر میں ان شاء اللہ بالکل بند ہوجائے گا؛ کیوں کہ حیا ایمان کے جز ہونے کے ساتھ ساتھ، حیا اپنے دامن میں تمام تر بھلائیوں کو سمیٹ کر لاتی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ)) (صحیح مسلم، رقم: ۳۷)
ترجمہ: ((حیا پوری کی پوری خیر ہی خیر ہے))
حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:
’’شادی سنت ہے، سنت پر عمل عبادت ہے اور اس میں بدعت کی آمیزش ہلاکت ہے‘‘۔
مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے آیت کریمہ اور حدیث پاک کی روشنی میں ماخوذ اپنے اس عمدہ قول سے امت مسلمہ کو یہ نصیحت سے لبریز  پیغام  دینے کی سعی فرمائی ہے:
یقینا شادی سنت ہے، صرف سنت ہی نہیں بلکہ شادی کے ساتھ اس کی ذمہ داری نبھانا نفل عبادت سے بھی بہتر ہے،  نتیجہ یہ سامنے آیا کہ شادی ایسی عبادت ہے جو نفل عبادت سے بھی بہتر ہے  اور یہ وہ عبادت ہے جس سے ایک  مسلم کا نصف دین و ایمان محفوظ ہوجاتا ہے، اس طرح سے کہ اب اسے اس نصف ایمان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ باقی نصف ایمان کی فکر کرے اور اس میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((مَنْ تَزَوَّجَ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ نِصْفَ الْإِيمَانِ، فَلْيَتَّقِ اللَّهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي)) (المعجم الأوسط، رقم: ۷۶۴۷)
ترجمہ: ((جس نے شادی کرلی، اس نے آدھا ایمان مکمل کرلیا، اسے چاہیے کہ باقی نصف ایمان میں اللہ تعالی سے ڈرے))
مگر ظاہر سی بات ہے کہ جو چیز سنت نبوی اور عبادت ہے، اس میں اگر بدعت کی آمیزش کی جائے؛ تو وہ ہلاکت کا ضرور سبب بنے گی، اگر یقین نہ آئے تو قوم مسلم اپنے ارد گرد رہنے والے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا جائزہ لےکر اندازہ لگالے، قوم مسلم جب سے شادی میں طرح طرح کی خرافاتوں اور بدعتوں کا ایجاد کیا ہے، اس وقت سے قوم مسلم ہلاکت کے دہانے پر جاچکی ہے اور معاشرہ اس قدر پراگندہ ہوچکا ہے کہ نیک انسان کا سر اٹھاکر چلنا مشکل ہوگیا ہے، ہلاکت صرف یہی نہیں ہے کہ انسان اس دنیا سے رخصت ہوجائے، یہ ضرور ہلاکت ہے مگر  اس سے بڑھ کر ہلاکت یہ ہے کہ انسان جیتے جی مرجائے، ہلاکت یہ ہے کہ شادی کی خرافات کی وجہ سے ایک مسلم اپنی بہن یا بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت نہ کر سکے، ہلاکت یہ ہے کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے بے حیائی و فحاشی عام ہوجائے، ہلاکت یہ ہے کہ شادی کرنے کے لیے ایک مسلم اپنی عزت کو بیچنے پر مجبور ہوجائے، ہلاکت یہ ہے کہ شادی وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے ایک عورت کو طعن و تشنیع کا شکار بننا پڑے، ہلاکت یہ ہے کہ جہیز کی رذالت کی وجہ سے ایک باپ اپنی جائداد کو بیچنے پر مجبور ہوجائے، ہلاکت یہ کہ ایک غریب باپ اپنی بیٹی کی شادی کی فکر میں آنسو بہاتے نہ تھکے، ہلاکت یہ ہے کہ لڑکی پیدا ہو؛ تو چہرے پر خوشی کے آثار کے بجائے غم کے پہاڑ ٹوٹنے کی جھلکیاں نظر آئیں، ہلاکت یہ ہے کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی ایک باپ اس کی شادی کے لیے ایک ایک روپئے جٹانے کی فکر میں لگ جائے، اس کے باوجود  قوم مسلم کے گندے معاشرہ کی وجہ سے جب اسے شادی کرنی ہو؛ تو اس کی کمر ٹوٹتی نظر آئے، جہیز کی لعنت اور لڑکی والوں پر بارات وغیرہ کی صورت میں بار ڈالنے کی عادت قبیحہ نے قوم مسلم کو وہ دن دکھائے ہیں، جس دن کا وہ خواب و خیالوں میں بھی نہیں سوچ سکتے ہیں، حالاں کہ جہیز کا مطالبہ کرنا یہ رشوت اور باراتیوں کا جبرا بار ڈالنا بہت بڑا گناہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي النَّارِ)) (مسند البزار، رقم: ۱۰۳۷)
ترجمہ: ((رشوت دینے والا اور رشوت کھانے والا دونوں جہنم میں ہیں))
عموما ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی میں اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دے، اس کے باوجود کافروں کی طرح چھکائی میں روپیے و جائداد مانگنا، شادی میں گاڑی کی مانگ کرنا نہایت ہی رذیل اور خسیس حرکت ہے، قوم مسلم پر فرض ہے کہ وہ اپنے اس رذالت بھرے معاشرے سے باہر آئے؛ تاکہ خود گناہ سے بچے اور قوم مسلم کی بچیوں کی شادی میں دراڑ نہ بنے، قوم مسلم کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس  کی ابتر حالت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ خود اپنی حالت بہتر بنانے کی کوشش، جد و جہد اور محنت نہ کرے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ﴾ (الرعد:۱۳، آیت:۱۱)
            ترجمہ: ((بے شک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں)) (کنز الایمان)
اللہ تعالی ہمیں قرآن و حدیث اور علماے کرام بالخصوص حضرت مفتی اعظم اڈیشا علیہ الرحمۃ و الرضوان کے اقوال زریں اور قیمتی ملفوظات کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

دعا جو
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن و خادم خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱۳؍ذو الحجۃ ۱۴۴۰ھ مطابق ۱۴؍اگست ۲۰۱۹ء
ای میل: amjadiazhari@gmail.com  موبائل: 8318177138

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts