Friday, January 31, 2020

عصر حاضر میں فتوی نویسی اور اس کے تقاضے

فتوی نویسی ایک بہت ہی اہم ذمہ داری کا نام ہے، اس کا تعلق صرف اپنے ذاتی معاملات کی طرح  نہیں ہوتا کہ ایک انسان جس طرح چاہے اسے استعمال کرے بلکہ اس کی کچھ حد بندیاں ہوتی ہیں اور اس کے کچھ اصول و ضوابط اور آداب و شرائط ہوتے ہیں، ایک فتوی نویس کو ان سے انحراف کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ انہیں کو بروے کار لاکر فتوی لکھنا اور جاری کرنا ہوتا ہے، ساتھ ہی  فتوی لکھنے والے کو ان شرائط و ضوابط پر کھرا اترنا بھی ضروری ہوتا ہے؛ اس لیے جو عالم اس کے اصول و ضوابط سے عاری ہو، اس کے  شرائط پر کھرا نہ اترے، اسے فتوی جاری کرنے کی قطعا اجازت نہیں، مگر یہ وقت کا بہت بڑا المیہ ہے کہ دیگر علوم و فنون کی طرح فتوی نویسی بھی جاں بلب ہونے کے قریب ہے، جس وقت والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے پورے ہند و پاک کے درمیان مرکزتربیت افتا میں باضابطہ طور پر تدریب فتوی نویسی کی انفرادی کوشش فرمائی تھی، اس وقت اس کا نتیجہ اچھا تھا اور آج بھی ایک حد تک اس کا نتیجہ اچھا ہی ہے، مگر حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ  کی اقتدا میں جب دوسرے مدارس اس کی طرف متوجہ ہوئے؛ تو دو چند مدارس کے علاوہ سب نے صرف خانہ پوری کی، اس کے حقوق کو پورے طور سے ادا نہیں کیے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر فتوی نویس حضرات کے سر پر مفتی کی دستار تو بندھ گئی مگر عموما وہ اصول و ضوابط سے خالی نظر آئے، ان کے اندر اس کے شرائط کا فقدان نظر آیا اور اس طرح فتوی نویسی کی حالت مزید بگڑتی چلی گئی اور اس کا معاملہ اس وقت اور زیادہ کس مپرسی کا شکار ہوگیا جب ہر ایک عالم کو عوام کے درمیان دھاک جمانے کے لیے مفتی بننے کا شوق موجیں مارنے لگا اور اکثر نقبا بلکہ بعض چاپلوس علما نے بھی ان کا پورے طور سے ساتھ دیا، اب کیا تھا ہر گلی کوچے میں علامہ کی طرح مفتی بھی نظر آنے لگے اور ان  حضرات نے بھی فتوی دینے میں کوئی تامل نہیں کیا، پھر ان کی لاپرواہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ فتوی اور فتوی نویسی کی اہمیت گھٹتی چلی گئی، اس فتوی نویسی کو مزید تحت السری میں لے جانے کے جرم میں بعض ذمہ داران، بعض اساتذہ اور اکثر طلبہ بھی برابر کے شریک ہیں، ذمہ داران اور اساتذہ ہر فن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ ذمہ دار نے فتوی نویسی کا شعبہ تو رکھ دیا مگر عموما اسے اس بات کی فکر نہیں رہی کہ فتوی نویسی کا یہ شعبہ اپنے مقصد اصلی کی طرف گامزن ہے یا نہیں بلکہ بعض حضرات کو اس شعبہ کی زبوں حالی کی پوری خبر ہوتی ہے، اس کے باوجود ان کے کانوں تلے جوں نہیں رینگتا، بلکہ کچھ ذمہ دران خود ہی اس شعبہ کی تباہی کے ضامن ہوتے ہیں! اور استاذ کو بھی عموما اپنی ذمہ داری کا خیال نہیں ہوتا، خوف خدا کا وجود نہیں پایا جاتا اور نہ ہی طلبہ کے مستقبل کی کوئی فکر ہوتی ہے اور آج کل کے طلبہ کا حال تو حد درجہ قابل صد ملامت اور صد افسوس ہے، عموما نماز یا نماز باجماعت کی پابندی نہیں، ٹائٹل لگانے کی ہوڑ ہے، اصول و ضوابط کا کوئی مطلب نہیں، تساہلی اور آرام طلبی حد کو تجاوز کرچکی ہے، صبر و تحمل کا فقدان نظر آتا ہے، محنت و لگن کا وجود تو وجود، اس کی  رمق بھی مفقود نظر آتی ہے، فتوی نویسی کا مقصد بلکہ پوری زندگی کا مقصد کہیں تاریکیوں میں کھویا نظر آتا ہے؛ اس لیے اگر ہم اور آپ واقعی سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ عصر حاضر میں فتوی نویسی، اپنے تقاضے کافی حد تک پورا کرے؛ تو ذمہ داران اور اساتذہ کو ہوش کے ناخون لے کر اپنی ذمہ داری پورے طور سے نبھانی ہوگی، نقبا و علما کو اپنی زبان کنٹرول میں رکھنی ہوگی، طلبہ کو شریعت اسلامیہ کے دائرہ میں رہ کر پوری تگ و دو کے ساتھ فتوی نویسی کی تربیت کے حقوق ادا کرنے ہونگے اور تربیت کے بعد بھی کسی کو فتوی نویسی اور فتوی جاری کرنے کی اجازت اسی وقت دی جائے گی، جب وہ حقیقت میں فتوی لکھنے کے قابل ہوجائے اور اس کے اندر اصول و ضوابط کی جھلکیاں نظر آنے لگے، ورنہ اسے اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی سے روک دیا جائے، میں آج کی اس بزم میں انہیں عنوانات پر آداب فتوی و مفتی وغیرہ کی روشنی میں کچھ بیان کرنے کی کوشش کرونگا اور وقت نے اجازت دی؛ تو اخیر میں آداب مستفتی پر بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے گی، و ما توفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
صرف پڑھنا کافی نہیں بلکہ  تدریب ضروری
          دور حاضر میں بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فتوی نویسی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، خود سے مطالعہ کرنے یا بعض معتبر مشایخ سے علم حاصل کرنے والا  شخص، جب چاہے جیسے چاہے فتوی دے سکتا ہے، حالاں کہ یہ فکر خطا سے خالی نہیں؛ کیوں کہ اس فن کے ماہرین فرماتے ہیں  کہ خود سے مطالعہ کرنے والے شخص کو فتوی دینا جائز نہیں؛ کیوں کہ وہ عام جاہل کی طرح ہے، جو وہ کہے گا اس کے بارے میں اسے خود ہی صحیح سے معلومات نہیں ہوگی، بلکہ وہ شخص جو معتبر مشایخ سے علم دین حاصل کیا ہو، اسے بھی دو چند کتابوں سے فتوی دینے کی اجازت نہیں؛ کیوں کہ ایسے شخص سے بہت ممکن ہے کہ ان کتابوں میں مذکور ضعیف قول پر اعتماد کر بیٹھے، ہاں جو شخص اس فن کے ماہرین سے علم حاصل کرکے نفسیاتی ملکہ حاصل کرلیا، اب یہ شخص صحیح کو غیر سے ممتاز کرسکتا ہے، مسائل اور ان کے متعلقات کو معتدبہ طریقہ سے جان سکتا ہے، یہی وہ شخص ہے جو فتوی دینے کے ساتھ، اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان واسطہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے علاوہ جو شخص اس عظیم منصب کو اختیار کرنے کی کوشش کرے، اس کی تعزیر کی جائے اور اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آیا جائے؛ تاکہ وہ اور اس کی طرح دوسرے اشخاص، اپنی اس قبیح حرکت سے باز آئیں، جو لاتعداد مفاسد کے دروازے کھولتا دکھائی دے رہا ہے۔
          علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و قد رأیت في فتاوی العلامة ابن حجر سئل في شخص یقرأ و یطالع في الکتب الفقھیة بنفسه لم یکن له شیخ و یفتي و یعتمد علی مطالعتة في الکتب فھل یجوز له ذلك أم لا؟ فأجاب بقوله: لایجوز له الإفتاء بوجه من الوجوہ؛ لأنه عامي جاھل لایدري مایقول، بل الذي یأخذ العلم عن المشایخ المعتبرین لایجوز له من کتاب و لا کتابین بل قال النووي رحمه اللہ تعالی: و لا من عشرۃ و عشرین، قد یعتمدون کلھم علی مقالة ضعیفة في المذھب فلایجوز تقلیدھم فیھا، بخلاف الماھر الذي أخذ العلم عن أھله و صارت له فیه ملکة نفسانیة فإنه یمیز الصحیح من غیرہ و یعلم المسائل و مایتعلق بھا علی الوجه المعتد به، فھذا ھو الذي یفتي الناس و یصلح أن یکون واسطة بینھم و بین اللہ تعالی، أما غیرہ فیلزمه إذا تسور ھذا المنصب الشریف التعزیر والزجر الشدید الزاجر ذلك لأمثاله عن ھذا الأمر القبیح الذي یؤدی إلی مفاسد لاتحصی، و اللہ تعالی أعلم، انتھی‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۶۹، ط: دار الکتاب، دیوبند)
          حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:’’آج کل درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا، نہ کہ واعظ جسے سواے طلاقت لسان، کوئی لیاقت جہاں درکار نہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الصوم، باب رویۃ الہلال، ج۱۰ص۴۴۲، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر، گجرات)
          اعلی حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان کا  یہ دور اندیشی اور حکمت و دانائی سےپر  قول نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ بنظر نصیحت و عبرت ہر ایک، خاص کر نام نہاد اور خود ساختہ مفتیان کرام کو پڑھنا چاہیے اور صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ اس کے مطابق بھر پور عملی اقدام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
          اس لیے وہ حضرات جو یہ سمجھتے ہیں کی فتوی دینے کے لیے ماہرین سے تدریب کی ضرورت نہیں بلکہ خود سے پڑھ کر یا درس نظامی کی تکمیل یا فتاوی نقل کرکے یا محض ایک دو فتوی لکھ کر مفتی ہوگیے یا فتوی دینے کے اہل ہوجاتے ہیں، ان کی یہ فکر درست نہیں، انہیں اپنی اس فکر پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ماہرین نے جو بتایا، انہیں کے کندھے سے کندھا ملاکر چلنے کی کوشش کرسکیں اور ہم بے جا فتنہ و فساد سے بچ سکیں۔
لائق فتوی کی تعیین وقت کا اہم ترین تقاضہ
          یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر عالم یا تحقیق فی الفقہ یا مشق افتا کرنے والا طالب علم مفتی کی ذمہ داری نبھانے کے قابل نہیں ہوتا؛ اس لیے وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ سرخیل مفتیان کرام پوری ایمان داری و دیانتداری کے ساتھ ان علماے کرام کی جانچ پڑتال کریں، اگر وہ واقعی فتوی لکھنے کے لائق ہوں؛ تو انہیں فتوی لکھنے کی اجازت دی جائے، ورنہ انہیں اس اہم امر سے ضرور روک دیا جائے، اگرچہ یہ ذمہ داری وقت کے امام کی ہوتی ہے، مگر ہندوستان میں چوں کہ یہ صورت حال نہیں؛ اس لیے دور حاضر میں معتمد مفتیان کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرف ٹھوس قدم اٹھائیں، ورنہ نااہل کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے یا جو آئندہ نقصان ہوگا، اس کی بھرپائی بہت مشکل ہوجائے گی۔
          امام ابن نجیم علیہ الرحمۃفرماتے ہیں: ’’وفي شرح الروض وينبغي للإمام أن يسأل أهل العلم المشهورين في عصره عمن يصلح للفتوى ليمنع من لا يصلح ويتوعده بالعقوبة بالعود‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)
خود ساختہ مفتی بننے سے پرہیز
          امام دار الہجرۃ امام مالک علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں: میں نے اس وقت تک فتوی نہیں دیا جب تک ستر علماے ذوی الاحترام نے میرے متعلق شہادت نہیں دے دی کہ میں فتوی دینے کا اہل ہوں، نیز دوسری جگہ فرماتے ہیں: میں نے اس وقت تک فتوی نہیں دیا جب تک میں نے اپنے سے زیادہ علم والے سے معلوم نہیں کرلیا کہ میں فتوی جاری کرنے کے لائق ہوں، تیسری جگہ فرماتے ہیں: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے کو کسی عہدہ کا اہل سمجھے جب تک کہ اس سے زیادہ علم رکھنے والے ذمہ دار حضرات، اس کے لیے اس عہدہ کے اہل ہونے کی گواہی نہ دے دیں۔
          امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ثم روى بإسناده عن مالك رحمه الله قال أفتيت حتى شهد لي سبعون أني أهل لذلك، وفي رواية ما أفتيت حتى سألت من هو أعلم مني هل يراني موضعا لذلك قال مالك ولا ينبغي لرجل أن يرى نفسه اهلا لشئ حتى يسأل من هو أعلم منه‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۱، دار الفکر، بیروت)
          خود ساختہ مفتی بننے والے، نرے جاہل ہونگے یا پڑھے لکھےتو ہونگے مگر اس فن سے بالکل نابلد ہونگے، اب اگر ان سے مسئلہ پوچھا جائے گا؛ تو اپنے آپ کو بہت بڑا مفتی سمجھ کر خود گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی غلط مسئلہ بتاکر گمراہ کریں گے اور فتوی بیزاری مہم میں مزید اضافہ کرنے کی مذموم کوشش کریں گے اور اگر کوئی لائق و فائق مفتی کوئی فتوی جاری کرے گا؛ تو یہ خود ساختہ مفتی، اصول و ضوابط افتا سے عاری، بے بنیاد دلائل کو دلائل بناکر لائق و فائق مفتی سے لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار ہوجائیں گے بلکہ اپنی دشمنی کی ادے گی کا کوئی دقیقہ باقی نہ رکھیں گے اور اس کا نتیجہ فتنہ و فساد کے سوا کچھ نہیں ہوگا، جو قوم مسلم کے لیے موت سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے ایسے لوگوں کو امام دار الہجرۃ رحمہ اللہ کی طرز زندگی سے کچھ تو عبرت حاصل کرنا چاہیے اور اپنے اس غلط طریقہ کار سے فورا باز آجانا چاہیے۔
فتوی نویسی کے شرائط و آداب
          اب ظاہر سی بات ہے جب فتوی نویسی کے لیے تدریب، لائق و فائق فتوی نویس کی تعیین بہت اہم اور خود ساختہ مفتی بننے سے پرہیز ضروری ہے؛ تو فتوی نویس کے اندر مندرجہ ذیل شرائط،  اوصاف و آداب پائے جانے چاہیے یا دور حاضر کے اعتبار سے کم از کم ایسا مرد مجاہد تو ضرور ہو جو شرائط پر کھرا اترنے کے ساتھ ان اوصاف و آداب سے متصف ہونے کی بھر پور کوشش کرے، مندرجہ ذیل سطور میں کچھ شرائط، آداب اور اوصاف، دور حاضر کا لحاظ کرتے ہوئے تبصرہ کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
          مفتی ہونے کے لیے شرط ہے کہ مفتی بننے والا مکلف، مسلم، ثقہ، اسباب فسق اور خوارم مروت سے محفوظ ہو، تقوی و پرہیزگاری اس کا وطیرہ ہو، ساتھ ہی فقیہ نفس، سلیم ذہن و فکر کا مالک،  صحیح تصرف و استنباط والا اور صاحب تیقظ یعنی حیلہ باز کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
          امام ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وليكن المفتي متنزها عن خوارم المروءة فقيه النفس سليم الذهن حسن التصرف والاستنباط، ولو كان المفتي عبدا أو امرأة أو أعمى أو أخرس بالإشارة‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)
          امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شرط المفتى كونه مكلفا، مسلما، ثقة، مأمونا، متنزها عن أسباب الفسق و خوارم المرؤة، فقيه النفس، سليم الذهن، رصين الفكر، صحيح التصرف و الاستنباط، متيقظا‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۱، دار الفکر، بیروت)
          امام ابن نجیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’قوله (والفاسق يصلح مفتيا وقيل لا) وجه الأول أنه يحذر النسبة إلى الخطأ، ووجه الثاني أنه من أمور الدين وخبره غير مقبول في الديانات ولم يرجح الشارحون أحدهما وظاهر ما في التحرير أنه لا يحل استفتاؤه اتفاقا؛ فإنه قال: الاتفاق على حل استفتاء من عرف من أهل العلم بالاجتهاد والعدالة أو رآه منتصبا و الناس يستفتونه معظمين وعلى امتناعه إن ظن عدم أحدهما فإن جهل اجتهاده دون عدالته فالمختار منع استفتائه بخلاف المجهول من غيره إذ الاتفاق على المنع اهـ.
      فلا أقل من أن يكون ترجيحا لعدم صلاحيته، ولذا جزم به في المجمع واختاره في شرحه، وقال إن أولى ما يستنزل به فيض الرحمة الإلهية في تحقق الواقعات الشرعية طاعة الله عز وجل والتمسك بحبل التقوى، قال الله تعالى: {واتقوا الله ويعلمكم الله} [البقرة: 282] ومن اعتمد على رأيه وذهنه في استخراج دقائق الفقه وكنوزه وهو في المعاصي حقيق بإنزال الخذلان عليه فقد اعتمد على ما لا يعتمد عليه {ومن لم يجعل الله له نورا فما له من نور} [النور: 40] . اهـ.
      فشرط المفتي إسلامه وعدالته، ولزم منها اشتراط بلوغه وعقله فترد فتوى الفاسق والكافر وغير المكلف إذ لا يقبل خبرهم، ويشترط أهلية اجتهاده‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)
          لہذا دور حاضر میں جو شخص اجتہاد کی شرط نہ صحیح مگر دیگر مذکورہ بالا شرائط و آداب پر جو کھرا اترے، اسے ہی فتوی دینے کی اجازت دی جائے اور جو شخص ان شرائط و آداب کا متحمل نہ ہو، خاص کر اگر وہ فسق و فجور، جیسےبلاوجہ شرعی نماز قصدا چھوڑنے وغیرہ کی صفت رذیل سے متصف ہو؛ تو اسے قطعا فتوی جاری کرنے کی اجازت نہ دی جائے؛ کیوں فاسق کا فتوی مقبول نہیں بلکہ مردود ہوتا ہے۔
قرابت و عداوت اور فتوی نویسی میں تساہلی
          ایک مفتی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر تصلب فی الدین ہو؛ تاکہ وہ منھ دیکھ کر فتوی جاری نہ کرے، یعنی قریبی یا رشتہ دار ہے؛ تو اسے اپنے فتوی کے ذریعہ ہر طرح سے بچانے یا اسے فائدہ پہونچانے کی کوشش کرے اور اگر دشمن ہے؛ تو اسے اپنے فتوی کی زد میں لاکر نقصان و ضرر پہونچانے کی سعی مذموم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔
          امام ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وليس هو كالشاهد في رد فتواه لقرابة وجر نفع ودفع ضر وعداوة فهو كالراوي لا كالشاهد، وتقبل فتوى من لا يكفر ولا يفسق ببدعة كشهادته اهـ‘‘۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۶ص۲۸۶، کتاب الکفالۃ، دار الکتاب الإسلامی)
          امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قال الشيخ أبو عمر وبن الصلاح وينبغي أن يكون كالراوي في أنه لا يؤثر فيه قرابة وعداوة وجر نفع ودفع ضر لأن المفتي في حكم مخبر عن الشرع بما لا اختصاص له بشخص فكان كالراوي لا كالشاهد‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۱، دار الفکر، بیروت)
            اسی طرح ایک مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قطعا فتوی دینے میں تساہلی سے کام نہ لے؛ کیوں کہ ایسا طریقہ کار اختیار کرنے والے سے فتوی پوچھنا حرام ہے، ساتھ ہی اپنے آپ کو حق فتوی دہی سے محروم کرنا ہے، تساہلی کی ایک صورت یہ ہے کہ جلد بازی میں، حکم فتوی کا حق ادا کرنے سے پہلے ہی فتوی جاری کردے، اور ایک صورت تساہلی کی یہ بھی ہے کہ اغراض فاسدہ کے لیے حرام یا مکروہ حیلے تلاش کرے، جس کو فائدہ یا نقصان پہونچانا مقصود ہو، اس کے پیش نظر شبہ والے حیلے کا سہارا لینے کی کوشش کرے، البتہ اگر نیت بہتر ہے اور قسم وغیرہ کی مشکل سے نجات دینے کے لیے بغیر شبہ والے حیلے کا سہارا لے؛ تو اس میں کوئی حرج نہیں، حیلے کا جواز بعض سلف صالحین سے جو منقول ہے، وہ اسی صورت حال پر محمول ہے، اس سے حرام و مکروہ حیلے مراد نہیں جس کے ذریعہ دوستی یا دشمنی ادا کی جائے یا پھر بے جا کسی کا حق مارنے کی سعی مذموم کی جائے۔
          امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’يحرم التساهل في الفتوى ومن عرف به حرم استفتاؤه: فمن التساهل أن لا يتثبت ويسرع بالفتوى قبل استيفاء حقها من النظر والفكر فإن تقدمت معرفته بالمسئول عنه فلا بأس بالمبادرة وعلى هذا يحمل ما نقل عن الماضين من مبادرة: ومن التساهل أن تحمله الأغراض الفاسدة على تتبع الحيل المحرمة أو المكروهة والتمسك بالشبه طلبا للترخيص لمن يروم نفعه أو التغليظ على من يريد ضره وأما من صح قصده فاحتسب في طلب حيلة لا شبهة فيها لتخليص من ورطة يمين ونحوها فذلك حسن جميل: وعليه يحمل ما جاء عن بعض السلف من نحو هذا كقول سفيان إنما العلم عندنا الرخصة من ثقة فأما التشديد فيحسنه كل احد: ومن الحیل التي فيها شبهة ويذم فاعلها الحيلة السريجية في سد باب الطلاق‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۶، دار الفکر، بیروت)
            مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج کل بہت سارے مفتی کہلانے والے حضرات قرابت و عداوت کا حد درجہ لحاظ کرتے ہوئے تساہلی کے اعلی درجہ پر فائز نظر آتے ہیں اور طرح طرح کی غیر شرعی حیلہ بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں، قرابت ہے تو سو خون معاف اور عداوت ہے تو ایک قطرہ بھی معاف نہیں، حالاں کہ ایک مفتی کو قطعا ایسا نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ حکم شرع بیان کرنے والا ہے اور اس میں قرابت و عداوت کی تفریق نہیں ہوتی، سب کا حکم یکساں ہوتا ہے، اگر دوسرے مفتیان کرام کے حقوق کی ادئیگی کی صورت میں کوئی مفتی خاموش رہتا ہے؛ تو الگ بات ہے، لیکن جب بھی بولے گا یا لکھے گا؛ تو قرابت و عداوت کی تفریق کیے بغیر حق ہی بولے گا؛ لہذا قرابت و عداوت کی تفریق جیسے  وصف قبیح سے ہر مفتی و فتوی نویس کو پاک و صاف ہونا از حد ضروری ہے۔
مسئلہ میں اختلافِ اقوال پر اقتصار
          آج کل یہ فکر بھی رائج ہورہی ہے کہ فتوی میں اختلاف ذکر کردیا جائے، سائل اپنے اعتبار سے عمل کرلے گا، حالاں کہ یہ سراسر غلط ہے، بلکہ خواہش نفس کو ہوا دینے کے مترادف ہے؛ اس لیے فتوی کو قیل قال اور اختلاف اقوال سے محفوظ رکھ کر راجح قول کے مطابق فتوی دینا چاہیے اور اگر راجح واضح نہیں ہوا؛ تو توقف کرے یا اس کے متعلق فتوی دینا ہی ترک کردے جیساکہ بڑے بڑے مفتیان کرام نے یہی طریقہ کار اختیار کیا۔
          ’’ينبغي أن لا يقتصر في فتواه على قوله في المسألة خلاف أو قولان أو وجهان أو روايتان أو يرجع إلى رأي القاضي ونحو ذلك فهذا ليس بجواب ومقصود المستفتي بيان ما يعمل به فينبغي أن يجزم له بما هو الراجح، فإن لم يعرفه، توقف حتى يظهر أو يترك الإفتاء كما كان جماعة من كبار أصحابنا يمتنعون من الإفتاء في حنث الناسي‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۷، دار الفکر، بیروت)
          جامعہ ازہر،مصر میں بعض مفتیان کرام  کے بہت سارے فتاوی اسی نہج پر نظر آتے ہیں، مگر یہ خود ان کے مذہب کے مطابق محمود نہیں اور عقلا و نقلا بھی یہ بات قابل قبول نظر نہیں آتی؛ کیوں کہ سائل اگر خود اسی قابل ہوتا کہ اقوال میں سے صحیح قول کا انتخاب کرلے؛ تو وہ مفتی کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ خود ہی حل کرکے عمل کرلیتا؛ لہذا یہ طریقہ کار بھی محمود نہیں، اس سے ہر ایک مفتی بچنا چاہیے۔
جواب سے پہلے آسان سوال میں بھی غور و فکر
          ایک مفتی و فتوی نویس کے لیے ضروری ہے کہ سوال غور و فکر سے پڑھے اور خاص کر آخری جملوں پر زیادہ توجہ دے؛ کیوں کہ کبھی سائل آخری جملوں میں کچھ ایسی قید بڑھادیتا ہے جس سے ابتدائی مسئلہ کی نوعیت بالکل بدل جاتی ہے بلکہ سخت سوال تو سخت سوال، آسان سے آسان سوال بھی امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کی طرح بڑی گہرائی و گیرائی سے پڑھنا چاہیے؛ تاکہ اسی طرح پڑھنے کی عادت بن جائے اور خطا کا امکان کم سے کم ہوجائے، مگر عموما دور حاضر کے لوگوں کا عجیب حال ہے، عموما سائل کو جلدی ہوتی اور بہت سارے فتوی نویسی کرنے والے حضرات بھی اس جلد بازی کے زد میں آجاتے ہیں، جس کی وجہ سے خطا کا امکان کم ہونے کے بجائے اس کا امکان زیادہ نظر آتا ہے؛ اس لیے سائل کے ساتھ مفتیان کرام کو بھی چاہیے کہ وہ جلد بازی میں فتوی نہ دیں اور اگر اس جلد بازی کی وجہ سے خو د غیر اطمینانی کے شکار ہوں؛ تو کسی بھی صورت میں فتوی جاری نہ کریں، ورنہ چوک ہونے کا امکان زیادہ ہوگا اور یہ خود اور قوم مسلم، دونوں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔
      ’’ليتأمل الرقعة تأملا شافيا وآخرها آكد فإن السؤال في آخرها وقد يتقيد الجميع بكلمة، في آخرها ويغفل عنها: قال الصيمري قال بعض العلماء ينبغي أن يكون توقفه في المسألة السهلة كالصعبة ليعتاده وكان محمد بن الحسن يفعله‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۸، دار الفکر، بیروت)
فتوی جاری کرنے سے قبل باہم مشاورت
          اگر سائل مسئلہ کو چھپانا نہیں چاہتا یا اور کوئی خاص وجہ وجیہ نہ ہو؛ تو ایک فتوی نویس کے لیے بہتر ہے کہ وہ جواب لکھنے کے بعد سلف صالحین کی اتباع کرتے ہوئے، اپنے درمیان موجود اہل فن سے اپنے اس جواب کے بارے میں نرمی و خوش اخلاقی کے ساتھ مشورہ کرلے، اب یہ اہل فن بڑے ہوں یا چھوٹے، شاگرد ہوں یا ہم عصر، مشورہ لینے کے لیے ان کے درمیان کوئی تفریق نہ کرے؛ کیوں کہ ایک فتوی نویس خواہ کتنا ہی کیوں ماہر نہ ہو، بہر حال ممکن ہے کہ جواب لکھنے میں کہیں اس سے کوئی گوشہ مخفی رہ گیا ہو اور باہم اہل فن سے مشاورت کےسبب اس کا ازالہ ہوجائے، بالخصوص جب کوئی خاص یا جدید مسئلہ در پیش ہو؛ تو ضرور اس مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
          ’’يستحب أن يقرأها على حاضريه ممن هو أهل لذلك ويشاورهم ويباحثهم برفق وإنصاف وإن كانوا دونه وتلامذته للاقتداء بالسلف ورجاء ظهور ما قد يخفى عليه إلا أن يكون فيها ما يقبح إبداؤه أو يؤثر السائل كتمانه أو في اشاعته مفسدة‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۸، دار الفکر، بیروت)
فتوی میں اختصار و طول
          جواب عموما مختصر اور عام فہم ہونا چاہیے تاکہ عوام و خواص سبھی لوگ با آسانی سمجھ جائیں اور عام لوگوں کے سامنے دلیل پیش نہ کی جائے تو بہترہے، البتہ اگر علما کو جواب دیا جائے؛ تو واضح دلائل بھی پیش کیے جائیں، نیز عموما فتاوی میں جہت اجتہاد و استدلال سے بھی پرہیز کیا جانا چاہئے، ہاں اگر کسی کی غلطی پر تنبیہ کرنا ہو یا مسئلہ اختلافی ہو یا فرقہ باطلہ کا رد کرنا ہو یا اس طرح کا کوئی دوسرا خاص سبب ہو؛ تو قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دلائل کے ساتھ، طریقہ اجتہاد وغیرہ کا استدلال ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں، حضور مفتی اعظم اڈیشا رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ان تمام چیزوں کا عموما خیال کیا، یہی وجہ ہے کہ آپ کو کبھی اپنے کسی فتوی سے رجوع کرنے کی نوبت نہیں آئی، اسی طرح والد ماجد حضور فقیہ ملت رحمہ اللہ کے فتاوی کے مقبول عام و خاص ہونے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کے فتاوی عموما بہت ہی عام فہم اور مختصر ہیں، ہاں جہاں تفصیل کی ضرورت پڑی، وہاں آپ نے تفصیل بھی پیش کی ہے؛ اس لیے ہر جگہ طول یا اختصار کے بجائے سائل و مسئلہ کا لحاظ کرتے ہوئے، فتوی میں  اختصار و طول کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
          ’’ليختصر جوابه ويكون بحيث تفهمه العامة قال صاحب الحاوي يقول يجوز أو لا يجوز أو حق أو باطل وحكى شيخه الصيمري عن شيخه القاضي أبي حامد أنه كان يختصر غاية ما يمكنه واستفتي في مسألة آخرها يجوز أم لا فكتب لا وبالله التوفيق‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۹، دار الفکر، بیروت)
          ’’ ليس بمنكر أن يذكر المفتي في فتواه الحجة إذا كانت نصا واضحا مختصرا قال الصيمري لا يذكر الحجة إن أفتى عاميا ويذكرها إن أفتى فقيها كمن يسأل عن النكاح بلا ولي فحسن أن يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نكاح إلا بولي: أو عن رجعة المطلقة بعد الدخول فيقول له رجعتها قال الله تعالى: (وبعولتهن أحق بردهن) قال ولم تجر العادة أن يذكر في فتواه طريق الاجتهاد ووجهة القياس والاستدلال إلا أن تتعلق الفتوى بقضاء قرض فيومئ فيها إلى طريق الاجتهاد ويلوح بالنكتة وكذا إذا أفتى غيره فيها بغلط فيفعل ذلك لينبه على ما ذهب إليه ولو كان فيما يفتي به غموض فحسن أن يلوح بحجته، وقال صاحب الحاوي لا يذكر حجة ليفرق بين الفتيا والتصنيف قال ولو ساغ التجاوز إلى قليل لساغ إلى كثير ولصار المفتي مدرسا والتفصيل الذي ذكرناه أولى من إطلاق صاحب الحاوي المنع‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۵۱، دار الفکر، بیروت)
          لیکن آج بھی بہت سارے مفتیان کرام اور فتوی نویس ایسے بھی ہیں جن کے فتاوی عموما ردود و شبہات اور اختلافی مسائل میں بھی دلائل سے خالی و عاری ہوتے ہیں اور  اپنے فتاوی میں عام فہم جملوں سے ہٹ کر سخت یا بہت سخت جملے استعمال کرتے ہیں، جنہیں عوام تو عوام، علما بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ دلائل کے وقت دلائل اور جملے ہمیشہ عام فہم ہونا چاہیے تاکہ فتوی کا فائدہ زیادہ سے زیادہ عام و تام ہوتا رہے۔
کتبِ  فتاوی میں قول معتمد کی معرفت
          امام قاضی خاں رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں کسی مسئلہ کے تحت مختلف اقوال ذکر کرتے ہیں، ان میں سے پہلا قول آپ کے نزدیک راجح ہوتا ہے، اسی طرح صاحب ’ملتقی الأبحر‘ قول معتمد کو مقدم رکھتے ہیں، مگر ان کے علاوہ وہ کتابیں جن میں اقوال کے ساتھ دلائل بھی ذکر کی جاتی ہیں، جیسے ہدایہ، اس کی شروحات اور کنز کی شروحات وغیرہ، ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ حضرات ائمہ کرام کے اقوال ذکر نےکے بعد اخیر میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کرتے ہیں، پھر ہر قول کی دلیل لاتے ہیں، اس کے بعد امام کی دلیل لاتے ہیں اور دیگر حضرات کی دلائل کا جواب بھی دیتے ہیں، یہ طریقہ کار امام کے قول کی ترجیح قرار پاتی ہے، البتہ اگر قول امام کے علاوہ کی ترجیح کی صراحت کردیں؛ تو اس وقت یہی ترجیح شدہ راجح ہوگا، اور جب کسی مسئلہ میں تین اقوال مذکور ہوں؛ تو بیچ والا قول نہیں بلکہ پہلا یا اخیر والا قول راجح ہوگا، مگر یہ مطلقا نہیں بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ مصنف کا کوئی طریقہ کار معلوم نہ ہو اور نہ ہی دلائل ذکر کی گئی ہوں، ورنہ وہی تفصیل سابق کے مطابق راجح و غیر راجح قرار دیا جائے گا، اسی طرح اگر فقہاے کرام صرف دو اقوال ذکر کرکے فقط ایک قول کی تعلیل ذکر کریں؛ تو یہی تعلیل شدہ قول راجح قرار پائے گا۔
          علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أول الأقوال الواقعة في فتاوی الإمام قاضي خان له مزیة علی غیرہ في الرجحان؛ لأنه قال في أول الفتاوی: و فیما کثرت فیه الأقاویل من المتأخرین اختصرت علی قول أو قولین و قدمت ما ھو الأظھر و افتتحت بما ھو الأشھر، إجابة للطالبین و تیسیرا علی الراغبین، انتھی، و کذا صاحب ملتقی الأبحر التزم تقدیم القول المعتمد و ما عداھما من الکتب التي تذکر فیھا الأقوال بأدلتھا کالھدایة و شروحھا و شروح الکنز و کافي النسفی و البدائع و غیرھا من الکتب المبسوطة فقد جرت العادۃ فیھا عند حکایة الأقوال إنھم یؤخرون قول الإمام، ثم یذکرون دلیل کل قول، ثم یذکرون دلیل الإمام متضمنا للجواب عما استدل به غیرہ و ھذا ترجیح له، إلا أن ینصوا علی ترجیح غیرہ۔۔۔۔۔و فی آخر المستصفی للإمام النسفي: إذا ذکر في المسئلة ثلاثة أقوال فالراجح الأول أو الأخیر، لا الوسط، انتھی۔
      قلت: و ینبغي تقییدہ بما إذا لم تعلم عادۃ صاحب ذلك الکتاب و لم یذکر الأدلة۔۔۔۔۔و کذا لو ذکروا قولین مثلا و عللوا لأحدھما کان ترجیحا له علی غیر المعلل‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۱۳۶۱۳۷، ط: دار الکتاب، دیوبند)
          ہمیں آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کتب فتاوی بلکہ ہر کتاب جو زیر مطالعہ ہو، اس کے طریقہ تصنیف کو سمجھیں اور مصنف نے کونسا طریقہ کار اختیار کیا ہے، اسے مستحضر رکھیں، اس کے لیے مصنف کی کتاب کے مقدمہ کو پڑھنا از حد ضروری ہے، اگر مصنف کے طریقہ کار کی کہیں وضاحت نہ مل سکے؛ تو خو د مصنف کی کتاب پڑھ کر، ان کے اختیار کیے گئے طریقہ کار کو متعین کریں، مگر کتنی عجیب بات ہے کہ جو کتاب فتوی نویس حضرات کے  زیر مطالعہ ہوتی ہے، عموما انہیں  اس کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا، مصنف نے اپنی تصنیف میں کونسا لائحہ عمل اختیار کیا ہے، اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی اور کتاب پڑھ کر مصنف کے لائحہ عمل کو متعین کرنا تو دور کی بات، انہیں مصنف کے لکھے گئے مقدمہ کو پڑھ کر طریقہ کار جاننے کی فرصت نہیں ملتی، یہ بے ڈھنگی رنگ ہر مجال کی کتب بالخصوص کتب فتاوی میں غیر محمود اور سخت ناپسندیدہ ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم جس کتاب کا بھی مطالعہ شروع کریں، سب سے پہلے اس کتاب کے مقدمہ کو پڑھیں؛ تاکہ کتاب کو سمجھنے، اس سے فائدہ حاصل کرنے اور لوگوں کو فائدہ پہونچانے میں آسانی ہو اور حتی الامکان خطا سے محفوظ بھی رہیں۔
اسباب مرجحات واجب الحفظ
          فقہاے کرام فرماتے ہیں کہ جب دو قول تصحیح شدہ ہوں؛ تو مفتی کو اختیار ہے، جس پر چاہے فتوی دے، مگر ان کا یہ قول مطلق نہیں بلکہ اس صورت میں ہے، جب کہ تصحیح سے پہلے یا تصحیح کے بعد، دونوں اقوال میں سے کسی قول کے لیے کوئی مرجِح نہ ہو، علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ نے دس مرجہات ذکر کیے ہیں، میں انہیں یہاں اختصار کے ساتھ بیان کردیاتا ہوں؛ تاکہ زیر بحث مسئلہ بالکل واضح ہوجائے، ملاحظہ فرمائیں:
          (۱)جب دو اقوال میں سے ایک قول کے بارے میں صحیح اور دوسرے کے بارے میں اصح کہا گیا ہو؛ تو اس وقت مشہور مذہب کے مطابق اصح کو ترجیح حاصل ہوگی۔
          (۲) ایک قول میں لفظ فتوی اور دوسرے میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا گیا ہو، تو لفظ فتوی والے قول کو ترجیح حاصل ہوگی۔
          (۳) تصحیح شدہ ایک قول متون میں ہو اور دوسرا متون کے علاوہ میں ہو؛ تو متون کے تصحیح شدہ قول کو ترجیح حاصل ہوگی۔
          (۴) ایک قول امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے اور دوسرا قول اصحاب میں سے کسی کا ہے، اس صورت میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح دی جائے گی۔
          (۵) ایک قول ظاہر الروایۃ اور دوسرا قول غیر ظاہر الروایۃ میں ہے، تو جو قول ظاہر الروایۃ میں ہے، اسی کو ترجیح و توثیق حاصل ہو گی۔
          (۶) تصحیح شدہ دو اقوال میں سے ایک قول اکثر مشایخ کرام کا ہے، تو اس صورت میں اکثر مشایخ کرام کے قول کو فوقیت دی جائے گی۔
          (۷) ایک قول استحسان اور دوسرا قول قیاس کے موافق ہو؛ تو بعض مستثنیات کے علاوہ سب میں استحسان کو اَرجح قرار دیا جائے گا۔
          (۸) اگر وقف کے بارے میں مفتیان کرام کا اختلاف ہے؛ تو جو قول وقف کے لیے زیادہ مفید ہوگا، اسی کے اعتبار سے فیصلہ کیا جائے گا۔
          (۹) اسی طرح دو تصحیح شدہ اقوال میں سے جو زمانہ کے زیادہ مناسب ہو، اسی کے مطابق فتوی دیا جائے گا، جیسے دور حاضر میں تعلیم پر اجرت لینے کے متعلق ائمہ ثلاثہ کے عدم جواز کے قول کو چھوڑکر، جواز کے قائلین کے اعتبار سے فتوی صادر کیا جاتا ہے۔
          (۱۰) دو تصحیح شدہ اقوال میں تعارض ہو؛ تو دلیل میں غور و فکر کی صلاحیت رکھنے والے جس کی دلیل اوضح و اظہر بتائیں، اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا، اسی طرح جب دونوں اقوال میں سے کسی قول کی تصحیح موجود نہ ہو؛ تو انہیں مرجحات جیسے متون میں ہونا یا قول امام ہونا وغیرہ جس قول میں پایا جائے، اسی کو ترجیح حاصل ہوگی۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۱۴۳۱۴۴، ط: دار الکتاب، دیوبند)
          بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ تصحیح شدہ دو قول یا متعدد اقوال ہوں؛ تو مفتی یا فتوی نویس کو اختیار ہے، جس کے مطابق چاہے فتوی دے، یہ سوچ و فکر محل نظر ہے؛ کیوں کہ  اس صورت میں بھی فتوی دینے کے لیے مندجہ بالا مرجحات میں کسی ایک مرجح کا پایا جانا ضروری ہے؛ اس لیے ایک مفتی و فقیہ کو ان مرجحات کو  بھی اپنے ذہن میں مستحضر رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
مفتی کی حالات زمانہ سے غفلت بہت بڑا المیہ
          فتوی کی ذمہ داری جو بھی عالم نبھائے، اسے زمانہ کے معاملات و حالات سے واقف ہونا از حد ضروری ہے، ورنہ جو مفتی اس امر سے بے اعتنائی کرتا ہے یا اس کے بارے میں خاطر خواہ  علم نہیں رکھتا، فقہاے کرام اس کے عالم ہونے کے باوجود،  اسے جاہل کے ذمرے میں رکھتے ہیں، احوال کی جانکاری کا لحاظ کرتے ہوئے ہی فقہاے کرام نے فرمایا کہ قضا کے متعلق مسائل، امام ابویوسف رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق بیان کیے جائیں گے، امام محمد رحمہ اللہ رنگ ریزوں کے پاس جاکر، ان کے معاملات کی کیفیت معلوم کرتے تھے، حالات زمانہ کی رعایت سے متعلق ایک مثال یہاں پر پیش خدمت ملاحظہ فرمائیں:
          اگر زمین کا مالک اعلی چیز کی زراعت کرنے پر قادر ہونے کے باوجود، ادنی کی زراعت کرے؛ تو اس پر اعلی چیز کے اعتبار سے خراج دینا واجب ہے، فقہاے کرام فرماتے ہیں: یہ حکم صرف علم میں رکھنے کے لیے ہے، اس کے مطابق فتوی نہیں دیا جائے گا؛ کیوں کہ اگر اس کے مطابق فتوی دیا گیا؛ تو ظالم حکمراں، لوگوں کے اموال، غلط طریقہ سے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ حکم چھپانا کیسے جائز ہوگا، جب کہ حکمراں جو لیں گے، وہ واجب ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ درست و صحیح ہوگا، اس کا جواب دیتے ہوئے فقہاے کرام نے فرمایا: اگر اس کے مطابق فتوی دیں گے؛ تو ہر ظالم حکمراں جو زمین اعلی زراعت کے قابل نہیں ہوگی، اس زمین میں بھی اعلی زراعت کی صلاحیت کا دعوی کرکے خراج وصول کرے گا، مثلا فلاں زمین میں اس سے پہلے زعفران کی زراعت ہوتی تھی، پھر اسی کے مطابق خراج وصول کرے گا اور یہ ظلم و عدوان ہے۔
          علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ سابق تفصیل اور اس پر صاحب فتح القدیر امام ابن ہمام رحمہ اللہ کی تائید پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
      ’’فقد ظھر لك أن جمود المفتي أو القاضي علی ظاھر المنقول مع ترك العرف و القرائن الوضحة و الجھل بأحوال الناس یلزم منه تضییع حقوق کثیرۃ و ظلم خلق کثیرین‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۱۵۸، ط: دار الکتاب، دیوبند)
          یعنی عرف، واضح قرائن کو چھوڑکر اور لوگوں کے احوال کی جہالت کی وجہ سے صرف مفتی یا قاضی کا منقول پر جمود کے سبب کثرت سے لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے اور بہت ساری مخلوں پر ظلم کرنا لازم آئے گا۔
          مزید تفصیل و توضیح کے لیے مفتی اعظم ہند مفتی محمد نظام الدین رضوی دام ظلہ، صدر شعبہ افتا و صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا کی کتاب مستطاب ’حالات زمانہ کی رعایت‘ کی طرف رجوع کریں۔
          حالات زمانہ سے واقفیت کے متعلق مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں سلف صالحین کا طریقہ کار بالکل ہمارے لیے واضح ہوجاتا ہے، اگر آج ہم نے ذمہ داری اٹھائی ہے؛ تو ہمیں آج بھی اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم حالات زمانہ سے چشم پوشی کے بجائے، ان سے آگاہی حاصل کریں اور پھر بلاتعصب و نفس پروری، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں، ان کا حل تلاش کرنے کی سعی مسعود کریں، ان شاء اللہ کامیابی ضروری ملے گی، لیکن آج عموما ہم حالات زمانہ سے غفلت برتنے کے عادی ہوگئے ہیں، حالاں کہ حالات زمانہ سے غافل علما کو فقہاے کرام جاہل قرار دیتے ہیں، ظاہر سی بات ہے جب ہمیں حالات کا علم نہیں ہوگا؛ تو ہم اس کے متعلق کوئی شرعی فیصلہ بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کا کوئی بہترین حل تلاش کرسکتے ہیں اور ایک طرح سے جہالت ہی ہے۔
عرف سے حکم کب بدلتا ہے؟!
          عرف کی دو قسمیں ہیں: عرف عام، عرف خاص۔
          عرف عام سے حکم عام ثابت ہوتا ہے اور یہ عرف قیاس و اثر کی تخصیص کی بھی صلاحیت رکھتا ہے، عرف خاص سے حکم خاص ثابت ہوتا ہے جب تک کہ قیاس یا اثر کی مخالفت لازم نہ آئے؛ کیوں کہ یہ عرف ان دونوں کی تخصیص کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
          عرف عام جیسے استصناع، جو چیز بائع کے پاس نہ ہو، حدیث شریف میں اس چیز کی بیع سے منع کیا گیا ہے، استصناع میں بھی بائع کے پاس جو چیز نہیں ہوتی ہے، اسی کی بیع ہوتی ہے، اس اعتبار سے استصناع بھی جائز نہیں ہونا چاہیے مگر استصناع پوری دنیا میں عام ہونے کی وجہ سے اس کو حدیث میں وارد شدہ نہی سے الگ کردیا گیا اور نص کو استصناع کے علاوہ دیگر مسائل و معاملات کے ساتھ خاص کردیا گیا۔
            لیکن اگر خاص نص جس کی ممانعت کے بارے میں وارد ہے، خاص اسی نص کے خلاف لوگوں کا تعامل پوری دنیا میں رائج ہوجائے؛ تو اگرچہ یہ عرف پوری دنیا میں عام ہے، مگر اس صورت میں اس عرف پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ اگر اس عرف پر عمل کیا جائے گا؛ تو نص کو چھوڑنا لازم آئے گا اور نص کو کسی بھی صورت میں چھوڑنا جائز نہیں، یہاں سے معلوم ہوا کہ عرف عام وہی معتبر ہے جس میں تخصیص تو لازم آئے مگر نص کو ترک کرنا لازم نہ آئے؛ کیوں کہ اگر نص کو ترک کرنا لاز آئے گا تو عرف عام معتبر نہیں ہوگا۔
          عرف خاص، جیسے کہ اگر کسی خاص ملک یا شہر میں سوت دے کر اس کے تہائی کے بدلے میں اجرت کے طور پر کام کرنے کا تعامل ہوجائے؛ تو یہ جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ یہ قفیز طحان کی صورت ہے، جس کی حدیث شریف میں ممانعت آئی ہے اور عرف خاص کے ذریعہ نص کی تخصیص نہیں ہوتی؛ لہذا یہاں پر سوت دے کر تہائی کے بدلے میں اجرت کے طور پر کام کرنے کے تعامل کو نص سے الگ کرکے قفیز طحان کے ساتھ خاص نہیں کیا جائے گا؛ کیوں کہ جس طرح عرف خاص میں عرف عام کی طرح ترک نص نہیں ہوسکتا، اسی طرح عرف خاص، نص کی تخصیص بھی نہیں کرسکتا؛ لہذا سوت والی مذکورہ صورت عرف خاص ہونے کی وجہ سے بھی جائز نہیں ہوگی، ہاں اگر کوئی ایسا عرف خاص ہو جس میں نص کا ترک یا اس کی تخصیص لازم نہ آئے؛ تو اس صورت میں اس عرف خاص پر عمل کیا جائے گا۔
          علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و الحاصل أن العرف العام لا یعتبر إذا لزم منه ترك المنصوص، و إنما یعتبر إذا لزم منه تخصیص النص و العرف الخاص لا یعتبر في الموضعین و إنما یعتبر في حق أھله فقط إذا لم یلزم منه ترك النص و لا تخصیصه و إن خالف ظاھر الروایة و ذلك کما في الألفاظ المتعارفة في الأیمان۔۔۔۔۔۔الخ‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ۱۵۹۶۹، ط: دار الکتاب، دیوبند)
          دور حاضر میں بہت سارے حضرات عرف عام و خاص میں کوئی تفریق نہیں کرتے اور وہ ہر عرف کو بلا قید و بند ہر جہت سے قابل اعتنا سمجھتے ہیں، وہیں اس کے برخلاف بہت سارے لوگ عرف عام و خاص، کسی بھی عرف بالخصوص عرف عام کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھتے، یہ دونوں افکار حد اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں، ہر ایک عرف عام و خاص کا اپنا ایک دائرہ ہے، اس کے مطابق ہر ایک کو عمل دلانا اور اس کے مطابق فیصلہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اگر آج بھی اس کا خاطر خواہ خیال کیا جائے، بے اعتدالی نہ برتی جائے اور بے جا تشدد کا اظہار نہ کیا جائے؛ تو ہمارے درمیان کے بہت سارے مسائل با آسانی حل ہوجائیں گے اور امت مسلمہ بھی اپنے مفتیان کرام کی رہنمائی میں چین و سکون کی سانس لے سکیں گے۔
قول ضعیف پر خود بھی عمل ناممکن
          احناف کے نزدیک قول مرجوح یا قول ضعیف کے مطابق نہ تو فتوی دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی خود کوئی انسان اس کے مطابق عمل کرسکتا ہے، البتہ اگر ضرورت شرعیہ متحقق ہو؛ تو اس صورت میں قول ضعیف یا قول مرجوح کے مطابق عمل کرنا جائز ہے اور اس کے موافق فتوی بھی صادر کرنے کی اجازت ہے، بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ بہر صورت عمل ہونا چاہیے، چاہےجس قول پر عمل ہو، ان کی یہ فکر غلط ہونے کے ساتھ ساتھ اجماع کے خلاف بھی ہے؛ کیوں قول ضعیف پر خود عمل کرنے یا اس کے مطابق فتوی جاری کرنے کی، اسی وقت اجازت ہے جب ضرورت متحقق ہو، ضرورت شرعیہ کے بغیر قول ضعیف یا مرجوح پر ہر گز، ہرگز عمل کرنے کی اجازت نہیں، علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
      ’’و قد ذکر صاحب البحر في الحیض في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعیفة ثم قال و في المعراج عن فخر الأئمة لو أفتی مفت بشیء من ھذہ الأقوال في مواضع الضرورۃ طلبا للتیسیر کان حسنا، انتھی۔
      و به علم أن المضطر له العمل بذلك لنفسه کما قلنا و أن المفتي له الإفتاء للمضطر، فما مر من أنه لیس له العمل بالضعیف و لا الإفتاء به، محمول علی غیر موضع الضرورۃ کما علمته من مجموع ما قررناہ، و اللہ أعلم‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۱۶۵۱۶۶، ط: دار الکتاب، دیوبند)
اختلاف فقہا بارِ خاطر نہیں
                  دور حاضر میں عموما علماے کرام اور مفتیان عظام، آداب اختلاف کو چھوڑ کرکسی حد تک دیگرتمام آداب کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں، مگر آدب اختلاف کا لحاظ تو دور کی بات ہے، اس کے قریب بھی جانے سے کتراتے ہیں۔حالاں کہ آداب اختلاف کا لحاظ بھی اتنا ہی اہم و ضروری ہے کہ جتنا دیگر آداب کا اہتمام لازم و ضروری ہے، لیکن پھر بھی یہ حضرات آداب اختلاف کو یکسر نظراندازکیے ہوئے ہیں، جس کے برے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ عیاں را چہ بیاں! میں یہاں پر آداب اختلاف فقہا کا صرف ایک عبرت آموز واقعہ ذکر کر دیتا ہوں، جو ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ علماے کرام بالخصوص مفتیان عظام سے گزارش ہے کہ اس واقعہ کو التفات کامل کے ساتھ ،بنظر غائر و بنگاہ عبرت مطالعہ کریں اور اپنے لیے انہیں فقہاے کرام کے ذہن و فکر، انہیں کی وسعت ظرفی اور انہیں کی دریا دلی کو مقتدیٰ بنائیں۔
          عبد العزیز دراوردی یا ابن ابی سلمہ رحمہما اللہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں:
          ’’میں نے امام ابوحنیفہ اور مالک بن انس رحمہما اللہ کو حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں عشا کی نماز کے بعد اس حال میں دیکھا کہ دونوں باہم پڑھنے میں مشغول تھے، یہاں تک کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے قول پر توقف کرتا؛ تو دوسرا کسی سختی و عتاب، چہرہ کوغصہ سے متغیر اور(قائل کو) خطاکار قرار دئیے بغیر ٹھہر جاتا، پھر دونوں حضرات اسی مجلس میں ایک ساتھ نماز فجر پڑھتے‘‘۔ (فضائل ابی حنیفہ و اصحابہ؍ امام ابو القاسم بن ابی العوام)
            اس واقعہ سے مندرجہ ذیل چیزیں اخذ کی جاسکتی ہیں:
          (الف) اگر باہم مسائل میں گفتگو ہورہی ہے تو کسی کا کسی کے قول پر اعتراض کرنے یا اس کے قبول کرنے میں توقف کرنے کی وجہ سے مد مقابل کے چہرے پر غم و غصہ کا اظہاراور پیشانی پر شکن نہیں آنی چاہیے (ب) مسائل میں اختلاف، مخالفین کا آپس میں ایک جگہ اور ایک اسٹیج پر جمع ہونے سے مانع نہیں اور نہ ایک ہی ایک دوسرے کے درمیان تال میل  ختم کرنے کا سبب ہے۔مزید تفصیل کے لیے سالنامہ مرکز ترتیب افتا (۲۱) نمبر کی تقدیم بنام: ’آداب اختلاف فقہا‘ ملاحظہ کریں یا پھر پوری تقدیم پڑھنے کے لیے faqihemillatfoundation.blogspot.com وزٹ کریں۔
          میں یہاں علماے کرام کی بارگاہ میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں عقائد کی بنیاد پر متحد رہنا چاہیے اور اس میں کوئی سمجھوتا بھی نہیں کرنا چاہیے، لیکن چوں کہ فروعی مسائل میں مفتیان کرام کے درمیان اختلاف ہمیشہ سے تھا، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا؛ اس لیے ہمیں اس اختلاف کو ہر گز ہرگز، آپس میں دوری کا سبب نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ اگر اس کمزور بنیاد پر دوری بنائی جائے گی؛ تو یہ کہنا پڑے گا کہ ہم قیامت تک ایک دوسرے سے دور ہی رہیں گے؛ اس لیے کہ فروعی اختلاف نہ کبھی ختم ہوا تھا، نہ کبھی ختم ہوا ہے اور نہ ہی قیامت تک کبھی ختم ہوگا۔
تکفیر میں بے احتیاطی سخت مذموم
          اگر کوئی بھی ایسی جائز صورت پائی جس سے ایک مسلمان پر کفر کا حکم لگانے سے بچا جاسکے؛ تو ضرور وہی صورت اختیار کرنی چاہیے اور اگر کوئی اس طرح کا استفتا آئے تو یقین کرنے کے بجائے ’اگر‘ کے ساتھ اس کا جواب دیا جائے؛ کیوں کہ آج کل عموما نفس پرستی کا غلبہ بہت زیادہ ہے، ایسے ایسے الزمات لگائے جاتے ہیں کہ الزام لگانے والا خود اپنے نفس کو بھی اسی میں گھسیٹتا نظر آتا ہے، یہ اور بات ہے کہ دل اندھا ہونے  کی وجہ سے اسے اپنا برا کردار نظر نہیں آتا؛ اس لیے حیلہ بازی سے سترک رہ کر ہی جواب دیا جائے، ورنہ جان لیں کفر کا معاملہ بہت سنگین ہے، اگر کسی ناحیہ سے بھی تساہلی ہوئی؛ تو اس کا انجام لکھنے والے کو جھیلنا پڑے گا۔
          امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:    ’’قال الصيمري والخطيب إذا سئل عمن قال أنا أصدق من محمد بن عبد الله أو الصلاة لعب وشبه ذلك فلا يبادر بقوله هذا حلال الدم أو عليه القتل بل يقول إن صح هذا بإقراره أو بالبينة استتابه السلطان فإن تاب قبلت توبته وإن لم يتب فعل به كذا وكذا وبالغ في ذلك و أشبعه، قال وإن سئل عمن تكلم بشئ يحتمل وجوها يكفر ببعضها دون بعض قال يسئل هذا القائل فإن قال أردت كذا فالجواب كذا‘‘۔ (المجموع شرح  المھذب، ج۱ص۴۹، دار الفکر، بیروت)
          علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ ’البحر‘ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ما في البحر من باب المرتد نقلا عن الفتاوی الصغری: الکفر شیء عظیم فلا أجعل المؤمن کافرا متی وجدت روایة أنه لایکفر، انتھی، ثم قال: و الذي تحرر أنه لایفتی بکفر مسلم إن أمکن حمل کلامه علی محمل حسن أو کان في کفرہ اختلاف و لو روایة ضعیفة‘‘۔ (شرح عقود رسم المفتی، ص۱۳۲، ط: دار الکتاب، دیوبند)
          اور حد تو یہ ہے کہ آج کل عوام تو عوام بلکہ بہت سارے عام علما بھی بلا دلیل و برہان بلکہ صرف سنی سنائی بات پر فرد خاص کی تکفیر میں کوئی باک نہیں سمجھتے، حالاں کہ فرد خاص کی تکفیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا کافر ہونا بالکل روز روشن کی طرح عیاں نہ ہوجائے اور اس میں کسی طرح، قابل اعتبار شک و شبہ کا شائبہ بھی نہ پایا جائے، جیسے ابو الاعلی مودودی اور اشرف علی تھانوی وغیرہ کی تکفیر، میرے عزیز کفر کے متعلق فتوی لکھتے وقت یا کسی کو کافر کہنے کے معاملہ میں یہ حدیث اپنے ذہن میں ہمیشہ رکھیں:
          حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
          ((إِذَا كَفَّرَ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا)) (صحیح، مسلم، رقم:۱۱۱، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
          ترجمہ: ((جب مسلم، اپنے مسلم بھائی کی تکفیر کرے؛ تو دونوں میں سے کسی ایک پر تکفیر ضرور جائے گی))
          تکفیر اور عدم تکفیر سے متعلق امام ابن حجر ہیتی رحمہ اللہ کی ایک بہترین کتاب بنام: ’الإعلام بقواطع الإسلام‘ جس کی تعریف اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے بھی فرمائی ہے، اس کو ہر فتوی نویس بلکہ ہر عالم کو ضرور پڑھنا چاہئے۔
آداب مستفتی
          آداب سائل و مستفتی کثیر ہیں، میں یہاں موقع کی مناسبت سے بعض آداب ذکر کردیتا ہوں، جن کا ایک سائل کو لحاظ کرکے عمل کرنا چاہیے:
          سوال کرنے والے کو چاہیے کہ مفتی کو تحریری یا زبانی، دونوں میں کسی ایک طریقہ کے مطابق جواب دینے پر مجبور نہ کرے؛ کیوں کہ مفتی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ تحریری یا زبانی جواب دے، مفتی کے ساتھ ادب سے پیش آئے، اس کے چہرے کے سامنے اپنے ہاتھ سے اشارہ نہ کرے، مفتی جب جواب دے؛ تو یہ نہ کہے کہ میرے دل بھی ایسا ہی واقع ہوا تھا، مفتی کھڑا ہو یا کوئی دوسری مشغولیت ہو؛ تو اس سے سوال نہ کیا جائے، سائل کے لیے مناسب ہے کہ پہلے سب سےاعلی و افضل و عمردرازمفتی سے سوال کرے، اگر ان کے پاس کسی بنا پر معاملہ نہ حل ہوسکے؛ تو زبان طعن دراز کرنے کے بجائے، اب جو ان سے کم درجہ کے ہیں، ان کی طرف رجوع کرے، مفتی کو سوال کا کاغذ کھلا ہوا دے اور کھلا ہوا لے، ایک مفتی کو کھولنے یا موڑنے کی زحمت نہ دے۔ (المجموع شرح  المھذب، دار الفکر، بیروت)
          سائل کے یہ بعض آداب ہیں، انہیں بعض آداب کے ذریعہ ایک سائل کو ایک مفتی کے عہدہ کا اندازہ لگالینا چاہیے اور اس کی تعظیم و تکریم کس حد تک ہے، اس کا بھی احساس ہوجانا چاہیے، احساس ہوجائے گا ان شاء اللہ عمل کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
فتوی بے زاری اور اس کا حل
          فتوی بے زاری دور حاضر میں بہت سارے عوام تو عوام، خواص کے دلوں میں بھی گھر کرتی جارہی ہے، پڑھے لکھے لوگ بھی فتوی اور فقہی آرا کے متعلق اپنی بے تکی فکر و نظر پیش کرنے سے نہیں چوکتے، اس کی ایک جھلک آپ مندرجہ ذیل ایک صاحب کے قول میں دیکھ سکتے ہیں:
          ’’اگر مسلمان بنے رہنا چاہتے ہو؛ تو فتووں کو راے اور استخراج کی جگہ قطعی شریعت مان لو، بغیر اس بات کا لحاظ کیے ہوئے کہ فتوے کا پس و پیش منظر کیا ہے اور اس فتوی میں تقوی کتنا ہے۔
          سیاسی و سماجی بازار مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار، دین ایمان کی سوداگری میں سبقت لے جانے کے لیے مقابلہ آرا ہیں اور چھوٹے سیلس مین جانے اور انجانے طور پر انہیں ٹھیکیداروں کو نبوت کے منصب پر فائز کرکے دنیا کے ان خداؤں سے رزق حاصل کرنے کے لیے وفاداریاں پیش کر رہے ہیں‘‘۔ (۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۹ء)
          مجھے یقین ہے کہ اس کا ہر ہر جملہ ایک درد مند عالم و مفتی اور فتوی نویس بلکہ ہر درد مند مسلم کے دل میں پیوست ہوتا چلا جائے گا، حتما یہ اطلاق بہتان و زیادتی بلکہ جانے انجانے میں اسلام مخالف فکر کے سوا کچھ نہیں، اس طرح کی چلتی پھرتی بہت ساری مثالیں، آپ کو مل جائیں گی، مگر تکلیف اس وقت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جب کوئی اپنا سنی عالم، اس طرح کی مطلق العنان والی بات کرتا ہے؛ اس لیے ہم اور آپ اگر سلامتی چاہتے ہیں؛ تو دوسروں کے بارے میں سوچنے کے ساتھ، ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم نے فتوی کی اہمیت و افادیت کو اپنے کردار و عمل سے کس قدر گھٹایا اور بڑھایا ہے؛ تاکہ اپنے بے انداز طریقہ کار سے پرہیز کرکے مزید فتوی بے زاری کا سبب نہ بنیں۔
فتوی بے زاری کا حل
          (الف) فتوی بے زاری میں جہاں اسلام مخالف طاقتوں کا ہاتھ ہے، وہیں کہیں نہ کہیں اس بے زاری کو بڑھاوا دینے میں ہمارا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے؛ اس لیے ہمیں اپنے طریقہ کار کو بدلنا ہوگا، ہم یہ کہ کر اپنا دامن قطعا نہیں جھاڑ سکتے ہیں کہ اس میں اسلام مخالف طاقت کار گر ہے یا ناگفتہ بہ حالات کا نتیجہ ہے؛ اس لیے آج کی ناگفتہ بہ حالت اس بات کی متقاضی ہے کہ کوئی بھی خود ساختہ مفتی و فتوی نویس قطعا نہ بنے، نہ نقیب و علما حضرات کسی کو مفتی کا لقب دیں اور نہ ہی کسی ایسے فرد کو فتوی نویسی کی ذمہ داری دینے کی کوشش کریں جو اس کا اہل نہ ہو، علما و خطبا اس طرح کے بے جا القابات کے خواہاں نہ رہیں اور نہ ہی جبرا فتوی نویس بننے کی سعی کریں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض علما اپنے ساتھ فتوی نویسی کا لیبل نہیں لگانا چاہتے اور نہ ہی اپنے آپ کو علامہ و مفتی کہلانا پسند کرتے ہیں بلکہ ایسا کہنے اور کرنے سے لوگوں کو منع بھی کرتے ہیں مگر محبت میں غلو کرنے والے اور بے لگام نقبا انہیں علامہ و مفتی وغیرہ سے ضرور نوازدیتے ہیں، اب جب کہ وہ منع کرنے کے بعد بھی نہیں مانتے؛ تو اصحاب القاب دو چار بار منع کرنے کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں؛ لہذا اس طرح کے نقبا و علما اپنے اس بے ڈھنگے رویہ سے باز آئیں اور حالات کو کچھ بہتر بنانے کی کوشش کریں یا کم از کم بےجا القابات اور بےجا ذمہ داری دینے سے باز رہیں اور ہر فن کا معاملہ اہل فن کے حوالے ہی رہنے دیا جائے۔
          (ب) نارمل مسائل  ہوں تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر  کفر وغیرہ کا معاملہ یا پھر کسی بڑی شخصیت یا مقتدی یا بڑے عالم کا معاملہ ہو؛ تو فتوی صادر کرنے کے بجائے، خود مفتی و فیصل وہاں جاکر یا خود مفتی و فیصل دار الافتاء و دار القضاء میں دونوں فریق کو بلاکر  فیصلہ کرے یا کم از کم کسی معتمد علیہ کو بھیج کر تحقیق کرائے اور پھر کامل اطمینان کے بعد ہی حکم جاری کرے اور حالات کے پیش نظر بہتر و اولی پہلا دو طریقہ ہی ہے۔
          (ت) ہر شعبہ بالخصوص فتوی نویسی اور تخصص فی الفقہ میں انہیں طلبہ یا علما کا داخلہ لیا جائے جو واقعی ا س کام کے قابل ہوں، کم از کم اس میں خدا را تعداد نہ دیکھی جائے بلکہ صلاحیت و تربیت  دیکھی جائے اور اسی کے مطابق انہیں تیار کیا جائے، کبھی کبھی مدرسہ کے بعض معاونین یا قریبی لوگ جبرا سسٹم کے خلاف جاکر داخلہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ سسٹم بھی ان کی بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، ہمارے معاونین اور قریبی حضرات سے گزارش ہے کہ اگر وہ اپنے درمیان تربیت اور باصلاحیت علما و مفتیان کرام دیکھنا چاہتے ہیں؛ تو وہ اس طرح کسی بھی سسٹم کو سسٹم کے خلاف جانے پر مجبور نہ کریں اور خود سسٹم بھی اس جانب ٹھوس قدم اٹھائے اور اپنے اندر کسی طرح کی تساہلی کا مظاہرہ نہ کرے، برادر اکبر شہزادہ فقیہ ملت حضرت مولانا انوار احمد امجدی قادری زید مجدہ، سربراہ اعلی مرکز تربیت افتا و سجادہ نشیں خانقاہ امجدیہ، برادر اوسط شہزادہ فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی ابرار احمد امجدی برکاتی زید مجدہ، ناظم اعلی مرکز تربیت افتا اور میری خود اپنی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ تربیت افتا کے لیے مرکز تربیت افتا میں باصلاحیت، با اخلاق اور حقدار کا ہی داخلہ ہو؛ یہی وجہ ہے کہ بارہا ہزار اصرار کے باوجود امتحان میں ناکام ہونے کے بعد کسی بھی طالب علم کا مرکز میں داخلہ نہیں لیا گیا، بعض دفعہ داخلہ کے بدلہ میں مرکز کو بڑا مالی تعاون دینے کی بھی پیش کش کی گئی، اس حالت میں جب کہ مرکز کو مالی تعاون کی سخت ضرورت تھی اور آج بھی وہ ضرورت برقرار ہے مگر اس کے باوجود بھی مرکز کے سسٹم اور میرا خود کا نظریہ یہی ہے کہ سسٹم سے چلیں، آج نہیں تو کل ان شاء اللہ یہ مشکلات کے بادل چھٹیں گے اور کامیابی قدم چومے گی، بے ڈھنگی  کا دروازہ کھولا جائے؛ تو بے ڈھنگی بڑھتی ہے اور بند کردیا جائے؛ تو ایک دن کامیابی کی دھمک و چمک ہر سو نظر آتی ہے، شرط یہ ہے کہ سسٹم صبر و تحمل سے کام لے اور کام کرنے والے کا دست و بازو بنا رہے۔
ذمہ داران اور اساتذہ
          مدارس اسلامیہ کے ہر ذمہ دار کے لیے ضروری نہیں کہ وہ فتوی نویسی کا شعبہ اپنے ادارہ میں رکھے، اسی طرح ہر استاذ پر واجب نہیں کہ وہ فتوی نویسی کی تدریب ضرور کرے؛ اس لیے یہ شعبہ وہی ذمہ دار اپنے ادارہ میں رکھے، جو اس کی پورے طور سے نگہ داشت کرسکے اور اس کی ضروریات کو کما حقہ پوری کرنے کی صلاحیت رکھے اور اسی طرح وہی اساتذہ اس فن کی تدریب کی ذمہ داری اٹھائیں، جو اس کے اہل ہوں اور صحیح طریقہ سے اپنی ذمہ داری نبھائیں، اگر ایسا نہیں ہے تو نہ تو ذمہ داران، اس معاملہ میں ہاتھ ڈالیں اور نہ ہی اساتذہ، زبردستی جیسے تیسے اس تدریب افتا کے عہدہ کو سنبھالنے کی کوشش کریں، اصل میں بات یہ ہے کہ اگر بعض ذمہ داران یا اساتذہ، اس اہم شعبہ کی طرف توجہ نہ دیں؛ تو اس شعبہ کے متعلق ان کی کوئی مسؤلیت نہیں لیکن اگر اس کی طرف توجہ دی؛ تو مسؤلیت کا دروازہ کھل گیا، اب اگر اس شعبہ کے حقوق کو ادا نہیں کیا گیا؛ تو اس کا گناہ آپ ہی کے سر منڈھا جائے گا اور اس وسعت و صلاحیت نہ ہونے کی صورت میں علما و عوام کے درمیان جو مفاسد پیدا ہونگے، اس کی خرابیاں اور تباہیاں الگ ہوں گی اور ان تباہیوں کے ذمہ دار بھی اساتذہ و ذمہ داران بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہونگے؛اس لیے اگر وسعت و صلاحیت نہ ہو؛ تو اس شعبہ کو نہ کھولنے اور شعبہ کو نہ سنبھالنے ہی میں بھلائی ہے۔
          (ث) اگر تربیت افتا اور تخصص فی الفقہ کے باوجود کوئی عالم، افتا کے اصول و ضوابط اور شرائط و آداب وغیرہ پر کھرا نہ اترے یا کم از کم حتی الامکان ان کی رعایت نہ کر سکے؛ تو دستار کے باوجود بھی اسے مفتی کا بھاری بھرکم لقب استعمال نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی فتوی نویسی کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے اور نہ ہی کسی ذمہ دار کو ایسے شخص کے ذمہ، اس طرح کی عظیم دینی ذمہ داری حوالے کرنا چاہیے، حدیث پاک میں ہے:
          ((کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیته)) (صحیح البخاری، رقم: ۸۹۳)
          ترجمہ: ((تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت کا نگراں اور قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا))
اس بزم میں مقصود ہے اصلاح مفاسد
نشتر  جو  لگاتا ہے وہ  دشمن  نہیں  ہوتا

          اللہ تعالی ہمیں اور دیگر تمام حضرات کو توفیق عطا فرمائے اور ساتھ ہی ہر میدان میں پختہ و عملی اقدام کرنے کا حوصلہ و جذبہ صادقہ عطا کرے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۱؍ربیع الاول ۱۴۴۱ھ مطابق ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء
موبائل: 00918318177138، ای میل: amjadiazhri@gmail.com

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts