مبسملا و حامدا و مصلیا و
مسلما
پس
منظر
ماضی
قریب میں مسلمانوں کے عقائد و معلمولات کی حفاظت و صیانت میں آستانہ رضویہ اور ان
کے پیروکاروں کا بہت اہم بلکہ سب سے بڑا کردار رہاہے، ۱۹۳۷ھ میں حضور مفتی اعظم
ہند علیہ الرحمۃ کی تصنیف لطیف ’الموت الأحمر‘ اسی کی ایک عظیم کڑی ہے، انہیں نفوس
قدسیہ کے ذریعہ تقریبا چالیس سال ۱۸۹۸ھ سے ۱۹۳۷ھ تک کی طویل مدت میں دیگر خدمات کے
ساتھ دیابنہ کے عقائد باطلہ کا رد و ابطال کیا گیا اور آج تک جاری ہے، ان کے علما،
گنگوہی و نانوتوی کو مناظرہ کی بھی دعوت دی گئی مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا،
البتہ مکر و فریب، جو ان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، اس کے استعمال کرنے سے کبھی باز
نہیں آئے، اسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ان کا ایک آدمی طلب تحقیق کے نام پر آستانہ
رضویہ پر حاضر ہوا، اس نے ’براہین قاطعہ‘ میں مذکور گنگوہی کا شیطان والا قول سن کر بلا تامل قائل
کے اسلام سے کوسوں دور ہونے کا حکم جاری کردیا، مگر جب ’براہین‘ میں دیکھا؛ تو
نیچے کی سانس نیچے اور اوپر کی سانس اوپر رہ گئی،اسے غور کرنے کی صلاح دی گئی اور کرایہ
خرچ کے ساتھ آستانہ رضویہ پر حاضری کا مشورہ دیا گیا، پھر ایک مدت کے بعد ۷؍محرم
الحرام کو مراد آباد و مدرسہ شاہی مسجد سے ایک خط آیا، جس میں شیطان والے قول کا
کوئی تذکرہ نہیں، البتہ طالب تحقیق نے اپنے پہلے خط میں اپنے علم کے حساب سے یہاں
دو شبہات پیش کیے:
طالب
تحقیق کا پہلا شبہ:
(الف) [بعض مقام پر حضور کا اور اہل دیوبند کا اتفاق پایا،
مثلا خاتم النبیین کی بحث کرتے ہوئے، اہل دیوبند نے امکان ذاتی کا ثبوت دیا ہے اور
حضور نے بھی امکان ذاتی ہی کے جواز کی تصریح کی ہے، چنانچہ حاشیہ ص۱۰۹ سطر (۲) اس
پر شاہد ہے، اب فرمائیے آپ میں اور اہل دیوبند میں کیا فرق ہے، عبارت یہ ہے: أما الذاتي فلایحتمل
الإکفار اس تصریح کے بعد آپ میں اور دیوبندیوں میں کچھ خلاف باقی
نہیں رہتا، یعنی امکان وقوعی نہ جناب کے ہاں درست، نہ دیوبندی کے ہاں، اور امکان ذاتی
کے آپ بھی قائل جیسا کہ دیوبندی قائل ہیں، پس اس صورت میں میری ناقص فہم میں یہ
نہیں آتا کہ اس مسئلہ پر دیوبندیوں کی، اس شد و مد سے کیوں تکفیر کی گئی، جب کہ
حضور بھی انہیں کے ہم نوا معلوم ہوتے ہیں] (الموت الأحمر کا حاشیہ، ص۳‒۴، خط اول، مطبع اہل سنت و جماعت، بریلی)
یاد دہانی اور اس پہلے شبہ کا جواب:
حضور
مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان نے
خط اول کے جواب میں ایک خط بنام امضائے نامہ اول مصطفوی تحریر فرمایا، آپ
نے اپنے اس خط میں ترتیب وار مندرجہ ذیل طریقہ سے کلام کیا، آپ نے پہلے طالب تحقیق کو متنبہ کرتے ہوئے یاد
دلایا:
(۱)
آپ سے شیطان والے قول کے متعلق کہا گیا تھا:
’’براہین میں جس علم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت کرنا شرک خالص کہا، جس
میں ایمان کا کوئی حصہ نہیں، خود اس علم کو ابلیس کے لیے ثابت مانا‘‘۔ اس پر آپ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو قائل، اسلام سے
کوسوں دور ہے، اس کے متعلق آپ کو غور و فکر کی ہدایت کی گئی مگر اس سے متعلق آپ نے
کوئی گفتگو نہیں کی، پھر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے ایک تاریخی جملہ تحریر
فرمایا جو آج کے بعض بے راہ رو سنی نوجوانوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے:
’’اور
للہ ایسی غور کی بات بھی کیا تھی، کیا کوئی مسلمان گمان کرسکتا ہے کہ اللہ کا شریک
ہونا، ایک مخلوق سے منتفی اور دوسرے کے لیے ثابت ہو اور وہ بھی اس اندھی تفریق سے
کہ اتنا عظیم مرتبہ کہ خدا کی صفت خاصہ میں شریک ہونا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
تو زائل اور ابلیس کو حاصل، تلك إذا قسمة ضیزی‘‘۔ (الموت الأحمر،
ص۳)
پھر
آپ نے فرمایا کہ زیر بحث موضوع کے متعلق گفتگو کرنا، دو حال سے خالی نہیں، یا تو
آپ کے نزدیک صاحب ’براہین‘ کا کفر واضح ہوگیا، اگر ایسا ہے؛ تو آپ اس کا برسر عام
اعتراف کرلیجیے اور ایسا نہیں ہے؛ تو آپ کو اس زیر بحث امر کی تکمیل کرنی چاہیے
تھی، جو طالب حق کے لیے پہلے ہی سے تمام ہوچکی تھی، اب اس پر ان کے دوسرے کفریات
پر کلام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی؛ کیوں کہ بفرض غلط اگر ان کے دوسرے کفریات
میں تاویل ممکن ہو؛ تو اس کا فائدہ مسلم کو ملتا ہے کہ اس پر کفر کا حکم نہ لگے،
مگر جس کا کفر ثابت ہوچکا ہے، اس کے دوسرے کفریات میں تاویل سے کیا فائدہ؟! (الموت
الأحمر، ص۴، ملخصا)
طالب
تحقیق نے اپنے پہلے شبہ سے بالکل واضح کردیا کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے عقیدہ
خاتم النبیین کے متعلق محض امکان ذاتی ماننے کی بنا پر دیوبندیوں کی تکفیر کی تھی
اور ان کی یہ غلط فہمی تھی، اس پہلے شبہ کا جواب دیتے ہوئے حضور مفتی اعظم ہند
علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:
(۲)
’’آپ نے کہاں دیکھا کہ یہاں مجرد امکان ذاتی ماننے پر دیوبندیہ کی تکفیر کی گئی،
تکفیر اس پر ہے کہ خاتم النبیین بمعنی آخرالنبیین جاننا جاہلوں کا خیال ہے، اس میں
کوئی فضیلت نہیں، یہ مقام مدح میں ذکر کے قابل نہیں، حضور کے زمانہ کے بعد بھی اگر
کوئی نیا نبی مانا جائے؛ تو خاتمیت میں خلل نہیں‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۴)
طالب
تحقیق کا دوسرا شبہ:
(ب)
[آپ نے الکوکب شہابیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کو جھوٹا کہے اور اس کے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو سب و شتم دے وہ شخص باجماع امت کافر اور اور بد
دین ہے اور جمیع فقہاے کرام کا یہی مذہب ہے اور جو اس کے کافر کہنے سے زبان روکے
یا شک کرے وہ بھی کافر ہے اور یہ بھی آپ کو یقینا معلوم ہے کہ اس شخص نے ضرور رسول
کریم علیہ التحیۃ و التسلیم کو گالیاں دیں چنانچہ آپ مکرر قسمیں کھا کھاکر اپنے
کلام کو مؤکد فرمارہے ہیں، حضور پھر بھی کف لسان کرتے ہیں اور اس کے کافر کہنے سے
زبان روکتے ہیں، اب فرمائیے آپ کیا ہوئے، نعوذ باللہ من ھذہ الفواحش
اور یہی آپ کا مختار اور مرضی اور مفتی بہ ہے اور اسی پر حضور کا فتوی ہے] (الموت
الأحمر کا حاشیہ، ص۵، خط اول)
اس
دوسرے شبہ کا جواب:
پہلے
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے آگاہ کیا کہ یہ اضطراب آج کی پیدا وار نہیں
بلکہ کبراے مکلبین کا بہت پرانہ حربہ ہے، براہ مکر مجہول شخص کے ذریعہ ایک فریبی
سوال کیا گیا جس کا جواب دئے چھ (۶) سال ہوگئے، بہر حال اس شبہ و اضطراب کے متعدد
جواب ہیں، مگر یہاں بروقت اسی ایک فتوی کی نقل کافی ہے، خود سمجھیے، اپنے دوسرے
لوگ یا تھانوی صاحب سے سمجھیے اور نہ سمجھ سکیں؛ تو عجز کا اقرار کریں، سمجھادیا
جائے گا اور بہر حال الٹا سمجھنا نہ سمجھنے سے بد تر ہے، اس کے بعد حضور مفتی اعظم
ہند علیہ الرحمۃ نے نور محمد کا ۲۳؍ربیع الأول شریف ۳۱ھ کو بھیجا ہوا سوال اور اس
کا جواب نقل کیا، جس میں کفر فقہی اور کفر
کلامی کا مختصر و مبرہن بیان ہے، جو اس
طالب حق کے ازالہ شبہ کے لیے کافی تھا، مگر
بندہ کا کام تو صرف سمجھانا ہے، ہدایت تو اسے ہی ملتی ہے، جسے اللہ تعالی توفیق
دے۔
اس نامہ مبارک کو بھیجے ہوئے تیئس (۲۳ ) دن گزرچکے تھے مگر
کسی طرح کی کوئی خبر نہیں ملی، خیال گزرا کہ شاید حقیقت میں طلب تحقیق ہی تھی اور
صحیح و مسکت جواب ملنے پر خاموش ہو گئے مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ طالب تحقیق بننا
صرف تھانوی مکر تھااور چوبیسویں (۲۴) دن،
دو (۲) صفر المظفر کو ایک دو ورقی خط آیا، جو افتراءات اور مکابرات سے پر
تھا، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان نے اس خط کا لا جواب جواب تیار
کرکے دس (۱۰) صفر المظفر کو طالب تحقیق کو ارسال فرمایا اور ایک دوسرا خط کارڈ کی
شکل میں تھانوی صاحب کو بھی ارسال کیا، اس خط میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ
نے تھانوی صاحب کو طالب تحقیق اور اس کے پہلے و دوسرے خط کے متعلق اجمالا آگاہ کیا
اور اس دوسرے خط کے جواب میں منشہ شہود پر آنے والی کتاب کے اصل مقصود کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’کوئی لفظ سخیف آپ کی شان میں نہیں، سوا تکفیر کے کہ اصل
مبحث ہے‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا: ’’ہم خواستگار ہیں کہ وہ رسالہ بھیجنے کی ہم کو
اجازت فرمائی جائے، یہ اس لیے کہ آپ رجسٹریاں واپس دینے کے عادی ہیں، ہم کمال منت
سے کہتے ہیں کہ ہمارے معروضات آپ کے یہاں داخل دفتر ہوتے ہوئے سترہ برس ہونے آئے،
اب کی بار تو اذن دے دیجئے کہ ادھر آپ کے اَتباع کی ہوس پوری ہو، ادھر حق واضح کا
بعونہ تعالی اور زیادہ کشف نوری ہو، اتنی بات لکھتے کہ کہاں رسالہ بھیجوں، آپ کو
کوئی گھنٹہ نہیں لگتا، یہ تحریر آپ کی چوتھے دن آسکتی ہے، میں انتہائی مدت دس (۱۰)
دن رکھتا ہوں، اس کے بعد دوسرا طور ہوگا بعونه عز وجل و ھو الکافي‘‘۔
(الموت الأحمر، ص۴‒۷)
اس خط کے جواب میں تھانوی صاحب نے تھوڑی چپ توڑی اور کارڈ
کے دوسری طرف بسم اللہ شریف، ایک آیت مبارکہ اور ایک حدیث پاک لکھ کر بھیج دیا اور
ڈر اس قدر سمایا ہوا تھا کہ دستخط کرنے کی بھی جرأت نہیں کرپائے، پھر حضور مفتی
اعظم ہند علیہ الرحمۃ کھلے کارڈ پر بسم اللہ شریف اور آیت وغیرہ لکھنے کی شناعت
بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’لہذا اصل مقصود سے کام لیا یعنی ۲۱؍صفر کو رسالہ رجسٹری
شدہ، تھانوی صاحب پر نازل کردیا، تھانوی صاحب نے بطور خرق عادت وہ کارڈ لکھنے میں
اپنی قدیم خو چھوڑی تھی، رسالہ دیکھ کر پھر ان کی اسی قدیم خو کی حالت مستمرہ نے
منھ دکھایا کہ منکر ہوکر واپس دیا، پلندے پر لکھا ہے کہ انکاری واپس۔۔۔۔۔‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۸)
یہی نامہ سوم مصطفوی طالب تحقیق کے دوسرے خط کے جواب میں
لکھا گیا اور اسے تھانوی صاحب کو بھی ارسال کیا گیا، حضور مفتی اعظم ہند علیہ
الرحمۃ نے اسی کا تاریخی نام ’الموت الأحمر علی کل أنحس أکفر ۱۳۳۷‘ اور تاریخی لقب
’ہشتاد بید و بند بر مکاری دیوبند‘ رکھا، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے ’اولا
وغیرہ‘ کے تحت جو مباحث جلیلہ پیش کیے ہیں، وہ اَسی تک پہونچتے ہیں، تیس بحث اول،
دس بحث دوم، بیس بحث سوم اور بیس تذئیل کے تحت
ذکر ہوئے ہیں، یہ کل اَسی ہوتے ہیں، ان کا نام آپ نے اسی جبال اور اسی
لاٹھیاں رکھا ہے، یقینا یہ دلائل کے اعتبار سے جبل شامخ ہیں، انہیں کوئی ٹس سے مس
نہیں کرسکتا اور اسی طرح یہ لاٹھیاں بھی ہیں کہ غفلت والے اگر حقیقت میں طالب
تحقیق اور عصبیت سے پرے ہوکر، ایمان کی نگاہ سے
ان مباحث کو پڑھیں؛ تو بحمد اللہ تعالی حق کو آفتاب سے زیادہ روشن پائیں
اور یہ لاٹھیاں ان کی غفلت کو دور کرکے انہیں راہ راست پر لے آئیں۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ طالب تحقیق کے بارے میں دو
چند بات لکھنے کے بعد تھانوی صاحب سے کچھ مطالبات کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں:
’’ہم کو آپ کو دو حصے کرنے ہوئے، ایک تھانوی صاحب ظاہری کہ آپ خود بے پردہ و حجاب
ہیں، دوم تھانوی صاحب باطنی کہ اس تحریر دو ورقی کے حجاب میں طالب تحقیق بن کر آئے
ہیں، دوم جہاں کہیں گے کہ آپ نے یہ لکھا، آپ سے یہ کہا تھا، آپ طالب تحقیق ہیں و
امثال ذلک، جن میں اس تحریر کا کاتب بناکر خطاب ہو، وہاں آپ بحیثیت تھانوی باطنی
مراد ہوں گے، ورنہ آپ بحیثیت تھانوی ظاہری‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۹)
نیز فرماتے ہیں: ’’اصل مقصود اظہار حق و ازہاق باطل اور یہ
دکھانا ہے کہ دیوبندی عذرات کیسے پادر ہوا اور زاہق و زائل اور ان کا اشکال جس پر
بہت ناز ہے اور اسے یقینا لاحل سمجھے ہوئے ہیں، کس درجہ مردود، اسفل سافل، تھانوی
صاحب باطنی نے یہاں تین بحثیں چھیڑیں ہیں: کفر براہین، کفر تحذیر الناس، کفر فقہی
اسمٰعیل دہلوی صاحب، اس کا بیان اور شبہاتِ تھانوی صاحب باطنی کا بطلان ان تین سے
لیجئے، و باللہ التوفیق وھو
المستعان علی کل سحیق‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۹)
پیش
منظر یعنی الموت الأحمر کی روشنی میں
دیوبندی
مکتبہ فکر کا علمی محاسبہ
یکے بعد دیگرے تکفیر صاحب براہین (گنگوہی)، تکفیر صاحب تحذیر
الناس (نانوتوی) اور کفر فقہی اسمٰعیل دہلوی سے متعلق حضور مفتی اعظم ہند علیہ
الرحمۃ کے علمی مباحث، جواہر پارے اور مسکت جوابات پڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ
دوسرے خط کی تاویلات بشکل تحویلات و شبہات کے صرف بعض اہم گوشوں پر ہی اختصار کے
پیش نظر ڈال لی جائے، دوسرے خط میں طالب تحقیق کے بعض تحویلات و شبہات مندرجہ ذیل
ہیں:
(۱)[جس علم کا نبی
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے ثابت کرنا شرک خالص کہا ہے جس میں ایمان کا کوئی
حصہ نہیں وہ علم ذاتی ہے اور جس علم کو ابلیس لعین کے لیے ثابت مانا وہ علم عطائی،
تو جو علم غیر اللہ کے لیے ثابت کرنا شرک (یعنی ذاتی) وہ شیطان کے لیے ثابت نہیں
مانا اور جس علم کا ثبوت شیطان کے لیے تسلیم کیا (یعنی عطائی) وہ کسی کے لیے ثابت
کرنا شرک نہیں کہا گیا، تو اب حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ شیطان کو علم عطائی ہے اور
سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو علم ذاتی نہیں، فرمائیے اس میں کونسی بات
تکفیر کی ہے] (الموت الأحمر کا حاشیہ، ص۷‒۸، خط دوم)
]یہاں تو
آپ، فقہاے کرام اور اپنا مذہب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ جب تک قائل کی مراد مضمون
کفریہ کو لیے ہوئے ثابت نہ ہوجائے اس کو مسلمان ہی کہنا چاہیے اور ضعیف سے ضعیف
احتمال جو اسلام کا ہے تحسینا الظن اسی پر محمول کرنا چاہیے اور صاحب براہین اپنی مراد
اپنی دوسری تصنیف میں نہیں خاص ’براہین‘ میں اسی مسئلہ میں اسی قول میں بیان کرتا
ہے اور یہ بحث اس صورت میں ہے کہ علم ذاتی آپ کو کوئی ثابت کرے یہ عقیدہ کرے جیسے
جہلا کا عقیدہ ہے الخ اور اپنی مراد بیان کرتا ہے مگر پھر بھی آپ خلاف تصریح متکلم
کے ایک معنی کفریہ اپنی طرف سے متعین فرماکر متبین سے نکال کر متعین کا فرد بناتے
ہیں، جو حقیقت میں متبین کیا خفی بھی نہیں، کس قدر افسوس کی بات ہے میری سمجھ میں
نہیں آتا اس کے بعد صاحب ’براہین‘ کی تکفیر کے لیے آپ کے پاس کیا وجہ ہے] (الموت الأحمر کا حاشیہ،ص۹)
اس پوری عبارت کا حاصل کلام یہ ہے کہ جب متکلم صاحب
’براہین‘ نے شیطان کے علم سے متعلق علم عطائی اور اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے
علم سے متعلق علم غیر عطائی کی تفریق کرکے
اپنی مراد اپنی اسی کتاب میں ظاہر کردی؛ تو اب صاحب براہین کی تکفیر نہیں ہونی
چاہیے۔
اول فرصت
میں یہ بات بالکل صحیح بات معلوم ہوتی ہے مگر جب آپ حضور مفتی اعظم ہند
علیہ الرحمۃ کا جواب پڑھیں گے؛ تو ان شاء اللہ ان کے اس تاویل کا تحویل ہونا طشت
از بام ہوجائے گا۔
(۲) [ہم پہلے سے یہی
سنتے آئے تھے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبی کا امکان ذاتی
بھی موجب تکفیر ہے، اس واسطے کہ امتناع بالغیر پر تو فریقین کا اتفاق ہے، جب امکان
ذاتی آپ کو بھی تسلیم ہے تو یہ مابہ النزاع کیا رہ گیا، آپ کا یہ فرمانا کہ تکفیر
اس پر ہے کہ خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین جاننا جاہلوں کا خیال ہے، اس میں کوئی
فضیلت نہیں، یہ مقام مدح میں ذکر کے قابل نہیں، یہ مضمون تحذیر الناس میں نہیں ہے،
تحذیر الناس میں ختم زمانی کا انکار ہے، نہ اس میں فضیلت کا انکار بلکہ ختم زمانی
کے ساتھ ختم ذاتی کو بھی ثابت کیا گیا ہے] (الموت الأحمر کا حاشیہ، ص۱۰‒۱۲)
اس عبارت کے دعوی کی حقیقت اور اس کا بطلان ان شاء اللہ
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا علمی و تحقیقی جواب پڑھ کر نصف النہار کے سورج
کی طرح بالکل واضح و روشن ہوجائے گا۔
(۳) [ان عبارات میں جناب تحریر فرماتے ہیں صریح بات میں تاویل
نہیں سنی جاتی، لفظ صریح میں دعواے تاویل نامقبول اور قواعد شرعیہ کے نزدیک مردود
وغیر ملتفت إلیہ، دعواے تاویل، ہذیان، صریح لفظِ رسول اللہ اور پیغمبر کا کہ کر
کافر ہوجاتا ہے اور یہاں جناب صریح کو مقابل کنایہ ٹھہرا کر اس میں ظہور کافی نہ
کہ احتمال کا نافی تحریر فرماتے ہیں، یہ تو ایک ایسا صریح تعارض اور تناقض ہے کہ
جس کا دفع کرنا آپ ہی کے قبضہ میں ہے اگر صریح میں احتمال بھی ہو مگر جب وہ مسموع
بھی نہیں، مقبول ہی نہیں، شریعت میں مردود ہے، قابل التفات نہیں، ہذیان ہے اور بے
ہودہ بکواس تو اس احتمال کا شریعت میں اعتبار ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس کے بعد
آپ کی یہ عبارت جو ’الکوکب شہابیہ ص۳۱ ‘ مولانا
اسماعیل صاحب کی نسبت یہ صریح سب و دشنام کے لفظ لکھ دئے، پھر ایک سطر کے بعد:
مسلمانوں کیا ان گالیوں کی محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کو اطلاع نہ
ہوئی یا مطلع ہوکر ان سے انہیں ایذا نہیں پہنچی، ہاں ہاں و اللہ و اللہ انہیں
اطلاع ہوئی، واللہ و اللہ ایذا پہنچی، پھر ’ص۳۲ ‘پر ملاحظہ
ہو: اور انصاف کیجئے؛ تو اس کھلی گستاخی میں کوئی تاویل کی بھی جگہ نہیں، فرمائیے
اول صریح گالی، اس میں تاویل مسموع مقبول ہی کب ہوتی ہے، عند الشرع مردود ہذیان
اور بکواس، پھر یہاں تو آپ کے نزدیک اس کھلی گستاخی میں تاویل کی بھی جگہ نہیں، اب
اگر قائل نیت بھی کرتا تو قاضی اور مفتی کے یہاں پہلے ہی مردود تھی اور نوی مایحتمل
خارج اور آپ کو تو قائل کی نیت کا بھی علم ہوگیا اور اس کا بھی علم ہوگیا کہ جناب
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بھی اس گالی کا علم ہوا اور پھر بھی آپ
صاحب صراط مستقیم کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ اسی کو اپنا مختار اور اسی کو مفتی بہ
اور اسی کو اپنا ماخوذ اور اس کو مستند اور اسی کو اپنا مذہب قراردیتے ہیں، اب آپ
اپنی ہی عبارت ’تمہید ایمان ص۳۵ ‘ ملاحظہ
فرمائیے: اسے کفر نہ کہنا کفر کو اسلام ماننا ہوگا اور جو کفر کو اسلام مانے وہ
خود کافر ہے جس کسی نے آپ سے سوال کیا ہے وہ تو حفظ الایمان اور براہین قاطعہ کے
متعلق استفسار کرتا ہے اور مجھے تو یہ شک ہے کہ آپ اپنی تحریر کے موافق آپ خود اور
جو آپ کو کافر نہ کہے خود کافر ہوجاتا ہے] (الموت
الأحمر کا حاشیہ، ص۱۳‒) اس دوسرے خط کی مزید تفصیل دیکھنے کے لیے ’الموت الأحمر‘
کی طرف رجوع کریں۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ’الکوکبۃ الشھابیۃ‘ میں حضور
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ صریح کفر میں تاویل مسموع نہیں اور حضور اعلی
حضرت علیہ الرحمۃ کے مطابق صاحب ’صراط مستقیم‘ نے صریح کفر کا ارتکاب کیا، اس کے
باوجود حضور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ان کی تکفیر نہیں کرتے، حالاں کہ ’تمہید ایمان‘
میں خود فرماتے ہیں کہ صریح کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے، یہ عجیب بات ہے کہ صریح
میں تاویل مسموع نہ ہو اور اس میں شک کرنے والا خود کافر ہو، اس کے باوجود ان کی
تکفیر نہ کی جائے، یہ ایسا تعارض ہے جس کا حل پیش کرنا بہت مشکل ہے۔
ان
کا یہ مشکل تعارض اس لیے ہے کہ انہوں نے کفر فقہی اور کفر کلامی کے درمیان کوئی
تفریق نہیں کی، ان شاء اللہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی علمی گفتگو، اس
تعارض کا بھی باآسانی حل پیش کرتی ہوئی نظر آئے گی، اب مندرجہ ذیل سطور میں مدلل
تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں:
بحث
اول تکفیر گنگوہی صاحب
دیوبندیوں کے عالم گنگوہی صاحب کے کفر کا سبب بننے والی چیز
عبد الجبار عمر پوری کی بے سر و پا عبارت ہے، اس نے لکھا تھا:
[حضرت کی نسبت یہ اعتقاد کہ جہاں مولود شریف پڑھا جاتا ہے،
تشریف لاتے ہیں، شرک ہے، ہر جگہ موجود خدا تعالی ہے، اللہ سبحٰنہ نے اپنی صفت
دوسرے کو عنایت نہیں فرمائی] (الموت الأحمر،ص۱۰)
مولانا عبد السمیع علیہ الرحمۃ نے ’انوار ساطعہ‘ میں عمر
پوری کی اس عبارت کا رد دو طرح سے فرمایا: (الف) مجالس محمودہ کے مواقع معدود ہیں
اور ہر جگہ کی قید لامحدود ہے (ب) ہرجگہ موجود ہونا خاصہ باری تعالی جاننا باطل
ہے؛ کیوں کہ شرق سے غرب تک ہر روح کو حضرت عزرائیل علیہ الصلاۃ و السلام ہی قبض کرتے
ہیں، ہر مکان کو دن رات دیکھتے رہتے ہیں، اللہ تعالی نے پوری دنیا، ان کے سامنے
چھوٹے خوان کی طرح کردیا ہے، یہ ملک مقرب کی بات ہے، خود شیطان لعین کو اللہ تعالی
اتنی قدرت دے رکھی ہے کہ وہ تمام بنی آدم کے ساتھ رہتا ہے۔
مولانا عبد السمیع علیہ الرحمۃ نے اپنے اس رد سے یہ بتانا
نہیں چاہا تھا کہ جب شیطان و ملک الموت ہر جگہ موجود ہوسکتے ہیں؛ تو حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کا بدرجہ اولی ہر جگہ موجود ہونا جائز و درست ہے، بلکہ بطور نقض دعوی،
عمر پوری کے بطلان کو واضح کرنا تھا اور سمجھانا تھا کہ آپ نے مزعومہ شرک ثابت کرنے
کے لیے ہرجگہ موجود ہونا، جو اللہ تعالی کی صفت قرار دی، یہ باطل و مردود ہے؛ کیوں
کہ یہ چیز تو ملک مقرب بلکہ شیطان کو بھی حاصل ہے، پھر یہ اللہ تعالی کی خاص صفت
کیسے ہوسکتی ہے؟! مگر گنگوہی صاحب کی کج
فہمی کا برا ہو کہ انہوں نے صاحب ’انوار ساطعہ‘ پر بہتان باندھتے ہوئے، اسے
استدلال ٹھہرایا، گویا کہ وہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ جب شیطان لعین و ملک الموت ہر
جگہ موجود ہیں؛ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر جگہ ضرور موجود ہونگے اور اسی من
گڑھت افترا کو بنیاد بناکر صاحب ’انوار ساطعہ‘ پر اعتراض شروع کردئے اور اس اعتراض
کی رَو میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہیں اپنے ایمان کا خیال تک نہیں رہا او رکفر
کے قعر مذلت میں ایسے جاپڑے کہ وہاں سے ان کا نکلنا مشکل ترین ہوگیا، قارئین
’براہین قاطعہ‘ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
[ملک الموت و شیطان کو جو یہ وسعت علم دی، اس کا حال مشاہدہ
و نصوص قطعیہ سے معلوم ہوا، اب اس پر کسی افضل کو قیاس کرکے، اس میں بھی مثل یا
زائد، اس مفضول سے ثابت کرنا کسی عاقل ذی علم کا کام نہیں، اول تو عقائد مسائل کے
قیاسی نہیں بلکہ قطعیات نصوص سے ثابت ہوتے ہیں، خبر واحد بھی یہاں مفید نہیں؛ لہذا
اس وقت قابل التفات ہو کہ مؤلف، قطعیات سے اس کو ثابت کرے، دوسرے قرآن و حدیث سے
اس کے خلاف ثابت ہے، خود فخر عالم فرماتے ہیں: ((لا أدري ما یفعل بي و لا
بکم)) اور شیخ عبد الحق روایت کرتے ہیں کہ: ((مجھ کو دیوار پیچھے
کا بھی علم نہیں)) اگر فضیلت ہی موجب اس کی ہے؛ تو تمام مسلمان شیطان سے افضل ہیں؛
تو مؤلف سے عوام میں بسبب افضلیت کے شیطان سے زیادہ نہیں تو اس کے برابر تو علم
غیب بزعم خود ثابت کرے، مؤلف کے ایسے جہل پر تعجب ہوتا ہے، الحاصل غور کرنا
چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف
نصوص قطعیہ کے بلادلیل، محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا
حصہ ہے، شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت، نص سے ثابت ہوئی، فخر عالم کی وسعت علم کی
کون سی نص قطعی ہے، جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے، ملک
الموت سے افضل ہونے کی وجہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ علم آپ کا ان امور میں ملک
الموت کی برابر بھی ہو چہ جائے کہ زیادہ اور قیاس سے اس کا اثبات جہل ہے، الغرض یہ
تحقیق واہی مؤلف کی محض جہل ہے، وہ آپ شاید شرک میں مبتلا نہ ہو مگر ایک عالم کا
راہ مار دیا، بعد اس کے جو حکایات اولیا کے مؤلف نے لکھی ہیں، ان اولیا کو حق
تعالی نے کشف کردیا کہ ان کو یہ حضور علم حاصل ہوگیا، اگر فخر عالم علیہ السلام کو
بھی لاکھ گونہ اس سے زیادہ عطا فرمادے، ممکن ہے، مگر ثبوت فعلی اس کا کہ عطا کیا
ہے، کس نص سے ہے کہ اس پر عقیدہ کیا جائے اور مجلس مولود میں خطاب حاضر کیا جائے،
اس امر کا محض امکان سے کام نہیں چلتا، بالفعل ہونا چاہیے اور ثبوت نص سے واجب ہے
مگر سوء فہم مؤلف کا ہےاور یہ بحث اس صورت میں ہے کہ علم ذاتی آپ کو کوئی ثابت
کرکے یہ عقیدہ کرے جیسا کہ جہلا کا عقیدہ ہے، اب ظاہر ہوگیا کہ جس کا عقیدہ مؤلف
کی تحریر کے موافق ہوگا البتہ وہ مشرک ہے، ان عبارات سے حجت لانا کوتاہ فہمی مؤلف
کی ہے] (براہین قاطعہ، ۴۶‒۴۸،
ط:المطبع الھاشمی)
اس عبارت میں صاحب براہین نے نصوص قطعیہ سے جس علم کا ثبوت
شیطان کے لیے مانا، اسی علم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ماننے کو شرک قرار
دیا جس میں ایمان کا کوئی حصہ بھی نہیں اور یہ حتما یقینا کفر ہے، اب طالب تحقیق
اپنے مکر سے ا س قطعی کفر کی بےجا حمایت کرکے، اس کفر کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اسی
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’ہر اردو خواں بھی سمجھ سکتا ہےکہ براہین والے نے جس علم
کو شیطان کے لیے نصوص قطعیہ سے ثابت مانا، اسی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
ماننا شرک بھی قرار دیا، وہ جس میں کوئی حصہ ایمان کا نہیں، اب تھانوی صاحب باطنی
اس قطعی کفر کو یوں مٹانا چاہتے ہیں:
[جس علم کا نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت کرنا شرک خالص کہا ہے، وہ علم ذاتی ہے اور جس علم کو
ابلیس کے لیے ثابت مانا وہ علم عطائی، صاحب براہین اپنی مراد خاص براہین میں اسی
مسئلہ میں بیان کرتا ہے، یہ بحث اس صورت میں ہے کہ علم ذاتی آپ کو کوئی ثابت کرے،
یہ عقیدہ کرے جیسے جہلا کا یہ عقیدہ ہے] (الموت الأحمر، ص۱۱)
یہ جبرا کفر مٹانے کی کوشش اور بظاہر ذاتی و عطائی کی تطبیق
بالکل میٹھی چھری کی طرح ہے، اس چھری سے بعض سابقین کی طرح آج بھی کچھ پڑھے لکھے
لوگ یک طرفہ بات سن یا پڑھ کر ذبح ہونے کے
لیے تیار ہیں، ایسے لوگ اگر تعصب کا عینک ہٹاکر سامنے آئیں؛ تو حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا علمی جواب
ان کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو انہیں اس میٹھی چھری کے ذریعہ ذبح ہونے سے ضرور بچالے گا؛ کیوں کہ یہاں علم
ذاتی مقابل عطائی کی بحث ہی نہیں ہے بلکہ جو علم زیر بحث ہے، وہ صرف عطائی ہے؛ اس
لیے یہاں ذاتی و عطائی کی تطبیق پیش کرکے
کفر صریح کو عدم ثبوت کی منزل میں
لےجانا جہالت و ہٹ دھرمی سے ناشی ہے، جس کا فائدہ نہ تو قائل کو ملےگا اور نہ ہی
تطبیق دینے والے کو اس کا کوئی ثمرہ حاصل ہوگا؛ کیوں کہ خود عمر پوری کی عبارت اس
دعوی کے بطلان پر شاہد عدل ہے، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’اولا: للہ انصاف، بحث کاہے پر چلی ہے، عمر پوری کے اس
کہنے پر کہ:
[یہ
اعتقاد شرک ہے، اللہ سبحٰنہ نے اپنی صفت دوسرے کو عنایت نہیں فرمائی]
دیکھو
صراحۃ علم عطائی میں کلام ہے کہ اس کا علم عطائی حضور کو نہیں، جو مانے مشرک ہے کہ
یہ اللہ تعالی کی صفت خاصہ ہے، اس نے کسی کو عطا نہ فرمائی، صاحب انوار اسی کا رد
کرہے ہیں، براہین والا اسی کو بتارہا ہے، پھر کیسی صریح بے ایمانی ہے کہ بےعطاے
الہی، علم ماننے کی بحث ہے، اسے شرک کہا ہے‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۲)
علم
عطائی و علم ذاتی کی بات ضرور قبول کرلی جاتی، اگر کہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے تعلق سے مولانا عبد السمیع رحمہ اللہ تعالی کے کلام میں علم ذاتی کا ذکر
ہوتا، مگر پوری گفتگو آپ کے علم عطائی کے بارے میں ہے؛ کیوں کہ آپ نے عمر پوری کے
دعوی کو رد کرتے ہوئے کلام فرمایا جو یقینا حتما علم عطائی کے بارے میں ہی تھا،
اسی پر صاحب ’براہین‘ مولانا عبد السمیع علیہ الرحمۃ کی طرف نسبت کرتے ہوئے، ان کو
شرک ثابت کرنے والا قرار دیا اور یہ بھی بتایا کہ جس کا عقیدہ مؤلف کی تحریر کے
موافق ہوگا، وہ مشرک ہے، صاحب تحقیق شاید آنکھیں بند کرکے بات کرنے کے عادی تھے یا
یہ کہ تعصب کے تلے دبے کچلے تھے جس کی بنا پر حقیقت کو نذر انداز کرتے ہوئے، انہیں
اس توجیہی مکر کو سامنے لانے کی بےجا کوشش کرنی پڑی،حضور مفتی اعظم ہند علیہ
الرحمۃ اسی تشدد و تعنت اور اندھ بھگتی کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثانیا:
مولانا عبد السمیع صاحب کے کون سے حرف میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
یہ علم بے عطاے خدا ہے، جس پر ’براہین‘ والا یہ کہتا ہے کہ: [تمام نصوص کو رد کرکے
ایک شرک ثابت کرتا ہے]
ثالثا:
مؤلف کی تحریر میں بے عطا کا کون سا حرف تھا، جس پر ’براہین‘ والا کہتا ہے: [جس کا
عقیدہ مؤلف کی تحریر کے موافق ہوگا، البتہ وہ مشرک ہے]‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۲)
اور
طالب تحقیق کی زیادتی اور اندھے پن کا حد تو یہ ہے کہ انہیں یہ صراحت دکھائی نہیں
دی کہ خود صاحب ’براہین‘ نے مولانا عبد السمیع علیہ الرحمۃ کی جو عبارت نقل کی ہے،
اس میں جگہ جگہ علم عطائی کا ہی ذکر ہے، اس کے باوجود صاحب ’براہین‘ ان کو شرک
ثابت کرنے والا اور ان کی تحریر کے مطابق عقید رکھنے والے کو مشرک قرار دیا، اب اس
کے ہوتے ہوئے بھی صاحب ’براہین‘ کی عبارت میں علم ذاتی و عطائی کی تفریق کرنا،جہالت
یا تعصب کی انتہا کے سوا کچھ نہیں، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ اسی تعصب و
جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رابعا:
اسی ’براہین‘ طبع دوم کے (ص۲۰۳) سے (ص۲۰۷) تک ’انوار ساطعہ‘ کا مطول کلام منقول
ہے، جس میں انہوں نے فرمایا:
بہت
مکانات میں حاضر ہوجانا جس کو یہ لوگ شرک کہتے ہیں، اس کی تشریح گزر چکی، جہاں ملک
الموت کی تمثیل ہے۔
پھر
کہا: اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ اصل عالم الغیب اللہ تعالی ہے، کوئی ایسا نہیں جو
بلاتعلیم حق، جان لے، ہاں اللہ تعالی اپنے رسول کو خبریں غیب کی دیتا ہے۔
پھر
کہا شاہ عبد العزیز صاحب نے لکھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے ہر
امتی کو جانتے ہیں کہ وہ کس درجہ کا ہے، فرشتے خبر پہنچاتے رہتے ہیں اور نور نبوت
سے حضرت پہچانتے ہیں، سب امتیوں کو‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۲)
یہ
اور ان کے علاوہ دیگر عبارتیں جو صاحب ’براہین‘ نے ’انوار ساطعہ‘ سے نقل کی ہیں، سب
اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ کلام علم عطائی کے بارے میں ہے، اس کے باوجود یہاں پر
بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے اسی علم عطائی کے بارے میں صاحب ’براہین‘
نے کہا کہ یہ محض قیاس سے ثابت کرنا ہے، حضرت عزرائیل کو اللہ تعالی نے ایسی قوت و
علم دیا ہے، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ فخر عالم کو اس سے صدہا گونہ زائد
ہو، مگر کلام صرف امکان میں نہیں بلکہ ثبوت میں ہے کہ ایسا ہے بھی یا نہیں اور
یہاں پر اپنی اسی گزشتہ عبارت کی طرف
احالہ کیا، تعجب در تعجب ہے کہ اس کے باوجود طالب حق یہاں عطائی و غیر عطائی کا
فرق کرنے پر مصر ہیں، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ انہیں باتوں کا علمی جائزہ
لیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’دیکھو
کیسی تصریحیں ہیں، علم عطائی و علم بالوسائط کی، یہاں بھی ’براہین‘ والے نے وہی
جواب دیا اور اپنی اسی تقریر گزشتہ میں حوالہ کیا:
[محض
قیاس نا تمام مؤلف کا اور حجت شرعیہ نہیں] (ص۲۱۶)
[پہلے
اس کا جواب ہوچکا کہ حق تعالی نے حضرت عزرائیل کو ایسی قوت و علم دیا ہے اگر فخر
عالم (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کو صدہا گونہ زائد ہو؛ تو کیا عجب ہے مگر کلام
فعلیت میں ہے کہ یہ ہوتا ہے یا نہیں] (ص۲۰۳)
پھر کہا: [کلام فعلیت میں ہے اور قیاس مؤلف کا امکان میں، عقائد کا ثبوت نص
قطعی سے ہوتا ہے، ملک الموت کا جواب مذکور ہوچکا]
اس مکالمہ کو علم ذاتی بمعنی بے عطاے الہی پر ڈھالنا، کیسی شدید بے ایمانی ہے،
براہین والا قطعا جانتا ہے کہ وہ علم عطائی مانتے ہیں اور اسی کو کہتا ہے کہ:
[شرک نہیں تو کونسا حصہ ایمان کا ہے]
اسی کو کہتا ہے کہ: [جس کا عقیدہ مؤلف کی تحریر کے موافق ہوگا البتہ وہ مشرک
ہے]‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۲‒۱۳)
اہل سنت و جماعت میں جاہل سے جاہل، کسی آدمی کا عقیدہ نہیں کہ حضور صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم کا علم ذاتی ہے، رب تعالی کے بغیر عطا کیے حاصل ہوگیا، اس کے
باجود اپنے اخیر جملے میں صاحب ’براہین‘ کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے
علم ذاتی کا عقیدہ اہل سنت و جماعت کے جہلا کی طرف منسوب کرنا، خود مبنی بر جہالت
ہے اور ایسا کمزور پیوند ہے جو صاحب براہین کے لیے کسی طرح مفید و کارآمد نہیں
ہوسکتا، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’خامسا عبارت ’براہین‘ کا یہی ٹکڑا جو تھانوی باطنی نے نقل کیا، معنی بتارہا
تھا کہ:
[علم ذاتی آپ کو ثابت کرکے یہ عقیدہ کرے جیسا جہلا کا یہ عقیدہ ہے]
کون سے جہلا کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور کا علم بے عطاے خدا ہے‘‘۔ (الموت الأحمر،
ص۱۳)
اور حد تو یہ ہے کہ خود صاحب ’براہین‘ کی عبارت میں صریح اس بات کی وضاحت ہے
کہ شیطان کے علم کی وسعت، رب تعالی کی عطا کردہ ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے لیے، اسی علم کے ثبوت کا انکار کردیا؛ کیوں کہ اس کے من گڑھت قیاس کے
مطابق شیطان کی وسعتِ علم، نص سے ثابت ہے، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی وسعت ثابت نہیں؛ اس لیے کہ اس بارے
میں نصوص قطعیہ وارد ہی نہیں، عجیب دقیانوسی ہے کہ شیطان کی وسعتِ علم کے ثبوت میں
صرف نص کافی، مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعتِ علم کے ثبوت کے لیے صرف
نص یا نص قطعی نہیں بلکہ نصوص قطعیہ کا موجود ہونا ضروری ہے، حضور مفتی اعظم ہند
علیہ الرحمۃ کی دقت نظری ملاحظہ فرمائیں:
’’سادسا وہ لفظ دیکھو:
[شیطان کو جو یہ وسعت علم دی]
دیکھو ’دی‘ میں کلام ہے اور اسی پر بوجہ افضلیت قیاس کو منع کرتا ہے کہ عقائد
قیاسی نہیں، قیاس سے وہ حکم ثابت ہوتا ہے جو مقیس علیہ میں ہو یا اس کا مبائن،
شیطان میں علم عطائی تھا، معاذ اللہ اگر حسب زعم مردود گنگوہی اس پر قیاس ہوتا ہے،
اس سے بھی عطائی ہی تو ثابت ہوتا ہے، جسے یوں رد کررہا ہے کہ عقائد قیاسی نہیں۔
سابعا: براہین والا یہاں بزور زبان خود قیاس گڑھ کر فارق یہ بتارہا ہے کہ:
[شیطان کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی، فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی
ہے]
دیکھو جس علم کو ابلیس کے لیے ثابت مانا، اسی کو حضور اقدس صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم سے نفی کیا، اس بنا پر کہ وہاں نص ہے، یہاں نص سے ثابت ہوتا؛ تو مانا
جاتا، اب دیکھو ابلیس کے لیے علم عطائی ہے یا بے عطا، اگر عطائی ہے؛ تو اسی کو نبی
صلی اللہ تعالی علیہ سے سلب کیا اور اسی کا حضور کے لیے ماننا شرک خالص کہا، آپ
کہتے ہیں کہ یہ بحث علم عطائی میں نہیں، علم بے عطا میں ہے، تو حاصل کلام وہ نہ
ٹھہرا جو آپ تھانوی صاحب باطنی نے بتایا کہ:
[شیطان کو علم عطائی ہے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ذاتی نہیں]
بلکہ حاصل کلام گنگوہی یہ ٹھہرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم
بے عطا ماننا شرک ہے؛ اس لیے کہ نص نہیں اور ابلیس کے لیے بے عطاے الہی علم حاصل
ہے؛ اس لیے کہ نص سے ثابت ہے، آپ کی اس تاویل نے اور بھی اخبث کفر گنگوہی صاحب کے
سر لپیٹا، واقعی قسمت کا لکھا کہاں جائے‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۳‒۱۴)
اگر طالب تحقیق اسی پر بضد ہیں کہ صاحب ’براہین‘ اس بات کے قائل ہیں کہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم ذاتی نہیں، جو علم ذاتی کے ثبوت کا عقیدہ رکھے، وہ
مشرک ہے؛ تو صاحب ’براہین‘ نے جو جگہ جگہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی
وسعت کا امکان مانا اور ثبوت فعلی کا انکار کیا، اس سے یہ لازم آتا ہے کہ طالب
تحقیق کے نزدیک، گنگوہی صاحب بے عطاے الہی، علم ملنا ممکن مانتے ہیں، اگر ایسا ہے؛
تو گو مگو نہیں بلکہ کھل کر سامنے آنے کی ضرورت ہے تاکہ
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ’ثامنا و
تاسعا‘ کے تحت مزید وضاحت کرتے ہوئے علم عطائی کے متعلق کلام کرنے کے بعد طالب
تحقیق کے اسی نقص کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’عاشرا: امکان کا خود جا بجا قائل ہے، صرف ثبوت فعلی کا منکر ہے، کیا آپ کے
نزدیک گنگوہی صاحب بے عطاے الہی، علم ملنا ممکن جانتے تھے، ایسا ہے؛ تو اقرار
کردیجئے، دام کھل جائیں گے‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۴)
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ زیر بحث موضوع کا علم عطائی کے بارے میں ہونے
کے متعلق ’براہین‘ سے بعض دیگر شواہد ’حادی عشر، ثانی عشر، ثالث عشر، رابع عشر،
خامس عشر، سادس عشر‘ کے تحت پیش کرنے کے بعد ’سابع عشر‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’بالجملہ اصل مبحث و منشا بحث و اعتقاد فریقین اور عبارت کا فقرہ فقرہ، سب اس
مجبوری کی جھوٹی گڑھت پر لعنت کر رہے ہیں، کیا یونہی کفر اٹھا کرتا ہے۔
کیوں جناب تھانوی صاحب، بحمد اللہ تعالی کیسے دلائل قاہرہ سے ثابت ہوا کہ
گنگوہی صاحب نے جس علم کا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے ماننا
شرک خاص بتایا، وہی علم ابلیس لعین کے لیے خود ثابت مانا اور آپ بَلِباس باطنی، اب
اس خط میں دوبارہ ایمان لاچکے ہیں کہ:
[شرک میں تفریق نہیں ہوسکتی، جو بات مخلوق میں ایک کے لیے ثابت کرنا شرک ہو،
جس کسی کے لیے ثابت کی جائے، شرک ہی ہوگی؛ کیوں کہ کوئی خدا کا شریک نہیں ہوسکتا]
اب تو اپنے اقراروں پر قائم رہ کر بول اٹھیے کہ بے شک گنگوہی صاحب صریح مشرک
تھے، گنگوہی صاحب میں ایمان کا کوئی حصہ نہ تھا، گنگوہی صاحب شیطان ملعون کو خدا
کا شریک مانتے تھے، دوہرے اقراروں کے بعد پھر عذر کا محل کیا ہے؟ اور آپ نہ مانیں
تو اہل انصاف تو دیکھتے ہیں اور کوئی نہ دیکھے تو واحد قہار تو دیکھتا ہے، جس کا
شریک ابلیس کو مانا، جس کے حبیب کی یہ شدید توہین کی، فللہ الحجة البالغة‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۵، سابع عشر)
طالب تحقیق صاحب، دیابنہ کی کتب پڑھے بغیر یا پھر پڑھنے کے بعد بھی اندھ بھکتی
کے شکار ہونے کی وجہ سے یہ کہ بیٹھے کہ علم عطائی کسی کو ثابت کرنے کے لیے شرک
نہیں کہا گیا! حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے ان کی اس تساہلی یا اندھ بھکتی
کا راز اپنے وسیع علم اور دقیق نظری کے ذریعہ یوں وا فرماتے ہیں:
’’ثامن عشر: تھانوی صاحب باطنی، آپ کہتے ہیں:
[علم عطائی کسی کے لیے ثابت کرنا شرک نہیں کہا گیا]
یہ آپ کا اپنا خیال ہو، مگر گنگوہی صاحب کے دھرم کے قطعا خلاف ہے، پھر توجیه القول بما لا یرضی به
قائله، کیا انصاف ہے ’فتاوی گنگوہیہ‘ ح۱ ص ۶۴ میں ’تقویۃ
الایمان‘ کی نسبت ہے:
[بندہ کے نزدیک سب مسائل، اس کے صحیح ہیں]
وہیں ہے:
[اگر کتاب کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے؛ تو وہ مبتدع فاسق ہے]
ص۱۲۲ میں ہے:
[تقویۃ الایمان نہایت عمدہ کتاب ہے، اس کے استدلال بالکل کتاب اللہ اور احادیث
سے ہیں، اس کا رکھنا، پڑھنا، عمل کرنا، عین اسلام ہے]
اب تفویۃ الایمان کی سنیے، اشراک فی العلم میں کہا:
[اس عقیدہ سے آدمی البتہ مشرک ہوجاتا ہے، خواہ یہ عقیدہ انبیا سے رکھے، خواہ
بھوت سے، پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے، خواہ اللہ کے دینے
سے، ہر طرح شرک ہے]
دیکھیے شرک میں ذاتی و عطائی کا فرق نہیں، کیا گنگوہی صاحب اس کے خلاف عقیدہ
رکھ کر اپنے منھ مبتدع، فاسق بلکہ عین اسلام کے خلاف ہیں۔
تاسع عشر: تفویۃ الایمان کی اس عبارت اور اس کے کثیر امثال سے ثابت کہ اس کے
دھرم میں جس طرح ذاتی و عطائی کا فرق باطل ہے، یونہی رسول و شیطان میں، کہ ہر جگہ
انبیا اور بھوت سب کو ملاتا ہے، تو گنگوہی صاحب نے اگرچہ صرف شیطان کے لیے مانا،
اگرچہ صرف عطائی مانا، تفویت الایمانی دھرم پر ضرور کافر، مشرک ہوئے اور جب وہ
تفویت الایمان کے سب مسئلے صحیح و عین اسلام مانتے ہیں، تو وہ خود اپنے منھ بھی
مشرک ہوئے، غرض گنگوہی صاحب نے رسول کے لیے شرک کہا اور شیطان کے لیے ثابت مانا،
اب چاہے رسول و شیطان سے فرق کریں یا ذاتی و عطائی سے، دونوں فرق اسمٰعیل کے نزدیک
مردود اور گنگوہی صاحب مشرک‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۵‒۱۶)
طالب تحقیق نے اپنے خط میں یہ اقرار کیا ہے کہ صاحب ’براہین‘ شیطان کے لیے علم
عطائی مانتے ہیں، اس کے اس اقرار سے بھی خود صاحب براہین مشرک ہوئے؛ کیوں کہ صاحب
’براہین‘ کے نزدیک علم عطائی کے متعلق اسمٰعیل دہلوی کا شرک والا قول بھی عین
اسلام ہے؛ لہذا خود طالب تحقیق کے نزدیک بھی صاحب ’براہین‘ مشرک ہوئے، اس کی تھوڑی
تفصیل خود مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’عشرین: مختصرا چلیے علم محیط زمین، غیر خدا کے لیے ماننا شرک ہے یا نہیں،
اگر نہیں؛ تو براہین مشرک گَر کو بتی دکھایئے اور اگر ہاں؛ تو صرف ذاتی یا عطائی
بھی، بر تقدیر اول ذاتی کس نے مانا تھا اور یہ ’براہین‘ والا کسے کہتا ہے کہ:
[جس کا عقید مؤلف کی تحریر کے موافق ہوگا، وہ البتہ مشرک ہے]
برتقدیر دوم تھانوی صاحب بَلِباس باطنی خود مقر ہیں کہ ’براہین‘ والا شیطان کے
لیے عطائی مانتا ہے، تو وہ آپ کے اقرار سے مشرک ہوا، قسمت کا لکھا کون مٹائے‘‘۔
(الموت الأحمر، ص۱۶)
بعدہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے ’حادی و عشرین، ثانی و عشرین‘ کے تحت ’براہین‘
کی مزید جہالتیں اور ضلالتیں ظاہر کیں اور ’ثالث و عشرین‘ کے تحت ’انباء المصطفی
شریف‘ کے حوالے سے یہ بھی ذکر فرمایا کہ قرآن کریم کی تین آیتوں سے علم محمد رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا روز اول سے روز آخر تک، تمام ما کان و ما یکون
کو محیط ہونا، بطور دلیل قطعی ثابت ہے، اس کے بعد آپ نے ’انباء المصطفی‘ کی یہ
عبارت پیش فرمائی:
’’مخالفین ان آیات کے خلاف پر اصلا ایک دلیل صحیح، صریح،قطی الافادہ نہیں
دکھاسکتے اور اگر بفرض غلط تسلیم ہی کرلیں؛ تو ایک یہی جواب جامع و نافع و نافی و
قامع، سب کے لیے شافی و کافی کہ عموم آیات قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار آحاد
سے استناد محض ہرزہ، باقی میں اس مطلب پر تصریحات ائمہ اصول سے احتجاج کروں، اس سے
یہی بہتر کہ خود نجدیہ زمانہ کے انہیں گنگوہی پیشوا کی شہادت دوں‘‘۔ (الموت الأحمر
بحوالہ انباء المصطفی، ص۱۷)
اس کے بعد آپ نے اس مدعی پر تین عبارتیں ذکر فرمائی ہیں، میں یہاں
صرف ایک عبارت ذکر کرنے پر اکفتا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
[عقائد، مسائل قیاسی نہیں کہ قیاس سے ثابت ہوجائیں بلکہ قطعی ہیں، قطعیات،
نصوص سے ثابت ہوتے ہیں کہ خبر واحد بھی یہاں مفید نہیں؛ لہذا اس کا اثبات اس وقت
قابل التفات ہو کہ قطعیات سے اس کو ثابت کرے] (براہین قاطعہ،ص۴۶،ط: المطبع
الھاشمی، الموت الأحمر، ص۱۷)
پھر آپ نے تمام دہلوی، گنگوہی سب کو دعوت عام دیتے ہوئے فرمایا:
’’ایک آیت قطعی الدلالۃ یا ایک حدیث متواتر، یقین الافادۃ چھانٹ لائیں، جس سے
صاف صریح طور پر ثابت ہو کہ تمامی نزول قرآن کے بعد بھی اشیاے مذکورہ ماکان و
مایکون سے فلاں امر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی رہا، جس کا علم حضور کو
دیا ہی نہیں گیا، فإن لم تفعلوا و لن
تفعلوا فاعلموا أن اللہ لایھدي کید الخائنین‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۱۸)
اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے صاحب براہین کے بے اصل روایت: واللہ لا أدري ما یفعل بي و
لابکم سے استدلال کرنے کا رابع و عشرین، خامس و عشرین اور سادس و
عشرین میں بہترین علمی جائزہ لیا اور ان کا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کے
قول سے صرف لا تقربوا الصلاۃ کی طرح استدلال کرنے کی خیانت کو ظاہر فرمایا اور یہ واضح فرمایا کہ یہ وہ
قوم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مناقب عظمی کے ثبوت کے لیے اتنی تنگ دلی
دکھاتی ہے کہ صحیح البخاری و مسلم کی
احادیث بھی مردود ہوجائیں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تنقیص میں یہ وسعت
ظرفی کہ بے اصل روایت بھی قابل قبول ہوجائے!!
گنگوہی صاحب لکھتے ہیں:
[تمام مسلمان شیطان سے افضل ہیں تو مؤلف سب عوام میں بسبب افضلیت کے شیطان سے
زیادہ نہیں تو اس کے برابر بزعم خود علم غیب ثابت کرے] (براہین،ص۴۶، ط: المطبع
الھاشمی، الموت الأحمر،ص۱۹)
گنگوہی صاحب کا مولانا عبد السمیع رحمہ اللہ کی جانب افضلیت سے استدلال کا
دعوی من گڑھت اور بے بنیاد ہے، اور اس بے بنیاد کی بنا پر مصنف سے علم غیب کا
مطالبہ کرنا جہالت در جہالت ہے، بہر کیف ان کی اس بات سے اتنا ضرور معلوم ہوا کہ
یہ شیطان کے لیے علم غیب مانتے ہیں، جس کی بنا پر یہ خود اپنے جبروتی حکم کے شکار ہوگئے، گنگوہی صاحب اپنے ’فتاوی‘ میں
لکھتے ہیں:
[اثبات علم غیب غیر حق تعالی کو شرک صریح ہے] (فتاوی) (الموت الأحمر، ص۱۹،
سابع و عشرین)
پھر آپ نے ان کو ان کی خباثت کی طرف توجہ دلائی کہ یہ بے چارے مسلمان شیطان کی
کیا برابری کرسکیں گے جب آپ کے نزدیک تمام جہاں کے سردار، رسول اکرم صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم کا علم شیطان کے برابر نہیں ہوسکتا بلکہ شیطان کے لیے علم غیب کو نصوص
قطعیہ سے ثابت مانا اور وہی علم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ماننے پر
حکم شرک لگایا بلکہ یہ باور کرانے کی ناپاک کوشش بھی کی گئی کہ اس طرح کے عقیدہ
رکھنے میں ایمان کا کوئی حصہ نہیں، صاحب براہین لکھتے ہیں:
[شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے] (براہین قاطعہ،ص۴۷،ط: المطبع الھاشمی،
الموت الأحمر، ص۲۰، ثامن و عشرین)
پھر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے وضاحت فرمائی کہ علم غیب اللہ تعالی کی
صفات سے ہونے کی وجہ سے فضیلت کا حامل ہے، مگر گنگوہی نے اسے ابلیس کے لیے ثابت
مانا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس علم کی نفی کردی؛ جس کی وجہ سے
انہوں نے اس عظیم فضیلت میں ابلیس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صرف افضل ہی
نہیں بتایا بلکہ اس فضیلت کو ملعون شیطان کے ساتھ خاص مانی اور حضور صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم کو اس سے خالی ٹھہرایا، اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں:
’’اذناب یوں بکتے ہیں کہ انہوں نے تو ذلیل و ناپاک علم شیطان کے لیے خاص کیے
ہیں نہ کہ فضیلت والے اور خودگنگوہی صاحب فرمارہے ہیں کہ مردود مجھ پر جھوٹ نہ
باندھو، میں گنگوہی تو ایک اعلی درجے کی فضیلت بلکہ خاص اللہ عز وجل کی جلیل صفتِ
علم کو ابلیس کے لیے ثابت جانتا اور
مسلمانوں کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس فضل عظیم سے خالی مانتا ہوں، کذلك یطبع اللہ علی کل قلب
متکبر جبار‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۰، تاسع و عشرین)
پھر اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے پوری قوم دیوبندیت کو عار
دلاتے ہوئے مندرجہ ذیل مطالبہ فرمایا، آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ عز وجل کو اگر ایک جانتے ہوں؛ تو اسی ایک واحد قہار کے لیے بتائیں، کیا
دیوبندی مذہب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ عقیدہ کہ خود بخود آپ کو علم
تھا، بدون اطلاع حق تعالی کے، کفر یقینی ہے، کیا اگر کوئی شخص ایسے عقیدہ والے کو
کافر کہنے سے زبان روکے اور اس میں صرف اندیشہ کفر مانے، وہ کافر ہے کیا، اگر ایسا
نہیں تو جو کہے:
[شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے]
وہ مسلمان کی تکفیر کرکے کافر یا گمراہ ہوا یا نہیں‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۰‒۲۱، ثلاثین)
لیکن آج تک تھانوی صاحب یا ان کی جماعت کے کسی عالم نے اس کا جواب نہیں دیا
اور شاید قیامت تک نہیں دے سکیں گے؛ کیوں کہ حق بہر حال سر چڑھ کر بولتا ہے اور
باطل زیر زمیں دفن ہوجاتا ہے۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ مزید بطور افادہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اس علم محیط کے متعلق گنگوہی اور آپ تھانوی اور اسمٰعیل دہولی صاحب کی خوب
خوب خبرگیری میرے رسالہ ’ادخال السنان‘ رد دوم ’بسط البنان تھانوی صاحب‘ میں ہے،
جس میں آپ سے ایک سو ساٹھ قاہر سوال، نہیں، نہیں بلکہ سر وہابیہ پر ایک سو ساٹھ
جبال ہیں، چھ سال ہوئے کہ آپ تھانوی صاحب ظاہری کے یہاں رجسٹری شدہ گیا ہے اور آج
تک بحمد اللہ تعالی لاجواب ہے۔
اب آپ اپنے طلب تحقیق کے لباس میں اسے ضرور بغور ملاحظہ کیجیے والھادي ھو اللہ لا إله
سواہ، آپ نے اگر اس رسالہ کا کوئی جواب دیا ہو تو فورا بھیجیے،
ورنہ اس کا نام و نشان ہی بتادیجیے کہ منگاؤں‘‘۔ (الموت الأحمر، ۲۱، ثلاثین)
بحث دوم تکفیر نانوتوی صاحب
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اس مبحث میں ’اولا تا عاشرا‘ کے تحت ناتوی
صاحب کے کفر کی وضاحت فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ نانوتوی صاحب، شان رسالت میں توہین
کرنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں، ایسے کافر کہ اگر معلوم ہونے کے بعد، اس کے کفر
میں کوئی شک کرے؛ تو وہ خود کافر ہوجائے
گا۔
کتاب ’تحذیر الناس‘ کے متعلق طالب تحقیق نے جو لکھا ہے، وہ آج کی تقریر نہیں
بلکہ بہت پرانی ہے، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے بہت پہلے ہی اس کا دنداں
شکن جواب دے دیا تھا، مگر کتے کی دم ہے کہ سیدھی ہی نہیں ہوتی، اسی کی وضاحت کرتے
ہوئے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’اولا وہ نہ آپ کی ہے، نہ آج کی، بلکہ مدت ہوئی ادھر والے پیش کرچکے اور میرے
رسالہ ’وقعات السنان‘ رد اول ’بسط البنان‘ نے گھر تک پہونچادیا، اس میں تھانوی
صاحب ظاہری سے ایک سو بتیس قاہر سوال، نہیں، نہیں سارے دیوبندیہ کے سر، ایک سو
بتیس جبال ہیں، یہ ’ادخال السنان‘ سے بھی پہلے رجسٹری شدہ پاس تھانوی صاحب کے پہنچ
گیا، ان شبہات کا کافی جواب، اس سے دیکھیے‘‘۔ (الموت الأحمر، ۲۱)
یہاں پر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ تھانوی صاحب سے اپنے اس رسالہ کا جواب
مطالبہ کرنے کے بعد اجمالا بطور اتمام حجت جوابا، ارشاد فرماتے ہیں:
’’ولید ایک کتاب میں لکھے کہ:
[عوام کے خیال میں تو اللہ تعالی کا واحد ہونا بایں معنی ہے کہ اللہ اکیلا ہے،
تنہا خدا ہے، مگر اہل فہم پر روشن کہ ایک یا اکیلے ہونے میں بالذات کچھ فضیلت
نہیں، نہ یہ مقام مدح میں ذکر کے قابل، آدم بھی ایک ہے، ابلیس بھی ایک ہے بلکہ
توحید یہ ہے کہ اللہ معبود بالذات ہے، دوسرے اگر ہوتے بھی تو معبود بالعرض ہوتے،
اس سے تنہائی آپ ہی لازم آئے گئی، پھر دوسرا خدا نہ ہونا قرآن و حدیث و تواتر
اجماع سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہوگا، تو حید اگر بایں معنی تجویز کی جائے جو
میں نے عرض کیا؛ تو اللہ کا واحد ہونا بندوں ہی کی نظر سے خاص نہ ہوگا بلکہ بالفرض
ازل میں بھی کہیں اور کوئی خدا ہو جب بھی اللہ کا واحد ہونا بدستور باقی بلکہ
بالفرض اگر بعد ازل بھی کوئی خدا ایک دو یا دس بیس یا لاکھ دس لاکھ پیدا ہوجائیں
تو پھر بھی توحید الہی میں کوئی فرق نہ آئے گا، انتھی]‘‘۔ (الموت الأحمر،ص۲۲)
یہاں پر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے کچھ ایرادات وارد کرکے یہ سمجھانے
کی کوشش فرمائی ہے کہ کبھی متکلم کا اپنی مراد بتانا بھی قابل قبول نہیں ہوتا،
ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ مسلم موحد ہے یا مشرک؟ بر تقدیر اول کیا مسلمان ایسی ہی توحید مانتے ہیں
جو اور خداؤں کی نافی و منافی نہ ہوئی اور اس معنی کو کہ اللہ ایک ہے، جاہلوں
نافہموں کا خیال اور ناقابل مدح و خالی از کمال سمجھتے ہیں، بر تقدیر ثانی وہ کیوں
کافر و مشرک ہوا حالاں کہ اس نے دوسرے خدا نہ ہونے کے ساتھ، الوہیت بالذات کو بھی
ثابت کیا ہے اور دوسرے خدا نہ ہونے کو قرآن و حدیث و تواتر و اجماعِ امت سے ثابت
کرکے، اس کے منکر کو کافر بتایا ہے، پھر تعجب ہے کہ تکفیر کس بنا پر ہے، یہ کیا
غضب ہے کہ متکلم اپنی مراد، اپنا مطلب صاف صریح لفظوں میں، اپنی اسی کتاب میں، اسی
بحث میں، اسی مسئلہ میں بیان کرتا ہے، مگر اس کی کچھ شنوائی نہیں ہوتی‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۲۲)
طالب تحقیق اپنے دوسرے خط میں لکھتے ہیں:
[آپ کا یہ فرمانا کہ تکفیر اس پر ہے کہ خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین جاننا
جاہلوں کا خیال ہے، اس میں کوئی فضیلت نہیں، یہ مقام مدح میں ذکر کے قابل نہیں، یہ
مضمون تحذیر الناس میں نہیں ہے]
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ اس کے اس دعوی کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثانیا ’تحذیر الناس‘ شاید آپ نے دیکھی نہیں، سنی سنائی کہ دی کہ اس میں یہ
مضمون نہیں، اب دیکھیے شروع کلام اسی سے ہے کہ:
[عوام کے خیال میں رسول اللہ صعلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں
آخری نبی ہیں]
دیکھیے وہ معنی کہ ائمہ علما، تابعین، صحابہ، سب نے سمجھے اور خود حضور اقدس
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے، انہیں جاہلوں نافہموں کا خیال بتایا‘‘۔
(الموت الأحمر،ص۲۲)
یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہونا خود کوئی
فضیلت نہیں رکھتا بلکہ اسے فضیلت میں کوئی دخل ہی نہیں اور یہ ایسے ویسے کے ذلیل و
قبیح احوال کی طرح ہے، اس کی ہرزہ سرائی پر گرفت فرماتے ہوئے حضور مفتی اعظم ہند
علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’ثالثا (ص۳) دیکھیے:
[اس میں ایک تو خدا کی جانب زیادہ گوئی کا وہم ہے، آخر اس وصف میں اور شکل،
رنگ، سکونت وغیرہ اوصاف میں، جنہیں فضائل میں کچھ دخل نہیں، کیا فرق ہے، دوسرے
رسول کی جانب نقصان قدر کا احتمال؛ کیوں کہ اہل کمال کے کمالات ذکر کیا کرتے ہیں
اور ایسے ویسے لوگوں کے اس قسم کے احوال]
دیکھیے کیسی صریح تصریح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی وسلم کا خاصہ عظیمہ،
خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء، خود کوئی فضیلت ہونا در کنار، اسے فضیلت میں دخل
تک نہیں، وہ کوئی کمال نہیں، بلکہ ایسے ویسوں کے ذلیل احوال کی طرح ہے، و العیاذ
باللہ تعالی۔
رابعا اس سے اوپر متصلا دیکھیے:
[ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ
دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی ہوسکتی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ اہل
اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی]
دیکھیے صاف تصریح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی وسلم کا یہ خاصہ جلیلہ مقام
مدح میں ذکر کے قابل نہیں، کیا آج تک کسی مسلمان نے ایسا بکا ہے، رسول اللہ صلی
اللہ تعالی وسلم کے ایسے وصف کریم کی ایسی تذلیل و تحقیر کوئی مسلمان کرسکتا ہے،
حاشا للہ‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۳)
طالب تحقیق اپنے دوسرے خط میں لکھتے ہیں: [تحذیر الناس میں ختم زمانی کا انکار
ہے نہ اس میں فضیلت کا انکار بلکہ ختم زمانی کے ساتھ ختم ذاتی کو بھی ثابت کیا گیا
ہے]
طالب تحقیق کا یہ دعوی محض ہے، ورنہ قاسم نانوتوی صاحب تو ختم زمانی کے انکار کے ضمن میں ختم ذاتی کا بھی
انکار کر بیٹھے ہیں، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی دور رس نگاہ کی جولانیت
ملاحظہ فرمائیں:
’’خامسا میں نے یہاں کفریات نانوتوی صاحب سے یہ بھی گنا تھا کہ:
[حضور کے زمانے میں بلکہ حضور کے بعد بھی اگر کوئی نیا نبی مانا جائے تو
خاتمیت میں خلل نہیں]
الحمد للہ کہ آپ نے ’تحذیر الناس‘ میں اس کے وجود کا انکار نہ کیا، ملاحظہ ہو
کہ یہ خاتم النبیین پر ایمان نانوتوی صاحب کا خاتمہ کرگیا، ختم زمانی کے اس ریائی
اقرار اور اس کے منکر کے تصنعی اِکفار کا پردہ اتر گیا، یوں کہیے کہ اس (ص۱۱) کے
ظاہری اسلام کو جو خود باقرار نانوتوی صاحب برائے نام تھا، (ص۳۳ ) کا یہ صریح کفر
منسوخ کرگیا، پچھلے کفر کو گزشتہ اسلام کیا مٹاسکتا ہے، بلکہ کفر ہی اسے منسوخ
کرگیا، یہ تو بدیہی ہے کہ اس تقدیر پرکہ:
[بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو]
ختم زمانی باطل ہوجائے گا کہ وہ تو یہی تھاکہ:
[آپ سب میں آخری نبی ہیں] (تحذیر الناس، ص۲)
اور جب حضور کے بعد نبی پیدا ہو؛ تو سب میں آخری نبی کب رہیں گے کہ ان سے آخر
اور ہوا، غرض اس سے ختم زمانی کا انتفا بدیہی اور اس کے انتفا سے نانوتوی صاحب کا
ساختہ، ختم ذاتی بھی ختم کہ اسے ختم زمانی لازم تھا:
تحذیر الناس ص۹: [ ختم نبوت بمعنی معروض کو تاخر زمانی لازم ہے]
اور لازم کے انتفا سے ملزوم کا انتفا لازم، تو نہ ختم زمانی رہا، نہ ذاتی بچا،
سب فنا اور خاتمیت بجا، اس میں کچھ خلل نہ آیا، یہ کیسا شدید کفر ہے‘‘۔ (الموت الأحمر،
ص۲۳‒۲۴)
طالب تحقیق صاحب اپنے دوسرے خط میں مزید لکھتے ہیں:
[غرض یہ ہے کہ جب آپ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے بعد نبی کے امکان
ذاتی کے قائل ہوئے؛ تو اگر ایک وقت میں دس بیس نبی ہوئے تو وہ بھی ممکن بالذات
ہوئے اور سب ایک ہی وقت میں اس عالم سے تشریف لے جائیں تو سب کے سب خاتم زمانی بھی
ہونگے تو آپ امکان ذاتی تعدد خواتم کے بھی قائل ہوگئے تو آپ میں اور اہل دیوبند میں
اس مسئلہ میں کس بات کا فرق رہا، امتناع بالغیر کے آپ بھی قائل وہ بھی قائل اور جو
امکان ذاتی کا قائل ہوگا اس کو امکان تعدد خواتم خود بخود لازم آئے گا]
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اس جہالت کو دفع کرنے کے لیے ’سادسا‘ کے
تحت پہلے ایک ضابطہ بتایا کہ تعدد امکان، امکان تعدد نہیں، اس کے بعد دو چند
مثالیں پیش کیں، مثلا تعددِ امکان کی حیثیت سے کسی بھی وقت میں رات و دن ممکن، مگر
دونوں ہوں، یہ محال ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’تو اس امکان ذاتی سے امکان تعدد خاتم سمجھنا کیسا باطل خیال، اتنی نافہمی کے
بعد اس کی کیا شکایت کہ:
[سب اس عالم سے ایک ہی وقت میں تشریف لے جائیں؛ تو سب خاتم ہوں گے]
ایک بھی نہ ہوگا کہ خاتم کے معنی باقرار ’تحذیر الناس ص۲ ‘ یہ ہیں کہ:
[سب میں آخری نبی]
جب دس بیس ایک ساتھ ہوئے تو سب میں آخر ایک بھی نہ ہوا‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۴)
اور تعجب تو یہ ہے کہ طالب تحقیق نے ’المعتمد المستند‘ سے جس عبارت کا حوالہ دیا
ہے، خود اسی میں امکان تعدد کا رَد موجود ہے، مگر تعصب یا کم فہمی کا کوئی علاج نہیں، عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’أما الذاتي فلایحتمل
الإکفار بل ھو ھنا صحیح و إن بطل في تعداد خاتم النبیین؛ لأن الاٰخر بالمعنی
الموجود ھھنا لایقبل الاشتراك عقلا و تمام تحقیقه یطلب من فتاویٰنا (المعتمد) کشف دیکھ کر بھی نہ سمجھتا، وہی سمجھ کا قصور ہے، جس پر آپ اللہ
تعالی کو شاہد کر رہے ہیں، مگر یہ آپ پر الزام نہیں، دیوبندی مکشوفین حتی کہ
تھانوی صاحب ظاہری تک، اس کی سمجھ سے قاصر ہیں، پھر لباس باطن کی کیا شکایت‘‘۔
(الموت الأحمر، ص۲۴، سابعا)
طالب تحقیق اپنے دوسرے خط میں مزید لکھتے ہیں: [امتناع بالغیر کے آپ بھی قائل
وہ بھی قائل]
یہ تو صحیح ہے کہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک خاتمیت کا انتفا محال بالغیر ہے؛
کیوں کہ ان کے نزدیک حضور سرور عالم خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم
کے بعد کسی نبی کا ہونا بلاشبہ نافیِ خاتمیت ہے اور خاتمیت کا انتفا محال کہ اس سے
معاذ اللہ کلام الہی کا کذب لازم آئے گا، قال اللہ تعالی: و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین اور کذب الہی قطعا محال بالذات؛ لہذا اس کے لزوم نے خاتمیت کے انتفا کو محال
بالغیر کردیا، لیکن دیوبندیہ کے نزدیک ممتنع بالغیر ہے، یہ سراسر جھوٹ کا پلندہ
ہے؛ کیوں کہ دیوبندیہ بلکہ سارے وہابیہ کے نزدیک کذب الہی معاذ اللہ ممکن؛ تو اس
کے لزوم سے خاتمیت کے انتفا کا ممتنع بالغیر
ہونا بداہۃ محال؛ اس لیے ثابت ہوا کہ دیوبندیہ کے نزدیک خاتمیت کا انتفا
ممتنع بالغیر نہیں، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’ثامنا محض غلط ہے کہ دیوبندیہ امتناع بالغیر کے قائل ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن دیوبندیہ
بلکہ سارے کے سارے وہابیہ کے نزدیک کذب الہی معاذ اللہ ممکن تو اس کا لزوم اسے
کیوں کر ممتنع بالغیر کرے گا، مسلمانوں کے خوف سے اپنے کفر پر پردہ ڈالنے کو زبانی
امتناع بالغیر رٹنا، کیا مفید، اب تو آپ کو مسلمانوں اور دیوبندیوں کا فرق کھل
گیا‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۵)
’’تاسعا انصافا ملاحظہ ہو، نانوتوی صاحب نے اس دیوبندی ڈھول کی کھال تک نہ
رکھی کہ امتناع بالغیر تھا تو اسی لیے کہ خاتمیت میں فرق آئے گا اور وہ فرماچکے،
تحذیر الناس، ص۳۳:
[بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت
محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا]
اب کہیے وہ امتناع بالغیر کس گھر سے لائیں گے تو یہ ادعا کہ حضور کے بعد کوئی
نبی نہ ہوسکنے کے نانوتوی صاحب قائل ہیں، کیسی صریح ڈھٹائی ہے‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۵)
اس بحث کے اخیر میں دیوبندیہ کے بعض باطل عقائد مثلا خاتم النبیین بمعنی آخر
النبیین ہونا جاہلوں کا خیال ہے، یہ وصف کریم نہ کوئی کمال ہے اور نہ اسے اصلا
فضیلت میں دخل وغیرہ ذکرکرنے کے بعد، دیوبندیہ فضائل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
کو ماننے میں کس قدر انحراف رکھتے ہیں، ان کی اس بے غیرتی کا بھی جائزہ لیا اور
طالب تحقیق سے مخاطب ہوکر ’عاشرا‘ کے تحت فرمایا:
’’افسوس کہ آپ کا یہ باطنی لباس ان کے وقت میں نہ ہوا کہ ان کی آنکھیں کھولتا
اور فضائل محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر انہیں ایمان کی طرف بلاتا،
اگرچہ من یضلل اللہ فما له
من ھاد‘‘۔ (الموت الأحمر،ص۲۶)
بحث سوم
صرف تکفیر فقہی اسمٰعیل دہلوی صاحب
صاحب تحقیق نے پہلے دو مختلف آرا سے متعلق ’تمہید ایمان‘ اور ’الکوکبۃ
الشھابیۃ‘ کی عبارت کو ایک ہی حکم میں رکھنے کی غلطی کی اور پھر اسی غلطی کو بنیاد
بناکر طرح طرح کے غلط نتائج نکالے، ظاہر سی بات ہے جب بنیاد ہی غلط ہو؛ تو اس کے
نتائج بھی غلط و باطل ہی ہونگے؛ کیوں کہ ’تمہید ایمان‘ میں تکفیر کی گفتگو متکلمین
کی آرا کے لحاظ سے کی گئی اور ’الکوکبۃ الشھابیۃ‘ میں ایک دو عبارت کے سوا سب میں
تکفیر کی بحث، فقہا کی آرا کے اعتبار سے بیان کی گئی، یوں دونوں کتابوں کے مباحث
دو مختلف آرا پر مشتمل ہونے کی وجہ سے دونوں کے احکام مختلف نظر آئے، مگر طالب
تحقیق نے دونوں آرا کو ایک قرار دے کر غلط راستہ اختیار کیا اور پھر مباحث میں
بھٹکتے چلے گئےاور حد تو یہ ہے کہ یہاں
اعلی حضرت علیہ الرحمۃ پر کفر تھوپنے کی بھی کوشش کی اور آج بھی انہیں کے نقش قدم
پر چلتے ہوئے بعض لوگ اپنی غلطی سے یا جان
بوجھ کر اندھ بھکتوں کی طرح، اسی کو ثابت
کرنے کی لایعنی کوشش کررہے ہیں، لیکن جس چیز کا عدم ثبوت روز روشن کی طرح بالکل
عیاں ہے، وہ نہ تو کل ثابت تھا اور نہ آج ثابت ہے اور نہ ہی کبھی ثابت ہوسکے گا،
ہاں اتنا ضرور ہوگا کہ سورج کو آنکھ دکھانے والے کی آنکھیں چندھیاجائیں گی اور
سورج پر تھوکنے والے کا منھ خود اپنے ہی تھوک سے آلودہ ہوجائے گا، اسی کو کہتے ہیں کہ
خود کردہ را علاج نیست۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اس مبحث میں تکفیر فقہی اور تکفیر کلامی کی
تفہیم کے لیے پہلے پانچ جامع مقدمات تحریر فرمائے، جن سے واضح طور پر حضور اعلی
حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی عبارات میں تضاد کے ڈھونگ کا راز
فاش ہو گیا اور آپ کی ذات مقدسہ پر لگائے گیے الزامات یک لخت ساقط ہوتے ہوئے نظر
آئے، پھر آپ نے اس واضح امر کو مزید واضح کرنے کے لیے ’اولا تا عشرین‘ کے تحت
تھوڑی تفصیل کے ساتھ علمی گفتگو فرمائی؛ جس کی وجہ سے زیر بحث موضوع کے جزیات و
کلیات میں کوئی خفا نہیں رہ گیا اور ایک طالب حق کے لیے سارے امور بالکل واضح
ہوگئے، ویسے تو زیر بحث موضوع کے تمام مباحث بہت خاص ہیں، مگر یہاں جس کی ضرورت
زیادہ ہے، صرف انہیں مباحث کو ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ’پہلے مقدمہ‘ میں تاویل کی تین قسمیں کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:
’’تاویل تین قسم ہے: قریب، بعید، متعذر، کما في منتھی السؤل و فصول
البدائع و غیرھما، ثالث حقیقۃ تاویل نہیں، تحویل ہے، باعتبار زعم مرتکب یا
تجریدا اس پر بھی اطلاق ہوتا ہے، قول علما: لا یقبل التأویل في الضروري میں ضرور یہی مراد کہ ضروری میں غیر متعذر، متعذر، یہی معنی تاویلِ متعین میں
متعین، ورنہ متعین نہ ہو، ہاں متبین میں سب قسمیں ممکن‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۲۷)
یعنی امر ضروری میں جو تاویل ہوتی ہے اگرچہ اس پر تاویل کا اطلاق ہوتا ہے مگر
حقیقت میں وہ تاویل نہیں بلکہ تحویل و
تغییر ہے اور اسی کو تاویل متعذر کہا جاتا ہے، علما نے جو یہ کہا کہ امر ضروری میں
تاویل قابل قبول نہیں، اس سے یہی تحویل والی تاویل مراد لیا ہے؛ کیوں کہ امر ضروری
میں تاویل غیر متعذر یعنی تاویل قریب یا بعید متعذر ہے اور یہی حکم متعین کا ہے کہ
اس میں بھی تاویل قریب و بعید متعذر ہوتی ہے، ہاں اگر متبین ہو؛ تو اس میں تاویل
قریب، بعید اور متعذر تینوں ہوسکتی ہیں، البتہ متبین کی صورت میں تاویل بعید،
فقہاے کرام کے نزدیک مقبول نہیں ہوگی مگر متکلمین کے نزدیک قابل قبول ہوگی اور
تاویل متعذر، متفقہ طور پر مقبول نہیں ہوگی۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ’دوسرے مقدمہ‘ میں فرماتے ہیں:
’’جمہور فقہا کے نزدیک اکفار کو متبین کافی، عامہ حنفیہ و مالکیہ و حنبلیہ اور
بہت شافعیہ کا یہی مسلک اور اکثر متکلمین و فقہاے محققین حنفیہ وغیرہم شارط تعیین،
منح الروض میں ہے: عدم التکفیر مذھب المتکلمین و التکفیر مذھب الفقھاء فلا یتحد القائل بالنقیضین
فلامحذور۔
لاجرم تاویل صحیح اگرچہ کتنی ہی بعید ہو، متکلمین قبول کریں گے، یہ ہے وہ کہ
محققین محتاطین نے فرمایا کہ ایک بات میں ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا
تو پہلوے اسلام کو ترجیح دیں گے، یہ ہے وہ کہ ’سل السیوف الھندیۃ علی کفریات بابا
النجدیۃ‘ (۱۳۱۲ھ) اور ’حاشیہ الکوکبۃ الشھابیۃ فی کفریات أبی الوھابیۃ‘ (۱۳۱۲ھ)
میں فرمایا کہ جب تک ضعیف سا ضعیف احتمال ملے گا حکم کفر جاری کرتے ڈریں گے، ان کے
نزدیک تکفیر اور حکم بوقوع طلاق میں زمین، آسمان کا تفاوت ہے، طلاق صریح میں خلاف
ظاہر احتمال قاضی نہ سنے گا، نہ عورت مانے گی؛ فإنھا کالقاضي کما في الفتح
و البحر و غیرھما۔
ہاں عند اللہ طلاق نہ ہوگی، اگر اس نے کسی اور پہلوے محتمل کی نیت کی، یہ ہے
وہ کہ فتواے مبارکہ میں ہدایہ سے تھا: لأنه نوی ما یحتمله،
لیکن یہاں یہ بھی حکم کفر نہ کریں گے بلکہ اگر اس نے پہلوے کفر کی نیت کی تو عند
اللہ کافر ہوگا اور یہ کافر نہ کہیں گے، برعکس طلاق کہ اس صورت میں عند اللہ طلاق
نہ تھی اور حکم طلاق دیتے، دُرر و دُر میں ہے: إذا کان في المسئلة وجوہ
توجب الکفر (أي احتمالات اھ ش) و واحد یمنعه فعلی المفتي المیل لما یمنعه ثم لو
نیته ذلك فمسلم و إلا لا ینفعه حمل المفتي علی خلافه۔
لیکن عامہ فقہاے کے نزدیک یہاں اس کا وہی حکم مثل طلاق صریح ہے کہ معنی ظاہر
پر عمل اور احتمال بعید نامتقبل اور باطن مفوض بعلیم عز وجل‘‘۔
(الموت الأحمر، ص۲۷‒۲۸)
یعنی جمہور فقہاے کرام کے نزدیک تکفیر کے لیے جملے کا متبین ہونا کافی ہے مگر
متکلمین کے نزدیک اسی وقت تکفیر ہوگی جب وہ جملہ معنی کفر میں متبین سے نکل کر متعین
ہوجائے؛ اسی اختلاف کی وجہ سے اگر کوئی جملہ متبین ہو مگر متعین نہ ہو؛ تو اسی ایک
جملہ کی وجہ سے کبھی کفر اور عدم کفر کا قول کرنے والا نقیضین کا قائل نہیں ہوگا؛
کیوں کہ اس صورت میں تکفیر مذہب فقہا اور عدم تکفیر مذہب متکلمین کے اعتبار سے
ہوگی، اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان نے ’الکوکبۃ الشھابیہ‘ میں
جو تکفیر کی ہے، وہ مذہب فقہا کے اعتبار سے ہے اور ’تمہید ایمان‘ جو عدم تکفیر کا
قول کیا ہے، وہ متکلمین کے مذہب کے لحاظ سے ہے؛ لہذا دونوں اقوال میں کوئی تناقض
نہیں۔
پھر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے ’تیسرے مقدمہ‘ میں فقہا و متکلمین کے
نزدیک لفظ صریح کے اطلاق کی وضاحت کرنے کے
بعد فرمایا:
’’یوں ہی کسی قولِ کفری پر یہ حکم کہ اس میں کوئی تاویل کی جگہ بھی نہیں، اگر
بحث کلامی میں ہے؛ تو مفاد تعین اور جگہ نہ ہونا نفس احتمال کی نفی کہ کوئی دوسرا
پہلو ہی نہیں، اگرچہ بعید اور بحث فقہی میں ہے؛ تو مفاد تبین اور جگہ نہ ہونا، نفی
تحمل یعنی قابل قبول نہیں، خواہ راسا احتمال ہی نہ ہو یا بعید ہو‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۲۹)
اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اپنے ’چوتھے مقدمہ‘ میں ’البحر
الرائق‘ وغیرہ کتب معتمدہ سے اس بات کی
وضاحب فرمائی کہ قول کے کفر ہونے کی سبب، مذہب کلامی میں مطلقا قائل کافر نہیں؛
کیوں کہ کفر ہونے کے لیے تبین کافی مگر مذہب کلامی پر قائل کے کافر ہونے کے لیے
تبین کافی نہیں بلکہ تعین ضروری ہے، پھر اپنے اس قول کی تائید خود امام الدیابنۃ
گنگوہی صاحب کے فتاوی سے پیش کی؛ لہذا جب استلزام نہیں تو اگرچہ قائل کی تکفیر نہ
کی جائے مگر کفر کی شناعت و قباحت کو خوب ظاہر کیا جائے گا تاکہ عوام کی نگاہ میں
کلمہ کفر ہلکا نہ ہونے پائے۔
اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اپنے ’پانچویں مقدمہ‘ میں اس بات پر
روشنی ڈالی ہے کہ دیوبندیوں کی تکفیر مذہب کلامی پر ہے؛ اسی لیے علماے حرمین طیبین
نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے لیکن رہی بات
کتاب ’الکوکبۃ الشھابیۃ‘ کی تو اول تا آخر اس کا موضوع بحث فقہی ہے، چنانچہ جواب
کے شروع میں یہ الفاظ ہیں:
’’بلاشبہ وہابیہ اور ان کے پیشوا پر حسب تصریحات جماہیر فقہا حکم کفر ثابت‘‘۔
(الکوکبۃ الشھابیۃ؍فتاوی رضویہ جدید،ج۲۰ص۲۶، ط: امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف)
اور جواب کے اختتام پر یہ الفاظ ہیں:
’’فرقہ وہابیہ اور اس کے امام بلاشبہ جماہیر فقہا کی تصریحات پر کافر‘‘۔
(الکوکبۃ الشھابیۃ؍فتاوی رضویہ جدید، ج۲۰ص۷۱)
اخیر میں صرف اتنے الفاظ بحث کلامی کے اعتبار سے ہیں:
’’اگرچہ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں إکفار سے کف لسان ماخوذ و مختار و مرضی و
مناسب، و اللہ سبحانہ تعالی أعلم‘‘۔ (الکوکبۃ الشھابیۃ؍فتاوی رضویہ، ج۲۰ص۷۱)
بحث کے اختتام پر یہ حاشیہ بھی تحریر فرمایا:
’’یہ حکم فقہی، متعلق بہ کلمات سفہی تھا‘‘۔ (حاشیہ الکوکبۃ الشھابیۃ؍فتاوی
رضویہ، ج۲۰ص۷۰)
اس کے بعد مذہب کلامی کے بارے میں یہ تحریر فرمایا:
’’لزوم و التزام میں فرق ہے، ہم سکوت کریں گے، ان کے پیشوا کا حال مثل یزید ہے
کہ محتاطین نے اس کی تکفیر سے سکوت کیا‘‘۔ (حاشیہ الکوکبۃ الشھابیۃ؍فتاوی رضویہ،
ج۲۰ص۷۰، الموت الأحمر، ص۲۹‒۳۰)
اس طرح ان مقدمات کی روشنی میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان نے طالب
تحقیق کے لیے دیوبندیوں کے سورماؤں کی تکفیر اور اسمٰعیل دہلوی کی عدم تکفیر کے
درمیان تفریق کو بالکل روز روشن کی طرح واضح کردیا، مگر ہدایت کے حصول تک رسائی،
اسی کی ہوتی ہے، جسے اللہ جل شانہ ہدایت عطا فرمائے۔
پھر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ’اولا تا عشرین‘ کے تحت ان مقدمات کی
باتوں کی مزید وضاحت فرمائی تاکہ کسی طرح، کسی شبہ کی گنجائش نہ رہ جائے اور اللہ
تعالی جسے چاہے گا، ان واضح تر مباحث کے ذریعہ ہدایت عطا فرمائے گا، ان بیس مباحث
میں سے کچھ مباحث ذکر کیے جاتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
فتوی مبارکہ اور تمہید ایمان کے درمیان تناقض عدم تدبر یا پھر تعصبِ بے جا کا
نتیجہ ہے، ورنہ ان مقدمات کو تو چھوڑیئے، صرف ان دونوں یعنی ’تمہید ایمان‘ اور
’فتوی‘ کی عبارتیں ہی ہدایت کے لیے کافی و وافی ہیں؛ کیوں کہ فتوی میں مطلق صریح کا
ذکر ہے، ایک خاص قسم یعنی صریح بمعنی تعین
کا ذکر نہیں اور ’تمہید الإیمان‘ میں اسی خاص صریح کا ذکر ہے؛ لہذا دونوں عبارتوں
کے درمیان کوئی تناقض و تضاد نہیں، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’اولا فتواے مبارکہ اور پہلی عبارت ’تمہید الإیمان‘ میں تناقض سمجھنا تو وہ
کمال دانشمندی ہے، جس کے رد کو ان مقدمات کی بھی حاجت نہیں، دونوں عبارتوں کے
الفاظ ہی ہدایت کے بس تھے، ذرا ایک نظر پھر دیکھ لیجئے، فتوی میں مطلق صریح کا ذکر
ہے یا کسی قسم خاص کا اور ’تمہید الإیمان‘ کی اسی عبارت میں یہ لفظ ہیں یا نہیں
کہ: صریح ناقابل تاویل‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۰)
صریح، متعین و متبین دونوں شقوں کو شامل ہوتا ہے، لیکن فتوی میں دونوں شقوں کا
ذکر تھا؛ اس لیے التباس کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اور ’تمہید الإیمان‘ میں مسلک
مختار مذہب کلامی کا ذکر تھا، جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، حضور مفتی
اعظم ہند علیہ الرحمۃ اس وضاحت کو کتب معتمدہ کی طرف احالہ کرنے کے بعد ’ثانیا‘ کے
تحت فرماتے ہیں:
’’اس سے مطلق صریح کا نافیِ احتمال یا ہر صریح میں ہر تاویل کا نامقبول و ہذیان
سمجھ لینا، اس لباس کا کام نہیں، دوسرے لباس کا دیوبندی ہذیان ہے‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۳۰)
پھر ’ثالثا‘ میں طلاق کے متعلق حکم کے ذریعہ تفریقِ فقہا و متکلمین سمجھانے کے بعد ’رابعا‘ میں اس بات کی وضاحت فرمائی کہ ’صراط
مستقیم‘ کی عبارت کے متعلق جو یہ کہا گیا کہ: اس میں کوئی تاویل کی جگہ نہیں، یہ
بات ’تمہید ایمان‘ میں نہیں بلکہ ’کوکبہ شہابیہ‘ میں ہے اور یہ کتاب بحث فقہی پر
مشتمل ہےاور اس کے مطابق یقینا تاویل کی گنجائش نہیں اور ’تمہید ایمان‘ کی عبارت
بحث کلامی سے متعلق ہے، جس میں احتمال بعید کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، اس کے بعد
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ دیابنہ کی بے ایمانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’دشنامی عبارت دہلوی میں تاویل کی جگہ نہ ہونا تو بحث فقہی سے لیا جائے اور
ناقابل تاویل کو کفر نہ کہنے کا کفر ہونا بحث کلامی سے لیا جائے، یہ دیوبندیہ کی
کیسی صریح بے ایمانی ہے، اگر بحث کلامی مثلا ’تمہید ایمان‘ میں ہوتا کہ دشنام
دہلوی میں تاویل کی جگہ نہیں یا بحث فقہی کو ’کوکبہ شہابیہ‘ میں ہوتا کہ جو اس پر
تکفیر نہ کرے، کافر ہے؛ تو ہذیان دیابنہ کو جگہ ہوتی، ولکن الوھابیة قوم لا یعقلون‘‘۔ (الموت الأحمر،ص۳۱)
صاحب تحقیق نے ’کوکبہ شہابیہ‘ کے درمیان سے ایک عبارت: کوئی تاویل کی جگہ نہیں، لے کر اخیر میں
عدم تکفیر اور کف لسان کے ساتھ جوڑ دیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جب تاویل
کی گنجائش نہیں تھی تو تکفیر کیوں نہیں کی اور عدم تکفیر کو اپنا مختار مذہب کیسے
بتادیا، یہ تو کھلا ہوا تضاد اور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ خود کفر کے نشانہ پر
دکھائی دے رہے ہیں، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ اسی دھاندھلی اور بے ایمانی کا
راز فاش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خامسا کھلی گستاخی ناقابل تاویل ہونا اور قائل کا کافر ہونا، دوونوں کا حاصل
ایک ہے، تو ’کوکبہ شہابیہ‘ کی اس عبارت کا صریح مفاد اسمٰعیل کی تکفیر ہے، تکفیر
سے زائد اور مفاد کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا ایمان دے تو اتنا سمجھنا کچھ دشوار نہیں
کہ فقہا کے طور پر اس کے کلام میں تاویل کی جگہ نہ تھی، تو ان کے طور پر جا بجا،
اسے کافر کہا اور سطر اخیر میں متکلمین کے طور پر تکفیر سے زبان روکی، تو یہاں اسے
ناقابل بھی نہ کہا، پھر کہاں اوندھے جاتے ہیں، و لکن الوھابیة قوم لا یفقھون‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۱‒۳۲)
پھر ’سادسا‘ کے تحت فقہا کے نزدیک صریح کے اطلاق کی وضاحت کرنے کے بعد یہ
تفصیل پیش فرمائی کہ جو کلمہ اپنے صاف صریح متبین پر گستاخی و دشنام ہو، اسے گالی
ہی کہا جائے گا اور وہ ضرور موجب ایذا ہوگا؛ کیوں کہ گالی ہونے اور ایذا پہونچنے
کے لیے متعین ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی یہ معنی قبیح، نیتِ قائل جاننے پر دلیل بن
سکتا ہے، البتہ مذہب متکلمین پر اس صاحبِ کلمہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی مگر ہرگز
یہ مطلب نہیں کہ وہ کلمہ دشنام ہونے سے خارج ہوجائے، اتنی وضاحت کرنے کے بعد حضور
مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ’سابعا‘ میں بطور حجت انہیں کے امام کا قول ذکر تے ہوئے
فرماتے ہیں:
’’اپنے امام گنگوہی صاحب کی دیکھیے (ح۳ ص۳۴) صنم یا بت وغیرہ الفاظ، نعت اقدس میں لکھنے سے
سوال تھا، جواب میں تصریح کی کہ:
[یہ الفاظ قبیحہ بولنے والا معانی ظاہرہ مراد نہیں رکھتا بلکہ معنی مجازی
مقصود لیتا ہے]
پھر حکم یہ لگایا ص۳۵:
[ان الفاظ میں گستاخی و اذیت ظاہرہ ہے، پس ان کا بکنا کفر ہوگا]
یہاں تو معلوم تھا کہ قائل کی نیت گستاخی نہیں، پھر بھی اسے گستاخی و اذیت ہی
ٹھہرایا اور حکم کفر لگایا، جہاں نیت کا علم نہ ہو، مجرد احتمال لفظ پر، گستاخی و
اذیت سے کیوں کر خارج ہوجائے گا‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۳)
طالب تحقیق نے اپنے خط میں حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ و
الرضوان پر پانچ، چھ جگہوں پر متعدد جملوں، مثلا چہ جائے کہ مراد لینے کی خبر ہو! وغیرہ
کے ذریعہ یہ الزام تھوپنے کی کوشش کی کہ آپ نے اسمٰعیل دہلوی کی نیت پر مطلع ہونے
کا دعوی کیا ہے، حالاں کہ یہ سراسر جھوٹ و بہتان ہے ، حضور مفتی اعظم ہند علیہ
الرحمۃ اسی بطلان کو واضح کرتے ہوئے ’ثامنا‘ کے تحت فرماتے ہیں:
’’کیا وہ کذابین و مکنہ بین رب العٰلمین ’کوکبہ شہابیہ‘ میں کوئی حرف اس سفید
جھوٹ کا دکھاسکتے ہیں کہ فرمایا ہو، ہمیں اس کی نیت کا علم ہوگیا کہ اس نے معنی
کفر مراد لیے ہیں، سبحان اللہ ایسا ہوتا تو یہی فرمایا جاتا کہ:
ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں إکفار سے کف لسان مختار‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۳)
حضور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کے اس طرح کے دوسرے متعدد اقوال ذکر کرنے کے بعد
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:
’’رہے فقہا، ان کے حکم فرمانے کو دعوی اطلاعِ نیت سے کیا علاقہ کہ وہ ظاہر پر
حکم فرماتے ہیں، نیت سے بحث نہیں رکھتے (مقدمہ ۲) البتہ جمہور متکلمین اور ان کے
موافقین فقہاے محققین اگر تکفیر کریں گے تو یا احتمال نہ مانیں گے، معنی کفر میں
متعین جانیں گے یا اطلاع نیت کے بعد، یہ ہے وہ جو (ص۳۳) ’تمہید ایمان‘ میں ارشاد
ہوا، نیت نہ معلوم ہونے ہی کا تو سبب ہے کہ اپنا مسلک وہ ارشاد فرمایا کہ:
مقام احتیاط میں إکفار سے کف لسان ماخوذ۔
کلام علماے کرام سمجھنا عوام کو مشکل اور دیوبندیہ کو محال ہے‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۳۴)
پھر ’تاسعا‘ کے تحت ایک مزید افترا کا رد کرنے کے بعد ’عاشرا‘ میں طالب تحقیق
کے ایک اور افترا کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آپ لکھتے ہیں:
[یہ تمام فقہا کا مذہب آپ ہی نے نقل فرمایا ہے کہ سو میں ایک احتمال بھی اسلام
کا ہو؛ تو مسلمان نہ کہیں گے]
یہ دیوبندیہ کا آٹھواں افترا ہے، بتائیے تو تمام کا لفظ کہاں فرمایا ہے‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۳۴)
پھر آپ نے کچھ مزید وضاحت کرنے کے بعد ’حادی عشر‘ کے تحت طالب تحقیق کی ایک
تفریع کی خبر لی، آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ افترا اٹھاکر اس پر تفریع جمائی کہ:
[پھر آپ کا یہ فرمانا کہ جماہیر فقہاے کرام کی تصریحات پر یہ سب کے سب مرتد
کافر، ان سب پر اپنے تمام کفریات ملعونہ سے بالتصریح توبہ اور از سر نو کلمہ اسلام
پڑھنا فرض۔
احتمال کی صورت میں فقہایہ حکم کیسے دے سکتے ہیں، یہ نسبت تکفیر کی فقہا کی
طرف محض غلط ہوگی]‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۵)
اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ مبتدعین، اہل تاویل کی تکفیر سے
متعلق اختلاف اور جمہور سلف کا انہیں کافر
قرار دینے کا ذکر کرنے بعد لکھتے ہیں:
’’آپ عدم تکفیر پر اجماع فقہا تراش کر، ان کی طرف نسبت تکفیر غلط کرنا چاہتے
ہیں، یہ باطنی تحقیق طلب کی حرکت نہیں بلکہ اہل پردہ مکشوفین کی ہے‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۳۵)
پھر آپ ’ثانی عشر ‘کے تحت مختلف فیہ کفر کے متعلق توبہ وغیرہ کی وضاحت کرنے کے
بعد ’ثالث عشر‘ میں طالب تحقیق کے دوسرے
خط کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں:
[اور اگر واقع میں کوئی احتمال نہیں؛ تو آپ کی عدم تکفیر کی کیا وجہ ہوگی اور
آپ کی عدم تکفیر پر تکفیر نہ ہونے کی کیا وجہ ہوگی]
طالب تحقیق نے اپنی کم علمی یا تعصب کی بنیاد پر جانے انجانے میں باعتبار فقہا
مختلف فیہ کفر کو لے کر اس عبارت سے نہ صرف امام اہل سنت بلکہ بڑے بڑے فقہاے کرام
پر کفر کی گولی داغنے کی ناپاک کوشش کی ہے؛ کیوں کہ اگرچہ باعتبار فقہا کوئی
احتمال قریب نہیں ہوتا مگر وہاں احتمال بعید کی وجہ سے اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے،
اب اگر اس اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے پر کفر تھوپنے کی کوشش کی جائے؛ تو بہت سارے
اکابر فقہاے کرام تکفیر و عدم تکفیر کے درمیان اختلاف کی وجہ سے کافر ہوتے نظر
آئیں گے اور یہ جرأت صرف ایک دیوبندی ہی کرسکتا ہے!! حضور مفتی اعظم ہند علیہ
الرحمۃ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اب ہر اختلاف میں دیکھیے کہ وہاں احتمال اسلام ہے یا نہیں، اگر ہے تو آپ کے
نزدیک اجماع فقہا تھا کہ سو میں ایک احتمال بھی اسلام کا ہے؛ تو مسلمان ہی کہیں
گے، تو وہ بالاجماع مسلمان ہوا اور ایک فریق فقہا نے اسے کافر کہا، تو اس اجماع کا
جس میں خود بھی شریک تھے، خلاف کیا اور اجماعی مسلم کو کافر کہا، ان کافر کہنے
والوں پر کیا حکم آیا اور اگر وہاں احتمال اسلام نہیں؛ تو جس فریق نے مسلمان کہا،
اس سے کہیے، آپ کی عدم تکفیر کی کیا وجہ ہوگی اور آپ کی عدم تکفیر پر تکفیر نہ
ہونے کی کیا وجہ ہوگی کہ آپ قطعی کافر کو مسلمان کہ رہے ہیں‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۶)
طالب تحقیق اپنے دوسرے خط میں لکھتے ہیں: [صاحب براہین و تحذیر و حفظ الایمان
اپنی عبارت کا مطلب خود ہی بیان فرمائیں مگر ان کا کفر قطعی]
طالب تحقیق اپنی اس عبارت میں یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جب ان لوگوں نے خود ہی
اپنی عبارت کا مطلب بتادیا؛ تو اب ان کی تکفیر نہیں ہونی چاہیے مگر اس کے باوجود
ان کے کفر کو قطعی قرار دیا جاتا ہے، مگر صاحب براہین و تحذیر نے جو مطلب بیان کیا
ہے، وہ ان کے کفر قطعی کو ختم نہیں کرسکتا، اس کے لیے بحث اول و دم دیکھیے، رہی
بات خفض الایمان کی؛ تو اس کے جواب میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ ’رابع عشر‘
کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:
’’البتہ خود آپ صاحب خفض الایمان نے دس برس کامل ضربیں کھاکر اپنے بیان مطلب
میں سوا دو ورق کی مبسوط کتاب لکھی، جس کا یہ چھوٹا سا نام: ’بسط البنان لکف
اللسان عن کاتب حفظ الإیمان‘ اس میں اپنا مطلب خوب بیان کیا، (ص۷)پر بلا تاویل
اپنا کفر مان لیا، (ص۳) پر بلاشبہ اپنے آپ کو خارج از اسلام کہ لیا، امام اہل سنت
و علماے حرمین طیبین نے تو جو ایسا مانے، اسے کافر کہا تھا، آپ نے اپنے کفر پر اور
بڑھ کر رجسٹری کی کہ فرمایا:
[جو شخص ایسا اعتقاد رکھے یا بلا اعتقاد صراحۃ یا اشارۃ یہ بات کہے، میں اس
شخص کو خارج از اسلام سمجھتا ہوں، وہ تکذیب کرتا ہے نصوص قطعیہ کی، تنقیص کرتا ہے
حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی]
دیکھیے بلا اعتقاد اور اشارۃ، دو تکفیریں آپ نے اور اضافہ کیں‘‘۔ (الموت
الأحمر، ص۳۶)
طالب تحقیق اور ان کے ہم مثل دور حاضر کے بعض لوگوں کو اس دعوی کی مزید وضاحت
کے لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا رسالہ ’وقعات السنان‘ پڑھنی چاہیے، اگر
واقعی طالب تحقیق بن کر پڑھیں گے؛ تو ان شاء اللہ دعوی مع دلیل بالکل روز روشن کی
طرح واضح ہوجائے گااور پھر کبھی اس طرح کے ریمارک کی گنجائش نہیں پائیں گے۔
پھر طالب تحقیق اپنے دوسرے خط میں پوچھتے ہوئے لکھتے ہیں:
[متعین ہونے کی صورت کیا ہے]
یعنی کفر متعین ہونے کی کیا صورت ہوتی ہے کہ اس میں کسی طرح کی تاویل نہیں سنی
جاتی اور اس کا متحمل فقہا و متکلمین، سب کے نزدیک کافر ہوتا ہے، اس استفسار کے
جواب میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’جی یہی جو براہین قاطعہ گنگوہی و تحذیر الناس و خفض الإیمان میں آپ کے پیش
نظر ہے کہ سولہ (۱۶) برس سے زیادہ گزرے، دانتوں پسینے آرہے ہیں، ایڑی چوٹی کے زور
لگائے جارہے ہیں اور کفر نہ ہلتا ہے، نہ ٹلتا، نہ اپنی عبارتوں میں کوئی اسلام کا
پہلو نکلتا، صدق اللہ: فبھت الذي
کفر و اللہ لایھدي القوم الظٰلمین‘‘۔ (الموت الأحمر، ص۳۶‒۳۷)
یعنی سولہ (۱۶) سال گزرنے کے بعد بھی صاحب براہین قاطعہ، تحذیر الناس اور خفض
الإیمان اپنی کفریہ عبارت میں ہزار کوشش کے باوجود، کوئی اسلامی پہلو نہیں
دکھاسکے؛ اس لیے ان کا کفر متعین ہے، آج کے دور میں بھی کچھ لوگ کفر متعین کو لے
کر چیں بجبیں رہتے ہیں، انہیں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کا یہ تبصرہ بنظر
غائر، طلب حق کے لیے پڑھنا چاہیے تاکہ حق پر قائم و دائم رہ سکیں۔
اس کے بعد ’سادس عشر، سابع عشر و ثامن عشر‘ کے تحت اسی تعیین کی مزید وضاحت کی اور طالب
تحقیق کے بعض خلجان کا ازالہ بھی فرمایا اور ’تاسع عشر‘ کے تحت اپنی بصیرت افروز
نگاہوں سے دیکھ کر یہ بھی واضح کردیا کہ یہ طالب تحقیق کوئی دوسرا نہیں بلکہ حقیقت
میں خود اشرف علی تھانوی صاحب ہیں جو طالب تحقیق کا لباس پہن کر سامنے آنے کی
جسارت کر سکے ہیں۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ مندرجہ بالا ساری تفاصیل، تحقیقات و توضیحات
پیش کرنے کے بعد اخیر میں ’عشرین‘ کے تحت آخری حربہ کی صورت میں آپ طالب تحقیق کو
مخاطب کرتے ہوئے، غیرت دلاتے ہوئے ’صراط
مستقیم‘ کے متعلق انصاف کو آواز دیتے ہوئے استفسار کرتے ہیں کہ اس کی عبارت میں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہے یا نہیں، اگر ہے اور متعین
ہے؛ تو آپ اسے کافر قطعی کہیے یا متبین ہے؛ تو بحکم فقہاے کرام کافر کہیے اور اصلا
توہین نہیں؛ تو جو الفاظ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان ارفع میں بکے،
اس سے ہزاروں درجے ہلکے ’کوکبہ شہابیہ، ص۳۳‘ میں ارشاد ہوئے ہیں، امتحان کے لیے،
وہ تمام الفاظ کسی ترمیم کے بغیر صاف صاف اسمٰعیل دہلوی، قاسم نانوتوی اور رشید
احمد گنگوہی کی نسبت آپ خود چھاپئے اور ان مذکورین کے ساتھ اشرف علی تھانوی کے
بارے میں بھی مرتضی حسن وغیرہ کی جانب سے نام بنام چھپوادیجیے، مگر اس میں کسی طرح،
ان کے لکھنے سے انکار یا اعتذار کی بو پیدا نہ ہو، بالکل اسی طرح، جس طرح ’صراط
مستقیم‘ میں محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں نہایت کشادہ پیشانی
سے لکھے گئے، اس کے بعد طالب تحقیق کو جھنجھوڑتے ہوئے اور غیرت ایمانی کو للکارتے
ہوئے فرماتے ہیں:
’’آپ تحقیق طلب ہیں تو کلیجے پر ہاتھ دھر کر دیکھیے، کیا آپ وہ الفاظ ان اشخاص
کی نسبت چھاپنا گوارا کریں گے اور ان کی توہین نہ سمجھیں گے، ضرور ضرور سمجھیں گے،
پھر کیا ایمان ہے کہ چند اَنفار کی نسبت اتنے ہلکے الفاظ توہین ٹھہریں اور ان سے
بدرجہا بدتر الفاظ، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان ارفع میں توہین نہ
قرار پائیں، کیا اسی کا نام اسلام ہے، کیا یہی غلامی سرکار سید الأنام ہے؟!
اللہ قادر مطلق ہدایت دے، تو طالب تحقیق کو صرف اتنی ہی بات حق سمجھادینے کے
لیے کافی ہے کہ دہلوی کے ساتھ اور سارے دیوبندی کہ اس کی وہ کچھ دشنام، شان رسالت
میں سن کر دشنامی کو اپنا امام و پیشوا مان رہے ہیں، کیسے ہیں، لبئس المولی و لبئس العشیر
و اللہ مولٰینا فنعم المولی و نعم النصیر‘‘۔ (الموت الأحمر،
ص۴۰)
حقیت یہی ہے کہ اگر غیرت ایمانی تھوڑی سی بھی باقی ہے؛ تو حق سمجھانے کے لیے
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کی جانب سے جس جانب اشارہ کیا گیا ہے، وہی بس ہے،
مگر شرط ہے کہ دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں طالب تحقیق ہو اور حق
سمجھنے اور قبول کرنے میں کوئی عار سمجھنے والا نہ ہو، ورنہ حق قبول کرنے کی تو
بات دور حق کے قریب بھی نہیں پہونچ سکتا، و اللہ الھادي إلی سواء الصراط ۔
چوں کہ تھانوی صاحب (طالب تحقیق) نے حضور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہ
الرحمۃ و الرضوان کی بعض عبارت میں تناقض دکھانے کی کوشش کی تھی مگر حضور مفتی
اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے دلائل و براہین کے ذریعہ اس تناقض کے بطلان کو روز روشن
کی طرح بالکل واضح کردیا اور تناقض حقیقت
میں کیا ہوتا ہے، اسے سمجھانے کے لیے آپ نے اخیر بحث کے بعد تذئیل میں ایک تا انیس
کے تحت رہنمائی فرمائی کہ تھانوی صاحب کثیر تعداد میں اس کی مثالیں دیکھنی ہو؛ تو
گنگوہی صاحب کے فتاوی دیکھیے، یہاں پر حقیقت تناقض سمجھنے کے لیے گنگوہی صاحب کا
ایک تناقض ذکر کردینا ہی کافی ہے، چنانچہ ایک فتوی میں گنگوہی صاحب نے حضرت شاہ
ولی اللہ صاحب و قاسم نانوتوی کو کفر سے بچالیا؛ کیوں کہ وہاں پر سوال کرنے والے
نے، ان کے نام کی صراحت کردی تھی مگر گنگوہی صاحب نے اپنے دوسرے کثیر فتاوی میں ان
کو اور نیز ان کے اور تھانوی صاحب کے پیر و مرشد جناب حاجی امداد اللہ صاحب کو
کافر و مشرک ٹھہرایا ہے، اور یہی گنگوہی صاحب، نہ فقط گنگوہی صاحب، سب دیوبندیہ،
نہ صرف دیوبندیہ، سب وہابیہ کا اصل مذہب ہے۔ (الموت الأحمر، ص۴۱، ملخصا)
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے بطور مثال جس مسئلہ کے ذریعہ گنگوہی صاحب
کے فتاوی میں تناقض دکھایا ہے، وہ مسئلہ غیر اللہ سے استعانت کے متعلق ہے، مقالہ
پہلے ہی بہت زیادہ طویل ہوچکا ہے، اب اس بحث کو ذکر کرکے میں مقالہ کو مزید طویل
نہیں کرنا چاہتا؛ اس لیے جن کو یہ تناقض نصف
النہار میں سورج کی طرح بالکل واضح دیکھنا ہو، وہ الموت الأحمر ص ۴۱‒۴۶ بغور ملاحظہ فرمائیں۔
اس کے بعد (۲۰) نمبر تذئیل اجل کے تحت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے
اسمٰعیل دہلوی کی دلیل اور مولوی محمود حسن دیوبندی کی عبارت کے پیش نظر واضح
دلائل کی روشنی میں فرمایا کہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام دیوبندی بلکہ سارے
وہابی لاکھوں کرڑوں خداؤں کو پوجتے ہیں اور ان کا خدا جوف دار کھکل ہے، آپ اس
تذئیل کے اخیر میں پوری دیوبندیت و وہابیت کو چیلنج کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہے تھانوی وغیرہ کسی دیوبندی یا وہابی میں دم کہ اس کا جواب لاسکے یا اپنے
کروڑوں خدا میں سے ایک بھی گھٹاسکے، کذلك العذاب و لعذاب الآخرۃ أکبر لو کانوا یعلمون‘‘۔ تفصیل و تحقیق کے لیے ’الموت الأحمر، ص۴۶‒۴۷‘ ملاحظہ کریں۔
اخیر میں آپ نے تھانوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے سکوت اختیار
کیا تو بحمد اللہ حق ظاہر ہوگیا اور اگر جواب دینا چاہیں تو اکابر و اصاغر سب کے
ساتھ مل کر جس نام سے چاہیں جواب دیں مگر آپ کی تصدیق ضرور ہو اور تصدیق نہ سہی تو
کم از کم اتنا ہی لکھ دیں کہ ہم نے دیکھا، البتہ مندرجہ ذیل امور کا لحاظ ضروری
ہے:
(۱)آپ جواب جب چاہیں دیں مگر یہ رسالہ موصول ہوتے ہی اتنا لکھ دیں کہ جواب
مہینے دو مہینے، سال دو سال، اتنے دنوں میں دیا جائے گا یا یہی کہ جواب نہ دیا
جائے گا؛ تاکہ جواب کا انتظار نہ رہے۔
(۲) یہ جواب دوسرے خط کی طرح افتراءات و انکار حسیات کے مثل، مکابرات پر مشتمل
نہ ہو۔
(۳) اسی (۸۰) نمبروں کا الگ الگ جواب دیجیے اور جتنے نمبروں کو حق سمجھیے، ان
کا تسلیم کرنا واضح طور پر لکھ دیجیے ورنہ اگر بعض باتوں پر لب کشائی اور باقی کو
پشت نمائی؛ تو پہلے سے کہ دیتا ہوں، وہ آپ کے تسلیم شدہ ٹھہریں گے اور ان سے اسی
طرح احتجاج کیا جائے گا جیسے آپ صراحۃ لکھ دیتے۔ (ملخصا)
اس کے بعد حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ اپنی اس عبارت سے اس اہم رسالہ کا
اختتام فرماتے ہیں:
’’واللہ یھدي من یشاء
إلی صراط مستقیم و حسبنا اللہ و نعم الوکیل و لا حول و لا قوۃ إلا باللہ العلي العظیم
و صلی اللہ تعالی وسلم و بارك علی ناصرنا و مولیٰنا محمد و آله و صحبه و ابنه و
حزبه أجمعین، آمین و الحمد للہ رب العالمین۔
فقیر مصطفی رضا قادری برکاتی
۸؍صفر المظفر ۱۴۳۷ھ‘‘
(الموت الأحمر، ص۴۷‒۴۸)
اب سوال یہ ہے کہ کیا تھانوی صاحب یا کسی دیوبندی یا وہابی نے اب تک اس رسالہ
کا جواب دیا ہے؟! ناشر مسلک اعلی حضرت، حضرت العلام مولانا مفتی محمد حنیف رضوی صاحب
قبلہ بریلی زید کرمہ کے مطابق، آج تک اشرف علی تھانوی یا کسی دیوبندی یا وہابی نے اس
رسالہ کا کوئی جواب نہیں دیا اور فقیر ازہری کہتا ہے کہ ان میں سے کسی نے نہ اس رسالہ کا جواب دیا تھا، نہ دیا ہے اور نہ
ہی قیامت تک دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اپنی گفتگو
میں ان نامراد دیوبندیوں کی طرح مارے گھٹنا پھوٹے سر کے طور پر استدلال نہیں کیا
ہے بلکہ آپ نے جو بھی دلائل پیش کیے ہیں وہ ٹھوس و مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ، موقع
و محل کے لحاظ سے بالکل مناسب و برمحل ہیں، بہر کیف اس طرح اہل سنت کا پرچمِ حق، حضور
مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے جو لہرایا تھا، وہ آج بھی عوج ثریا پر لہراتا ہوا
نظر آرہا ہے اور ان شاء اللہ تا قیام قیامت، اسی آن بان شان کے ساتھ لہراتا رہے گا،
اللہ تعالی ہمیں صحیح سوجھ بوجھ عطا کرے اور حق دکھاکر، حق پر چلنے کی توفیق رفیق عطا
فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی،
انڈیا
موبائل: 00918318177138، ای میل: amjadiazhari@gmail.com
۱۷؍ربیع الاول ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۲۰۱۹ء
No comments:
Post a Comment