ابتداے اسلام ہی سے بہت ساری اسلام دشمن
طاقتیں کبھی کھل کر اور کبھی چھپ کر اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور مسلمانوں کی
شان وشوکت، جاہ وجلال، طاقت وقوت کو نیست ونابود کرنے کے مختلف طریقے اپنا تی رہی ہیں،
یہ طاقتیں کبھی اس سے غافل نہیں رہیں ۔
اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے دولت وثروت اقتدار وحکومت کا بھی سہارا لیا اور
اپنی قوم کی بہن بیٹیوں کی عزت و آبرو کی نیلامی کا بھی سودا کیا، اس کے لئے انہوں نے
بے پناہ دولت وثروت بھی خرچ کی، اقتدار وحکومت کا لالچ بھی دیا اور اقتدار وحکومت چھینا
بھی ہے ۔ انہوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے جس قدر بھی طریقے اپنائے، ان سب میں کامیاب
رہے لیکن سب سے بڑی کامیابی، انہیں جس طریقے سے ملی وہ طریقہ یہ تھاکہ انہوں نے مسلمان علما اور حکمرانوں کی شکل میں مسلمانوں
کی صف میں کچھ ایسے غلط عناصر داخل کر دیئے جنہوں نے
مسلم ومحقق اور معمول ومقبول عقائد ونظریات میں شکوک وشبہات پیدا کر دیئے اور صاحب
اقتدار بن کر اندر ہی اندر اسلامی اقتدار کی جڑیں کھودیں اور اسلام ومسلمانوں کو زبردست
نقصان پہونچایا، جس کے نتیجے میں اسلامی حکومتیں کمزور ہو کر ختم ہوتی رہیں اور اسلام
میں نئے نئے فرقے پیدا ہوتے رہے ۔
آج امت مسلمہ کے سامنے باطل طاقتوں کی
جانب سے بے شمار چیلنج اور ان گنت فتنے کھڑیں ہیں، ان فتنوں کے
دفاع اور چیلنجوں کے جوابات کے لئے علماے اسلام
اور ائمہ دین متین، اپنی اپنی فکری علمی اور عملی صلاحیتوں کے
مطابق میدان عمل میں سرگرداں ہیں اور قوم کی صحیح رہنمائی فرماکر نیابت نبوی کا حتی
الامکان حق ادا کررہے ہیں، آج کل جن طاغوتی فتنوں نے
کچھ زیادہ ہی ہنگامہ برپاکررکھاہے، ان میں غیر مقلدیت سرفہرست ہے، اس جماعت کاہرفرد
اپنے آ پ کو منصب اجتہاد پر فائز سمجھتاہے اور اکابرین ملت کے خلاف زہر افشانی اور
الزام تراشی کو اپنا واجبی حق تصور کرتاہے بلکہ اسلام و مسلمین پر طعن وتشنیع ہی، اس
جماعت کا محبوب مشغلہ ہے اور نت نئے فتنے گڑھناہی، ان کے نزدیک خدمت قرآن وحدیث ہے
۔
فقہ حنفی اور غیر مقلدین
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی اور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ
وسلم کا ایک معجزہ ہیں، ان کی عبقریت، اجتہادی بصیرت اور اسلام کی بے پایاں خدمات کا
اعتراف شرق وغرب اور شمال وجنوب کا ہر صاحب علم و دیانت کرتا ہے، ہاں جن کے دلوںمیں
کجی اور عقلوں کو روگ لگا ہوا ہے، وہ ضرور ان پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کر کرہے ہیں، اور ان کی وقیع
وگراں قدر خدمات پر رکیک اور بے جا حملہ کرکے اپنی بدگمرہی کا مظاہرہ کرتے ہیں، عصر
حاضر میں انہیں ناکام کوشش کرنے والوں میں غیر مقلدین، نام نہاد اہل حدیث بھی ہیں،
جو امام اعظم پر طعن وتشنیع اور سب و شتم کی
بوچھار کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں، ان حضرات کو جس طرح حضرت امام اعظم سے بغض وعناد
ہے، ایسے ہی فقہ حنفی سے عداوت بھی آسمان چھو رہی ہے، ان کے چھوٹے بڑے سب اس حمام
میں ننگے نظر آتے ہیں، اور وقتا فوقتا اپنی مجرمانہ ذہنیت کا اظہار کرتے رہتے ہیں،
اور یہ تو ان کے ہر فرد کی زبان زد ہے کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کے خلاف ہے، بعض تو
اتنی غلیظ اورگھنونی زبان استعمال کرتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آجاتاہے، اور آدمی بے
اختیار ہو جاتا ہے ۔ بطورنمونہ صرف دو غیر مقلد کی تحریر پیش کرتاہوں، جس سے ان شریفوں
کی تہذیب وشرافت کا پتہ چل جائے گا۔
جماعت غربا اہل حدیث کے سابق امام مولوی
عبدالستار صاحب اپنے والد مولوی عبدالوہاب کے متعلق لکھتے ہیں: ’’فرمایاکہ کتب فقہ
مروجہ شریعت اسلام کے بالکل منافی ہے کتاب وسنت کے ہوتے ہوئے ان پر عمل کرنا محض گمراہی
اور حرام ہے ۔ بھلا اکل حلال کے ہوتے ہوئے خنزیر کاکھاناکب رواہے‘‘۔(خطبہ امارت، ص۱۳)
اور مولوی مستقیم نے فقہ حنفی کے متعلق
یہ زہر افشانی کی ہے ؎
مقصود ہے کہ ماہ رخوں کا وصال ہو
مذہب وہ چاہئے کہ زنا بھی حلال ہو
یہ ہے غیر مقلدوں کی فقہ حنفی کے خلاف ہرزہ سرائی اور بکواس کاایک نمونہ،
اب اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان حضرات میں کتنی صداقت وشرافت اور سنجیدگی
پائی جاتی ہے؟! آپ بتائے کس حنفی نے معاذاللہ رب العالمین زنا کو حلا ل وجائز کہاہے؟؟!!
آخر اس افترا اور کذب بیانی سے مولوی مستقیم اپنی جماعت سے کونسا انعام حاصل کرناچاہتے
ہیں؟! میری عقل حیران ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کو اپنی
جماعت کا مقتداے اعظم سمجھتے ہیں اور دوسری طرف ان کے پسندیدہ اور محبوب مسلک حنفی
کو خنزیر کھانے سے تعبیر کرتے ہیں !! أستغفر اللہ۔
اب یہ معمہ غیر مقلدین حل کریں کہ حضرت
شاہ صاحب کو جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حالت کشف میں یہ بتایا کہ
فقہ حنفی ہی قرآن و حدیث کے معیار پر مکمل اترتی ہے اور شاہ صاحب زندگی پھر اسی فقہ
حنفی پر عمل پیرا رہے؛ تو کیا شاہ صاحب اکل حلال چھوڑ کر زندگی پھر خنزیر کھاتے رہے؟!!
اور بقول مستقیم اس مسلک پر چلتے رہے جس میں زنا حلال ہے؟! اور پھر شاہ صاحب کی کیا
تخصیص، بارہ سو سال سے تمام مؤمنین علما و صلحا، اولیا جو بھی حنفی تھے، کیاسب خنزیر
کھاتے رہے اور اس مذہب پر چلتے رہے جس میں زناحلال ہے!!؟؟
انصاف کوآواز دو انصاف کہاں ہے؟!
زناکی اجازت کس نے دی؟
حضرات ابھی آپنے ملاحظہ کیا کہ مولوی
مستقیم نے احناف پر یہ شرمناک الزام لگایا کہ ان کے مذہب میں زنا بھی حلال ہے، جب یہ بات آگئی
ہے تو ضروری ہے کہ ان کذابوں کا اصلی چہرہ آپ کے سامنے کردیا جائے تاکہ غیروں پر بہتان
ترازی کرنے والوں کو اپنی بھی بدصورتی کا کچھ احساس ہو، تو لیجئے ملاحظہ کیجیئے نورالحسن
بھوپالی غیر مقلد نے لکھا: ’’ہر کہ مکروہ باشد بر زنا، او را زنا جائز است، و حد غیر واجب، چہ احکام شرعیہ مقیدباختیار است‘‘۔ جو شخص
زناپر مجبور کیاجائے اس کو زنا کرنا جائز ہے، اس پر حد واجب نہیں ہے؛ کیوں کہ احکام
شرعیہ اختیار سے مقید ہیں۔(الوہابیت بحوالہ عرف الحاوی، ص ۲۱۵)
ناظرین اب بتائیں زنا کی اجازت کس نے دی،
علماے احناف نے یا غیر مقلدین نے اور اس شیطانی تعلیم کی اشاعت حنفی کررہے ہیں یا غیر
مقلدین، تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اپنے مذہب کے مسائل کو احناف پر تھوپ تھاپ
کر قوم کی آنکھوںمیں دھول جھونک رہے ہو اور خود عامل بالحدیث ہو نے کا پرچار کررہے
ہو ؎
حسن کا اپنے کچھ احساس نہیں ہے تم کو
آئینہ سامنے
رکھ دوں تو پسینہ آجائے
غیر مقلدیت
اسماعیل دہلوی کے متبع وفرمانبردار بعض
علماے وہابیت عدم تقلید ،رفع یدین اور آمین بالجہر کے نظریہ پر قائم رہے، ان میں خاص
نام عبدالحق بنارسی ،میاں نذیر حسین دہلوی، نواب صدیق حسن بھوپالی، ڈپٹی نذیر احمد
دہلوی کا ہے۔ پھر مولوی ثناء اللہ امرتسری ، مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ نے تحریک
غیر مقلدیت کو آگے بڑھایا۔
عبدالحق بنارسی ،سیداحمد رائے بریلوی،
اسماعیل دہلوی کے حلقہ بگوش تھے مگر کچھ ناشائستہ حرکتوں کی وجہ نکال دیئے گئے تھے
اور بنارس آکر انکار تقلید کے فتنے کو اس کے علاقہ میں پھیلایا۔
میاں نذیر حسین دہلوی کے استاذ اور خسر
مولانا عبدالخالق صاحب لکھتے ہیں :’’سو بانی مبانی اس طریق احداث (غیر مقلدیت) کا عبدالحق
ہے، جو چند روز سے بنارس میں رہتاہے‘‘ بقول قاری عبدالرحمن پانی پتی شاگرد شاہ اسحاق
دہلوی، مولوی عبدالحق صاحب بنارسی نے ہزارہا آدمی کو عمل بالحدیث کے پردہ میں قید
مذہب (تقلید حنفیت) سے نکالا اور مولوی صاحب نے ہمارے سامنے کہا کہ عائشہ حضرت علی
سے لڑ کر مرتد ہوئیں، اگر بے توبہ مریں؛ تو کافر مریں اور صحابہ کو پانچ پانچ حدیثیں
یادتھیں، ہم کو سب کی حدیثیں یاد تھیں، صحابہ سے ہمارا علم بڑا ہے، صحابہ کو علم کم
تھا ‘‘۔ (تعارف علماے اہل حدیث از مولوی نعیم الدین دیوبندی لاہور ص ۲۴-۲۷)
میاں نذیر حسین دہلوی مونگیری بہار کے
رہنے والے تھے، سنہ بارہ سو بیس ہجری ،اٹھارہ سو پانچ عیسوی میں سورج گڑھ گاؤں میں
پیدا ہوئے اور ۱۳۲۰ھ ، ۱۹۰۲ء میں دہلی میں فوت ہوئے۔غیر مقلدین
کے شیخ الکل فی الکل ہیں، انگریز گورمنٹ سے شمس الائمہ کا خطاب ملا تھا ، تقلید کے
خلاف ’’معیارالحق‘‘نامی کتاب لکھی جس میں انگریزوں کے خلاف جہاد کو ناجائز قرار دیا
۔
دہلی میں غیر مقلدیت کو منظم تحریک کی
شکل میں چلانے والے اور انکار تقلید کو فروغ دینے والے سب سے پہلے غیر مقلد یہی ہیں
۔ دلی میں مولوی نذیر حسین سورج گڑھی مونگیری نے دور حدیث کے بہانے اپنے گرد طلبا کی
بھیڑ اکٹھا کرلی، اپنے اسباق میں وہ وہابیت کے ساتھ غیر مقلدیت کا زہر بھی گھول کر
پلایا کرتے تھے ۔
چوں کہ دلی اس عہد میں اہم علما کا مرکز
تھا، بکثرت مدارس تھے، جن میں منتخب روزگار علما درس دیا کرتے تھے اس لئے پورے ہندوستان
سے تحصیل علم کا شوق رکھنے والے دلی پہنچتے تھے، مگر کسی مدرسہ میں صرف حدیث پڑھانے
کا التزام نہ تھا، میاں نذیر حسین صاحب نے صرف حدیث پڑھانے کا شغل شروع کیا، احادیث
کی کشش طلبا کو ان کے یہاں پہنچادیتی تھی، جس وہ فائدہ اٹھاکر وہابیت اور غیر مقلدیت
کی خفیہ طور پر تعلیم دیتے رہتے، جس کے نتیجہ میں بہت سے سنی حنفی گھرانوں کے بچے میاں
نذیر حسین کی مذکورہ تعلیم کے اثر سے وہابی غیر مقلد ہو گئے ۔ مگر یہ کام خفیۃ ہوتا
تھا، اس کا اثر فوری طور پر عوام تک نہ پہنچا، جب میاں نذیر کے غیر مقلد مولوی اپنے
اپنے وطن گئے یا اپنے اپنے دوسرے ٹھکانوں پر گئے؛ تو انہوں نے وہابیت غیر مقلدیت پھیلانی
شروع کی، جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں غیر مقلدیت کا زہر پھیل گیا
۔غیر مقلدیت کے کئی مدرسہ قائم ہوگئے۔(تحقیقات، ج۲ ص۴-۵)
انڈیا میں غیر مقلدیت کاایڈمیشن اور اسماعیل دہلوی
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ بر صغیر میں
تیرہویں صدی ہجری میں کس نے کس کی سازش سے کس کی فکر سے متاثر ہو کر کس مقصد سے وہابیت
کو درآمد کیا اور پھیلایا، یہ سب نہایت اہم سوالات ہیں، تاریخی حقائق سے ثابت ہیں
کہ برصغیر میں وہابیت کابانی اسماعیل دہلوی ہے، جس نے انگریزی سازش سے اپنے آبائی
سنی حنفی احکام و نظریات کو چھوڑ کر اور محمد بن عبدالواہاب نجدی سے متاثر ہوکر وہابیت
کو قبول کیا اور ہندوستان میں پھیلایا اور اس کا مقصد جاہ طلبی اور وجاہت وشہرت حاصل
کرنا تھا۔
جانب دار اور غیر جانب دار اپنے اور غیر
سبھی مؤرخین ومحققین اور اہل قلم اس بات کے قائل ہیں کہ اسماعیل دہلوی محمد بن عبدالوہاب
نجدی کے وہابیانہ افکار ونظریات سے متاثر تھا ، اور شیخ نجدی کی کتاب التوحید اور وہابی
رسالہ رد الاشراک میں مندرج افکار ونظریات کو کچھ اضافوں کے ساتھ تقویت الایمان کے
نام سے اردو میں پیش کیا جسے انگریزوں نے چھپواکر خوب تقسیم کروایا، اس طرح اسماعیل
دہلوی کی کتاب تقویت الایمان کے ذریعہ ہندوستان میں وہابی تحریک کا آغاز ہوا ۔
غیر مقلد عالم نواب وحیدالزماں حیدرآبادی
لکھتا ہے: ’’وہ شیخ عبدالوہاب ہیں، جنہوں نے ان امور (مکروہ حرام) کو شرک قرار دیا
اور مولا نا اسماعیل نے تقویت الایمان میں اکثر امور میں اس کی پیروی کی ہے‘‘۔ (ہدیۃ
المہدی ج،ص۲۶)
شاہ ابوالحسن زید فاروقی دہلوی لکھتاہے:
’’میں نے تقویت الایمان کامطالعہ بلا ادنی تعصب اور اعتساف کے کیا اور افسوس ہوا کہ
مولانا اسماعیل کیا لکھ گئے ہیں، چوں کہ مولانا اسماعیل کے تبصرہ نگار ان کی جلالت
علم پر متفق ہیں؛ لہذا یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کو یہی منظور تھا، ہندوستان میں
مسلمانوں کی یک جہتی اور یک مذہبی تمام (ختم) ہوئی، اور نو سو سالہ اسلامی مملکت کا
خاتمہ ہوا، چناچہ تیس سال کی مدت میں صد ہا سال کی تمام نعمت ہاتھ سے نکل گئی۔
مجھ کو تقویت الایمان میں وہابیت کے اثرات
نظر آئے؛ لہذا میں نے مختصر طور پر محمد بن عبدالواہاب کے حالات کا مطالعہ کیا اور
ان کے رسالہ رد الاشراک کا دقیق نظر سے مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اسماعیل
نے جو کچھ اس رسالہ میں لکھا ہے، نجدی رسالہ رد الاشراک سے لیاہے‘‘۔ (ابتدائیہ کتاب
مولانا اسماعیل دہلوی اور تقویت الایمان ص
۱۳-۱۴)
اسماعیل دہلوی کے عقائد ونظریات
(۱)اللہ ایسی باؤ (ہوا) بھیجے گا کہ سب اچھے
بندے کہ جن کے دل میں تھوڑا سا بھی ایمان ہوگا مرجائیں گے اور وہی لوگ رہ جائیں گے
جن میں کچھ بھلائی نہیں (یہ حدیث کا ترجمہ ہے اسماعیل نے ترجمہ کرنے کے بعد ف لکھ کر
آگے لکھاہے) سو پیغمبر خدا کے فرمانے کے موافق ہوا، یعنی بھیج چکا اللہ ایسی باؤ
(ہوا) جس سے وہ سب اچھے بندے جن کے دل میں تھوڑا سا بھی ایمان تھا، مر گئے اور اب کوئی
مسلمان باقی نہ رہا۔ (تقویت الایمان، ص۴۵)
(۲) اللہ تعالیٰ کو غیب کا علم ہمیشہ
نہیں رہتا بلکہ جب چاہتاہے غیب کی بات دریافت کر لیتاہے۔ (ص۷۲)
(۳) اپنی اولاد کا نام عبدالنبی، عبد
الرسول، علی بخش، نبی بخش، غلام محی الدین، غلام معین الدین رکھنا شرک ہے۔ (ص ۸)
(۴) سب انبیا، اولیا، اللہ کے سامنے
ایک ذرہ ناچیز سے بھی کمتر ہیں۔ (۷۲)
(۵) رسول اللہ کو ( غیب کی) کیا خبر ؟ (ص ۷۵)
(۶) رسول خدا مر کر مٹی میں مل گئے ہیں۔
(ص ۷۹)
(۷) خداے تعالیٰ جھوٹ بول سکتاہے۔ (رسالہ
یک روزی،ص۱۴۵)
(۸) رسول خدا کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
(تقویت الایمان ص۷۵)
(۹) جس کا نام محمد یا علی ہے، وہ کسی
چیز کا مختار نہیں۔ (ص ۵۲)
(۱۰) رسول اللہ کا خیال نماز میں لانا،
اپنے بیل اور گدھے کے خیال میں ڈوب جانے سے بدرجہا بدتر ہے۔ (صراط مستقیم، ص ۹۷)
(۱۱) اللہ کے سوا کسی کو نہ مان۔ ( تقویت
الایمان، ص۴۳)
(۱۲) اولیا، و انبیا، و امام زادہ، پیر
و شہید یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں، وہ انسان ہی ہیں اور بندے عاجز اور ہمارے
بھائی، مگر اللہ نے ان کو بڑائی دی وہ بڑے بھائی ہوئے۔ (تقویت الایمان، ص۷۸)
(۱۳) ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا (نبی ہو
یا ولی ) وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔ ( تقویت الایمان، ص۱۹)
مذہب حق اور غیر مقلدین
اب ہم مذہب اہل سنت او ر غیر مقلدین کے
تعلق سے کچھ تحریر کرتے ہیں، چنانچہ غیر مقلد مولوی اپنی کتاب تقلید شخصی میں لکھتاہے
:’’اسلامی لبادے میں جتنے مذاہب ہند وپاک کی سر زمین میں وجود پذیر ہوئے، ان میں رضا
خانیت اپنی مضحکہ خیز ، حیرت انگیز اور ندرت آمیز قوانین کی بنا پر آج شہرت ومقبولیت
کے بام عروج پر ہے ۔(تقلید شخصی، ص۱۷)
آج پچاس سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا
ہے کہ پوری وہابی برادری بڑی شد و مد سے عقائد اہل سنت اور علماے حق پر نہایت رقیق
حملہ کرکے بدنام کرنے کی ناکام کوشش میں لگی ہوئی ہے اور جو عقائد اور اعمال حضور نبی
کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر آج تک جملہ اہل اسلام
کے نزدیک مسلم رہے ہیں اور جن کی اشاعت ہند وپاک میں علماے بریلی (علماے اہل سنت) کرتے
آرہے ہیں، ان کو یہ وہابی قرآن و حدیث کے خلاف بتاتے ہیں اور امت مسلمہ کو علماے
اہل سنت سے متنفر کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناکر گمراہی پھیلا رہے ہیں ۔
علماے اہل سنت نے ان حضرات کی من گڑھت اور لایعنی
باتوں کا سیکڑوں مرتبہ دنداں شکن جواب دیا اور چیلنج بھی کیا کہ ہمارے جو عقائد صحابہ
کرام، ائمہ اسلام اور اولیاے عظام کے عقائد سے الگ ہوں، ان کا ثبوت پیش کرو، مگر ان
بے ایمانوں سے آج تک ان کا کوئی جواب نہ بن بڑا، البتہ کھسیانی بلی کھنبا نوچے کے
بموجب بار بار، انہیں بے بنیاد افتراءات کو چھاپ چھاپ کر، اپنی خباثت باطنی کا مظاہرہ
کرتے رہتے ہیں، چناچہ تقلید شخصی کا مصنف نے بھی اپنے سرغنوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
مذکورہ بالا تحریر میں یہی غلط تاثر دینا چاہتاہے کہ رضا خانیت ایک نیا فرقہ ہے جس
کے بانی مولانا احمد رضا بریلوی ہیں، انہیں کی طرف منسوب کرکے اس فرقہ کو رضا خانیت
اور بریلویت سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔مگرمیں مصنف موصوف کو بڑے کھلے لفظوں میں
سنادینا چاہتا ہوں کہ ؎
ہم وہ نہیں جسے ناداں لوگ بگاڑ سکیں
کدھر خیال
ہے اتنی تری مجال نہیں
اب ہم دلائل وشواہد کی روشنی میں مکمل
اعتماد اور یقین سے کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کی مذکورہ تحریر دجل وفریب کی ایک ایسی
پوٹلی ہے، جو اسلام ومسلمین کے درمیان افتراق و انتشار پھیلانے والے زہریلی جراثیم
سے بھری ہوئی ہے، اگر کوئی امام احمد رضا قدس سرہ کی تمام تحریرات و تعلیمات کو علم
و انصاف و دیانت داری کی نظر سے مطالعہ کرے؛ تو یہ امر مثل آفتاب واضح ہو جائے گا
کہ ان کی تحریر کتاب و سنت و اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان ہے اور سلف صالحین و ائمہ
مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اہل سنت کی مکمل تعبیر ہے، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک
لمحہ کے لئے بھی صحابہ کرام اور اسلاف عظام کے طریقے سے نہیں ہٹتے اور نہ ہی کوئی نیا
عقیدہ اور مذہب ایجاد کیا، ان کے وہی عقائد ہیں جو صحابہ کرام سے متواتر آج تک سواد
اعظم اہل سنت وجماعت کے عقائد ہیں۔
وہابیوں کا یہ کھلا ہوا فراڈ اور جھوٹ
ہے کہ بریلی ایک نیا فرقہ ہے، ان کے اس افترا اور بہتان پر لعنۃ اللہ علی الکاذبین
ہی کافی ہے مگر ہم جناب مصنف کی غیر مقلدیت کا فتنہ اتارنے کے لئے ایک غیر مقلد ہی
کا بتایا نسخہ پیش کررہے ہیں، ممکن ہے اپنے ہمزاد کا تیار کردہ نسخہ آنجناب کو راس
آجائے، بریلوی حضرات کے متعلق احسان الہی ظہیر غیر مقلد نے لکھا : ’’یہ جماعت اپنی
پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار و عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے‘‘۔ (البریلویۃ،
ص۷)
اسی طرح ایک غیر مقلد مولوی ثناء اللہ
امرتسری نے اسی حقیقت کااظہار کرتے ہوئے لکھا:
’’امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم (ہندا سکھ
وغیرہ)کے مساوی ہے اسی (۸۰) سال
قبل سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتاہے‘‘۔ (شمع توحید، ص۴۰)
اور شیخ محمد اکرام نے لکھا ہے:
’’’انہوں (امام احمد رضا) نے نہایت ہی
شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی‘‘۔ (موج کوثر، ص ۷۰)
اور اب ہم ایک بہت بڑے غیر مقلد اور دیوبندی
بزرگ کی تحقیق پیش کر رہے ہیں، شاید دیوبندیت و غیر مقلدیت کے اس مجمع البحرین کی بات
وہابی برادری مان لے، تو لیجئے موصوف سلیمان ندوی کی تحریر ملاحظہ کیجئے، آپ لکھتے
ہیں:
’’تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی
روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ بریلی
اور بدایوں کے علماء تھے‘‘۔(حیات شبلی، ص ۴۶)
حضرات! ان تمام اقتسابات سے یہ حقیقت کھل
کر اجاگر ہوجاتی ہے کہ بریلوی حضرات کے عقائد نئے نہیں، قدیم ہیں اور وہی در حقیقت
اہل سنت و جماعت ہیں، ان حقائق کی روشنی میں اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت
کانام لے کر مخالفت کرنے والے در اصل ان ہی عقائد و افکار کونشانہ بنا رہے ہیں جو زمانہ
قدیم سے اہل سنت سے چلے آرہے ہیں ۔مولوی مستقیم سنو! اہل حدیث کے شیخ الاسلام تو یہ
لکھ رہے ہیں کہ اَسّی سال قبل سب مسلمان بریلوی حنفی خیال کے تھے اور تم غیر مقلدوں
کے ہی ایک قصہ گو مولوی ظہیر یہ لکھ رہے ہیں کہ ان کے عقائد و افکار قدیم ہیں اور خود
تم یہ لکھ رہے ہو کہ بریلوی حضرات نے نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے، تو تم دونوں میں کون
جھوٹا، کذاب،مفتری اور دھوکے باز ہے ؟؟ اور کو ن سچا ہے؟ اس کا فیصلہ خود کرلو! ؎
دور کرلو تم اپنی غلط فہمیاں
دیکھ لو سامنے سب کی تصویر ہے
تراویح اور غیر مقلدین
غیر مقلدین نے بے شمار مسائل میں پوری
دنیا ے اسلام سے ہٹ کر الگ راہ اختیار کی ہے، ان میں مسئلہ تراویح بھی ہے ۔ تراویح
کی رکعتوں کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک تمام
امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کی کل بیس رکعتیں ہیں، رسول کریم کے زمانہ سے
لے کر آج تک غیر مقلدوں کی ایک معمولی تعداد کے علاوہ کسی کا اس میں کوئی اختلاف نہیں
ہے، چناچہ علامہ ابن نجیم مصری بیس رکعت تراویح پر دلائل پیش کرنے کے بعد تحریر فرماتے
ہیں : ’’وعلیه عمل الناس
شرقا وغربا‘‘ بیس رکعت تراویح پر مشرق ومغرب، ساری دنیاکے لوگوں
کا عمل ہے۔ (البحر الرائق، ج۲
ص۶۶)
اسی طرح علامہ ابن عابدین شامی قدس سرہ
لکھتے ہیں : ’’وهی
عشرون رکعة وهو قول الجمهور وعلیه عمل الناس شرقا وغربا‘‘ تراویح
بیس رکعت ہے، یہی جمہور کاقول ہے، اسی پر پوری دنیاکے مسلمانوں کا عمل ہے ۔(ردالمحتار،
ج۲ ص
۴۵)
حضرت فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی
مد ظلہ العالی نے اپنی مشہور تصنیف اور علمی شاہکار غیر مقلدوں کے فریب میں اس مسئلہ
پر حدیث پاک اور علماے کرام کے اقوال کو پیش کرکے یہ ثابت فرمایا ہے کہ تراویح بیس
رکعت ہی ہے، آٹھ رکعت بتانا دین میں ایک فتنہ پیدا کرنا اور امت مسلمہ کو گمراہ کرناہے،
بس پھر کیا تھا پوری غیر مقلد برادری نے جامہ سے باہر ہو کر ننگا ناچ دکھانا شروع کر
دیا اور غیظ وغضب میں ڈوب کر تیرکمان سنبھال لیا، جوش میں ہوش کھو کر نماز تہجد سے
متعلق مروی حدیث کو جلدی جلدی لکھ ڈالا اور بزعم خویش میدان فتح کرکے بد مست شرابی
کی طرح قلم نچاکریہ بازی گری دکھائی:
’’یہ بے چارے حنفی بریلوی دوڑ دوڑ کر ہر مسئلہ
کی جھوٹی و ضعیف و موضوع روایتوں سے اپنی جھولی بھر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس زمانہ
میں قرآن و حدیث کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا خالہ نانی کا گھر نہیں‘‘۔ (تقلید شخصی،
ص۶۶)
مولوی صاحب اسی کو کہتے ہیں الٹا چور کوتوال
کو ڈانٹے، ضعیف و موضوع روایتوں کا سہارا خود لو اور آنکھ دکھاؤ، اگر ذرہ برابر دل
میں ایمان ہو اور حق و صداقت کی رمق موجود ہو؛ تو بتاؤ بیس رکعت تراویح سے متعلق احناف
جو حدیثیں پیش کرتے ہیں، ان میں کوون حدیث ضعیف موضوع اور جھوٹی ہے اور اگر نہ بتا
سکے اور میرا چیلنج ہے کہ ساری وہابی، نجدی اور غیر مقلد مرتے مرتے مر جائیں گے، گل
اور سڑ جائیں گے مگر ان حدیثوں کو موضوع اورجھوٹی نہیں ثابت کر سکتے ۔ تو ان کذابوں
سے کہو اپنی ذلیل وشرمناک حرکتوں سے باز آجائیں۔حضرات مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ اگر
میں بیسوں حدیثیں اور بچاسوں ائمہ اسلام کے ارشادات، بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں پیش
کردوں؛ تو یہ نجدی ہٹ دھرم اور فتنہ انگیز اسے مان لینے پر آمادہ ہو جائیں گے اور
حق کی طرف رجوع کر لیں گے، البتہ بھولے بھالے مسلمانوں سے یہ قوی امید ہے کہ وہ ان
درندوں کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے اور حق و صداقت کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہیں
گے؛ اس لئے بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں چند احادیث کریمہ پیش کرتاہوں:
(۱)عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماأن
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بیس رکعت اور وتر
پڑھا کرتے تھے۔ (بیہقی، ج۲ص۴۹۶،
مصنف ابن ابی شیبہ، ج۲ص۲۹۴)
(۲)عن الحسن أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
جمع الناس علی أبي ابن کعب فکان یصليلہم عشرین رکعۃ۔
حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب پر اکٹھا کردیا توآپ لوگوں کو بیس
رکعت پڑھاتے تھے۔ (ابو داؤد، ج۱
ص۲۰۲)
(۳)عن یزید بن رومان أنہ قال
کان الناس یقومون في زمان عمر بن خطاب في رمضان بثلث وعشرین رکعۃ۔
حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ
حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں رمضان میں تیئس رکعت پڑھا کرتے تھے، بیس تراویح، تین وتر۔
(مؤطا امام الک، ص۹۸)
مذکورہ تمام تحریروں سے یہ بات روز روشن
کی طرح ظاہر وباہر ہوگئی کہ غیر مقلدوں کے افکار وعقائد کیا ہیں، تفصیل میں نہ جاکر
میں نے اجمالا ہی غیر مقلدوں کے افکار وعقائد کاتنقیدی جائزہ لیاہے۔
مسئلہ طلاق ثلاثہ اور غیر مقلدین
غیر مقلدین اپنی نفس پرستی کی بنا پر آج
کل بڑے زور وشور سے اپنا یہ باطل نظریہ پھیلا کر امت مسلمہ میں اختلاف اور پھوٹ ڈالتے
پھر رہے ہیں کہ ایک مجلس میں اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں؛ تو اس پر
تین طلاق نہیں پڑے گی بلکہ صرف ایک ہی طلاق پڑے گی۔
صاحب تصانیف کثیرہ حضور مفتی جلال الدین
احمد امجدی دامت برکاتہم نے غیر مقلدوں کے اس فاسد نظریہ کی تردید کرتے ہوئے، ان کے
مکر وفریب کا پردہ چاک کرکے، ان پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ پوری برادری بلبلا اٹھی
ہے اور بد حواسی کے عالم میں اوٹ پٹانگ اور گالی گلوج پر پر اتر کر، اپنی خفت اور شرمندگی
مٹانے میں لگ گئی ۔ چنانچہ اس میدان میں اپنی جہالت و حماقت کا مزید اور نمونہ پیش
کردیا ہے، اس کے انداز تحریر سے ہی اصل حقیقت کا پتہ چلتاہے مگر اس وقت ہمیں اس سے
بحث نہیں ہے بلکہ طلاق جیسے اہم مسئلہ پر ان شریفوں کی مہربانی کو بتانا ہے اور ان
کے مکر وفریب کو واضح کرناہے ۔اس نے اپنے نظریہ کی تائید میں دو روایتیں پیش کی ہیں،
اس کے بعد بطور حاصل کلام لکھا:
ثابت ہوا کہ طلاق کے معاملہ میں شرعی حکم
یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق، ایک ہی مانی جائیں گی، اسی پر تمام صحابہ کا عمل
تھا لیکن مفتی صاحب نے ایک ہی کفریہ ڈنڈے سے سب کو ہانک کر اللہ ورسول سب سے دشمنی
لے لی۔ (تقلیدشخصی،ص۵۰)
حضرات جن دو روایتوں کو غیر مقلدین پیش
کرتے ہیں، وہ دونوں چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہیں؛
اس لئے مناسب یہ ہے کہ اس مسئلہ سے متعلق پہلے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما
کا فتوی اور ان کا عمل پیش کر دیا جائے، پھر ان روایتوں سے متعلق گفتگو ہو:
فتوی: حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور
عرض کیا: إنه طلق امرته
ثلاثا، اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے ۔تو حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہما خاموش رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ یہ اس سے رجعت کاحکم
دیں گے مگر کچھ دیر بعد فرمایا، تم میں کا کوئی حماقت کر بیٹھتاہے ،پھر کہتاہے اے ابن
عباس! اے ابن عباس! جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ((ومن
یتق اللہ یجعل لہ مخرجا)) جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ
عزوجل اس کے لئے گنجائش کی راہ نکالتاہے ۔اور تم تو اللہ عزوجل سے ڈرے نہیں، تو میں
تمہارے لئے کوئی گنجائش کی راہ نہیں پاتا، وعصیت ربك و بانت منك امرأتك۔ تو
نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تیرے نکاح سے نکل گئی۔ (سنن أبی داؤد، ج۱ص۲۹۹)
حضرت مجاہد کے علاوہ حضرت سعید بن جبیر،
حضرت عطا، حجرت مالک بن حارث،حضرت عمر بن دینار رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی حضرت ابن
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہی فتوی ذکرکیاہے۔
چنانچہ حضرت ابوداؤد آگے فرماتے ہیں:’’روي
ہذا الحدیث حمید الأعرج وغیرہ عن مجاہد وعن سعید بن جبیر وعن عطاء وعن مالک بن
حارث وعن عمر بن دینار عن ابن عباس کلہم قالوا في الطلاق الثلاث إنہ أجازھا وبانت
منک‘‘۔
اس حدیث کو حمید اعرج وغیرہ نے مجاہد،
سعید بن جبیر، عطا، مالک بن حارث اور عمر بن دینار سے روایت کیاہے کہ یہ سب حضرات بیان
فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے سائل کے تینوں طلاق کو نافذکردیا اور فرمایا: تیری
عورت نکاح سے نکل گئی۔ (سنن أبی داؤد، ج۱ص۲۹۹)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے
مذکورہ فتوی سے یہ مسئلہ مثل آفتاب روشن ہے کہ ان کے نزدیک بیک وقت تین طلاقیں دینے
سے تینوں طلاقیں پڑ جاتی ہیں اور بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہما کی جن دو روایتوں کو لے کر غیر مقلدین واویلا مچارہے ہیں، اگر وہ قابل
عمل اور معتبر ہوں؛ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما
نے خود بھی حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف فتوی دیا اور لوگوں
کو خلاف حدیث عمل کرنے کی رہنمائی فرمائی۔ (معاذ اللہ رب العالمین) حالانکہ صحابہ کرام
میں سے کسی بھی صحابہ سے یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم
کی کوئی حدیث روایت کریں ور پھر اس کے خلاف فتوی دیں، یہ کالا دھندا تو صرف گندم نما
جو فروش ساہو کار غیر مقلدوں کے یہاں ہوتا ہے کہ خود کو سب سے بڑ ا موحد او ر عامل
بالحدیث کی دفلی بجابجا کر پرچار کرتے ہیں، سخت حیرت ہے کہ آخر ان خبیثوں کی عقل کو
کیا ہوگیا ہے کہ اتنی صریح اور واضح حدیثیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں اور اس
پر طرہ یہ کہ انہیں کی جانب سے حدیث پر عمل کرنے کاڈنکا پیٹا جارہاہے ؎
اس ذوق بے بسی میں بشر کا یہ حال ہے
کیا جانے کیا کرے
جو خدا اختیار دے
حضرات! ذرا آپ ان عقل کے مفلسوں سے پوچھیں
کہ حضرت ابن عباس کی جو روایت آپ لوگ لئے پھر رہے ہیں اگر وہ صحیح مستند ومعتبر ہے؛
تو حضرت ابن عباس نے اس کے خلاف کیسے فتوی دیا!؟؟
صرف وہی ایک جلیل القدر صحابی نہیں بلکہ حضرت عبداللہ
بن مسعود اور دیگر صحابہ نے بھی وہی فتوی دیا جو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے
دیا تھا، یہاں تک کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے اس فتوی کو قانونی شکل دے دی اور تمام صحابہ نے اسی کو تسلیم کیا، تو
کیا سارے صحابہ نے مل کر حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت
کی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے مسئلہ کے خلاف علم بغاوت
بلند کردیا اور چودہ سو سال سے اسی حکم کو تمام مسلمان حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی
سب مل کر بیان کرتے رہے، صرف غیر مقلدوں کو ہی صحیح بات سمجھ میں آئی اور یوں وہ عامل
بالحدیث ہوگئے!
مسلمانوں! اب فیصلہ کرو کہ جو قوم صحابہ
کرام پر ناپاک الزام لگا سکتی ہے کہ انہوں نے حدیث کی مخالفت کی اور ایک دو نہیں بلکہ
سب نے مل کر کی؛ تو ایسی ذلیل قوم سے کیا کیا گھناؤنے کارنامے انجام پاجائیں، کچھ
کہا نہیں جاسکتا۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و
خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138
نوٹ: (یہ مضمون جامعہ امجدیہ
رضویہ، گھوسی میں تعلیم کے دوران (2000-2002) ایک مسابقتی پروگرام میں صدیق محترم مولانا سراج
احمد امجدی زید علمہ، پلیا، مؤ کی نگرانی میں لکھا گیا تھا، یہ میری زندگی کا پہلا
مقالہ کیا بلکہ نقالہ تھا، اس نقالہ کے انعام میں مجھے ایک پتلا رسالہ استاذ گرامی
وقار حضرت مولانا صدر الوری مصباحی دام ظلہ کے ہاتھوں ملا تھا، اس وقت آپ نے مجھ
سے فرمایا تھا: انعام میں پتلا رسالہ ملنے کی وجہ سے مایوس نہ ہونا، ان شاء اللہ
آئندہ بہتری آئے گی، اس نقالہ کو لکھنے میں پوری مدد حضرت مولانا مفتی اختر حسین
علیمی صاحب قبلہ کی کتاب ’ازالہ فریب بجواب تقلید شخصی کے آسیب‘ سے لی گئی تھی)
ماشاءاللہ عز و جل
ReplyDelete