Thursday, November 7, 2019

جشن عید میلاد النبی ﷺ دار الافتاء، مصر

          دار الافتا مصر کے فتوی کا ترجمہ پیش کرنے سے پہلے میں ہند و پاک کے اہل سنت و جماعت کی عوام سے عرض کرنا چاہوں گا کہ بسا اوقات کے بعض علما، اہل سنت و جماعت کی عوام کو دھوکا دینے کے لئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عرب میں ایسا نہیں ہوتا ویسا نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے بعض حضرات دھوکہ میں آجاتے ہیں، آپ ان کے اس فریب میں نہ آئیں، کیونکہ ان کا یہ قول جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے، بلکہ اہل سنت و جماعت کے اقوال کی اتباع کریں،اور انہیں کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہیں، اسی میں نجات دنیوی و اخروی ہے، ان کے جھوٹ کی واضح مثال یہی عید میلاد النبی ﷺ کا مسئلہ ہے، جس کے بارے میں وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عرب میں اس طرح کے جشن کا اہتمام نہیں کیا جاتا، جو جھوٹ کا پلندہ ہے، مصر جو عرب ملک میں شمار کیا جاتا ہے،اس کے عام علمائے کرام اور مفتیان عظام اور جامعہ ازہر جو پوری دنیا کا قبلہ علم مانا جاتا ہے، اس جامعہ کے مفتیان کرام کی رائے یہی ہے کہ عید میلا د النبی ﷺ منانا جائز ہے، جائز ہی نہیں بلکہ افضل عبادات میں سے ہے، اور یہ مفتیان کرام جشن عید میلاد النبی ﷺ کا اہتمام بھی کرتے ہیں، البتہ خوشی منانے کا طریقہ زمان وکان کے اعتبار سے بعض جہت سے مختلف ہوتا ہے، مگر یہ اختلاف ممانعت کا باعث نہیں بن سکتا، اس کے علاوہ اور بہت سارے مسائل ہیں جن کے بارے میں مخالفین اہل سنت و جماعت کی عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں،عوام اہل سنت کو ان کے اس دھوکا دینے والی بات سے متنبہ رہنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی تمام عوام اہل سنت کو علمائے اہل سنت کی اتباع کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین، جامعہ ازہر کے دار الافتا کا عید میلاد النبی ﷺ کے متعلق مندرجہ ذیل سطور میں فتوی ملاحظہ فرمائیں:
            اندراج نمبر:(669726)
            سوال:عید میلاد النبی ﷺ منانا کیسا ہے؟
            جواب تما م انسانوں کے لئے میلاد النبی ﷺ رحمت الہیہ کا سب سے عظیم سبب ہے، چنانچہ اللہ جل شانہ قرآن کریم میں حضور ﷺ کے وجود کو رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ((و ما ارسلنٰک إلا رحمۃ للعٰلمین)) (سورہ انبیا ۲۱؍آیت ۱۰۷)  ترجمہ: ((اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے )) (کنز الایمان) اور یہ رحمت الہیہ محدود نہیں بلکہ عام ہے، یہ وہ رحمت ہے جو انسانوں کی تعلیم و تربیت ، تزکیہ نفس، سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرنا، اور حیات مادیہ و معنویہ کے میدان میں عروج حاصل کرنا، گو کہ حضور نبی کریم ﷺ کے ذات کی صورت میں رحمت الہیہ تمام جہات کو شامل ہے، اور یہ رحمت الہیہ کسی زمانہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام زمانوں کو شامل ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ((و آخرین منہم لما یلحقوا بہم)) (سورہ جمعہ۶۲؍آیت۳) ترجمہ: ((اور ان میں سے اوروں کو پاک کرتے اور علم عطا فرماتے ہیں جو ان اگلوں سے نہ ملے)) (کنز الایمان)
            سید الکونین، خاتم الانبیا و المرسلین، نبی الرحمہ، غوث الامہ سیدنا محمد ﷺ کی پیدائش کے دن جمع ہوکر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ذکر کرناافضل اعمال اور قربتوں میں سے ہے، کیونکہ یہ نبی کریم ﷺ سے محبت اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، اور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنا ایمان کے اصولوں میں سے ہے، چنانچہ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:((لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ و ولدہ و الناس أجمعین)) (صحیح البخاری)  ترجمہ: ((تم میں سے کوئی مؤمن کامل نہیں، جب تک کہ میں اس کے نزدیک تمام لوگوں حتی کہ اس کے والد اور اس کے بیٹے سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں))
            حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(نبی کریم ﷺ سے محبت ایمان کے اصولوں میں سے ہے، آپ ﷺ سے محبت اللہ جل شانہ سے محبت کرنا ہے، اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے حضور ﷺ کی محبت کو اپنی محبت کے ساتھ ذکر کیا ہے، یہی نہیں بلکہ جن لوگوں نے کسی چیز کی طبعی محبت مثلا اقارب، اموال اور وطن وغیرہ کی محبت کو  اللہ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر مقدم رکھا، اللہ تعالی نے ان کی وعید فرمائی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:((قل ان کان آباؤکم و أبناؤکم و اخوانکم و أزواجکم و عشیرتکم و أموال اقترفتموہا أو تجارۃ تخشون کسادہا و مساکن ترضونہا أحب الیکم من اللہ و رسولہ و جہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بأمرہ)) (سورہ توبہ۹؍آیت ۲۴)  ترجمہ: ((تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کا مکان، یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے)) (کنز الایمان)اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے کہا:یا رسول اللہ لأنت أحب الی من کل شیء الا من نفسی، قال النبی ﷺ : ((لا و الذی نفسی بیدہ، حتی أکون أحب الیک من نفسک)) فقال لہ عمر رضی اللہ عنہ: فانہ الآن واللہ لأنت أحب الی من نفسی، فقال النبی ﷺ: ((الآن  یا عمر)) (صحیح البخاری)  ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! آپ میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ((اس ذات کی قسم جس کی دست قدرت میں میری جان ہے، تمہاری محبت کامل نہیں، جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں)) حضرت عمر رضی اللہ نے عرض کیا: خدا کی قسم آپ آج سے میری جان سے بھی زیادہ میرے نزدیک محبوب ہیں، حضور بنی کریم ﷺ نے فرمایا:((اب تمہاری محبت کامل ہوئی))اہ۔
            نیز حضور ﷺ کی پیدائش کے دن جمع ہونا، یہ آپ ﷺ کی ذات سے متعلق اہتمام کرنا ہے، اور حضور ﷺ کی ذات سے متعلق اہتمام کرنا، اور ان کا ذکر کرنا قطعی طور پر جائز ہے، چنانچہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی ﷺ کی قدرو منزلت کو بیان فرمایا، اور آپ ﷺ کے پورے وجودمسعود، ان کا نام، ان کی بعثت، اور ان کی رفعت و مرتبت ساری دنیا کے سامنے پیش کیا، اللہ تبارک و تعالی کا پوری دنیا پر اس نور، نعمت، اور حجت کا اظہار کرنے کی وجہ سے آج سارا عالم دائمی خوشی اور سرور میں مست ہے، اور عید میلاد النبی ﷺ کا جشن کوئی آج کل کی ایجاد نہیں بلکہ چوتھی اور پانچویں صدی سے ہمارے علمائے کرام اور سلف صالحین مختلف جہات مثلا کھانا کھلاکر، قرآن مجید کی تلاوت کرکے، ذکر و اذکار کر کے اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں اشعار و مدائح پڑھکر رسول اعظم ﷺ کے یوم ولادت کی خوشی مناتے آرہے ہیں، جیسا کہ بہت سارے مؤرخین مثلا حافظ ابن الجوزی و ابن کثیر، اور حافظ ابن دحیہ اندلسی و حافظ ابن حجر، اور خاتمۃ الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ نے اس کی صراحت کی ہے، اور علما و فقہا کی ایک جماعت نے یوم ولادت ﷺ کا جشن منانے کے مستحب ہونے پر کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں، ان حضرات نے ان کتابوں کے مشتملات کو ٹھوس اور صحیح دلائل و براہین سے مزین کیاہے، ان کتابوں میں مذکورہ دلائل ایسی دلائل ہیں جن کے مطالعہ کے بعد تھوڑی سی بھی عقل و فہم اور فکر سلیم رکھنے والا اسلاف کے اس طریقہ کار یعنی ان کا ولادت نبی ﷺ کے منانے کو غلط قرار نہیں دے سکتا، اور ابن الحاج رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المدخل‘ میں ولادت نبی ﷺ منانے کے متعلق بہت ساری خصوصیات اور فوائد ذکر کئے ہیں، اور آپ نے احتفال کے متعلق بہت سارے مفید کلام کئے ہیں، جو مؤمنین کے دل و دماغ کو روشن کرنے کے لئے کافی ہے، نیز خیال رہے کہ ابن الحاج رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’المدخل‘ کو اس لئے تصنیف فرمائی تاکہ لوگوں کے سامنے ان بدعات و محدثات کا بیان کریں جو دلیل شرعی کے تحت نہیں آتی ہیں!!
            اورلفظ  احتفال (حفل اللبن فی الضرع یحفل حفلا و حفلا) سے ماخوذ ہے، اور(تحفل تحفلا) و (احتفل احتفالا) یعنی جمع ہونا، اور (حفل القوم) باب ضرب  یضرب سے آیا ہے، اور(احتفلوا)  یعنی بہت سارے لوگ جمع ہوئے، اور (عندہ حفل من الناس) یعنی اس کے پاس کچھ لوگ جمع ہیں، اور (حفل)  اصل میں مصدر ہے، اور (محفل القوم و محتفلہم) یعنی قوم کا مجمع، اور (حفلہ)  یعنی اس کو ظاہر کیا تو وہ ظاہر ہوگیا،اور (حفل کذا): یعنی اس نے کسی چیز پر توجہ دی، اور کہا جاتا ہے: (لاتحفل بہ) یعنی اس پر توجہ نہ دو۔
             ولادت نبی ﷺ کے احتفال کا جو مقصد ہے وہ احتفال کے لغوی معنی سے عموما مختلف نہیںبلکہ موافق نظر آتا ہے، کیونکہ ولادت نبی ﷺ کا جشن منانا یہ لوگوں کا جمع ہوکر ذکر کرنا، اور اشعار کے ذریعہ حضور ﷺ کی ثنا کرنا، اور کھانا صدقہ کرکے لوگوں کو کھلاناہے، اور ان تمام اعمال کا مقصد صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ سے محبت کا اعلان کرنا، اور حضور ﷺ کی آمد کے دن پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ہے۔
             بعض لوگوں کو قرون ثلاثہ کا ان احتفالات سے خالی ہونے کی وجہ سے التباس ہوتا ہے ،اور سمجھتے ہیں کہ خیر القرون کا ان احتفالات سے خالی ہونا ان کے عدم جواز اور ممانعت پر دلالت کرتا ہے ، باخدا کہتا ہوں یہ چیز احتفال کے عدم جواز اور ممنوع ہونے پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے دن خوش و خرم ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ خوشی کے اظہار کرنے میں طریقہ کار اور اسالیب مختلف ہوتے ہیں،اور اسالیب کے مختلف ہونے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ اسالیب فی ذاتہا عبادت نہیں، جس کی وجہ سے خوشی کے اظہار کرنے میں کسی خاص اسلوب اور طریقہ کار کا التزام کرنا ضروری ہو، بہر حال حضور نبی کریم ﷺ کے یوم ولادت کی خوشی منانا ایک عظیم عبادت ہے، اور اس خوشی کے اظہار کے کئی مباح وسائل و طرق ہیں، ہر ایک کو الگ الگ مباح طریقہ کی اتباع کرکے خوشی کے اظہار کرنے کا حق ہے۔
             ابو لہب جس کا کفر و عناد اور اللہ جل و علا اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اس کی لڑائی انتہائی درجہ کو پہونچی ہوئی تھی، اللہ جل شانہ نے ابو لہب کا حضور ﷺ کی پیدائش کی خوشی کا اظہار کرنے کی وجہ سے اس سے عذاب میں تخفیف کر سکتا ہے، چنانچہ ابو لہب اللہ کے فضل و کرم سے ہر دو شنبہ کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ذریعہ جہنم میں پانی پیتا ہے، صرف اس وجہ سے کہ جب ابو لہب کی باندی ثویبہ نے اس کو حضور ﷺ کے پیدائش کی بشارت دی تھی تو اس نے خوش ہوکر اسے آزاد کردیاتھا، جب ایک کافر کا یہ حال ہے تو اللہ تعالی مؤمنوں کا حضور ﷺ کی ولادت باسعادت منانے کی وجہ سے ان پر کتنا فضل و کرم فرمائے گا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا!!
            نیز خود رسول اللہ ر ﷺ نے اپنی ولادت پر بروز دوشنبہ کو روزہ رکھ کر امت مسلمہ کو اللہ جل شانہ کا شکریہ ادا کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ، صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ ہر دوشنبہ کو روزہ رکھتے تھے، اور فرماتے تھے: ((ذلک یوم ولدت فیہ)) (صحیح مسلم) ترجمہ: ((اسی دن (دوشنبہ کو)میری پیدائش ہوئی)) یہ حدیث حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور ﷺ کا روزہ رکھنا اللہ جل شانہ کا ان کی ذات پر اورتمام امت پر آپ ﷺ کو بھیج کر کے احسان کرنے کا شکریہ ادا کرنا ہے، اس لئے امت محمدیہ کا بدرجہ اولی حق بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اس نعمت عظمی کا تمام انواع کے ذریعہ شکریہ ادا کرے، اور شکر کے انواع محدود نہیں بلکہ بہت ساری قسمیں ہیں، ان میں سے کھانا کھلانا، نعت پڑھنا، ثنا کرنا، ذکر کے لئے جمع ہونا، روزہ رکھنا، اور نماز پڑھنا وغیرہ بھی ہیں، گو کہ ہر ایک کا اپنا اپنا جائز طریقہ کار ہے ، صالحی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’سبل الھدی و الرشاد فی ھدی خیر العباد‘ میں اپنے زمانہ کے بعض صالحین سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: (ان کو خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ نے بطور شکایت عرض کیا: بعض لوگ جو علم والے سمجھے جاتے ہیں وہ ولادت باسعادت کی خوشی منانے اور جمع ہوکر ذکر کرنے کو بدعت کہتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((من فرح بنا فرحنا بہ)) ترجمہ: ((جو ہم سے خوش ہوا، ہم اس سے خوش ہوئے)) اگرچہ خواب سے کوئی حکم شرع ثابت نہیں ہوتا، لیکن اگر ایسے خواب ہوں جو اصول شریعت کے موافق ہوں تو ان سے استشہاد کیا جاسکتا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔
اصل فتوی دیکھنے کے لئے وزٹ کریں:
www.dar-alifta.org

ترجمہ: ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل نمبر: 00918318177138

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts