Thursday, November 7, 2019

عصری جامعات کے بعض طلبہ سے ملاقات لمحہ فکریہ

               طالبان علوم نبویہ کا یونیورسٹیز کی طرف رخ کرنا یقینا خوش آئند ہے، مگر بعض حضرات کی سیرت طیبہ دیکھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اگر یہ اس نہج پر گامزن رہے؛ تو اس کا نتیجہ کافی حد تک افسوس ناک ہوسکتا ہے، اس دنیا میں اختلاف کا سبب مختلف طبائع انسانیہ ہیں، ہر شخص اپنی فکر و نظر اور اپنی طبیعت کے مطابق اپنی اپنی سطح کی سوچ کے ساتھ دنیا کے مختلف شعبہ جات میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کوشاں و سرگرداں نظر آتا ہے، ظاہری سبب پر نظر ڈالی جائے؛ تو یقین محکم یہ فیصلہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ اگر اقوام عالم کے اذہان باہم مختلف نہ ہوتے؛ تو شاید نظام کائنات میں یہ روانی اور تابانی نہ ہوتی، اختلاف اذہان ہی کا نتیجہ ہے کہ سماجی، سیاسی اور تشریعی امور کی بعض صورتوں میں ارباب حل و عقد کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، کبھی چھوٹا اپنے سے بڑے، کبھی شاگرد اپنے استاذ کی مخالفت کرتا ہے، بہر حال یہ اختلاف اگر علمی تحقیق و تدقیق کی بنیاد پر ہوں تب تو مخالفت کرنے والا قابل تحسین ہے اور اگر محض یہ اختلافات ذاتیات یا عصبیت یا بلا وجہ وجیہ کسی دوسرے کے دامن کو داغدار کرنے پر مبنی ہوں، تو وہ شخص یقینا قابل توہین ہے، الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، دارالعلوم علیمہ جمداشاہی اور دیگر مدارس سے یونیورسٹیز کی طرف پیش قدمی کرنے والے طلبہ میں سے مجھے پانچ طرح کے طلبہ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے بعض نے اپنی لقا سے میرے دل کو فرحت و انبساط بخشا جس کی خوشی ابھی تک باقی ہے اور کچھ نے اپنی باتوں اور نظریات سے دل برداشتہ کردیا، جس کی تکلیف ابھی تک برقرار ہے، میں اس موضوع پر لکھنے کے لئے قلم اٹھانے کی جسارت نہیں کرتا، مگر حالات نے کچھ صفحہء قرطاس کے حوالے کرنے پر مجبور کردیا، قارئین کرام مضمون پڑھتے ہوئے یہ بات ضرور ملحوظ رہے کہ میرے مخاطب وہی لوگ ہیں، جو اپنے اساتذہ کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کئے یا کرتے رہتے ہیں،یا وہ لوگ جنہوں نے اپنے نظریات و خیالات اور اپنا اسلامی تشخص کھوکر کے علما کی دل آزاری کا سبب بنے اور مدارس اسلامیہ کے اساتذہ کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا؛ لہذا وہ لوگ جو حدود شرع کی رعایت برتنے کے ساتھ، مدارس اسلامیہ کے اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، حصول علم میں لگے ہوئے ہیں، انہیں میری اس تحریر سے قطعا دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے؛ کیونکہ وہ اپنے اس طریقہء کار کی وجہ سے قابل مبارکباد ہیں اور جو غلط روش اختیار کر بیٹھے ہیں، انہیں یہ تحریر پڑھنے کے بعد سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، یقینا انہیں احساس زیاں ہوگا، اور وہ اپنی اس روش سے باز آنے میں اپنی سر بلندی سمجھیں گے۔
            (۱)الجامعۃ الاشرفیہ کی ایک تقریب میں شرکت کی غرض سے میرے ایک کلاس فیلو کا ورود مسعود ہوا، تقریب بحسن و خوبی اپنے اختتام کو پہونچ گئی، غالبا اس تقریب میں آں جناب کو کسی استاذ سے تکلیف پہونچ گئی، یہ تکلیف کیسی تھی، اگر میں اس کا ذکر کردوں تو قارئین حضرات ضرور ان کی اعلی ظرفی پر ہنسے بغیر نہ رہ سکیں گے، بہر کیف انہوں نے مجھے اور میرے بعض احباب کو ملاقات کے لائق سمجھا، دوسرے دن ہمارے کمرے میں تشریف لائے، میں نے اور میرے دوستوں نے انہیں اہلا و سہلا اور مرحبا کہا، ہم سب نے سوچا ہمارے حضرت دہلی سے یونیورسٹی کی آب وہوا میں کچھ مہینے گزارکر آئے ہیں، کچھ ہمیں بتائیں گے کہ وہاں کا کیا ماحول ہے، اس لئے کہ بعض حضرات کے بقول یہاں پر ہماری فکریں محدود ہوتی ہیں اور ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں رہتی کہ عالمی یا ملکی پیمانے پر کیا ہورہا ہے اور ہم کوئیں کے میڈک کی طرح ایک پرسکون یا خاموش زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں، بہر حال اسی غرض سے ہم لوگ موصوف کے ارد گرد حلقہ بناکر بیٹھ گئے، ہم نے ان سے کچھ سوالات کئے، جناب والا گویا ہوئے اور انہوں نے بہت سی ایسی مفید اور کار آمد باتیں بتائیں، جس سے ہمیں خوشی ہوئی؛ جس کی وجہ سے ہم نے جناب والا کو مبارکباد بھی دی اور خوشی کا اظہار بھی کیا، لیکن رخصت ہوتے ہوئے، انہوں نے ایک پل میں میری ساری خوشیوں کا خون کردیا، انہوں نے کہا: راجدھانی دہلی میں ہمارے بڑے بزرگ اپنے بچوں کو آگے بڑھاتے ہیں، انہیں خود کی فکر نہیں ہوتی، اس کے بعد اپنے اساتذہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے: ’’یہ سالے حرام خور یا حرامی (بہر حال اسی طرح کوئی جملہ تھا) اپنے طلبہ کو ترقی کی طرف گامزن دیکھنا نہیں چاہتے‘‘۔ اس جملہ کو سنتے ہی میرادل دھک سے ہوگیا، اگر قدرت ہوتی؛ تو میں اپنے ہاتھوں سے محترم کے لبہائے مبارک کا ایسا بوسہ لیتا کہ وہ گلاب کی طرح سرخ نظر آنے لگتے، حسب استطاعت میں نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کہا: اساتذہ کو گالی دینا بجا نہیں، آپ اپنی زبان کو لگام دیں، میرے دوستوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی، وہ صاحب سٹپٹا گئے اور اثبات میں سر ہلانے لگے، معلوم نہیں موصوف کے سر میں جو جنبش پیدا ہوئی تھی، وہ خفگی کے باعث یا خفت کے باعث تھی، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے یہ بات کہیں ادھر ادھر نہیں بلکہ اسی مادرعلمی کے سایہ تلے کہی، جس نے انہیں کم و بیش آٹھ سال تک اپنی گود میں رکھ کر کھلایا، پلایا، ان کی تعلیم و تربیت اور علمی نشو نما کے لئے حتی المقدور کوشش کی، اساتذہ نے علم جیسی لازوال نعمت سے نوازا اور انہیں اس لائق بنایا کہ وہ یونیورسٹیز کی طرف پیش قدمی کرسکیں، عصری علوم حاصل کریں اور وہ لوگ جو مذہب اسلام کے تعلق سے بدگمان ہیں، انہیں صحیح حالات سے آگاہ کریں، مگر جو اپنے اساتذہ کو گالی دیتے، اور برا بھلا کہتے ہیں، بھلا ان سے خیر کی کیا امید کی جاسکتی ہے، ہاں اللہ تعالی ہدایت دے دے تو الگ بات ہے، بہر کیف ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے والد سے بھی زیادہ اپنے اساتذہ کا احترام کریں کہ اساتذہ کا احسان والد کے احسان سے کہیں زیادہ ہے اور ’’ہل جزاء الإحسان إلا الإحسان‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے، پھر اگر ہم اپنی سوچ کے سبب ان کے احسانات کا بدلہ نہ چکا سکیں؛ تو کم ازکم ہمیں ان کو اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے لئے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی نہیں بنانا چاہئے، مگر کچھ طلبہ نااہلی کا شکار ہوکر اساتذہ کے احسانات سے منھ پھیر لیتے ہیں، بلکہ برا بھلا بھی کہنے سے نہیں چوکتے، بالفرض اگر اساتذہ میں سے کسی سے کوئی تکلیف پہونچے یا دل آزاری ہو؛ تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کی شان میں برے کلمات بلکہ ایسے گھٹیا الفاظ استعمال کئے جائیں، جسے ایک شریف آدمی تو دور کی بات ایک سڑک چھاپ آدمی بھی برداشت نہ کرسکے، بلکہ چاہئے کہ ان کے احسانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے نذر انداز کردے، حصول علم کے ساتھ ضروری ہے کہ علمائے کرام کی عزت و احترام اپنے دل میں بسائے رکھے کہ اس کے بغیر علم کے میدان میں ترقی مشکل ہے۔
            بہر حال ناچیز ایسے لوگوں سے عرض کرتا ہے کہ ان علمائے کرام کا ہم پر احسان ہے، انہوں نے ہی علم جیسی بے بہا نعمت سے نوازا اور اپنی وسعت کے مطابق ترقی کی طرف منزل بمنزل بڑھایا اور یونیورسٹیز کی طرف پیش قدمی کرنے کے لائق بنایا، تو کم ازکم اتنا ضرور کریں کہ اپنی زبان فیض ترجمان سے ایسے جملے ادا نہ کریں، جس سے آپ کی شخصیت مجروح ہوجائے، اساتذہ اور دیگر علما کو سخت تکلیف پہونچے، وگرنہ شریعت کی روشنی میں اپنے خانہء دل کا محاسبہ بہت ضروری ہے، ہر شخص کو اس کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔
            (۲)میں ایک بار اپنے کمرے میں محو مطالعہ تھا، ایک صاحب کمرے میں جلوہ بار ہوئے، یہ صاحب بھی راجدھانی حیسے شہرکی آب و ہوا میں رہ کر آئے تھے، جو شاید مجھ سے ایک سال سینیر تھے، میر ے دو چار روم پارٹنر، ان سے ہم کلام ہوئے، میں کسی عرض عارض کی بنا پر ان کی طرف متوجہ نہ ہوسکا، انہوں نے دوران گفتگو ایسی بات کہی کہ میں اپنے آپ کو ہمہ تن گوش ہونے سے نہ روک سکا، وہ گویا تھے: ’’اردو کتابوں سے فتوی نہیں دینا چاہئے؛ کیونکہ اس میں خطا کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور اس کی علت سلسلہ بسلسلہ نقل کرنا قرار دی‘‘ اول وہلہ میں تو ان کی بات لگتی سی معلوم ہوتی ہے، مگر غور کیا جائے تو یہ علت درست نہیں؛ کیونکہ فقہائے کرام کی عربی کتابیں بھی سلسلہ بسلسلہ تقریبا نقل ہوکر ہی منظرعام پر آتی ہیں، جس طرح اردو کتابوں میں خطا کا امکان ہے، بعینہ عربی کتابوں میں بھی امکان خطاہے، میرے خیال سے اگر علت ہی بتانی تھی؛ تو یہ کہنا چاہئے تھا: چونکہ عام طور سے لوگ فتوی کے معاملہ میں اردو کتابوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے؛ اس لئے جواب کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عربی عبارتیں پیش کی جائیں، مگر اس علت پر گزارش ہے کہ فتاوی کی کئی کتابیں نظر سے گزریں، شاید باید کوئی ایسا فتوی ہوتاہے جس میں محض اردو فتاوی کی کتابوں پر اکتفا کیا گیا، جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ ان کتابوں پر لوگ پورے طور سے اعتماد کرتے ہیں، اگر مان بھی لیا جائے کہ بعض مفتیان کرام اردو فتاوی کی کتاب سے فتوی دیدیتے ہیں؛ تو یہ ان کی مجبوری ہے؛ کیونکہ انہیں گراں قدر فتاوی کی کتابیں دستیاب نہیں ہوپاتیں اور ضرورت پڑنے پر فتوی دینا پڑتا ہے، تو اردو کتاب ہی کا سہارا لے لیتے ہیں۔ ابھی آں حضرت کی پیاس بجھی نہیں تھی، پھر نہایت بے اعتنائی برتتے ہوئے فقیہ اعظم صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی مایہ ناز کتاب ’بہار شریعت‘ کے بارے میں گویا ہوئے: یہ کیا کتاب ہے، بس مسائل کو اردو میں جمع کردیا گیا ہے‘‘۔ حالانکہ آں جناب سے اگر یہی کرنے کو کہ دیا جائے تو چھٹھی کا دودھ یاد آجائے گا، خیر اس جملہ نے صاف واضح کردیاکہ موصوف نے اردو کتاب سے فتوی کے متعلق تنقیدا یا مشورۃ جو بات کہی وہ برائے تعمیر و اصلاح نہیں بلکہ برائے تخریب تھی۔
            مگر میں اور میرے روم پارٹنرز نے اس تخریب کو کامیاب نہ ہونے دیا اور یک لخت بول اٹھے یقینا یہ کتاب اردو زبان میں مسائل کا مجموعہ ہے، لیکن صرف اس طور سے نہیں کہ بس اٹھایا اور یکجا کردیا، بلکہ فقیہ اعظم نے اس کے لئے تگ و دو کی، مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا، پھر اپنے اجتہاد سے مفتی بہ اقوال نقل فرمائے، یہ اپنے دور کے مفتی اعظم تھے، آپ کے مطاوق تو انہوں نے صرف مسائل یکجا کردیا، اگر آپ ہی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم دین ہو، ہم سب آپ کے حوالے، درمختار، رد المحتار، فتاوی ہندیہ، بدائع الصنائع، اور جدالممتار جیسی چند کتابیں پیش کئے دیتے ہیں، ذرا ایک باب کے مفتی بہ اقوال بلکہ آپ جیسے عالم دین جنہوں نے ابھی فقہ کے دروازے پر قدم تک نہیں رکھا، صرف ایک فصل کے مفتی بہ اقوال نقل کرکے دکھادیجیے، اتنا سنتے ہی ان صاحب کے چہرے کا رنگ آنے جانے لگا، شاید انہیں خلاف توقع جواب مل گیا تھا، یہ صاحب فقیہ اعظم کے دامن سے نکلنے والے لعل و گہر ہی کے پروردہ تھے۔بہر حال حضور فقیہ اعظم  اور آپ کی کتاب کے معتمد ہونے کے لئے یہ حدیث کافی ہے:
            ((من یرد اللہ به خیرا یفقھه في الدین)) (صحیح البخاری) اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی فرماتا ہے، اسے دین کا فقیہ بنادیتا ہے۔
            لوگ کیسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگتے ہیں، تعجب ہوتا ہے، آج کوئی مدرسہ، کوئی دار الافتاء، ایسا نہیں ہے جہاں بہار شریعت نہ ہو، بلکہ غیر بھی اس کتاب سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے، مجھ جیسا حقیر سراپا تقصیر اتنی عظیم کتاب کی اہمیت و افادیت پر کیا روشنی ڈالے گا، اس کتاب کی اہمیت کیا ہے، اس کی معرفت کے لئے، علمائے کرام، مفتیان کرام اور فقہائے عظام کے حوالے کرتا ہوں، جو شب و روز اس کے قیمتی جواہر پارہ سے مستفید ہوتے ہیں، ان جیسے نقاد سے اتنا کہ کر گزر جانا چاہتا ہوں:
ع ساحل سے کبھی موجوں کا اندازہ نہیں ہوتا
            (۳)دہلی کی سر زمین پر میری ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی، جن کے چہرے سے داڑھی غائب تھی، ہم ایک دوسرے سے متعارف ہوئے، انہوں نے تعارف کے دوران فخریہ کہا کہ میں فلاں ادارہ سے فارغ ہوں، میں نے ان سے برجستہ کہا: ٹھیک ہے آپ فارغ التحصیل ہیں، مگر آپ کے چہرے کا جغرافیہ بدلا ہواہے، فاضل دین ایسا تو نہیں ہوا کرتے، میرے اس بے باکانہ استفسار پر آں جناب بغلیں جھانکنے لگے، شاید ان کو مجھ سے یہ توقع نہ تھی۔ ایسے حضرات اگرچہ زبان سے اپنے اسلاف کو تکلیف نہیں پہونچاتے، مگر حال سے ضرور تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں، انہیں صاحب کے بارے میں سنا گیا کہ یہ شرم کی وجہ سے اپنے اساتذہ سے ملنے نہیں جاتے۔ میں عرض کروں، آخر ایسی تعلیم کس کام کی جو اپنا اسلامی تشخص برقرار نہ رکھنے دے، اپنے اساتذہ کرام اور بزرگان دین سے ملنے کے لئے مانع ہو اور شرمندگی و ندامت کا سبب بنے، ایسے حضرات کو غور کرنا چاہئے، کیا کوئی اپنے بزرگان دین کے نقش قدم سے ہٹ کر ترقی کرسکتا ہے، اگر دنیاوی ترقی مل بھی جائے تو کیا یہی کافی ہے، ایسے لوگ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر پوچھیں تو یہی جواب ملے گا، ہرگز نہیں؛ کیونکہ اصل زندگی آخرت ہے، ہر ایک کو اسی کی طرف رجوع لانا ہے، اس کے لئے عامل شریعت بننا پڑے گا، بزرگوں اور اساتذہ کے دامن کو تھامے رہنا ہوگا، اگر آج انہیں کو لازم پکڑ لیا جائے تو دنیا اور آخرت دونوں جھولی میں ہوگی۔
            (۴)بعض یونیورسٹیز کی طرف رخ کرنے والے طلبہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ مدارس کو معاش کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ جو عالم دین بنے وہ مالی بحران سے دو چار نہ ہو اور پرسکون زندگی گزار سکے۔
            اس طرح کی فکر رکھنے والے حضرات کا مسلمانوں خصوصا علما کے تئیں یہ خوش کن جزبہ ہے مگر ایسے حضرات کو اس طرح کے نظریات، اپنے ذہن سے محو کردینا چاہئے؛ کیوں کہ مدرسہ کی بنیاد محض خلوص و للہیت کے ساتھ اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے رکھی گئی ہے؛ لہذا جنہیں معاش کی فکر ہو وہ یا تو اول وہلہ میں اس کی طرف پہل کریں یا یہ کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کی طرف بڑھیں بلکہ صحیح یہی ہے؛ تاکہ ضروریات دین سے آگاہ ہوجائیں اور عموما کسی طرح کی بے راوہ روی کا خطرہ نہ ہو۔
            اصل میں ان کا یہ جملہ بھی مدارس کے لئے عصری علوم کے انتظام کی طرف اشارہ ہے، میں ایسے لوگوں سے عرض کروں کہ ایک ہی وقت میں عالم دین بھی بن جائے اور عصری علوم کی ڈگری بھی حاصل کر لے؛ تو یہ بہت بعید ہے؛ کیونکہ عالم دین بننے کے لئے جہد مسلسل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نو سال کا نصاب ناکافی ہوتا ہے، اگر اس کے ساتھ عصری علوم کی کتابیں داخل کردی جائیں تو یہی صورت حال ہوگی:
نہ   خدا    ہی   ملا   نہ   وصال   صنم
نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
            آج بعض مدارس میں کمپیوٹر سکھائے جاتے ہیں، پر ڈے مشکل سے ڈیڑھ دو گھنٹے کلاس کے لئے دئے جاتے ہیں، یہی ہماری اصل تعلیم پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اگر اس پر پورے طور سے توجہ دی جائے؛ تو اصل، فرع اور فرع، اصل بن کر رہ جائے گی، یہ ایک تلخ تجربہ ہے، تو کیا خیال ہے اس تعلق سے کہ عصری کتابیں دینی کتابوں کے ساتھ داخل نصاب کردی جائیں؛ تو یقینا اصل فرع بن کر رہ جائے گی اور اسے کوئی ادارہ برداشت نہیں کرسکتا۔
            بعض لوگ اس طرح کی بھی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مدارس کو اجازت دینی چاہئے کہ طلبہ علم دین حاصل کرنے کے ساتھ کالج سے ہائی اسکول، انٹر کرنے کے مجاز ہوں، اس نظریہ کو تو اپنے ذہن سے محو کر ہی دینا چاہئے؛ کیونکہ کوئی ادارہ، مدرسہ یہ پسند نہیں کرسکتا کہ اس کا ادارہ مسافر خانہ بن کر رہ جائے، اس کا سبب یہ ہے کہ آج جب کہ ادارہ اجازت نہیں دیتا، پھر بھی خفیہ طور سے بعض طلبہ فارم پر کردیتے ہیں اور جب دونوں کے امتحان ایک ساتھ پڑتے ہیں؛ تو بڑی آسانی سے مدرسہ کے امتحان کو خیرآباد کہ دیتے ہیں، اگر اجازت دے دی جائے؛ تو سوائے اس کے کیا ہوگا کہ مدرسہ ایک مسافر خانہ بن کر رہ جائے اور اسے کون ادارہ برداشت کرسکتا ہے؟!
            اہل مدارس طلبہ کے لئے انتظام کرسکتے ہیں، اس کی ایک ہی صورت ہے کہ مدارس میں مختلف شعبہ جات ہوں، دینی تعلیم کے الگ اور عصری تعلیم کے الگ تاکہ کوئی بھی طالب علم، علم دین حاصل کرنے کے بعد کسی بھی شعبہ میں داخلہ لے کر اپنی معاشی حالت صحیح کرسکے اور یہ گنبد پر اکھروٹ رکھنے کے مترادف ہے؛ کیونکہ مدارس اسلامیہ کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، آج ہمارے اسلامی شعبہ جات مثلا فقہ، حدیث، تفسیر اور ادب وغیرہ کا انتظام ایک اہم مسئلہ ہے، بروقت اہل خیر کی مدد سے مدارس اسلامیہ میں ان کا انتظام و انصرام ہوجائے یہی بہت ہے، میں پھر ایسے نظریات کے حاملین سے عرض کرتا ہوں کہ مدارس حقیقت میں انہیں کے لئے ہیں جو خلوص و للہیت کے ساتھ علم دین حاصل کریں، پھر تبلیغ اسلام میں لگ جائیں، اگر کوئی علم دین حاصل کر رہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ میں عالم دین بن کر بہت بڑا سرمایہ دار بنوں گا؛ تو یہ اس کی سوچ تو ہے مگر غلط ہے۔ ہاں اتنا ہوسکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ مدارس میں دیگر علوم کے ساتھ عربی ادب اور انگلش پر خصوصی توجہ دی جائے اور جد و جہد کرکے یونیورسٹیز سے معادلہ کرا دیا جائے؛ تاکہ جو طلبہ مزید تعلیم حاصل کرنا چاہیں وہ محض بے بس ہوکر نہ رہ جائیں۔ اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ ہمارے مدارس کے اراکین، ذمہ داران، اس تعلق سے بالکل چست ہوچکے ہیں اور پوری ذمہ داری اور تگ و دو کے ساتھ اس کے لئے کوشش کررہے ہیں، ان شاء اللہ ان کی کوشش اور جد و جہد رنگ لائے گی اور آنے والی نسل اس کے لئے فکر مند نہ ہوگی۔ (اس کے متعلق میری سوچ و فکر  میں اب کچھ تبدیلی آگئ ہے، دیکھیے میرا جدید مضمون، بنام: دینی و عصری علوم کی ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت)
            (۵)مدارس سے فارغ ہونے کے بعد جو طلبہ یونیورسٹیز کی طرف رخ کئے، ان میں سے بعض اپنے ملے جنہیں دیکھ کر دل خوشی سے جھوم اٹھا، نورانی چہرا، اسلامی تشخص کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول میں لگے ہیں۔
            یہ ایسے افراد ہیں جو اپنے اساتذہ، علمائے کرام اور عامہ مسلمین کے لئے دل آزاری کا سبب نہ بنے بلکہ اپنے اسلاف کے آئینہ دار اور ان کی زندہ مثال بن کر سامنے آئے، بے شک یہی لوگ دنیوی و اخروی نعمتوں کے حقدار ہیں، اور حقیقت میں یہی کامیاب و کامراں ہیں، ایسے ہی افراد کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:((و اولئک ھم المفلحون))
            اللہ تعالی ہم سب کو مدارس اسلامیہ کے مقاصد کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) لکھا گیا)

3 comments:

  1. ماشاءاللہ بہت عمدہ چشم کشاں تحریر آپ نے بحوالئہ قرطاس کیا جوکہ عینی حقیقت کا انکشاف ہے ـ ایک طالب کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے مکرم اساتذہ کے سامنے نگاہِ ادب و زانوئے ادب خم رکھے اسی میں اس کے لئے دائمی عزت و سربلندی نیز بھـلائی کا عنصر غالب رہیگاـ پھر تو کامیابی کی ہر مسندیں انکی منتظر رہیں گی
    کیونکہ ہر طالب علم کو وہ وقت کبھی نہیں بھلانا چاہئے جسمیں وہ پیدائش سے لیکر اساتذئہ کرام کی زلفِ عنبریں کے پہونچنے تک کا جو وقت تھا اس میں یقینًا وہ زمین کی وسعتوں میں بکھرے ہوئے ذرّات کے برابر بھی اپنا وقار و منزلت نہیں رکھتا تھا ـ الحمد آج جو ہم چمنستانِ مصطفٰے کے مہکتے مشکبار کلی ہیں اور آسمانِ علم کے تابناک آفتاب و ماہتاب ہیں و درخشندہ ستارے ہیں یہ سب کچھ اسی مربی اساتذئہ محترم کی شب و روز کی کا کاوشوں و فیضانِ علم کا لازوال نتیجہ ہے ـ
    اللہ ہمارے جملہ اساتذہ کے علم و عمر میں بے پناہ برکتیں عطا فرما ـ آمین

    دعاگو و دعاجو
    /
    آصف جمیل قادری امجدی

    ReplyDelete
  2. ماشاءاللہ
    بہت خوب
    جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts