خالق ارض و سما نے اپنے بندوں کی ہدایت
کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار یا دو لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسل کو اس دار
فانی میں مبعوث فرمایا، تمام انبیاے کرام نے اپنے فرائض منصبی کا حق ادا کیا اور اللہ
کے احکام کو اس کے بندوں تک پہونچایا، ان انبیا میں سے کسی کی بعثت پر رب کائنات نے
احسان نہ جتایا مگر جب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے درمیان مبعوث فرمایا؛
تو اس نعمت عظمی پر خالق دوجہاں نے احسان جتایا، آپ کو رحمۃ للعلمین کے لقب سے نوازا،
اپنی طرف سے بھیجا ہوا نور بتایا، آپ کو تمام صفات کمالیہ کا جامع بنایا، آپ کو تمام
انبیاے کرام کے اخلاق حسنہ کا پیکر بناکر ایک انسان کامل کو وجود بخشا، بلاشبہ یہ آپ
ہی کا حصہ تھا کہ افضل الانبیاء، سید المرسلین ہیں:
حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
کا وقت آیا، ماہتاب رسالت طلوع ہونے کو ہوا؛ تو ایسے ایسے محیر العقول واقعات پیش
آئے جو آپ کی آمد کی بشارت دے رہے تھے، چنانچہ اسی موقع پر ناگہاں باران رحمت سے
سرزمین مکہ سرسبز و شاداب ہوگئی، بت منھ کے بل گر پڑے، حضرت آمنہ بی بی رضی اللہ عنہا
کے جسم اطہر سے ایسا نور رونما ہوا جس نے بصری کے محل کو روشن کردیا، اسی طرح کے اور
بہت سے واقعات پیش آئے جو نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوہ گر ہونے پر شاہد عدل
تھے۔
ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا جب اس
دنیا میں ورود مسعود ہوا، آپ کے نور سے سارا عالم منور ہوگیا، تاریکیاں چھٹ گئیں،
آپ نے حق و باطل کے درمیان خط فاصل کھینچ دیا، آپ نے اخلاق و کردار اور صدق و عدل
کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ کفار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے اور آپ کے فیصلہ
کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے نظر آئے، آپ صبر و تحمل میں یگانہ روزگار تھے، چنانچہ
کفار مکہ نے اعلان نبوت کے بعد آپ پر ایسے مظالم ڈھائے جنہیں پڑھ کر ہماری آنکھیں
اشکبار ہوجاتی ہیں، آپ نے عدل و انصاف اور مساوات کا وہ درس دیا کہ دنیا آج تک ایسا
منصف پیش کرنے سے عاجز ہے، خداے تعالی نے آپ کو تمام تر صلاحیت، سیاسی تفکر و تدبر،
حکمت و دانائی سے آراستہ فرمایا تھا، جب کسی نااہل کی ریشہ دوانی سے انتشار و افتراق
کا اندیشہ ہوتا؛ تو آپ اپنی خدا داد صلاحیت سے ایسا فیصلہ فرماتے ہیں کہ سب کے سب
آپ کے فیصلہ کے سامنے سر خم کردیتے اور فتنہ و فساد یکسر ختم ہوکر رہ جاتا، یقینا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے، بلاشبہ ان کی
زندگی انسانی زندگی کے ہر گوشے پر روشنی ڈالتی ہے، جس پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی
دلیل ہے، مگر آج مسلمان کا عجب حال ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے
طریقہ کار کو اپنانے کے بجائے شعوری یا غیر شعوری طور پر کفار و مشرکین اور یہود و
نصاری کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کل کے مسلمان احکام خدا و رسول صلی اللہ علیہ
وسلم پر عمل کرکے تمام شعبہاے زندگی میں ارتقائی منازل طے کرنے میں کامیاب و کامراں
رہے، مگر آج مسلمان انحطاط و پستی کے قعر عمیق میں گرتے جارہے ہیں، آخر اس کی وجہ
کیا ہے؟ اس کی وجہ ظاہر و باہر ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے احکام پر عمل کرنا ترک کردیا
ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے نقش قدم پر چلنا چھوڑ دیا ہے، آج
اگر مسلمان آپ کی زندگی کو مشعل راہ بنالیں اور اپنی زندگی کے مسائل ان کے طریقہ کار
کی روشنی میں حل کریں؛ تو ہماری پریشانیاں دور ہوسکتی ہیں، آپ کے طریقہ کار کو چھوڑکر
کوئی بھی فرد منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا:
طریق مصطفی
کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی
اسی سے قوم دنیامیں ہوئی بے اقتدار اپنی
لہذا کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے ضروری
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو اپنایا جائے، اسی کے پیش نظر آپ کی
زندگی کے چند اہم گوشے قارئین کرام کے نذر کرتا ہوں جو یقینا عالم اسلام کے لیے قابل
عبرت اور نمونہ عمل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صبروتحمل اور ایثار
و قربانی
فاصدع
بماتؤمر آیت کریمہ نازل کرکے آپ سے حاکم مطلق نے فرمایا:
اے محبوب آپ کو جو حکم دیا گیاہے علی الاعلان بیان فرمادیں، احکم الحاکمین کاحکم ملتے
ہی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علی الاعلان
دین متین کی تبلیغ کرنے لگے، یہ دیکھ کر کفار مکہ آپ کے خلاف بر سر پیکار ہوگئے حضور
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو کفار مکہ نے سخت اذیتیں دیں حتی کہ آپ کو
قتل کرنے کے درپہ ہوگئے مگر کفار مکہ بنو ہاشم کے خوف سے بعض رہے، اس کے باوجود ایذا
رسانی کا کون سا حربہ ایسا تھا جس کاانہوں نے استعمال نہ کیاہو، چنانچہ ابتدا میں آپ
کو ساحر، کاہن، مجنون کہنا شروع کیا، جب انہیں اپنے منصوبہ قبیحہ میں کامیابی نہ ملی؛
تو آپ کے پیچھے بچوں، نوجوانوں کی فوج ڈال دی، جو آپ پر طعنہ زنی کرتے، گالیاں دیتے،
راستے میں کانٹے ڈالتے، حتی کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوتے؛ تو آپ
پر کفار نامراد نجاست تک ڈال دیتے ،مگر آپ صبر وشکر کے پیکر بنے رہے، آپ کے صبر وتحمل
کے چند واقعات نظر قارئین کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
حرم کعبہ میں اپنے معبود حقیقی کی عبادیت میں مشغول تھے، ایک ظالم آیا اورآپ کی گردن
مبارک میں چادر کافندہ ڈال کر اتنی قوت سے کھینچا کہ دم گھٹنے لگا، آپ کے جانثار رفیق
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ دردناک منظر دیکھا نہ گیا، آپ بے اختیار
دوڑ پڑے اور اس کافر کو وہاں سے ہٹا کر آپ کو اس تکلیف سے آزاد کیا۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلان
نبوت کے بعد ایمان لانے کے بجائے کفار مکہ نے آپ کو ستانا شروع کردیا اور جب ان کی
سرکشی، عناد و اسلام دشمنی حد سے تجاوز کر گئی، آپ کو ان کی طرف سے مایوسی ہوئی؛ تو
آپ نے مکہ کے اطراف میں تبلیغ اسلام کا قصد کیا، چنانچہ آپ اپنے غلام زید بن حارثہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر طائف کی طرف تشریف لے گئے، جس کے بارے میں مدت مدیدہ
کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر جنگ احد سے زیادہ بھی سخت آزمائش کا دن گزرا
ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، وہ دن جب میں طائف میں تبلیغ دین کے لیے گیا تھا، آپ کے صبر
و تحمل کو آنے والی تحریر میں ملاحظہ فرمائیں:
طائف میں بڑے بڑے امرا اور سرمایہ دار
لوگ تھے، ان رئیس زادوںمیں عمیر کاقبیلہ تمام قبائل کاسردار مانا جاتاتھا، یہ تین برادر
کا مجموعہ تھا جن کانام عبد یا لیل، مسعود، حبیب تھا، آپ ان کے پاس تشریف لےگئے اور
ان کے سامنے اسلام پیش کیا، انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا اور بہت بد تہذیبی
سے پیش آئے، اور انہوں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ جب وہاں سے نکلے؛ تو آپ کے پیچھے
نوجوان بدمعاشوں اور لفنگوں کو لگادیا جو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے، انہوں نے
آپ پر اتنے پھتر برسائے کہ قدم مبارک زخمی ہو گئے، آپ زخم کی تاب نہ لاکر بیٹھ جاتے
تو یہ اوباش ظام نہایت ہی بے رحمی سے آپ کو اٹھا دیتے اور آپ کو چلنے پر مجبور کرتے،
پتھر کی چوٹ سے آپ کی پاؤں سے اتنازیادہ خون نکلا کہ آپ کے موزے اور نعلین مبارک
خون سے لبریز ہوگئے، آپ کے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی حفاظت کی
کوشش میں سخت لہو لہان ہوگئے، اسی عالم میں چلتے چلتے آپ مکہ کے ایک انگور کے باغ
میں پہنچے، جو عتبہ بن ربیعہ کی ملکیت میں تھا، آپ کی حالت زار کو دیکھ کر عتبہ بن
ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کی خاندانی حمیت نے جوش مارا اور آپ کو باغ میں
حفظ و امان کے ساتھ ٹھہرایا اور آپ کے پاس اپنے نصرانی غلام عداس کے ذریعہ انگور کا
ایک خوشہ تناول فرمانے کے لئے بھیجا، آپ نے جب کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو بسم اللہ
پڑھا، نصرانی غلام یہ کلام سن کر متعجب ہوا، اس نے کہا یہاں اطراف کے لوگ اس طرح کے
کلمات نہیں پڑھتے، آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے باشندے ہو، اس نے جواب
میں کہا کہ میں نینوا کا رہنے والاہوں، حضور نے فرمایا: وہی جو یونس بن متی علیہ السلام
کاشہرہے، وہ بھی میری طرح خدا کے فرستادہ تھے، یہ سنتے ہی نصرانی غلام آپ پر ایمان
لے آیا (زرقانی، ص۳۰۰)
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
فرماتے ہیں: وادی قرن الثعالب میں پہنچ کر جب میں نے کچھ راحت محسوس کی؛ تو میں نے
آسمان دنیاکی طرف سر اٹھاکر دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا سایہ فگن ہے، حضرت جبرئیل امین
علیہ السلام جلوہ افروز ہوئے، آپ کہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا جواب
سن لیاہے، آپ کے حضور پہاڑوں کا فرشتہ حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہے، حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کابیان ہے، فرشتہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: اللہ جل شانہ نے آپ
کی قوم کاجواب سن لیا، آپ ہمیں حکم فرمائیں تاکہ میں دونوں کوہ اخشب کو ان کفاروں
پر الٹ دوں مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حسن کرم دیکھئے کہ ان ظالموں کے
ظلم کی پاداش میں آپ نے انہیں کتنا اچھا صلہ دیا آپ نے فرشتہ سے جواب میں فرمایا
کہ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دو امید ہے کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ دنیامیں رونماہوں
گے جو صرف اور صرف خدا وحدہ لاشریک کی عبادت و ریاضت کریں گے، کیادنیا اس صبر وشکر
کی مثال پیش کرسکتی ہے ؟!!
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیاسی تدبر
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم امانت
داری، پارسائی اور راستبازی کی وجہ سے مقبول عوام وخواص تھے، آپ کی حکمت و دانائی
اور سیاسی تدبر کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑا الجھا ہوا مسئلہ بڑی آسانی سے سلجھا
دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ قریش نے آپ کو اپنا فیصل تسلیم کرلیا اور آپ کے فیصلے کے
آگے بڑے بڑے عقلمند، دانشور سرتسلیم خم کرتے ہوئے نظر آئے، اسی فیصلے کی ایک کڑی
تعمیر کعبہ شریف کا واقعہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موسلہ دھار بارش کی وجہ
سے حرم کعبہ میں سیلاب آگیا جس کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بالکل منہدم ہو گئی، قریش
نے از سرنو اس کی تعمیر کا ارادہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے تعمیر شروع کردی، حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک ہوئے ۔ جب عمارت مقام حجر اسود
تک مکمل ہو گئی؛ تو ایک اہم مسئلہ حجر اسود کے نصب کرنے کا پیش آیا، قریش مکہ کا ہر
قبیلہ خواہشمند تھا کہ ہمیں یہ شرف حاصل ہو، بظاہر کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی تھی،
جس سے ہر قبیلہ کو حجر اسود نصب کرنے کا شرف حاصل ہوجائے؛ اس لئے قبائل میں یہ اختلاف
طول پکڑتاگیا اورلوگ اس کے لئے مرمٹنے پرتیارہوگئے اور اپنی بات کو مضبوط و پختہ کرنے
کے لئے دورجاہلیت کاطریقہ کار اختیار کیا اور پیالہ میں خون بھر کر اس میں انگلی ڈوبانے
لگے ۔ چنانچہ اسی پس وپیش میں چارپانچ دن گزر گئے، ایک بزرگ شخص نے مشورہ دیا کہ کل
جوشخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا وہی ہمارافیصل ہوگا۔ خدا کی مرضی جب صبح نمودار
ہوئی؛ تو سب سے پہلے آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حرم کعبہ میں داخل ہوئے
۔ قریش آپ کو دیکھ کر خوشی سے امین امین کہ کرپکارنے لگے، اور انہیں یقین ہو چلاکہ
یہ ہمارے امین ہیں، یہ ضرور ایسا فیصلہ فرمائیں گے جس سے ہر قبیلہ متفق ہوجائے گا اور
کسی کی دل آزاری نہ ہوگی۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے حکمت و دانائی
اور سیاسی تدبر کی وجہ سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ ہر ایک نے سر تسلیم خم کردیا۔ آپ نے
فرمایاکہ جتنے قبیلے اس اعجاز کے لئے کوشاں ہیں، ان میں کا سردار آگے بڑھے، حکم کے
مطابق عمل ہوا ۔آپ نے اپنی چادرمبارک بچھادی اور اس پر حجر اسود کورکھ دیا، تمام قبائل
چادر مبارک کو اٹھاکر مقام حجر اسود کے قریب پہنچے؛ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
نے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ نصب کردیا۔اس طرح ایک اختلاف جو خون خرابے کی شکل
اختیار کرتا جارہاتھا، بہت آسانی سے ختم ہوگیا ۔
اسی طرح بہت سے معاملات میں آپ نے اپنی
حکمت عملی اور دوررس نگاہ سے ایسا فیصلہ کیا کہ ہر چہار جانب اس کی ستائش ہوئی۔ اسی
کی ایک اورکڑی صلح حدیبیہ بھی ہے ۔اس میں کفار کی جانب سے ایسے معاہدہ تیار کئے گئے،
جس سے بظاہر اسلام کی ہتک اور بے عزتی کی جھلک محسوس ہوتی تھی، جس کی بناپر بعض صحابہ
نے اپنی خفگی کا بھی اظہارکیا مگرحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دور رس نتائج کو
مدنظر رکھتے ہوئے معاہدہ کو تسلیم کرتے ہوئے دستخط کردیا۔خداکی شان معاہدہ کے بعد کثیرتعدادمیں
لوگ مشرف بااسلام ہونے لگے اور یہی معاہدہ جو بظاہر اسلام کی خفگی کاباعث تھا فتح مکہ
کاسبب بنا۔ اور اسی کے متعلق سورہ فتح میں ارشاد ہوا: ((انافتحنالک
فتحامبینا))
حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو محسن انسانیت ، پیکر جود و کرم اور رحمت عالم بنا کر
بھیجاتھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((وماارسلنٰک الارحمۃ
للعالمین))آپ انسان وحیوان، ہر ایک سے محبت کرتے اور ان کے
ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، آپ نے الفت ومحبت، حسن سلوک کا وہ نظریہ پیش کیا جس کی
نظیر رہتی دنیا تک نہیں دی جاسکتی ۔ آپ کے حسن سلوک کو احادیث کی روشنی میں ملاحظہ
کرتے ہیں:
ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھے، ایک اعرابی حاضر خدمت ہوئے اور
کچھ مدد کرنے کی درخواست کی، آپ نے عنایت فرمادیا اور ساتھ ہی کہا: میں نے تم پر احسان
کیا، اس نے کہا آپ نے اچھا نہ کیا، اس کی زبان درازی پر صحابہ کرام غصہ میں اس کی
طرف بڑھے تاکہ اس کو بے ادبی کی سزا دیں، مگر آپ کی شفقت ومحبت نے انہیں ایسا کرنے
سے روک دیا، پھر گھر تشریف لےگئے اور اس اعرابی کو پھر کچھ عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا:
میں نے تمہارے ساتھ بھلائی کی، اس نے کہا: ہاں اللہ جل جلالہ آپ کو آپ کے اہل وعیال
کو جزاے خیر عطا فرمائے، آپ نے ارشاد فرمایا: اگر تم پسند کرو تو میرے اصحاب کے رو
برو یہی جملہ کہ دو تاکہ پہلی گفتگو کے سبب جو ان کے دل میں تمہارے تعلق سے کدورت پیدا
ہوگئی ہے، وہ ختم ہوجائے، پھر دوسرے دن یا شام کو وہی اعرابی آیا، آپ نے ارشاد فرمایا
کہ اس اعرابی نے جو کہا اس کو میں نے نظر انداز کیا اور مزید عطاکردیا، تو اس نے سمجھاکہ
میں راضی ہو گیا، آپ نے اعرابی سے ارشاد فرمایا کہ کیا ایسا نہیں ہے؟ اس نے جواب میں
کہا: ہاں، اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو جزاے خیر عطا فرمائے ۔ پھو آپ گویا ہوئے اور فرمایا: میری اور
اس اعرابی کی مثال بالکل اس شخص کی طرح ہے جس کی اونٹنی بدک کر بھاگ نکلی اور لوگ اس
کو پکڑنے کے لئے دوڑے، تو وہ اونٹنی رکنے کے بجائے بھاگتی ہوئی مزید دور نکل گئی، اونٹی
کے مالک نے لوگوں کو آواز دی اور کہا اوٹنی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو، میں تم سے زیادہ
اس پر رحم دل ہوں، پھر مالک اس کی جانب متوجہ ہوا، کسی گروہ نے اسے پکڑ کر مالک کے
حوالے کردیا، اس نے اونٹنی کو بٹھایا اور کجاوہ باندھ کر سوار ہو گیا، حضور نے فرمایا:
اگر میں تمہیں روکتا نہیں تو تم اس اعرابی کو قتل کردیتے اور جہنم رسید ہوتے۔ (انسان
کامل)
یعنی جس طرح یہ اوٹنی کا مالک اس کے ساتھ
نرمی سے پیش آیا اور اوٹنی قبضہ میں آگئی، اسی طرح آپ اس اعرابی کے ساتھ حسن سلوک
سے پیش آئے تو وہ آپ کا فرمانبردار اور شکر گزارہوگیا ۔اگر اوٹنی کا مالک پیچھا کرنے
والوں کو نہ روک لیتا؛ تو اوٹنی غائب بھی ہو جاتی اور لوگ اس کے پیچھے سرگرداں رہتے،
اسی طرح اگر آپ اپنے اصحاب کو نہ روکتے تو وہ اعرابی ہلاک ہو جاتا اور اس کے جرم میں
جہنم کے مستحق ہوجاتے ۔آپ نے اپنے حسن سلوک سے اپنے اصحاب اور اعرابی دونوں کو ہلاکت
سے بچالیا ۔ اس طرح کی بہت سی احادیث آپ کے اخلاق کریمانہ پر شاہد عدل ہیں ۔
اسی طرح سے آپ اپنے اہل وعیال کے ساتھ
خوش دلی سے پیش آتے اور گھر کے کام خود ہی انجام دیتے، مریضوں کی عیادت کرتے، بچوں
سے انسیت رکھتے، انسان تو انسان آپ حیوانوں سے بھی محبت کرتے ۔اور لوگوںکو منع کرتے
کہ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیں اور وقت پر کھانا دیں، اس طرح کی کثیر تعداد
میں احادیث موجود ہیں جومحسن انسانیت حضور صلی اللہ تعالیٰ کے حسن سلوک پر شاہد و عادل
ہیں، ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ رحمۃ للعالمین ہیں۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کا اسوہ حسنہ ہی اپناکر انسان ترقی کی طرف گامزن ہوسکتاہے، آج قوم مسلم پستی اور انحطاطی
دور سے گزر رہی ہے، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے خدائی قوانین پر عمل کرنا ترک کردیاہے،
بے شک کوئی بھی قوم خداے جل و اعلی کی نافرمانی کر کے ارتقائی منزل طے نہیں کرسکتی،
کل کا مسلمان خدا اور اس کے رسول کے احکام کاپابند تھا، جس کی وجہ سے انہیں روحانی
سکون اور جد وجہد کا حوصلہ میسر تھا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ
حسنہ اور انہیں کے نقش قدم پر چل کرکے عظیم سے عظیم معرکہ سر کرلیا، قیصر وکسری جیسے
عظیم بادشاہوں کو زیر کرلیا، اسی اخلاق حسنہ کی بنیاد پر اسلام عرب کی سرزمین سے نکل
کرساری دنیامیں پھیلتا گیا۔ اسلام نے اپنے پاکیزہ قوانین ہی کی بنیاد پر لوگوں کے دلوںمیں
گھر کرلیا، جب تک مسلمان اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کابند رہا، دینا اس کے پیچھے
بھاگتی رہی اور مسلمان ہر شعبہ جات میں ارتقائی منزلیں طے کرتارہا، مگر جب مسلمان کی
نگاہ دنیا کی لذتوں اور بے جا خواہشات پر مرکوز ہو کر رہ گئی اور اسلامی قوانین کی
پرواہ نہ رہی، لوگ بے عمل ہوتے گئے، وہیں سے مسلمان کے انحطاطی دور کا آغاز ہوا، بندوں
کو خدانے اپنی عبادت کے لئے پید اکیا مگر انہیں برتنے کی مہلت بھی دی؛ تاکہ انسان کو
زندگی کے ہر پر پیچ مراحل طے کرنے میں آسانی ہو، مگر یہ انسان خدا کو یکسر ہی بھول
گیا اور دنیاکی رنگینیوںمیں کھوگیا، ظاہر ہے کہ اس نافرمانی کی سزا ملنی ہی تھی۔ آج
اگر کوئی بادشاہ بلکہ ادنی سا لیڈر حکم کر دے اور اس کی بجا آوری نہ ہو؛ تو انسان
اس کے عتاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ پر وہ خدا وحدہ لاشریک جو مالک مطلق، ساری دنیا کا
پالنہار ہے، اس کی نافرمانی کی جائے تو کیا اسے سزادینے کا حق نہیں!؟ یقینا ہے، یہ
خداکی خاموش لاٹھی ہے جو آج مسلمان معاشی، ٹیکنالوجی، تعلیمی، ثقافتی، سیاسی، ہر اعتبار
سے انحطاط کا شکار ہے۔ آج مسلمان اگر خدا اور اس کے رسول کے احکام پر کاربند ہوجائے
اور حضور اور ان کے صحابہ کرام کے لائحہ عمل کو اپنا لے اور اسی کی روشنی پر عمل کرے؛
تو دنیا کا کوئی ایسا شعبہ نہ ہو گا، جہاںمسلمانوں کی پکڑ مضبوط نہ ہو، خواہ وہ سیاست
کا میدان ہو یاتعلیمی عروج وارتقا کا معاملہ، ہر میدان میں مسلمان کا سر بلند ہوگا،
مگر اس کے لئے شرط ہے کہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل پیرا ہوجائے اور
حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام کے طریقہ کار کو مطمح نظر
رکھے۔ اس کے بغیر مسلمان کے لئے دنیوی و اخروی،
دونوں اعتبار سے ارتقائی منزل طے کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إن الحکم إلا للہ﴾ دوسری
جگہ ارشاد فرماتاہے: ﴿ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنه فانتھوا﴾ حدیث پاک
ہے: ((أصحابي کالنجوم فبأیھم
اقتدیتم اھتدیتم)) بے شک یہ کامیابی کاراز ہے، اس سے الگ ہو کر
رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
آج بھی ہو گر براہیم سا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
انتباہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اخلاق و
کردار ایثار و قربانی انسان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے مشعل راہ ہیں، مگر
ہم ہیں کہ انہیں فراموش کیے ہوئے ہیں، قوم مسلم جب تک حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم اور ان کے اصحاب کے طریقہ کار کو اپنائے رہی، منزل بہ منزل ترقی کرتی گئی اور
زندگی کے ہر شعبہ میں اس نے نمایا ں کام انجام دیا، جسے رہتی دنیا تک یاد کیاجاتارہے
گا، لیکن جیسے ہی اس قوم نے حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے
طریقہ کار کو پس پشت ڈالا اور ان کو اپنا آیڈیل بنانے کے بجائے کفار ومشرکین کو آئڈیل
بنایا، ان کی تقلید کی، وہیں سے یہ قوم زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی اور اس حد تک انحطاط
پذیر ہوئی کہ تاریخ کے اس سیاہ دور کو آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا، ہمارے بعد آنے
والی نسلیں اس دور کو دور سیاہ کے طور پر یاد کریں گی؛ لہذا اے قوم مسلم! اگر تم چاہتے
ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والی نسلیں ہماری طرح یہود ونصاری کی تقلید کرکے تباہی کے دہانے
پر نہ پہنچیں اور اہپنے اسلاف کو کوسنے کے بجائے، خود ان کی اقتدا کرکے نمایاں کام
انجام دے سکیں؛ تو ابھی بھی وقت ہے، احکام خدا اور رسول کے پابند ہوجاؤ، اللہ کے رسول
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب نے جو نقوش قدم چھوڑے ہیں، اسی کو لائحہ
عمل بناؤ تاکہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکیں اور آنے والی نسلیں اپنے اسلاف پر
سر پیٹنے کے بجاے خوشی کے ترانے گنگناسکیں۔
اس دورکے ارباب حل وعقد مسلم قوم کے زوال
پذیر ہونے کی کوئی بھی وجہ بتائیں مگر اس امر سے قطعا چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ اس
انحطاطی دور سے گزرنے کی خاص وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے
کے بجائے یہود ونصاری کی اقتدا کی ہے۔ جو قوم مسلم کے سب سے بڑے دشمن ہیں، یہ قوم کب
چاہے گی کہ مسلمان خوش حال رہیں اور ترقی کی طرف گامزن ہوں، چنانچہ اپنے مکر و فریب
کے جال میں ایسا پھنسایا کہ آج مسلمان کفار ومشرکین کی طرف جھکنے کے لئے مجبور ہو
گئے، ہر قدم پر ان کے محتاج ہو گئے، اتنا ہی نہیں بلکہ ان سے اس قدر متأثر ہوئے کہ
احکام خدا اور رسول کو بھول گئے، اور اپنی ہیئت و حالت ایسی بنائی کہ بظاہر انہیں دیکھ
کر مسلمان نہیں کہا جاسکتا، کل جو قوم اپنے اخلاق و کردار سے دوسروں پر اثر اندا ز
ہو کر، انہیں اپنا گرویدہ کرلیتی تھی اور ان کے حسن سلوک ہی کا نتیجہ تھا کہ کفار ان
سے متاثر ہو کر بآسانی حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے، مگر آج اسی قوم کا یہ حال ہے کہ دوسرے
پر اثر انداز ہونا تو بہت دور کی بات ہے، خود اسے اپنا ایمان بچانا مشکل ہو گیاہے،
اف کیا حالت ہے مسلمانوں کی، آج بھی قوم مسلم آنکھ کھولے اور احکام خدا وندی پر عامل
ہوجائے، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے نقوش فکر کو اپنائے
اور اسی کے حساب سے لائحہ عمل تیارکرے؛ تو ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور اسے زندگی کے تمام
شعبہ جات میں کامیابی ملے گی، خواہ اس کاتعلق تعلیم و تعلم یا سیاست وصنعت سے ہو، خواہ
تخلیقی کارنامے انجام دینے کا میدان ہو یا جدید ٹیکنالوجی کا میدان، اس طور سے قوم
مسلم اپنے سیاہ دور کا کافی حد تک مدوا کر
سکے گی، یقین جانئے قوم مسلم رسول دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب
کے طریقہ کار کو چھوڑ کر، ان کو نظر انداز کرکے کبھی کامیاب و کامران نہیں ہوسکتی،
ان کے لائحہ عمل اپنائے بغیر عروج و ارتقا کا خواب دیکھنا، ہوا میں محل تعمیر کرنے
کے مترادف ہوگا، سنبھل جائیے ابھی بھی وقت ہے:
تو شمع کے مانند
اگر خود کو جلادے
بن جائے تو تہذیب حجازی کا نگہباں
تو نقش کف سید کونین پہ مر مٹ
پھر ہیں تیرے خدام یہ سب عالم امکاں
(بدر
القادری)
ابوعاتکہ
ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل
جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی
فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل:
8318177138
(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی
تعلیم کے دوران (2006-2007) صدیق محترم حضرت مولانا مفتی کہف الوی نیپالی مصباحی زید علمہ کی
نگرانی میں لکھا گیا)
No comments:
Post a Comment