دنیا مختلف
مخلوقات کی آماجگاہ ہے، ان تمام مخلوقات میں سے انسان کو اللہ رب العزت نے اعلی و
اشرف بنا یا، اور انسان کو اسی عقل و شعور کی بنا پر تمام مخلوقات سے ممتاز فرمایا۔
پھر انہیں انسانوں میں سے بعض افراد کو نبوت سے سرفراز کر کے تمام انسانوں سے ممتاز
کردیا، ساتھ ہی انہیں احکام الہی کی تبلیغ کی اہم ذمہ داری دی گئی جس کو انبیائے کرام
علیہم الصلاۃ و السلام نے بخوبی انجام دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انبیا علیہم الصلاۃ
و السلام کا سلسلہ منقطع ہوگیا، اور احکام الہی کی تبلیغ اور اشاعت جیسی عظیم مہم کے
لئے صحابہ کرام، علمائے عظام کو چنا گیا، جنہوں نے انبیا علیہم الصلاۃ و السلام کے
وارث ہونے کا حق ادا کیا۔ اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام
کو پہونچاکر لوگوں کو حق سے روشناش کرایا، آج بھی علمائے کرام اپنے اسلاف کے نقش قدم
پر چل کر اس عظیم فریضہ کو انجام دے رہے ہیں، اور ان شاء اللہ تا قیامت انجام دیتے
رہیں گے، علما اور صوفیا ہی کا عظیم کارنامہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مدارس کی شکل
میں اسلامی قلعے نظر آتے ہیں، علما کی اہمیت و افادیت ایک مسلم حقیقت ہے جسے نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا، مگر وقت کی ستم ظریفی ہے کہ جس طرح کچھ غیر مسلم فرقہ پرست جماعتوں
کو مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے، اور ان کے خلاف ہمیشہ بر سر پیکار رہتے ہیں، اسی طرح
خود کو سیکولر مزاج باور کرانے والے مسلم شر پسند عناصر علما کی شبیہ خراب کرنے پر
لگے ہوئے ہیں۔
علما کے
تعلق سے ان کے خیالات کچھ اس طرح ہوتے ہیں:’’یہ ملا اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں
اور وقت کا المیہ ہے کہ یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، عالم و علما عوام کو تعلیم سے آگاہ
کرکے ترقی دلانا نہیں چاہتے‘‘ ۔
سوال یہ ہے کہ وہ انبیا کرام جن
کا مشن ہی یہی ہو کہ وہ بندگان خدا کو تعلیم دیں، اور اور جہالت کی تاریکی اور پسماندگی
کی ذلت سے نکال کر انہیں تعلیم و ترقی کی نعمت سے سرفراز کریں؛ تاکہ حق کی سربلندی
ہو، اب جو ان کا وارث ہوگا تو کیا وہ اسلام کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے؟ کیا وہ ملت کو اندھیرے
میں رکھ کر اپنی ترقی چاہے گا؟ کیا قرآن وحدیث
کی روشنی میں تعلیم یافتہ شخص اپنی قوم کا بدخواہ ہوسکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، اگر یہ
اسلام کے لئے خطرہ ہوتے تو وہ تبلیغ اسلام کا کام اتنی خوش اسلوبی سے انجام نہیں دیتے،
ان کے ہاتھوں قائم کئے گئے مدارس اسلامیہ کی شکل میں نورانی قلعے عالم وجود میں نہیں
آتے، مگر:
ع دیدہ کو ر کو کیا نظر آئے کیا دیکھے
علما کی
عظمت و رفعت، تقوی و پرہیز گاری اور قوم و ملت کی خیر خواہی پر اللہ اور اس کے رسول
کے فرمان عالی شان شاہد عدل ہیں، جن کی عظمت و رفعت پر قرآن و حدیث گواہ ہوں وہ مذہب
اسلام کے لئے ہرگز خطرہ نہیں ہوسکتے، وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو پستی میں ہرگز نہیں
ڈال سکتے۔
قارئین
علما کی عظمت شان اور ان کے اخلاق و کردار کو قرآن و حدیث کے حوالہ سے آنے والی سطور
میں ملاحظہ کریں؛ تاکہ معلوم ہو کہ یہ علما ہی قوم ملت کی جان ہیں:
اللہ رب
العزت فرماتا ہے: ((اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں
نہ ہوکہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر
اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں)) (توبۃ:۹، آیت:۱۲۲)
وہ گروہ
علمائے کرام ہی کا ہے جو صدیوں سے اس کار خیر کو انجام دے رہا ہے، اور تشنگان علوم
نبویہ ان کے منبع علم و حکمت سے فیض یاب ہورہے ہیں، عوام و خواص ان کی صحبت، تقریر
و تحریر سے صالح عقائد و نظریات کے حامل ہیں، علما ہی کے ذریعہ انہیں معلوم ہوتا ہے
کہ خوف خدا کیا ہے، اور اس کے رسول ﷺ کی عزت و حرمت کیا چیز ہے، ایسا کیوں نہ ہو کہ
تقوی ان کا شعار ہے، اللہ تعالی ان کی تقوی اور پرہیزگاری بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا
ہے: ((اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں)) (فاطر: ۳۵، آیت: ۲۸) اور اللہ سے ڈرنے کا نتیجہ کتنا
خوش آئند ہے، ملاحظہ فرمائیں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے: ((اور وہ جو اپنے رب
کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا، اور نفس کو خواہش سے روکا تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے)) (النٰزعٰت:۷۹، آیت: ۴۰–۴۱)
چونکہ علمائے
کرام اپنے دل میں خدا کا خوف رکھتے ہیں؛ اس لئے یہ جو فیصلہ کریں گے، قرآن و حدیث
کی روشنی میں ہی کریں گے، ان کا حکم قابل عمل ہوگا؛ اس لئے خدائے تعالی ان کی اطاعت
و فرمابرداری کا حکم دیتا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ((اے ایمان والو اللہ کی اطاعت
کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں عالم ہیں ان کی اطاعت و فرماں برداری کرو))
(پ۵ع ۶)
احادیث
کریمہ علما کے فضائل و مناقب میں کثرت سے وارد ہیں، میں ان میں سے یہاں چند احادیث
ذکر کرتا ہوں:
حضور نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک عالم دین کے لئے آسمانوں اور زمین کی چیزیں اور مچھلیاں
پانی میں دعائے مغفرت کرتی ہیں، اور یقینا عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسی چودہویں
رات کے چاند کی فضیلت، تمام ستاروں پر، اور بے شک علما انبیا کے وارث ہیں، اور انبیائے
کرام نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم کو وراثت میں چھوڑا
ہے، جس نے علم حاصل کرلیا، اس نے پورا حصہ پالیا (مسند احمد و سنن ترمذی)
یہ علما
ہی کی شان ہے کہ ان کے لئے مچھلیاں بلکہ سارا جہان، ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے؛
کیوں کہ نظام عالم کا وجود، علم دین ہی کی برکت سے ہے، اور حدیث شریف میں حضور نبی
کریم ﷺ نے خاص طور سے مچھلیوں کا تذکرہ اس لئے فرمایا؛ کیونکہ علمائے حق کی برکت سے
ان پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے اور انہیں رزق عطا کی جاتی ہے، نیز حضور نبی کریم
ﷺ معلم بناکر بھیجے گئے؛ اسی لئے آپ نے علم کی مجلس کو زاہد کی مجلس پر ترجیح دی،
اور ان دو مجلسوں میں سے علم کی مجلس کو اختیار کیا، چونکہ حضور ﷺ کا مقصد حیات تعلیم
و تعلم تھا؛، اس لئے آپ کے جانشین و وارث علمائے کرام ہوئے، حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’علما دنیا
کے چراغ، انبیاکے جانشیں، اور میرے و دیگر انبیا کے وارث ہیں‘‘۔ (کامل، ابن عدی، ۷۱)
فتنہ سے
ٹکرانے کی سکت عالم میں جتنی ہوتی ہے، وہ ایک عابد و زاہد میں نہیں ہوتی؛ اسی لئے جب
فتنہ برپا ہوگا تو عبادت کے محل کو تاراج کردے گا، مگر عالم اپنے علم کی بدولت فتنہ
پر غالب آجائے گا، مدنی تاجدار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’بے شک فتنہ اٹھے گا، تو عبادت
کے محل کو پورے طور پر ڈھا دے گا، اور عالم اپنے علم کی بدولت اس فتنہ سے نجات پائے
گا‘‘۔ (حلیہ، ابو نعیم، ۷۳)
حضور سرور
کائنات ﷺ ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’عالم کی فضیلت عابد پر ستر درجہ ہے،
ہر درجہ کے درمیان ستر سال گھوڑا دوڑنے کے برابر فرق ہے، اور وہ اس لئے کہ شیطان لوگوں
کے لئے بد مذہبی پیدا کرتا ہے، تو عالم اسے دیکھ کر مٹادیتا ہے، اور عابد عبادت میں
مشغول رہتا ہے، ادھر متوجہ نہیں ہوتا، اور نہ بدمذہبی کو پہچانتا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر
:ج۱ص ۲۷۵)
جس طرع
آج اس دارفانی میں لوگوں کو عالم کی ضرورت ہے، اور لوگ ان کی طرف جوق در جوق حصول
علم کے لئے اور اپنے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لئے دور دراز مقام سے آرہے ہیں،
کل دار جاودانی میں بھی، انہیں عالموں کی حاجت محسوس ہوگی، اس سے علما کی عزت و وقار
کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں کس حدتک محبوب رکھتا ہے، آقائے
دوجہاں ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جنتی یقینا
جنت میں علما کے محتاج ہونگے، اور اہ اس لئے کہ ہر جمعہ اللہ کے دیدار سے سرفراز ہونگے،
تو خدائے تعالی ان سے فرمائے گا: جس کی چاہو تمنا کرو، وہ علما کے پاس جائیں گے اور
ان سے پوچھیں گے: ہم کس چیز کی تمنا کریں؟ علما خدائے تعالی سے کہیں گے: ایسی ایسی
تمنا کرو، تو جنتی جنت میں عالموں کے محتاج ہونگے جیسا کہ دنیا میں وہ ان کے محتاج
ہیں‘‘۔ (ابن عساکر)
دوسری حدیث
پاک میں ہے، جو شخص درس و تدریس یا تصنیف و تالیف سے علم دین کی نشرو اشاعت کرے گا،
وہ قیامت کے دن بڑی شان و شوکت اور جاہ و حشمت کے ساتھ آئے گا، اور اس عزت و وقار
کے حقدار علما ہیں؛ کیونکہ یہی وہ افراد ہیں جو تن، من اور دھن سے علم کے دین کی اشاعت
میں لگے ہوئے ہیں، الا ماشاء اللہ۔
حضور پر
نور ﷺ فرماتے ہیں: ’’کیا تم لوگ جانتے ہو، سب سے بڑا سخی کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ
سب سے بڑا سخی ہے، پھر انسان میں سب سے زیادہ سخی میں ہوں، اور میرے بعد سب سے زیادہ
سخی وہ شخص ہے جس نے علم دین حاصل کیا، پھر اس کو پھیلایا، وہ اکیلا یا جماعت کی حیثیت
سے امیر ہوکر آئے گا‘‘۔ (بیہقی: ۸۶)
مگر یہ
خوبیاں، بشارتیں اور جہاں کی مغفرت کرنا صرف انہیں علما کے لئے ہے جو احکام شریعت پر
کاربند ہوں، اپنے علم کے مطابق عمل کریں، دوسروں کو تنبیہ کرنے کے ساتھ اپنی ذات کو
بھی پاک اور منزہ رکھیں، ایسے عالم جو خود عمل نہیں کرتے، اور دوسروں کو حسنات کی ترغیب
نہیں دیتے وہ ان بشارتوں کے مستحق نہیں ہیں، چنانچہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں
اس منفی پہلو کو بھی اجاگر کردیا گیا ہے؛ تاکہ وہ علما جو شریعت و طریقت کی بات تو
کرتے ہیں، اور زبان و بیان کے غازی کہلاتے ہیں، مگر عملی دنیا میں ان کا کوئی خاص کردار
نہیں ہوتا، وہ ان آیات اور احادیث سے عبرت حاصل کریں، آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں:
((قیامت کے دن سب سے سخت عذاب والا وہ عالم ہوگا جسے اس کے علم نے فائدہ نہیں دیا‘‘۔
(سنن ابی داود)
دوسری حدیث
شریف میں فرماتے ہیں: ’’قیامت کے دن زیادہ افسوس کرنے والا وہ شخص ہوگا جس نے علم تو
حاصل کرلیا، مگر خود اس نے اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھایا، اور دوسروں نے اس سے سن
کر فائدہ اٹھالیا‘‘۔ (ابن عساکر)
بے عمل
عالم کو اس کے علم کا ثواب نہیں ملے گا خواہ وہ کتنا ہی علم جمع کرلے، رسول کریم ﷺ
ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو علم چاہو حاصل کرو مگر خدا کی قسم تمہیں علم جمع کرنے پر ثواب
نہیں دیا جائے گا، یہاں تک کہ عمل کرو، یعنی عمل کرنے ہی پر ثواب دیا جائے گا ، صرف
علم جمع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ (امالی، ابوالحسن)
اور وہ
علما جو دوسروں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور خود کی اصلاح نہیں کرتے، ان کے بارے
میں حدیث پاک جو کہتی ہے، وہ دیدہ عبرت سے پڑھنے کے قابل ہے، آقائے کریم ﷺ ارشاد فرماتے
ہیں: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو جہنم میں لاکر ڈال دیا جائے گا، جس کی وجہ سے اس کی
آنتیں فورا پیٹ سے نکل کر آگ میں گر پڑیں گی، پھر وہ انہیں پیسے گا، یعنی ان کے گرد
چکر کاٹے گا، جیسے پن چکی کا گدھا آٹا پیستا ہے، دوزخی یہ دیکھ کر اس کے پاس جمع ہوجائیں
گے، اور اس سے کہیں گے : اے فلاں، تیرا کیا حال ہے، یعنی تو یہ کیا کر رہا ہے؟ کیا
تو ہم کو نیک کام کرنے اور برے کام سے باز رہنے کا حکم نہیں دیتا تھا؟ وہ شخص کہے گا:
ہاں، میں تم کو نیک کام کام حکم دیتا تھا اور خود اس کو نہیں کرتا تھا، اور برے کام
سے تم کو روکتا تھا اور خود اس کوکرتا تھا‘‘۔ (متفق علیہ)
ان احادیث
کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا میں کچھ ایسے افراد بھی عالم کہلائیں گے، جن کے
اندر عمل کا نام و نشان نہ ہوگا، جس کے باعث وہ عذاب کے مستحق ہونگے۔
یہ ایک
مسلم حقیقت ہے کہ ہر شعبہ، ہر جماعت، اور ہر قوم میں کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں، جو اس
شعبہ یا جماعت کی قابل اتباع شخصیت نہیں کہی جاسکتی، مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے
ہیں، جن کی اتباع کرتے ہوئے ہمیں فخر محسوس ہوتاہے، یہیں سے یہ امر بھی ظاہر ہوکر سامنے
آگیا کہ کچھ افراد کی تساہلی اور بے اعتنائی کی وجہ سے پوری قوم، شعبہ یا جماعت کو
بے راہ روی شکار نہیں کہا جاسکتا، اگر ایسا ہوجائے تو کوئی قوم، اور شعبہ اس الزام
سے بری نہیں ملے گا، جو لوگ ایسے خیالات کے حامل یا حامی ہیں یقینا وہ دانشمندانہ راہ
کی طرف گامزن نہیں، انہیں اس طرح کے خیالات فاسدہ سے بچنے کی ضرورت ہے، خاص طور سے
اس جماعت کے تعلق سے جو دین متین کی ترویج و اشاعت میں منہمک ہے، ذرا سوچو تو سہی اگر
ان علما کا ہر جگہ پایا جانا ہی کسی کے نزدیک وقت کا المیہ ہے؛ تو مجھے افسوس کے ساتھ
یہی کہنا پڑے گا، مہد سے لحد تک، اور پیدائش سے موت تک اس خود ساختہ المیہ کی چکی میں
پستے رہنا ہوگا، اور کسی پہلو سکون میسر نہ ہوگا، اگر یہ علمائے کرام اسلام و مسلمین
کی حفاظت نہیں کریں گے تو پھر اسلام و مسلین کا محافظ کون ہوگا؟!
کیا دنیا
کے سکولر مزاج سیاستدان، پروفیسر، اور ڈاکٹر سے اس کار خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟ علما
امت مسلمہ کی جان ہیں، انہیں کے دم قدم سے ہر چہار سو دنیا چمک دمک رہی ہے، جن لوگوں
نے علما کی مخالفت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے، وہ مذکورہ بالا قرآن و حدیث
کی روشنی میں اپنے بیمار دل و دماغ کا علاج کریں، ورنہ ان کی حیثیت کیا ہے، وہ آنے
والی حدیث کو پڑھ کر اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
’’عام بنو یا طالب علم بنو یا عالم کی
بات سننے والا بنو یا عالم سے محبت کرنے والا بنو اور پانچواں نہ بنو ورنہ ہلاک
ہوجاؤگے‘‘۔ (مسند البزار)
دوسری حدیث شریف میں ہے: ’’بے شک اللہ
تعالی نے فرمایا: جس نے میرے پسندیدہ بندہ سے دشمنی کی تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان
کیا‘‘۔
ہم نے حسین خوابوں کی تعبیر کے لئے
جو لوگ محو خواب تھے ان کو جگا دیا
بلکہ قوم
جماعت اور شعبہ کی بات تو دور ہے، شاید ان خیالات کے متحمل افراد کا اپنا گھر صالح
افراد پر مشتمل نہ ہو، اگر فردا فردا تجزیہ کیا جائے؛ تو کسی قوم، جماعت یا شعبہ کی
بات تو دور کی ہے ان فاسد خیالات کے متحمل افراد کا خود اپنا گھر بھی ان شعلوں کی لپٹ سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔
اے چشم اشک بار دیکھ تو سہی
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
ابوعاتکہ
ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل
جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی
فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل:
8318177138
نوٹ: (یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور
میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) صدیق محترم حضرت مولانا مفتی کہف الوی نیپالی مصباحی زید
علمہ کی نگرانی میں سہار اخبار میں علما کے خلاف چھپی ہوئی غلط فہمی کے ازالہ کے
لیے لکھا گیا تھا)
No comments:
Post a Comment