Thursday, November 7, 2019

احساس ذمہ داری اور عملی اقدام وقت کی اہم ضرورت

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أمابعد!
فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
((ألاکلکم راع وکلکم مسئول عن رعییتہ))
            اس حدیث کی روشنی میں کچھ عرض کرنے سے قبل آیئے ہم اور آپ مل کرنہایت ہی عقیدت کے ساتھ حضور آقاے نامدار دونوں عالم کے مالک و مختار کی بارگاہ بے کس پناہ میں درود وسلام کا نذرانہ پیش کریں: اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد معدن الجود و الکرم و آلہ الکرام و ابنہ الکرام و بارک و سلم۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اسے   جتناہی   دباؤ گے   اتناہی   ابھرے  گا
اسلام  تیری  نبض  نہ   ڈوبے  گی  حشر   تک
تیری  رگوں میں خون  رواں  ہے  چار  یار کا
            میری پیاری ماؤں اور بہنو! میں نے جس حدیث کے پڑھنے کاشرف حاصل کیاہے، اس کاترجمہ یہ ہے کہ یاد رکھو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی یعنی ذمہ داروں سے ان کی اولاد کے بارے میں سوال ہوگا کہ آپ نے اپنے بچوں کو کس راستے پر ڈالاتھا، انہیں کیسی تعلیم دی تھی ؟
            والدین سے پہلے سوال ہوگا؛ کیونکہ بچوں کے بناؤ بگاڑ پر سب سے زیادہ اثر انداز والدین ہی ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ یہی بچوں کی شخصیت میں رنگ و روغن بھرتے ہیں، شکل و صورت کی طرح ان کے اخلاق و عادات، خیالات و  احساسات، جذبات ومیلانات پر بھی والدین ہی کا اثر پڑتاہے۔ بچے جو کچھ والدین خصوصا ماں کی گود میں سیکھ لیتے ہیں، ساری زندگی اس کی گہری چھاپ برقرار رہتی ہے؛ اسی وجہ سے تربیت کی اصل ذمہ داری انہیں پر ڈالی گئی ہے؛ اسی لئے اس ضمن میں زیادہ ذمہ دسری والدہ ہی پر عائد ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں پر بھی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائدہوتی ہے ۔
            دادی اور نانی کی ذمہ داری قابل ذکرہے چونکہ یہ اپنی عمر کے لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں؛ اس لئے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں ۔آپ اپنے چھوٹوں کے لئے نمونہ عمل ہیں، اگر آپ کا قدم صحیح راستے پر ہو؛ تو آپ کے گھر کی بچیوں کاراستہ بھی ٹھیک ہوگا اور آپ کے بگڑ جانے کی صورت میں گھر کی بچیاں بھی بگڑ جائیں گی، آپ گھر کی نگراںہیں ۔اسی لئے اپنی نگرانی اسی طرح انجام دیجئے کہ صبح سویرے اٹھئے اپنی پوتیوں، نواسیوں کو بھی بیدار کیجئے، دیگر ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد خود وضو کیجئے، انہیں وضو کی تلقین کیجئے، پھر انہیں ساتھ لے کر نماز ادا کیجئے، اسی طرح دوسری نماز میں بھی پاکی کے ساتھ نماز ادا کیجئے، ان کی تعلیم وتربیت کا جائزہ لیں اور اپنے مرتبے کے لحاظ سے انہیں اسلامی قصے اور کہانیاں سنائیں تاکہ ان کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو، یہ اسی وقت ہو سکتاہے جب آپ خود تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی ہوں۔
            ماں کی ذمہ داریاں بھی بہت ہی اہم ہیں۔کہاجاتاہے کہ ماں کی گود بچے اور بچیوں کی پہلی درسگاہ ہے، اسی درسگاہ سے انہیں جیسی تعلیم وتربیت ملے گی، وہ اسی سانچے میں ڈھلیں گے ۔اس لحاظ سے ماں کی ذمہ داریاں اپنے بچوں کے لئے کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے، اس بات کو مثال کے ذریعہ سمجھئے، اگر آپ اپنی بچیوں کے ساتھ دیہاتی زبان نہ بولیں بلکہ ان کے ساتھ اردو یاکوئی دوسری زبان بولیں؛ تو ظاہرہے کہ آپ کی بچی جب بولنے کے لائق ہوگی تو اپنی دیہاتی زبان نہیں بولے گی بلکہ اردو یا دوسری زبان بولے گی، ۔بچے اور بچیوں کے اندر نقل کی صلاحیت بہت ہوتی ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس گھر کی عورتیں نماز پڑھتی ہیں، ان کے گھر کی بچیاں اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ نمازپڑھنے کی کوشش کرتی ہیں، جس گھر کی عورتیں گاتی بجاتی ہیں، ان کی بچیاں بھی بچپن ہی سے گانا بجانا سیکھ لیتی ہیں ۔اسی طرح بہنوں اور بھائیوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گھر کے ماحول اور بچوں وبچیوں کو سدھارنے کی کوشش کریں ۔
            اے میری ماؤں اور بہنو! اس دور میں بچے اور بچیوں کو تعلیم، دینی اور دنیوی دونوں ضروری ہے۔ ہمارے بچے اور بچیوںمیں دنیوی کچھ حد تک تو ٹھیک اور بچوںمیں دینی تعلیم بھی کافی حد تک ٹھیک ہے مگر بچیوںمیں بعض علاقوں کوچھوڑ کر دینی تعلیم تو بالکل پائی ہی نہیں جاتی؛ جس کی وجہ سے انہیں روز مرہ کے مسائل بھی نہیں معلوم ہوتے ہیں اور نماز میں پڑھنے کے لئے انہیں آیتیں نہیں یاد ہوتی ہیں، اس پر ہم جتنا افسوس کریں، جتنا روئیں کم ہے ۔ آج ہمارے مخالف خاص طور سے دیوبندی، وہابی کافی بڑھتے جارہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچے اور بچیوں کو ٹھوس دینی تعلیم دیتے ہیں ۔ والد ماجد حضور فقیہ ملت علیہ الرحمۃ نے اپنی آخری تقریر میں فرمایاتھا:  کیا وجہ ہے کہ ہمارے اتنے مدارس ہیں، اتنے مقرر ہیں، پھر  بھی دیوبندی بڑھتے چلے جارہے ہیں !؟ اس کا جواب انہوں نے خود ہی دیا: اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ دیوبندی، غیر مقلد اپنے بچوں اور بچیوں کو ٹھوس تعلیم دیتے ہیں، چونکہ بچوں کاذہن بالکل خالی ہوتاہے، جو انہیں بتایا جائے، پڑھایا جائے، ذہن میں بیٹھ جاتاہے، جو پوری عمر برقرار رہتاہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیوبندی وغیرہ سنیوں کے یہاں شادی کرتے ہیں؛ تاکہ انہیں اپنا ہم مذہب بنایا جاسکے؛ لہذا میری ماؤں اور بہنو! ہمیں باطل قوتوں سے ٹکرانے کے لئے اور اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے، اسلام کے قوانین کی پابندی کرنے کے لئے، خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے، ہم خاص طور سے اپنی بچیوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی خوب ٹھوس دیں اور دیوبندیوں کے عقائد معلوم کر کے، ان کے یہاں شادی کرنے سے بعض رہیں اور یہ اسی وقت ہو سکتاہے جب کہ ہم، ہماری بچیاں پڑھی لکھی ہوں؛ تاکہ ہم خداکے فرمان سے سبکدوش ہو سکیں اور اس کے عذاب سے محفوظ رہیں۔
            میری ماؤں اور بہنو! یہ یاد رکھو اگر ایک لڑکی خراب ہو گئی یا جاہل رہ گئی؛ تو پورا خاندان جاہل ہو سکتاہے، پورا خاندان برباد ہو سکتاہے؛ لہذ ابہت ضروری ہے کہ ہم اور آپ اپنی بچیوں کو دینی تعلیم دیں؛ تاکہ وہ اپنے روز کے مسائل خود ہی حل کرسکیں اور اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکیں ۔ یہی بچیاں کل ماں ہوں گی تو اگر یہ خود صحیح راستے پر نہ ہوں گی تو یہ دوسروں کو کیوں کر صحیح راستے پر لاسکتی ہیں؟! لہذا ہمیں اپنی بچیوں کو ضرور دینی تعلیم دینی چاہئے ۔ اللہ جو ستار ہے، رحمان ہے، غفارہے، قہار ہے، اس کے عذاب سے صحیح عمل کرکے اسلام کی نشر و اشاعت کرکے ہم بچیں رہیں۔
            آپ کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوگی کہ جامعۃ الزہراء، آپ کے گاؤں کے قریب ہی کھل رہاہے، اس میں آپ اپنی بچیوں کو بخوبی دینی تعلیم دے سکیں گی، آپ اس جامعۃ الزہراء کو تعاون اور مدد دیں روپئے سے کچھ کام کراکر، خاص طور سے اپنی بچیوں کو اس جامعہ میں بھیج کر اور اعلی تعلیم دے کر حضرت مولانا مسعود احمد مصباحی، مولاناریاض احمد مصباحی، مولاناسراج احمد مصباحی، نثار بھائی اور دیگر لوگوں کی نگرانی میں جامعہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتاچلاجائے اور دیکھتے ہی دیکھتے، اس جامعہ کو پورے ملک میں شہرت حاصل ہوجائے اور دور دور سے لوگ آکر اس جامعہ سے علم دین حاصل کریں اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں، ہمارامقصد صرف اور صرف اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کافروغ ہے ۔آج ہی ہمیں عہد و پیمان لے لینا چاہئے کہ ہم اپنی بچیوں کو ایسی تعلیم دیں گے کہ آنے والی جو بچی ماں بنے گی وہ جاہل نہیں ہوگی بلکہ ایک عالمہ ہوگی، جو بچی دادی یا نانی بنے گی یا بہن یا بھابی بنے گی، وہ جاہل یا بدکار نہیں ہوگی بلکہ وہ ایک فاضلہ ہوگی، عابدہ ہوگی، زاہدہ ہوگی تاکہ کل کی مائیں، دادیاں اور نانیاں اپنے بچے اور بچیوں کو خوب اچھی تعلیم دے سکیں ۔
            اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل میں اسلام کے قوانین پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطافرمائے (آمین)

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 8318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
(یہ مضمون جامعہ اشرفیہ، مبارکپور میں افتا کی تعلیم کے دوران (2006-2007) غالبا اپنی بڑی بہن دام کرمہا، اہلیہ شیخ الحدیث حضرت مولانا ریاض احمد برکاتی دام ظلہ کے لیے لکھا تھا)

2 comments:

  1. Masha Allah
    Allah azzawajal hame apni zimmedariyo ko sahih tareqe se ada krne ki taufeeq ata farmaye Aameen

    ReplyDelete

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts