دور حاضر کے ایک عالم دین نے اپنے مضمون ’’تقریروں میں موضوع روایات ایک لمحہ فکریہ‘‘ میں حدیث: اطلبوا العلم الخ کو بھی اپنے جارحانہ قلم کا نشانہ بناکر شدید ضعیف یا موضوع قرار دیا تھا ، چونکہ اس حدیث کے تعلق سے ان کی یہ رائے اکثر محدثین کی آراء کے خلاف تھی ، اس لئے میں نے اس کا صحیح حکم ثابت کر نے کے لئے ایک مضمون لکھا ، اور اس کو ماہ نامہ’’ جام نور‘‘ شمارہ مئی میں شائع کر نے کے لئے بھیجا تھا، مگر جام نور کے ایڈیٹر خوشتر نورانی صاحب کو شاید میرے پہلے مضمون جام نور شمارہ اپریل میں شائع شدہ بنام(محدثین کی نظر میںحدیث ـضعیف ایک تجزیاتی مطالعہ) کی طرح اس مضمون پر ادارتی نوٹ لگاکر اپنے ممتاز ناقد کی متعصبانہ تائید کرنے کی بھی گنجائش نظر نہیں آئی، اس لئے وہ اس مضمون کو اپنے رسالہ میں جگہ نہ دے سکے، خیر اس ادارتی نوٹ سے ہمیں اس بات کا ضرور علم ہوا کہ وہ علوم حدیث سے بھی شغف رکھتے ہیں!!! (میں اس ادارتی نوٹ کا جواب بہت پہلے دے چکا ہوں مگر شاید ہی اسے ایڈیٹر خوشتر نورانی صاحب کی بارگاہ ناز میں مقبولیت کا درجہ حاصل ہوسکے) بہر حال صحیح بات لوگوں تک پہونچانا اپنا حق بنتا ہے، اسی کے پیش نظر اب یہ مضمون ماہنامہ ’’کنزالایمان‘‘ میں شائع کرنے کے لئے بھیج ر ہا ہوں، جو قارئین کے لئے عموما اور حدیث سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خصوصا ان شاء اللہ ضرور مفید ثابت ہوگا۔
مشہورحدیث ’’اطلبوا العلم و لو بالصین‘‘
تحقیق کے آئینہ میں
مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
تقریبا دو سال قبل ’مدینۃ البعوث
الاسلامیۃ مصر‘(جامعۃ الازہر الشریف میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ کی رہائش گاہ ) میں
بعض ہندوستانی احباب کے ساتھ محو گفتگو تھا ، موضوع سخن احادیث نبی ﷺ تھا، جو مجھے
اور میرے بعض احباب کو بہت زیادہ عزیز ہے ،
دوران گفتگو ان میں سے ایک صاحب فکر و نظر میرے ’کلیۃ اصول الدین ‘ میں ہونے کی وجہ
سے میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: حدیث: ’’اطلبواالعلم ولو بالصین ‘‘ موضوع ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم کہ اس وقت میرے مطالعہ میںخاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی
رحمہ اللہ کی کتاب ’’ النکت البدیعات علی الموضوعات‘‘ آچکی تھی، میں نے اسی کتاب کے
مطالعہ کی روشنی میں اپنی یادداشت کے مطابق ان سے عرض کیا نہیں یہ حدیث موضوع نہیں
بلکہ حسن یا ضعیف ہے۔ بہر حال بات آئی اور ختم تو ہوگئی ، مگر میں نے اسی دن اپنے
دل میں عزم مصصم کرلیا تھاکہ کبھی نا کبھی میں اس حدیث پر تحقیق ضرور کروں گا ، لیکن
دروس اور بعض شواغل کی وجہ سے تقریبا دو سال گزر گئے اور میں اپنے اس عزم کو عملی جامہ
نہیں پہنا سکا ، اب دو سال کے بعد اللہ جل شانہ کے فضل و کرم سے میری یہ خواہش پوری
ہو رہی ہے۔ میں اپنی اس بحث کے ذریعہ ہندوستان کے علما، طلبہ اوردیگر لوگوں کے سامنے،
حدیث’’اطلبواالعلم الخ‘‘ کی تحقیق انیق پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں،جو انشاء اللہ
محض دعاوی اور خیانت علمی سے خالی اور دلائل وبراہین سے مزین ہوگی۔نیز اس بحث و تمحیص
سے انشاء اللہ دور حاضر کے محققین کو رہنمائی بھی ملے گی کہ تحقیق کا منہج اور حدیث
پر حکم لگا نے کا طریقہ کیا ہونا چا ہئے۔
اس حدیث پر میرے گفتگو کا طریقہ یہ ہوگا
کہ سب سے پہلے میں ابن الجوزی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ سندوں کے دارو مدار راوی ’ابو
عاتکہ‘ پر کلام کروںگا، اس کے بعد دوسری دو سندوں کے بعـض
راویوں پر بھی کلام کروںگا ، اس کلام کے درمیان جو الفاظ جرح و تعدیل آئیںگے ان کے
معانی و مفاہیم اور وہ الفاظ محدثین کے نزدیک مراتب جرح و تعدیل کے کس درجہ میں آتے
ہیں وہ بھی ساتھ میں واضح کرتا جاؤںگا،
پھر اس حدیث پر بعض تعقبات ذکر کرکے محدثین کے اقوال کی روشنی میں انشاء اللہ حدیث
کا حکم بیان کروںگا۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ أنیب۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ
سندوں کا خلاصہ:
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے حدیث:’’اطلبوا
العلم ولو بالصین‘‘ کو اپنی کتاب ’’الموضوعات‘‘ میں تین فرعی سندوں کے ساتھ ذکر کیا
ہے، پہلی اور دوسری سند ’الحسن بن عطیہ کوفی‘ اور تیسری سند’ حماد بن خالد خیاط‘ سے
جاکر ملتی ہے، جنہوں نے حدیث مذکور کو’ طریف بن سلیمان ابو عاتکہ‘ سے روایت کی ہے۔(۱) اس
بیان سے واضح ہوگیا کہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ تینوں فرعی سندوں کے
دار و مدار ’ابو عاتکہ‘ راوی ہیں۔ اسی کو محدثین کی اصطلاح میں مدار حدیث کہتے ہیں۔
لہذا تما م فرعی سندوں کے راویوں کے موثق ہونے کے ساتھ اگر جس پر حدیث کا مدار ہے وہ
ثقہ ہے تو اس کی حدیث صحیح ہوگی، صدوق ہے تو حسن ہوگی اور ضعیف ہے تو حدیث ضعیف ہوگی
الخ۔مجھے اپنی اس بحث میں راوی ’ابو عاتکہ‘ پر تفصیلی کلام کرنا ہے، تاکہ محدثین کے
اقوال کی روشنی میں کسی نتیجہ پر پہونچا جاسکے۔ مگر اس سے پہلے بعض اہم نکات کی طرف
وقت کی مناسبت سے اشارہ کردینا بہتر سمجھتا ہوں:
(أ) ابن الجوزی رحمہ اللہ کا اپنی کتاب
’الموضوعات‘میں کسی حدیث کے ذکر کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث موضوع ہی ہو،
کیونکہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں بہت تساہلی سے کام لیا ہے ۔خاتم الحفاظ جلال الدین
سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قدیم و جدید دور کے حفاظ نے اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ
ابن الجوزی رحمہ اللہ سے ’الموضوعات‘ میں بہت زیادہ تساہلی واقع ہوگئی ہے، انہوں نے
بہت ساری ضعیف اور بعض حسن و صحیح حدیثوں کو اپنی اس کتاب میں ذکر کردیا ہے‘‘۔ اسی
لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ابن لجوزی رحمہ اللہ نے ’الموضوعات‘ میں
اور حاکم نیساپوری نے ’المستدرک‘ میں تساہلی کرکے ان دونوں کتابوں کے نفع کو معدوم
کردیا ہے، کیونکہ ان میں کی ہر ایک حدیث میں تساہلی واقع ہونے کا احتمال ہے۔ لہذا ناقد
حدیث پر واجب ہے کہ ان دونوں محدثین کی نقل کردہ حدیثوںکا بغیر ان کی تقلید کئے از
سرے نو تحقیق و دراسہ کرے پھر اس کی روشنی میں فیصلہ کرے کہ وہ حدیث کس درجہ کی ہے
‘‘۔(۲)
(ب) امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں:’’الحسن بن عطیہ کو امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔(۳)حالانکہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے
کیو نکہ پہلی جن دو سندوں میں ابو عاتکہ سے روایت کرنے والے ’الحسن بن عطیہ کوفی‘ ہیں،
اس نام کے دو راوی ہیں: ایک ’کوفی‘ اور دوسرے ’عوفی‘ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اور
امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے جس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے وہ ’الحسن بن عطیہ کوفی‘ نہیں
بلکہ وہ ’الحسن بن عطیہ عوفی‘ ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’امام
ابو حاتم رحمہ اللہ وغیرہ نے’الحسن بن عطیہ عوفی‘ کو ضعیف قرار دیا ہے‘‘۔(۴) اور رہی بات ’الحسن بن عطیہ کوفی‘
کی تو آپ ان کی توثیق کر تے ہوئے فرماتے ہیں:’’وہ صدوق ہیں‘‘۔(۵)
ہاں امام ابو الفتح محمد بن حسین ازدی
رحمہ اللہ نے ’الحسن بن عطیہ کوفی‘ کو ضعیف قرار دیا ہے، مگر غالبا انہیں ’الحسن بن
عطیہ عوفی‘ سے اشتباہ ہوگیا ، اور بجائے ان کو ضعیف قرار دینے کے’ الحسن بن عطیہ کوفی‘
کو ضعیف قرار دیدیا،اور ایسا ممکن ہے کیونکہ سہو و نسیان انسان کی فطرت میں داخل ہے
۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں:’’امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے فرمایاکہ ’الحسن بن عطیہ کوفی‘ صدوق ہیں،اور امام
ابو الفتح ازدی رحمہ اللہ نے ان کی تضعیف کی ہے، میرے خیال سے انہیں ’الحسن بن عطیہ
عوفی‘ سے اشتباہ لاحق ہوگیا،اور ’کوفی‘کو’ عوفی‘ سمجھ کر ضعیف قرار دیدیا‘‘۔(۶) اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’الحسن
بن عطیہ کوفی‘ کے بارے میں ’ لا باس بہ‘ فرمایا ہے،۔ ’صدوق‘ا ور’ لاباس بہ‘ سے موثق
راوی مراتب تعدیل کے چوتھے درجہ میں آتا ہے جس کی حدیث عموما حسن لذاتہ ہوتی ہے
۔(۷)
لہذا جن محققین نے ’حسن بن عطیہ کوفی‘
کو ’متکلم فیہ‘ کہہ کر ان کی حدیث کو رد کرنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی تحقیق پر نظر ثانی کریں۔
(ج) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حدیث:
’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں، ان کے قول پر اعتماد کر
نے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ جرح و تعدیل کے باب میں محدثیں کے نزدیک امام
ابن حبان رحمہ اللہ کی کیا حیثیت ہے، کیونکہ ہر ایک کی جرح اگر یوں ہی قبول کی جانے
لگے تو بہت سارے بڑے بڑے محدثین اور ان کی احادیث سے ہاتھ دھونا پڑجائے گا۔
محمد بن حبان ابو حاتم بستی رحمہ اللہ
کی نقد و جرح محدثین کی نظر میں :
(أ) ابن حبان رحمہ اللہ جرح و قدح کے
باب میں متشدد تھے، ان کے اسی تشدد کی بناء پر امام ذہبی رحمہ اللہ ان پر اپنی کتاب
’میزان الاعتدال‘ میں متعدد جگہ برسے ہیں۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’خساف
جلد باز ابن حبان کو ’ محمد بن الفضل سدوسی عارم‘ کے بارے میں یہ کہنے کی کیسے جرأت
ہوئی کہ: ان کو آخری عمر میں اختلاط ہوگیا تھا‘‘۔(۸)
آپ دوسری جگہ’ افلح بن سعید مدنی‘ کے
ترجمہ میں فرماتے ہیں:’’ابن حبان رحمہ اللہ کبھی کبھی ’ثقہ راوی‘کو بھی اپنی جرح وقدح
کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، ایسا لگتا ہے کہ ان کے سرسے جو نکلتا ہے انہیں پتہ ہی
نہیں چلتا‘‘ (۹)
(ب)ابن حبان رحمہ اللہ متشدد ہونے کے ساتھ
ساتھ متساہل بھی تھے ، نقد کے باب میں ان کے اسی تساہلی کی بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ
اللہ نے انہیں متساہل قرا دیا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’
ابن حبان رحمہ اللہ کی تساہلی نقد کے میدان میں مشہور و معروف ہے ‘‘ ۔(۱۰) اس بیان سے ثابت ہو گیا کہ ابن حبان
رحمہ اللہ جرح و نقد میں افراط و تفریط کے شکار تھے ۔
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ محض کسی ایک محدث
کی جرح پر اعتماد کر کے کسی حدیث پر حکم لگا نا یا موضوع قرار دینا درست نہیں،اس لئے
بدرجہ اولی ابن حبان رحمہ اللہ جو افراط وتفریط میں مبتلا تھے محض ان کے قول پر اعتماد
کرکے حدیث: ’’اطلبو العلم ولو بالصین‘‘ کو موضوع قرار نہیں دیا جائے گا۔ لہذا اس حدیث
پر حکم لگانے کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے محدثین کرام کے اقوا ل کی طرف رجوع کیا جائے۔اسی
کے پیش نظر ذیل میں پہلے ابن الجوزی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ سندوں کے دارو مدار راوی
’ابوعاتکہ‘ اور ان کی روایت کردہ حدیث کے بارے میں دوسرے محدثین کرام کے اقوال پیش
کرتا ہوں۔
راوی ’ابو عاتکہ‘ کے بارے میں کلام کرنے
والوں کے دو گروہ ہیں ایک متوسط اور دوسرا متشدد:
(۱) متوسطین کے اقوال:
اکثر محدثین عظام جو اعتدال پسند ہیں وہ
فرماتے ہیں کہ راوی ’ابو عاتکہ‘ اور اس کی روایت کردہ حدیث:’اطلبوا العلم ولو بالصین‘
فقط ضعیف ہے، ان کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں:
(أ) امام ترمذی رحمہ اللہ ابو عاتکہ کی
ایک حدیث کو اپنی سنن میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’یضعف‘ یعنی ابو عاتکہ کی تضعیف
کی جاتی ہے (۱۱) (ب)محمد
بن احمد عبد الہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :وہ ضعیف ہیں (۱۲) (ت) امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں : ضعیف ہیں(۱۳) (ث) امام
ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’ضعفوہ‘ یعنی محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے (۱۴) (ج) حافظ المغرب ابن عبد البر رحمہ
اللہ فرماتے ہیں : ’ھو عند ھم ضعیف‘ یعنی وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں (۱۵) (ح)امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری جگہ
ان کے بارے میں فرماتے ہیں :’ مجمع علی ضعفہ‘ یعنی محدثین کا اجماع ہے کہ’ ا بو عاتکہ‘
ضعیف ہیں(۱۶) (خ) ابن
عبد الہادی رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں : مجمع علی ضعفہ (۱۷) (د) اما م عجلونی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں : وہ ضعیف ہیں(۱۸) (ذ)
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ ضعیف ہیں (۱۹)(ر)امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
: حدیث:’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ دو وجہوں سے مروی ہے اور وہ دونوں وجہوں سے ضعیف
ہے (۲۰) (ز)امام
بیہقی رحمہ اللہ ابو عاتکہ کی روایت کردہ حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : حدیث مذکور
مشہور حدیث کی طرح ہے، اس کی اسناد ضعیف ہے، اور یہ حدیث متعدد ضعیف طرق سے مروی ہے
(۲۱) (س) ابو
المحاسن محمد بن خلیل فرماتے ہیں : ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا
ہے حالانکہ ایسانہیں ، بلکہ وہ صرف ضعیف ہے
(۲۲)
حدیث ضعیف کی تعریف : حدیث ضعیف وہ ہے
جس کے اند رحدیث حسن کی صفات میں سے کوئی ایک صفت مفقود ہو، اور وہ صفتیں یہ ہیں :
(۱) عدالت راوی
(۲) خفت ضبط
(۳) اتصال سند
(۴) معلل نہ
ہونا (۵) شاذ نہ
ہونا (۲۳)
یضعف و ضعفوہ وغیرہ کا معنی و مفہوم:یعنی
راوی ضعیف ہے، ان الفاظ کا شمار مراتب جرح کے پہلے اور دوسرے مرتبہ میں ہوتا ہے ، جس
راوی کی ان الفاظ کے ذریعہ جرح کی گئی ہو اس کی حدیث متابع و شاہد بن سکتی ہے(۲۴)
(ش) ابو احمد الحاکم الکبیر راوی ’ابو
عاتکہ‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : لیس بالقوی عندھم (۲۵)
لیس بالقوی کا معنی و مفہوم : یعنی راوی
ثقہ نہیں، اس لفظ کا شمار مراتب جرح کے دوسرے درجہ میں ہوتا ہے ،اس سے جرح کئے جانے
والے راوی کی حدیث قابل اعتبار ہوتی ہے، یہ لفظ اس راوی کے بارے میں کہا جاتا ہے جس
کا مرتبہ اس قدر بلند نہ ہو کہ ’ ثقۃ ‘ تک پہونچ جائے ، اور نہ ہی اس قدر انحطاط پذیر
ہو کہ ضعیف کے درجہ تک پہونچ جائے بلکہ اس کا درجہ ان دونوں کے دریان کا ہے جسے ’ صالح
الحدیث ‘ کہا جا سکتا ہے جس کا شمار مراتب تعدیل کے پانچویں یا چھٹے درجہ میں ہوتا
ہے ،اس درجہ کی حدیث بھی قابل اعتبا رہوتی ہے ، بات آنے والی مثالوںسے واضح ہو جائے
گی:
چنانچہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمہما
اللہ فرماتے ہیں :’’ میں نے اپنے والد گرامی سے ’ ہشام بن حجیر ‘ راوی کے بارے میں
پوچھا تو آپ نے فرمایا’’لیس ھو بالقوی ‘‘ تو میں نے کہا : کیا وہ ضعیف ہیں ؟ تو آپ
نے فرمایا : لیس ھو بذاک(۲۶) اور
علی بن المدینی ’الفرج بن فضالہ‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ھو وسط ، ولیس بالقوی‘‘ (۲۷) ان دونوں نصوں سے ظاہر ہوگیا کہ
جس راوی کے بارے میں ’’ لیس بالقوی ‘‘ کہا جائے گا وہ نہ تو ثقہ ہو گا او نہ ہی ضعیف
بلکہ اس کے لئے ان کے درمیان کا درجہ ہو گا ،جسے ’’ صالح الحدیث ‘‘ کہا جا سکتا ہے
۔
(س)امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طریف بن سلیمان ابو عاتکۃ ’’ منکر الحدیث‘‘ ہیں(۲۸)
محدثین کرام کے نزدیک اس لفظ کا معنی مختلف
فیہ ہے بعض لوگوں کے نزدیک ’’منکر الحدیث‘‘ اس راوی کو کہتے ہیں جو کثیر الخطا، کثیرالغفلۃ
یا فاسق ہو، اور امام ابن حجر کے نزدیک اس ضعیف راوی کو کہتے ہیں جس کی حدیث ثقہ راوی
کے خلاف ہو،اور حافظ ابو بکر بردیجی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس راوی کے بارے
میں استعمال کرتے ہیں جو کسی روایت میں متفرد ہو، خواہ ثقہ ہو یا ـضعیف!(۲۹)
یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’ابو
عاتکہ‘‘ کے بارے میں فر مایا: ’’منکر الحدیث‘‘ ہیں، چونکہ یہ قول مختلف محدثین کے نزدیک
مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ’ ابو عاتکہ‘ کی حدیث کو انتہائی
ضعیف کہنے سے پہلے ہم یہ معلوم کر لیں کہ آپ کی اس لفظ سے کیا مراد ہے۔ آپ فرماتے
ہیں :’’ میں جس راوی کے بارے میں ’’ منکر الحدیث ‘‘ کہہ دوں اس سے حدیث روایت کرنا
حلال نہیں‘‘(۳۰)
عام طور سے یہی سمجھا جاتا ہے اور یہ سمجھنا
ایک حد تک غلط بھی نہیں کیونکہ آپ سے اسی طرح مروی بھی ہے، مگر جب نقد کے میدان میں
قدم رکھا جاتا ہے، اور مباحث کے پیچ و خم سے گزرا جاتا ہے تو بات یہ سمجھ میں آتی
ہے کہ مطلقا ایسا نہیں ہے، بلکہ آپ یہ لفظ کبھی تو ایسے راوی کے بارے میں فرماتے ہیں
جس کا کذب مشہور ہوتا ہے جس سے روایت کرنا جائز نہیں ، لیکن کبھی ایسے راوی کے بارے
میں بھی فرماتے ہیں جس سے روایت کرنا جائز ہے، اور کبھی راوی کی روایت قلیل ہونے کی
وجہ سے اس کے بارے میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ میں یہاں پر دو مثالیں ذکر کر دیتا
ہوں تا کہ یہ مسئلہ پورے طور سے واضح ہو جائے :
پہلی مثال: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے
ہیں : ’اسحاق بن نجیح ملطی ‘ یہ راوی ’’ منکر الحدیث‘‘ ہیں (۳۱) جو کذب اور حدیث کے وضع کرنے میں
مشہور و معروف ہیں، ان سے حدیث روایت کرنا جائز نہیں، ہاں اگر اس کے کذب کو بیان کرنا
ہو تو درست ہے ۔
دوسری مثال: دوسری جگہ امام بخاری رحمہ
اللہ ’ابراہیم بن اسماعیل بن ابی حبیبہ‘کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ منکر الحدیث ‘‘ ہیں
(۳۲)جس کے بارے
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ثقہ‘‘ ہیں ،اور ابن معین رحمہ اللہ فرماتے
ہیں ’’ صالح‘‘ ہیں، اور ابو حاتم رازی رحمہ اللہ جوامام بخاری رحمہ اللہ کے ہم عصر
ہیں انہوں نے ان کی تائید کی ہے مگر ان کے قول میں تفصیل ہے ، فرماتے ہیں : ’’ شیخ
لیس بقوی‘‘ ان کی حدیث لکھی جائے گی ،البتہ ان سے احتجاج درست نہیں ،وہ ’’ منکر الحدیث
‘‘ ہیں ‘‘(۳۳)اسی راوی
کے بارے میں ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’روایت کے باب میں وہ صالح ہیںایسا ہی
یحی ابن معین رحمہ اللہ سے مروی ہے،اور ان کے ضعیف ہونے کے باوجود بھی ان سے حدیث لکھی
جائے گی‘‘۔(۳۴)
جب اتنا معلوم ہو گیا تو صحیح یہ ہے کہ’ابو
عاتکہ ‘ کے بارے میں آپ کے قول ’ منکر الحدیث ‘ کو ان اکثر علماء کے اقوال کے ساتھ
لاحق کیا جائے جنھوں نے ’ ابو عاتکۃ ‘کے بارے میں فرمایا : ’لیس بالقوی ‘ یا ’ یضعف
یا ضعفوہ‘وغیرہ ، جن کی حدیثیں متابعات و شواہد بن سکتی ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ تفصیلات
قبول نہ کرے تو اس کے لئے یہی کافی ہے کہ فضائل کے باب میں ’منکر الحدیث‘ راوی کی حدیث
مقبول ہوگی۔ چنانچہ جس راوی کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ’ منکر الحدیث ‘ فرمایا
ہے، خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اس راوی کی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں
:’’ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس راوی کی حدیث ضعیف ہو گی‘‘۔ (۳۵) دوسری جگہ آپ بغیر کسی قید کے فرماتے
ہیں :’’ حدیث منکر ضعیف کی قسم سے ہے اور یہ فضائل کے باب میں محتمل ہے‘‘۔(۳۶)
خاتم الحفاظ کے ان دونوں قول سے یہ بھی واضح ہوگیا
کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول ’منکر الحدیث‘ سے حدیث صرف ضعیف ہوگی جو فضائل کے باب
میں معتبر بھی ہوگی نہ کہ انتہائی ضعیف جیسا کہ دور جدید کے بعض علما سمجھتے ہیں، یہ
اس کے لئے ہے جو تفصیل کو نہ مانے، ورنہ صحیح یہ ہے کہ امام بخاری کے اس قول کو دوسرے
محدثین کے اقوال سے تقابل کرکے ہی فیصلہ کیا جائے گا۔
لہذا محققین ’’منکر الحدیث‘‘ کا لفظ دیکھ
کر دھوکا نہ کھائیں کیونکہ جس راوی پر اس قول کا اطلاق کیا جائے ضروری نہیں کہ اس کی
حدیث موضوع یا شدید ضعیف ہی ہو۔ بلکہ اس وصف میں محدثین کے اختلاف کے سبب اس کی حدیث
کبھی موضوع، کبھی ضعیف اور کبھی حسن بلکہ کبھی صحیح بھی ہو سکتی ہے!!
بعض محدثین جو شدت پسند ہیں ان کے اقوال
’’ ابو عاتکہ‘‘ کے بارے میںمندرجہ ذیل ہیں:
(أ) ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی
رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ابو عاتکہ ’لیس بثقۃ
‘(۳۷)
محدثین نے امام نسائی رحمہ اللہ کو بھی متشددین میں
شمار کیا ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’راوی ’حبیب المعلم‘کی توثیق
پر محدثین متفق ہیں ، لیکن امام نسائی رحمہ اللہ نے ان کے تعلق سے تشدبرتاہے‘‘ ۔ دوسری
جگہ فرماتے ہیں:’’ راوی ’الحسن بن الصباح بزار‘ کے بارے میں بھی امام نسائی رحمہ اللہ
نے شدت برتی ہے‘‘ ۔ اور ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ راوی ’محمد بن بکر برسانی‘ کو امام نسائی
رحمہ اللہ نے بغیر کسی حجت کے ’’ لین ‘‘ قرار دیا ہے ‘‘۔(۳۸)امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو صراحت
کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ امام نسائی باب نقد میں متشدد تھے۔ آپ ان کے تشدد کو ذکر کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:’’راوی ’ عبد اللہ بن وہب مصری‘ مطلقا حجت ہیں، ان کی حدیثیں صحاح
اور دو اوین اسلام میں کثرت سے موجود ہیں ، ان کو ثقہ ماننے کے لئے امام نسائی رحمہ
اللہ کی توثیق ہی کافی ہے کیونکہ وہ نقد رجال میں بہت شدت سے کام لیتے تھے‘‘ ۔(۳۹)
’’ لیس بثقۃ‘‘ کا معنی و مفہوم : اس لفظ
کا درجہ مراتب جرح کے چوتھے درجہ میں آتا ہے، یہ لفظ جب کسی راوی کے بارے میں بولا
جاتا ہے تو اس سے مراد یہی ہوتا ہے کہ راوی ’’ شدید ضعیف‘‘ یا ’’ متروک الحدیث‘‘ ہے،
خاص کر جب کہ امام یحی ابن معین اور امام نسائی رحمہما للہ اس لفظ کا کسی راوی کے بارے
میں استعمال کریں۔ مگر یہ مراد مطلقا نہیں ہے کہ جب بھی ’ لیس بثقۃ ‘ کسی راوی کے بارے
میںبولا جائے تو وہ’ شدیدضعیف‘ یا ’متروک الحدیث‘ ہو گا ،کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے
کہ بعض ضعیف راوی یا جس کے اندر تھوڑا ’ لین ‘ ہو ان کے بارے میں بھی محدثین اس لفظ
کا استعمال کرتے ہیں۔
چنانچہ جب امام مالک رحمہ اللہ فرماتے
ہیں کہ:’ شعبہ مولی ابن عباس ‘’ لیس بثقۃ ‘ ہیں، تو اس قول کا تعقب کرتے ہوئے ابن القطان
فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ امام مالک نے ان کی تضعیف نہیں کی ہے ، بس اتنا ہے کہ
انہوں نے اس راوی پر لفظ ’ثقہ ‘ کا اطلاق مناسب نہیں سمجھا ، کیونکہ محدثین لفظ ’ثقہ‘
سے توثیق اسی کی کرتے تھے جو عدل اور ضابط ہو ۔۔۔۔۔۔اور کبھی کبھی ’ لیس بثقۃ‘ ضعیف
اور ’ متروک ‘ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ، لہذا اس لفظ سے جرح کرنے والے کی مراد
کیا ہے؟جس کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا گیاہے اس کے احوال کے اعتبار سے فیصلہ کیا
جائے گا‘‘ ۔(۴۰)
ابن القطان فاسی رحمہ اللہ کے بیان کردہ
قائدہ کی رو سے جب ہم ’ابو عاتکہ‘ راوی کے احوال کی طرف نظر کرتے ہیں اور ان کے بارے
میں محدثین کے اقوال کی چھان بین کرتے ہیں تو یہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ اکثر
اعتدال پسند محدثین اسی بات کے قائل ہیں کہ وہ ضعیف ہیں ، لہذا یہاں پر امام نسائی
رحمہ اللہ نے ’ابو عاتکہ‘ کے بارے میںجو ’ لیس بثقۃ ‘ فرمایا ہے وہ اسی بات پر محمول ہوگا کہ آپ نے
’ابو عاتکہ‘ کے بارے میں یہ قول ان کے ضعیف ہونے کی وجہ سے کیا ہے نہ کہ اس وجہ سے
کہ وہ ’متروک الحدیث‘ ہیں ۔
(ب) امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
:’ابو عاتکہ‘ ’ متروک الحدیث ‘ ہیں‘‘ (۴۱)
محدثین کے نزدیک ابو جعفر محمد بن عمروعقیلی
رحمہ اللہ بھی متشددین میں شمار ہوتے ہیں ،انہوں نے اپنے اسی تشدد و تعنت ہی کی وجہ
سے بڑے بڑے محدثین کو، جو فن حدیث کے امام مانے جاتے ہیں، ضعفاء میں شمار کیا ہے ،
اسی لئے محدثین کرام نے ان کے اس تحامل و تشدد کا بہت سختی سے رد فرمایا ہے ۔
چنانچہ اپنی عادت کے مطابق عقیلی رحمہ
اللہ نے امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کو ضعفاء میں شمار کیا ہے ، امام ذہبی رحمہ
اللہ ان کے اس عمل پر بڑی شدت سے رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ ان کے ـثقہ
ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ امام المحدثین ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ
اللہ نے آپ کی احادیث کو اپنی ’’صحیح ‘‘ میں کثرت سے ذکر کیا ہے ۔ اگر علی بن المدینی
، امام بخاری، ان کے شیخ عبد الرزاق اور عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ کی احادیث کو چھوڑ
دیا جائے تو آـثار مٹ جائیں گے ، زنادقہ
کا بول بالا ہوجائے گا، اے عقیلی کیا آپ کے پاس عقل نہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ
کس شخصیت کے بارے میں کلام کر رہے ہیں ؟ کیا نہیں جانتے ہیں کہ یہ آپ سے کئی درجہ
بلند تر ہیں ، بلکہ وہ تو بہت سارے ثقات سے اوثق ہیں ، پھر بھی آپ نے انہیں اپنی کتاب
’’ الضعفاء والمتروکین ‘‘ میں شمار کیا آخر کیوں؟ الخ مختصرا‘‘ (۴۲)
امام کوثری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
: ’’عقیلی رحمہ اللہ نے ائمہ حنفیہ کی جرح و نقد میں اپنی کتاب ’’ الضعفاء ‘‘ میں شدید
تحامل سے کام لیا ہے اور یہ صرف ان کے فساد اعتقاد کی وجہ سے ہے، وہ جرح و قدح کے معاملہ
میں سب سے زیادہ متشدد ہیں‘‘(۴۳)
’’ متروک الحدیث ‘‘ کا معنی و مفہوم : اس لفظ کا
درجہ بھی مراتب جرح کے چوتھے درجہ میں آتا ہے جس کی حدیث شدید ضعیف ہوتی ہے، حالانکہ
بعض محدثین کرام اس متروک الحدیث راوی کی حدیث کو بھی صرف ـضعف
سے متصف کرتے ہیں۔ خیر اس اطلاق سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام محدثین نے اس سے حدیث لینا
ترک کر دیا ہے مگر یہ قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی راوی
اکثر محدثین کے نزدیک متروک ہوتا ہے مگر وہی بعـض
کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
احمد بن صالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’
کسی راوی کی حدیث اسی وقت چھوڑ ی جاتی ہے جب سارے محدثین اس کے ترک پر جمع ہو جائیں
،لہذا کبھی کہا جاتا ہے ’ فلان ضعیف‘ لیکن اگر کہا جائے ’ فلان متروک ‘ تو یہ اسی وقت
بولا جاتا ہے جبکہ جمیع محدثین اس راوی کے ترک پر متفق ہو جائیں (۴۴)
عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
: ’’لفظ ’متروک‘ کی اصل دلالت تو یہی ہے جو احمد بن صالح رحمہ اللہ نے بیان کی ہے،
مگر ان کا یہ بیان اس بات سے مانع نہیں کہ کوئی ناقد کسی راوی کے بارے میں ’ ثقہ ‘
کا قول کرے اور کوئی دوسرا ناقد اسی راوی کو متروک سے متصف کرے ، اس کی مثال پیش خدمت
ہے : امام شافعی رحمہ اللہ کے شیخ ’ ابراہیم
بن محمد ابی یحی اسلمی مدنی ‘ کے بارے میں نقاد کے مختلف اقوال ہیں اور وہ یہ ہیں
: امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ لا یکتب حدیثہ، ترک الناس حدیثہ ‘‘ یعنی ان کی
حدیث نہیں لکھی جائے گی لوگوں نے ان کی حدیث کو ترک کر دیا ، اور اسی راوی کے بارے
میں بشر بن المفضل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے فقہائے مدینہ سے ان کے بارے میں پوچھا
توسب نے یہی کہا کہ وہ ’کذاب ‘ ہیں، اور امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’ترکہ ابن
المبارک والناس‘ یعنی ابن المبارک رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے ان سے روایت کرنا
چھوڑ دیا،اور امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ ’متروک الحدیث ‘ ہیں، اور امام
دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ ’ متروک ‘ ہیں، اور امام شافعی رحمہ اللہ انہیں کے
بارے میں فرماتے ہیں : ’کان ثقۃ فی الحدیث ‘ یعنی وہ حدیث میں ’ ثقۃ ‘ تھے۔ غالبااسی
کے پیش نظرعلامہ علی قاری رحمہ اللہ نے لفظ ’ الجمیع‘ کی تفسیر اپنی کتاب ’’ شرح شرح
النخبۃ ‘‘ میں اکثر سے کی ہے ،فرماتے ہیں : ولھذا کان مذھب النسائی ان لا یترک حدیث
الرجل حتی یجتمع الجمیع ای الاکثر علی ترکہ۔(۴۵) ترجمہ: اسی لئے امام نسائی کا مذہب
یہ تھا کہ کسی راوی کی حدیث کو نہ چھوڑا جائے جب تک کہ سارے لوگ یعنی اکـثر
ان کے چھوڑنے پر متفق نہ ہو جائیں۔
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جو راوی متروک
ہے، کیا اس کی حدیث شدید ـضعیف ہوگی؟
بعض محدثین کرام کے طرز بیان سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس راوی کی حدیث شدید ـضعیف
نہیں ہوگی بلکہ صرف ضعیف ہوگی، بعـض مثالیں
مندرجہ ذیل ہیں:
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں : ابن حبان اور ابن الجوزی رحمھما اللہ نے حدیث ’’ ان اللہ عز وجل قرأ(طہ) و(یس)
قبل ان یخلق آدم ‘‘کو موضوع قرار دیا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ،کیونکہ اس حدیث کا راوی
اگر چہ اکثر کے نزدیک متروک اور بعض کے نزدیک ضعیف ہیں مگر وضع حدیث سے بری ہیں۔(۴۶)
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’اصبغ
شیعی‘ امام نسائی رحمہ اللہ کے نزدیک متروک ہیں، لہذا زیادہ سے زیادہ حدیث ضعیف ہے
نہ کہ موضوع ، امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسی کی صراحت کی ہے (۴۷)
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’ اتخذ اللہ ابراھیم خلیلا ۔۔۔الخ‘‘ کو موضوعات میں شمار کیا
، اور اس کا سبب بتایا کہ اس حدیث میں ایک راوی جن کا نام ’ مسلمۃ بن الخشنی ‘ ہے انہوں
نے اس حدیث کو تنہا روایت کیا ہے جو کہ ’ متروک ‘ ہیں۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں :’ مسلمہ‘ مذکور کی اگر چہ تضعیف کی گئی ہے مگر وہ کذب سے بری ہیں‘‘ (۴۸)
(ت) ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’
میں نے اپنے والد گرامی ’ابو حاتم رحمہ اللہ‘ سے ’ابو عاتکہ‘ کے بارے میں دریافت کیا
تو آپ نے فرمایا: وہ ’ ذاہب الحدیث ، ضعیف الحدیث ‘ ہیں‘‘(۴۹)
’’ ذاہب الحدیث ، ضعیف الحدیث ‘‘ کا معنی ومفہوم:
جس راوی کے بارے یہ لفظ استعمال کیا جائے اس کی حدیث شدیدضعیف ہوتی ہے اور اس کا مرتبہ
مراتب جرح کے چوتھے درجہ میں آتا ہے۔
ابو حاتم محمد بن ادریس رحمہ اللہ کو بھی
متشدد ین میں شمار کیا جاتا ہے :
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں
متعدد جگہ تعنت و تشدد سے متصف کیا ہے ،ان کے بعض اقوال کو یہاں پر ذکر کرتا ہوں ،
آپ فرماتے ہیں : ’’راوی ’ بشیر بن نہیک‘کے بارے میں ابو حاتم رحمہ اللہ نے ’’ لا یحتج
بہ ‘‘ کا قول کر کے تشدد برتا ہے‘‘ ۔دوسری جگہ فرماتے ہیں:’’ ابو حاتم رحمہ اللہ نے’
شجاع بن الولید ابو بدرسکوتی‘ او ر ’عبا د بن عبا د مہلی‘ کے بارے میںاپنے تشدد کی
وجہ سے کلام کیا ہے‘‘۔ (۵۰)
(ث) علامہ برہان الدین حلبی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں :’’ طریف بن سلمان ابو عاتکہ کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے وضع حدیث سے متہم
نہیں کیا ہے، ہاں میزان الاعتدال میں اتنا ضرور فرمایا کہ: ابو عاتکہ کو ’ سلیمانی‘
نے ان کی فہرست میں ذکر کیا ہے جو وضع حدیث سے معروف ہیں (۵۱)
مگر صحیح اور منصفانہ قول یہ ہے کہ ابو
عاتکہ ’ضعیف‘ ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ جب تمام اقوال کو پیش نظر
رکھ کر اپنی مصنف ’’ تقریب التھذیب ‘‘ میں ان کو اوسط وصف سے متصف کرنا چاہتے ہیں تو
فرماتے ہیں :’’ ابو عاتکۃ بصری ان کا نام ’ طریف بن سلمان ‘ ہے جو کہ ضعیف ہیں ، سلیمانی
نے ان کے بارے میں مبالغہ سے کام لیا اور انہیں ان لوگوںکی فہرست میں داخل کردیا جو
وضع حدیث سے جانے پہچانے جاتے ہیں(۵۲)
ابو عاتکہ کے بارے میں محدثین کے اقوال
کاخلاصۂ کلام :اکثر متوسط اور اعتدال پسند محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ ابو عاتکہ
فقط ضعیف ہیں، انہیں متوسطین میں سے امام بخاری رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے ان کے بارے
میں فرمایا کہ وہ ’منکر الحدیث‘ ہیں جس سے بعض لوگوں کو یہ سمجھ میں آیا کہ ان کی
حدیث انتہائی ضعیف ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے مجروح شخص کی حدیث عام حالات میں
صرف ضعیف ہی ہوتی ہے جیسا کہ تفصیلی بیان گزرا۔ البتہ ان متوسطین کے علاوہ بعض متشدد
محدثین نے ان کی جرح ایسے الفاظ سے کی ہے جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ’شدید ضعیف‘
ہیں ،اور وہ محدثین یہ ہیں: امام نسائی رحمہ اللہ آپ ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
’لیس بثقۃ ‘ ہیں اور امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’متروک الحدیث‘ ہیں۔ لیکن اس
بحث میں زیادہ بہتر ہے کہ ان دونوں الفاظ کو ابو عاتکہ کے بارے میں ضعیف کا قول کرنے
والے محدثین کے ساتھ ضم کردیا جائے، کیونکہ’ لیس بثقۃ‘ کبھی اس راوی کے بارے میںبھی
استعمال کیا جاتا ہے جو ضعیف ہوتاہے، اور جو راوی ’ متروک‘ ہوتا ہے اس کی حدیث بعض
محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے، اس لئے ان دونوں الفاظ کو ان اکثر محدثین کے ساتھ ملا
دینا زیادہ بہتر ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ’ ابو عاتکہ‘ ضعیف ہیں۔امام ابو حاتم رحمہ
اللہ نے ’ ابو عاتکۃ ‘ کے بارے میں فرماتے ہیں ’ ذاہب الحدیث ، ضعیف الحدیث ‘ ہیں،
اور سلیمانی نے ان کو وضع کر نے والوں کی فہرست میں شمار کیاہے، ان الفاظ سے مجروح
راوی کی حدیث شدید ضعیف ہوتی ہے، ذاہب الحدیث راوی کی حدیث فضائل کے باب میں معتبر
ہوگی ، البتہ متہم بالکذب کی حدیث خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے نزدیک
معتبر نہیں ہوگی۔
بہر کیف راوی ’ ابو عاتکہ‘ کے بارے میں
محدثین کے اقوال پر غور و فکر کرنے کے بعد نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ ضعیف اور ان کی
روایت کردہ حدیث :’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ ضعیف ہے، اس کی دو وجہیں ہیں :
پہلی وجہ : اکثر معتدل محدثین اس بات کے
قائل ہیں کہ ’ ابو عاتکہ‘ ضعیف ہیں ،اس لئے ان کی روایت کردہ حدیث ضعیف ہوگی، خاص طور
سے اس صورت میں جبکہ بعض متشددین مثلا امام نسائی اورامام عقیلی رحمہما اللہ کے اقوال
بھی صرف ان کے ضعف کی طرف اشارہ کر رہے ہوں۔
دوسری وجہ: جن محدثین کے کلام کی وجہ سے
’ ابو عاتکہ ‘ کی حدیث شدید ضعیف کے زمرے میں داخل ہو رہی ہے ان کا متشددین میں شمار
ہوتاہے یا ایسے ہیں جنہوں نے ان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، جن میں سے
بعض ایسے ہیں اگر ان کا قول مطلقا لے لیا جائے تو بہت سے محدثین اور ان کی احادیث سے
محروم ہونا پڑے گا، لہذا بہتر اور سدید رائے یہ ہے کہ متوسطین کے قول کو لیا جائے،
چنانچہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بما لا یوجب
الرد‘‘ کے اکثر وبیشتر راویوں کے بارے میں یہی منہج اختیار کیا ہے یعنی متوسطین کے
اقوال کو متشددین کے اقوال پر ترجیح دی ہے ۔
اور اگر کوئی تشدد اور تعنت کا پیروکار
اس بات پر مصر ہو کہ میں تو متشددین کے اقوال پر ہی عمل کروں گا تو میں اس سے التماس
کروں گا ٹھیک ہے آپ کے تشدد کو ہی اختیار کر لیتے ہیں مگر یاد رہے جمہور علماء بلکہ
امام نووی رحمہ اللہ نے اجماع کا قول کیا ہے کہ اگر حدیث موضوع نہ ہو توفضائل میں معتبر
ہوگی ، لہذا ’ ابو عاتکہ ‘ کی حدیث: ’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ کواگر چہ شدید ضعیف
ہونا تسلیم کر لیا جائے پھر بھی وہ فضائل کے باب میں ہونے کی وجہ سے معتبر ہو گی ۔
اگر چہ صحیح یہی ہے کہ ’ابو عاتکہ‘ کی سند سے روایت کردہ یہ حدیث صرف ضعیف ہے۔
ابو عاتکہ کے علاوہ بعض دوسری سندیں:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ’ابوعاتکہ‘
کی سند کے علاوہ کسی ایسی سند کے ساتھ حدیث: ’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ وارد ہے،
جو’ابو عاتکہ ‘کی حدیث کے لئے متابع یا شاہدبن سکتی ہے؟ تو جواب ملتا ہے یقینا اس کی
دو سندیں اور ہیں ، مگر کیا ان دونوں سندوں کے اندر اتنی قوت ہے جو ’ ابو عاتکہ‘ کی
حدیث کو ضعیف سے ’ حسن لغیرہ ‘ تک پہونچا دے، تو یہ راز اس وقت عیاں ہو گا جب ان سندوں
کا محدثین کے اقوال کی روشنی میںجائزہ لیا جائے ۔ آنے والی مندرجہ ذیل سطور میں ان
دونوں سندوں پر گفتگو کرنے کی کوشش کر تا ہوں:
پہلی حدیث کی سند : اس پہلی سند کے ساتھ
حدیث کی تخریج حافظ المغرب ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ جامع بیان العلم
و فضلہ وما ینبغی فی روایتہ وحملہ‘‘ میں کی ہے، اس حدیث کی سند کے ایک راوی ’ یعقوب
بن اسحاق بن ابراہیم عسقلانی‘ ہیں جو متکلم فیہ ہیں ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کو صرف اس وجہ
سے کذاب ٹھرایا ،کیونکہ انہوں نے حدیث: ’’من حفظ علی امتی اربعین الخ ‘‘کو امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کی ۔(۵۳) حالانکہ یہ حدیث ان سے محفوظ نہیں۔
اور اسی سبب سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
نے بھی امام ذہبی کی اتباع کرتے ہوئے انہیں کذاب بتایا،اور مزید اضافہ کیا، آپ فرماتے
ہیں: ’’مسلمۃ بن القاسم نے اس راوی کو ’’ الصلۃ ‘‘ میںذکر کر کے ان کے چند شیوخ کا
تذکرہ کیا ، اور فرمایا: میں نے ان سے حدیثیں لکھی ہیں ، علمائے حدیث کا ان کے بارے
میں اختلاف ہے بعض حضرات نے ان کی تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہے ،میں نے محدثین کو
دیکھا کہ وہ ان سے حدیثیں لکھ رہے ہیں تو میں نے بھی ان سے حدیثیں لکھیں اور وہ میرے
نزدیک ’صالح جائز الحدیث ‘ ہیں(۵۴)
امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ حدیث:’’اطلبواالعلم
ولو بالصین ‘‘ راوی’ ابو عاتکہ‘ اور’ عبید بن محمد‘ سے مروی ہے، مگر حدیث دونوں طریقوں
سے ضعیف ہے (۵۵)اور’ عبید
بن محمد‘ کی سند میں ’’ یعقوب بن اسحاق عسقلانی ‘‘ ہیں مگر پھر بھی امام سخاوی رحمہ
اللہ نے ان کی حدیث کو صرف ضعیف قرار دیا
۔
حافظ المغرب ابن عبد البر رحمہ اللہ ’
یعقوب بن اسحاق عسقلانی ‘ کی حدیث ’’ من حفظ علی امتی اربعین الخ ‘‘ جس کو انہوں نے
امام مالک سے روایت کیا ہے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’ اس حدیث کی جتنی سند یں
وارد ہوئی ہیں ان میں سے احسن سند امام مالک رحمہ اللہ والی ہی سند ہے ،مگر یہ حدیث
امام مالک رحمہ اللہ سے مشہور و معروف نہیں،جس نے امام مالک رحمہ اللہ سے یہ حدیث روایت
کی ہے اس سے اس روایت میں خطا واقع ہوئی ، اور ان کی طرف ایسی حدیث کی نسبت کردی جو
ان کی احادیث سے نہیں‘‘۔ (۵۶)
حافظ المغرب ابن عبد البر رحمہ اللہ نے
یہ حدیث امام مالک رحمہ اللہ کی سند سے روایت کرنے والے شخص کو صرف ’مخطی ‘ قرار دیا
ہے ، اور وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ’ یعقوب بن اسحاق عسقلانی ‘ یا کوئی دوسرا راوی ،
کیونکہ آپ نے اس سند کے خاطی راوی کی تعیین نہیں کی ہے۔
امام زین الدین عراقی رحمہ اللہ ’ احیاء
العلوم ‘ میں وارد شدہ اس حدیث کی تخریج کرکے فرماتے ہیں :’’ حافظ المغرب ابن عبد البر
رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے‘‘ (۵۷)
’’ یعقوب بن اسحاق عسقلانی ‘‘ کے بارے
میں ائمہ کرام کے اقوال کا خلاصہ:ـ امام ذہبی
اور حافظ ابن حجر رحمھما للہ نے انہیں ’’ من حفظ علی امتی اربعین الخ ‘‘ حدیث روایت
کرنے کی وجہ سے کذاب قرار دیا ۔ مگر مسلمۃ بن القاسم نے فرمایا:’’ بعض لوگوں نے ان
کی توثیق کی ہے اور بعض نے تضعیف کی ہے، وہ میرے نزدیک ’ صالح جائز الحدیث ‘ ہیں‘‘
۔ امام سخاوی رحمہ اللہ نے ان کی روایت کردہ حدیث: ’’اطلبو العلم ولو بالصین‘‘ کی سند
کو صرف ضعیف قرار دیا، اسی طرح ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ’’ اربعین ‘‘ والی حدیث جس
میں ’یعقوب بن اسحاق عسقلانی ‘ ہیں ان کی روایت کو صرف ضعیف قرار دیا، ا ور امام مالک
رحمہ اللہ سے حدیث کے روایت کرنے والے کو خاطی بتایا، مگر اس راوی کا نام واضح نہیں
کیا بلکہ مبہم رکھا، مگر چونکہ میری نظر میں اس حدیث کی سند میں متکلم فیہ ’ یعقوب
بن اسحاق عسقلانی ‘ ہی ہیں ،اس لئے زیادہ امید ہے کہ انہیں کی طرف آپ نے یہ خطا منسوب
کی ہوگی ، پھر بھی وہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف ہی ہیں ، امام زین الدین
عراقی رحمہ اللہ نے بھی ابن عبد البر رحمہ اللہ کی اتباع کرتے ہوئے ان کی حدیث کو صر
ف ضعیف ہی قرار دینے پر اکتفا کیا ۔
جب صورت حال یہ ہے کہ’ یعقوب بن اسحاق
عسقلانی ‘ مختلف فیہ ہیں، بعض نے ان کی توثیق اور بعض نے تضعیف کی ہے، اور بعض نے انہیں
’’اربعین‘‘ والی حدیث کو امام مالک سے روایت کرنے کی وجہ سے کذاب قرار دیا ہے، حالانکہ
اسی ’’اربعین‘‘ سند کی حدیث کو بعض نے ضعیف بتایا ہے ۔ تواب ’یعقوب بن اسحاق عسقلانی‘
سے مروی حدیث:’’اطلبو العلم ولوبالصین‘‘ کی سند کا حکم کیا ہوگا؟ نیز کیا یہ سند’ابوعاتکہ
‘ کے حدیث کی متابع یا شاہد بن سکے گی ؟ ـ
’یعقوب بن اسحاق عسقلانی‘ کے بارے میں
محدثین کے اقوال چونکہ مختلف ہیںاس لئے ان کی حدیث صر ف ضعیف ہوگی، البتہ ان کی یہ
حدیث ’ابو عاتکہ‘ کی حدیث کے متابع یا شاہد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیونکہ وہ بعض
کے نزدیک کذاب ہیں، ہاں اس کی قوت میں کچھ اضافہ ضرور کر تی ہے۔
دوسری حدیث کی سند : اس حدیث کی سند کا
ذکر امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ میزان الاعتدال ‘ ‘ میں کیا ہے ، اس کی سند میں ایک
راوی ’ احمد بن عبد اللہ جویباری ‘ ہیں جو محدثین کے نزدیک کذاب ہیں (۵۸) اس لئے ان کی یہ حدیث بھی ’ابو عاتکہ‘
کی حدیث کے لئے متابع یا شاہد نہیں بن سکتی ۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ پرتعقبات:
خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ
نے پہلے اپنی کتاب ’’ اللالی المصنوعۃ ‘‘ میں ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الموضوعات
‘‘ پر تفصیل کے ساتھ تعقب فرمایا ، پھر آپ نے اس کی تلخیص کی جو ’’ التعقبات‘‘ اور
’’ النکت البدیعات ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی ۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ’ابو عاتکہ‘ کی
حدیث ’’ اطلبو االعلم ولو بالصین ‘‘ کو موضوعات سے شمار کیا ہے، خاتم الحفاظ نے اس حدیث پر اپنی کتاب ’’ النکت البدیعات ‘‘ میں
جو تعقب کیا ہے اس میں کچھ اضافہ ہے، اس لئے اس کی عبارت کا مفہوم پیش کرتا ہوں ،آپ
فرماتے ہیں :’’امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی اپنی کتاب’’ شعب الایمان‘‘ میں
’ابو عاتکہ‘ کے طریق سے تخریج کی ہے، وہ فرماتے ہیں : اس حدیث کا متن مشہور اور اسناد
ضعیف ہے، خاتم الحفاظ فرماتے ہیں : ’ ابو عاتکہ ‘ ترمذی کے رجال سے ہیں جو کذب سے متہم
نہیں، اور مجھے اس حدیث کی ایک متابع ملی ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،اس
کو ابو یعلی رحمہ اللہ نے اپنی ’’ مسند ‘‘ اور ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’جامع بیان
العلم وفضلہ‘‘ میں کثیر بن شنظیر عن ابن سیرین عن انس ‘‘ کے طریق سے تخریج کیا ہے،
(راقم الحروف کو جامع بیان العلم و فضلہ میںیہ سند تو ملی مگر اس میں ’’اطلبوا العلم
ولو بالصین‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں) نیز اس متن کی تخریج ابن عبد البر رحمہ اللہ نے’ عبید
بن محمد الفریابی عن سفیان بن عیینہ عن الزھری عن انس ‘ کے طریق سے بھی کی ہے ، اورنصف
ثانی یعنی ’’فان طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘ کی تخریج ابن ماجہ نے اپنی سنن میں
کی ہے ،اور اس حدیث کے کئی طرق ہیں جس کے مجموعی سند سے یہ حدیث مرتبۂ حسن تک پہونچ
جائے گی۔(۵۹)
خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ
کی اس عبارت سے پتہ چلا کہ ’ ابو عاتکہ ‘ کی حدیث ’’اطلبو االعلم ‘‘ کی ایک متابع بھی
ہے جو ’کثیر بن شنظیر عن ابن سیرین عن انس‘ کے طریق سے تخریج کی گئی ہے ، جس کی وجہ
سے حدیث ’’اطلبو االعلم ولو بالصین الخ‘‘ حسن لغیرہ ہو سکتی ہے، مگر یہ اسی وقت حکم
لگے گا جب کہ یہ حدیث’ مسند ابی یعلی‘ میں اس سند کے ساتھ مذکورہ بالا متن مل جائے۔
(راقم الحروف کو مصر کی بعض لائبریری میں یہ کتاب نہیں ملی انشاء اللہ ملنے پر حکم
واضح کیا جائے گا) ۔ نیز خاتم الحفاظ نے جو یہ فرمایا:’’ اس حدیث کے کئی طرق ہیں جس
کے مجموعہ سے حدیث مرتبۂ حسن تک پہونچ جائے گی‘‘ ان کی اس عبارت سے مراد حدیث کا پہلا
جزء یعنی ’’ اطلبواالعلم الخ ‘‘ ہے یا دوسر اجزء ’’طلب العلم الخ‘‘ہے، احتمال تو دونوں
کا ہے مگر خاتم الحفاظ کی عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی مراد اس سے جزء
ثانی ہے ،مگر جب ہم ’ کشف الخفاء ‘ کی عبارت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہو کر
سامنے آتی ہے کہ خاتم الحفاظ کی عبارت سے جزء اول مراد ہونا چاہیے ،’ کشف الخفاء‘
کی عبارت کا مفہوم مندرجہ ذیل ہے :
علامہ عجلولنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
:’’حدیث’’ اطلبواالعلم ولو بالصین الخ ‘‘امام بیہقی اور خطیب بغداد ی اور ابن عبد البر
اور دیلمی وغیرہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے، جوکہ ضعیف ہے
بلکہ ابن حبان نے کہا کہ یہ باطل ہے اور ابن الجوزی نے اس کو ’’ الموضوعات ‘‘ میں شمار
کیا ہے ، مگر ابن الجوزی رحمہ اللہ کی اس بات کا ماننا مشکل ہے ،کیونکہ امام مزی رحمہ
اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : اس حدیث کے متعدد طرق ہیں جس کی وجہ سے حدیث
درجۂ حسن تک پہونچ سکتی ہے ۔اور اما م ذہبی رحمہ اللہ’ تلخیص الواھیات ‘ میں فرماتے
ہیں : یہ حدیث متعدد واہی طرق سے روایت کی گئی ہے اس کے بعض طرق صالح بھی ہیں، اور
ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کے الفاظ ’’ اطلبوا
العم ولو بالصین ‘‘ ہیں۔۔۔۔۔۔ پھر امام عجلونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جملۂ ثانیہ یعنی
’’ طلب العلم الخ‘‘ کا ذکر بعد میں آئے گا جس کی تخریج ابن ماجہ وغیرہ نے کی ہے(۶۰)
ا س عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ امام مزی
اور امام ذہبی رحمہما اللہ کا قول حدیث ’’ اطلبواالعلم ولو بالصین‘‘ کے بارے میں ہی
ہے، یہاں پر حدیث کا جملۂ ثانیہ ’’طلب العلم الخ‘‘ مراد نہیں ہو سکتا، کیونکہ علامہ
عجلونی رحمہ اللہ امام مزی اور امام ذہبی رحمہما اللہ کا قول ’’اطلبوا العلم الخ‘‘
کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’ جملۂ ثانیہ کا ذکر بعد میں آئے گاجس
کی تخریج ابن ماجہ وغیرہ نے کی ہے‘‘ ۔
اس لئے میری رائے یہ ہے کہ خاتم الحفاظ کی اس عبارت
سے ’’ اس حدیث کے کئی طرق ہیں جس کے مجموع سے حدیث مرتبۂ حسن تک پہونچ جائے گی‘‘ جزء
اول مراد ہو نا چاہئے ، اور اگر کوئی ان کی عبارت سے جزء اول مراد ہونا تسلیم نہ کرے
تو نہ کرے، مگر اسے علامہ عجلونی رحمہ اللہ کی عبارت تو تسلیم کرنی ہی پڑے گی، کیونکہ
ان کی عبارت میں اس بات کی صراحت ہے کہ امام مزی اور امام ذہبی رحمہما اللہ نے حدیث:’’اطلبو
العلم ولو بالصین‘‘ کے بارے میں ہی فر مایا ہے کہ: اس کے متعدد طرق ہیں جس کی وجہ سے
یہ حدیث درجہ حسن تک پہونچ سکتی ہے یا یہ کہ اس کے بعـض
طرق صالح ہیں ،اور یہی میرے نزدیک صحیح اور درست ہے جب تک کہ اس کے خلاف کوئی مضبوط
دلیل نہ مل جائے۔
چند ماہ قبل عصر حاضر کے ایک اصول حدیث
کی نزاکتوں سے واقف، محدثین کے سارے اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھنے والے قابل احترام
محقق نے ’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ پر اپنی تحقیق پیش کی تھی، محقق صاحب کی اس تحقیق
میں بعض غلطیاں در آئی ہیں جس کواحقاق حق کے لئے واضح کرنا ضروری ہے، اور وہ مندرجہ
ذیل ہیں:
محقق صاحب فرماتے ہیں:’’ ابن حبان اور
دیگر کئی ناقدین نے اس کے موضوع ہونے کا فیصلہ سنا دیا ہے‘‘ تعلیق: یہ خالص دعوی بلا
دلیل ہے، اس طرح کے دیگر دعاوی ’جام نور‘ کے قارئین کو ان کے احادیث موضوعہ پر لکھے
گئے مضمون میں ملیں گے، مثال کے طور پر ایک جگہ فر ماتے ہیں:حدیث: ’’الشیخ فی قومہ
کالنبی فی أمتہ‘‘کافی تلاش کے باوجود یہ حدیث ہمیں نہیں ملی‘‘۔ کس طور سے کافی تلاش
و جستجو کی گئی اور محقق صاحب کو یہ حدیث نہیں ملی میری سمجھ سے باہر ہے،کیونکہ خدا
کا شکر ہے جب میںنے ان کا مضمون پڑھا اسی وقت میرے حاشیہ ذہن میں یہ بات آ گئی تھی
کہ یہ حدیث کتاب ’اللآلی المصنوعہ ‘ (۶۱)مطالعہ
کر تے وقت نظر سے گزر چکی ہے، جس کا محقق صاحب نے حوالہ بھی دیا ہے، تعجب ہے محقق صاحب
کو کافی جستجو کے بعدبھی یہ حدیث نہیں ملی ،اگر چہ جو کتاب محقق صاحب کے زیر مطالعہ
ہے اسی میں مطلوبہ حدیث موجود ہے! راقم الحروف کو تھوڑی سی کو شش کے بعد بلفظہ اور
تقدیم تاخیر کے ساتھ اس حدیث کے دیگر مراجع ملے، اختصار کے پیش نظر بعض کتابوں کے حوالے
پیش کر دیتا ہوں، دیکھیں:(۱) المقاصد
الحسنۃ للسخاوی، ص۲۶۴، مطبع:دار
الکتاب العربی(۳) الاسرار
المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لعلی القاری، ص۳۳۹۔(۴) المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع
لعلی القاری، ص۱۱۵، مطبع:
دار البشائر الاسلامیۃ(۴) تنزیہ
الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق الکنانی ج۱ص۱۹۴، مطبع: المکتبۃ التوفیقیۃ، مصر
وغیرہ۔محقق صاحب نے بھی پہلی تین کتابوں کا اپنے مضمون میں حوالہ پیش کیا ہے مگر انہیں
کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی مذکورہ بالا حدیث نہیں مل سکی تعجب در تعجب ہے!!! محقق
صاحب سے عریضہ ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر کئی ناقدین جنہوں نے اس حدیث
یعنی ’’اطلبوا العلم الخ‘‘ کو موضوع قرار دیا ہے بیان کر کے میرے اور دوسرے لوگوں کے
علم میں اضافہ فرمائیں۔
اور فر ماتے ہیں:’’ ابن جوزی نے دو سندیں
بیان کی ہیں ایک میں ’حسن بن عطیہ‘ ہیں اور دوسرے میں ’ابو عاتکہ‘ اور دونوں ’متکلم
فیہ ‘ ہیں‘‘۔تعلیق: یہ بھی غلط ہے کیونکہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے تین سندیں ذکر کیں
ہیں یا پھر ایک، اگر اصل سند کا اعتبار کیا جائے تو ایک ہی سند ہے اور فرعی سندوں کا
اعتبار کیا جائے تو تین سندیں ہیں، کیونکہ ان کی ذکر کردہ سندوں کی اصل ’ابو عاتکہ‘
ہی ہیں۔ دو فرعی سندوں میں ’حسن بن عطیہ کوفی‘ اور ایک میں ’خالد بن خیاط‘ نے ’ابو
عاتکہ‘ سے حدیث کو روایت کیا ہے، اور جس سند میں بھی ’حسن بن عطیہ کوفی‘ ہیں اس میں
’ابو عاتکہ‘ ضرور ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کو ئی سند ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہو
جس میں ’حسن بن عطیہ کوفی‘ تو ہوں مگر اس میں ’ابو عاتکہ‘ نہ ہوں، جیسا کہ محقق صاحب
کی عبارت سے ظاہر ہورہا ہے۔نیز تحقیق کے باب میں کسی ناقدکی جرح کو کسی راوی کے بارے
ذکر کرنے کے بجائے ’متکلم فیہ‘ کہہ کر گزر جانا مناہج محدثین سے ناواقفیت کی دلیل ہے،
کیونکہ جب ناقد نے مبہم نہیں رکھاتو کسی محقق کو کیا حق بنتا ہے کہ اسے وہ مبہم پیش
کرے۔
’حسن بن عطیہ کوفی‘ کو’ متکلم فیہ‘ کہہ
کر حدیث کو رد کرنا عجیب و غریب ہے کیونکہ وہ کذاب یا وضاع نہیں بلکہ وہ تو ’صدوق
‘ہیں جس کی روایت کردہ حدیث حسن لذاتہ ہوتی ہے، شاید محقق صاحب کے نزدیک مذکورہ حدیث
حسن لذاتہ ہو لیکن پھر بھی ان کے نزدیک اس پر عمل کرنا بہتر نہ ہو۔ بلکہ کسی بھی راوی
کو صرف ’متکلم فیہ‘کہہ کررد کرنا درست نہیں، کیونکہ ایسے کتنے راوی ہیں جو ’متکلم فیہ
‘ ہیں مگر ان کی حدیثیں صحیحین میں مذکور ہیں، بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو اپنی
کتاب’’ معرفۃ الرواۃ المتکلم فیہم بما لا یوجب الرد‘‘ میں۳۹۶ راویوں
کو ذکر کیا ہے ، کتاب کے نام سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا مقصد واضح ہے۔
محقق صاحب فر ماتے ہیں:’’یعقوب بن اسحاق
کو ذہبی نے کذاب کہا ہے‘‘۔تعلیق: محقق صاحب کو امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول نظر آگیا
اور اس کو نقل کردیا، مگر انہیں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی عبار ت جو ’’ اللآلی
المصنوعۃ‘‘ میں مذکو ہے وہ نظر نہیں آئی، کیونکہ اس عبارت میں ابن حجر رحمہ اللہ نے
’یعقوب بن اسحاق‘ کے بارے میںمسلمہ بن قاسم رحمہ اللہ کے ذریعہ بعض محدثین کی توثیق
بھی نقل کی ہے جس میں خود مسلمہ بن قاسم رحمہ اللہ نے اپنی رائے بھی پیش کی ہے ، فرماتے
ہیں: ’’وہ میرے نزدیک ’صالح جائز الحدیث‘ ہیں‘‘ ۔ اگر ابن حجر رحمہ اللہ بھی چاہتے
تو صرف ’کذاب‘ ہی کہنے پر اکتفا کرتے، مگر انہیں معلوم تھا کہ علمی خیانت بھی ایک جرم
ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اس لئے انہوں نے اس ناقد کا بھی قول ذکر کردیاجس نے ان کی
توثیق کی تھی ۔
محقق صاحب نے حدیث:’’ اطلبوا العلم ولو
بالصین‘‘ کو ’کان‘ کے اضافہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ تعلیق: میں نے اب تک جتنی کتابیں پڑھی
ہیں اس میں اس لفظ کاو جود نہیں،بلکہ محقق صاحب نے جن کتابوں کا حوالہ دیا ہے اس میں
بھی دور دور تک اس لفظ کا پتہ نہیں، اگر یہ لفظ محقق صاحب کی نظر سے کہیں کسی معتمد
کتاب میں گز را ہو تو میرے علم میں بھی اضافہ فرمائیں ۔ محقق صاحب کے مقالہ’’ تقریر
وں میں موضوع روایات ایک لمحہ فکریہ‘‘ میں دوسری بعض جگہیں بھی تحقیق طلب ہیں مگر تعلیمی
مصروفیات کی بنا پر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔
خلاصہ بحث:
(۱) امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب
’’الموضوعات ‘‘میںکسی حدیث کا ہونا اس بات پر دلالت نہیں کہ حدیث موضوع ہے، ہاں اگر
کسی ناقد حدیث نے ان کی کتاب میں موجود حدیث کے موضوع ہونے کا قول کیا ہے تو اس صورت
میں وہ حدیث موضوع قرار دی جاسکتی ہے۔ (۲)
’ابو عاتکہ‘ سے روایت کرنے والے شخص’ حسن بن عطیہ کوفی‘ صدوق ہیں
نہ کہ ضعیف ، ہاں ان کے ہم نام ’حسن بن عطیہ عوفی‘ وہ ضرور ضعیف ہیں۔(۳) امام ابن حبان رحمہ اللہ نقد احادیث
و رجال میں متشدد و متساہل ہیں۔(۴) حدیث:’’اطلبوا
العلم ولو بالصین‘‘ (أ) امام مزی اور امام ذہبی رحمہما اللہ کے اقوال کی روشنی میں تعدد طرق کی وجہ سے حسن یا صالح ہے (ب) ’ابو عاتکہ‘
اور ’یعقوب بن اسحاق عسقلانی‘ کی روایت کے اعتبار سے حدیث ضعیف ـ
ہے یا شدید ضعیف نہ کہ موضوع، بلکہ صحیح یہ ہے کہ ان دونوں سندوں کے اعتبار سے بھی
حدیث ـصرف ضعیف ہے جیسا کہ دلائل و براہین
سے واضح ہوچکا۔ بہر صورت حدیث تعدد طرق کے اعتبار سے حسن ہے ، اور اگر حدیث کو ضعیف ہی مان لیا جا ئے
جب بھی اس پر عمل کرنا درست ہوگا کیونکہ یہ حدیث فضائل کے باب میں ہے، اور اس میں حدیث
ضعیف بھی مقبول ہوتی ہے، لہذا کسی محقق کا یہ کہنا کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں احتیاط
کرنا چاہئے بلا وجہ ہے۔ ھذا ما ظھر لی واللہ اعلم بالصواب ۔
فہرست مراجع
(۱)(الموضوعات
لابن الجوزی،ج۱ص۲۱۵،۲۱۶، کتاب العلم،مطبع: مکتبۃ السلفیۃ،
المدینۃالمنورۃ)
(۲)(مقدمۃ النکت البدیعات علی الموضوعات،ص۲۹، مطبع:دار الجنان )
(۳)
الموضوعات
لابن الجوزی ، ج۱ص۲۱۶)
(۴)(
المغنی
فی الضعفاء للذہبی، ج ۱ص۱۶۲)
(۵)
(الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستہ للذہبی، ج۱ص۳۲۷)
(۵)
(تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلانی، ج۲ص۲۶۵،مطبع:دار
الفکر)
(۷)(
المغنی
فی الضعفاء للذہبی، ج ۱ص۱۶۲)
(۸)(میزان
الاعتدال للذہبی،ج۴ص۸، مطبع : دار المعرفۃ ، بیروت ، لبنان )
(۹)(میزان
الاعتدال ،ج۱ص۲۷۴)
(۱۰)(
النکت
علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر ،النوع الثامن ،ص۲۹۲،مطبع:المکتبۃ التوفیقیۃ،مصر)
(۱۱)سنن
التر مذی ج ۳ص ۹۶ ، باب ما
جاء فی الکحل للصائم ،رقم الحدیث :۷۲۶)
(۱۲)
تنقیح
التحقیق فی احادیث التعلیق لمحمد بن احمد عبدالہادی الحنبلی،ج۲ص۴۲۸،کتاب
الصلاۃ،مسائل التطوع،مطبع:دار اضواء السلف،الریاض)
(۱۳)
الضعفاء
والمتروکین لابن الجوزی ،ج۲ص۶۳،مطبع:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان)
(۱۴)الکاشف
فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستہ للذہبی ، ج ۵ ، ص۵۶۷ مطبع :
دار الیسر للنشر، المدینۃ االمنورۃ)
(۱۵)
تھذیب
التھذیب لابن حجر ج۱۲ص
۱۵۸)
(۱۶)(میزان
الاعتدال ج۴ص ۵۴۲)
(۱۷)
تنقیح
التحقیق ، لابن عبد الہادی، کتاب الصیام ج۳
ص۲۴۷)
(۱۸)
کشف
الخفاء ج ۱، ص۱۵۴ مطبع :
دار التراث ، القاہرۃ ، مصر )
(۱۹)تقریب
التھذیب لابن حجر، ص۷۷۶
،
مطبع : دار الحدیث ، القاہرۃ ، مصر )
(۲۰)
المقاصد
الحسنۃ للسخاوی ص۷۳،مطبع:
دار الکتب العربی،بیروت، لبنان )
(۲۱)
شعب
الایمان للبیھقی،ج۲ ص
۲۵۴ ،مطبع
: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان )
(۲۲)
الؤ
لؤ المرصوع للقاوقجی، ج۱ص۴۰، مطبع: دار البشائر الاسلامیۃ ،
بیروت)
(۲۳) ( نزھۃ النظرشرح نخبۃ الفکر ص ۱۵، ۱۹ ، مکتبۃ
الرحاب ، مصر، فتح المغیث للسخاوی ، ج ۱
ص
۷۸ ، مطبع
: المکتبۃ التوفیقیۃ،مصر )
(۲۴)
( الارشاد الی کیفیۃ دراسۃ الاسناد لرضا زکریا،ص۱۶۵، ۱۶۶)
(۲۵)
الاسامی
والکنی ، لابی احمد الحاکم، ج ۵
ص۳۹۲)
(۲۶)
(العلل ومعرفۃ الرجال النص:۷۳۶،ج۱ص۱۵۰،مطبع:المکتبۃ
الاسلامیۃ،ترکیا،استنبول)
(۲۷)(سوالات
ابن ابی شیبۃ لعلی بن المدینی :النص :۲۳۴،
ـص۱۶۲ ، مطبع
:مکتبۃ المعارف، الریاض)
(۲۸)(
التاریخ
الکبیر للبخای ، ج۴ ص۳۵۷ مطبع ،دار
الکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان )
(۲۹)(
نزھۃ
النظر شرح نخبۃ الفکر لابن حجر ِ ص ۲۳،
۵۳،شرح علل الترمذی لابن رجب الحنبلی
،ص۲۵۲،۳۵۳،مطبع:
عالم الکتب)
(۳۰)(
میزان
الاعتدا ل للذھبی ،ج۱ص
۶ )
(۳۱)(
التاریخ
الکبیر للبخاری، ج ۱ص
۴۰۴)
(۳۲)(التاریخ
الکبیر ج۱ ص
۲۷۱ )
(۳۳)(
الجرح
والتعدیل لابن ابی حاتم ج۲
ص
۸۳، ۸۴) مطبع : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت
، لبنان )
(۳۴)
( الکامل لابن عدی ج ۱
ص
۲۳۶ مطبع: دار
الفکر ، بیروت ، لبنان )
(۳۵)(
النکت
البدیعات علی الموضوعات ، باب فضائل القر آن ص ۶۳، مطبع : دار الجنان )
(۳۶)
( النکت البدیعات ص ۳۲۱)
(۳۷)
( الضعفاء والمتروکین للنسائی ج ۱ ص ۱۴۴ ، مطبع
: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنا ن )
(۳۸)
( مقدمۃ فتح الباری بشرح صحیح البخاری لابن حجر ص ۶۱۶، ۶۱۹، مطبع : دار الحدیث )
(۳۹)
( سیر اعلام النبلاء للذھبی
، ج۹،ص۲۲۸ مطبع: مؤسسۃ
الرسالۃ )
(۴۰)
(بیان الوھم و الایھام الواقعین فی کتاب الاحکام لابن القطان ،
ج۵، ص۳۲۵)
(۴۱)(
الضعفاء
الکبیر للعقیلی، ج ۲
ص
۲۳۰ مطبع :
دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان )
(۴۲)(میزان الاعتدال للذھبی ج۳ ص۱۴۰)
(۴۳)
( حاشیۃ الرفع والتکمیل ص۴۰۶)
(۴۴)(
الکفایۃ
للخطیب البغدادی ص ۱۸۱
،باب
القول فی الجرح )
(۴۵)
(حاشیۃ الرفع والتکمیل ص۱۴۰، ۱۴۱)
(۴۶)(
اللآلی
المصنوعۃ للسیوطی ج۱
ص
۱۷ مطبع :
دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ، لبنان )
(۴۷)(
النکت
البدیعات ، باب الصلاۃ، ۶۹)
(۴۸)( النکت البدیعات ، باب المناقب، ص
۲۷۱)
(۴۹)
( الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ، ج ۴ ص ۴۹۴)
(۵۰)( مقدمۃ فتح الباری ، ص۶۱۶، ۶۱۷)
(۵۱)(
الکشف
الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث للحلبی، ص۱۳۹،
مطبع : عالم الکتب ، بیروت ، لبنان )
(۵۲)
( تقریب التھذیب ص۷۷۶،
مطبع : دار الحدیث ، القاھرۃ)
(۵۳)
( میزان الاعتدال ج غ ص۴۴۹)
(۵۴)
( لسان المیزان لابن حجر ج۸ ص ۵۲۵)
(۵۵)(
المقاصد
الحسنۃ ص ۷۳ )
(۵۶)(جامع
بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر ص ۹۶،مطبع:دار
ابن حزم)
(۵۷)(
تخریج
احیاء العلوم للعراقی ،ج ۱ص۵،جامع بیان العلم و فضلہ ص ۹۵)
(۵۸)(لسان
المیزان ج۱ ص
۴۹۴)
(۵۹)
(النکت البدیعات ص۴۳،
۴۴ )
(۶۰)
(کشف الخفاء للعجلونی ج۱
ص۱۵۴)
(۶۱)
( اللآلی المصنوعۃ للسیوطی، ج۱ص۱۴۰)
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفر لہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:8318177138
ای میل:fmfoundation92@gmail.com
(یہ مضمون علامہ اسید الحق علیہ الرحمۃ کے انتقال سے پہلے جامعہ ازہر میں تعلیم کے دوران لکھا گیا)
سبحان اللہ سبحان اللہ
ReplyDeleteایک اہم مسئلے کی تحقیق فرما کر ہم طالبان علوم نبویہ پر آپ نے احسان فرمایا اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین