یقینا علم ایک ایسا خوبصورت
زیور ہے جس سے انسان کی فکر سنورتی ہے، یہی زیور ایمان و عمل میں پختگی کا سبب بنتا
ہے، اسی کے ذریعہ ایک صالح معاشرہ پرورش پاتا ہے ، یہی زیور ہی ایثار و قربانی کا جزبہ
پیدا کرتا ہے اور ایسی روشن زندگی بخشتا ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اسے یاد کرنے پر مجبور
ہوجاتے ہیںبلکہ یہ کہ لیجئے کہ اسلام اور قانون اسلام کے جتنے مطالبات ہیں سب اسی زیور
کی مرہون منت ہیں، لیکن اگر اس زیور سے ایک انسان خالی و عاری ہو؛ تو جہالت سر چڑھ
کر بولتی ہے؛ جس کی وجہ سے فکر سنورنے کے بجائے فساد کا شکار ہوجاتی ہے، ایمان و عمل
میں پختگی پیدا ہونے کے بجائے بے ایمانی اور بے عملی کی کمزوری اپنا راستہ ہموار کرتی
ہوئی نظر آتی ہے، ایک صالح معاشرہ پرورش پانے کے بجائے ایک فاسد و پراگندہ ماحول عروج
پاتا ہوا نظر آتا ہے، جزبہ ایثار و قربانی کے بجائے خود پرستی، نفس پرستی اور بزدلی
جیسے اوصاف پھولتے پھلتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک زندہ انسان زندہ ہونے کے باوجود بھی
مردہ نظر آتا ہے، بلکہ ایک انسان جہالت کے اندھیرے میں یوں گم ہوجاتا ہے کہ اسلام
اور قانون اسلام سے پیچھا چھڑانے میں فخر محسوس کرتا ہے اور پھر دنیوی و اخروی تباہیاں
اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔
علم
دین سے پاتی ہے انسانیت فروغ
انسان
زندہ لاش ہے تعلیم کے بغیر
پہلے مدارس و مساجد کم تھے
مگر علم کی پختگی اپنے عروج پر تھی؛ کیوں کہ پہلے عموما نااہل کو اہل کا درجہ نہیں
دیا جاتا تھا، خطیب عالم باعمل ہوا کرتا تھا، تعلیم و تعلم کو پس پشت ڈال کر گھر گھر
گھوم کر قرآن خوانی نہیں کی جاتی تھی، پہلے قرآن خوانی وغیرہ میں بچوں کو نہ بھیجنے
کی وجہ سے مدارس کے بند ہونے کا احمقانہ خوف و ڈر نہیں پایا جاتاتھا، سرعام مدارس کے
قانون کی دھجیاں نہیں اڑائی جاتی تھی، بلامجبوری مہینوں مدارس سے غائب ہونے کی لت نہیں
تھی، اساتذہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے، ذمہ دار کسی کو کوئی
ذمہ داری دینے کے بعد بلاوجہ اس میں دخیل نہیں ہوتا تھا اور نہ اسے کٹھ پتلی سمجھتا
تھا، ذمہ دار اپنے ماتحتوں کے درمیان سوتیلے برتاؤ سے گریز کرتا تھا اور مساوات کا
کوئی ایسا پہاڑا نہیں پڑھتا تھا جس کی وجہ سے مساوات بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے،
اساتذہ اور تلامذہ کے درمیان حد درجہ سہل پسندیاں نہیں پائی جاتی تھیں، دور طالب علمی
بلکہ زمانہ درس و تدریس میں بھی اس حد تک دولت حاصل کرنے کا جزبہ کار فرما نہیں ہوتا
تھا جس سے تعلیم و تعلم حد سے زیادہ متاثر ہوتا نظر آئے، مدرسہ کو کالج بناکر اصل
کو فرع بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، معلم و مدرس زیادہ اور خطیب و شاعر بلکہ ضمیر
فروش خطیب اور گوئیے بہت کم ہوا کرتے تھے، نا اہل بلکہ عالم نما جاہل کو دستار دینے
کا رواج نہیں تھا، رشد و ہدایت کے تینوں میناروں: انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام،
اولیاے کرام اور علماے کرام کی پورے طور سے ہر آن پاسداری کرنے کی کوشش کی جاتی تھی
اور تین اہم مقامات: مساجد، مدارس اور خانقاہیں اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا کرنے کی
کوشش کیا کرتے تھے، گویا پہلے زمانہ میں پورا معاملہ ایک سسٹم اور ڈسپلین کے ساتھ چلتا
تھا مگر حد درجہ افسوس کی بات ہے کہ آج مدارس و مساجد کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر علم
کی پختگی اور اس کی جولانیت مفقود نظر آتی ہے؛ کیوں کہ آج کل عموما نا اہل کو اہل
کا درجہ دینے کی بے بنیاد کوشش کی جاتی ہے، خطیب کی بے عملی اور لاپرواہی کا بول بالا
نظر آتا ہے، تعلیم و تعلم کو پس پشت ڈال کر قرآن خوانی وغیرہ کو پیشہ بنالیا گیا
ہے، روکنے کی کوشش کی جائے؛ تو مدرسہ بند ہونے کا عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے، جبرا مدارس
کے قوانین کو بالاے طاق رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، بلا مجبوری مہینوں مدرسہ سے غائب
نظر آتے ہیں، اساتذہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں حد درجہ کوتاہ نظر آتے ہیں، سرکردہ
حضرات اپنے ماتحتوں کو ذمہ داری دینے کے باجود اس میں پورے طور سے دخل اندازی کرتے
نظر آتے ہیں اور ذمہ دار ایک کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے، سہولت طلبی اپنے عروج پر
دکھائی دیتی ہے، مادیت پرستی اس قدر در آئی ہے کہ تعلیم و تعلم حد درجہ متاثر نظر
آتا ہے، اصل کو فرع کی حیثیت دینے کی کوشش کی جارہی ہے، ماہر معلم و مدرس بہت کم اور
ضمیر فروش خطیب اور گویئے زیادہ پائے جاتے ہیں، عالم نما جاہل کو دستار دینے کا رواج
حد سے تجاوز کرتا دکھائی دے رہا ہے، تینوں میناروں کی پاسداری ماند پڑتی جارہی ہے،
تینوں اہم مقامات ان کے نگراں کی لاپرواہی، ہٹ دھرمی اور جہالت کی وجہ سے اپنا وقار
کھوتے ہوئے نظر آرہے ہیں؛ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ دور حاضر میں عموما مدارس و مساجد
اور خانقاہوں کا سارا سسٹم اور ڈسپلین تباہ و برباد ہوچکا ہے؛ تو بے جا نہ ہوگااور
جب بات ایسی ہے بلکہ ایسی ہی ہے؛ تو قوم کا انجام وہی ہوگا جو آج ہم اپنی آنکھوں
سے دیکھ رہے ہیں، محب گرامی وقار حضرت مولانا مفتی کہف الوری مصباحی زید علمہ کی کتاب
’مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی، اسباب اور حل‘ میں اوپر ذکرکردہ نکات پر پوری تفصیلی
سے گفتگو ملے گی، اکثر نکات سے مجھے بھی اتفاق ہے، ان میں سے دو چند نکات پر اپنے درد
دل کی بات کچھ تفصیل سے سپرد قرطاس کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
آج کل اکثر مدارس میں ذمہ
ادارارن کے ذریعہ نااہل کو اہل کا درجہ دینے کی وبا بہت عام ہوتی جارہی ہے؛ کیوں کہ
پیش نظر صرف اور صرف مادیت کا نفع ہے، کوئی شخص بارہ، پندرہ بیس لاکھ دیدے عالیہ فوقانیہ
میں جگہ مل جائے گی، خواہ وہ عالیہ کے عین اور فوقانیہ کے فا سے بھی واقف نہ ہو، بیٹا،
پوتا، نواسہ یا اور کوئی رشتہ دار یا پیر صاحب کا لڑکا ہو، عالیہ و فوقانیہ میں تقرری
ہوجائے گی، چاہے وہ عالیہ و فوقانیہ کی کتابیں پڑھانے میں صفر کی حیثیت رکھتا ہو، خوددار
اور باصلاحیت استاذ کو اہم ذمہ داری نہیں دی جاسکتی؛ کیوں کہ اپنی ٹوپی نیچی ہوجائے
گی اور چاپلوس کو اس کے چاپلوسی کی بنا پر سب سے اہم عہدہ دے دیا جائے گا، اگرچہ مدرسہ
کے در و دیوار چیخ چیخ کر کہ رہے ہوں کہ یہ شخص مدرسہ کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا، اس
کے ہوتے ہوئے اخلاق و کردار اپنی آخری سانسیں لینے پر مجبور ہوجائیں گے اور تعلیم
و تعلم کا جنازہ نکلتا ہوا نظر آئے گا مگر چاپلوسی اتنی میٹھی ہوتی ہے کہ نہ تو کچھ
دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سنائی دیتا ہے اور اس طرح مدرسہ اپنے انجام کو پہونچ
جاتا ہے، اس کے باوجود سینہ تان کر ایسے چلیں گے جیسے کہ پوری دنیا فتح کرلی ہو۔
مدارس کی طرح اکثر مساجد
و خانقاہوں کا حال بھی کچھ کم نہیں ہے، مسجد کے امام کی قراء ت صحیح نہیں، مسائل میں
درک کی تو بات دور ضروری مسائل بھی معلوم نہیں اور خانقاہوں میں فرائض و واجبات کا
اہتمام، تصوف اور خلوص للہیت کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے، یہاں پر بھی صرف مادیت پرستی
کا دور دورہ نظر آتا ہے، اس کے لیے جتنا ڈھونگ کرنا پڑے کم ہے اور اپنی جہالت پر زرق
برق کپڑے اور جبہ و دستار کی آڑ میں جتنا بھی پروپیگنڈہ کرنا پڑے اور دوسرے کو نیچا
دکھانا پڑے، سب کم ہے، ایسی جگہوں سے ضمیر فروش تو پیدا ہوسکتے ہیں مگر ضمیر کی حفاظت
کرنے والا پیدا نہیں ہوسکتا، ایسی جگہوں سے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی داستان لکھنے
کے مواد تو فراہم کیے جاسکتے ہیں مگر سنہرے حرفوں سے سنہری تاریخ لکھنے کا موقع فراہم
نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ دل میں بس یہی ہے:
دوچار
امیروں کا مجھے پیر بنادے
موجودہ مروجہ قرآن خوانی
وغیرہ کا بھی عجیب و غریب حال ہے، یقینا یہ چیز مدارس کے طلبہ کی تعلیم اور ان کے معیار
کو دیونک کی طرح کھاتی جارہی ہے، اس سے دو طرح کے نقصانات سامنے آئے ہیں، ایک یہ کہ
عوام نے فرائض و واجبات کو چھوڑ کر صرف دوسرے کی تلاوت وغیرہ کے تبرکات و نوافل پر
تکیہ کرلیا ہے، ایسا تکیہ کہ بھولے سے بھی ان کی توجہ فرائض و واجبات یا خود تلاوت
قرآن وغیرہ کی طرف نہیں جاتی، دوسرابہت بڑا نقصان طلبہ کی تعلیم کا ہوتا ہے، قرآن
خوانی وغیرہ میں خاطر خواہ وقت لینے والوں کویہ کون بتائے کہ یہ طلبہ مروجہ قرآن خوانی
وغیرہ کے لیے نہیں بلکہ دین و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں تاکہ اس تعلیم
کی روشنی میں وہ قوم و ملت کی صحیح طور سے رہنمائی کرسکیں، مگر جہالت کی دبیز پٹی اس
قدر پڑی ہوئی ہے کہ اس طرح کی باتیں ایسے لوگوں کو سمجھ میں ہی نہیں آتی یا سمجھنا
ہی نہیں چاہتے ہیں، جب چاہیں گے آ دھمکیں گے اور بچوں کی پڑھائی تباہ کرکے اپنے تبرکات
سمیٹنے کی بھر پور کوشش کرکے کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھنے کی بھر پور کوشش کریں گے،
اگر یہی طریقہ کار رہا اور اہل مدارس نے اس سے بچنے کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں
اٹھایا؛ تو ان نیم پڑھے لکھے لوگوں کی وجہ سے علم و عمل کا جنازہ ہی نکلے گا اور جہالت
اپنی فتح کا جھنڈا لہراتا ہوا نظر آئے گا جس کا مداوی ہم اگلی کئی صدیوں میں بھی کرنا
چاہیں گے؛ تو نہیں کرسکیں گے اور اس کا بھیانک خمیازہ قوم مسلم کو بھگتنا ہی پڑے گا
بلکہ ایک حد تک بھگت ہی رہی ہے بس دیکھنے اور سمجھنے کے لیے عبرت والی نگاہ، دل اور
دماغ چاہیے۔
اساتذہ اور طلبہ کی بھی تساہلی،
آرام طلبی اور پزمردگی کچھ کم نہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ بارہا احساس ذمہ داری
دلانے کے باوجود احساس ذمہ داری کی کوئی رمق نظر نہیں آتی، درس و تدریس میں لاپرواہی،
حاضری و غیر حاضری کا کوئی مطلب نہیں، کد و کاوش کی کوئی چاہت نہیں، بس جوں توں زندگی
گزرجائے بس یہی کافی ہے، حالاں کہ زندگی گزرانے کے لیے نہیں بلکہ کچھ کرگزرنے کے لیے
ہوا کرتی ہے مگر ضد یہی ہے کہ ہم اسی بے حسی اور بے غیرتی کے عالم میں زندگی گزاریں
گے اور یوں دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اور ادھر کچھ سالوں سے عموما گورنمنٹی نوکری والوں
کا حال بد سے بد تر ہوتا چلا جارہا ہے، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف
تنخواہ کے بارے میں ہی بات کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا
کام نہیں، اب ایسی جگہوں سے ماہر عالم، ماہر مفتی اور ماہر محدث وغیرہ کی امید رکھنا
کسی سراب سے کم نہیں۔
ضمیر فروش اور بکاؤ خطبا
اور گویوں کی اتنی کثرت ہوچکی ہے کہ وہ اپنا دام لگانے میں ذرہ برابر عار و عیب محسوس
نہیں کرتے، حد درجہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ طریقہ کار اور یہ بے ڈھنگی زمانہ طالب
علمی ہی سے دل و دماغ میں بسنے لگتی ہے بلکہ اسی وقت سے زبان و بیان بیچ کر اور گاکر
پیسے کمانے کی ہوڑ لگی رہتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مدرسہ میں پڑھنے نہیں بلکہ
روپئے کمانے آئے ہیں، انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ مدرسہ دین کا قلعہ ہے، یہ قلعہ دین
و سنیت کا سپاہی پیدا کرنے کے لیے ہے نہ کہ بے ڈھب خطبا اور گویوں کے وجود میں اضافہ
کرنے کے لیے ہے، طلبہ اور اساتذہ کے اندر اس طرح کی خواہشات نے ان کے ذہن و دماغ کو
بالکل مفلوج کردیا ہے؛ جس کی وجہ سے ان کے اندر قوم کی فلاح و بہبود کی نہ تو کوئی
فکر نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی صالح جزبہ دکھائی دیتا ہے اور یہ ایسے افراد
کے لیے ممکن بھی نہیں ہے؛ کیوں کہ مادیت پرستی کے دیوانوں کا انجام ہی یہی ہے کہ صم
بکم عمی کی طرح زندگی گزاریں اور یوں ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں۔
شعبدہ
گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا
جہل ہے بدنام
خرد ہوتی ہے
مدارس کے ذمہ داروں پرفارغین
کی کثرت تعداد دکھانے کا اس قدر بھوت سوار رہتا ہے کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرسکتے
ہیں، ثانیہ و ثالثہ کے بچہ کو عالمیت و فضیلت کی دستار دے دیں گے، دس بیس پارہ حافظ
قرآن کو حفظ کی دستار دے دیں گے، ذمہ دار نے دستار تو دے دی مگر یہ نہ سوچا کہ یہ
بچہ اس پگڑی و دستار کا ناجائز فائدہ اٹھائے گا اور اپنے آپ کو مولانا و حافظ کہتا
پھرے گا اور جب پڑھانے بیٹھے گا تو بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کرے گا، ان کے گارجن کی
امیدوں پر پانی پھیرتا دکھائی دے گا اور مدارس کے ذمہ داران اس کھلواڑ اور تباہی کو
ترقی کا نام دیتے نہیں تھکیں گے، ایسی ترقی پر اف اور تف ہے۔
نیز عموما مدارس کے سسٹم
اور ڈسپلین کا تو پوچھئے مت، پورا سسٹم تہس نہس ہوچکا ہے، آج قانون بنا، آج ہی اس
کا جنازہ نکال دیا گیا، نماز جیسی اہم عبادت کا کوئی مول نہیں، کسی استاذ نے برمحل
سختی کی تو دوسرا استاذ اس کے خلاف ذہن سازی کرنے کی کوشش کرنے لگے گا، تھوڑی سی پریشانی
ہوئی یا سختی کی گئی تو طلبہ مدرسہ سے چلے جانے کی دھمکی دینے لگیں گے اور اگر خدا
نہ خواستہ کہیں ایسا ہوگیا تو پورے عوام و خواص مل کر حقیقت جانے بغیر اساتذہ کو سب
و شتم کرنے لگیں گے اور یوں بھڑاس نکالیں گے گویاکہ برسوں کی دشمنی کا حق ادا کررہے
ہیں۔
یہ اور اس کے علاوہ دوسری
ساری خرابیاں نہ تو اسلام کا حصہ ہیں اور نہ ہی اسلام میں ان کی کوئی جگہ ہے؛ اس لیے
فوری طور پر مدارس، مساجد اور خانقاہ کے ذمہ داران، طلبہ اور علما کو ہوش کے ناخون
لینا از حد ضروری ہے؛ تاکہ اس گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر علم و عمل کی روشنی میں
زندگی گزاریں اور دوسرے لوگوں کو بھی اسی روشنی کی کرنوں میں رچاتے بساتے نظر آئیں۔
بہر کیف یہ سب اور اس طرح
کی بہت ساری خرابیوں کی نشان دہی قارئین کرام کو محب مکرم حضرت مولانا مفتی کہف الوری
مصباحی زید علمہ کی اس کتاب ’مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی اسباب اور حل‘ میں ملیں گی،
یہ بظاہر نشتر تو ضرور ہے مگر یہ وہی نشتر ہے:
اس
بزم میں مقصود ہے اصلاح مفاسد
نشتر
جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں
ہوتا
اس لیے موصوف مصنف زید علمہ یا مجھ فقیر کو برا بھلا کہنے کے بجائے
سنجیدگی سے پیش کردہ امور پر غور و خوص کرنے کی سخت ضرورت ہے؛ تاکہ کوئی بہترین حل
نکل کر سامنے آئے اور ایک بار پہلے کی طرح پھر ہم اپنے مقصد میں متحد نظر آئیں اور
قوم کو علما، خطبا اور نعت خواں اسی طرح کے دے سکیں جس کی قوم کو ضرورت ہے اور جس کی
عملی تصویر ہمارے سلف صالحین نے ماضی میں پیش فرمائی ہے، اللہ تعالی مولانا موصوف زید
علمہ کو اس حق گوئی و بے باکی کا دنیا و آخرت میں بہترین جزا عطا فرمائے، مزید خلوص
کے ساتھ لکھنے، پرھنے اور بولنے کی توفیق رفیق سے نوازے اور آخرت میں ہم سب کے لیے
اسے ذریعہ نجات بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
دعا
گو دعا جو:
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی
مصباحی ازہری غفر لہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر،
شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن،
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:8318177138
ای
میل:fmfoundation92@gmail.com
۲۳؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ مطابق ۳۱؍
اپریل ۲۰۱۹ء
(تقدیم کتاب: مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی، اسباب و علاج، از مفتی کہف الوری مصباحی زید علمہ)
(تقدیم کتاب: مدارس اسلامیہ کی زبوں حالی، اسباب و علاج، از مفتی کہف الوری مصباحی زید علمہ)
No comments:
Post a Comment