مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ ایک انسان
کی جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں بالکل اسی طرح انسانوں کی فکر، سوچ اور مزاج ایک
جیسے نہیں، قدرتی طور پر ان چیزوں میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لہذا ان کے
درمیان کبھی عالمی تو کبھی ملکی، کبھی صوبائی توکبھی خانقاہی، کبھی مدرسہ تو کبھی گاؤں،کبھی
خاندانی اور کبھی گھریلو وغیرہ معاملات میں اختلافات ناگزیر ہیں، اختلاف کی صورت میں
عموما آج کا انسان نفسیاتی دباؤ میں آکر شریعت اسلامیہ کے قوانین کی پیروری کرنے
کے بجائے خواہش و ہوی کی اتباع کرنے لگتا ہے، اب چاہے یہ اختلافات عالمی،ملکی اور صوبائی،
یا خانقاہی، مدرسہ، گاؤں، خاندانی اور گھریلو لحاظ سے ہو،نتیجہ سامنے ہوتا ہے، اختلافات
کو مزید ہوا ملتی ہے، دوریاں بڑھتی جاتی ہیں، بلکہ قتل و غارت گری، سب و شتم، اتہام
بازی، حقوق العباد کا خون اور بہت ساری حرام کاری کا بازار اس طرح سے گرم ہونے لگتا
ہے جس کے ختم ہونے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی! نفس امارہ کی اتباع کا انجام تو یہی
ہونا ہے؛ کیوں کہ نفس تو برائی کا ہی حکم دیتا ہے، اس کے برعکس جب اختلافات کے حل کی
کوئی صورت نظر نہ آئے اور نفس و خواہش کی اتباع کرنے کے بجائے اگر شریعت اسلامیہ کی
اتباع کی جائے اور اللہ جل شانہ کے دئے گئے حکم مصالحت کو اختیار کیا جائے؛ تویہ حکم
شرعی مسلمانوں کے حل اختلافات کے لیے اکسیر اعظم بن آکر سامنے آئے گا، اگر مسلمانوں
نے حل اختلافا ت کے لیے اسے اختیار کرلیا؛ تو سعی محمود کے بعد ہر اختلافات ان شاء
اللہ باآسانی یا تھوڑی سی جد و جہد کے بعد ختم ہوجائیں، قتل و غارت گری نہ ہو، سب
و شتم اور اتہام بازی کا بازار گرم ہونے سے بچ جائے اور حقوق العباد کی پامالی کا دروازہ
بند ہوجائے، دوریاں قربت میں بدلنے لگیںاور دوسری بہت ساری برائیاں ختم ہوجائیں، آج
میں اپنی اس بزم میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اکسیر اعظم یعنی مصالحت کی وضاحت
کرنے کی کوشش کرونگا؛ تاکہ بنظر عبرت پڑھ کر عمل کرنے کی کوشش کی جاسکے اور زیادہ سے
زیادہ اختلافات کو ختم کرکے در گور کیا جاسکے، میں اپنے اس مضمون کو دو قسطوں میں تقسیم
کرتا ہوں، پہلی قسط میں ان شاء اللہ صلح و مصالحت کی خوبی وغیرہ اور دوسری قسط میں
صلح کے احکام وغیرہ بیان کروں گا، و ما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت
و إلیہ أنیب۔
صلح انسان کو ایک نئی زندگی دیتا ہے، صلح
ہی انسان کے لیے بہتر اور یہی اختلاف کا صحیح علاج ہے،اللہ تعالی نے دو فریق میاں و
بیوی کو صلح کی دعوت دی اور یہ بھی بتایا کہ صلح بہترین امر ہے، اللہ جل شانہ ارشاد
فرماتا ہے: {وان امر اۃ خافت من بعلہا نشوزا او اعراضا فلا
جناح علیہما ان یصلحا بینہما صلحا و الصلح خیر} (النسا:
۴، آیت:۱۲۸) ترجمہ: ((اور اگر کوئی عورت اپنے
شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں
اور صلح خوب ہے)) (کنز الایمان)
صلح و مصالحت محمود پسندیدہ امر ہے، اس
کی ضرورت اسی وقت پڑتی ہے جب دو گروہ میں اختلاف پیدا ہوجائے، مگر یاد رہے اختلاف پیدا
ہونے کی صورت میں عوام و خواص سے دو طرح کے لوگ سامنے آتے ہیں، ایک تو وہ لوگ ہیں
جن کی نیت میں کھوٹ ہوتاہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اختلاف کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں،غالبا
ان کا مقصد دنیاوی جاہ و حشمت حاصل کرنا ہوتا ہے! دوسرے وہ نیک لوگ ہیں جو صلح و مصالحت
کی بات کرتے ہیںاور اس پر عمل کرنے کی رغبت دلانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے
ہیں جن کے دل میں درد ہوتاہے، یہی وہ ہیں جو صحیح معنوں میں امت مسلمہ کی بھلائی چاہتے
ہیں، اب رہی بات یہ کہ ہم دونوں گروہ کو کیسے پہچانیں گے اور ان کے درمیان امتیاز کیسے
کریں گے؟! اس کے حل کے لیے رب تعالی کے حضور حاضر ہوتے ہیں، اللہ تعالی اس امر کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
{لاخیر فی کثیر من نجوٰیہم الا من امر بصدقۃ او معروف
او اصلاح بین الناس} (النسا:۴، آیت: ۱۱۴) ترجمہ: ((ان کے اکثر مشوروں میں
کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا)) (کنز
الایمان)
یہ آیت کریمہ جہاں یہ بیان کرتی ہے کہ
صلح بہترین چیز ہے وہیں یہ ہمارے لیے فتنہ پرور اور صلح و مصالحت اور خیر چاہنے والوں
کے درمیان خط فاصل کھینچنے والی بھی ہے، اسی فرمان عالی شان کو سامنے رکھ کر ہمیں ایسے
ماحول میں فتنہ پروروں سے دور اور خیر خواہی کی طرف اقدام کرانے والوں سے قریب رہنا
ضروری ہے۔
اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق صلح و مصالحت
چاہنے والا ہی خیرخواہ ہے؛ لہذا اختلاف کو رفع دفع کرنے کے لیے کسی ایسے حکم و فیصل
کی تلاش کی جائے جو صلح و مصالحت چاہنے اور حق گو ہونے کے ساتھ حکم بننے کی صلاحیت
رکھتا ہو، اور دونوں گروہ اس سے راضی ہوں، یا دونوں گروہ کے لوگ اپنے اعتبار سے الگ
الگ ایسے حکم کا انتخاب کریں جو حکم و فیصل بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور صلح و مصالحت
کی خو ان کے اندر پائی جاتی ہو اور وہ اس امر مہم کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہوں، اگر
ایسے لوگ صلح و مصالحت کے لیے بیٹھیںاور نفس کی رضا کے بجائے اللہ تعالی اور اس کے
رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے معاملہ حل کرنا چاہیں؛ تو اللہ تعالی ضرور
ان دونوں گروہوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرکے دل کی کدورت دور فرمادے گا، اللہ
تعالی میاں و بیوی کے درمیان اختلاف کو ختم کرنے کے طریقہ کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے
ارشاد فرماتا ہے:
{و ان
خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکما من اہلہ و حکما من اہلہا ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ
بینہما ان اللہ کان علیما خبیرا} (النسا:۴، آیت:۳۵)
ترجمہ: ((اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے
کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک پنچ عورت والوں کی طرف سے
یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان میں میل کردے گا بے شک اللہ جاننے والا
خبردار ہے)) (کنز الایمان)
اس آیت سے یہ واضح ہوگیا کہ حکم و فیصل
وہی شخص ہونا چاہئے جو صلح و مصالحت چاہتا ہو، اگر اس کے برعکس ہوایعنی اس کے اندر
صلح و مصالحت کی خو نہیں پائی جاتی، یا حق گو نہیں یا چہرا دیکھ کر بات کرتا ہے، یا
چاپلوسی کا نظریہ رکھتا ہے؛ تو معاملہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ جائے گا ، اختلاف کی
ہوا مزید تیز ہوجائے گی؛ لہذا حکم بنانے میں ان باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔
صلح کے متعلق یہ چند آیتیں اختلاف کرنے
والوں کے لیے قابل عبرت ہیں، ان کے علاوہ بھی دوسری آتیں ہیں جو صلح و مصالحت کی طرف
رغبت دلاتی ہیں، مگر یہاں اس مختصر مضمون میں ان کا ذکر کرنا طوالت کا باعث بنے گا
جو مناسب نہیں، قارئین کرام صلح کے متعلق بعض احادیث بھی ملاحظہ فرمالیں:
(۱) ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا
سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
((وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان
صلح کرائے کہ اچھی بات پہونچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے)) (صحیح البخاری)
حقیقت میں جھوٹ بولنا ناجائز و حرام اور
بہت بڑا گناہ ہے، اس کے مرتکب کا ٹھکانہ جہنم ہے مگر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مسلمانوں کے درمیان صلح و مصالحت اس قدر محبوب و مرغوب ہے
کہ اگر کوئی شخص دو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بھی بولے؛ تو اسے جھوٹا
قرار نہیں دیا جائے گا! مثال کے طور پر دو فریقوں کے درمیان صلح کرانے کی غرض سے دونوں
سے کوئی تیسرا شخص کہے: فلاں شخص نے آپ کو سلام کہا ہے، وہ آپ سے محبت کرتا ہے، اگرچہ
فلاں نے کچھ بھی نہ کہا ہو!!
یہ ہے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مگر دور حاضر میں خواص و عوام میں سے کچھ لوگ مثلا بیوی، قریبی رشتہ دار اور دوست
وغیرہ صلح و مصالحت کے بجائے کان بھر کر ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی بھر پور کوشش
کرتے ہیں، ایسے لوگ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عبرت حاصل کریں اور فتنہ و فساد
پھیلانے کے بجائے صلح و مصالحت کی تگ و دو کریں تاکہ اہل سنت و جماعت کے لوگ الجھنوں
سے دور رہ کر چین و سکون کی زندگی گزارسکیں، نیز جو لوگ ایسا کرتے ہیں اور اپنی عادت
قبیحہ سے باز نہیں آتے مقتدی حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے افراد سے دور ہوجائیں۔
(۲) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ رضی اللہ
عنہ سے مروی، حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے
میں فرماتے ہیں:
((میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالی اس
کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرادے گا)) (صحیح البخاری)
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ
کے انتقال کے بعد سیادت و ریادت کے سب سے زیادہ حقدار آپ کے صاحبزادے حضرت امام حسن
رضی اللہ عنہ تھے، مگر مسلمانوں کے خون کی حفاظت کے پیش نظر آپ نے حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ سے مصالحت کرلی اور حکومت انہیں کے حوالے کردیا، اس طرح سے مسلمانوں کا
خون بہنے سے بچ گیا، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس لیے صلح نہیں فرمائی کہ آپ
کے ہمراہ لوگ کم تھے یا آپ کمزور تھے؛ کیوں کہ اختلاف کے درمیان آپ کے ہاتھ پر چالیس
ہزار کی بڑی تعداد میں لوگ جان قربان کردینے پر بیعت ہوئے تھے، اگر آپ لڑنا ہی چاہتے؛
تو اتنی بڑی تعداد کی مصاحبت میں ضرور لڑسکتے تھے مگر آپ کو صرف نفس کی اتباع کرتے
ہوئے سیادت منظور نہیں تھی بلکہ آپ کے نانا جان کی امت مسلمہ کا خون نہ بہے یہ مطمح
نظر تھا، چنانچہ آپ نے عظیم قربانی دے کر ان کی حفاظت کرلی، اور غیب بتانے والے آقاے
دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر صادق بطور معجزہ سالوں بعد سامنے آگئی اور
دو عظیم گروہ کے درمیان صلح و مصالحت ہوگئی، اے امام حسن! تیری جرأت کو سلام، اے امام
حسن! تیری دریا دلی کو سلام، اے امام حسن! تیری دور رس نظر کو سلام۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ سردار صرف وہی نہیں
ہوتا جو لوگوں کا ظاہری امیر ہو بلکہ سردار وہ بھی ہوتا ہے بلکہ حقیقت میں سردار وہی
ہوتا ہے جو مسلمانوں کے درمیان صلح و مصالحت کراکے ان کی عزت و آبرو کو محفوظ کردے،
اور خوں ریزی سے باز رکھے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے نواسے کی اس صلح
کی وجہ سے تعریف کرنے سے معلوم ہوا کہ آپ کو بھی یہ صلح پسند تھی اور حضرت امام حسن
رضی اللہ عنہ نے صلح کرکے جو قربانی دی ان کی پسندیدگی کا تو کوئی جواب نہیں، اگر امام
حسین رضی اللہ عنہ نے اسلام کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی قربانی دی؛ تو ان کے بڑے برادر
امام حسن رضی اللہ عنہ نے اسلام و مسلمان کے لیے اپنے نفس کے خلاف جنگ کیا اور سب سے
بڑا جہاد کرکے فتح حاصل کی، آج ہم حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور سادات کرام سے
محبت کا دعوی کرتے ہیں، بیان میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، مگر ہماری عملی زندگی میں اس
محبت کا کوئی اثر نظر نہیں آتا؛ کیوں کہ ہماری زبان میں خلوص نہیں، رضاے الہی مطلوب
نہیں، بلکہ دنیا طلبی، جاہ و حشمت کی جستجو! اثر کہاں سے نظر آئے گا، صلح و مصالحت
کی تو بات دور صلح و مصالحت کی بو کہاں سے نظر آئے گی، ہمیں کچھ کرنا ہے؛ تو عقیدے
کی حفاظت کے ساتھ اپنی عملی زندگی سنوارنی ہوگی اور حقیقیت میں سادات کرام کی زندگی
کو عملی نمونہ بناکر صلح و مصالحت کے ساتھ زندگی گزارنی ہوگی ورنہ انجام اچھا نہیں
ہوگا!
(۳) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہ سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز
سنی ان میں ایک دوسرے سے کچھ معاف کرانا چاہتا تھا اور اس سے آسانی کرنے کی خواہش
کرتا تھا اور دوسرا کہتا تھا: خدا کی قسم ایسا نہیں کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم
باہر تشریف لائے، فرمایا:
((کہاں ہے وہ جو اللہ کی قسم کھاتا ہے
کہ نیک کام نہیں کرے گا)) اس نے عرض کیا: حاضر ہوں یا رسول اللہ، وہ جو چاہے مجھے منظور
ہے (صحیح البخاری)
اس طرح سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے صاحب حق کو بھلائی کی رغبت دلاکر دونوں کے درمیان صلح کرادی، پھر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کی طرح صلح کے بعد دونوں فریقوں میں سے کسی سے یہ نہیں
کہا کہ میں نے ایسا کرکے تم پر ظلم کیا، تم پر زیادتی کی؛ کیوں کہ یہ ظلم نہیں بلکہ
ایک مسلم کا ایک مسلم کے ساتھ بھلائی کرنے کی ترغیب دلانا ہے اور نیکی کی طرف توجہ
مبذول کرانا ہے، جو ظلم نہیں بلکہ بھائی چارگی اور ثواب کا کام ہے، برسبیل تسلیم اگر
صلح میں دونوں فریق میں سے کسی کے ساتھ کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے؛ تو دونوں خود اس
کے مسؤل ہیں، صلح کے بعد کسی فریق کے تعلق سے ظلم کا اظہار کرنا جانے انجانے میں اختلاف
کو مزید ہوا دینا اور بڑھانا ہے جو حکم شرعی مصالحت اور دور اندیشی کے خلاف ہے؛ کیوں
کہ ایسی صورت میں مصالحت کا مقصود ہی فوت ہوجائے گابلکہ مفقود ہونے کی نظیر لوگوں کے
سامنے ہے، اگر آج بھی ہم سنت نبوی کو اپنائیں اور جانے انجانے میں الٹی سیدھی رہنمائی
نہ کریں؛ تو ہمارے بہت سارے مسائل باآسانی حل ہوجائیں اور کوئی انتشار و اختلاف نہ
ہو، اللہ تعالی ہمیں توفیق سے نوازے، آمین۔
(۴) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی،
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((مسلمانوں کے مابین ہر صلح جائز ہے مگر
وہ صلح جو حلال کو حرام کردے یا حرام کو حلال کردے)) (سنن أبی داؤد)
صلح و مصالحت محمود و مرغوب ہے مگر ایسی
صلح نہیں ہونی چاہئے جس میں حلال کو حرام کردیا جائے جیسے بیوی کی سوتن سے جماع یا
مسائل شرعیہ کی تحقیق نہ کرنے پر صلح،اور حرام کو حلال کردیا جائے جیسے شراب و خنزیر
یا فرقہ باطلہ کا رد نہ کرنے پر صلح؛ کیوں یہ صلح نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ پر زیادتی
ہے جو کسی صورت میں قابل قبول و عمل نہیں، صلح و مصالحت کے متعلق اس کے علاوہ دیگر
احادیث بھی ہیں مگر طوالت کے خوف سے پہلو تہی کرتا ہوں۔
آج بھی بعض افراد ایسے ہیں جو صلح و مصالحت
چاہتے ہیں لیکن اکثر افراد صلح و مصالحت سے جو ہر اختلاف کو حل کرکے مسلمانوں کو ایک
نئی زندگی دیتا ہے ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیر سے بھاگتے ہوںبلکہ اس سے بھی زیادہ دوری
اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں! سبب بظاہر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں نفس کی خواہش
ایسا نہیں کرنے دیتی یا حاشیہ نشیں اور کاسہ لیس انہیں اکسیر اعظم جیسی عظیم نعمت سے
باز رکھتے ہیں!
بعض حضرات جو صلح و مصالحت کرتے ہیں ان
میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو صلح تو کرلیتے ہیں مگر اس پر عمل کرنے کی ہمت نہیں
جٹا پاتے، یا جٹانے کے قریب تو ہوجاتے ہیں مگر نفس امارہ کا دخل ہوتا ہے اور وہ اس
سے بہت دور ہوجاتے ہیں یا انہیں کاسہ لیس افراد عملی اقدام کرنے سے بہت دور کردیتے
ہیں، اب لوگ ایسی صورت نزاعی مسئلہ میں کس کے ساتھ رہیں، کس کی بات مانیں؛ تو آئیے
اس کے حل کے لیے قرآن پاک کی بارگاہ عالی میں زانوادب تہ کرتے ہیں، اللہ تعالی ارشاد
فرماتا ہے:
{و ان
طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینہما فان بغت احدٰہما علی الاخری فقاتلوا التی
تبغی حتی تفیٓ ء الیٰ امر اللہ فان فآء ت فاصلحوا بینہا بالعدل و اقسطوا ان اللہ یحب
المقسطین انما المؤمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم و اتقوا اللہ لعلکم ترحمون}(الحجرٰت:۴۹، آیت:۹؍۱۰)
ترجمہ: ((اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ
آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے
سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ
ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں مسلمان مسلمان بھائی
ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو)) (کنز الایمان)
اس آیت سے پتہ چلا کہ لوگ نزاعی مسئلہ
میں اسی کی بات مانیں اسی کے ساتھ رہیں جو صلح پر عمل کرنے کا قائل ہے، البتہ جس نے
صلح کو پس پشت ڈال دیا اور اس پر عمل نہ کرنے کی ٹھان لی، یا صلح و مصالحت کا انکار
کردیا ؛ تو لوگ اس نزاعی مسئلہ میں نہ تو ایسے شخص کی بات مانیں اور نہ ہی اس کا ساتھ
دیں؛ کیوں کہ باغی وہی ہے جو صلح و مصالحت ہونے کے باوجود بھی اس پر عمل نہ کرے، اور
باغی کا ساتھ دینا کسی بھی مسلم کے لیے روا نہیں، بلکہ اس نزاعی مسئلہ کو حل کرنے کے
لیے اگر لڑنا ممکن ہو؛ تو اس انکار کرنے والے سے لڑیں ؛ ، کوشش کے بعد اگر انکار کرنے
والا فریق اپنی حرکت قبیحہ سے باز آجائے تو پھر دوبارہ عدل و انصاف کے ساتھ دونوں
گروہ کے درمیان امین حکم و فیصل کے ذریعہ صلح کرادی جائے؛ کیوں کہ مسلمان مسلمان بھائی
ہیں انہیں صلح و مصالحت کے ساتھ ہی زندگی گزارنی چاہئے، اللہ تعالی ہمیں توفیقات سے
نوازے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، آنے والی سطور میں صلح
کے بعض احکام قارئین کے حوالے ہے، ملاحظہ فرمائیں:
عموما دیکھا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان
جائیداد کے مسئلہ کو لے کر اختلاف ہوتا رہتاہے، عموما لوگ اس کے حل کے لیے کوٹ کچہری
کا رخ کرتے ہیں اور لاکھوں روپئے خرچ کرنے کے بعد نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں
نکلتا، بلکہ بہت سارے مقدمات نسل در نسل چلتے رہتے ہیں اور روپئے پانی کی طرح بہائے
جاتے ہیں، بھاگ و دوڑ کی پریشانی الگ اور اس کی وجہ سے ایک شریف خاندان کا جو وقار
گھٹتا ہے اور تھو تھو ہوتی ہے وہ الگ، اگر اب بھی قوم مسلم کو احساس زیاں ہوجائے؛ تو
جائداد وغیرہ کے متعلق بہت ساری پریشانی جواکثر قوم مسلم اپنی انانیت یا جہالت کی وجہ
سے جھیل رہی ہے ختم ہوجائے، اس کا خاتمہ شریعت کی اتباع ہے کہ ہر دو فریق ایک دوسرے
کا حق صاحب حق کے حوالے کردے، لیکن اگر کسی وجہ سے اتنی وسعت قلبی نہیں ہوسکتی اور
تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے پر اتر آئے یا دلائل کی بنا پر اختلاف زور پکڑ رہا ہے؛ تو
اب شریعت نے ہمیں اختلاف ختم کرنے کے لیے مصالحت بطور اکسیر اعظم عطا کیا ہے، اگر اسی
کو مقتدی بنالیا جائے اور صلح میں جو کمی یا زیادتی ہوئی، اسے اللہ تعالی کے حوالے
کردیا جائے، جس کی ذات ظالم سے بدلہ لے کر مظلوم کے حوالے کرنے والی ہے، اگر یہ صورت
اختیار کرلی جائے؛ تو بات رفع دفع ہوکر خوشگوار ماحول پیدا ہوجائے ، اللہ تعالی ہمیں
اپنی توفیقات سے نوازے، آمین، آنے والی سطور میں صلح و مصالحت کی لغوی و اصطلاحی
تعریف اس کے بعد اس کے احکام کو اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
صلح کی
لغوی تعریف:
’’صلح
یصلح صلاحا و صلوحا و صلاحیۃ‘‘: فساد کا زائل ہونا۔ ’’صالح
صلاحا و مصالحۃ‘‘: ہر ایک کا دوسرے کی موافقت کرنا۔ ’’أصلح
یصلح إصلاحا‘‘: فساد کو زائل کرنا (المنجد)
صلح کی
اصطلاحی تعریف:
’’نزاع دور کرنے کے لیے جو عقد کیا جائے
اس کو صلح کہتے ہیں‘‘
’’اوروہ حق جو باعث نزاع تھا اس کو مصالح
عنہ اور جس پر صلح ہوئی اس کو بدل صلح اور مصالح علیہ کہتے ہیں، صلح میں ایجاب ضروری
اور معین چیز میں قبول بھی ضروری ہے اور غیر معین میں قبول ضروری نہیں‘‘ (بہار شریعت؍
ج۲، ح۱۳، ص۱۱۳۳، الفتاوی الہندیۃ؍ کتاب الصلح،
الباب الأول فی تفسیرہ شرعا۔۔۔الخ، ج۴ص۲۲۸ -۲۲۹)
صلح و مصالحت کے شرائط
ہر عقد کے کچھ نہ کچھ شرائط ہوتے ہیں،
اسی طرح صلح کے بھی کچھ شرائط ہیں، ان میں سے کوئی بھی شرط مفقود ہوگی؛ تو صلح درست
نہیں ہوگی ، شرائط مندرجہ ذیل ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) عاقل ہونا (۲) مصالح علیہ کے قبضہ کرنے کی ضرورت
ہو؛ تو اس کا معلوم ہونامثلا اتنے روپئے پر صلح ہوئی (۳) مصالح عنہ کا عوض لینا جائز ہو یعنی
مصالح عنہ مصالح کا حق ہو، اپنے محل میں ثابت ہو، عام ازیں کہ مصالح عنہ مال ہو یا
غیر مال مثلا قصاص و تعزیر جب کہ تعزیر حق العبد کی وجہ سے ہو (۴) نابالغ کی طرف سے کسی نے صلح کی؛
تو اس صلح میں نابالغ کا کھلا ہوا نقصان نہ ہو (۵) نابالغ کی طرف سے صلح کرنے والا
وہ شخص ہو جو اس کے مال میں تصرف کرسکتا ہو مثلا باپ وغیرہ (۶) بدل صلح مال متقوم ہو، اگر مسلم
نے شراب کے بدلے میں صلح کی، یہ صلح صحیح نہیں(بہار شریعت؍ ج۲، ح۱۳،
ص۱۱۳۴، الدر
المختار؍ کتاب الصلح، ج۸ص۴۶۶-۴۶۸ )
صلح
و مصالحت کا حکم
صلح کا حکم یہ ہے کہ انکار و اقرار ہر
صورت میں جس چیز پر صلح ہوئی دعوی کرنے والا اس کا مالک ہوجائے گا، اور جس کے خلاف
دعوی کیا گیا ہے اگر چیز قابل تملیک ہو اور وہ دعوی کرنے والے کے حق کا اقرار کرنے
والابھی ہو؛ تو جس چیز سے صلح ہوئی وہ اس کا ہوجائے گا ، مثلا اگر زید نے دعوی کیا
کہ عمرو کی فلاں ایک بیگہ زمین میں میرا آدھا حق ہے، اب خواہ عمرو انکار کرے یا اقرار
دونوں نے مصالحت اس بات پر کرلی کہ زید کو تین بسے ملیں گے اور باقی عمرو کو ملے گا؛
تو خواہ عمرو زید کے حق کا اقرار کرے یا انکار دعوی کرنے والا اس تین بسے کا مالک ہوگیا،
اور اگر عمرو دعوی کرنے والے زید کے حق کا اقرار کرنے والا تھا اور چیز قابل تملیک
تھی؛ تو جس سے مصالحت ہوئی وہ بھی اس کا مالک ہوگیا، لیکن اگر جس سے مصالحت ہوئی وہ
قابل تملیک نہیں تھی یا قابل تملیک تھی مگر جس کے خلاف دعوی کیا گیا تھا وہ دعوی کرنے
والے کے حق کا منکر تھا؛ تو ان دونوں صورتوں میں جس کے خلاف دعوی کیا گیا وہ صرف دعوی
سے بری ہوگا، اس کے مالک ہونے کا سوال ہیں نہیں اٹھتا؛ کیوں کہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ
وہ پہلے ہی سے اس کا مالک ہے، پھر دوبارہ مالک ہونا چہ معنی دارد؛ اسی لیے تو دعوی
کرنے والے کے دعوی انکار کر رہا ہے۔
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے
ہیں:
’’صلح کا حکم یہ ہے کہ مدعی علیہ دعوی
سے بری ہوجائے گا اور مصالح علیہ مدعی کی ملک ہوجائے گا، چاہے مدعی علیہ حق مدعی سے
منکر ہو یا اقراری ہو، اور مصالح عنہ ملک مدعی علیہ کا ہوجائے گا، اگر مدعی علیہ اقراری
تھا بشرطیکہ وہ قابل تملیک بھی ہو، یعنی مال ہو اور اگر وہ قابل ملک ہی نہ ہو مثلا
قصاص یا مدعی علیہ اس امر سے انکاری تھا کہ یہ حق مدعی ہے؛ تو ان دونوں صورتوں میں
مدعی علیہ کے حق میں فقط دعوی سے براء ت ہوگی‘‘ (بہار شریعت؍ ج۲، ح۱۳،
ص۱۱۳۴، الدر
المختار؍ کتاب الصلح، ج۸ص۴۶۸ )
صلح کی
تین صورتیں ہیں:
(۱) مدعی علیہ حق مدعی کا مقر ہو ، یعنی
جس کے خلاف دعوی کیا گیا وہ دعوی کرنے والے کے قول کا اقراری ہو(۲) مدعی علیہ حق مدعی کا منکر ہو، یعنی
جس کے خلاف دعوی کیا گیا وہ دعوی کرنے والے کے حق کا منکر ہے (۳) مدعی علیہ نے سکوت اختیار کیا، اقرار
و انکار کچھ نہیں کیا، یعنی جس کے خلاف دعوی کیا گیاوہ دعوی کرنے والے کے حق کا نہ
تو اقرار کیا اور نہ ہی انکار بلکہ خاموش رہا۔
پہلی قسم یعنی اقرار کے بعد صلح میں اگر
مال کا دعوی تھا اور مال پر صلح ہوئی تو یہ صلح بیع کے حکم ہے جبکہ صلح خلاف جنس پر
ہوئی ہو، لیکن اگر صلح جنس موافق ہی پر ہوئی؛ تو ابرا یعنی بری کردینا یا استیفا یعنی
پورا حق وصول پانا یا ربا یعنی سود ہے، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) پہلی قسم یعنی اقرار کے بعد صلح
میں اگر مال کا دعوی تھا اور مال پر صلح ہوئی تو یہ صلح بیع کے حکم ہے، اس صلح پر بیع
کے تمام احکام جاری ہونگے۔ ایسا ہی (بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۳۵، تنویر الأبصار؍ کتاب الصلح، ج۸ص۴۶۸)
میں
ہے۔
یعنی حق شفعہ وغیرہ بیع کے تمام احکام
جاری ہونگے، لیکن یہ صلح بیع کے حکم میں اس وقت ہے جب خلاف جنس پر مصالحت ہو، مثلا
روپئے کا دعوی تھا اور صلح اشرفی یا کسی اور چیز پر ہوئی اور اگر اسی جنس پر مصالحت
ہو جس کا دعوی تھا یعنی روپئے کا دعوی تھا اور روپئے پر ہی مصالحت ہوئی اور کم پر ہوئی
یعنی سو کا دعوی تھا پچاس پر صلح ہوئی تو ابرا ہے، یعنی معاف کردینا اور اگر اتنے پر
ہی صلح ہوئی جتنے کا دعوی تھا تو استیفا ہے یعنی اپنا حق وصول پالیا اور اگر زیادہ
پر صلح ہوئی تو ربا یعنی سود ہے ۔ ایسا ہی (بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۳۶، البحر الرائق؍ کتاب الصلح، ج۷ص۴۳۴
-۴۳۵) میں ہے، حالت اقرار کی دیگر مختلف صورتیں بھی ہیں ، یہ مقالہ اس
کا متحمل نہیں، تفصیل کے لیے بہار شریعت اور الدر المختار وغیرہ مطالعہ کریں۔
دوسری اور تیسری قسم یعنی جس کے خلاف دعوی
کیا گیا وہ دعوی کرنے والے کے حق کا منکر ہے یا خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے؛ تو ان دونوں
صورتوں میں صلح بیع کے حکم میں نہیں یعنی شفعہ وغیرہ اور بیع کے دیگر احکام جاری نہیں
ہونگے، حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
(۲) دوسری قسم انکار اور (۳) تیسری قسم سکوت کے بعد جو صلح ہوتی
ہے وہ مدعی کے حق میں معاوضہ ہے، یعنی جس چیز کا دعوی تھا اس کا عوض پالیا اور مدعی
علیہ یعنی مد مقابل کے حق میں یہ بدل صلح یمین اور قسم کا فدیہ ہے، یعنی اس کے ذمہ
جو یمین تھی اس کے فدیہ میں یہ مال دے دیا اور قطع نزاع ہے، یعنی جھگڑے اور مقدمہ بازی
کی مصیبتوں میں کون پڑے یہ مال دے کر جھگڑا کاٹنا ہے، یہ صلح بیع کے حکم میں نہیں
(بہار شریعت ؍ج۲ح۱۳ص۱۱۳۶،الدر المختار کتاب الصلح، ج۸ص۴۷۰)
مدعی و مدعی علیہ کا اخروی مؤاخذہ
اقرار کی صورت میں جو مصالحت ہوئی، ہر
ایک یعنی دعوی کرنے والا اور جس کے خلاف دعوی کیا دونوں بری الذمہ ہوگئے، لیکن جو مصالحت
انکار یا خاموشی کی صورت میں ہوئی، اگر حقیقت کے اعتبار سے اس میں دعوی کرنے والے کا
دعوی غلط تھا اور دعوی کرنے والے کو بھی اس کا علم ہے کہ اس کا دعوی غلط ہے؛ تو ایسی
صورت میں جس چیز پر مصالحت ہوئی ہے اسے لینا جائز نہیں، اور اگر جس کے خلاف دعوی کیا
گیا وہ جھوٹا ہے؛ تو وہ ان دونوں صورتوں میں مصالحت کی وجہ سے دعوی کرنے والے کے حق
سے بری نہیں ہوگا، یعنی صلح کے بعد اگرچہ بطور فیصلہ کچھ نہیں ہوسکتا مگر آخرت کا
مواخذہ باقی رہے گا، اور ان دونوں صورتوں میں مصالحت کی وجہ سے دعوی کرنے والے کے حق
میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا حساب دینا پڑے گا؛ لہذا انکار و سکوت کی صورت میں فریقین
کو تامل و تدبر کی ضرورت ہے!
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے
ہیں:
’’انکار یا سکوت کے بعد جو صلح ہوتی ہے
اگر واقع میں مدعی کا غلط دعوی تھاجس کا مدعی کو بھی علم تھا تو صلح میں جو چیز ملی
ہے اس کا لینا جائز نہیں اور اگر مدعی علیہ جھوٹا ہے؛ تو اس صلح سے وہ حق مدعی سے بری
نہیں ہوگا، یعنی صلح کے بعد قضاء تو کچھ نہیں ہوسکتا دنیا کا مؤاخذہ ختم ہوگیا مگر
آخرت کا مؤاخذہ باقی ہے، مدعی کے حق ادا کرنے میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا مؤاخذہ
ہے مگر جبکہ مدعی خود مابقی سے معافی دیدے‘’ (بہار شریعت؍ج۲ح۱۳ص۱۱۳۷، البحر الرائق؍ کتاب الصح، ج۸ص۴۷۰)
اس لیے حتی الامکان استیفا والی مصالحت
ہونی چاہئے جس میں ہر ایک کو اپنا حق مل جاتاہے، ایسی صورت میں ہر ایک اخروی مواخذہ
سے بچ جائے گا، البتہ اگر استیفا والی مصالحت
کسی وجہ سے نہ ہوسکے؛ تو آخرت کے مواخذہ سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے، وہ یہ کہ
دونوں فریق کی جانب سے عین کے علاوہ حقوق سے معافی و ابرا کا اظہار ہوجائے؛ تو اب دونوں
فریق اخروی مواخذہ سے بچ جائیں گے، حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمہ لکھتے
ہیں:
’’لہذا صلح کے بعد اگر عین کے علاوہ حقوق سے ابرا
و معافی ہوجائے؛ تو مؤاخذہ اخروی سے بھی نجات ہوجائے؛ کیوں کہ عین کا ابرا درست نہیں‘‘
(بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۳۷)
عین کا دعوی اور اس کے بعض پر مصالحت
اگر کسی شخص نے عین کا دعوی کیا مثلا فلاں
مکان میرا ہے اور اس کے کسی ایک جز پر مصالحت ہوئی؛ تو یہ مصالحت درست نہیں، ہاں اس
کے جواز کی یہ دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
(۱) مکان کے جس جز پر مصالحت ہوئی دعوی
کرنے والے کو اس کے علاوہ کچھ اور روپئے وغیرہ دیدئے جائیں؛ تو اب مصالحت درست ہوجائے
گی (۲) مکان کے
کسی جز پر صلح ہونے کے بعد دعوی کرنے والا باقی اجزا کے دعوی سے دست بردار ہوجائے؛
تو اب مصالحت صحیح ہوجائے گی۔
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے
ہیں:
’’جس عین کا دعوی تھا اسی کے ایک جز پر
مصالحت ہوئی مثلا مکان کا دعوی تھا اسی مکان کا ایک کمرہ یا کوٹھری دے کر صلح کی گئی
یہ صلح جائز نہیں؛ کیوں کہ مدعی نے جو کچھ لیا یہ تو خود مدعی کا تھا ہی اور مکان کے
باقی اجزا و حصص کا ابرا کردیا اور عین میں ابرا درست نہیں، ہاں اس کے جواز کی صورت
بن سکتی ہے کہ مدعی کو علاوہ اس جز و مکا ن کے ایک روپیہ یا کپڑا یا کوئی چیز بدل صلح
میں اضافہ کی جائے کہ یہ چیز بقیہ حصص مکان کے عوض میں ہوجائے گی، دوسرا طریقہ یہ ہے
کہ ایک جز پر صلح ہوئی اور باقی اجزا کے دعوے سے دست برداری دیدے‘‘ (بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۳۹،البحر الرائق؍ کتاب الصلح، ج۷ص۴۳۶،
الدر المختار؍ کتاب الصلح، ج۸ص۴۷۱)
صلح کے بعد گواہ پیش کرنا
دعوی کرنے والا صلح کرنے کے بعد اگر گواہوں
سے اپنا حق ثابت کرکے چیز لینا چاہے؛ تو اب وہ اسے نہیں لے سکتا؛ کیوں کہ جب وہ اپنی
چیز کا بدلہ و معاوضہ لے چکا؛ تو اب اسے دوبارہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں، ملاحظہ فرمائیں،
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
’’صلح کے بعد اگر مدعی گواہوں سے اپنا
حق ثابت کرے اوریہ چاہے کہ میں اس چیز کو لے لوں یہ نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ چیز اگر اس
کی ہے تو معاوضہ اس چیز کا لے چکا پھر مطالبہ کے کیا معنی‘‘ (بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۴۰،درر الحکام شرح غرر الأحکام، کتاب
الصلح، ج۲ ص۳۹۸، الدر المختار؍ کتاب الصلح، ج۸ص۴۷۵)
جس کے خلاف دعوی کیا گیا تھا اگر وہ صلح
کے بعد گواہ پیش کرے کہ دعوی کرنے والے نے صلح سے پہلے ہی اقرار کیا تھا کہ میرا مدعی
علیہ پر کوئی حق نہیں، اس صورت میں اس کا یہ قول مسموع نہیں ہوگا اور صلح بدستور باقی
رہے گی، ہاں اگر صلح کرنے والا صلح کے بعد یہ کہے کہ میرا مدعی علیہ پر کوئی حق نہیں؛
تو اب صلح کے باطل ہونے کا حکم دیا جائے گا، حضور صدر الشریعہ فرماتے ہیں:
’’مدعی علیہ نے دعوی سے انکار کردیا تھا
اس کے بعد صلح ہوئی اب وہ گواہ پیش کرتا ہے کہ مدعی نے صلح سے پہلے یہ کہا تھا کہ میرا
اس مدعی علیہ پر کوئی حق نہیں ہے وہ صلح بدستور قائم رہے گی اور اگر مدعی صلح کے بعد
یہ کہا کہ میرا اس کے ذمہ کوئی حق نہ تھا تو صلح باطل ہے‘‘ (بہار شریعت؍ج۲ح۱۳ص۱۱۴۳، الدر المختار؍ کتاب الصلح، ج۸ص۴۸۱)
صلح کے بعد دوبارہ صلح
اگر پہلی صلح اسقاط کی صورت میںہوئی ہے؛
تو دوبارہ صلح کرنا جائز نہیں، اگر دوبارہ صلح کی گئی؛ تو یہ صلح باطل ہے اور پہلی
والی صلح ہی صحیح و درست ہے، اور اگر پہلی صلح معاوضہ کی صورت میں ہوئی ، اس کے بعد
دوسری صلح ہوئی؛ تو اس صورت میں پہلی والی صلح فسخ ہوگئی اور یہی دوسری صلح نافذ و
متعین ہوگئی، حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
’’صلح کے بعد پھر دوسری صلح ہوئی، وہ پہلی
ہی صحیح ہے اور دو سری باطل یہ جبکہ وہ صلح اسقاط ہو اور اگر معاوضہ ہو جو بیع کے معنی
میں ہو تو پہلی صلح فسخ ہوگئی اور دوسری صحیح جس طرح بیع کا حکم ہے جبکہ بائع نے مبیع
کو اسی مشتری کے ہاتھ بیع کیا‘‘ (بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۴۲،الدر المختارمع رد المحتار؍ کتاب
الصلح، ج۸ص۴۸۰)
قائدہ کلیہ
’’قائدہ کلیہ یہ ہے کہ دائن کی طرف سے
اگر احسان ہو تو اسقاط ہے اور صلح جائز ہے اور دونوں کی طرف سے ہو تو معاوضہ ہے‘‘
(بہار شریعت؍ ج۲ح۱۳ص۱۱۴۴،الدر المختار؍ کتاب الصلح، فصل
فی دعوی الدین، ج۸ص۴۸۵)
شریعت اسلامیہ نے قوم مسلم کو صلح و مصالحت
بصورت اکسیر اعظم جو دیا ہے وہ بہت ہی نفع بخش ہے، بس سمجھ میں آنے اور موانع کو پس
پشت ڈال کر عملی اقدام کرکے عمل کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی تمام مسلم قوم کو اپنے
مسلم بھائی کے تمام حقوق کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور صلح و مصالحت کے
ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی
مصباحی ازہری غفر لہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر،
شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن،
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا۔
موبائل:8318177138
ای
میل:fmfoundation92@gmail.com
No comments:
Post a Comment