الحمد للہ اس کتاب (الانتصار) کا منظر
عام پر آنا بھی جامعہ ازہر شریف ہی کی برکت ہے، اس عالمی اسلامک یونیورسٹی میں حصول
علم کے دوران مصر کے مشہور کتب خانہ ’المکتبۃ الأزھریۃ‘ سے طبع شدہ کتاب ’الانتصار
والترجیح‘ پر نظر پڑی، مطالعہ سے مذہب حنفی کی حقانیت مزید ابھر کر سامنے آگئی، پھر
دل میں خیال گزرا کہ اگر اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کردیا جائے؛ تو ان شاء اللہ مذہب
صحیح، مذہب حنفی کے دلائل و براہین کا قوی تر ہونا بہت سارے علما اورمدارس کے طلبہ
پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا، اور دلوں کا ایک گونہ اضطراب جو عموما طلبہ اور
خصوصا بعض علما کے درمیان پایا جاتا ہے وہ بھی دور ہوجائے گا، دو چند سالوں سے ارادہ
یوں ہی بنا رہا مگر اس کی تکمیل نہ ہوسکی۔
اب جب کہ میں تقریبا دس مہینہ
پہلے ازدواجی زندگی سے منسلک ہوا، اور اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے اپنی رحمت بشکل
عالمہ مفتیہ شگفتہ نسرین امجدی غفرلہا، خریج کلیۃ البنات الأمجدیۃکی شکل میں امجدی
منزل میں اتاری؛ تو میرا ارادہ و خواب شرمندئہ تعبیر ہوتا ہوا نظر آیا، آپ نے میری
فکر و شعور کا ساتھ دیتے ہوئے اس کتاب کا ترجمہ گھرکی دیگر ذمہ داریاں، حسن اخلاق،
صلہ رحمی، اور دعوت و تبلیغ کے ساتھ بڑی محنت و لگن اور بحسن و خوبی انجام دیا، ان
سے امید قوی بلکہ یقین ہے کہ آئندہ پوری زندگی یوں ہی دینی خدمات انجام دینے میں میرا
بھر پور ساتھ دیتی رہیں گی،اللہ تعالی ان کے علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائے، اور
مزید حسن اخلاق ، صلہ رحمی کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دینی خدمات انجام دینے کی توفیق
عطا کرے، خصوصا تحریری خدمات پیش کرنے میں بے مثال بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین
علیہ الصلاۃ والتسلیم۔
میں نے اس کتاب کی تزیین
کاری میں کچھ وقت دیا ہے، وہ تزیین کاری کچھ یوں ہے:
(۱)
ترجمہ نگاری کس قدر اہم اور ذمہ داری کا کام ہے یہ ہر ذی
علم پر روز روشن کی طرح واضح و عیاںہے، جو عالم و طالب علم اس فن کا خوگر ہو اس کے
لیے بھی دقت طلب ہے،اوراگر عالم یا طالب علم نے ترجمہ کرنے کی ممارست نہ کی ہو؛ تو
ترجمہ نگاری اس کے لیے دشوار تر ہے، اور اگرعالمہ یا طالبہ ہو؛ تو اس دشواری میں مزید
اضافہ ہوتا ہوا نظر آئے گا؛ کیوں کہ اس کے متعلق مدارس کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں، مگر الحمد للہ مفتیہ شگفتہ نسرین زید مجدھا نے ترجمہ نگاری کی ممارست نہ کرنے
کے باوجود بھی اپنی اس پہلی کتاب کا ترجمہ بہت اچھا اور عمدہ کیا ہے، چوں کہ عموما
مدارس کے طلبہ و طالبات کو لفظی ترجمہ ہی کا خوگر بنایا جاتا ہے؛ اس لیے یہ ترجمانی
ان کے ترجمہ میں بھی پائی گئی جس کو میں نے مفہوم کی ترجمانی میں بدل دیا تاکہ قارئین
کو پڑھنے و سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے، اور حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ قارئین
کو یہ نہ لگے کہ وہ فقط ترجمہ پڑھ رہے ہیں بلکہ ایسا لگے کہ وہ کوئی مستقل کتاب پڑھ
رہے ہیں۔
(۲)
بحیثیت انسان سواے انبیا و رسل علیہم الصلاۃ والسلام کسی
سے بھی خطا واقع ہوسکتی ہے، مفتیہ شگفتہ نسرین امجدی زید مجدھا سے بھی بحیثیت انسان
ترجمہ میں بعض غلطیاں ہوگئی تھیں جن کی میں نے اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے، امید ہے کہ
آئندہ وہ کسی کتاب کے ترجمہ میں اصلاح شدہ باتوں کا ضرور خیال رکھیں گی۔
(۳)
میں نے علمی پیرائے کا لحاظ کرتے ہوئے اس کتاب میں موجودہ
احادیث کی تخریج کردی ہے، کتاب، باب، جلد، صفحہ، حدیث نمبر ذکر کرنے کا التزام کیا
ہے۔
(۴)
کتاب ’الانتصار‘ میں حدیث کے الفاظ اگر کتب متون سے زیادہ
مختلف نہیں ہیں اور معانی ایک ہی ہیں؛ تو میں نے ’الانتصار‘ کے الفاظ بدل دیا ہے اور
تخریج حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کی ہے، ہاں اگر معنی میں فرق ہے یا زیادہ تبدیلی ہے؛
تو میں نے تخریج حدیث میں اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
(۵)
اخیر میں مراجع کی فہرست ان کے مطابع اور دیگر ضروریات کا
ذکر کردیا ہے، جو ان شاء اللہ طلبہ کے لیے مفید ہوگی۔ان تمام کوششوں کے باوجود بھی
اس کوشش میں کچھ کمی یا غلطی ہوسکتی ہے؛لہذا قارئین کرام اگر کسی غلطی پر مطلع ہوں؛
تو چوں وچرا کے بجائے آگاہ کریں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جاسکے۔
(۶)
علامہ زاہد کوثری علیہ الرحمہ نے اس کتاب پر حاشیہ لکھا تھا،
جو حاشیہ بہت ضروری تھا میں نے اس کاترجمہ بھی کردیا ہے، اور حاشیہ کی عبارت اصل عبارت
سے چھوٹی رکھی ہے اور حاشیہ کے اخیر میں ’ز کوثری‘ لکھ دیا ہے۔
کتاب ’الانتصار والترجیح‘
کن مباحث پر مشتمل ہے اس کا ذکر مصنف سبط ابن جوزی علیہ الرحمہ نے کتاب کے شروع میں
کردیا، نیز مصنف کی حیات کے متعلق حامی سنیت ماحی بدعت حضرت علامہ محدث و فقیہ محمد
زاہد کوثری علیہ الرحمہ و الرضوان نے اپنے اس کتاب کے مقدمہ میں بیان کردیا ہے؛ اس
لیے ان چیزوں کی یہاں تکرار کی حاجت نہیں، البتہ مصنف علیہ الرحمہ نے ترجیح مذہب حنفی
میں جو طریقہ اختیار کیا ہے اس میں سے کچھ یہاں اختصار کے ساتھ بیا ن کردینا مناسب
سمجھتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
(الف):امام اعظم رحمہ اللہ
تعالی کا صحابہ رضی اللہ عنہم یا علی الاقل ان کی زیارت کرنے کی وجہ سے شرف تابعیت
حاصل ہے جو کسی اور امام کو حاصل نہیں، اس طرح آپ ائمہ متبوعین کی طرف نسبت کرتے ہوئے
سابقین میں سے ہیں، اور سابقین کی فضیلت لاحقین پرواضح ہے، مصنف علیہ الرحمہ نے اس
کو قرآن و حدیث اور عقلی دلیل سے ثابت کیا ہے؛ اس لیے آپ کے مسائل کو بھی دیگر ائمہ
کے مسائل پر عموما تقدم و فضل حاصل ہوگا۔
(ب):امام اعظم رحمہ اللہ
کے فضل وفقہ کا امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ جیسے امام نے بھی اعتراف کیا
ہے، یہ بھی آپ کے مذہب کی ترجیح کی طرف واضح اشارہ ہے۔
(ت): امام اعظم رحمہ اللہ
کا مذہب والی و امام کے لیے احوط ہے، اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں:
’’اگر کسی آدمی نے کوئی
جرم کیا جس کی وجہ سے امام نے اس کی تعزیر کی، اور اس تعزیر کی وجہ سے وہ مر گیا؛ تو
امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک امام پر کوئی ضمان نہیں، اور دوسرے ائمہ نے فرمایا: امام
پر ضمان واجب ہے‘‘ ۔
غور کریں تو امام اعظم رحمہ
اللہ کا مذہب والی کے لیے احوط ہونا صرف اسی مسئلہ سے واضح ہوجاتا ہے۔
(ث): امام اعظم رحمہ اللہ
کا مذہب امت مسلمہ سے حرج کو زیادہ دور کرنے والا ہے، اور یہ بھی وصف اسلام ہی کا طرئہ
امتیاز ہے، یہ بات صرف اسی ایک مسئلہ کو ملاحظہ کرنے سے واضح ہوجاتی ہے:
’’اکثرلوگ طہارت صغری میں
نیت نہیں کرتے جس کی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک طہارت حاصل نہ ہوگی، مگر
امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک اس صورت میںبھی طہارت حاصل ہوجائے گی‘‘۔
صرف اسی مسئلہ کا امت مسلمہ
سے حرج کو دفع کرنا ذی علم و شعور پر واضح و عیاں ہے۔
(ج): امام اعظم رحمہ اللہ
نے قرآن پاک کی صراحت پر عمل کیا، مگر دیگر ائمہ بہت سارے مسائل میں اسے ترک کرتے
ہوئے نظر آئے، اس کے متعلق صرف یہی ایک مسئلہ ملاحظہ فرمائیں:
’’امام اعظم رحمہ اللہ کے
نزدیک کم از کم ایک آیت پڑھنے سے فرض ادا ہوجائے گا، اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے:{فاقرؤا
ماتیسر من القرآن}(المزمل:۷۳؍آیت:۲۰) ترجمہ: ((اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو))
اور امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’سورئہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی‘‘۔
(ح): امام اعظم رحمہ اللہ
نے احادیث صحیحہ پر عمل کیا، اس کے برخلاف دیگر ائمہ کرام نے وہاں ضعیف احادیث کا سہارا
لیا، اس کے متعلق فقط ایک مسئلہ ملاحظہ فرمالیں:
مسئلہ:احناف کے نزدیک حجامت
پر اجرت لینا جائز ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک حجامت پر اجرت لینا جائز نہیں۔احناف
کی دلیل یہ حدیث ہے: ((أن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم احتجم وأعطی الحجام أجرۃ))ترجمہ:((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا
لگوایا اور حجام کو اجرت دی)) یہ حدیث متفق علیہ ہے(صحیح البخاری،عن ابن عباس رضی اللہ
عنہما،کتاب الإجارۃ، باب خراج الحجام، ج۳ص۹۳، رقم:۲۲۷۹، صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ، باب حل أجرۃ الحجامۃ، ج۳ص۱۲۰۵، رقم: ۱۲۰۲ ) اور اس باب میں امام احمد
رحمہ اللہ کی دلیل ضعیف حدیثیں ہیں ۔
(خ) اگرکوئی حدیث صحیحین
اور اس کے مقابل والی حدیث صرف صحیح البخاری یا صرف صحیح مسلم میں ہو یا ان دونوں یا
ان میں سے کسی ایک میں ہو اور اس کے معارض حدیث کسی سنن وغیرہ میں ہو؛ تو بہت سارے
ائمہ محدثین و فقہا خصوصا دور حاضر کے شوافع صحیحین والی حدیث یا صرف صحیح البخاری
اور صحیح مسلم کی حدیث کو ترجیح دیتے ہیں، محدث سبط ابن جوزی رحمہ اللہ بہت ساری جگہوں
پر مذہب حنفی کو ترجیح دینے میں اسی طریقہ کو اپنایا ہے، جو یقینا متبعین احناف کے
حق میں عمدہ و بہترین کوشش ہے۔
(د)کتاب ’الانتصار‘ اس کے
علاوہ بہت ساری خوبیوں کی حامل ہے جن پریہاں تفصیلی گفتگو ممکن نہیں، البتہ میںیہاں
پر ایک اہم اورآخری بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب سمجھتا ہوں:
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد
واضح ہوجائے گا کہ بہت سارے مسائل میں امام اعظم علیہ الرحمہ کے علاوہ دیگر ائمہ نے
بھی کہیں حدیث کو لیا اورقرآن کو چھوڑدیا، کہیں حدیث ضعیف کو لیا اور حدیث صحیح کو
چھوڑ دیا، کہیں قیاس کو لیا اور حدیث کی طرف مائل نہ ہوئے، اور یہ ساری صورتیں کسی
نہ کسی دلیل کی بنیاد ہی پر ہیں جو کسی کے نزدیک راجح ہے تو کسی کے نزدیک مرجوح؛ لہذا
ائمہ متبوعین میں سے جو بھی جس کسی کی بھی اتباع کرے قابل ملامت نہیں، اور نہ سب و
شتم کا مستحق، ہاں فروعی مسائل میں کوئی ذی علم ، ذی شعور، غیر متعصبانہ علمی گفتگو
کرنا چاہے؛ تو اس کادروازہ تا قیامت کھلا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ مصنف علیہ الرحمہ
نے احادیث کے درمیان واقع تعارض کو دفع بھی کیا ہے،بہر حال کتاب اختصار کے ساتھ گونہ
گوں خصوصیات کی حامل ہے، ان شاء اللہ علما و طالبان علوم نبویہ کے لیے کافی حد تک مفید
ثابت ہوگی۔
أفقر إلی اللّٰہ:
ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف،قاہرہ، مصر،
شعبہ حدیث، ایم اے
فقیہ ملت اؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ اوجھاگنج،
بستی، یوپی، انڈیا
۹؍جمادی الاولی ۳۷ھ ۱۹؍ فروری ۲۰۱۶ء
موبائل:8318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
(تقدیم کتاب: الانتصار و الترجیح للمذھب الصحیح/ مذہب حنفی کی تائید و ترجیح)
(تقدیم کتاب: الانتصار و الترجیح للمذھب الصحیح/ مذہب حنفی کی تائید و ترجیح)
ماشاءاللہ
ReplyDeleteJazak Allah O khaira
Hazrat ne kitab ka introduction pesh kiya
Allah azzawajal is kitab ko raahe e Haq ke mutalashi ke kiye hidayat ka zaria banaye
Aameen
حضرت حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ
ReplyDeleteآمین ثم آمین
اللہ تعالی آپ کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے، آمین