شہزادۂ فقہ ملت مفتی ابرار احمد صاحب قبلہ کی بارگاہ میں چند معروضات
السلام علیکم
ورحمۃ الله و برکا تہ
﷽
فقیر
نے ۲؍رمضان المبارک ۴۴۱ ۱ ہجری بمطابق ۲۶؍پریل ۲۰۲۰ عیسوی بروز اتوار ایک فتوی شائع کیا تھا
بنام’’ تربیت افتاء میں گل منجن کی اجازت کیوںـ‘‘ اور اس فتوی
میں میں نے خلاصہ کیا تھا کہ مرکز تربیت افتاء میں جوپاخانہ نہ ہو نا عذر بیان کیا
گیا ہے کیا یہ عذرشرعی ہے؟ کیاماہ رمضان المبارک میں بحالت روز ہ پاخانہ کرنا فرض
و واجب ہے؟ اگر کسی کونہیں ہوتا ہے تو کیا حرج ہے؟ بعد افظارت قبل سحری گل منجن کر
لے اور اپنی ضرورت پوری کر لے وغیرہ وغیرہ۔
یہ
فتوی شروع میں موجود ہے اور آپ نے پڑھ کر اس پر کچھ تحریر کیا جو میری اور تمام
لوگوں کی نگاہوں سے گزرا، میں اس میںمذکور تینوں صورتوں پرمتفق ہوں ،مگر پاخانہ نہ
ہونا عذر شرعی ہے اس پر متفق نہیں ہوں، اور میرا اعتراض اسی پر ہے تو آپ کو چاہئے
تھاکہ آپ اس کا خلاصہ کر دیتے مگر آپ نے اپنی جوابی تحریر میں میرے اعتراضات کا
جواب نہ دے کر کچھ موضوع سے ہٹ کر باتیںتحریر کی ہیں، اب میں پھر سے اپنے اعتراضات
پیش کر رہا ہوں اور جواب کا انتظار کروں گا۔
(۱)آپ
نے فتاوی بحرالعلوم کی عبارت نقل کر کے فرمایا کہ اس فتوے کا مطلب اگر لوگ کھینی
کی طرح گل منجن کا استعمال کرتے ہیں تویہ مفسد صوم ہے یعنی گل منھ میں رکھنا مفسد
صوم ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس کا مطلب یہی ہے جو آپ نے سمجھا؟ یا پھر
کھینی کی طرح نہیں بلکہ گل منجن کی طرح استعمال کرنا دانتوں پر بھگو کر ملنا منھ کے
بجائے کہیں اور کا استعمال ہوا، منھ کا نہیں؟ جبکہ مشاہدہ یہ ہےکھینی کی طرح منہ
میں رکھنے والے اگر پانچ فیصد ہیں تو پنچانوے فیصد منجن کی طرح گل کرنے والے ہیں،
تو علامہ نحرالعلوم علیہ الرحمہ نے اس پر جو فتوی دیا اس کے بیان کیا یہاں ضرورت
نہیں کیونکہ اس سے آپ بھی آگاہ ہیں ، پس اگر یہی کھینی کی طرح منھ میںرکھنا ہی
آپ کے نزدیک فسادِ سوم کے لئے درست ہوتو بقول آپ کے علا مہ بحر العلوم علیہ
الرحمہ جاہل ٹھہریں گے یا نہیں؟
کیوں
کہ فقہ کا قاعدہ ہے ’’ من لم یعرف اھل زمانہ فھوجاہل‘‘ جو اہلِ زمانہ کا عرف
وتعامل نہ جانے وہ جاہل ہے،یونہی داماد فقیہ ملت یعنی آپ کے بہنوئی حضرت علامہ
مولانامفتی اختر حسین صاحب قبلہ دامت برکا تہم القدسیہ بھی بقول آپ کےجاہل ٹھہریں
گے یانہیں؟ کیونکہ فتاوی علیمیہ میں گل منجن کا وہی مطلب بیان کیا ہے جو علامہ
بحرالعلوم علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے۔
(۲)
تینوں شقوں کے بیان کے بعد کی جوابی عبارت جو یہ ہے ’’مگر جب زید کوگل استعمال کئے
بغیر پاخانہ نہیں ہوتا ،تو اس عذر کی وجہ سے اس کے لئے حکم میں اس قدر تخفیف ہوگی
، کہ وہ گل پہلے ہتھیلی وغیرہ پر نکال کر پانی سے بھگودے، پھر اسے احتیاط کے ساتھ
دانتوں پر ملے اور جلد ہی کلی کر کے اچھی طرح اپنا منھ صاف کرلے۔ والله تعالی اعلم۔
اب
فقیر پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا پاخانہ نہ ہونا عذرشرعی ہے؟ اگر زید کو گل استعمال
کئے بغیر پاخانہ نہیں ہوتا، تو کیا بحالت ِروزہ زید کو پاخانہ اتارنا فرض ہے واجب؟
اگر فرض ہے تو دلیل مرحمت ہو، یونہی وجوب
کی دلیل د یں ! اگر واجب گرد انیں ۔
(۳)اسی
عذر کا بحالتِ صوم تحقق کب ہوگا؟ آیا الجائ واضطرار کی صورت میں یا علی العموم؟
اس کے تناظر میں دریافت
طلب امر یہ ہے کہ ا جازت و تخفیف تو عذر پر ہی ہوگی نا!یا بغیر عذر ہی ؟ یہاں گل
منجن سے پاخانہ بحالت ِروزہ اتارنے کا عذر کیوں کر متصور ہوگا ؟ بحالت اضطرار یا
مطلقًا؟
اورگل
منجن کے عادی حضرات کتنی بار پاخانہ اتارنے پر بحالت روز ہ مضطر و معذور ہوتے ہیں؟
مشاہدہ تو یہ ہے کہ عا دی حضرات بار با گل منجن کرتے ہیں، تو کیا ہر بار پاخانہ ہی
اترتا ہے یا نہیں ؟
(۴)اگرگل
منجن خشک ہوتواجز اءحلق سے اترنے کا غالب گمان ہے کیونکہ لعاب کے ساتھ ضرور حلق کو
تجاوز کر جائے گا جو مفسد صوم ہے، پھرہتھیلی پر بھگو دینے سے کیا اس کی لعاب سے
آمیزش نہ ہوگی ؟ اور یہ بھگو دینا اجزائے گل کو لعاب کے ہمراہ حلق میں جانے
سےمانع ہو جائے گا؟ اگر ہاں تو دلیل دیں، اور اگر نہیں تو اس خودساختہ عذر اور آپ
کی مہیا کر دہ تخفیف کا کیا فائدہ؟
(۵)کیامحض
گل منجن بھگو کر دانت پرمل کر جلدی ہی کھی کر لینے اور منہ صاف کر لینے سے پاخانہ
اتر جانے کا یقین و از عان بھی ہے؟ اگرہاں توہاتوا بالدليل؟
(۶)
گل منجن ایسا پروڈکٹ ہے کہ اس کا اثر نہ صرف منھ میں حلق سمیت بکھرتاہے بلکہ اس کا
اثر دماغ کی طرف بھی چڑھتا ہے بلکہ اس میںموجودتمباکو کا ذائقہ مشام سے ہوتا ہوا
دماغ تک پہنچتا ہے جس کی تیزی سے طلب اورلت والے عادی شخص کوتسکین فراہم ہوتاہے،
نیز اس میں موجود نکوٹین ہی طالب کو مطلوب ہوتی ہے، جس کی فراہمی سے طالب یعنی
استعمال کنندہ محظوظ ہوتا ہے، تو اب بتایاجائے کہ قصداً عود، لوبان کا دھواں سونگھ
کر مشام کے راستے دماغ تک پہنچانا یاحلق سے نیچے لے جانا مفسد صوم ہے یا نہیں؟ اگر
ہاںمیں جواب ہے تو پھرگل منجن کی بو اور ذائقے کی تیزی دماغ تک پہنچانا یاحلق سے
بالقصد اتارنامفسد صوم کیوں نہیں؟ کیا فسا دصوم صرف جانب حلق اجزاء اترنے سے خاص
ہے؟ جانب دماغ نہیں؟ فعليکم بالدليل علی
دعواکم.
(۷)اگر
بالفرض یہ عذر شری ہے یعنی اتنی شدت سے پاخانہ لگا ہوا ہے جس سے نقصان پہونچنے کا
صحیح اندیشہ ہے تو کیا گل منجن ہی ضروری ہے؟ جبکہ انجیکشن سے بھی یہ کام ہوسکتا ہے
جو مفسد صوم نہیں؟
(۸)کیا
سب گل منجن کے استعمال کرنے والے معذور ہیں؟ فما الدليل عندکم؟
(۹)فقیر
پوچھتا ہے کہ اگر کراہت و ممانعت بے عذری کی صورت میں مؤ کد ہے تو آپ کے مفروضہ
عذر پربھی احوط عدم استعمال کاحکم ہونا چاہئے نہ کہ استعمال والوں کی وکالت، ور نہ
یہ تحقیق نہیں نفسانیت ہوگی ، کیونکہ تمام صیام الی الیل فرض ہے نہ کہ زخیص وتخفیف
کی راہ ہموار کرنا۔
(۱۰)گل
منجن محض منجن نہیں ہے مطلق منجن پرگل منجن کا قیاس کیوں کر درست ہوگا ؟ کیا لفظ
"گل" نے " منجن" کے اطلاق و عموم سےگل منجن" کو خارج
نہیں کیا؟
(۱۱)کیاگل
منجن تمباکو سے نہیں بنتا ہے؟ اور کیا نام اور شکل بدل جانے سے تمباکو کی حقیقت
تبدیل ہوجاتی ہے۔
(۱۲)اگرگل
تمباکو نہیں توگل کے ہرڈے پر کینسر کے بارے میں کیوں تحریر ہے؟ جبکہ دوسرے منجن پر
نہیں ہے؟
(۱۳)اگر
گل تمباکو سے ہی بنتا ہے اور کسی کو تمباکو کی عادت ہو اور بغیر اس کے اس کو
پاخانہ نہ ہوتا ہو تو کیا وہ جلاکر پاوڈر بنا کر منجن کی طرح کرسکتا ہے؟ جس طرح
آپ نے صورت سوم میں گل منجن کی اجازت دی ہے؟
(۱۴)اگر
کوئی بیڑی یا سگریٹ پینے کا عادی ہو اور بغیر اس کے اس کو پاخانہ نہ ہوتا ہو تو
کیا وہ اس طرح بیڑی، سگریٹ پی سکتا ہے کہ د ھواں کھینچے مگر حلق کے نیچے نہ اترنے
دے؟ کیا اس کی اجازت ہے؟
(۱۵)سرکار
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے جو سوال ہوا تھا کہ جو بادام ، کوئلہ، سپاری وگل وغیرہ
کا بنتا ہے۔ الخ تو کیا یہی گل ہے جو آج رائج ہے؟
(۱۶)زوق
ومضغ یعنی چکھنے اور لقمہ چبانے کی صورتیں معلل بالاعذار الخارجيہ ہیں مثلا سخت
مزاج شوہرکا خوف جونمک مرچ کی زیادتی اور کمی پر ظلم کرتا ہو، یونہی بچہ یا ایسا
مریض جو خوداپنا لقمہ نہ چبا سکتا ہو، ان کے لئے چکھنا اور چبانا، یہ اعذار ذوق
ومضغ کےہیں مگر ایسا کون سا عذرگل منجن کے استعمال پرمتحقق ہے؟ کیا ایسا کچھ خوف
یا اندیشہ ہے کہ صائم نے اگرگل منجن نہ کیا ا سے استعمال کر کے بحالت روز ہ پاخانہ
ا تارا تو اس پر ظلم ہوگا؟حاصل کلام یہ ہے کہ گل منجن کے استعمال کا عذر فرضی ہے
تحقیقی نہیں کہ اس پرتدبیرو تخفیف کی تجویز پیش کی جائے۔
(۱۷)جس
کو دن میں گل منجن کرنے کی عادت ہے کیا وہ سب ہمیشہ گھر ہی پر رہتے ہیں؟ اور اگر
کبھی اتفاقا باہربھی جانا ہوتا ہے تو اس صورت میں کیا کرتے ہیں؟ کبھی سفر میں کبھی
کوئی اور کام سے نکلتے ہیں یا نہیں ؟ یہ کوئی جانتا ہے، اور کیا بحالت روز ہ شام
تک گل منجن کرنا اور پاخانہ اتارناصحیح عذر ہے؟ جبکہ ہوتا ہی نہیں ہے وہ بھی خالی
پیٹ۔
(۱۸)جب
یہ مسئلہ اجتہادی اور اختلافی ہے تو احوط جانب منع ہی ہوانہ کہ جانب رخصت وجواز ،
کیونکہ بصورت اختلاف مذہب ام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ "الاحوط جانب
المنع" ہی ہے،یہ چند معروضات بشکل ایرادات ہیں جومع تحفظات پیش ہیں انکا تشفی
بخش حل پیش فرمایا جائے ادھر ادھر گھمانے کےبجائے ایرادات علمی جوہر اور مبلغ علم
کا مظاہرہ فرمایا جائے ،فقیر ممنون ہو گا، اور بعد تشفی اپنے فتوی سے رجوع کرلے
گا۔
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۹؍رمضان
المبارک ۱۴۴۱ھ،۳؍ مئی ۲۰۲۰ء
بروز اتوا
گُل منجن کے تعلق سے واحدی صاحب کےمعروضات کے جوابات
﷽
حامداً ومصلیاً ومسلماً
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
واحدی صاحب: نے ’’تربیت افتا میں گل منجن کی اجازت کیوں؟‘‘اس عنوان
سے ایک فتویٰ لکھ کر نیٹ پر ڈالا جو مجھ تک بھی پہنچا جس کا تفصیلی جواب میں نے ۸؍رمضان
المبارک ۱۴۴۱ھ ،مطابق یکم مئی ۲۰۲۰ء کو دیدیا تھا
،میں نے اس میں پوری وضاحت کردی تھی، سمجھنے والے کے لئے وہی کافی ہے لیکن واحدی صاحب
نے ’’چند معروضات ‘‘کے نام سے دوبارہ ایک تحریر نیٹ پر ڈالی ہے،یوں تو معروضات کے اکثر
حصہ کا جواب میرے فتوی میں موجود ہے،اس لئے اب اس کی کوئی حاجت نہ تھی ۔پھر بھی اپنی
خفت کو مٹانے کے لئے انھیں باتوں کو گھما پھرا کر ’’چند معروضات ‘‘کی شکل میں پیش کردیا
ہے ۔ اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریر بھی خود واحدی صاحب کی نہیں ہے کیونکہ واحدی
صاحب تو باضابطہ عالم بھی نہیں چہ جائیکہ کچھ اور ہوںجیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ
اعدادیہ یا اولیٰ جماعت تک کی تعلیم ہے ،ہوسکتا ہے اس تعلیم کے بعد کسی مدرسہ سے دستار
وغیرہ بھی حاصل کرلی ہو،ہاں چرب زبان ضرور ہیں ۔اس لئے کہ واحدی صاحب نےاپنے ایک تعارف
میں یہ کہا ہےجس میں ان سے پوچھا گیا کہ’’ آپ نےعالمیت اور فضیلت کہاں سے کی ہے‘‘ان
کا جواب ہے’’ گائیڈیہ آبائی وطن وبارگاہ مخدوم اشرف رضی اللہ عنہ کچھوچھہ شریف‘‘انہوں
نے مدرسہ کا نام ذکر نہیں کیاجو اس بات پر دال ہےکہ جناب نے کسی مدرسہ سےعالمیت و فضیلت
نہیں کی ہے،ہاں ممکن ہے بارگاہ مخدوم اشرف قدس سرہ میں کچھ دن مجاوری کی ہو جس کو عالیت
وفضیلت سے تعبیر کردی ہے،یہ بات میں نے اس لئے کی ہے کیوں کہ واحدی صاحب نے خود اپنی
ایک تحریر میں کہا ہے’’میں نے اپنے گاؤں کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے پھر پیر ٹوٹ
گیا تو تعلیم موقوف ہوگئی جس کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکا‘‘اور واحدی صاحب کے
وقت میں گائڈیہ میں صرف ثالثہ رابعہ تک ہی تعلیم تھی۔اس لئے ان کو فتوی لکھنے کا تو
حق ہی نہیں کیونکہ اعلی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں کہ فتوی اسے لکھنے کا حق ہے جس نے
مدتہا طبیب حاذق کا مطب کیا ہو۔
جیسا کہ فتاوی رضویہ قدیم میں ہے: ’’آج
کل درسی کتابیں پڑھنے پڑھانے سے آدمی فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا‘‘(ج:۴،ص:۵۶۵)
نیز اسی میں ہے: ’’علم
الفتوی پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو‘‘(ج:۹ص:۲۳۱،نصفاو)
اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میںشارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’اس زمانے میں سب سے بڑی دشواری یہ ہےکہ بحمدہ تبارک
وتعالیٰ مدارس دینیہ کی کثرت ہے اور ہر مدرسے والے دارالافتا کا بورڈ لگائے ہوئے ہیںاور
مفتی بٹھائے ہوئے ہیں،ان میں اکثر کے فتاوی دیکھ کر رونا آتا ہے،کسی دل جلے نے مکاتب
اسلامیہ کا حال دیکھ کر کہا تھا۔
گرہمیں مکتب و ہمیں
ملا
کار طفلاں تمام خواہد
شد
اور اب مجھے اپنے زمانے کا حال دیک کر کہنا پڑتا ہے۔
گر ہمیں مکتب و ہمیں
مفتی
کار افتا تمام خواہد
شد
(فتاوی برکاتیہ ص:۱۲)
اسی طرح کی کچھ بات فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ
الرحمہ نے بھی تحریر فرمائی ہے:
آج کل لوگ اس فن کو بہت آسان سمجھنے لگے ہیں کہ ہر مدرسہ والے
دارالافتا کابورڈ لگا کر کسی کو مفتی بناکر بٹھائے ہوئے ہیں جن میں اکثر کے فتاوی دیکھ
کر بے انتہا افسوس ہوتا ہے کہ وہ غلط فتاوی
لکھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور خود آسمان وزمین کے ملائکہ کی لعنت کے مستحق
ہوتے ہیں(تقدیم :فتاوی مصطفویہ ص:۷)
اس لئےایسے شخص کے
اعتراضات کا جواب دینا کچھ ضروری نہ تھا مگر لوگوں کو اس کا علم نہیں اور انھوں نےاپنے
معروضات کو نیٹ پر ڈال دیا ہے،اس لئے ان کی علمی حیثیت کی وضاحت کے بعدجواب دینا ضروری
ہوگیا تو یہ میری آخری تحریر ہے اب اس کے بعد کوئی بھی جواب نہیں دیا جائے گا، آپ
کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ہمارے پاس بے جا بحث و مباحثہ کے لئے فرصت نہیں ہے ۔
واحدی صاحب: مجھےآپ کی ایک آڈیو کلپ ملی ہے جس میں آپ نے کہاہے’’اگر
حضور فقیہ ملت کا فتوی ہوگا تو رجوع کرلوں گا مگر دیکھنا چاہئے مجھے‘‘اس تعلق سے حضور
فقیہ ملت قدس سرہ کادرج ذیل صریح فتوی بھیجا گیا ۔اس کے باوجود آپ ہٹ دھرمی پر آمادہ
ہیں ماننے کے لئے تیار نہیں۔وہ فتوی یہ ہے۔
حضور فقیہ ملت قدس سرہٗ سے سوال ہوا:
’’گل منجن اور کول گیٹ وغیرہ کا استعمال روزہ کی حالت
میں کیسا ہے؟اگر متعدد بار استعمال کیا تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟اگر ٹوٹے گا تو قضا
وکفارہ دونوں لازم ہوں گے یا صرف قضا؟‘‘
حضورفقیہ ملت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا
جیسا کہ فتاویٰ برکاتیہ میں ہے:
’’حالت روزہ میں کسی طرح کا منجن یا کول گیٹ وغیرہ کا
استعمال بلا ضرورت صحیحہ مکروہ ہے۔اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی عنہ ربہ القوی
تحریر فرماتے ہیں کہ’’منجن حرام وناجائز نہیں جبکہ اطمینان کافی ہوکہ اس کا کوئی جز
حلق میں نہ جائےگامگر بے ضرورت صحیحہ کراہت ضرور ہے(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص:۶۱۴)اگر
اس کا کچھ حصہ حلق میں چلا گیا اور حلق میں اس کا مزہ محسوس ہوا تو روزہ جاتا رہا مگر
اس صورت میں صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں۔ردالمحتار جلد دوم ص:۹۸
میں
ہے:
’’اکل مثل سمسمۃ من خارج یفطر الا مضغ
بحیث تلاشت فی فمہ الا ان یجد الطعم فی حلقہ ‘‘اھـ۔
اور حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں
کہ:
’’غلطی سے پانی وغیرہ کوئی چیز حلق میں چلی گئی تو صرف
قضا واجب ہوگی‘‘(بہار شریعت حصہ پنجم ص:۱۱۹)
انتباہ:علما کو کافی اطمینان ہو تب بھی منجن نہ استعمال کریں کہ
عوام انھیں دیکھ کر استعمال کرنے لگیں گےاور اپنے روزوں کو برباد کردیں گے۔۔۔۔۔اور
حالت روزہ میں اگر کسی چیز کا استعمال مکروہ تحریمی ہو تو متعدد بار استعمال کرنے سے
روزہ فاسد نہیں ہوگا صرف گناہ ہوگاجیسے کہ نماز میں آسمان کی طرف نگاہ اُٹھانا مکروہ
تحریمی ہے مگر بار بار ایسا کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی۔
فقیہ ملت قدس سرہ
ٗ کایہ وہ صریح فتوی ہے جس میں آپ نےفرمایا :حالت روزہ میں کسی طرح کا منجن یا کول
گیٹ وغیرہ کا استعمال بلا ضرورت صحیحہ مکروہ ہے جبکہ آپ سے سوال گل منجن کے تعلق سے
بھی ہوا ہے اور اعلیٰ حضرت سے بھی جو سوال ہوا ہے اس میں بھی گل کا ذکر ہے۔اور حوالہ
میں اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہی عبارت پیش فرمائی ہے جس کو میں اپنے فتویٰ
میں نقل کرچکا ہوں۔مگر آں جناب کو کسی کی بات تو ماننی نہیں ہے فقیہ ملت ہوں خواہ
اعلی حضرت ان کو تو بس اپنی بات منوانی ہے کہ روزے کی حالت میں گل کرنا مفسد صوم ہے۔
(۱)واحدی صاحب میں نے اپنے فتوی میں فتاوی بحر العلوم کی عبارت نقل
کرکے یہ بتانا چاہا ہے کہ مطلق گل کے استعمال کی تمام صورتوں کے لئے آپ نے استدلال
کیا ہے جبکہ فتاوی بحر العلوم میں تمام صورتوں کا ذکر نہیں صراحۃًًصرف کھینی کی طرح
استعمال کرنے کی صورت کا ذکر ہے اور یہ مفسد صوم ہے جس کا ذکر فتاوی مرکز تربیت افتا
میں بھی ہے اس لئے دونوں میں کوئی تضاد نہیں ،اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے یہاں’’ کھینی
کی طرح استعمال کرنے‘‘ کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ’’منھ میں دباکر رکھنا ‘‘جیسا کہ عام
طور پر کھینی کھائی جاتی ہےبلکہ مطلب یہ ہے کہ ’’کھینی کی طرح دیر تک رکھنا‘‘اب چاہے
دباکر رکھے یا پانچ دس منٹ تک منھ میں چھوڑ رکھے بہر صورت مفسد صوم ہے ۔
واحدی صاحب کا کہناکہ’’
اس فتوی کو مکمل پڑھ اور سمجھ کر تصدیق کئے ہیں یا یونہی تصدیق کر دئے‘‘ میں نے اس
بے ڈھنگے انداز پر لکھاکہ ایسی گفتگو ایک عامی اور جاہل شخص ہی کرسکتا ہے۔آپ نے اسے
علامہ بحرالعلوم کی طرف پھیرکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
(۲)واحدی صاحب: اس کا جواب میرےفتوی میں موجود ہے،مزید آپ کو معلوم
ہونا چاہئے کہ میری گفتگو فتاوی مرکز تربیت افتا میں شائع مسئلہ اور اس کے سائل کے
ارد گرد ہے۔کیونکہ سائل کا سوال یہ ہے کہ’’ جب تک وہ گل نہیں کرتا اس کا پاخانہ نہیں
ہوتا‘‘تو یہ حکم صرف اسی کے لئے ہےیا اس جیسے کے لئے ہے اور اسی حد تک ہےجس حد تک اس
کو عذروحاجت ہے۔فقہ کا قائدہ ہےـ:’’ما ابیح للضرورۃ یقدر بقدرھا‘ ‘ لہٰذاگر اس کو یہ
عذر لاحق ہے کہ بغیر گل منجن پاخانہ نہیں اُترتا تو احتیاط کے ساتھ بھگاکر چند بار
دانتوں پر مل لے جب ایک بار ایسا کرلیا اور پاخانہ اُتر گیا عذر ختم ہوگیا، اب دوبارہ
اس کو اس طور پر بھی استعمال کی اجازت نہ ہوگی یہی اس فتوی کا مطلب ہےاس کا وہ مطلب
ہرگز نہیں جو آپ نے سمجھ لیا ہےکہ جب چاہے کرتا رہے۔اس کے باوجود اگر کوئی کرتا ہے
اگرچہ احتیاط کے ساتھ کرے ضرور مکروہ ہے مگر احتیاط کی صورت میں فاسد ہرگز نہیں جیسا
کہ آپ نے سمجھ رکھا ہےاور فتاوی فقیہ ملت ،فتاوی رضویہ سے بھی یہی ظاہر ہے۔
اور پاخانہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاخانہ لگا ہے مگر پاخانہ
جانے پر پاخانہ ہوتا نہیں اور سائل ایسا کہہ رہا ہے تو اسے ایسا ہی ہوگااورپاخانہ نہ
ہونے کی صورت میں طبیعت بگڑنے کا خوف ہے اس لئے یہ اس کے حق میں عذر ہے۔کیا پاخانہ
اُتارنا جب فرض واجب ہو تبھی عذر متحقق ہوگا؟اورظاہر ہےعذر سائل کو ہے تو قول بھی اسی
کا معتبر ہوگانہ کہ آپ کا۔
(۳)بلاشبہ اجازت وتخفیف عذر ہی کی صورت میں ہوگی یہ حکم علی العموم
نہیں تفصیل نمبر ۲ میں گذر چکی اور عذر نہ ہو پھر بھی کوئی کامل احتیاط کے ساتھ کرتا
ہے کہ جس میں ذرات زیر حلق اترنے کا احتمال ہو ظن غالب نہ ہو تو مکروہ ہے گو کہ اس
صورت میں بھی گل منجن کے استعمال کی فقہا نے سخت ممانعت فرمائی ہے ،فتاوی مرکز تربیت
افتا میں مذکور یہی تیسری صورت ہے۔
(۴)گل بھگودینے سے اس کے ذرات اُڑیں گے نہیں اس لئے زیرحلق ان ذرات
کے اترنے کا امکان کم سے کم رہ جاتا ہے گو کہ لعاب سے اس کی آمیزش ہوگی ،کیونکہ جب
چند بار دانتوں پر ملے گا تو گل کے اجزا کی آمیزش دانتوں سے متصل لعاب ہی میں ہوگی
نہ کہ فورا ً پورے منھ کے لعاب میں پھیل جائے گا
جیسا کہ گل یا پاؤڈر والے دوسرے منجن جو لوگ کرتے ہیں وہ اس سے بخوبی واقف
ہیں ،گل کرنے والے اس کا تجربہ کر چکے ہیں اگر آپ گل منجن نہیں کرتے تو کولگیٹ پاؤڈر
بھگاکر اس کا تجربہ کرلیں تو حقیقت آپ پر بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔رہاعذرکا
خود ساختہ ہونا تو یہ آپ کی اپنی سوچ ہے حقیقت سے اس کا کچھ واسطہ نہیں ،پھریہ کوئی
آپ کے گھر کی جاگیر نہیں کہ جب آپ کہیں گے تبھی عذر ہوگا ورنہ نہیں۔
(۵)یہ کتنی بڑی دریدہ دہنی کی بات ہے، یہ کب میں نے کہا کہ چند بار
بھگوکر گل منجن دانتوں پر مل کر جلد ہی کلی کرلینے اور منھ صاف کرلینے سے پاخانہ اتر
جانے کا اذعان ویقین ہے ۔جس قدر تخفیف کی گنجائش تھی وہ دی گئی، اب اگر اس قدر سے کسی
کی حاجت پوری نہیں ہوتی تو اس کو اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہوگی۔
(۶)عود،لوبان کا دھواں سونگھ کر مشام کے راستے دماغ تک پہنچانا یا گل
منجن کی بو اور ذائقہ کی تیزی کا دماغ تک پہنچانا۔ واحدی صاحب : ایک پہنچناہے دوسرےپہنچانادونوں
میں زمین وآسمان کا فرق ہے،بالقصد عود ولوبان کا دھواں زیر حلق اُتارنا او دماغ تک
پہنچانا ضرور مفسد صوم ہے اور یہاں مذکورہ صورت جس کی رخصت دی گئی ہے اس میں نہ گل
دماغ تک پہنچتا ہے نہ ہی زیر حلق اس کے پہچنے کا ظن غالب ہوتا ہے صرف احتمال ہےاور
یہ مفسد صوم نہیں۔رہا گل کی بو اور اس کے ذائقہ کے اثر کا دماغ تک پہنچنا تو کسی چیز
کے اثر کا پہنچنا مفسد صوم نہیں تو روزہ رکھنا ہی ممکن نہ ہوگا ۔ مزید تفصیل کے لئے
اعلی حضرت قدس سرہٗ کا رسالۂ مبارکہ’’الاعلام بحال البخور فی الصیام ‘‘ کا مطالعہ
کرلیں۔اہل نظر ہی اس فرق کو سمجھ سکتے ہیں، کاش کہ آپ کی سمجھ میں بھی آجائے۔ اور
یقیناً اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ضرور سمجھ میں آجائے گا اب اگر کوئی سمجھ کر
بھی ناسمجھ بنے تو پوری دنیا مل کر بھی اسے نہیں سمجھا سکتی جیسے کہ کوئی سورہا ہو
تو اسے جگایا جاسکتا ہے لیکن کوئی جگ رہا ہے مگر سونے کا بہانا کر رہا ہے اسے پوری
دنیا مل کر بھی نہیں جگا سکتی ۔
(۷)مفسد صوم تو دوسری اور تیسری صورت ہے اورواحدی صاحب: آپ خود اسی
معروضات میں اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ’’میں اُس (یعنی فتاوی مرتز تربیت افتا) میں
مذکور تینوں صورتوں پر متفق ہوں‘‘اور اجازت احتیاط کے ساتھ اسی تیسری صورت کی دی گئی
ہے جو عذر کی صورت میں مکروہ بھی نہیں تو وہ کوئی بھی صورت اختیار کرسکتا ہے، رہاانجکشن
کا استعمال تواس پر جبر کیوں؟ہاں اگر کوئی انجکشن استعمال کرے تو اس کے لئے اجازت ہےہرگز
کوئی ممانعت نہیں ۔
(۸)یہ کہاں سے آپ نے سمجھ لیا کہ گل منجن کرنے والے سبھی لوگ معذور
ہیں ہماری گفتگو صرف اس سائل کے تعلق سے ہے جس کا ذکر فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے
اور اس تعلق سے پوری گفتگو ماسبق میں کرچکاہوں ۔
(۹)واحدی صاحب: میں یہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ ’’مفروضہ عذر‘‘یہ آپ کے
نزدیک ہوگا ،رہا احوط پر عمل تو تیسری صورت میں صرف مکروہ ہےجبکہ استعمال کامل احتیاط
کے ساتھ ہواور اس صورت میں سخت ممنوع کا حکم دیا گیا تو یہ احوط ہی پر عمل ہے۔کاش کہ
واحدی صاحب کو بھی نظر آجائے۔ رہی تحقیق کی بات تو پشتوں سے ہمارا اس سے ناتا رہا
ہےجو اہل علم پر مثل سورج روشن وعیاں ہے،رہی نفسانیت تو یہ آپ کے ساتھ ہے کیونکہ اگرفتاوی
مرکز تربیت افتا کے کسی فتوی میں آپ کو تردد یا اشتباہ تھا تو آپ مصدقین یا مرکز
کے کسی ذمہ دار سے رابطہ کرتے مگر ایسا نہ کرکے فتوی لکھ کر نیٹ پر ڈال دیا جبکہ صحیح معنوں میں آپ اس کے اہل بھی نہیں، یہ
آپ کی نفسانیت ہی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔رہی بات اس کی کہ فون ریسیو ہی کہاں ہوتا
ہے، جیسا کہ آپ نے اپنی ایک آڈیو کلپ میں کہاہے،الحمد للہ میرےتمام فون چوبیس گھنٹے چالو رہتے ہیں میں اکثر سائلنٹ
بھی نہیں کرتا ،اگر میرے فون میں کوئی مس کال بھی رہتی ہے تو فرصت ملنے پراکثر میں
کال بیگ کرلیتا ہوں،اگر آپ اپنی بات میں سچے ہیں تو مجھے نمبر دیجئے میں کال ڈیٹیل
نکلواکر دیکھتا ہوں کہ کب آپ نے مجھے فون کیا ہے۔
(۱۰)اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی منجنوں کے متعلق سے سوال
ہوا ،یونہی فقیہ ملت قدس سرہ سے بھی گل منجن اور دوسرے منجنوں کا سوال ہوا مگر آپ
نے سب کا ایک ہی جوا ب دیا۔پھر اگر گل منجن میں گل لگنے سے وہ محض منجن نہیں تو پھر
کولگییٹ منجن میں کولگیٹ لگنے سے، کلوزپ منجن میں کلوزپ لگنے سے یہ سب بھی محض منجن
ہونے سے خارج ہوجائیں گے تو پھرواحدی صاحب بقول آپ کے دنیا کا کوئی منجن محض منجن
نہ رہ جائے گا سب کے سب منجن مقید ہوجائیں گے۔ماشاء اللہ کیا ہی خوب استدلال ہے یہ
استدلال آپ ہی کو مبارک ہو۔
(۱۱)اس میں بھی آپ کو کوئی شک ہے کیا ؟بلاشبہ گل منجن تمباکو ہی سے
بنتا ہے۔نام اور شکل بدل جانے سے ہرگز تمباکو کی حقیقت نہیں بدل جاتی ،یہ تو مسلمات
سے ہے اس کا کون انکار کرسکتا ہے،مگر استعمال کے طریقے بدل جانے سے احکام بدل جاتے
ہیں یہ بھی مسلمات سے ہے۔
(۱۲)گل بیشک تمباکو ہے اس سے کسی کو انکار نہیں۔
(۱۳)بلا شبہ اگرکسی کو عذر ہےاور اس طریقہ سےاس کا یہ عذر دفع ہوجائےتو
ضرور اس کے لئے حکم میں اس قدر تخفیف ہوگی کہ تمباکو کا پاؤڈر ہتھیلی پر رکھ کر بھگودے
پھر اسے احتیاط کے ساتھ دانتوں پر ملےاور جلد ہی کلی کرکے منھ صاف کرلے۔اس لئے کہ اس
صورت میں ذرات اُترنے کامحض احتمال ہےتو معذور کے لئےیہ مکروہ بھی نہیں۔اورواحدی صاحب
:چاہے گل منجن ہویا تمباکو پیس کر پاؤڈر بنالو دونوں ایک ہی چیز ہے ، تو دونوں کا
حکم بھی ایک ہی ہوگا۔
(۱۴)واحدی صاحب: بیڑی سکریٹ میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا کچھ جز حلق
کے نیچے نہ جائے،ظن غالب یہی ہے کہ دھواں حلق سے نیچے اُتر جائے گا اس لئے گو کہ اس
کا پاخانہ نہ اُترے اسے بیڑی سکریٹ پی کر پاخانہ اُتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی
اس لئے کہ یہ مفسد صوم ہے۔واحدی صاحب:مقصدمحض یہ نہیں کہ پاخانہ اُترجائے چاہے جو کرنا
پڑے ،اگر ایسا ہوتا تو تمباکو کھانے اور گل کے استعمال کی پہلی دوسری صورت کی بھی اجازت
دے دی جاتی ،مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔اس لئے کہ مقصد ایسی صورت سے پاخانہ اُتارنا ہے
جو مفسد صوم نہ ہو ۔اور یہ صرف تیسری صورت ہی میں متصور ہےاس لئے صرف اسی تیسری صورت
میں تخفیف کرتے ہوئے احتیاط کے ساتھاستعمال کی اجازت دی گئی جس تیسری صورت سے خود آپ
بھی متفق ہیں۔
(۱۵)اعلی حضرت کی عبارت میں اس کی کوئی وضاحت نہیں، ہوبھی سکتا ہے اور
نہیں بھی ہوسکتا ہے، اس کی میں نے کبھی تحقیق نہیں کی ۔
(۱۶)جس طرح چکھنے اور چبانے میں شوہر کی ناراضگی اوربچہ کی تکلیف کا
خوف ہے ایسے ہی یہاں مسئلۂ دائرہ میں گیس وغیرہ بننے سے بھی طبیعت کے خراب اور بیمار
ہوجانے کا خوف ہے،جو کسی پر مخفی نہیں۔
(۱۸)سحری کے بعدجب روزہ دار دن میں سوکر اُٹھتا ہے تو عموما ً ہرایک
کو ایک،دو بار حاجت ہوتی ہے ۔پھرہم نے تو صرف عذر والے ہی کے لئے تخفیف کی ہے اب اگر
کسی کو یہ عذر نہیں تو اس کے لئے ہرگز یہ تخفیف نہیں ہے ۔مگر واحدی صاحب: مجھے تعجب
ہوتا ہے کہ اتنی صاف، ستھری اور واضح عبارت سے آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ یہ تخفیفی
حکم ہر کس وناکس خواہ عذرہو یا نہ ہویا بلا عذر دن میں بار بار گل کرنے والے سبھی کے
لئے ہے۔
(۱۸)واحدی صاحب : تیسری صورت میں احوط ہی پر عمل کرتے ہوئے منع کا حکم
بلکہ آپ کی سوچ سے بڑھ کر سخت منع ہے اس سے بڑھ کر احوط پر اور کیا عمل ہوگا۔
واحدی صاحب: اخیر میں صرف اتنا کہناہے کہ ڈھیر سارے ایرادات کا
پُلندہ جو آپ نے نیٹ پہ ڈالا تھا اس گمان سے کہ شاید سوالات کی کثرت سے گھبراجائیں،
الحمد للہ یہ ہمارا میدان ہے، ہم اس سے گھبرانے والے نہیں، آپ کے تمام سوالات کے سیدھے
سیدھےجوابات دے دئے ہیں،یوں تو پہلی تحریر بھی سیدھی سیدھی تھی مگر آپ نے اس کو گول
گول سمجھ لیا تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔یہ تحریر بھی بالکل سیدھی سیدھی ہی
ہے اگر آپ سمجھنا چاہیں گے تو بڑی آسانی سے سمجھ جائیں گے،اب اگر سمجھنا ہی نہ چاہیں
یا سمجھ کر بھی ناسمجھی کا ثبوت دیں تو اس کی بات ہی الگ ہے، اس کا کوئی علاج ہی نہیں۔اس
لئے آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں میری یہ آخری تحریر ہے، اب آپ کی کسی تحریر کا کوئی
جوا ب نہ دیا جائے گا۔رہا مبلغ علم تو مجھے جو کچھ اپنے والد ماجد فقیہ ملت قدس سرہ
ٗ اور اساتذۂ کرام کی باگاہ فیض سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کی روشنی میں اپنے مبلغ
علم کا مظاہرہ آپ کےسامنے پیش کردیا ہے اور آپ کا مبلغ علم کتنا ہے، اسے حوالہ کے
ساتھ ابتدا میں بیان کردیا ہے۔رہارجوع تو کریں یا نہ کریں واحدی صاحب یہ آپ کا اپنا
مسئلہ ہے، میرا جو کام تھا وہ میں نے کردیا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ :محمد ابرار
احمد امجدی برکاتی
خادم افتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی
یوپی
۱۰؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ،۴؍
مئی ۲۰۲۰ء
کیا.کہنے جناب اول تو لکھیں مفتی ازہار صاحب نام.رہے مفتی ابرا صاحب کا کیا سچ پے واااہ
ReplyDeleteجب جواب دینا.تھا تو دو پوسٹ تھا ایک اردو میں دوسرا عربی میں دونوں کا جواب لکھ دیتے
جواب لکھنے سے پہلے سوال کو پڑھ کر سمجھ لیتے میں کیا پوچھنا چاہتا ہوں
پھر کم از کم ایک ہی حوالہ صحیح مگر تحریر کردیتے
اب تو آپ کے نزدیک تمباکو بھی مفسد صوم.نہیں وااااہ یہ ہے آپ کا.مبلغ علم جیتے رہو.سدا خوش رہو آقازادے ہو آپ کے لئے دعا ہی دعا پے
میں جو کہا تھا کہ علامہ فقیہ ملت علیہ الرحمہ کا فتوی ہوگا تو رجوع کرلوں اول تو حضور والا.نے گل.کے متعلق نہیں تحریر کیا ہے اور شاید بزرگ ہستی تھے گل سے اور اس کے اثرات سے واقف نہیں تھے اس لئے گل کو عام منجن سمجھ کر
فتوی دیاہوگا اسی کئے دلیل میں فتاوی رضویہ کی عبارت پیش کی ہے. واللہ اعلم.بالصواب
رہی رجوع کی بات تو میں اس پر ابھی بجی متفق نہیں ہوں کہ پاخانہ.نہ ہونا.عذر ہے اور گل کی اجازت دی جائے جس سے میں رجوع کروں البتہ آقازادے ہیں اس لئے میں نے اپنا سارا فتوی اور معروضات آپ کو پیش کربے کے بعد سب اپنے ویب سائٹ سے اسی دن ڈلیٹ کردیا تھا کیوں کہ آپ شہزادہ فقیہ ملت علیہ.الرحمہ ہیں
آپ میرے ویب سائٹ کو دیکھ سکتے ہیں
مگر اب بھی باتنا.کہوں کہ جب معروضات لکھنا ہی تھا تو مدلل لکھتے تاکہ.لوگ پڑھ کر کچھ سمجھتے پرسنل پر کئی درجن کمہنٹ موجود ہیں جسکو دیکھنے کے بعد آپ.کا احساس ہوجائے گا کہ.آپ.نے کیا.لکھا مارو گھٹنہ پھوٹے سر
1۔واحدی صاحب اب آپ کو الہام ہونے لگا یا اس سے بھی کچھ اوپر کا تصور کرنے لگے خیر اس بات کو ثابت کریں ورنہ اس الزام تراشی پر حضرت سے طلب معافی اور آئندہ اس سے اجتناب کا عزم اور توبہ و استغفار کریں۔
Delete۲۔گل منجن سے متعلق پہلی تحریر ہی کافی تھی مگر آں جناب نے جہلا میں شور مچا رکھا تھا اور یہ پرچار کیا کہ مرکز تربیت افتاء کا فتوی غلط ہے اسلئے براے تفہیم دوبارہ لکھ دیا جو کہ سمجھنے والے کیلئے کافی ہے اور بے عقل کو تو ایک دفتر بھی بے کار۔
اور اگر عربی کے لفظ سے کچھ اور ہی ارادہ ہے تو کھل کر بیان کریں تم جیسوں کے لئے حضرت کے شاگرد بلکہ شاگردوں کے شاگرد کافی ہیں سارا نشہ اتر جاے گا ان شاء اللہ تعالی۔
۳۔سوال نہ سمجھنے کی بات واحدی جی کی جانب سے سخت الزام اور بے ادبی وگستاخی ہے مگر ان سے کچھ بعید نہیں ۔
۴۔جو یہ نہ جان سکا کہ تمباکو،تمباکو ہونے کے سبب مفسد ہے یا کسی اور سبب وہ کیا سمجھے اور اسے کون سمجھاے خیر آپ شکر اور گھلنے والی چیزوں سے متعلق بہار شریعت کے جزیہ میں غور کریں شاید اصل مفسد کو سمجھ پائیں اور ابو جاہل ہونے کا ثبوت دینے سے بچ پائیں۔
۵۔اللہ اکبر!اس گستاخ کی جرات تو دیکھو فقیہ ملت علیہ الرحمہ کی شان میں بھی گستاخی اور عدم فہم کا الزام اب کسے سمجھائیں کوئی عقل والا ہو تو بتایا جاتا کہ بیٹا فقیہ ملت کے لقب میں ہی غور کرلیتا تو یہ بے ہودہ بات زبان سے نہ نکالتا مگر تونے اس لفظ میں غور نہیں کیا اور سامان مذاق بن گیا۔
۶۔رجوع تو وہ کرے جو مفتی ہو دلائل میں نظر کا اہل اور جاہل سے رجوع کا تو تصور بھی نہیں ہاں جاہل جہالت سے باز نہ آے یہ ہوسکتا ہے۔
پاخانہ کی حاجت ہے اور وہ اتر نہیں رہا اب اگر نہ اترے اور یوں ہی غروب آفتاب تک رہنے کا مکلف بنایا جاے تو اس میں ضرر ممکن بلکہ وقوع نیز یہ تکلیف مالا یطاق بھی ہوگی جس کا مکلف خود خالق انسان نے انسان کو نہیں بنایا تو کسی عالم یا عامی کو کب حق پہنچا۔
مقصد کو پورا کرکے ڈلیٹ کرنا چہ معنی دارد؟ خیر وہ تمہارا نظریہ ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں۔
۷۔کھلاڑیوں کی ٹیم میں کھلاڑی اور جاہلوں کی ٹیم میں جاہل ہونا بدیہی بات ہے۔پہلے بھی ہمارے ساتھ ہوئی بحث میں یہی دعوی کیا تھا پھر جب میں نے عکس مانگا تو اس میں وہ بھی تھے جنہوں نے ہماری تائید میں ہمارے فتوی پر تصدیق کی اب ایسے لوگوں کا حال قاری خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ جو شخص کسی کے پرسنل پر جو کہ چکا اسی کے خلاف کی تصدیق کر رہا ہے۔
اور اس سے ان کے پرسنل کی حقیقت بھی کھل گئی چونکہ جناب کو تعریف پسند ہے اور اختلاف کرنے والا تو گویا دشمن تو ہو ممکن ہے کہ ان کو بے وقوف بنانے کیلئے پرسنل پر کچھ حوصلہ افزائی کی ہو یا ان کو مزید جہالت میں پھرتے رہنے کیلئے کیونکہ پرسنل پر کچھ کہنا سند نہیں رکھتا بلکہ فتوی پر تصدیق کرنا سند رکھتا ہے۔
اس فتوی میں ابن فقیہ ملت مفتی ازہار احمد صاحب کی تائید کے ساتھ گروپ کے تقریبا دس مجیبین کی تائید تھی جن میں کچھ ان کے پرسنل والے بھی تھے
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteاور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں علامہ فقیہ ملت علیہ الرحمہ کے فتوے پر عمل کروں اور اپنے فتوے سے رجوع کرلوں تو بہتر ہوگا کہ تربیت افتاء کا فتوی نکال دیں کیونکہ اس میں کفارہ کا بھی ذکر ہے اور قضا کا بھی جب کہ علامہ فقیہ ملت علیہ الرحمہ نے مطلقا لکھا ہے کہ کسی بھی طرح کا منجن ہو روزہ نہیں ٹوٹتا اگر چہ کئی بار ہو اور آپ نے اس سے برعکس فتوے پر تصدیق کی ہے تو پہلے آپ رجوع کرلیں ویسے میں بتاچکا کہ میں نے اپنے ویب سائٹ سے فتوی ڈلیٹ کردیا کہ آپ آقازادے ہیں ہمارے .مگر دل سے رجوع نہیں کیا
ReplyDeleteہوں بلکہ میرا وہی موقف ہے. ہاں آپ رجوع کرلیں تو میں بھی کرلوں گا
اور اگر آپ کی تصدیق علامہ فقیہ ملت علیہ الرحمہ کے خلاف ہوسکتا ہے تو میرا فتوی آپ کے بھی خلاف ہوسکتا ہے
حضرت مفتی صاحب قبلہ آپ سے فتوی پر عمل کی چاہت پڑھ کر ہی ہنسی آتی ہے۔
Deleteآپ فتوی کے مجاز ہی نہیں اختلاف تو بڑی دور کی منزل پہلے اہل بن جائیں پھر بات کریں۔
ہم آخر میں دعا گو ہیں مولی تعالی آپ کو علم عقل فہم عطا فرمائے
شان محمد صاحب ہنسی تو آپ کو آئے گی کیونکہ چاپلوسی آپ کا پیشہ ہے رہی فتوے کی بات تو آپ کے زبان سے یہ جملہ مناسب نہیں جو احکام شریعت کی عبارت نہ سمجھ پائے اور رنڈیو کے پیسہ سے مسجد مدرسہ بنوانا فاتحہ وغیرہ جائز کہے تو فتوے کی بات کرے یہ منھ مسور دال صرف چاپلوسی کریں یاپھر بتائیں کہ گل بھگا کر دانت پر مل کر فورا ککی کرنے سے پاخانہ اترجائے گا اگر گل کرتے ہونگے یا تمباکو کھاتے ہونگے تو معلوم ہوگا یا پھر پوچھ لیں کسی سے کہ جب تک عمل نہیں پورا ہوتا ہے اس وقت تک پاخانہ نہیں ہوتا ہے اور عمل اسی وقت پورا ہوگا جب جز حلق سے نیچے اترے پھر یہ مفسد صوم کیوں نہیں
Deleteمیرے اعتراض کا جواب نہ دیکر نفس کی پیروی کی گئی کیا یہی مفتی کی شان ہے
رضانفس دشمن ہے دم میں نہ آنا
قال اللہ تعالی ان الشیطان للانسان عدومبین
ایک بار س مفہوم کو سمجھ لیتے
کہ ہم کس کی پیروی کررہے ہیں
مفتی صاحب نے مجاور اور کیا کیالکھا کیایہ انکے شان کے لائق تھا یا سوال کرنے کے لئے عالم کا ہونا شرط ہے بقول مفتی صاحب میں جاہل تو تو کیا ہوا جواب دینا چاہئے تھا مفر نفس کی پیروی واہ کیا کہنے
اور میں نے رجوع کے لئے اس لئے کہا تھا کیونکہ مفتی ازہار صاحب نے کہانکہبوالد ماجد کے فتوے پر عمل کریں معروضات نہ پیش کریں اور پوسٹ میں فتاوی برکاتیہ کے حوالے سے فقیہ ملت علیہ الرحمہ کا قول پیش کیا گیا تو میں نے کہا کہ علامہ فقیہ ملت علیہ الرحمہ نے تو بلا قید کے گل کی اجازت دی ہے اور یہ بھی فرمایا بار بار کرنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ تربیت افتا میں تین صورتوں میں س ایک صور ت جواز کی ہے وہ بھی بسبب عذر تو اب آپ بتائیں کہ اس پر کیسے عمل ہوگا یا تو تربیت کو غلط مانیں یا برکاتیہ کو
Deleteاگر مجھے کہہ رہے ہیں کہ والد ماجد کے فتوے پر عمل کریں تو لازم ہے کہ اس پر خود بھی عمل کریں اور تربیت سے رجوع کریں اگر آپ کو ہنسی آرہی ہے تو ہنستے رہیں تمہاری مقدر میں یہی لکھا ہے
سوال وجواب کو پڑھکر نتیجہ یہ اخذ ہوتاہیکہ بات بہت دور تک نکل چکی ہے. یعنی نفسیات تک
ReplyDeleteایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے. علم والوں کی قدر لازمی ہے. جیسا اعتراض ویسا جواب
علامہ ابرار صاحب قبلہ آپبکو قوم کی فکر ہے میں جانتا ہوں اسی لئے پاخانہ نہ ہونا عذر مانتے ہوئے اجازت دے دئے
ReplyDeleteاب میں پوچھتا ہوں کہ کسی کو بیڑی سکریٹ یا تمباکو کی عادت ہو اور بغیر اس کے پاخانہ نہ ہوتا ہو تو وہ کیا کرے مرجائیں یا بیمار ہوجائے یا روزہ چھوڑ دے اگر روزہ چھوڑ دے تو پھر کب رکھے جب رکھے گا یہی معالہ رہے گا تو کیا فدیہ دے سکتا ہے
ذرا ایسوں کے بارے میں رہنمائی فرمائیں