مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما
درجہ بندی کے اعتبار سے دنیاے اسلام میں علم فقہ کا درجہ تمام علوم اسلامیہ سے پہلے آتا ہے؛ اسی وجہ سے اس علم کو تمام علوم اسلامیہ پر فوقیت دی جاتی ہے، اس کے بعد علم حدیث کا درجہ آتا ہے، علم فقہ کی ترویج و اشاعت اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی صورت میں جس طرح فقہ کے علماے ذوی الاحترام نے کافی تگ و دو کی اور اس کے لیے انہوں نے رات کو رات اور دن کو دن نہیں سمجھا بالکل اسی طرح علم حدیث کے علماے کرام نے بھی اس فن کی ترویج و اشاعت میں انتھک کوشش فرمائی اور احادیث کو اپنی صحیح حالت پر لوگوں تک پہونچانے میں کسی طرح کی کوئی کسر باقی نہ رکھی، جس کی بنا پر علماے فقہ کو احادیث سے احکام استخراج کرنے میں کافی حد تک آسانی میسر آئی، اسلام کے ابتدائی ادوار میں علم حدیث و فقہ بلکہ تمام علوم کی ترویج و اشاعت کا اصل ذریعہ درس و تدریس ہی تھا، تحریری یا کتابی شکل میں علوم کی نشر و اشاعت بہت کم بلکہ نہ کے برابر تھی، یقینا تحریر کی اپنی ایک خاص اہمیت و افادیت ہے مگر درس و تدریس کی اہمیت اس سے کم نہیں بلکہ بعض جہت سے درس و تدریس کی اہمیت تحریر سے کہیں زیادہ ہی ہے؛ کیوں کہ ایک عالم محرر بھی عموما درسگاہ کی خیر و برکت ہی سے بنتا ہے، تحریر سے فائدہ اٹھانے والے کو اگر بات سمجھ میں نہ آئے؛ تو محرر سے رابطہ کرکے حل کرنا ایک مشکل امر ہوتا ہے لیکن اگر درسگاہ کی بات سمجھ میں نہ آئے؛ تو تدریس کا کام انجام دینے والے سے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے، بہر حال اپنی اپنی جگہ ہر ایک طریقہ کار کے بہت سارے فوائد ہیں؛ اسی لیے درس یا تحریر یا دونوں سے دلچسپی رکھنے والے علما اپنے اپنے انداز میں علم فقہ و حدیث و غیرہ کی خدمت ابتدائی ادوار سے کرتے آرہے ہیں اور ان شاء اللہ قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، انہیں علماے کرام میں سے ماضی قریب میں علم فقہ و حدیث سے دلچسپی رکھنے والے امام العلماء مفتی شبیر حسن رضوی رحمہ اللہ کی ذات ہے، آپ کی ذات علم فقہ و حدیث میں کافی درک رکھتی تھی، اگرچہ آپ نے تحریری شکل میں علم حدیث پر کوئی کتاب نہیں لکھی مگر ایک طویل زمانہ تک آپ نے درس و تدریس کے ذریعہ علم حدیث سے طالبان علوم نبویہ کو سیراب کیا ہے، آج کی اس بزم میں حضرت کے حدیثی خدمات کے چند اہم گوشے بیان کرنے کی کوشش کروں گا، و ما توفیقی إلا باللہ، علیہ توکلت و إلیہ أنیب۔
تفقہ فی الحدیث
امام العلماء علیہ الرحمۃ و الرضوان
مدرسہ عزیز العلوم، نانپارہ اور الجامعۃ الإسلامیۃ، روناہی میں تعلیم کے دوران
تقریبا اکیاون (۵۱) سال شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے اور آپ نے اکیاون (۵۱) سال
حدیث کی سب سے معیاری کتاب بخاری شریف کا درس دیا، آپ کو فقہ حدیث میں کس قدر
مہارت تھی، یہ آپ کے طریقہ درس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، آپ کے درس کا انداز کچھ یوں تھا:
(۱)ترجمہ کے ساتھ لغوی و اصطلاحی
تشریح۔
(۲) نقلی دلائل کے ساتھ عقلی دلائل
پیش کرنا۔
(۳) احادیث سے مسائل کا استنباط۔
(۵) دلائل کی بنیاد پر علمی انداز میں
فقہ حنفی کا دفاع۔
(۶) دفاع کی تائید جہاں آپ اعلی حضرت
مجدد دین و ملت اور دیگر ائمہ کرام کے اقوال سے کرتے وہیں آپ اپنی رائے بھی پیش
فرماتے تھے۔
(۷) دفاع کی صورت میں اگر کوئی جواب
کمزور ہوتا؛ تو اس کی کمزوری بھی واضح فرماتے تھے۔
(۸) احادیث کے درمیان بظاہر تعارض کے
دفاع کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ (مفتی شبیر حسن رضوی علیہ الرحمۃ بحیثیت شیخ
الحدیث، محمد سلیمان رضوی جامعی، ص۲)
آپ جب افتتاح بخاری فرماتے؛ تو نہایت
ہی عمدہ گفتگو کرتے بالخصوص آپ کی اس
گفتگو میں بسملہ و حمدلہ کے متعلق بہت ہی دقیق اور علمی گفتگو کے جلوے نظر آتے، آپ
امام بخاری علیہ الرحمۃ کا اپنی کتاب کو بسملہ سے شروع کرنے اور حمدلہ کو ترک کرنے
کے گیارہ جوابات بڑی آسانی سے دیتے اور درمیان گفتگو جوابات کے ضعف و قوت کا بھی
اظہار فرماتے، اسی طرح ختم بخاری شریف میں بھی علمی جواہر پارے بکھیرتے ہوئے نظر
آتے جس سے طالبان علوم نبویہ پورے طور سے
محظوظ ہوتےاور ان علمی موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اطمینان محسوس کرتے، آپ نے
درس بخاری شریف اور اس کے افتتاح و اختتام میں جو علمی طریقہ کار اختیار کیا، وہ
اس بات پر روشن دلیل ہے کہ آپ کو فقہ حدیث میں کافی درک حاصل تھا۔
فتاوی میں حدیث سے استدلال
اپنے دور کے علماے ہند کے درمیان امام العلماء علیہ الرحمۃ کی شخصیت فقہ کے
میدان میں ایک چمکتے ہوئے ستارہ کے مانند تھی، آپ کی شخصیت مرجع فتاوی ہونے کے
ساتھ ساتھ مرجع علما بھی تھی، آپ اپنے فتاوی میں جہاں فقہی جزئیات کا ذکر کرتے تھے
وہیں ضرورت پڑنے پر احادیث سے استدلال
کرنے کا اہتمام بھی کرتے تھے، چنانچہ آپ نے صحابہ کرام وغیرہ کے متعلق گفتگو کرتے
ہوئے متعدد احادیث سے بھی استدلال کرنے کا بخوبی اہتمام کیا ہے جس سے آپ کے تفقہ
فی الحدیث کی خوبی مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔
علم اصول حدیث
ہمارے ممدوح امام العلماء علیہ الرحمۃ
کی زیادہ توجہ اگرچہ فقہ حدیث پر تھی مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ علم اصول
حدیث سے بالکل تہی دامن تھے اور ایسا ہو
بھی نہیں سکتا؛ کیوں کہ علم اصول حدیث سے متعلق اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کی کتابیں
آپ کے مطالعہ کی میز پر تھیں؛ اسی لیے تو آپ طالبان علوم نبویہ کو ’الھاد الکاف فی
حکم الضعاف‘ مطالعہ کرنے کی ترغیب دلاتے تھے، امام العلماء رحمہ اللہ تعالی حدیث
ضعیف کے متعلق مختلف جہات سے کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تعدد اسناد سے حدیث ضعیف کم از کم حسن لغیرہ کے
درجہ کو پہونچ جاتی ہے اور حدیث جس کے ذریعہ کسی مجتہد نے مسئلہ کا استنباط و
استخراج کر لیا، اگرچہ وہ حدیث از روے سند ضعیف ہو، درجہ صحت کو پہونچ جاتی ہے اور
حدیث ضعیف دربارۂ فضائل و مناقب معتبر ہے، ملخصا‘‘۔ (مفتی شبیر حسن رضوی علیہ
الرحمۃ بحیثیت شیخ الحدیث، محمد سلیمان رضوی
جامعی، ص۲)
اسی طرح
بعض علماے کرام نے امام بخاری کا اپنی کتاب بسملہ سے شروع کرنے اور حمدلہ
کو چھوڑنے کے جواب میں جب یہ فرمایا کہ حدیث حمدلہ ضعیف ہونے کی وجہ سے امام بخاری
علیہ الرحمۃ نے حمد سے ابتدا نہیں فرمائی؛ تو امام العلماء رحمہ اللہ نے اس قول کو
ضعیف قرار دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ حدیث حمدلہ ضعیف نہیں حسن بلکہ صحیح ہےنیز
قرہ بن عبد الرحمن راوی جس کی وجہ سے حدیث حمدلہ کو ضعیف قرار دیا گیا تھا، اس کے
متابعت کی طرف بھی اشارہ فرمایا اور ان ساری باتوں کو ائمہ کرام کے اقوال سے مزین بھی
فرمایا، ملاحظہ فرمائیں:
’’جواب چہارم: حدیث حمد ضعیف ہے؛ اس
لیے کہ اس حدیث کے تمام طرق کا دار و مدار قرۃ بن عبد الرحمن روای ہے، جو ضعیف ہے۔
مگر یہ جواب بھی ضعیف ہے کہ حدیث حمد
ضعیف نہیں؛ کیوں کہ یہ حدیث نہ صرف حسن بلکہ صحیح ہے، ابن حبان اور ابوعوانہ نے اس
کی تصحیح فرمائی اور سعید بن عبد العزیز نے قرۃ کی متابعت بھی کی ہے جس کی تخریج
امام نسائی نے فرمائی جیسا کہ علامہ امام بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
بخاری شریف کی شرح ’عمدۃ القاری‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
الحدیث صحیح، صححہ
ابن حبان و أبوعوانۃ و قد تابع سعید بن العزیز قرۃ کما أخرجہ النسائی‘‘۔ (مفتی شبیر
حسن رضوی علیہ الرحمۃ بحیثیت شیخ الحدیث،
محمد سلیمان رضوی جامعی، ص۲)
امام العلماء رحمہ اللہ کا اپنے درس
میں یہ انداز گفتگو، اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ آپ کو جہاں تفقہ فی
الحدیث کا ملکہ حاصل تھا وہیں علم اصول حدیث پر بھی آپ کی گہری نظر تھی اور آپ
وقتا فوقتا اس دقیق علمی زاویہ سے بھی اپنے طلبہ کو سیراب فرمایا کرتے تھے۔
امام العلماء علیہ الرحمۃ نے اس طرح تقریبا
اپنی پوری زندگی درس و تدریس کے ذریعہ اسلام کی خدمت اور فقہ و حدیث وغیرہ علوم
اسلامیہ کی نشرو اشاعت میں گزاردی جس کی بنا پر کثیر تعداد میں آپ کی بارگاہ سے فیض یافتہ علما و فقہا و محدثین پیدا ہوئے جو دنیا کے مختلف مقامات پر آج بھی دین متین کی نشر
و اشاعت میں مصروف عمل ہیں، اللہ تعالی آپ کی مرقد انور پر رحمت و انوار کی بارش
فرمائے اور ہم سب پر آپ کا فیضان عالی شان جاری و ساری رکھے، آمین ثم آمین
بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج،
بستی، یوپی، انڈیا
۲۸؍ربیع الأول ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment