Saturday, May 2, 2020

تقدیم: تارک اعتقاد صحیح سید کونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عدالت میں

مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

لکھتا  ہوں  اچھی  بات،  کسی  کو  سکھا سکوں
سچ  کیا، جھوٹ  کیا  ہے، جہاں  کو  بتا سکوں
سوچوں میں ڈوبنے  سے بھی  لکھنا  نہ  آسکا
یہ  علم  رب  کی  دین  ہے،  سب کو بتا سکوں
اللہ  سرکشوں  کو   ملاتا   ہے   خاک   میں
اور  بندگی   کی    یاد    سبھی   کو   دلاسکوں
بے کار   مت    گنواؤ،   امانت  ہے   زندگی
اور موت  سچ  ہے، اس سے سبھی کو ڈراسکوں
دنیا  کی  محفلوں  سے  تو  بھرتا  نہیں  ہے  دل
اگر وقت کے  ضیاع  سے  سب  کو بچا سکوں
کرتے تھے  جو  خدائی  کا  دعوی  ہوئے  تباہ
قرآں کی  آیتیں  یوں  ہی  پڑھ  کر سنا سکوں
لکھتا ہوں نیک بات کہ اے کاش ساجد میں
خود    کو   ہدایتوں   کا   ذریعہ   بنا  سکوں
اسلام کے ماننے والوں پر ہر دور میں دو چیزوں کی حفاظت لازم و ضروری ہوا کرتی ہے اور یہ دونوں چیزیں ایک مسلم کی ہر قیمتی چیز کی حفاظت و صیانت پر مقدم ہوتی ہیں، ایک عقیدہ اور دوسرے اعمال یعنی فرائض و واجبات وغیرہ، ہر مسلمان کا سب سے اولیں فریضہ ہے کہ وہ اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرے اور جو چیز اس عقیدہ کی حفاظت میں معاون ہو مثلا نماز وغیرہ اور ذاتی  و جماعتی دفاع کا پختہ انتظام اور تجارت وغیرہ، ان سب کا التزام کرے اور کسی بھی صورت میں ایمان و عقیدہ کا سودہ نہ کرے اور جو چیزیں اس کی حفاظت و صیانت میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، ان میں بھی کسی طرح کی تساہلی نہ برتے؛ کیوں کہ ایمان و عقیدہ ایک ایسی عظیم دولت ہے جس کا دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز بھی بدل نہیں بن سکتی! مگر پھر بھی آج کے دور میں قوم مسلم عقیدہ اور اس کو مضبوط کرنے والی چیزوں کے بجائے دنیا کی قیمتی چیزوں کی بہت زیادہ حفاظت کرتی ہے، اکثریت آنکھ بند کرکے حلال و حرام کا امتیاز کیے بغیر دولت و مادیت کی طرف بھاگتی نظر آتی ہے اور ایمان و عقیدہ کے متعلق عموما فکر مند نظر نہیں آتی؛ یہی وجہ ہے کہ آج یہ قوم مسلم، عقائد اور فرائض و واجبات جیسے اہم اعمال سے بالکل غافل نظر آتی ہے، مسلمانو! اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دولت حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے، ہاں اس بات کی طرف ضرور پوری توجہ دلائی ہے کہ اے میرے ماننے والو! دولت کماؤ مگر ایمان سے کسی بھی صورت میں روگردانی مت کرو، دنیا حاصل کرو مگر جو اعمال دین و ایمان کی حفاظت میں مددگار ہیں، ان میں قطعا لاپرواہی نہ کرو، ورنہ اس طریقہ کار کی وجہ سے تمہارا ایمان تمہارے ہاتھ سے چلا جائے گا یا یہی طریقہ کا ر تمہارے ایمان کے ضائع ہونے کا سبب بن جائےگا، اگر ایسا ہوا؛ تو اے میرے ماننے والو! دنیا و آخرت یا کم از کم آخرت میں تمہاری دولت تمہارے کام نہیں آئے گی، تمہاری دنیا تمہاری حفاظت نہیں کرپائے گی، تمہاری اولاد تمہارا سہارا نہ بن سکیں گی، بلکہ کل قیامت کے دن یہ ساری چیزیں تمہارے منھ پر مار دی جائیں گی، اے میرے ماننے والو! کل تم اس وقت کف افسوس ملوگے، جس وقت تمہارا افسوس کرنا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچاسکے گا؛ اس لیے ابھی بھی وقت ہے، زندگی کی رمق باقی ہے، قرآن پاک اور احادیث نبویہ جن امور کی نشان دہی کریں اور علماے کرام جن اہم باتوں کی طرف توجہ دلائیں، انہیں تسلیم کرو اور انہیں تسلیم کرنے کے بعد ان کے مطابق زندگی گزارو، اگر تم نے ایسا کرلیا؛ تو دنیا و آخرت یا کم سے کم آخرت میں تمہیں کامیاب و سر بلند رہوگے اور تمہیں کوئی بھی سرنگوں نہیں کرسکے گا، مگر دور حاضر میں ایسا بالکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے عقیدہ پر حملہ ہوتا ہے؛ تو ہم دُم دباکر کہیں کونے میں چھپے بیٹھے رہتے ہیں، ہم  پر مصیبت آتی ہے؛ تو ہم ڈر سے روتے ہیں، زلزلے آتے ہیں؛ تو خوف زدہ ہوکر گھر سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ہمارے پاس اتنی بھی عقل و فکر نہیں ہوتی کہ ہم ایسی حالت میں اپنے عقیدہ و اعمال کا جائزہ لیں، یہ توفیق نہیں ملتی کہ مسجد کا رخ کرکے مسجد کو آباد کریں اور دیگر فرائض و واجبات کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں! عقیدہ اسلام کہتا ہے: اے میرے ماننے والو! جب تم میری حفاظت کی پوری کوشش نہیں کرتے اور میرے احکام پر عمل پیرا نہیں ہوتے؛ تو تمہیں رونے کا کوئی حق نہیں، تمہارے چھپنے اور ڈرنے کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، تمہارے افسوس کرنے کا کوئی مول نہیں، ہمارے یہاں تمہارے تبصرہ کا کوئی اعتبار نہیں اور خوف کی وجہ سے تمہارے گھر سے نکلنے کا کوئی مطلب نہیں، اے میرے ماننے والو! اگر ان چیزوں کو بامقصد بنانا چاہتے ہو؛ تو میری اپنے دلوں میں اور زبانوں پر حفاظت کرو اور کبھی اسے اپنے دلوں سے نکلنے مت دو اور جو اس کو مضبوطی اور پختگی دینے والے اعمال ہیں، ان کا پورا پورا اہتمام کرنے کی کوشش کرو اور کسی طرح ان میں تساہلی نہ کرو، اللہ تعالی تمہارا مددگار ہوگا اور ہر میدان میں تمہیں اچھی کامیابی ملے گی، بس شرط یہ ہے کہ تم کامل مسلمان ہوجاؤ، کامل مسلمان بن گئے؛ تو کامیابی تمہارا مقدر ہے، ان شاء اللہ آج میں اپنی اس تقدیم میں ایمان و عقیدہ سے متعلق اور اس پر ڈاکہ ڈالنے والے اسباب کےبارے میں اختصار کے ساتھ گفتگو کروں گا، تقدیم کے بعد طریقہ کار یہ ہوگا کہ پہلے حدیث کا عربی متن پھر اس کا ترجمہ ذکر کروں گا، اس کے بعد انتباہ کے تحت تبصرہ ہوگا اور کبھی کبھی انتباہ کے بعد نوٹ کے تحت کچھ ضروری باتیں بھی بتادی جائیں گی، حدیث کا اردو ترجمہ اور انتباہ کے تحت  تبصرہ کرنے میں ارشاد الساری، مرقاۃ المفاتیح، عمدۃ القاری اور فتح الباری وغیرہ سے مدد لی گئی ہے، اللہ تعالی ہمیں عقیدے کی حفاظت کرنے کی توفیق سے نوازے اور اس کی حفاظت میں معاون اعمال کی پابندی کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
علم دین اور عصری علوم سے جہالت
            دور حاضر میں تمام خرابیوں بالخصوص عقیدہ میں تباہی پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب جہالت ہے اور اس کا سب سے اہم سبب دین اور فرائض و واجباتِ دین کو پس پشت ڈال کر محض دنیا سے لگاؤ رکھنا ہے، طالبان علوم نبویہ کاعصری علوم سے دوری اور کالیج کے طلبہ کا علم دین اور دین و ایمان کے دائرہ میں رہ کر ماڈرن ایجوکیشن سے بے رغبتی ہے، علم دین سے عام طور پر لوگوں کی اس حد تک بے رغبتی بڑھ گئی ہےکہ  انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اصول دین کیا ہیں، کونسا جملہ رب تعالی کے لیے استعمال کرنا چاہیے، کونسا جملہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بولا جانا چاہیے، ملائکہ، فرشتے اور جنات وغیرہ کے بارے میں کیسا عقیدہ رکھنا چاہیے اور ان کے علاوہ دیگر بنیادی چیزوں کی بھی انہیں خبر نہیں ہوتی؛ جس کی بنا پر وہ آج جانے انجانے میں کفر بکتے ہیں اور ایمان جیسی عظیم نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور بعض حضرات کے ایمان کی غیرت اس حد تک مرچکی ہوتی ہے  کہ وہ غیر مسلموں کے رسم و رواج کے مطابق شادی کرتے ہیں، مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں، مورتی کے سامنے دیا جلاتے ہیں اور تحفہ میں غیر مسلموں کو مورتی دیتے ہیں اور تقریبا عام مسلمانوں کی یہ عام وبا ہے کہ ان کے کفریہ میلے ٹھیلے میں جاکر، ان کی شان و شوکت بڑھاتے ہیں۔
دور حاضر  میں مختلف دنیوی میدانوں میں کس قدر ترقی حاصل کی جاچکی ہے، یہ ہر کس و ناکس پر عیاں ہے، اس کے باوجود آج طالبان علوم نبویہ کے لیے عصری علوم و اسبابِ دنیا کو اَچھوت سمجھا جاتا ہے حالاں کہ اگر دیکھا جائے؛ تو صحیح معنوں میں عصری علوم اور اسباب دنیا کا برمحل استعمال یہی علم دین سے مزین لوگ ہی کرنے والے ہیں، اس کے باوجود دور حاضر میں ان علوم و اسباب سے دور و نفور اور ان کے لیے ان علوم کا خاطر خواہ انتظام نہ کرنا قابل صد افسوس ناک ہے، جس کا برا اثر پورے معاشرہ پر واضح طور سے نظر آرہا ہے، آج بھی اگر ہم اپنے مدارس کے نظام میں تھوڑا لچک پیدا کرلیں؛ تو ان علوم و اسباب کا بر محل استعمال کرکے بہت ساری کھوئی ہوئی چیزیں حاصل کی جاسکتی ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ اس دنیا کے ہر میدان میں خلافت کا حق انبیا و رسولان عظام علیہم الصلاۃ و السلام نے ہی ادا کیا ہے؛ تو آج ان کے نائبین ہی دینی و عصری علوم سے مزین ہوکر اور اسبابِ دنیا کو بجا طور پر استعمال کرکے، ان کی نیابت کا حق ادا کرنے والے ہیں، دوسرا کوئی نہیں؛ اس لیے سب نہیں تو کم از کم کثیر تعداد میں اتنے طالبان علوم نبویہ کا پایا جانا ضروری ہے جو دین کے ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت حاصل کریں اور  ہر میدان میں اسبابِ دنیا کا صحیح استعمال کرکے ان کے استعمال کا حق ادا کریں اور بقدر حاجت ہر طالب علم عصری علوم ضروری حاصل کرے، نیز جیسے طالبان علوم نبویہ عصری علوم سے غفلت برتتے ہیں، اسی طرح آج عصری علوم کے طلبہ، دینی علوم سے غفلت کرتے ہیں،عموما ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو عقیدہ و ایمان سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، وہ دین و ایمان کو پس پشت ڈال کر صرف آگے بڑھنا چاہتے ہیں اوریوں  پوری دنیا کو اپنے قبضہ میں کرنے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر علم دین اور دین کے دائرہ میں رہ کر ماڈرن ایجوکیشن، جو اس مقصود تک پہونچانے والا ہے، اسی سے غافل ہیں، اپنی زبان سے رب کے ماننے اور اپنے مسلم ہونے کا دعوی تو کر رہے ہیں، مگر اسی زبان سے اپنے رب کی بارگاہ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے اعمال قبیحہ و رذیلہ سے کفریہ میلے ٹھیلے کی شان و شوکت بڑھاتے ہیں، اس کے باوجود یہ سوچ و فکر رکھتے ہیں کہ دنیا ان کے قبضہ میں آجائے، یہ صرف سوچ ہی تک محدود ہے، اگر یہی حالت رہی؛ تو یہ سوچ، سوچ ہی رہے گی، کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گی، اگر شرمندہ تعبیر کرنا ہے؛ تو پہلے اپنے عقیدہ و عمل کی حفاظت کرکے، اس رب کو راضی کرو جس نے تمہاری پوری دنیا کو پیدا کیا ہے، اگر وہ تم سے خوش ہوگیا، وہ تم سے راضی ہوگیا؛ تو سب کچھ تمہارے قدموں میں ڈال دے گا؛ اس لیے ابھی بھی وقت ہے، ہوش میں آؤ اور دین کو پس پشت نہیں بلکہ سب سے پہلے رکھو، کسی بھی صورت میں دین و ایمان کے متعلق کوئی  سمجھوتہ نہ کرو، کم سے کم بقدر ضرورت علم دین حاصل کرو اور ایمان و عقیدہ کے دائرہ میں رہ کر ہی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرو، بولنا ہے تو ناپ تول کر بولو، کوئی کام کرنا ہے؛ تو میزان شریعت میں اسے وزن کرلو، پھر وہ کام کرو، ان شاء اللہ یوں وقت بدلے گا اور اللہ تعالی ہمیں اپنی رحمتوں کے سایہ میں رکھ کر دنیا و آخرت یا صرف آخرت، جہاں ایک مؤمن کا اصلی گھر ،جنت ہے، اس میں ان شاء اللہ ضرور بلند مرتبہ عطا فرمائے گا۔
                ذرا سوچو، اللہ تعالی نے نزول کے اعتبار سے سب سے پہلی آیت میں تعلیم کی طرف توجہ دلائی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ([1])
                ترجمہ: ((پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا)) (کنز الإیمان)
                تھوڑا غور کرو، دوسری جگہ رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ([2])
                ترجمہ: ((اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا، درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے)) (کنز الإیمان)
                نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اس حدیث پاک میں قوم مسلم کو کیا بتانے کی کوشش کی ہے، ذرا سرجوڑ کر دیکھیں اور سوچیں تو صحیح، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
                                                أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَهُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَهُودَ، قَالَ: ((إِنِّي وَاللَّهِ مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابٍ)) قَالَ: فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُهُ لَهُ، قَالَ: فَلَمَّا تَعَلَّمْتُهُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ إِلَيْهِمْ، وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ-([3])
                ترجمہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا کہ میں یہود کی کتاب کے کچھ کلمات سیکھ لوں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((بے شک خدا کی قسم میں اپنے خط پر یہود کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں)) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے سریانی کتابت سیکھ لی، مزید فرماتے ہیں: جب میں نے سریانی کتابت سیکھ لی؛ تو جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہود کو خط لکھنا چاہتے، میں ان کو لکھ دیتا اور جب وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خط لکھتے؛ تو میں اسے حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو پڑھ کر سنادیتا۔
                حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان عالی شان پر بھی تھوڑا غور کریں، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
                                                ((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِهِ كَمُقَلِّدِ الْخَنَازِيرِ الْجَوْهَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّهَبَ)) ([4])
                ترجمہ: ((ہر مسلمان مردو عورت پر بقدر ضرورت علم دین حاصل کرنا فرض ہے اور نا اہل کو علم سکھانے والا خنازیر کو جوہر، موتی اور سونا پہنانے والے کی طرح ہے))
ترک فرائض و واجبات، ایمان کی کمزوری
            قوم مسلم کے لیے جس طرح ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرنا ضروری ہے بالکل اسی طرح اس قوم کو ایمان و عقیدہ کے لیے معاون ثابت ہونے والی اور اس کو مضبوط و پختہ کرنے والی چیزیں جیسے فرائض و واجبات وغیرہ کی بھی حفاظت کرنا از حد ضروری ہے، اگر قوم مسلم ان فرائض و واجبات کی طرف پوری تَگ و دَو کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتی ہے؛ تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے اور اس کا کھلا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کے بارے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتی ہے اور نہ ہی اسے ایمان و عقیدہ کے متعلق کوئی فکر ہے؛ کیوں کہ اگر اس قوم کو اپنے ایمان و عقیدہ کے بارے میں کما حقہ فکر ہوتی؛ تو یہ ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرنے والی ہر چیز کی طرف پوری توجہ دیتی اور اس کو پوری کوشش کے ساتھ زیر عمل لاتی، مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسا نہیں ہے اور جب ایسا نہیں ہے؛ تو یہ قوم اپنے عقیدہ و ایمان کے بارے میں سنجیدہ بھی نہیں ہے اور یہ عدم سنجیدگی اور اس کی جانب سے فرائض و واجبات کی طرف سے اس قدر لاپرواہی، اس کے ایمان کی کمزوری ہے، جو اسے کفر سے قریب کردیتی ہے اور جو کفر سے قریب ہوتا ہے بعید نہیں کہ وہ کفر میں بھی اوندھے منھ گرجائے اور اسے اس رذالت میں گرنے کا احساس تک نہ ہو۔
                ذرا اللہ تعالی کے اس ارشاد میں غور کریں، فرماتا ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ أَسْفَلَ سٰفِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ([5])
                ترجمہ: ((بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا، پھر اسے ہر نیچی سے نیچی سی حالت کی طرف پھیر دیا، مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ انہیں بے حد ثواب ہے)) (کنز الإیمان)
                تھوڑا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں سر جوڑکر سوچیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ - أَوِ الشِّرْكِ - تَرْكُ الصَّلَاةِ)) ([6])
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((بندہ اور کفر یا شرک کے درمیان فاصلہ کم کرنے والی عبادت، نماز کو چھوڑنا ہے))
ذرا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کی طرف گہری توجہ دیں، حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ المِسْكِ وَكِيرِ الحَدَّادِ، لاَ يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ المِسْكِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ، أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ، أَوْ ثَوْبَكَ، أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً)) ([7])
((اچھے و برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے، مشک والا تمہیں نفع سے دور نہیں رکھے گا، یا تو تم اس سے مشک خرید لوگے یا کم از کم تمہیں اس کی خوشبو حاصل ہوگی، اور بھٹی پھونکنے والا تمہارے بدن یا کپڑے کو جلادے گا یا پھر تم اس کی بری بو محسوس کروگے))
گمراہ فرقے اور قوم مسلم
            صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے لے کر آج تک اسلام کے ماننے والوں میں سے ہی اسلام مخالف فرقے جنم لیتے رہے اور شاید قیامت تک جنم لیتے رہیں گے، مگر جس طرح ماضی میں سرخیل علماے کرام کے ذریعہ ان کی سرکوبی کی گئی، اسی طرح ان شاء اللہ تاقیامت، اللہ تعالی ایسے لوگوں کو پیدا فرماتا رہے گا، جو ان کی سرکوبی  کے لیے کافی ہوں گے، ماضی قریب میں جس فرقے نے سب سے زیادہ قومِ مسلم کے درمیان شدید تفرقہ پھیلایا ہے، وہ ابن عبد الوہاب اور اس کے ماننے والوں کا فرقہ ہے، اس فرقہ کی وجہ سے خلافت عثمانیہ اپنے آخری انجام کو پہونچی، اس فرقہ کی وجہ سے ماں، باپ، اپنے بیٹے و بیٹی سے جدا ہوگئے، بھائی، بہن، اپنے ہی بھائی و بہن کے دشمن ہوگئے اور ایک مسلم اپنے ہی رشتہ دار کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرنے لگا؛ جس کی بنیاد پر عرب میں اہل عرب، دیگر ممالک میں علماے کرام اور بالخصوص ہندوستان میں سیف اللہ المسلول علامہ فضل رسول قادری بدایونی اور اعلی حضرت مجدد دین و ملت علیہم الرحمۃ و الرضوان اور آپ کے زمانہ کے دیگر علماے اجلہ نے اہل سنت و جماعت کو اس فرقہ سے بچانے کی بھرپور کوشش فرمائی اور الحمد للہ یہ حضرات خلوص و للہیت، زمینی کام اور دن و رات کی سعی مسعود کی وجہ سے اپنے اس اہم کام میں کافی حد تک کامیاب بھی نظر آئے، مگر جب ان حضرات کا زمانہ گزر گیا؛ تو عموما بعد کے علما کے درمیان سے خلوص و للہیت رخصت ہوتی نظر آئی، عموما زمینی کام کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں رہی، صرف جلسہ و جلوس اور نعرہ کی گونج کے درمیان سمٹ کر رہ گئے، اپنوں کے درمیان تشدد کی بہتات نظر آنے لگی اور دین کے نام پر تقریبا ہر ایک کو صرف اپنے پیٹ کی فکر رہ گئی، اب اس کے لیے چاہے کسی اپنے کی پگڑی اچھالنی پڑے یا پھر قوم مسلم کو تباہی کے دہانے پر لے جانا پڑے، ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بس اپنا کام بنتا، بھاڑ میں جائے جنتا، اس لاپرواہی اور زمینی کام نہ کرنے وغیرہ کی وجہ سے نتیجہ سامنے آیا، بہت سارے لوگ قرآن و حدیث کے خلاف جاکر دھیرے دھیرے، اس گمراہ فرقہ سے دور رہنے کے بجائے، ان سے دوسستی کا ہاتھ بڑھانے لگے، ان سے رشتہ ازدواج قائم کرنے لگے، ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بننے لگے اور کچھ لوگ ان سے الفت و محبت کا بھی دم بھرنے لگے، جس کے نتیجہ میں اہل سنت و جماعت کے بہت سارے لوگ بالخصوص عوام، ان کے دام فریب میں پھنس کر گمراہیت و ضلالت کے دلدل میں پھنستے چلے گئے اور نوبت ایں جارسید کہ جس گاؤں یا شہر میں پوری قوم مسلم سنی تھی، وہاں عموما آج اکثریت یا آدھے لوگ وہابیت کی زد میں آگئے بلکہ بہت سارے گاؤں اور شہر، پورے طور سے وہابیت کے دام فریب کے شکار ہوگئے، شاید باید ہی کوئی ایسا گاؤں یا شہر ہے جہاں سنیت نے اپنے قدم جمایا ہے اور وہاں اپنی حقانیت کے پَر پھیلائے ہیں؛ اس لیے اگر اب بھی علماے کرام اپنی ذمہ داری کما حقہ ادا نہیں کیے اور اس اہم ذمہ داری کے ادا کرکنے والے کا ساتھ نہیں دئے؛ تو وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا جس دن اپنا خود کا گھر اس فرقہ کے لپیٹ میں ہوگا؛ لہذا ابھی کسی قدر غنیمت ہے،  علماے حق کو چاہیے کہ اَنا، میَں اور دین کے نام پر خالص اپنی منفعت کو پس پشت ڈال کر، اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے، خلوص و للہیت کے ساتھ، گَوَیّوں، جاہل مقرروں اور پیشہ ور خطیبوں سے جلسہ و جلوس کودور رکھتے ہوئے، بقدر  ضرورت جلسہ و جلوس وغیرہ کے ساتھ ساتھ ایک ساتھ مل کر اور ایک ساتھ نہ سہی تو فرداً فرداً ہی زمینی کام کی طرف توجہ دیں، ان شاء اللہ نتیجہ بہتر بلکہ بہت بہتر آئے گا۔
                علما و ذمہ داران ذرا اس حدیث کو دل سے پڑھنے کی کوشش کرکے اپنی ذمہ داریوں کا ناقدانہ جائزہ لیں، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
((کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ))([8])
ترجمہ: ((تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے اہل کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کے اہل کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، غلام اپنے مالک کےمال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، خبردار تم میں ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا))
وہابیت کی علامات احادیث کی روشنی میں
            مولاے کل، سید کونین، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پوری انسانیت کو راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے اور اس راہ راست میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز سے آگاہ کرنے آئے تھے، انہیں رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ وہابیت خارجیت زمانہ بھی ہے، جس کے متعلق حضور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی متنبہ فرمایا دیا تھا کہ یہ فرقہ جانبِ مشرق، نجد سے پیدا ہوگا:
                حدیث پاک میں ہے: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ المَشْرِقَ يَقُولُ: ((أَلاَ إِنَّ الفِتْنَةَ هَا هُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ))([9])
                ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس حال میں فرماتے ہوئے سنا کہ وہ مشرق کی جانب چہرا کیے ہوئے تھے:
                ((خبر دار بے شک فتنہ یہاں ہے، یہاں سے شیطان کی سینگ نکلے گی))
                دوسری حدیث مبارکہ میں ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ المَشْرِقِ، وَيَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لاَ يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ)) قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: ((سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ)) أَوْ قَالَ: ((التَّسْبِيدُ))([10])
ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی  اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے، قرآن پاک پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا، یہ لوگ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، پھر دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ خود تیر قَوس کی طرف لوٹ آئے)) عرض کیا گیا: ان کی علامت کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((ان  کی علامت بال منڈانا ہے)) یا فرمایا: ((بال بالکل جڑ سے اکھیڑنا ہے))
امام علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أي من جهة مشرق المدينة كنجد وما بعده وهم الخوارج ومن معتقدهم تكفير عثمان -رضي الله عنه- وأنه قتل بحق ولم يزالوا مع عليّ حتى وقع التحكيم بصفين فأنكروا التحكيم وخرجوا على عليّ وكفّروه‘‘۔([11])
ترجمہ: ’’یعنی مدینہ شریف کے مشرق کی جانب سے نکلیں گے، جیسے نجد اور اس کے بعد والے علاقے، اور یہ لوگ خوارج ہیں، ان کے عقائد میں سے ایک امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تکفیر ہے اور یہ کہ ان کا قتل کیا جانا حق بجانب ہے، یہ لوگ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، یہاں تک کہ مقام صفین میں تحکیم کا مسئلہ واقع ہوا، ان لوگوں نے تحکیم کا انکار کرکے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا اور ان کی تکفیر کی‘‘۔
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اہل نجد کے بارے میں دعا کرنے کے لیے کہا؛ تو آپ نے دعا کرنے کے بجائے وہاں کے فتنوں سے متنبہ کیا، پڑھیں اور اپنا رشتہ قائم کرنے میں پورے چاک و چوبند رہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْھُمَا، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا))  قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ: ((اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا))  قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: ((هُنَاكَ الزَّلاَزِلُ وَالفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ))([12])
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: ((اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا کر)) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! اور ہمارے نجد میں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت عطا کر، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما)) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور ہمارے نجد میں؟ راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیسری مرتبہ میں فرمایا: ((وہاں زلزلے اور فتنے ہیں، وہیں شیطان کی سینگ طلوع ہوگی))
احادیث اور صحابہ کرام کے بعض اقوال کے دائرہ میں رہ کر، ذیل میں اس فرقہ وہابیہ ضالہ خوارج کی مزید بعض علامات و نشانیاں بیان کی جاتی ہیں، جو یقینا حتما، اس فرقہ نامرضیہ پر صادق آتی ہیں، قارئین اسے ملاحظہ فرمائیں اور صدق دل سے اس فرقہ باطلہ کا جائزہ لیں، ان شاء اللہ حق واضح ہوجائے گا اور اس فرقہ فاسدہ سے کبھی ہم رشتہ ازدواج قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی ایسا تعلق رکھیں گے؛ جس کی وجہ سے ہمارے  دین و سنیت پر کوئی ضرب آئے، ملاحظہ فرمائیں:
                عَنْ عَلِيّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((سَيَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، أَحْدَاثُ الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ، كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ))([13])
                ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((زمانہ کے آخر میں ایک قوم نکلے گی، وہ کم سن لڑکے، دماغی طور پر نہ پختہ ہوں گے، وہ بظاہر سب سے بہترین قول، قرآن کی بات کریں گے،مگر ایمان ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، جہاں تمہاری ان سے ملاقات ہو، وہیں انہیں قتل کردو؛ کیوں کہ ان کے قتل کرنے کی وجہ سے قیامت کے دن قتل کرنے والے کے لیے اجر و ثواب ہے))
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اپنی طویل حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقوی و امانت پر سوالیہ نشان قائم کرنے والے کے بارے میں بعض اوصاف بیان کرتے ہیں :
((كث اللحية، محلوق الرأس، مشمر الإزار))
نیز حضور سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا:
((إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ۔۔۔الحدیث))([14])
ترجمہ: ((گھنی داڑھی، سرمنڈے، بہت اونچا تہ بند باندھنے والے۔۔۔اس شخص کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جس کی زبان کثرت تلاوت سے تر ہوگی، اچھی آواز والے ہوں گے مگر یہ تلاوت  اس کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی))
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ اپنی طویل حدیث میں کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ، لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔۔۔الحدیث))([15])
ترجمہ: ((اس قوم کی علامت بال منڈانا ہے، یہ لوگ نکلتے رہیں گے، یہاں تک ان کا آخر، مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا۔۔۔الحدیث))
امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ۔۔۔الحدیث))([16])
                ترجمہ: ((میری امت سے ایک قوم نکلے گی، وہ قرآن پڑھے گی، تمہاری قراءت، ان کی قراءت، تمہاری نماز، ان کی نماز، تمہارے روزے، ان کے روزے کے بالمقابل کچھ بھی نہیں ہوں گے، قرآن پڑھیں گے اور گمان کریں گے کہ وہ ان کے موافق ہے حالاں کہ وہ ان کے خلاف ہوگا، ان کی نماز، ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گی۔۔۔الحدیث))
                عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ۔۔۔۔۔هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ۔۔۔۔يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْءٍ۔۔۔الحدیث))([17])
                ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
                ((عن قریب میری امت میں اختلاف و افتراق ہوگا، ایک قوم ایسی ہوگی جس کا قول اچھا مگر اخلاق کے اعتبار سے بری ہوگی۔۔۔وہ مخلوق و اخلاق میں سب سے بری ہوگی۔۔۔یہ قوم کتاب اللہ کی طرف بلائے گی مگر خود اس کا، اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا))
                حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جب ذو الخوصیرۃ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا؛ تو حضور صلی  اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
                ((دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلاَتَهُ مَعَ صَلاَتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ ۔۔۔۔۔ وَيَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ))([18])
                ترجمہ: ((اسے چھوڑ دو؛ کیوں کہ اس کے کچھ ماننے والے ایسے ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز اور اپنے روزے کو ان کے روزوں کے بالمقابل بہت کم سمجھو گے۔۔۔یہ قوم لوگوں کے اختلاف کے وقت نکلے گی))
                حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے اپنی طویل حدیث میں ذکر کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امانت و تقوی پر چیں بجبیں ہونے والے کے بارے میں آپ نے فرمایا:
                                                ((يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ))([19])
                ترجمہ: ((اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جو مسلمانوں کو قتل کرے گی اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کو چھوڑ دے گی، اگر میں ان کا زمانہ پاؤں؛ تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کروں))
                حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس خوارج کا ذکر ہوا؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا:
        ’’يؤمنون بمحكمه، ويهلكون عند متشابهه! وقرأ ابن عباس:﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ﴾ الآية‘‘.([20])
                ترجمہ: ’’قر آن پاک کے محکم پر ایمان لاتے ہیں اور ا س کے متشابہ میں ہلاک ہوتے ہیں، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرّٰسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ ([21]) ترجمہ: ((اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے کہتے ہیں، ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے))‘‘۔ (کنز الإیمان)
                حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سب سے بری مخلوق قرار دیا، ملاحظہ فرمائیں:
        عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا كَيْفَ كَانَ رَأْيُ بن عُمَرَ فِي الْحَرُورِيَّةِ، قَالَ:
’’كَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتِ الْكُفَّارِ فَجَعَلُوهَا فِي الْمُؤْمِنِينَ‘‘۔([22])
                ترجمہ: حضرت بکیر بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حَروریہ کے بارے میں کیسی رائے رکھتے تھے؛ تو آپ نے فرمایا:
                ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما انہیں مخلوق میں سب سے برا سمجھتے تھے؛ کیوں کہ انہوں نے کفار کے متعلق آیات کو مؤمنین پر چسپا کرنے کی کوشش کی‘‘۔
ان احادیث طیبہ اور آثار مبارکہ کی روشنی میں اگر وہابیت اور اسی سے پیدا ہونے والی دیوبندیت وغیرہ کا جائزہ لیا جائے؛ تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مندرجہ بالا ساری نشانیاں، ان کے اندر پائی جاتی ہیں، اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ علماے اہل سنت  ان کے درمیان تبلیغ کرنے کی کوشش کرتے اور اہل سنت و جماعت کے عام لوگ، ان سے دور رہتے، عوام ان سے شادی نہ کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے نہیں، ان کے ساتھ کھاتے پیتے نہیں اور نہ ان کے ساتھ الفت و محبت کا دم  بھرتے:
ذرا اللہ تعالی کے اس فرمان کو تو دیکھو، فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ([23])
ترجمہ: ((اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں پھر مدد نہیں پاؤگے)) (کنز الإیمان)
تھوڑا اللہ تعالی کے اس حکم کو نظر عبرت سے تو پڑھو: ﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آیٰتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِينَ([24])
ترجمہ: ((اور اے سننے والے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منھ پھیر لے جب تک اور بات میں نہ پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ)) (کنز الإیمان)
دنیا سے تھوڑا الگ ہوکر اور دل و دماغ کو حاضر کرکے اس حدیث کو پڑھو، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم ﷺ نے حکم فرمایا: ((إِنْ مَرِضُوْا فَلَا تَعُوْدُوْھُمْ وَ إِنْ مَا تُوْا فَلَا تَشْھَدُوْ ھُمْ وَ إِنْ لَقِیْتُمُوْھُمْ فَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَیْھِمْ وَ لَا تُجَالِسُوْھُمْ وَ لَا تُشَارِبُوْ ھُمْ وَ لَا تُوَاکِلُوْھُمْ وَ لَا تُنَاکِحُوْھُمْ وَ لَا تُصَلُّوْا عَلَیْھِمْ وَ لَا تُصَلُّوْا مَعَھُمْ))([25])
ترجمہ: ((بدمذہب اگر بیمار پڑیں؛ تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائیں؛ تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو، ان سے ملاقات ہو؛ تو انہیں سلام نہ کرو، ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو اور ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو))
مگر اہل سنت و جماعت کے بہت سارے  لوگوں نے ان تمام آیات و احادیث کی  ساری حدیں پھلانگ کر ان کے ساتھ ہر رشتہ قائم کیا بلکہ بہت سارے نا عاقبت اندیش لوگ، ان کے عقائد فاسدہ اور افکار باطلہ کے ہم نوا ہوگئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہابیت و دیوبندیت، عوام اہل سنت  کے درمیان بہت ساری جگہوں پر پنپتی ہوئی نظر آئی اور ان کے درمیان اپنی ساخت مضبوط سے مضبوط تر اور پختہ کرتی ہوئی دکھائی دی اور ہم عموما تبلیغی اور زمینی کام کو بالائے طاق رکھ کر صرف مدارس، امامت، تقریر اور پیری مریدی وغیرہ پر تکیہ کیے آرام سے چین کی نیند لیتے رہے اور اگر کوئی اس طرح کے اہم کام کی طرف قدم بڑھایا؛ تو ہم نے اس کی ٹانگ کھینچنے یا اسے بالکل نظر انداز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ کیوں کہ عموما ہمیں کام والے نیک آدمی سے محبت نہیں بلکہ ایسے شخص سے عموما محبت ہے جو ایک تعویذ کے ذریعہ ہماری دنیا بنانے کا دعوی کرے، ایک دعا کے ذریعہ جنت الفردوس پہونچانے کا حسین منظر دکھائے، ایک کھوکھلے ڈائلاگ اور نعرہ کے ذریعہ سارے مجمع کو اپنا ہمنوا بنانے کی بےجا کوشش کرے اور ہر برے و اچھے عمل پر گُن گاتا رہے، اے سنی مسلمانو! اگر یہ احادیث اور آیات بھی تمہیں وہابیت و دیوبندیت سے دور نہ رکھ سکیں اور علما اب بھی اپنے بنیادی تبلیغی کام میں مناسب تیزی نہیں لائے اور عوام نے اپنے ترجیحات کا ذائقہ نہیں بدلا؛ تو یہ سمجھ لو بلکہ یقین کرلو کہ تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کو دعوت دی ہے، جس کا علاج کوئی نہیں کرسکتا جب تک کہ تم خود اپنا علاج کرنے کی کوشش نہ کرو۔
اگر آپ کے اندر تھوڑی سی بھی ایمان کی کَسَک باقی ہے اور قوم مسلم کے لیے تھوڑا سا بھی درد، نہاں خانہ میں پایا جاتا ہے؛ تو مندرجہ ذیل آیات و احادیث ملاحظہ کرکے اپنے ایمان و عمل کو جِلا بخشنے کی سعی مسعود کرو اور اپنے اندازِ زندگی کو بدلنے کی پوری کوشش کرو:
ایمان جیسی لازوال نعمت سے سرفراز ہونے کے بعد ایک مسلم کے لیے ایمان و عمل پر ہر حال میں استقامت، دوام اور ہمیشگی  ضروری ہے:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ([26])
ترجمہ: ((تو قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے اور اے لوگو! سرکشی نہ کرو، بے شک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے)) (کنز الإیمان)
ورنہ اگر ایمان میں کوئی کھوٹ پیدا ہوا؛ تو دنیا کی پُر اطمینان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور دنیا کی نہ سہی تو آخرت کی سب سے قیمتی زندگی ضرور تاراج ہوجائے گی:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيٰتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ([27])
ترجمہ: ((اور اے محبوب! اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے ہم تو یوں ہی ہنسی کھیل میں تھے، تم فرماؤ، کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو؟! بہانے نہ بناؤ، تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر)) (کنز الإیمان)
اور اگر ایمان میں نہیں مگر بنیادی فرائض و واجبات کی ادائےگی میں انتہائی درجہ کی بے اعتنائی اور لاپرواہی پائی جاتی ہے؛ تو اگرچہ آخر کار ایک مؤمن کا ٹھکانہ جنت ہے مگر اس سے پہلے ہماری  لاپرواہی کے بھیانک نتائج اپنے پاؤں پسارے ہمارا انتظار کر رہے ہیں:
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ([28])
ترجمہ: ((تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں)) (کنز الإیمان)
حضرت نوفَل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَكَاَنّما وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ))([29])
ترجمہ: ((جس نے نماز چھوڑی گویا کہ اس کے اہل و مال ہلاک کردئے گئے))
اگر آج بھی علما، سلف صالحین کی طرح اپنی ذمہ داری پوری کریں، مسلمان ایمان کے منافی کام نہ کریں، فرقہ باطلہ سے دوری بنائے رہیں اور کم از کم بنیادی اعمال میں تساہلی نہ کریں؛ تو اے مسلمانو! یاد رکھواللہ جل شانہ نے خلافت کا سہرا تمہارے ہی سر باندھ رکھا ہے، بس شرط یہ ہے کہ تم کامل مؤمن بن جاؤ:
دیکھو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفٰسِقُونَ([30])
ترجمہ: ((اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا، جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لیے جمادے گا، ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا، میری عبادت کریں، میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں)) (کنز الإیمان)
یوں رب تعالی تمہارے برے دن، اچھے دن میں بدل دے گا؛ کیوں کہ تمہارے رب تعالی کی عادت قدیمہ ہے کہ جو قوم خلوص کے ساتھ اپنے آپ کو اچھائی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے لیے سچی قربانیاں دیتی ہے؛ تو وہ رب تعالی اس قوم کی حالت بہت بہتر بنادیتا ہے اور اسی کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ و ڈور تھمادیتا ہے:
رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِينَ([31])
ترجمہ: ((اگر تمہیں کوئی تکلیف پہونچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں، اور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لیے باریاں رکھی ہیں اور اس لیے کہ اللہ پہچان کراوے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو)) (کنز الإیمان)
اللہ تعالی مزید ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ([32])
ترجمہ: ((بے شک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں)) (کنز الإیمان)
اور اس طرح اللہ جل و علا ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے والے، ایمان کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے فرائض و واجبات کی قدر کرنے والے اور عملی کردار پیش کرنے والے لوگوں کو دنیا و آخرت میں ضرور بلندیاں عطا فرماتا ہے:
                اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ([33])
                ترجمہ: ((اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ، تمہیں غالب آؤگے اگر ایمان رکھتے ہو))
دوسری جگہ رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا([34])
ترجمہ: ((بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے)) (کنز الإیمان)
اللہ تعالی علما، خواص و  عوام، سبھی لوگوں کو خلوص و للہیت کے ساتھ ہر میدان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقہ طفیل اپنی کامل ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ہدیہ تشکر: میں اپنے تمام مخلصین حضرات بالخصوص مشفق و مکرم فخر القراء حضرت مولانا قاری خلق اللہ خلیق فیضیصاحب قبلہ دام ظلہ، سابق استاذ دار العلوم فیض الرسول، براؤں شریف، سدھارتھ نگر کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے اپنی دعاؤں، نیک مشوروں سے نوازا اور اس کتاب پر اپنی تقریظ جمیل لکھ کر راقم الحروف کی حوصلہ افزائی فرمائی، نیز راقم الحروف اس موقع پر اپنے تمام معاونین بالخصوص عالی جناب محمد اسرائیل، تلیا گڑھ، گوشائیں گنج، فیض آباد، عالی جناب حاجی محمد مقبول احمد، مظفر پور، کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا  ہے، جنہوں نے اپنا قیمتی مالی تعاون پیش کرکے اس کتاب کی اشاعت میں آسانی کی سبیل پیدا کی، اللہ تعالی ان سب کی رزق و عمر میں خوب خوب برکتیں عطا فرمائے اور دیگر مالدار حضرات کو بھی اس طرح کے  اہم و پائدار کاموں میں اپنا قیمتی تعاون پیش کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین۔
                اللہ تعالی راقم الحروف کی اس کتاب  کو قبول فرمائے، آخرت میں ذریعہ نجات بنائے،  تمام اساتذہ کرام، اہل خانہ، بھائی، بہن، معاونین، مخلصین، اور دعا گو وغیرہ حضرات کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے اور بالخصوص والدہ محترمہ کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے اور ہر حال میں خلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار  احمد امجدی ازہری غفرلہ


([1]). (العلق:۹۶، آیت:۱۵)
([2]).(المجادلۃ:۵۸، آیت:۱۱)
([3]).(سنن الترمذی، باب ماجاء فی تعلیم السریانیۃ، ج۵ص۶۷، رقم:۲۷۱۵، ط: مصطفی البابی الحلبی، مصر)
([4]).(سنن ابن ماجہ، باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم، ج۱ص۸۱، رقم: ۲۲۴، ط: دار إحیاء الکتب العربیۃ)
([5]).(التین:۹۵، آیت:۴۶)
([6]).(مسند أحمد، ج۲۳ص۲۲۸، رقم:۱۴۹۷۹، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
([7]).(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب فی العطار و بیع المسک، ج۳ص۶۳، رقم:۲۱۰۱، ط: دار طوق النجاۃ)
([8]).(صحیح البخاری،کتاب النکاح، بَابُ {قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا}، ج۷ص۲۶، رقم:۵۱۸۸، ط: دار طوق النجاۃ)
([9]).(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ج۹ص۵۳، رقم:۷۰۹۳، ط:دار طوق النجاۃ)
([10]).(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب قراءۃ الفاجر و المنافق، ج۹ص۱۶۲، رقم:۷۵۶۲، ط: دار طوق النجاۃ)
([11]).(إرشاد الساری، امام قسطلانی، ج۱۰ص۴۷۹، ط:المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
([12]).(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ج۹ص۵۴، رقم:۷۰۹۴، ط: دار طوق النجاۃ)
([13]).(صحیح البخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب قتل الخوارج  و الملحدین بع إقامۃ  الحجۃ علیھم، ج۹ص۱۶، رقم: ۶۹۳۰،ط:دار طوق النجاۃ)
([14]).(صحیح البخاری، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی اليمن قبل حجۃ الوداع،ج۵ص۱۶۳، رقم:۴۳۵۱، ط: دار طوق النجاۃ)
([15]).(سنن النسائی، باب من شھر سیفہ ثم وضعہ فی الناس، ج۷ص۱۱۹، رقم:۴۱۰۳، ط:مکتب المطبوعات الإسلامیۃ، بیروت)
([16]).(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، ج۲ص۷۴۸، رقم:۱۰۶۶، ط:دار إحیاء التراث العربی، بیروت)
([17]).(سنن أبی داؤد،باب فی قتل الخوارج، ج۴ص۲۴۳، رقم:۴۷۶۵، ط:المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
([18]).(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام، ج۴ص۲۰۰، رقم:۳۶۱۰، ط:دار طوق النجاۃ)
([19]).(صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول الله عز وجل: {وأما عاد فأهلكوا بريح صرصر} [الحاقۃ: ۶]: شديدة، {عاتية} [الحاقۃ: ۶]، ج۴ص۱۳۷، رقم:۳۳۴۴، ط:دار طوق النجاۃ)
([20]).(تفسیر الطبری، ج۶ص۱۹۸، رقم:۶۶۲۲، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
([21]).(آل عمران:۳، آیت:۷)
([22]).(فتح الباری شرح صحیح البخاری، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، باب قتل الخوارج و الملحدین بعد إقامۃ الحجۃ علیہم،ج۱۲ص۲۸۶، ط:دار المعرفۃ، بیروت)
([23]).(ھود:۱۱، آیت:۱۱۳)
([24]).(الأنعام:۶، آیت:۶۸)
([25]).(مقدمۃ صحیح مسلم، باب فی الضعفاء والکذابین، ج۱ص۱۲، رقم:۷،ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، سنن أبی داود، کتاب السنۃ، باب فی القدر، ج۴ص۲۲۲، رقم:۴۶۹۱، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، سنن ابن ماجہ، باب فی القدر، ج۱ ص۳۵، رقم:۹۲، ط:دار إحیاء الکتب العربیۃ، البابی الحلبی، الضعفاء الکبیر،عقیلی، ج۱ص۳۶۰، رقم: ۳۱۸، ط: دار المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
([26]).(ھود:۱۱، آیت:۱۱۲)
([27]).(التوبۃ:۹، آیت:۶۵)
([28]).(الماعون:۱۰۷، آیت:۴۵)
([29]).(سنن أبی داود الطیالسی، ج۲ص۵۶۴، رقم: ۱۳۳۳، ط: دار ھجر، مصر)
([30]).(النور:۲۴، آیت:۵۵)
([31]).(آل عمران:۳، آیت:۱۴۰)
([32]).(الرعد:۱۳، آیت:۱۱)
([33]).(آل عمران:۳، آیت:۱۳۹)
([34]).(الکھف:۱۸، آیت:۱۰۷)

5 comments:

  1. Masha Allah subhnallah Allah aapke ilmo amal me mazeed taraqqi ataa farmaye....Aameen

    ReplyDelete
  2. ما شاء اللہ کافی عمدہ تحریر ہے

    ReplyDelete
  3. ماشاء اللہ اللہ اور برکت دے.

    ReplyDelete
  4. CASINO STOCK HIRING - JTGHub
    CASINO STOCK HIRING is a 3-minute drive from SBC's 제주 출장샵 Main Street, and runs on a budget and carries the following features: Sports 남원 출장마사지 bar (3 in a row) · 경상남도 출장안마 Casino 충주 출장안마 shuttle · Resort 구리 출장마사지 bar · Free shuttle.

    ReplyDelete

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts