بخدمت نائب فقیہ ملت حضرت مفتی ابرار احمد امجدی صاحب قبلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں مفتیان دین وملت اس
مسئلہ میں کہ آپ کے وہاں سے شائع فتاوی مرکز تربیت افتا میں ’’گل منجن ‘‘کے استعمال
کے تعلق سے ایک فتوی لکھا گیا ہے جس میں عذرکی وجہ سے حکم میں کچھ تخفیف کی گئی ہے
،اس کے خلاف ایک صاحب نے فتوی لکھ کر واٹس ایپ اور نیٹ پر ڈال دیا ہے جو بہت وائرل
ہورہا ہے کہ مرکز تربیت افتا کافتوی صحیح نہیں۔وہ فتوی یہ ہے۔
(تربیت افتاء میں گل منجن کی اجازت کیوں؟)
مسئلہ: مولانا تاج محمد واحدی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکا
تہ بعد سلام عرض ہے کہ مرکز تربیت افتاء جلد
اول صفحہ ۴۷۰؍میں بسبب عذرگل منجن
کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور علمائے کرام اسی کتاب کے حوالے سے فتوی دیتے ہیں مگر آپ کے فتوے میں مطلقا منع تحریر ہے
جبکہ تربیت افتاء میں مفتی نظام الدین صاحب قبلہ کی تصدیق موجود ہے؟ تو اس معاملات
میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا بسبب عذر کرسکتے
ہیں یا نہیں ؟ بینوا تو جرو ، المستفتی:- مولانا عبید الرضا رکن مسائل شرعیہ۔
وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
﷽
الجواب بعون المجیب الوھاب مرکز تربیت افتاء میں جوسوال ہے وہ یہ
ہے کہ زید جب تک گل منجن نہیں کرتا ہے اس کا پاخانہ نہیں ہوتا ہے اس بنا پر وہ رمضان
المبارک کےمہینے میں گل کرتا ہے تو کیا اس بنا پر روزے کی حالت میں گل کرنا جائز ہے
یا نہیں اور زید کے لئے کیا حکم ہے؟ تو اس کا جواب مولانامحمد وقار علی احسانی صاحب
نے یوں دیا کہ جب زید کو گل استعمال کئے بغیر پاخانہ نہیں ہوتا تو اس عذر کی وجہ سے
اس کے لئے حکم میںاس قدر تخفیف ہو گی کہ وہ گل پہلے ہتھیلی وغیرہ پر نکال کر پانی سے
بھگو وے پھر اسے احتیاط کے سا تھ دانتوں پر ملے اور جلد ہی کلی کرکے اچھی طرح اپنا
منھ صاف کرلے۔ پھر اس پر محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی نظام الدین رضوی
برکاتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ و شہزادہ فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمدابرار
احمد امجدی برکاتی صاحب قبلہ کی تصدیق موجود ہے یہ مگر میںیہ نہیں جانتا کہ یہ دونوں
بزرگ اس فتوے کو مکمل پڑھ اور سمجھ کرتصدیق کئے ہیں یایو نہی تصدیق کردئے۔ اسی طرح
ان حضرات کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا جو تربیت افتاء کے حوالے سے گل منجن کافتوی
دیتے ہیں کہ وہ عبارت کو سمجھتے بھی ہیں یا صرف عبارت نقل کردیتے ہیں۔ فقیر اس فتوی
پر متفق نہیں ہے کیونکہ میرے نزدیک پاخانہ نہ ہونا کوئی عذر نہیں شریعت مطہرہ نے طلوع
فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے منع کیا ہے نہ کہ پورا مہینہ تو جس کو بھی پاخانہ
نہ ہوتا ہو وہ سحری سے پہلے اپنی ضرورت پوری کرلے یو نہی بعد مغرب منجن کرکے حاجت پوری
کرلے کوئی ممانعت نہیں اب یہ کہنا کہ دن میں بغیر گل کے پاخانہ نہیں ہو تا ہم کہتے
ہیں کہ کیا یہ عذرہے ؟ نہیں ہوتا کوئی بات نہیں دن میں پاخانہ کرنا فرض و واجب تو ہےنہیں
اور نہ ہی روزے کے شرائط میں سے ہے کہ نہیں کیا تو روزہ جاتارہے گا یا مکروہ ہو جائے
گا، پھر جو صبح و شام پاخانہ کرلے تو دن میںکرنے کی حاجت ہی نہ ہوگی، اور اگردن میں
ضرورت محسوس ہو بھی ہو ئی اور نہ کیا تو مغرب تک نہ تو مرجا ئے گا اور نہ ہی بیمار
ہوجائےگا کہ اس کے لئے گل منجن کی اجازت دی جائے، بہت سے ایسے لوگ ہیںجو دوران سفر
یا کسی اور وجہ سے کئی کئی گھنٹے برداشت کرلیتے ہیںجب کہ انہیں بشدت پاخانہ کی حاجت
ہو تی ہے یہاں تو ہو ہی نہیں رہاہے پھر پریشان ہو نے کی کیا ضرورت جب لگے گا خود بخود
باہر ہوجائے خلاصہ کلام یہ ہے کہ روزے کی حالت میں گل منجن کرنا مطلقا منع ہےاور اس
سے روزہ جاتا رہے گا جیسا کہ علامہ بحر العلوم مفتی عبدالمنان صاحب علیہ الرحمہ تحریر
فرما تے ہیں تمباکو جسے کھینی کہاجاتا ہے منہ میں رکھنے کو روزہ توڑنے والا بتایا ہے
گل بھی اسی قسم کی ہے کھینی کی طرح اس کا بھی لوگ استعمال کرتے ہیں اس لئے اس کااستعمال
بھی مفسد صوم ہے۔ (فتاوی بحر العلوم جلد۲ ص ۲۷۶)
لہٰذا روزے کی حالت میں گل کرنا مفسد
صوم ہے کیونکہ یہ سب بہانا ہےصرف اور صرف عمل (نشہ) لگا رہتا ہے، اور اگر یونہی رخصت
دی گئی توکل وہ دن دور نہیں کہ سگریٹ پینے والا تمباکو کھانے والا بھی عذرپیش کرے گا
کہ ہمیں بھی پاخانہ نہیں ہوتا تو پھر یا تو انہیں بھی رخصت دینی ہو گی یا پھر روزہ
چھوڑنے کو کہا جائے گا۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ) واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ فقیر تاج محمد قادری واحدی
۲/ رمضان المبارک ۱۴۴۱ ھ۲۶/ اپریل ۲۰۲۰ بروز اتوار۔
دریافت طلب امر
یہ ہے کہ کون فتوی صحیح ہے کون غلط بیان فرمائیں ۔بینوا توجروا۔
مستفتی: مرتضی حسین نظامی، دارالعلوم قادریہ فیضان مصطفی،
گلشن چوک، بلجیت نگر، دہلی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب آج کل ــ’’حالت روزہ میں
گل منجن کے استعمال ‘‘کے تعلق سے جو فتوی WhatsApp پر بہت گردش کررہا ہے جسے مولانا تاج محمد واحدی صاحب نے ’’تربیت افتا میں گل منجن
کی اجازت کیوں؟‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے اور اپنے زعم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
کہ’’مرکز تربیت افتا اوجھا گنج سے حالت روزہ میں گل منجن کے استعمال سے متعلق شائع
فتوی غلط ہے جبکہ یہ فتوی مکمل صحیح ہے واحدی صاحب نے غلط طریقہ سے اسے پیش کرنے کی
کوشش کی ہے۔
واحدی صاحب نے فتوی کے اخیر سے چند
سطر اُٹھالیا اور طبع آزمائی شروع کردی جبکہ فتوی میں چند صورتوں کا ذکر ہے ۔ مرکز
تربیت افتا اوجھا گنج سے شائع شدہ مکمل فتوی یہ ہے ملاحظہ ہو۔
’’الجواب: روزہ کی حالت میں گل کے استعمال کی چند صورتیں ہیں ان کے لحاظ سے اس کے احکام
کی تفصیل یہ ہے۔
(۱)زید اگر اس طرح گل کرتا ہے کہ
دانتوں تلے دباکر رکھے رہے تو اس کے ذرات لعاب کے ساتھ حلق کے نیچے اُتر جائیں گے جیسے
تمباکو کھانے میں ہوتا ہے۔اس صورت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا وکفارہ دونوں
لازم ہوگا ۔
(۲)اگر اس کے استعمال کی صورت یہ
ہے کہ گل دانتوں پرلگاکر دس،پانچ منٹ چھوڑ دیتا ہے بعد میں کلی کرلیتا ہے تو اس دس،پانچ
منٹ کے وقفہ میں ظن غالب یہی ہے کہ گل کے اجزالعاب کے ساتھ حلق کے نیچے اُتر جائیں
گے اور روزہ ٹوٹ جائے گااس صورت میں زید پر صرف روزہ کی قضا واجب ہوگی۔
(۱)اگر اس کا طریقۂ استعمال یہ ہے
کہ پہلے دانتوں پر گل مل لیتا ہے پھر فوراً کلی کرلیتا ہے روزہ کی حالت میں اس طریقۂ
استعمال کی بھی سخت ممانعت ہے کیونکہ اس صورت میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اجزا حلق تک
پہنچ جاتے ہیں اور زیر حلق اُترنے اور روزہ ٹوٹنے کا احتمال ہوتا ہے۔ (فیصلہ فقہی سیمینار
بورڈ دہلی)
مگر جب زید کو گل استعمال کئے بغیر
پاخانہ نہیں ہوتا تو اس عذر کی وجہ سے اس کے لئے حکم میں اس قدر تخفیف ہوگی کہ وہ گل
پہلے ہتھیلی وغیرہ پر نکال کر پانی سے بھگو دے پھر اسے احتیاط کے ساتھ دانتوں پر ملے
اور جلد ہی کلی کرکے اچھی طرح اپنا منھ صاف کرلے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
اولاً: فتاوی مرکز تربیت افتا کے
مذکورہ فتوی میں صراحت کے ساتھ تین صورتوں کا ذکر ہے پہلی صورت جبکہ تمباکو کی طرح
گل استعمال کرے تو قضا وکفارہ دونوں لازم ہے،بحرالعلوم علامہ مفتی عبد المنان صاحب
قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی میں اسی پہلی صورت کا ذکر ہے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ’’کھینی
کی طرح اس کا بھی لوگ استعمال کرتے ہیں اس لئے اس کا بھی استعمال مفسد صوم ہے(فتاوی
بحر العلوم ج:۲،ص:۲۷۴) اس فتوی کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اگر لوگ کھینی کی طرح گل منجن کا استعمال کرتے
ہیں تو یہ مفسد صوم ہے،باقی صورتوں کا ذکر نہیں اور فتاوی مرکز تربیت افتا میں بھی
کھینی کی طرح استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹنے اور قضا وکفارہ دونوں لازم ہونے
کا حکم صراحت کے ساتھ درج ہے ۔ اس لئے فتاوی بحر العلوم اور فتاوی مرکز تربیت افتا
کے فتوی میں کوئی تضاد نہیں۔
ثانیاً: دس پانچ منٹ تک گل دانتوں
پر لگاکر چھوڑ رکھے تو ظن غالب یہی ہے کہ اس وقفہ میں گل کے ذرات حلق سے نیچے اُتر
جائیں گے، یہ گل کے استعمال کی دوسری صورت ہے اور فتاوی مرکز تربیت افتا میں اس صورت
میں بھی صراحت کے ساتھ روزہ ٹوٹنے اور قضا واجب ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ہاں تیسری صورت
جس میں روزہ ٹوٹتا نہیں صرف احتمال ہوتا ہے عام حالات میں اس کی بھی سخت ممانعت ہے
۔اسی تیسری صورت کوسائل کے حق میں قدرے تخفیف کرتے ہوئے احتیاط کے ساتھ اس طور پر استعمال
کی اجازت دی گئی ہے کہ پہلے گل ہتھیلی وغیرہ پر نکال کر پانی سے بھگودے پھر اسے احتیاط
کے ساتھ دانتوں پر ملے اور جلد ہی کلی کرکے اچھی طرح اپنا منھ صاف کرلے۔اور ظاہر ہے
کہ جب گل کوبھگا دیا جائے تو اس کے ذرات کے حلق تک پہنچنے کا امکان بہت کم رہ جاتا
ہے بلکہ کالعدم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا واحدی صاحب کا اولاً یہ کہنا
کہ روزے کی حالت میں گل منجن کرنا مطلقاً منع ہے اور اس سے روزہ جاتا رہے گا یہ صحیح
نہیں اور اس پر فتاوی بحر العلوم کی جو عبارت نقل کی ہے مطلق منع کے لئے اس عبارت کا
نقل کرنا مطابق بھی نہیں اس لئے کہ علامہ بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی میں حکم
اس قید کے ساتھ ہے کہ کھینی کی طرح اس کا بھی لوگ استعمال کرتے ہیں اس لئے مفسد صوم
ہے تو یہ حکم مطلق نہ ہوا بلکہ حکم اس صورت کے ساتھ خاص ہوا۔اور علامہ بحر العلوم رحمۃ
اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’کھینی کی طرح اس
کا بھی لوگ استعمال کرتے ہیں ‘‘ اس جملہ میں ’’بھی‘‘ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے
کہ گل کے استعمال کے اور طریقے بھی ہیں ۔مگر آپ نے صرف کھینی کے طور پر استعمال کرنے
کا حکم تحریر فرمایا ہے۔
اور واحدی صاحب کا ثانیا یہ کہنا
کہ’’نہیں جانتا کہ یہ دونوں بزرگ اس فتوی کو مکمل پڑھ اور سمجھ کر تصدیق کئے ہیں یا
یونہی تصدیق کر دئے‘‘بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہے ایسی گفتگو ایک عامی اور
جاہل شخص ہی کرسکتا ہے۔واحدی صاحب نہیں جانتے تو لکھنے سے پہلے جاننا چاہئے تھا بہر
حال اب ان کو بخوبی جان لینا چاہئے کہ الحمد للہ ہمارے یہاں بغیر پڑھے اور سمجھے کوئی
تصدیق نہیں کی جاتی اور نہ ہی کوئی فتوہی جاری کیا جاتا ہے ،بلکہ کسی سوال کے جواب
میں اگر ترددہوتا ہے تو سال سال بھر روک دیا جاتا ہے پھر کامل اطمینان کے بعد ہی جاری
کیا جاتا ہے۔الحمد للہ مذکورہ فتوی بھی مکمل اطمینان وایقان کے بعد ہی جاری ہوا ہے
،نہ اس وقت کوئی تردد تھا اور نہ ہی آج کوئی تردد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ واحدی صاحب نے بے
سوچےسمجھے بس قلم اُٹھایا اور لکھنا شروع کردیایہ بھی نہیں سوچاکہ کس کے بارے میں لکھ
رہاہوں ،سراج الفقہا فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی مد
ظلہ العالی صدر شعبۂ افتا وصدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑہ کی شان یہ
ہے کہ جب تک آپ کو کامل اطمینان قلب حاصل نہیں ہوجاتا ہرگز نہ کسی فتوی کی تصدیق کرتے
ہیں اور نہ ہی کوئی فتوی جاری کرنے کا حکم دیتے ہیں ،ناچیز کو بہت قریب سے حضور سراج
الفقہا کی زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور چودہ پندرہ سال تک ان کی خدمت میں رہ کر
فتوی نویسی کا موقع میسر آیا کبھی بھی اس کے خلاف نہ پایا ۔ان کے تعلق سے اتنی بڑی
بات کہہ دی کہ بے پڑھے اور سمجھے تصدیق کردی ۔حضور سراج الفقہامد ظلہ العالی کی ذات
صرف عالم یا فقیہ ہی کی نہیں بلکہ مفتی گر کی ہے ہم جیسے سو دو سو نہیں بلکہ ہزاروں
علمااور فقہا آپ کے شاگرد ہیں۔اس لئے مجھے یہ یقین ہو چلا ہے کہ واحدی صاحب اتنی واضح
اور عیاں بات کو بھی یا تو سمجھ نہ سکے یا بے سمجھے جو پایا لکھ مارا۔الامان والحفیظ۔
ثالثاً: ’’مولانا وقار علی احسانی‘‘جنہوں
نے مرکز میں رہ کر یہ فتوی تحریر کیاہے ان کے بارے میں واحدی صاحب نے لکھا ہے ’’ان
حضرات کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا جو تربیت افتا کے حوالہ سے فتوی دیتے ہیں وہ
عبارت کو سمجھتے بھی ہیں یا صرف عبارت نقل کردیتے ہیں‘‘یہ ہیں واحدی صاحب کے تعلّی سے پُر جملے ،لگتا ہے کتنے بڑے فقیہ ہیں کہ
ہر کوئی ان کو اپنے سامنے بوناہی نظرآتا ہے اور حال یہ ہے کہ فتاوی بحر العلوم کی
عبارت خود نہ سمجھ سکے کہ اس میں گل منجن کی ایک خاص صورت کا ذکر ہے اور واحدی صاحب
نے مطلقاً گل منجن کے استعمال کی تمام صورتوں کے لئے فتاوی بحر العلوم کا جزئیہ نقل
کردیا تو خود اپنا حال یہ ہے کہ بے سمجھے عبارت نقل کردی ہے اور اپنی برتری دکھانے
کے لئے ناسمجھی کا الزام دوسرے پر مِڑھ دیا۔
رابعاً: مولانا وقار علی احسانی نے
جو عبارت نقل کی ہے وہ فقہی سیمینار بورڈ دہلی کے اس سیمینار کی ہے جو اس سال دھرول
گجرات میں منعقد ہوا تھا جس میں کثیر علما ،فقہا اور اکابرین دین وملت کی موجودگی میں
کافی بحث و تمحیص کے بعد یہ فیصلہ طے پایا تھا یہ دو چار لوگوں کی رائے نہیں ۔پھر فتاوی
بحرالعلوم کی عبارت بھی اس وقت مفتیان کرام کے پیش نظر تھی۔ناچیز بھی اس سیمینار میں
شریک تھااورفتاوی مرکز تربیت افتا میں فقہی سیمینار بورڈ کا حوالہ بھی درج ہے مگر واحدی
صاحب نے اس کی طرف نظر کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔
خامساً: اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ
پر یہ بالکل واضح اور عیاں ہوگیا ہوگا کہ واحدی صاحب کا مبلغ علم کتنا ہے مجھے تو لگتا
ہے کہ شہرت اور ناموری کے لئے ایسا کیا ہے اور مرکز تربیت افتا اوجھا گنج یا مصدقین
جو ابھی بقید حیات ہیں ان کی طرح رجوع کی بجائے اپنی عقل کو کامل سمجھ کر جو دل میں
آیا لکھا جس کے بارے میں جو چاہا کہا اور واٹس ایپ ،فیس بک اور نیٹ پر ڈال دیا ،اس
سے صاف ظاہر ہے کہ مقصد کیا ہے۔اس لئے کہ شہرت وناموری مقصود ہو تو کسی بڑے عالم یا
نیتا کے خلاف کچھ لکھ دو جو شہرت کئی سالوں میں نہیں حاصل ہوسکتی وہ گھنٹہ دو گھنٹہ
میں حاصل ہوجائے گی۔کیونکہ واحدی صاحب خود اپنی ایک کلپ میں بڑی خوشی کا اظہار کرتے
یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ نیٹ پر میرے پانچ سو فتؤں میں سے کوئی فتوی اتنا
نہیں پڑھا گیا جتنا یہ فتوی پڑھا گیا،دو گھنٹوں میں پانچ سو لوگوں نے پڑھا۔ یہ شہرت
اور ناموری نہیں تو کیا ہے؟
سادساً: واحدی صاحب نے لکھا ہے’’اگر یوں ہی
رخصت دی گئی تو کل وہ دن دور نہیں کہ سکریٹ پینے والا ،تمباکو کھانے والا بھی عذر پیش
کرے گا کہ ہمیں بھی پاخانہ نہیں ہوتا تو پھر یا تو انھیں بھی رخصت دینی ہوگی یا پھر
روزہ چھوڑنے کو کہا جائے گا۔العیاذ باللہ تعالیٰ‘‘۔یہ واحدی صاحب کا جیتا جاگتا ناسمجھی
کا ثبوت ہے۔کیونکہ ہر کوئی یہ بخوبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ سکریٹ پینے سے دھواں پیٹ
میں جائے گا اور کھینی کھانے سے ذرات حلق سے نیچے اُتریں گے جس سے بلاشبہ روزہ فاسد
ہوجائے گا اس لئے ایک جاہل بھی یہ عذر نہیں پیش کرے گا اور اگر کوئی پیش کرے تو کوئی
مفتی یا عالم کیا بلکہ کچھ بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہوگا تو وہ منع کردے گا اور صاف
کہہ دے گا کہ روزہ فاسد ہوجائے گا ۔رخصت کے لئے تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا سوائے آپ
جیسے لوگوں کے کیونکہ جو بے سوچےسمجھے لکھتے اور بولتے ہیں وہ رخصت بھی دے سکتے ہیں،روزہ
چھوڑنے کو بھی کہہ سکتے ہیں ان سے کچھ بعید نہیں ۔اس کے بر خلاف سائل کو جس کی رخصت
دی گئی ہے اس میں محض روزہ فاسد ہونے کا احتمال ہے ظن غالب بھی نہیں اور احتمال پر
شرعاً کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا،وہ بھی چند بار دانتوں پر رگڑ کر کلی کرلینے کا حکم
دیا گیا۔ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے مگر واحدی صاحب اتنی واضح بات کو نہ سمجھ
سکے ۔تواب ناسمجھ کون ہے ہر کوئی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
سابعاً: حالت روزہ میں منجن کے استعمال
کے تعلق سے اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ سے سوال ہوا’’روزے میں منجن جو بادام
،کوئلہ،سُپاری وگل وغیرہ کا بنتا ہے اس کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ اس سوال کے جواب میں
آپ نے تحریر فرمایا:
’’منجن ناجائز وحرام نہیں جبکہ اطمینان کافی ہوکہ اس کا کوئی
جز حلق میں نہ جائے گا ،مگر بے ضرورت صحیحہ کراہت ضرور ہے۔درمختار میں ہے: کرہ لہ ذوق شیٔ۔ (روزہ دار کو کسی شی کا چکھنا مکروہ ہے) (فتاوی رضویہ مترجم ج: ۱۰ص:۵۵۱)
اعلی حضرت قدس سرہٗ سے مختلف قسم
کے منجنوں کے بارے میں سوال ہوا اور اعلیٰ حضرت نے مطلق حکم بیان فرمایا کہ اگر حلق
میںمنجن کے کسی جز کے نہ جانے کا اطمینان کافی ہو تو روزہ کی حالت میں منجن کا استعمال
ناجائز وحرام نہیں یعنی جائز ہے اور گل بھی ایک منجن ہے تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا
کہ اطمینان کافی ہو تو حالت روزہ میں استعمال ناجائزو حرام نہیں، اور جب گل منجن پانی
سے بھگو کر احتیاط کے ساتھ دانتوں پر ملا جائے پھر جلد ہی کلی کرلی جائے تو اس کا کوئی
جز حلق میں نہ جانے کا اطمینان کافی ہوگا۔اب اگر یہ بلا عذر وحاجت ہو توصرف مکروہ ہوگا
مفسد صوم نہیں ہوگا اور اگر عذر کی وجہ سے ہو تو مکروہ بھی نہ ہوگا۔
ثامناً: روزہ دار کا بلا عذر کسی
چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے،اور چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر مزہ دریافت
کرلیں اور اسے تھوک دیں ،اس میں سے کچھ حلق میں نہ جانے پائے۔اور چکھنے کے لئے عذر
یہ ہے کہ مثلاًعورت کا شوہر یا باندی کا آقا بد مزاج ہے کہ نمک کم وبیش ہوگا تو اس
کی ناراضگی کا سبب ہوگا،اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں۔یوںہی چبانے کے لئے یہ عذر ہے
کہ اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں کھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں اور نہ بے روزہ
دار کوئی ایسا ہے جو اسے چباکر دیدے تو بچہ کو کھلانے کے لئے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ
نہیں۔ایسا ہی بہار شریعت ج:۱،ح:۵،ص:۹۹۶،۹۹۷،روزہ کے مکروہات کے بیان میں ہے۔
نور الایضاح ومراقی الفلاح میں ہے: ’’کرہ للصائم ذوق شیٔ لما فیہ من تعریض الصوم للفساد وکرہ مضغہ بلاعذر المراۃ اذاوجدت من
یمضغ الطعام لصبیھا کمفترۃ لحیض،اما اذا لم تجد بدا منہ فلا باس بمضغھا لصیانۃ
الولد وللمراۃ ذوق الطعام اذا کان زوجھا سیٔ الخلق لتعلم ملوحتہ وان کان حسن الخلق
فلا یحل لھا وکذا الامۃ‘‘۔ (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی،فصل فیما یکرہ للصائم، ص: ۱۷۱ ،مطبع : کراچی)
یعنی روزہ دار کے لیے کسی شی کا چکھنا
مکروہ ہے کیونکہ یہ روزہ کو فاسد کرنے کے درپے ہوتا ہے ،اسی طرح طعام کا چبانا بھی
بلا عذر مکروہ ہے جیسے خاتون بچے کے لئے کسی دوسرے کو چبانے والا پالے مثلاً حائضہ
عورت کو پالے تو چبانا مکروہ ہے اور اگر عورت کو چبانے کے سوا چارہ نہ ہو تو بچے کی
حفاظت کے لئے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیںاور خاتون کے لئے طعام کا چکھنا بھی جائز
ہے جبکہ خاوند بد خلق ہو تاکہ وہ نمک وغیرہ
چکھ سکے اور شوہر حسن اخلاق والا ہے تو چکھنا جائز نہیں۔
البحرالرائق میں ہے: ’’کرہ ذوق شیٔ ومضغہ بلاعذر لما فیہ من تعریض الصوم للفساد
ولایفسد صومہ لعدم الفطر صورۃ ومعنی،قید بقولہ بلاعذر لان الذوق بعذر لا یکرہ کما
قال فی الخانیہ،فیمن کان زوجھا سیٔ الخلق او سیدھا،لاباس بان تذوق بلسانھا والمضغ
بعذر بان لم تجد المرأۃ من یمضغ لصبیھا الطعام من حائض او نفساء او غیرھما ممن
لایصوم ولم تجد طبیخا ولا لبنا حلیبا لابأس بہ للضرورۃ‘‘اھـ (ج:۲،ص:۲۷۹،۲۸۰،باب مایفسد الصوم،مطبع:کراچی)
یعنی بلا عذر کسی چیز کا چکھنا اور
چبانا مکروہ ہے کہ یہ فساد روزہ کے درپے ہوتا ہے،ہاں اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا کیونکہ
صورۃً ومعنیً افطار نہیں پایا گیا ،’’بلاعذر‘‘ کی قید اس لئے لگائی ہے کہ عذر کی صورت
میں چکھنا مکروہ نہیں جیسا کہ خانیہ میں اس عورت ولونڈی کے بارے میں ہے جس کا خاوند
یا آقا بد خلق ہوتو زبان سے چکھنے میں حرج نہیں اور چبانے میں عذر یہ ہے مثلاً کوئی
خاتون نہیں جو بچے کے لئے کھانا چبا دے مثلاً حائضہ یا نفاس والی کوئی عورت جو روزہ
دار نہ ہواور نہ پکی ہوئی روٹی ،نہ دودہ میسر ہو تو اب ضرورت کے پیش نظر کوئی حرج نہیں۔ایسا
ہی فتاوی رضویہ مترجم ج:۱۰ص: ۵۰۱،۵۰۲،باب مفسدات الصوم میں بھی ہے۔
مذکورہ عبارات میں محض شوہر کی ناراضگی
اور بدخلقی جو بہت بڑی چیز نہیں فقہا نے اس کو عذر گردانا اور اس کے باعث بیوی کو نمک
چکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی،یوں ہی اگر کوئی بے روزہ دار چباکر دینے والا نہ ہو توبچہ
کو کھلانے کے لئے روزہ دار کو چبانے کی اجازت دی اوراسے عذر شمار کیا۔واحدی صاحب کے
نزدیک یہ بھی عذر نہیں ہوگا کیونکہ یہ کوئی بڑی بات نہیں نمک چکھے بغیر کھانا پکاسکتی
ہے ،زیادہ سے زیادہ شوہر ناراض ہوگا اسے برداشت کرے۔یونہی اگرچہ کوئی حائضہ یا نفاس
والی عورت یا کوئی غیر روزہ دار چباکر دینے والا نہ ہو پھر بھی روزہ داربچہ کو روٹی
چباکر نہ دے ،کسی کے آنے کا انتظار کرے یا پھر افطار تک انتظار کرے بعدہ بچہ کو کھلائے
یا سحری ہی میں چباکر رکھ لے یہ سب کچھ بھی کیاجاسکتا ہے مگر فقہا نے اس کا حکم نہیں
دیا بلکہ ان کو عذر سمجھا اور شوہر کی بدخلقی کی صورت میں عورت کو نمک چکھنے اور کسی
بے روزہ دار چباکر دینے والے کے نہ ہونے کی صورت میں روزہ دار کو چباکر بچہ کو کھلانے
کا حکم دیا۔کیونکہ چکھنے اور چبانے کی صورت میں بھی ذرات کے زیر حلق اُترنے کا صرف
احتمال ہے ظن غالب نہیں۔
یونہی کسی کو پریشانی ہے کہ بغیر
گل کئے پاخانہ نہیں ہوتا تو یہ اس کے حق میں عذر ہے اس لئے احتیاط کے ساتھ بھگوکر چند
بار دانتوں پر مل کر کلی کرلینے کی اجازت دی گئی شرعاً اس میں کوئی حرج وضرر نہیں جیسا
کہ بہار شریعت ، فتاوی رضویہ،بحر الرائق اور مراقی الفلاح کی عبارات سے بھی یہی عیاں
ہے۔ رہا واحدی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’جس کو پاخانہ نہ ہوتا ہو وہ سحری سے پہلے اپنی
ضرورت پوری کرلے‘‘تو یہ واحدی صاحب ہی کر سکتے ہیں ،کیونکہ یہ صحیح ہے کہ دن میں پاخانہ
کرنا فرض واجب نہیں اور سحری میں لوگ پاخانہ پیشاب کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔لیکن پاخانہ
کی جو حاجت دن میں پیش آنے والی ہے اس کو وقت سے پہلے سحری میں پوری کرلینا سب کے
بس کی بات نہیں یہ واحدی صاحب ہی کا حصہ ہے۔اور پھر یہ ہوسکتا ہے کہ سائل یا کسی کو
ایسا ہوتا ہو کہ پیٹ بھاری رہتا ہو اور پاخانہ میں بیٹھنے کے باوجود پاخانہ نہ ہوتا
ہوتو ضرور اس کے لئے عذر ہے کہ اس کی وجہ سے اس کو گیس وغیرہ کی بیماری لاحق ہوسکتی
ہے۔
حاصل یہ کہ واحدی صاحب نے جو کچھ
لکھا وہ بے سوچے سمجھے دل ودماغ میں جو آیا لکھ دیا حقیقت وشریعت سے اس کا کوئی تعلق
نہیں ،بے بنیاد باتیں ہیں اس لئے وہ قابل التفات نہیں۔واللہ تعالی اعلم۔
کتبہ :محمد ابرار احمد امجدی برکاتی
خادم افتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
۸؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ،یکم مئی ۲۰۲۰ء
السلام علیکم ورحمۃ اککہ وبرکاتہ
ReplyDeleteکیا دن.میں پاخانہ نہ ہونا عذر ہے؟
یا دن میں.کرنا ضروری ہے؟
اگر بالفرض مان لیا جائے کہ کسی وجہ پاخانہ نہیں ہورہا.ہے جس سے تککیف ہے تو گل م گل منجن کی اجازت کیوں جب کہ انجیکشن موجود ہے جو روزہ کو نہیں توڑتا اس سے کام چلا سکتے ہیں صرف گل کیوں؟
اور اگر گل سے ہی پاخانہ اترتا ہے تو صبح وشام کافی ہے دن میں کرنے کی کیا ضرورت کیا دن میں پاخانہ کرن ضروری ہے
اگر تمباکو کو پاوڈر بناکر مثل مبجن کیا جائے تو کیا مفسد صوم نہ ہوگا ؟
ان سوالوں کا جواب عنایت کریں
نمبر ۹۹۸۴۸۲۰۶۳۹
ما شاء اللہ نائب فقیہ ملت حضور مفتی صاحب قبلہ نے بہت ہی دندان سکن جواب فرمایاہے اور حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ کے نیابت کا حق ادا کر دیا۔۔۔اور طالب شہرت(بزعم خویش)مفتی صاحب کا قلع قمع کردیا ہے۔۔۔میں آئینہ ہوں دیکھاؤں گا داغ چہرے کا
Deleteجس کو برا لگے سامنے سے ہٹ جائے
اللہ تعالی مفتی صاحب کے سائے کو اور دراز فرمائے۔۔۔آمین
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوب
ReplyDeleteنہایت تحقیقی اور مسکت جواب تحریر فرمایا حضور مفتی صاحب قبلہ نے
اللہ تعالی جزاء خیر سے نوازے
شان.محمد کچھ لعنت کا خوف ہے کہ نہیں جھوٹ تو تجھ سے کوئی سیکھے یاد کر جب کہا تھا کہ رنڈیوں کے پیسہ سے مسجد مدرسہ بنانا جائز ہے نیاز وفاحہ جائز ہے یا پھر ریکارڈ شیئر کروں گروپوں میں
ReplyDeleteتیرا منھ مسور دال تو اور میرے فتوے کی اصلاح گروپ چھوڑ کر بھاگا تھا بجول گیا جسکو فتاوی رضویہ اور احکام.شریعت کی عبارت نہ سمجھ میں آئے اور رنڈیو کے پیسے سے کارخیر جائز گردانیں وہ اور اصلاح پوچھ سید شمس الحق صاحب سے مولانا ایوب صاحب سے اور دیگر گروپ والوں ابھی ہوش میں آجا کعنت کا مسحق نہ بن
میں تمہارے مثل بکواس پسند نہیں کرتا ۔
Deleteرنڈی کا اپنے پیسے سے نیاز کا مسئلہ قاری خود فتاوی رضویہ میں دیکھ سکتے ہیں ۔
پہلے بھی چیلینج تھا اور اب بھی آمنے سامنے بیٹھ کر بحث کرلو دن میں تاریے نظر آنا سنا ہوگا مگر اس وقت خود تجربہ بھی تمہیں کرا دوں گا۔
یہ تاج واحدی کا حال یہ ہے کہ یہ غیر عالم نرے جاہل ہیں جیسا کہ عالمیت و فضیلت کے سوال کے جواب پر لکھا ہے کہ آبائی وطن اور بارگاہ مخدوم اشرف علیہ الرحمہ ظاہر و باہر ہے کہ سرکار تقریبا چھ سو سال قبل ہی وصال فرما چکے تو ان صاحب کو کہاں سے درس ملا اور نہ ہی یہ اس منصب پر کہ براہ راست درس لے سکیں ممکن ہے کہ آسیبی خلل سے دوچار ہوں گے اور بحیثیت مریض دوسروں کے مثل چند سال رہے ہوں گے یا شیرینی وغیرہ کی دکان کئے ہوں گے یا مجاور رہے ہوں گے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طاہر القادری کی طرح خواب میں درس کے مدعی ہوں بہرحال جو بھی ہو ان صاحب نے عالمیت و فضیلت کسی مدرسہ سے نہیں کی اور نہ ہی وہبی علم کے مدعی ہوے اسلئے یہ جاہل تھے اور جاہل ہی رہے یہ میں نہیں بلکہ ان کا خود کا جواب کہتا ہے۔
اب ایسے شخص کو اس ذات مبارکہ سے کیا نسبت کہ جس کی بارگاہ میں زانوے تلمذ طے کرکے ہزاروں عالم و مفتی بن کر مثل نجوم چمک رہے ہوں اور وہ ذات خود مثل آفتاب ہو اور اس ذات سے جو فقیہ ملت علیہ الرحمہ کے علوم کی سچی وارث اور مظہر ہو اور سیکڑوں سند یافتہ علما جس سے درس کے محتاج ہوں ۔
ان صاحب کو ان حضرات عالیہ سے ایسی بھی نسبت نہیں جو چراغ کو آفتاب سے ہے ہاں سستی شہرت کمانے کا آسان طریقہ ضرور ہے جسے واحدی جی نے اختیار کیا ہوا ہے۔
یہ صاحب اپنے جہل کے سبب خود تو سمجھ نہیں سکتے اور اعلان یہ کرتے ہیں کہ اعلی حضرت کی بھی نہیں مانیں گے حالانکہ فتاوی رضویہ کا خطبہ تک سمجھنے کی اہلیت نہیں جیسا کہ اوپر ان کی حقیقت بیان ہوئی ۔
بس ابن فقیہ ملت کے مثل ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ مولی سمجھ عطا فرمائے
This comment has been removed by the author.
Deleteپہلے فتاوی رضویہ سمجھنے کی کوشش کرو چیلنج تو میراتھا اور ہے کہ ایک ہی عبارت دکھادو جیاں لکھا ہو کہنرنڈیبکے پیسے سے مسجد مدرسہ بنانا یابکار خیر کرنا جائز لکھا ہو خود تمہیان دن میں تارے نظر آجائیں
Deleteا حلق سے نیچے لے جانا مفسدِ صوم ہے یا نہیں ؟ اگر ہاں میں جواب ہے تو پھر گل منجن کی بو اور ذائقے کی تیزی دماغ تک پہنچانا یا حلق سے بالقصد اتارنا مفسدِ صوم کیوں نہیں؟ کیا فسادِ صوم صرف جانبِ حلق اجزاء اترنے سے خاص ہے؟ جانبِ دماغ نہیں؟ فعلیکم بالدلیل علی دعواکم۔
ReplyDelete(۷) اگر بالفرض یہ عذر شرعی ہے یعنی اتنی شدت سے پاخانہ لگا ہوا ہے جس سے نقصان پہونچنے کا صحیح اندیشہ ہے تو کیا گل منجن ہی ضروری ہے؟ جبکہ انجکشن سے بھی یہ کام ہوسکتا ہے جو مفسد صوم نہیں؟
(۸) کیا سب گل منجن کے استعمال کرنے والے معذور ہیں؟ فما الدلیل عندکم؟
(۹) فقیر پوچھتا ہے کہ اگر کراہت و ممانعت بے عذری کی صورت میں مؤکد ہے تو آپ کے مفروضہ عذر پر بھی احوط عدمِ استعمال کا حکم ہونا چاہئے نہ کہ استعمال والوں کی وکالت، ورنہ یہ تحقیق نہیں نفسانیت ہوگی، کیونکہ إتمام صیام الی اللیل فرض ہے نہ کہ ترخیص و تخفیف کی راہ ہموار کرنا۔
(۱۰) گل منجن محض منجن نہیں ہے مطلق منجن پر گل منجن کا قیاس کیوں کر درست ہوگا؟ کیا لفظِ "گل" نے "منجن" کے اطلاق و عموم سے "گل منجن" کو خارج نہیں کیا؟
(۱۱) کیا گل منجن تمباکو سے نہیں بنتا ہے؟ اور کیا نام اور شکل بدل جانے سے تمباکو کی حقیقت تبدیل ہوجاتی ہے
(۱۲) اگر گل تمباکو نہیں تو گل کر ہر ڈبے پر کینسر کے بارے میں کیوں تحریر ہے؟جبکہ دوسرے منجن پر نہیں ہے؟
(۱۳) اگر گل تمباکو سے ہی بنتا ہے اور کسی کو تمباکو کی عادت ہو اور بغیر اس کے اس کو پاخانہ نہ ہوتا ہو تو کیا وہ جلا کر پاوڈر بناکر منجن کی طرح کرسکتا ہے؟جس طرح آپ نے صورت سوم میں گل منجن کی اجازت دی ہے؟
(۱۴) اگر کوئی بیڑی یا سکریٹ پینے کا عادی ہو اور بغیر اس کے اس کو پاخانہ نہ ہوتا ہو تو کیا وہ اس طرح بیڑی، سگریٹ پی سکتا ہے کہ دھواں کھینچے مگر حلق کے نیچے نہ اترنے دے؟ کیا اس کی اجازت ہے؟
(۱۵) سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ سے جو سوال ہوا تھا کہ جو بادام، کوئلہ، سپاری و گل وغیرہ کا بنتا ہے الخ تو کیا یہی گل ہے جو آج رائج ہے؟
(۱۶) ذوق و مضغ یعنی چکھنے اور لقمہ چبانے کی صورتیں معلل بالاعذار الخارجیۃ ہیں مثلاً سخت مزاج شوہر کا خوف جو نمک مرچ کی زیادتی اور کمی پر ظلم کرتا ہو، یونہی بچہ یا ایسا مریض جو خود اپنا لقمہ نہ چبا سکتا ہو، ان کے لئے چکھنا اور چبانا، یہ اعذار ذوق و مضغ کے ہیں، مگر ایسا کون سا عذر گل منجن کے استعمال پر متحقق ہے؟کیا ایسا کچھ خوف یا اندیشہ ہے کہ صائم نے اگر گل منجن نہ کیا یا اسے استعمال کر کے بحالتِ روزہ پاخانہ نہ اتارا تو اس پر ظلم ہوگا؟
حاصل کلام یہ ہے کہ گل منجن کے استعمال کا عذر محض فرضی ہے تحقیقی نہیں، کہ اس پر تدبیر و تخفیف کی تجویز پیش کی جائے
(۱۷) جس کو دن میں گل منجن کرنے کی عادت ہے کیا وہ سب ہمیشہ گھر ہی پر رہتے ہیں؟ اور اگر کبھی اتفاقا باہر بھی جانا ہوتا ہے تو اس صورت میں کیا کرتے ہیں؟ کبھی سفر میں کبھی کوئی اور کام سے نکلتے ہیں یا نہیں؟ یہ ہر کوئی جانتا ہے، اور کیا بحالتِ روزہ شام تک گل منجن کرنا اور پاخانہ اتارنا صحیح عذر ہے؟ جبکہ ہوتا ہی نہیں ہے وہ بھی خالی پیٹ
(۱۸) جب یہ مسئلہ اجتہادی اور اختلافی ہے تو احوط جانبِ منع ہی ہوا نہ کہ جانبِ رخصت و جواز، کیونکہ بصورتِ اختلاف مذہبِ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ''الاحوط جانب المنع'' ہی ہے،
یہ چند معروضات بشکلِ ایرادات ہیں جو مع تحفظات پیش ہیں انکا تشفی بخش حل پیش فرمایا جائے ادھر ادھر گھمانے کے بجائے ایرادات پر علمی جوہر اور مبلغِ علم کا مظاہرہ فرمایا جائے ، فقیر ممنون ہوگا،اور بعدِ تشفی اپنے فتوی سے رجوع کرلے گا۔
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۹/رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ. ۳.مئی ۲۰۲۰ ء بروز اتوار
"معروضۃ آخر" فی کیفیۃ تحقق العذر المذكور و عدمہ فی مسئلۃ "گل منجن"
ReplyDeleteإنما یتحقق العذر اذا کان الصائم مُلْجِاً لرفع الحاجۃ ، ولم یتمکن علی قضائہ الا باستعمال "گل منجن" فاما إذا لم یکن الاضطرار لہ قبل استعمالہ فھو غير معذور،"
فانا لا نسلم انہ اذا صار مُلْجِاً الی رفع الحاجۃ طبعاً ان یحتاج الی استعمالہ بل یکون محتالًا باستعمالہ لقضاء طلبہ و شوقہ و ذوقہ، لأن الاحتیاج الی الرفع قد وجد بغیر استعمالِ" گل منجن" فحینئذٍ یحتاج الی "انیما" فی صورۃ الانقباض لا الی" گل منجن، فقد ثبت ان الحیلۃ بقضاء الحاج ھھنا حیلۃ محضۃ لم یثبت بہا العذر، لانہ اذا لم یَلْجاْ الی رفع الحاجۃ قبل استعمال" گل منجن " فکیف یثبت العذر؟فالعذر اذا لم یثبت قبل استعمال" گل منجن " لم تکن الاجازۃ و التخفیف لہ، لانہ لیس بمعذورٍ قبل استعمالہ ،
" الحاصل معتمدًا بقول المجیز لو لم یستعملہ لا یکون محتاجًا الی قضاء الحاجۃ، و اِن یستعملہ یکون محتاجًا، فیلزم علیہ ترکہ کیلا یضطر"
"فحینئذٍ تکون حیلتہ حیلۃ تکمیل طلبہ العادی و اشتیاقہ العادی من" گل منجن "لا غیر،"
"واللہ تعالیٰ علیم بذات الصدور"
"فاتقوہ ایہا المحتالون بعذر قضاء الحاجۃ المفروض عندکم علی استعمالِ "گل منجن" بعلمہ تعالٰی و تقدس"
سید شمس الحق برکاتی مصباحی