Tuesday, April 21, 2020

قطب الاولیاء علامہ نووی حیات و خدمات

نام و نسب: آپ کا نام و نسب یحیی بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن محمد بن جمعہ بن حزام ہے، کنیت: ابو زکریاتھی، لقب: محی الدین تھا۔ آپ کی نسبت دو طرف کی جاتی ہے ، ایک تو آپ کے جد امجد ’حزام‘ کی طرف، اور دوسرے ’نوی‘ کی طرف جو ایک گاؤں کا نام ہے،اسی وجہ سے آپ کے نام کے ساتھ ’حزامی‘ اور ’نووی‘ دونوں لکھا جاتا ہے، مگر آپ عرب و عجم میں نووی کی نسبت سے ہی مشہور و معروف ہیں۔
 آپ کی ولادت و پرورش: آپ محرم الحرام کے دوسرے عشرہ   ۶۳۱؁ ہجری میں پیدا ہوئے، آپ سات سال کی عمر میں ایک مرتبہ رمضان کی ستائیسویں رات کو اپنے والد ماجد کے پہلو میں نیند کے مزے لے رہے تھے،آپ کے والد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آپ آدھی رات کو اچانک اٹھ گئے، اور مجھے بیدار کرکے کہا: والد محترم یہ کیسی روشنی ہے جس نے پورے گھر کو تابناک کر رکھا ہے؟! اتنے میں گھر کے سارے لوگ بیدار ہو گئے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے، مگر ہم میں سے کسی شخص کو کوئی چیز نظر نہ آئی، آپ کے والد گرامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اپنے بیٹے کے اس استفسار سے میں سمجھ گیا کہ یہی رات شب قدر ہے۔
ولی اللہ شیخ یاسین بن یوسف مراکشی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے ’نوی‘ گائوں میں بعض لڑکوں کو دیکھا جو’ شیخ یحیی بن شرف نووی علیہ الرحمہ‘ کو اپنے ساتھ کھیلنے پر مجبور کر ہے تھے، جس کی وجہ سے آپ رونے لگے ، مگر آپ رونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت بھی کئے جارہے تھے ۔ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: علامہ نووی علیہ الرحمہ کی قرآن سے اس قدر دلچسپی دیکھ کر میرے دل میں ان کے لیے محبت گھر کر گئی۔ آپ کی یہ قرآن دوستی آنے والے واقعہ سے اور واضح ہوجاتی ہے، ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:آپ کے والد گرامی علیہ الرحمہ نے آپ کو دوکان پر بیٹھا دیا تھا، مگر آپ خرید و فروخت کے ساتھ قرآن کریم بھی پڑھا کرتے تھے، دوکان کی ذمہ داری کے باوجود کبھی آپ کلام اقدس کی تلاوت سے غافل نہ ہوئے، بلکہ اسے ہر حالت میںحرز جاں بنائے رکھا۔ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ ساری چیزیں آپ کی شخصیت میں دیکھنے کے بعد میں ان کے استاذ مکرم کے پاس گیا، اور انہیں وصیت کی: آپ ان کا خوب خیال رکھیں، امید ہے کہ یہ لڑکا کل اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم اور عابد و زاہد ہوگا، ایک عالَم اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس پر آپ کے استاذ نے برجستہ کہا: کیا آپ مستقبل کی خبر دینے والے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اللہ جل شانہ نے میری زبان پر یہ کلمات جاری کردیا۔ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: آپ کے محترم استاذ نے میری عجیب و غریب بات کو آپ کے والد محترم علیہ الرحمہ سے بتانے کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی ، جس کی وجہ سے آپ جب حد بلوغ کو پہونچے تو حافظ قرآن ہوچکے تھے ۔
دمشق کی طرف رحلت: علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں انیس سال کا ہوا تو میرے والد گرامی مجھے   ۶۴۹؁ ہجری میں دمشق لے کر چلے گئے، میں نے وہاں پہونچ کر ’مدرسہ رواحیہ‘ میں سکونت اختیار کرلی۔ علامہ سخاوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’دار الحدیث الاشرفیہ‘ کی سرپرستی کی ذمہ داری لینے کے بعد بھی آپ نے ’مدرسہ رواحیہ‘ کو الوداع نہ کہا ، آخری عمر تک وہیں قیام پذیر رہے۔
علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے وہاںساڑھے چار مہینے میں’التنبیہ‘ نامی کتاب یاد کرلی تھی، میں نے اس کتاب کو ۵ ربیع الاول  ۶۵۰؁ ہجری میں پوری ایک ہی بیٹھک میں زبانی سنا دی تھی۔نیز آپ فرماتے ہیں: پھر میں نے سال کے باقی دنوں میں ’المھذب‘سے عبادت کے بیا ن کا چوتھائی حصہ یاد کرلیا تھا۔ آپ نے اس کے علاوہ علم نحو میں ’مقدمۃ الجرجانی‘ اور اصول میں’المنتخب‘ بھی یاد کرلی تھی ۔
یہاں سے یہ واضح ہوگیا کہ آپ کا حافظہ کافی قوی اور مضبوط تھا، آپ کتابوں کے یاد کرنے کا اچھا اہتمام کیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کا علم کافی ٹھوس اور مضبوط تھا۔ہندوستان کے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو طالبان علوم نبویہ کے لیے نحو و صرف کے علاوہ حدیث اور اصول حدیث، فقہ اور اصول فقہ وغیرہ کے متون یاد کرانے کا التزام کرنا چاہیے تاکہ ان کا علم ٹھوس سے ٹھوس تر اور مضبوط سے مضبوط ترہو۔(اااازہری)
حج کاسفر: علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:   ۶۵۱؁ ہجری رجب المرجب کے شروع میں والد گرامی علیہ الرحمہ کے ساتھ میں نے حج کے لئے رخت سفر باندھا، تقریبا ڈیڑھ ماہ مدینہ منورہ میں قیام رہا۔آپ کے والد محترم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ہم ’نوی‘ گاؤں سے جب حج کے لئے روانہ ہونے لگے، اسی دن سے میرے صاحبزادے کو بخار کی شکایت ہوئی اور یوم عرفہ تک آپ کو لاحق رہا، مگر آپ نے صبر و تحمل سے کام لیا اور کبھی آہ تک نہ بھری۔
حصول علم: آپ علم کے حصول میں دل و جان سے لگے رہے، نماز و روزہ، اور زہد و تقوی وغیرہ میں آپ اپنی پوری زندگی اپنے شیخ ولی اللہ شیخ یاسین علیہ الرحمہ کے رنگ و ڈھنگ میں ڈ ھلنے کی کوشش کرتے رہے، خاص طور سے جب آپ کے شیخ علیہ الرحمہ کا انتقال ہوگیا تو آپ اور شدت کے ساتھ علم و عمل میں مشغول ہوگئے، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے : آپ اس دور میںبھی ہر دن بارہ سبق جو مندرجہ ذیل کتب اور موضوعات پر مشتمل ہیں لیا کرتے تھے:(۱) الوسیط (۲) المہذب(۳) الجمع بین الصحیحین (۴) صحیح مسلم (۵) ابن جنی کی کتاب: اللمع(۶) ابن السکیت کی کتاب: إصلاح المنطق (۷) التصریف (۸) أصول الفقہ (۹) ابو اسحاق کی کتاب: اللمع(۱۰) فخر الدین رازی کی کتاب: المنتخب (۱۱) أسماء الرجال (۱۲) أصول الدین۔
آپ صرف ان کتابوں کے پڑھنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے ،بلکہ پڑھنے کے ساتھ ان کتابوں کو اپنی گراں قدر تعلیقات سے مزین بھی کیا کرتے تھے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: مجھے اپنی پڑھائی کے دوران جن کتابوں پر جہاں تعلیق لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی لگادیا کرتا تھا، مشکل عبارات کی شرح بھی کردیا کرتا تھا، ضبط کلمات کا بھی اہتمام کیا کرتا تھا، اللہ جل شانہ نے میرے وقت میں خوب برکت دی تھی ، جس کی وجہ سے میں یہ سارے امور بڑی خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہونچا دیا کرتا تھا۔آپ کی شخصیت علم حاصل کرنے ، جلدی نیند کی آغوش میں نہ جانے، اوقات کی حفاظت کرنے، لکھنے یا مطالعہ کرنے، یا شیوخ سے فیض حاصل کرنے میں علماے کرام کے درمیان ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اگر آج بھی مدارس اسلامیہ کے طلبہ خلوص اور محبت ،محنت اور لگن ، تقوی اور پرہیزگاری کا دامن مضبوطی سے پکڑ کر کتب کا مطالعہ کریں، کھیل کود اور بے جا تنقید میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کو پڑھنے لکھنے میں لگائیں تو ان شاء اللہ وہ بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے علامہ نووی علیہ الرحمہ کی طرح کتابوں پر تعلیقات اور حواشی لگا سکتے ہیں۔ (اااازہری)
آپ کے شیوخ: (۱) علم فقہ میں آپ کے سب سے پہلے شیخ امام زاہد و عابد علامہ ابو ابراہیم اسحاق بن احمد بن عثمان مغربی مقدسی علیہ الرحمہ ہیں،اس فن میں زیادہ تر فیض آپ نے انہیں سے حاصل کیا ہے، ان کے علاوہ بھی فقہ میں آپ کے قابل قدر اساتذہ ہیں۔
(۲) طریقت میں آپ کے استاذ ولی اللہ شیخ یاسین مراکشی علیہ الرحمہ تھے، علامہ نووی علیہ الرحمہ آپ کی بارگا ہ میں حاضر ہونے کے وقت ادب ملحوظ رکھتے تھے،آپ کی برکتیں پانے کے لیے پر امید نظر آتے تھے، اور معاملات وغیرہ میں آپ ان سے مشورہ بھی لیا کرتے تھے۔
(۳) قراء ت میں آپ کے شیوخ کے اسما ذکر نہیں کیے گئے ہیں، البتہ لخمی نے یہ بتایا ہے : آپ قراء ت سبعہ کے عالم تھے،جس سے ایک امکانی صورت نظر آتی ہے کہ شاید آپ نے قراء ت سبعہ کی تعلیم ابوشامہ سے حاصل کی تھی۔
(۴) آپ نے فقہ حدیث محقق ابو اسحاق ابراہیم بن عیسی اندلسی شافعی علیہ الرحمہ سے حاصل کی، پھر حدیث کی سماعت فرمانے اور اس کے متعلقات کی معرفت حاصل کرنے کے لیے آپ نے امام محدث کبیر علامہ ضیا بن تمام حنفی علیہ الرحمہ کی درسگاہ کو لازم پکڑ لیا تھا، آپ اس فن میں انہیں کی بارگاہ کے پروردہ ہیں۔اس فن میں ان کے علاوہ اور بھی آپ کے دوسرے اساتذہ ہیں۔
(۵) لغت، نحو اور صرف وغیرہ میں بھی آپ نے مہارت حاصل کی، چنانچہ آپ نے ابن جنی کی کتاب ’اللمع‘ فخر مالکی علیہ الرحمہ سے پڑھی ، اور ابن السکیت کی کتاب کا درس’إصلاح المنطق‘ شیخ ابو العباس احمد بن سالم نحوی مصری علیہ الرحمہ سے لیا،آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ مذکورہ کتابوں کے علاوہ ان فنون کی دیگر کتابوں کے علوم سے بھی آپ سیراب ہوئے۔
(۶) اصول فقہ میں فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی کتاب’ المنتخب‘ علامہ قاضی ابو الفتح عمر بن بندار بن عمر بن علی تفلیسی شافعی علیہ الرحمہ سے پڑھی، اس کے علاوہ اس فن کی دیگر کتابیں بھی آپ کو بڑے بڑے شیوخ سے پڑھنے کا موقع ملا۔
آپ کی مسموعات: آپ نے احادیث وغیرہ کی بہت ساری کتابیں سماعت فرمائیں، یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے:(۱) کتب ستہ (۲) موطأ الإمام مالک (۳) مسند الإمام الشافعی (۴) مسند الإمام أحمد بن حنبل (۵) مسند الدارمی (۶) مسند أبی یعلی (۷) صحیح أبی عوانۃ (۸) سنن الدار قطنی (۹) سنن البیہقی ، اور اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں سماعت کی ہیں،جن کا شمار یہاں ممکن نہیں۔
آپ کی تصانیف: آپ نے بہت ساری قیمتی کتابیں تصنیف فرمائیں، جو آج بھی مقبول و متداول ہیں، ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے: (۱) المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج(۲) بخاری شریف کی شرح ’التلخیص‘کے نام سے تصنیف فرمائی، مگر نامکمل رہ گئی(۳) المبہمات (۴) ریاض الصالحین (۵) الأذکار (۶) الروضۃ (۷) الأربعین (۸) التبیان فی آداب حملۃ القر آن (۹) الترخیص فی الإکرام و القیام (۱۰) الإرشاد فی علوم الحدیث وغیرہ۔
آپ کی اکثر کتابیں مقبول عام و خاص ہوئیں،مگر ان میں سے بعض کتابوں پر طلبہ اور علما کی خاص عنایتیں رہیں،مثلا ’المنہاج‘ کو آپ کی وفات کے بعد طالبان علوم نبویہ کے درمیان زبانی یاد کرنے کی اک لہر سی دو ڑ گئی ، آپ کی ’المنہاج‘ بہت اہم کتاب ہے ، اس کی تعریف و توصیف میں علماے اجلہ نے اشعار کہے ، بیسیوں علماے کرام نے اس کتاب کی شروحات لکھیں،گراں قدر آرا سے مزین کرکے اس کی اہمیت کو اور اجاگر کردیا،جگہ کی قلت کی وجہ سے یہاں پر دو چار کے نام شمار کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے:(۱)امام ابو العباس محمد بن ابی بکر عرام سکندری علیہ الرحمہ نے ’المنہاج‘ پر اپنی گراں قدر تعلیقات لگائیں(۲) امام کمال بن معالی محمدبن علی بن عبد الواحد بن زملکانی دمشقی علیہ الرحمہ نے ’المنہاج‘ کی شرح لکھی، اور اس شرع کا نام ’السراج الوہاج فی إیضاح المنہاج‘  رکھا (۳) شیخ شہاب الدین احمد بن حمدان اذرعی علیہ الرحمہ نے اس کتاب کی دو شرحیں لکھیں، ایک کا نام ’غنیۃ المحتاج‘ اور دوسری کا نام ’قوت المحتاج‘ رکھا۔
آپ کی تصانیف کے بارے میں ائمہ کی آرا: امام یافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’امام نووی علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد آپ کو حق سبحانہ تعالی کی نظرات سے نظر جمالی حاصل ہوئی،جس کی برکتیں آپ کی کتابوں پر ظاہر ہوئیں،اورعام بندوں کے درمیان آپ کی تصنیفات مقبول ہوئیں،دنیا کے مسلمانوں نے آپ کی گراں قدر کتابوں سے فائدہ حاصل کیا‘‘۔
عثمانی قاضی صفد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نے جامع اموی کے خطیب شیخ جمال الدین محمود بن جملہ علیہ الرحمہ کو معاصرین کی ایک جماعت کے سامنے کہتے ہوئے سنا: ’’میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے مخاطب تھا، غنودگی کے عالم میں کہہ رہا تھا: اللہ تعالی نے علامہ نووی علیہ الرحمہ پر ان کی قبر میں خوب فیوض و برکات نازل فرمایا، پھر ان فیوض کو ان کی کتابوں کی طرف لوٹادیا،جس کی وجہ سے آپ کی تصانیف کو علماے عرب و عجم، عوام وخواص سب کے درمیان خوب مقبولیت حاصل ہوئی‘‘۔
آپ کے مناصب عظمی: علامہ نووی علیہ الرحمہ کم عمری کے باوجود اپنے مشایخ کی موجودگی میں امام ابوشامہ عبد الرحمن بن اسماعیل بن ابراہیم بن عثمان علیہ الرحمہ کے بعد  ۶۶۵ ؁ ہجری میں ’دار الحدیث الأشرفیۃ‘ کے مشایخ کی سرپرستی کے منصب پر فائز ہوئے،آپ کو اپنے زمانہ کے بڑے بڑے فقہاے عظام پر فوقیت حاصل ہوئی، اس وجہ سے نہیں کہ آپ فقیہ و محدث تھے، بلکہ اگر حاصل ہوئی تو صرف اس وجہ سے کہ فقہ و حدیث کی معرفت کے ساتھ ساتھ آپ کا قول و عمل یکساں تھا، دنیاداری سے بالکل دور تھے، دیانتداری اور پرہیزگاری میں اوج ثریا کو پہونچے ہوئے تھے،یقینا ان کی یہ تابناک زندگی علما اور طلبہ کے لے قابل رشک اور لائق اقتدا ہے۔
اس کے علاوہ علامہ نووی علیہ الرحمہ نے قاضی القضاۃ شمس احمد بن خلکان علیہ الرحمہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے شافعی حضرات کی کتابیں ’الإقبالیۃ‘ و’الفلکیۃ ‘ اور’الرکنیۃ ‘بڑی شرح و بسط کے ساتھ پڑھائی، اس کے علاوہ صحیحین وغیرہ جیسی اہم کتابو کی سماعت اور بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہا۔
آپ کی شعر گوئی: آپ کی شخصیت ہر فن میں مہارت رکھتی تھی، آپ کی شاعری اسی مہارت کا ایک حصہ ہے، آپ کی کتاب ’الروضۃ‘ کے حاشیہ پر یہ شعرلکھا ہواملا:
و  أنت  الذی  أدعوہ   سرا  و  جھرۃ
أجرنی  بلطف  من  جمیع  المصائب
ترجمہ :اور اے اللہ تو ہی ہے جسے میں ظاہر و باطن میں پکارتا ہوں،اے خدا تو مجھے تمام مصیبتوں سے نجات دے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اشعار آپ سے منقول ہیں ۔
آپ کے قابل فخر تلامذہ: آپ سے عظیم علماے کرام، حفاظ حدیث اور فقہا کی جماعت نے شرف تلمذ حاصل کیا، آپ سے مختلف میدان میں متعدد علوم و فنون میں کتابیں سماعت فرمائیں،آپ کی بارگاہ سے قابل فخر تلامذہ فارغ ہوئے، جنہوں نے آپ کے افکار اور فتاوی کو دنیا بھر میں پہونچایا، آپ کے علمی وقار اور تصلب کی وجہ سے آپ کے اقوال کو وہ ائمہ کرام جن کی وفات آپ سے پہلے ہوئی ہے اپنی مصنفات میں ذکر کرتے ہوئے نظر آئے،چنانچہ علامہ محب طبری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’القری‘ میں آپ کے بہت سارے اقوال نقل کیے ہیں۔آپ کے تلامذہ تو بہت ہیں، مگر اس جگہ اختصار کے پیش نظر بعـض کا ذکر کیا جاتا ہے:(۱) صدر ابو العباس احمد بن ابراہیم بن مصعب علیہ الرحمہ(۲) محدث ابو العباس احمد بن فرح اشبیلی علیہ الرحمہ(۳) علامہ رشید اسماعیل بن عبد الکریم بن المعلم حنفی علیہ الرحمہ ،ان کے علاوہ بہت سارے علماے کرام محدثین عظام اور فقہا و ناقدین ہیں جو آپ کی بارگاہ کے خریج اور فیض یافتہ ہیںجنہوں نے  دنیا بھر میں علوم مختلفہ کی ترویج واشاعت کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
آپ کی صفات اور مناقب حسنہ: آپ کی صفات حمیدہ بہت ہیں، ان کا استیعاب باآسانی ممکن نہیں، یہاں پر بطور تبرک آپ کے چند صفات و مناقب ذکر کیے جاتے ہیں:شیخ ابو العباس احمد بن محمد بن سالم بن حسن شافعی علیہ ارحمہ فرماتے ہیں: معمر ابو القاسم بن عمیر مزی علیہ الرحمہ نے جو صالح صدوق ہیں،مجھ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے خواب میں بہت سارے جھنڈے دیکھے، پھر میرے کانوں سے شادیانے بجنے کی آواز ٹکرائی، مجھے اس آواز نے تعجب میں ڈال دیا، جس کی وجہ سے میں بے ساختہ کہہ اٹھا یہ کیسی آواز ہے؟جواب میں مجھ سے کہا گیا: آج کی رات ’یحی بن شرف نووی علیہ الرحمہ‘ کو قطبیت عطا کی گئی ہے، اتنا سننا تھا کہ میری نیند کھل گئی، نہ تو میں شیخ کو جانتا تھا اور نہ ہی اس سے پہلے ان کے بارے میں کچھ سنا تھا، ایک دن اتفاق سے شہر میں کسی ضرورت کے تحت داخل ہوا، اور کچھ لوگوں کے درمیان ان کا تذکرہ کیا ، تو مجھے بتایا گیا:وہ ’دار الحدیث الأشرفیۃ‘ کے شیخ ہیں،ابھی اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں،میں نے یہ موقع غنیمت جانا اور مجلس میں داخل ہوگیا، آپ کے ارد گرد ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،جیسے ہی علامہ نووی علیہ الرحمہ کی نظر مجھ پر پڑی، آپ جماعت چھوڑکر فوراً میرے پاس آگئے، مجھے بولنے کی مہلت تک نہ دی اورپکڑکر دروازہ کی طرف لیکر نکل گئے، فرمایا:جو چیز تمہارے دل میں محفوظ ہے اسے وہیں چھپائے رکھو، کسی سے بیان مت کرنا، اس کے علاوہ مزید کچھ نہ کہا اور اپنی جگہ لوٹ گئے، میں نے آپ کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اورنہ ہی اس کے بعدآپ سے کبھی ملاقات ہوسکی‘‘۔
عارف باللہ محقق ابو عبد الرحیم محمد اخمینی قدس سرہ فرماتے ہیں:’’علامہ نووی علیہ الرحمہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اخلاق و کردار کے آئینہ دار تھے، میں نے ان کے زمانہ میں آپ سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ کار کا علم بردار کسی شخص کو نہیںدیکھا‘‘۔
محدث ابو العباس بن فروخ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’آپ کے اندر تین مراتب ایک ساتھ موجود تھے، پہلا مرتبہ:علم، دوسرا مرتبہ: زہد، تیسرا مرتبہ: امربالمعروف و نہی عن المنکر، ان میں سے کوئی بھی مرتبہ اگر کسی ایک شخص کے اندر پایا جائے، تو اس کے علوم و معرفت کا فیض حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف ضرور سفر کرنا چاہئے، اور اگر یہ تینوں چیزیں کسی ایک شخص کے اندر جمع ہوجائیں تو اس کی طرف بدرجہ اولی رخت سفرباندھنا چاہئے‘‘۔
آپ کی کرامات: آپ سے بہت ساری کرامات کا بھی صدور ہوا، ان میں سے بعض کا ذکر کرتا ہوں تاکہ موافقین کے لیے شرح صدر کا باعث بنے، اور مخالفین عبرت حاصل کرکے شرک و بدعت جیسی عظیم بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) ایک رات اچانک دیوار پھٹی اور اس کے اندر سے ایک وجیہ شخص نکلا، آپ نے اس شخص سے دنیا اور آخرت کی مصلحتوں کے بارے میں گفتگو فرمائی (۲) آپ نے اپنی وفات سے پہلے دمشق میں اپنی موت کے بارے میں خبر دیدی تھی (۳) آپ نے غیب سے آوازیں بھی سماعت فرمائیں(۴) آپ کے کشف و کرامات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ  ایک دن ابن النقیب علیہ الرحمہ علامہ نووی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا: ’’قاضی القضاۃ کا خیر مقدم ہے‘‘۔ ابن النقیب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر وہاں پر اپنے سوا کسی کو نہ پایا‘‘۔ پھر علامہ نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا: ’’اے شام کے استاذ بیٹھ جاؤ‘‘۔ چنانچہ علامہ نووی علیہ الرحمہ کے فرمانے کے مطابق ہوا، ابن النقیب علیہ الرحمہ ان دونوں منصبوں پر فائض ہوئے جن مناصب سے علامہ نووی علیہ الرحمہ نے آپ کو مخاطب کیا تھا۔
علمی مقام اور عبادت کی کثرت: شیخ الادب علامہ ابو عبد اللہ بن محمد ظہیر اربلی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’علامہ نووی علیہ الرحمہ کو علم، فقہ ، حدیث، لغت، اور تعبیرات و عبارات کے استعمال کرنے میں جو مقام و مہارت حاصل تھی وہ مقام علامہ ابن الصلاح علیہ الرحمہ کو بھی حاصل نہ ہوسکا تھا‘‘۔
ایک مرتبہ’ الوسیط‘ سے کسی عبارت کے نقل کرنے میں آپ سے کسی شخص نے بحث کرلی، آپ نے فرمایا: تم مجھ سے ’الوسیط‘ کے بارے میں بحث و مباحثہ کر رہے ہو؟!میں اس کتاب کو چار سو مرتبہ مطالعہ کر چکا ہوں!آپ کے مطالعہ میں اتنی وسعت ہونے کے باوجود آپ جدل و جدال ، بحث و مباحثہ میں مبالغہ آرائی قطعا پسند نہیں فرماتے تھے، اگر کوئی جدال کرتا تو آپ کو اس سے اذیت پہونچتی تھی جس کی وجہ سے آپ ایسے شخص سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔
ایک عالم باعمل، دین و سنیت کا درد رکھنے والے کو لازمی طور سے ایسے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہئے تاکہ وقت کسی اچھے کام میں استعمال ہوسکے۔ (اااازہری)
آپ کی سادگی: آپ کی زندگی بہت سادہ تھی، دراہم و دنانیر کی طرف کبھی توجہ نہ فرمائی، کبھی شہرت اور چرچہ میں آنے کی خواہش نہ کی ، مگر آج کل کے علما إلا ماشاء اللہ جدھر دیکھو ادھر پیسے کی ہوس، اور شہرت کے طلب گار نظر آتے ہیں، یقینا رزق حاصل کرنا بھی ضروری ہے ،مگرطلب رزق اور شہرت کے چکر میںآکر، قصداً نماز قضا کردینا، دوسرں کا حق مارلینا، فحش کلامی کرنا، جھوٹ بولنا اور یہ کہنا تجارت میں اتنا چلتا ہے، کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے، علامہ نووی علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ ایسے علما،طلبہ اور عوام کے لیے عبرت ہے، اگر ان کی طرح صبر و تحمل نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایک عالم اور طالب علم کے اندر اتنا ضرور ہونا چاہئے کہ واجبات و فرائض کو نہ چھوڑے، اور حرام کا ارتکاب نہ کرے۔ اازہری۔
            قارئین کرام آئیں، علامہ نووی علیہ الرحمہ کی سادگی ملاحظہ کرتے ہیں،قاـضی صفد عثمانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
آپ نے ’دارالحدیث‘ کے مشایخ کی سرپرستی قبول تو کرلی،ؤ مگر کبھی اس کی جانب سے تنخواہ نہ لی، اسی طرح آپ کسی شخص سے کوئی چیز نہیں لیتے جب تک کہ اس کی دینداری کے بارے میں معلوم نہ ہوجاتا، اور یہ یقین نہ ہوجاتا کہ یہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں جو آپ سے علم دین حاصل کرتا ہے،اس خوف سے کہ کہیں’ إھداء القوس‘ والی حدیث کے زمرے میں نہ آجائیں، یہ حدیث عطیہ بن قیس کلابی سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو قرآن شریف پڑھایا، آپ یمن آئے تو اس شخص نے آپ کو ایک کمان ہدیہ کے طور پر پیش کی، آپ نے اس کا ذکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ((اگر تم نے اس کو قبول کرلیا تو گویا کہ اس کے بدلے میں آگ ایک کمان قبول کی))اللہ اللہ یہ تقوی اور پرہیز گاری ، اللہ تعالی ہم سب کو اپنے بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین۔
علم و عمل سے انتہائی درجہ کا شغف اور علم دوستی کے جنون کی وجہ سے آپ نے شادی نہ کی؛کیوں کہ شادی بہت ساری ذمہ داریاں لے کر آتی ہے،جس کی وجہ سے ایک علم دوست شخص اپنی اس دوستی کا کماحقہ لطف نہیں اٹھا سکتا۔
حکام وقت کو نصیحت: آپ اپنے زمانہ میں علم و عمل اور دین میں تصلب کی بنیاد پر حق گو، اور بے باک شخص تھے، حق بولنے میں کسی لومت  لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے،اگر بادشاہوں سے رو برو ہونے کا موقع میسر نہ آتا، تو آپ انہیں خطوط لکھ کر نصیحت کیا کرتے تھے،چنانچہ آپ نے مولی حسن ملک الامرا بدر الدین کو خط لکھ کر نصیحت فرمائی، خط کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں،اس لیے ذکر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے، آپ نے کل ۴۵ یا۴۶ سال کی عمر پائی ، آپ کی وفات  ۶۷۶؁ ہجری میں ہوئی، اللہ تعالی آپ کے مرقد پر رحمت ونور کی بارش فرمائے۔آمین ۔
آپ کی حیات طیبہ کی معرفت کے لیے مراجع: علامہ علاء الدین ابو الحسن علی بن ابرہیم بن داؤد دمشقی علیہ الرحمہ نے ’مختصر النووی‘ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی،امام المالکیہ امام ربانی کمال الدین علیہ الرحمہ کے ذریعہ بھی’ بغیۃ الراوی فی ترجمۃ النووی‘ کے نام سے کتاب معرض وجود میں آئی،اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی آپ کی حیات طیبہ پر مختلب گوشوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
آپ کی حیات مبارکہ کے یہ چند گوشے میں نے علامہ محدث شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی علیہ الرحمہ کی کتاب ’المنھل العذب الروی فی ترجمۃ قطب الأولیاء النووی‘ سے اختصار اور تھوڑے سے تصرف کے ساتھ بیان کی ہے۔

ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
 فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
(یہ مضمون دلیل القارئین شرح ریاض الصالحین کے مقدمہ میں بھی موجود ہے)

1 comment:

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts