Friday, February 5, 2021

دور حاضر میں دار الإفتاء کی اہمیت و ضرورت

 مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما

اسلام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کے ماننے والے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں، اس کے لیے اس نے اپنے ماننے والوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک نظام دیا کہ اگر تم اس کے مطابق زندگی گزاروگے؛ تو تمہیں دنیا کا وافر حصہ بھی ملے گا اور آخرت میں بھی جنت جیسی عظیمت نعمت دے کر تمھیں سربلندیاں عطا کی جائیں گی، لیکن اگر اس نظام کے خلاف گئے؛ تو دنیا بھی ہاتھ سے جائے گی اور آخرت میں بھی انجام بہتر نہیں ہوگا، نظام اسلام کے خلاف جانے میں کبھی ہوسکتا ہے کہ دنیا بظاہر بہتر ہوجائے مگر آخرت میں اپنی بے راہ روی کا نقصان ضرور اٹھانا پڑے گا؛ اس لیے ہماری تگ و دَو  سب سے پہلے اسی جہت سے ہونی چاہیے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ نظام اسلام کے مطابق چلیں اور اس سے دور و نفور ہونے سے بچیں اور اس کے بعد دوسری ضروریات زندگی کی طرف بھی متوجہ ہوں تاکہ دین و دنیا سے مزین ہوکر قوم کی سچی و پکی رہنمائی کرسکیں؛ جس کی وجہ سے قوم مسلم اپنے اندر سر اٹھاکر جینے کی صلاحیت کو محسوس کرسکےاور پھر اس کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔

            نظام اسلام کے مطابق قوم کو چلانے کا سب سے بہترین ذریعہ مساجد و مدارس اسلامیہ ہی ہیں، اگرچہ دور حاضر میں بعض کمیوں کی وجہ سے اصحاب مساجد و مدارس کماحقہ نظامِ اسلام کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں، لیکن اگر آج بھی حالات حاضرہ کے مطابق مساجد کو عبادت کے ساتھ ساتھ، بہترین تبلیغ کا ذریعہ بنادیا جائے اور مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم کے ساتھ اس کو عصر حاضر کی تعلیم سے جوڑ دیا جائے؛ تو ضرور یہ اپنی عظمت رفتہ کو اپنے دامن میں جلد ہی سمیٹ لیں گے اور دین و دنیا کے ہر میدان میں اپنی قوم کی بہترین رہنمائی کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور اپنی قوم کو ہر میدان میں وہ بلند مقام و مرتبہ دلائیں گے جو عام طور سے دور حاضر کے ارباب حل و عقد کی نظروں سے اوجھل ہے۔

            لوگوں کو نظام اسلام کے مطابق چلنے کی طرف رغبت دلانے میں سب سے بڑا کردار مدارس اسلامیہ کی ایک بہت ہی اہم کڑی دار الإفتاء و القضاء کا ہے، اس کی اہمیت کل بھی تھی، آج بھی ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گی، اگر ہر ضلع میں منظم طریقے پر اس کی جانب پیش رفت کی جائے، لائق و فائق و جہاں دیدہ مفتی ہی کو اس کی ذمہ داری دی جائے؛ تو ان شاء اللہ اس کا نتیجہ کم از کم علاقے والوں کے لیے بہت عمدہ ثابت ہوگا، لیکن اسی صورت میں جب ہم اخلاص کے ساتھ اس اہم کام کے لیے بھر پور کوشش و محنت کریں، مگر قوم مسلم کی عجیب و غریب حالت ہے کہ وہ ہر معاملہ میں تقریبا سنجیدہ نظر آتی ہے مگر جب دین اسلام اور دار الإفتاء وغیرہ کی بات آتی ہے؛ تو اِدھر  اُدھر سے کام چلانے کی بات سوچتی ہے،  قوم مسلم کا یہ رویہ  بالکل غلط ہے، جس طرح قوم مسلم دیگر معاملات میں سنجیدہ ہے، اسی طرح اسے اپنے دین و اسلام اور دار الإفتاء وغیرہ کے بارے میں بھی سنجیدگی دکھانی  ہوگی؛ کیوں کہ یہی چیزیں قوم کی دین و سنیت کے بارے میں صحیح رہنمائی کرنے والے ہیں۔

کیا ہم نہیں دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے اسلام مخالف بل پاس کرکے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دے دیا، اس سے اور اس جیسے دیگر اسلام مخالف فیصلوں سے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حکومت مسلمانوں کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی چاہتی ہے کہ یہ لوگ اسلام و سنت کے مطابق زندگی گزاریں، اگر ہم خود اسلام و سنیت اور دار الإفتاء وغیرہ سے متعلق سنجیدہ نہیں ہوئے؛ تو حکومت کا یہ رویہ اور مدارس اسلامیہ اور دار الإفتاء وغیرہ سے ہماری بے اعتنائی، ایک دن ہمیں لے ڈوبے گی؛ اس لیے ڈوبنے سے پہلے جاگنا ہوگا، تباہ ہونے سے پہلے  ہوش میں آنا ہوگا؛ تاکہ ہماری قوم مسلم کو کسی کی تباہ کاری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اگر کرنا پڑ گیا؛ تو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھے۔

لہذا مسلمانوں کو چاہیے محض جذبات والے نہیں بلکہ ہوش و خرد والے مخلص علما و مفتیان کرام کو لے کر ہر ضلع میں معیاری دار الإفتاء کا قیام کریں، مگر قیام کرکے چھوڑ نہ دیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے ذرائع پیدا کریں؛ تاکہ خواہی نہ خواہی لوگ دار الإفتاء کی طرف رجوع کرکے اپنے مسائل شریعت کی روشنی میں باآسانی حل کرلیں اور انہیں کورٹ و کچہری کے چکر میں دَر دَر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑے، کیا ہمیں اور آپ کو نہیں معلوم کہ کورٹ و کچہری کے چکر میں نہ جانے کتنی چپلیں اور جوتیاں گھِس جاتی ہیں مگر معاملہ حل نہیں ہوتا؟! کیا ہمیں نہیں معلوم کہ گھوس و پہچان کی بنیاد پر حق کو ناحق ثابت کردیا جاتا ہے؟! کیا ہمیں نہیں معلوم کہ مقدمات کے چکر میں نسلیں گزر جاتی ہیں مگر فیصلہ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے؟! لیکن ہم آپ کو بتائیں کہ اگر ہم نے اپنے دار الإفتاء کی طرف قوم مسلم کو موڑ دیا؛ تو قوم مسلم، اسلام مخالف فیصلوں پر عمل کرنے سے محفوظ ہوجائے گی،  اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کا رخ دکھا دیا؛ تو قوم مسلم دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے گی، اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کا راستہ دکھا دیا؛ تو قوم مسلم چپلیں اور جوتیاں گھِس گھس کر نڈھال ہونے سے مامون جائے گی، اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کی حقیقی خدمات سامنے رکھ دی؛ تو قوم مسلم لوٹ کھسوٹ سے بچ جائے گی، اگر ہم نے قوم مسلم کو دار الإفتاء کی صحیح پہچان کرادی؛ تو قوم مسلم کے لوگ نسل در نسل پانی کی طرح روپئے بہانے سے بچ جائیں گے۔

میں آپ کو اس کی ایک جیتی جاگتی مثال پیش کرتا ہوں؛ تاکہ آپ پر دار الإفتاء کی اہمیت اور اس کے فوائد بالکل آشکار ہوجائیں، بنگلور بھارت کا بہت بڑا و مشہور و معروف شہر ہے، یہاں کے قاضی محب گرامی وقار حضرت مولانا مفتی محمد اسلم مصباحی صاحب قبلہ زید مجدہ ہیں، آپ کے دار الإفتاء میں لوگ جوق در جوق اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے آتے ہیں، شریعت اسلامیہ کی روشنی میں چند گھنٹوں یا چند دنوں کے درمیان ان کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور وہ خوشی کے ساتھ مطمئن ہوکر زندگی گزارنے کے لائق ہوجاتے ہیں، وجہ یہ ہے کی دین و شریعت بھی ہاتھ سے نہیں جاتی، روپئے بھی خرچ نہیں ہوتے اور حیرانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا، آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ وہ معاملات جو مہینوں، سالوں، کورٹ کچہری میں چلتے رہتے ہیں، وہ معاملات اس دار الإفتاء میں چند گھنٹوں یا چند دنوں یا چند ہفتوں میں بڑی آسانی سے شریعت اسلامیہ کے دائرے میں حل ہوجاتے ہیں، اب یہ آسانیاں اور سہولتیں کون نہیں چاہتا، یقینا ہر شخص چاہتا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے خود ہم دار الإفتاء کی اہمیت پہچانیں، لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت بیٹھائیں اور لوگوں کو اس کی آسانیاں اور اس کے فوائد بتائیں، ان شاء اللہ ہر دار الإفتاء قوم مسلم کی بہترین خدمات کرتا ہوا نظر آئے گا اور ایسی بے نظیر خدمات پیش کرے گا جس کی قوم مسلم برسوں سے متلاشی ہے۔

            ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ضلع میں دار الإفتاء کی کیا ضرورت ہے، کبھی حاجت محسوس ہوئی؛ تو دوسرے ضلع کے دار الإفتاء سے رجوع کرلیں گے، ٹھیک ہے، ایسا ہوسکتا ہے مگر یہ  اطمینان بخش سوچ نہیں ہے؛ کیوں کہ دار الإفتاء کی ضرورت صرف کبھی نہیں بلکہ ہمیشہ ہے اور دوسرے ضلع کے مفتی کے ذریعے ہمیشہ یہ کام ہونا ممکن نہیں، نیز آپ سوال بھیجیں گے، پھر جواب آئے گا، جواب آنے میں ہفتہ، مہینہ بلکہ کبھی مہینوں تاخیر ہوسکتی ہے؛ جس کی وجہ سے مقصود فوت ہوسکتا ہے، نیز دور حاضر میں خط بھیج کر جواب حاصل کرنا، ایک بھاری کام محسوس ہوتا ہے؛ جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ دار الإفتاء کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں اور مزید یہ کہ تحریر کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا آمنے سامنے کا لوگ اثر قبول کرتے ہیں، مزید یہ کہ اس میں فیصلہ لینے میں آسانی ہوتی ہے؛ اسی لیے بھارت کا کورٹ بھی اس لیٹر سسٹم پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ اسلامی نظام بھی یہی ہے کہ لوگ قاضی کے پاس حاضر ہوں، پھر فیصلہ کیا جائے، مگر بھارت میں عام طور سے مسلمانوں کے حالات اتھل پتھل رہے؛ جس کی بنیاد پر اس کا کوئی خاص نظام نہیں بن سکا اور تھوڑا بہت بنا بھی؛ تو پورے طور سے منظم نہیں ہوسکا؛ اس لیے آج کے دور میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ منظم طور پر ہر ضلع میں دار الإفتاء و القضاء قائم کیا جائے تاکہ لوگ مفتی یا قاضی اسلام کے پاس جاکر اپنے دینی و دنیوی، ہر مسائل کو بسہولت حل کریں، عام طور سے دور دراز خط بھیجنے کی ضرورت محسوس نہ ہو، آمنے سامنے بات ہو تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور ساتھ ہی مقصود اصلی حاصل ہو کہ لوگ شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت، دونوں بہتر بنائیں، دور دراز سے مسائل حل کرنے میں اگر مگر وغیرہ کا بھی بہت زیادہ سہارا لینا پڑتا ہے؛ جس کی وجہ سے بعض دفعہ مسائل حل ہونے کے بجائے مزید لاینحل ہوجاتے ہیں؛ اس لیے اگر اپنے ضلع میں دار الإفتاء ہوگا؛ تو متحرک و فعال ہونے کی صورت میں اگر مگر کی ضرورت نہیں پڑے گی؛ کیوں دونوں فریق آمنے سامنے ہوں گے، دونوں فریق کی بات سن کر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں فیصلہ سنا دیا جائے گا اور کہیں لوگ کسی وجہ سے نہ آسکیں؛ تو قاضی یا مفتی کے لیے اپنے ضلع میں ایسے لوگوں کے پاس جاکر فیصلہ کرنے اور مسئلہ حل کرنے میں کوئی خاص دقت محسوس نہیں ہوگی، ہاں اگر کوئی ایسا مسئلہ ہے کہ وہ ضلع کے مفتی یا قاضی سے حل نہیں ہوتا؛ تو اب ضرور اپنے سے بڑے دار الإفتاء جیسے منظر اسلام، بریلی شریف، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور اور مرکز تربیت افتا، اوجھاگنج کی طرف ضرور رجوع کرنا چاہیے تاکہ مسئلے کی پیچیدگی مزید نہ بڑھنے پائے اور اپنے سے بڑے کی طرف وقتا فوقتا، ضرورت پڑنے پر رجوع کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ہر سسٹم کا یہ طریقہ کار ہے کہ چھوٹا، بڑے کی طرف رجوع کرتا ہے۔

            بہر حال منظم طریقے سے  دار الإفتاء و القضاء  کا وجود کبھی مضر نہیں تھا، نہ مضر ہے اور نہ ہی کبھی مضر رہے گا، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح طریقے سے اس کی خدمات حاصل کی جائیں، اس کی خدمات کے لیے قابل قدر اور دین و سنیت کا درد رکھنے والے مفتی رکھے جائیں  اور لوگوں کے دلوں میں اس کی ضرورت و حاجت جاگزیں کردی جائے، ان شاء اللہ کامیابی اپنا مقدر ہوگی، اللہ تعالی ہم سب کو دین و سنیت کا درد عطا کرے، حالات کے مطابق شریعت اسلامیہ کے دائرہ میں رہ کر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا کے لیے دین و سنیت کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی مصباحی ازہری غفرلہ

خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ و بانی فلاح ملت ٹرسٹ

 اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا، ۱۰؍ جمادی الآخرۃ ۱۴۴۲ھ

No comments:

Post a Comment

Featured Post

  مبسملا و حامدا و مصلیا و مسلما             یار غار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات محتاج تعارف نہیں، حضور ...

Popular Posts