تقدیم
أحمد اللہ
علی نعمہ بجمیع محامدہ، و أثني علیہ بآلائہ فی بادیٔ الأمر و عائدہ، و أشکرہ
علی منحہ نعمۃ الأم و الأب و توصیتہ بہما قائلا:{وَ وَصَّیْنَا الِانْسَانَ
بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ
أَنِ اشْکُرْ لِی وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ} و أشہد أن لا الہ إلا
اللہ و أن محمدا عبد ہ و رسولہ القائل : ((من أحبّ أن یُمَدَّ لہ فی عُمْرہ و
أن یُزاد لہ فی رزقہ فلْیَبَرَّ والدیہِ و لْیَصِل رَحِمَہ)) و أصلي و أسلم علی
رسولہ سید الخلق، وہادي سبیل الحق و ماہدہ و علی آلہ و أصحابہ أجمعین۔
أما بعد:
اللہ رب العزت کا
لاکھ لاکھ شکر و احسان کہ اس نے ہمیں انسان بنایا اور {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا
بَنِي آدَمَ}
کا تاج پہنایا، مزید وجہ تخلیق کائنات امام الانبیا خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا امتی بناکر احسان عظیم فرمایا، اور اپنے پیارے محبوب کی اتباع
کو اپنی رضاکا سبب بتاکر ارشاد فرمایا:{لَقَدْ کان لَکُم فِی رَسُولِ اللہِ
اُسْــوَۃ حَسَنَۃ} لہٰذا زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عبادات کا ہو یا معاملات کانبی
کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہمارے لئے نمونہ حیات و ضابطہ حیات ہے،
قرآن کریم نے {اِنَّکَ
لَعَلی خُلْق عَظِیم} فرماکر آپ کی ذات مقدسہ کے کامل و اکمل ہونے پر مہر ثبت فرمادی،
صاحب خلق عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ نہ چھوڑا، انہیں
گوشوں میںایک گوشہ عام صلہ رحمی کا بھی ہے،مگر افسوس کہ آج کے دور میں صلہ رحمی کیا
چیزہے مسلمان اپنی کوتاہی کی وجہ سے بھول چکا ہے ،رشتہ داروں کے کیا حقوق ہیں وہ اس
سے چشم پوشی کرنے لگا ہے، حالانکہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کافر مان
عالی شان ہے،اگر تم سے کوئی رشتہ توڑے تو تم اس سے رشتہ جوڑو،کیونکہ کمال اسی میں ہے،
ورنہ جوڑنے والے کو توکوئی بھی جوڑتا نظر آتا ہے، کوئی تو ہو جو توڑنے والے کو جوڑے
،یہ چیز ہمارے درمیان معدوم ہو چکی ہے، افسوس اس وقت اور زیادہ ہوتا ہے جب علما اور
طلبہ اس بلا میں گرفتار نظر آتے ہیں اور بغیر کسی شرعی وجہ کے اپنے لوگوں سے ناتاتوڑلیا
کرتے ہیں۔
اسی طرح صلہ رحمی کا ایک خاص گوشہ ماں کے ساتھ حسن
سلوک کرنے کا بھی ہے،وہ ماں جس کے شکم مبارک سے پوری کائنات عالم وجود میں آئی ،وہ
ماں جس کی دریادلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے ایک کھجوردی جاتی ہے،توآدھا آدھا
تقسیم کرکے اپنی بیٹوںکو دیدیا کرتی ہے ،وہ ماںجو اپنے سپوتوں کو اپنے شکم میں مہینوں
محفوظ رکھتی ہے، جس کے لئے اسے پل پل دردوالم کا احساس ہوتا ہے،مگر جب وہ سپوت عالم
وجودمیں آتا ہے، تو وہ ماں اسے زدوکوب کرنے کے بجائے بوسہ لیتی ہوئی نظرآتی ہے، بچپن
سے لے کر ہوش وہو اس آنے تک اس کے تمام نازو نخرے برداشت کرتی ہے، بلکہ اپنی پوری
حیات اپنے سپوتوںپرنچھاور کر نے کے لئے تیار رہتی ہے، یہ ماں کی ممتا ہے جس کے ممتاکی
کوئی مثال نہیں، اور یہی وہ ماں ہے جس کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
((جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے))(سنن النسائی)آپ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی رضائی ماں دائی حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں
عجز و انکساری اور ادب و تواضع کا پیکر عظیم بن کر ماں کی عزت و عظمت دنیا کو دکھائی،
اور امت کو صلہ رحمی کا بے مثال عملی نمونہ پیش کیا۔
مگر زمانہ کی ستم
ظریفی کہیے کہ بعض سپوت بلکہ دور حاضر کے اکثر سپوت اس کا صلہ عجیب و غریب دیتے ہیں
،جو ان ہوتے ہی ماں کی ممتابھولتے نظر آتے ہیں ، اور سپوت کی زوجہ محترمہ کا جب ورود
مسعود ہوتا ہے تو سپوت کو بیوی ہی کے سارے حقوق نظر آتے ہیں ،اور ماں کے سارے حقوق
پس پشت ڈالتا ہو ادکھائی دیتا ہے ، حالا نکہ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ سارے لوگوں کے
حقوق پر ماں کے حقوق مقدم ہیں ،حدیث شریف میں ہے:
حضرت ابو رمثہ رضی
اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں:میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریب
ہوا تو آپ کو فرماتے ہوئے سنا:(( ماں، باپ، بہن اور بھائی کے ساتھ بھلائی کرو، پھر
جو سب سے قریب ہو اس کے ساتھ بھلائی کرو)) (المستدرک)
آج کی اولاد اپنی
ماں کی برائی کرکے ان کو تکلیف یہو نچانے کا باعث بنتا ہے، بلکہ کبھی کھبی ایسا ہو
تا ہے کہ ایذارسانی کے ہر حربے استعمال کر تا ہوا نظرآتا ہے ، حالانکہ اللہ جل شانہ
ارشاد فرماتا ہے : {وقَضَی رَبُّک أَ لَّا تَعْبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ و
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَا
اَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا اُفٍّ وَلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَھُمَا
قَوْلًا کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ
ارَّبِّ رْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً} (سورئہ بنی اسرائیل:۱۷؍۲۳-۲۴)
ترجمہ:((اور تمہارے
رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر
تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور
انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا، اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا نرم
دلی سے، اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے
چھٹپن میں پالا)) (کنزالایمان)
اگر ماں کی کوئی
بات اولاد کے مزاج کے خلاف آجائے، اگر چہ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو، اولاد بھڑک
اٹھتی ہے،اور پھر اس کے مداوا کی بھی زحمت نہیں کرتی ، حالانکہ حضور نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم ایک صحابی کو جو ماں کورلاکرجہاد میں شریک ہونے آئے تھے ، انہیں
واپسی کا حکم دیتے ہیں، تاکہ ان کی ماں خند یدہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم فرماتے ہیں:
((تم فورا اپنے والدین
کے پاس جائو، جیسے تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ))(شعب الایمان)
سپوت اپنی بیوی کو
مہینہ میں ہزار وں روپئے دینے میں تامل نہیں کرتا، لیکن اگر اپنی ماں
کو
مہینہ میں چند سودینے کی بات آجائے تواس کا حساب لگانے لگتا ہے، سوچتا ہے ماں روپئے
لے کرکیا کریں گی ، پتہ نہیں کہاں خرچ کر دیں گی ، حالانکہ حضور نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( تمہاری اولاد
اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے ہبہ ہیں، اللہ تعالیٰ جسے چاہے لڑکی اور لڑکا عطا
کرے، وہ اور ان کا مال جب تمہیں اس کی ضرورت ہو تمہارے لئے ہے))(المستدرک)
اولاد کو سوچنا چاہئے
اگر ماں یہ سوچنے لگے کہ کل میرا بیٹا میرے ساتھ پتہ نہیں کیا سلوک کرے گا،اور اس سوچ
کا اثر بھی دکھائے تو شاید بلکہ یقینا کبھی اولادکا اس دنیا میں وجود نہ ہوسکے گا۔
ماں کے ساتھ اس طرح
سے پیش آنا، ان کی نافرمانی کرنا ہے، اس میں ان کی دل آزاری ہے جو ناجائز وحرام ہے،
ایسے شخص کے بارے میں آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((وہ شخص
ملعون ہے جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی )) (المعجم الاوسط)
سپوتو! آنکھیں کھولو
دنیا داری سے باہر آجاؤ، بیوی کے پلو سے چپک کر چلنا چھوڑدو،صرف غیروں کے دماغ سے
ایسے برتاؤ ماں کے ساتھ پیش مت کرو ،بلکہ اپنے ذہن وفکر کو جھنجھوڑو اور سوچنے کی
کوشش کرو، تمہاری ماؤں کے تم پر کیا حقوق ہیں، ماں کے تم پر بہت قربانیاں ہیں، اگر
خدائے تعالیٰ چاہتا تو تمہیں حکم کرتا: تم ان کی قربانیوں کے بدلے ان کے حقوق ادا کرو،
اور اس کے بدلے میں تمہیں کچھ نہیں ملتا، مگر خدائے تعالیٰ بندوں پر بہت مہربان کرم
والا ہے، بندو آؤ آؤ ماں کے قدموں سے لپٹ جاؤ تمہیں ہمیشہ ہمیش کیلئے جنت ملے
گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سماعت فرمائیں
، حدیث شریف میں ہے:
حضرت معاویہ بن جاہمہ
سلمی رضی اللہ عنہما سے مروی، آپ کے والد جاہمہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوئے اور عرض کیا:میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑائی کرنا
چاہتا ہوں، اس سلسلہ میں مشورہ کی غرض سے آپ کی بارگا میں حاضر ہوا،آپ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم نے فرمایا:
((کیا تمہاری ماں
زندہ ہیں؟)) اس شخص نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:((خلوص
کے ساتھ انہیں کی خدمت کرتے رہو، ان کے قدموں کے نیچے ہی تمہاری جنت ہے)) (سنن النسائی)
یقیناماں کی کتنی
بھی خدمت کی جائے کم ہے، ان کا حق کسی بھی صورت میں ادا نہیں کیا جاسکتا، ماں کا رتبہ
بہت ہی بلند وبالا اور بیان سے برترہے،اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ جل شانہ آپ
کے محترم ہونے کا فیصلہ سناتا ہے، ایسا کیوں نہ ہو جب کہ حضونبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم ماں کی خدمت کے ثمرات اور فوائد بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر ماں جیسی
عظمی شخصیت کو بھی چاہئے کہ اپنے بچوں پر رحم وکرم کے پھول برسائے، اور انہیں ان چیز
کا حکم دے جسے وہ آسانی سے بجا لائیں،اور اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح سے اولاد ان
کی نافرمانی کے شکار نہ ہوں،جس کی وجہ سے ان کی عافیت خطرے میں پڑجائے، بلکہ ماں کو
اپنے بچوں کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے،کیونکہ کوئی ماں اپنے اولاد کی
عاقبت خراب ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی،اس لئے اولاد کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ ماں
ان کی وسعت کے مطابق ہی ان کی خدمت کی طلبگار رہے۔
یاد رہے ماں کے حقوق
وہیں تک ہیں جہاں تک شریعت کی خلاف ورزی لازم نہ آئے، کیوں کہ شریعت کی خلاف ورزی
کی صورت میں ماں کا حکم قابل قبول نہ ہوگا،اگر کوئی ماں شریعت کے خلاف کرنے کا حکم
دیتی ہے، تو ان کی اولاد پر واجب ہے کہ انہیں جھٹرکنے بجائے نرمی سے سمجھائیں،اور انہیں
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنائیں ، آپ فرماتے ہیں :
(( اللہ کی معصیت
میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)) (مسند احمد بن حنبل) اور شرعی حکم اللہ تعالیٰ ہی کا
حکم ہے اس لئے اس کی مخالفت میں ماں کا حکم بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
حالات زمانہ نے مجھے
کچھ بتایا اور کچھ سکھایاجس کی وجہ سے ماں کے تعلق سے یہ چالیس احادیث کامجموعہ آپ
کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، اللہ تعالیٰ میری اس پہلی ادنی سی کاوش کو قبول فرمائے،
آمین۔
قارئین کرام سے گزارش
ہے کہ اس مجموعہ احادیث کو پڑھتے وقت اللہ جل شانہ کو سمیع و بصیر مان کرصدق دل سے
سوچیں، کیا وہ اپنی ماں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ملتا ہے تو یقینا
آپ کا چہرہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارتوں سے کھل اٹھے گا،اور ان شاء
اللہ تعالیٰ آپ ان بشارتوں کے حصول میں مزید کوشاں ہوجائیں گے، اور اگر جواب نہیں
میں ملتا ہے تو آپ سے امید ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان
عالی شان سے عبرت حاصل کریں گے، اور تائب ہوکر اپنی ماں کے حقوق ادا کرنے میں مشغول
ہوکر دنیا وآخرت سنوارنے میں لگ جائیں گے۔
خوش نصیب ہیں وہ
لوگ جن کے پاس ماں ہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مجھے اور تمام مسلمانوں
کو حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ طفیل میں ماں کے حقوق کو صحیح
طریقہ سے ادا کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
شکر و تقدیر
سب سے پہلے میں اپنے
برادر بزرگوارکرم فرماں حضرت مولانا انوار احمد امجدی قادری دام ظلہ سربراہ اعلی مدرسہ
امجدیہ اہل سنت ارشد العلوم اوجھا گنج بستی کا بے حد شاکر و ممنون ہوں جنہوں نے میرے
تعلیمی سفر کی تکمیل میں ایک اہم رہبر کی حیثیت سے مکمل سرپرستی فرمائی،اور میں اپنے
برادر محترم حضرت مولانا ابرار احمد امجدی مدظلہ مفتی وناظم مدرسہ امجدیہ اہل سنت ارشدالعلوم
کا بھی شگرگزار ہوں کہ جن کی کرم نوازی میرے تعلیمی سفر میں ہر جگہ ساتھ رہی، اللہ
ان سب کو اجر جزیل عطا فرمائے، آمین۔
نیز میں اپنے مشفق،
کرم نواز، استاذ محترم، محقق مسائل جدیدہ، سراج الفقہا، مفتی محمد نظام الدین رضوی
مصباحی مد ظلہ العالی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارکپور کا دل کی اتھاہ گہرائیوں
سے شکر ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری اس کوشش کو سراہا، اور اپنی مبارک تقریظ لکھ کر
اس کتاب کی اہمیت و افادیت کو دوبالا کردیا، اور بڑی تنگ نظری ہوگی اگرمیں نبیرئہ فقیہ
ملت مفتی رضاء المصطفی برکاتی مصباحی سلمہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہ کروں، جنہوں
نے اس پورے کتابچہ کو محقق مسائل جدیدہ دام ظلہ العالی کو پڑھ کرسنایا، محقق مسائل
جدیدہ مد ظلہ العالی نے سماعت کے درمیان بعض اصلاحات فرمائی جس کی وجہ سے احادیث کے
ترجمہ میں مزید نکھار پیدا ہوگیا، نیز مکرمی ومحبی مولانا زبیر حسین نظامی مصباحی
ازہری کے والد ماجد محمد حسین نظامی حفظہما اللہ تعالیٰ قابل صدر ستائش ہیں جنہوں نے
مالی تعاون پیش کرکے اس کتابچہ کو منظر عام پر لانے کی اہم ذمہ داری نبھائی ، رب قدیر
اس پر خلوص عمل کے بدلے ان کو دارین میں سرخ روئی عطا فرمائے ، نیز اللہ رب العزت سے
دُعا ہے کہ مزید انہیں اور دیگر اہل ثروت حضرات کو اسی طرح دینی کتابوں کی نشرواشاعت
، جو دور حاضر کا اہم ترین تقاضا ہے۔ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق رفیق عطا فرمائے،
آمین۔
اخیراً اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے تمام مخلصین و محبین کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر،
اور دین متین کی اخلاص کے ساتھ زیادہ سے خدمت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے، اور آپسی
ذاتی اختلافات سے محفوظ رکھے، نیز اس کتابچہ کو عامۃ المسلین کے درمیان درجہ قبولیت
عطا فرماکر اتباع حق کی توفیق دے، نیز میرے اور میرے والدین کریمین، اساتذہ ، بھائی
ان کی زوجہ، بہن ان کے شوہر،اور دیگر اعزا و اقرباکے لئے آخرت میںذریعہ نجات بنائے،
آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے
بانی فقیہ ملت فاؤنڈیشن، خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
موبائل: 00918318177138
ای میل: fmfoundation92@gmail.com
No comments:
Post a Comment